Tag: اداکار انتقال

  • رشی کپور:‌ رومانوی فلموں کا مقبول ہیرو

    رشی کپور:‌ رومانوی فلموں کا مقبول ہیرو

    1973ء میں فلم ’بوبی‘ ریلیز ہوئی تھی جس میں دو نئے اداکار فلم بینوں کے سامنے تھے۔ یہ فلم کے ہیرو رشی کپور اور ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ تھے۔ اس فلم نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ بعد کے برسوں میں رشی کپور کو ان کے رومانوی کرداروں نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    بولی وڈ کے سپراسٹار رشی کپور کی کئی فلمیں کام یاب بھی ہوئیں، اور باکس آفس پر ناکامی بھی ان کا مقدر بنی لیکن رشی کپور شائقین کے دلوں پر راج کرتے رہے۔ رشی کپور کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد 2020ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    بھارتی اداکار رشی کپور نے چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔ وہ 4 ستمبر 1952ء کو ممبئی میں پیدا ہوئے۔ پشاور اُن کا آبائی شہر ہے جہاں آج بھی ڈھکی نعلبندی میں رشی کپور کی خاندانی اور تاریخی حویلی موجود ہے جو 1918ء میں چار سال کے عرصہ میں تعمیر ہوئی تھی۔ رشی کپور کے والد راج کپور اسی حویلی میں پیدا ہوئے تھے جسے اُن کے والد پرتھوی راج کپور نے تعمیر کروایا تھا۔ اداکار رشی کپور نے بھی 1990ء میں پشاور میں اپنی آبائی حویلی میں چند گھنٹے گزارے تھے۔

    ’بوبی‘ وہ فلم تھی جس نے ہندوستان بھر میں‌ رشی کپور کو شہرت دی اور اس فلم کے بعد انھیں انڈسٹری میں کردار آفر ہونے لگے۔ ان کا گھرانا ہندی فلموں میں اپنے فنِ اداکاری کے لیے بڑی پہچان اور مقام رکھتا تھا۔ یہ خاندان پنجابی ہندو کھتری تھا۔

    رشی کپور ایک صاف گو انسان مشہور تھے اور اداکاری کے علاوہ وہ اپنی طبیعت اور مزاج کی وجہ سے بھی لوگوں‌ میں پسند کیے جاتے تھے۔ 2017 میں ان کی آپ بیتی ’کھلم کھلا‘ کے نام سے سامنے آئی تھی اور یہ کتاب بھی میڈیا میں‌ زیر بحث رہی کیوں کہ اس آپ بیتی میں رشی کپور نے اپنی زندگی کے کئی واقعات اور بہت سے معاملات پر واقعی کھل کر لکھا تھا۔ اپنے والد کی رنگین مزاجی کے علاوہ انھوں نے انڈسٹری میں اپنے کیریئر سے متعلق بھی کسی ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے بغیر کچھ واقعات تحریر کیے ہیں۔ رشی کپور نے اپنے اس ایوارڈ کا قصّہ بھی لکھا ہے جو ان کے بقول خریدا گیا تھا اور اس کے لیے انھوں نے 30 ہزار روپے دیے تھے۔

    رشی کپور کی شریکِ‌ حیات نیتو سنگھ تھیں جن کے ساتھ وہ فلموں میں‌ کام کرچکے تھے۔ نیتو سنگھ اپنے زمانے کی مشہور ہیروئن تھیں۔ انھوں نے 1980 میں شادی کی اور ان کا بیٹا رنبیر کپور بھی بولی وڈ اداکار بنا۔ رشی کپور کی ایک بیٹی ردھیما ہیں۔

    رشی کپور نے اپنے ہی فلمی بینر تلے 420 اور میرا نام جوکر جیسی فلموں میں‌ چائلڈ ایکٹر کے طور پر کام کیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب فلمیں تھیں‌، لیکن 1980 اور 1990 کی دہائی میں وہ زیادہ مقبول ہوئے۔ اداکار رشی کپور کی آخری فلم ‘دی باڈی’ تھی۔ اپنی موت سے قبل رشی کپور نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دیپکا پاڈوکون کے ساتھ اپنے نئے فلمی پروجیکٹ کا اعلان کیا تھا جو ہالی وڈ کی ایک فلم کا ہندی ری میک تھی۔

    خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد رشی کپور علاج کی غرض‌ سے امریکا کے شہر نیویارک چلے گئے تھے اور 2019ء میں‌ ایک سال علاج کے بعد بھارت لوٹے تھے۔

    رشی کپور کی چند مشہور فلمیں ‘امر اکبر انتھونی’، ‘لیلیٰ مجنوں’، ‘رفو چکر’، ‘سرگم’، ‘قرض’ اور ‘بول رادھا بول’ ہیں۔

  • اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    ہندوستانی فلمی صنعت میں اشوک کمار کو بہ طور اداکار خوب شہرت ملی، لیکن انھوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کی اور فلم ساز و ہدایت کار کے طور پر کام کیا اشوک کمار کو متعدد فلمی ایوارڈز دیے گئے۔ اشوک کمار 2001ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    بولی وڈ اداکار اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا اور ہر میڈیم کے ناظرین کو اپنی پرفارمنس سے متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ اشوک کمار کا فلمی کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط تھا۔

    فلمی دنیا میں اشوک کے قدم رکھنے اور ایک خوب صورت ہیروئن کے ساتھ اس کی جوڑی مقبول ہونے کا قصہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے یوں بیان کیا ہے: ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

    اشوک کمار کو دو مرتبہ بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ، سنہ 1988ء میں ہندی سنیما کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے اور 1999ء میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔

    اشوک کمار کی پیدائش بہار کے بھاگلپور شہر میں 13 اکتوبر 1911 کو ایک متوسط طبقے کے بنگالی خاندان میں ہوئی تھی۔ اشوک کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم کھندوا شہر سے مکمل کی اور گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور یہیں ان کی دوستی ششادھر مکر جی سے ہوئی جو ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جلد ہی دوستی کا یہ تعلق ایک رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ اشوک کمار کی بہن کی شادی مکر جی سے ہوگئی اور اشوک ان کے سالے بن گئے اور انہی کے طفیل فلم نگری میں وارد ہوئے۔

    اشوک کمار کو فلمی دنیا کا سب سے شرمیلا ہیرو مانا جاتا تھا۔ "اچھوت کنیا، قسمت، چلتی کا نام گاڑی، خوب صورت” اور” کھٹا میٹھا "ان کی کام یاب ترین فلمیں ٹھہریں۔ انھوں نے لگ بھگ 300 فلموں میں کام کیا۔

  • اقبال حسن:‌ وہ ‘ٹرالی مین’ جو پنجابی فلموں کا مقبول اداکار بنا

    اقبال حسن:‌ وہ ‘ٹرالی مین’ جو پنجابی فلموں کا مقبول اداکار بنا

    آج اقبال حسن کی برسی ہے جو 1984ء میں کار کے حادثے میں‌ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ پاکستان میں پنجابی فلموں کے اس مقبول ترین ہیرو کے تذکرے کے ساتھ ہی اسلم پرویز کی جدائی کا زخم بھی تازہ ہو جاتا ہے جو اس کار میں اُن کے ساتھ موجود تھے۔ اقبال حسن نے جائے حادثہ پر ہی دَم توڑ دیا تھا جب کہ اسلم پرویز ایک ہفتے زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے تھے۔ یہ دونوں‌ فن کار فلم جھورا کی عکس بندی کے بعد لاہور میں‌ فیروز پور روڈ سے اپنی کار میں گزر رہے تھے کہ ایک ویگن سے تصادم ہوگیا۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو پنجابی فلموں کے ٹائٹل کردار نبھا کر کئی فن کاروں نے نام پیدا کیا، لیکن جو مقام فلم ’’شیر خان‘‘ کی ریلیز کے بعد اقبال حسن کو ملا، وہ فلمی دنیا میں‌ ایک مثال ہے۔ 1981ء میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ فلم شیر خان کا مرکزی کردار نبھانے کے بعد اقبال حسن ایکشن پنجابی فلموں کے دور میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے بعد تیسرے کام یاب ترین اداکار بن گئے تھے۔ فلم ساز یونس ملک کو زبردست مالی منافع ہوا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اقبال حسن کے سامنے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس رکھ کر کہا، اس میں‌ سے جتنی رقم لینا چاہیں لے سکتے ہیں۔ اقبال حسن نے دونوں‌ ہاتھوں میں‌ جتنے نوٹ سمائے اس بریف کیس سے نکالے اور کہا بس یہی دولت میرے نصیب کی تھی۔ یوں‌ باقی رقم یونس ملک واپس لے گئے۔ یہ واقعہ اقبال حسن کی اعلیٰ‌ ظرفی اور یونس ملک کی دریا دلی کی مثال ہے۔

    فلم انڈسٹری میں اقبال حسن نے اپنے کیریئر کے دوران 285 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور پنجابی فلموں‌ کے شائقین میں ازحد مقبول ہوئے۔ اقبال حسن لاہور میں اندرونِ گیٹ ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ فلم میں کام کرنے کا شوق بھی تھا اور وہ محنتی بھی تھے۔ اقبال حسن کے بھائی بھی فلمی دنیا سے بطور اداکار وابستہ تھے اور انھون نے اقبال حسن کو ایک کیمرہ مین کے اسسٹنٹ کے طور پر کام پر لگا دیا۔ یہ ایک قسم کی محنت مزدوری اور بھاگ دوڑ ہی تھی۔ لیکن انھوں نے کسی طرح فلم میں کام حاصل کر لیا۔ اقبال حسن کے فلمی کیریئر کا آغاز ہدایت کار ریاض احمد کی پنجابی فلم سسّی پنّوں سے ہوا۔ اقبال حسن نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت پنجابی میں‌ بننے والی فلموں کی وجہ سے ہے۔

    اقبال حسن کی مشہور فلموں میں یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، سجن دشمن، مرزا جٹ، شامل ہیں۔

  • پران: وہ ولن جس نے بڑے پردے پر راج کیا

    پران: وہ ولن جس نے بڑے پردے پر راج کیا

    اداکار پران نے ہندی سنیما کو اپنی زندگی کے پورے چھے عشرے دیے۔ 1998ء میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد فلموں سے دور ہوجانے والے پران نے 12 جولائی 2013ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    پران کے بارے میں‌ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بڑے پردے پر راج کیا اور ایک بولی وڈ کے ایسے ولن رہے جن کی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ بھارتی سنیما میں اگر امیتابھ بچن کو ‘ہیرو آف ملینیئم’ کے طور پر جانا گیا تو پران کو ‘ولن آف دی ملینیئم’ کہا جاتا ہے۔ 1969ء اور 1982ء کے دوران وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار رہے ہیں۔ پران نے 350 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    بھارت کے اس مشہور فلمی اداکار کا پورا نام پران کرشن سکند تھا جو پرانی دہلی کے علاقے بلی ماراں میں 12 فروری 1920ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد سول انجینیئر تھے جن کا قیام سرکاری کاموں‌ کی غرض سے مختلف شہروں میں رہا۔ تعلیم کے شعبے میں پران نے بڑی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہ ریاضی کے مضمون میں طاق تھے اور اس مضمون میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی میں بطور پروفیشنل فوٹوگرافر کام کرنے لگے تھے۔ اور پھر ایک اسکرپٹ رائٹر کے کہنے پر فلم نگری میں‌ چلے آئے، لیکن یہ بات تقسیمِ ہند سے قبل کی ہے جہاں لاہور میں پران نے اداکاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے فلمی کیريئر کی ابتدا بہ طور ہیرو کی تھی اور 1940ء میں پہلی مرتبہ ’جٹ یملا‘ میں نظر آئے تھے۔ لیکن ان کی شکل و صورت، چال ڈھال اور انداز ایسا تھا کہ انھیں ہدایت کاروں نے ولن کے روپ میں‌ پردے پر آزمانا زیادہ بہتر سمجھا اور یوں پران نے اس سمت میں اڑان بھری۔ تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو پران بمبئی کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے اور جلد ہی جگہ بنالی، فلم بین واقعی ان کے منفی روپ سے نالاں اور بطور ولن ان کے عزائم اور ارادوں سے متنفر نظر آتے تھے۔ لیکن صفِ اوّل کے ولن پران نے اسی روپ میں‌ مزاحیہ اداکاری بھی اس طرح کی کہ ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان ملی۔

    اداکار پران نے فلم ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر کے علاوہ کئی سپرہٹ فلموں میں ولن کا رول ادا کیا اور امیتابھ بچن اور سپر اسٹار کا درجہ رکھنے والے کئی اداکاروں کے ساتھ کام کرکے اپنا لوہا منوایا۔ انھوں نے ہندی سنیما کی دھوم مچا دینے والی فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں بھی کردار ادا کیے تھے۔ اسی طرح دلیپ کمار کی فلموں دیوداس، مدھومتی، دل دیا درد لیا، رام اور شیام اور آدمی میں بھی بطور ولن پران کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    آواز میں انفرادیت اور مکالمے ادا کرنے کا انداز بھی بطور ولن پران کی اس قدر مقبولیت کی ایک وجہ تھا۔ انھوں نے مار دھاڑ کرنے والے، ایک بدمعاش، قاتل اور چور اچکے کا ہی کردار نہیں نبھایا بلکہ ایک نیک سیرت اور رحم دل انسان کے طور پر بھی ناظرین کے سامنے آئے اور ان مضبوط کرداروں میں پران کی شان دار پرفارمنس نے شائقین کو ان کا مداح بنا دیا۔

    فلم اور شوبزنس انڈسٹری کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی پران کو اعزازات سے نوازا گیا اور فنِ اداکاری میں ان کی بے مثال پرفارمنس کو تسلیم کیا گیا۔ سنہ 1997 میں انھیں لائف ٹائم ایوارڈ دیا گیا اور پھر وہ ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازے گئے۔ اداکار پران نے 1945ء میں شکلا اہلووالیا سے شادی کی تھی اور وہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ تھے۔

  • ” کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!”

    ” کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!”

    راجر مور 1973ء میں بطور جیمز بانڈ پہلی مرتبہ سامنے آئے اور اگلے بارہ سال تک اس سلسلے کی سات فلموں میں یہ مشہورِ زمانہ کردار نبھاتے رہے۔ شائقین کو یاد ہو گا کہ بطور خفیہ ایجنٹ اُن کے چہرے پر ایک خفیف مسکراہٹ رہتی تھی جو ان کے دشمن کو غصّہ دلاتی تھی۔

    برطانوی اداکار راجر مور کی انفرادیت یہ بھی تھی کہ انھوں نے جیمز بانڈ کے روپ میں اپنے مکالمے لطیف انداز اور طنزیہ پیرائے میں ادا کیے، جیمز بانڈ دیوانوں کو یہ بھی یاد ہو گا کہ راجر مور کس طرح اپنے ابرو اٹھا کر مخصوص انداز میں ڈائیلاگ ادا کرتے تھے۔ ان کی یہی ادا جمیز بانڈ کے روپ میں ان کے مداحوں کی تعداد کو بڑھاتی چلی گئی۔

    اپنی حقیقی زندگی میں بھی راجر مور بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ آج راجر مور کی وفات کا دن ہے۔ اس مناسبت سے ہم برطانوی اداکار راجر مور سے متعلق 1983 کا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو ان کے مداحوں کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    راجر مور نیس کے ہوائی اڈے پر اپنی پرواز کا انتظار کر رہا تھا، اچانک ایک سات برس کے بچّے کی نظر اُس پر پڑی اور وہ ’’جیمز بانڈ‘‘ کو دیکھ کر بے حال ہو گیا، وہ اپنے دادا کے ساتھ ہوائی اڈے پر موجود تھا جو بانڈ کو نہیں جانتے تھے۔ بچّے نے دادا سے فرمائش کی کہ اسے جیمز بانڈ سے آٹو گراف لینا ہے، سو دونوں بانڈ کے پاس گئے اور آٹو گراف مانگا۔ راجر مور نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بچّے کے ٹکٹ پر اپنا نام لکھ دیا اور اس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ بچّہ خوشی خوشی وہاں سے اپنی سیٹ پر واپس چلا آیا اور جب اس نے دوبارہ ٹکٹ کو دیکھا تو اس پر جیمز بانڈ کا نام نہیں بلکہ راجر مور لکھا ہوا تھا، اس نے دادا کو کہا کہ بانڈ نے اپنا نام غلط لکھ دیا ہے، وہ ایک مرتبہ پھر ’’جیمز بانڈ‘‘ کے پاس گئے اور بچّے نے غلطی کی نشان دہی کی۔ راجر مور نے بچّے کو اپنے قریب کیا، اور چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اور پھر سرگوشی کی ’’میں نے جان بوجھ کر اپنا نام راجر مور لکھا ہے، کیوں کہ اگر میں صحیح نام لکھ دوں تو شاید بلو فیلڈ (جیمز بانڈ کا روایتی ولن) مجھے ڈھونڈ لے، اس لیے تم نے کسی ذکر نہیں کرنا کہ تم بانڈ کو دیکھا تھا!‘‘

    یہ سن کر بچّے کا چہرہ تمتما اٹھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ بھی جیمز بانڈ کا ساتھی ہے اور اس کی یہاں موجودگی کو راز رکھنا ہے۔ کئی برس بعد وہ بچّہ ایک بڑا لکھاری بن گیا اور اتفاق سے ایک موقع ایسا آیا کہ وہ راجر مور کے ساتھ یونیسف کے ایک پراجیکٹ پر کام کرنے پہنچا، شوٹنگ کے بعد اس لکھاری نے راجر مور کو یاد دلایا کہ کئی سال پہلے کس طرح ایئر پورٹ پر اُن کی ملاقات ہوئی تھی اور جب وہ واقعی اسے جیمز بانڈ سمجھتا تھا۔ راجر مور نے کہا کہ اسے وہ ملاقات یاد نہیں۔ کچھ دیر بعد راجر مور نے اس لکھاری کو پاس بلایا، چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اپنے مخصوص انداز میں ابرو اٹھائے اور سرگوشی کی: ’’مجھے نیس والا واقعہ یاد ہے، اس وقت جب تم نے مجھے وہ ملاقات یاد دلانے کی کوشش کی تھی، کیمرہ مین ہمارے قریب کھڑے تھے اور ان میں سے کوئی بھی بلو فیلڈ کا ساتھی ہو سکتا تھا، اس لیے میں نے بات دبا دی!‘‘

    جیمز بانڈ کے یادگار کردار نبھانے والے برطانوی اداکار راجر مور نے 89 برس کی عمر میں 23 مئی 2017ء کو انتقال کیا۔ وہ اپنی وفات کے وقت سوئٹزر لینڈ میں مقیم تھے۔ راجر مور 14 اکتوبر 1927ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    راجر مور نے سیکرٹ ایجنت جیمز بانڈ کا کردار نبھا کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا اور 45 سال کی عمر میں اس سلسلے کی پہلی فلم ’لیو اینڈ لیٹ ڈائی‘ میں اداکاری کی۔ ہالی وڈ سمیت دنیا بھر میں فلم کے ناقدین نے ان کی اداکاری کو سراہا اور اپنے وقت کے مشہور فن کاروں نے جیمز بانڈ کے روپ میں ان کی تعریف کی۔

    اداکار راجر مور اپنی فلاحی سرگرمیوں اور سماجی کاموں کے لیے بھی مشہور تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے برانڈ ایمبیسیڈر کے طور پر ضرورت مند بچّوں کے لیے امداد جمع کرنے میں انھوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ وہ بچّوں‌ کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اٹھاتے تھے۔

    دنیا بھر کے فلم بینوں میں پذیرائی حاصل کرنے والے راجر مور نے چار شادیاں کی تھیں۔ ان کی پہلی شادی 1946 میں ڈون وان اسٹائن سے ہوئی جب کہ دوسری مرتبہ 1953 میںڈورتھی اسکوائرز کو اپنا جیون ساتھی چنا، تیسری شادی 1969 میں اطالوی اداکارہ لیزا مٹولی سے اور 2002 میں کرسٹینا تولسٹرب ان کی زندگی میں شریکِ حیات بن کر آئی تھیں۔

  • لالہ سدھیر: ‘جنگجو ہیرو’ جس نے دلوں پر راج کیا

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لالہ سدھیر تاریخ کے مشہور جنگجو اور لڑاکا کرداروں کو نبھانے میں اپنے دور کے ہر اداکار سے آگے نکل گئے اور دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔ بلاشبہ انھوں نے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    وہ پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپر اسٹار اور ابتدائی دور کے کام یاب اور مقبول فلمی ہیرو کہلاتے ہیں۔ وہ سب کے لیے لالہ سدھیر تھے اور ہر جگہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔

    لالہ سدھیر نے جنگجو اور ایک لڑاکا کے طور پر اس دور کی فلموں میں جو کردار نبھائے، وہ ان کی خاص شناخت بنے۔ میدانِ جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے لالہ سدھیر کی متأثر کن اداکاری نے انھیں عوام میں ‘جنگجو’ مشہور کردیا تھا۔ آج پاکستانی فلمی صنعت کے اس مقبول ہیرو کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا۔ سنیما نے انھیں سدھیر کا نام دیا اور ہر ایک نے انھیں عزّت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارنا شروع کردیا۔ کہتے ہیں سدھیر ایک نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے اور اپنی اسی عادت اور خوش اخلاقی کی وجہ سے ہر کوئی انھیں پسند کرتا تھا۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔ سن آف اَن داتا، کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔ سدھیر خود پر گیت فلم بند کروانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کا ایکشن فلمی ہیرو کا وہ امیج تھا جو جنگ و جدل کے لیے تو ایک آئیڈیل ہیرو تھا لیکن رومانٹک کرداروں اور گانا گانے والے ہیرو کے لیے موزوں نہیں تھا۔

    سدھیر کو ان کے 30 سالہ شان دار فلمی سفر پر خصوصی نگار ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔ انھوں نے کئی فلمی اعزازات اپنے نام کیے۔

    19 جنوری 1997ء کو لالہ سدھیر اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

  • ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    خواجہ اینڈ سنز میں علی اعجاز کا کردار آج بھی پی ٹی وی کے ناظرین کے ذہنوں‌ میں تازہ ہے اور ان کا پسندیدہ بھی۔ علی اعجاز ڈرامے میں ایک منظر میں اگر نہایت سنجیدہ نظر آتے، تو دوسرے ہی لمحے ظرافت آمیز مکالمے اس خوبی سے ادا کرتے کہ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    فنِ اداکاری میں ان کے چہرے کے تأثرات اور مکالمے کی ادائیگی کا ڈھب مثالی تھا۔ ٹی وی کے ڈراموں میں علی اعجاز نے مختلف کردار نبھائے اور یہ سب منفرد اور یادگار ثابت ہوئے۔ ان کرداروں نے انھیں ایسے فن کار کے طور پر شہرت دی جو کسی بھی عمر کی مختلف شخصیات کے روپ میں، ان کے انداز اور لب و لہجے کو خوبی سے نبھا سکتا ہے اور یہ ان کے فن کی خاص بات تھی۔ اس کی ایک مثال خواجہ اینڈ سنز کا وہ بوڑھا بھی ہے جو ڈرامے میں ابّا جان بنا تھا۔

    18 دسمبر 2018ء کو پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار علی اعجاز لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔ آج علی اعجاز کی برسی ہے۔

    علی اعجاز نے تھیٹر کی دنیا میں 60 کی دہائی میں قدم رکھا جب پاکستان میں لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل میں اسٹیج ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ اس کے چند برس بعد لاہور سے ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں معروف ڈرامہ نگار، ادیب اور شاعر اطہر شاہ خان المعروف جیدی کے سلسلہ وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ میں مرکزی کردار دیا گیا۔ یہ کھیل لائیو پیش کیا جاتا تھا۔ علی اعجاز نے اس کھیل میں‌ جو تکیہ کلام اپنایا ہوا تھا، وہ بہت مقبول ہوا۔

    اسی زمانہ میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کا موقع بھی ملا جہاں انھوں نے چند چھوٹے کردار تو ادا کیے تھے، مگر دبئی چلو وہ فلم تھی جس کے بعد انھیں انڈسٹری میں مزید کام کرنے کی پیشکش ہونے لگی۔ اس سے قبل وہ ٹی وی پر عارف وقار کے پیش کردہ مقبول ترین ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ میں کردار نبھا کر اپنے فن کی داد اور مقبولیت سمیٹ چکے تھے۔ اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی تھی اور یہ 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ علی اعجاز کو شائقینِ سنیما نے مشہور مزاحیہ اداکار ننھا کے ساتھ بھی دیکھا اور ان کی جوڑی مقبول ہوئی۔

    اداکار علی اعجاز 1941ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف ان کے بچپن کے دوست تھے اور انہی کی وجہ سے علی اعجاز کو بھی اداکاری کا شوق ہوا تھا۔ اس دور میں اسٹیج پلے دیکھنے والوں کی بڑی تعداد سے علی اعجاز نے اپنے فنِ‌ اداکاری کی داد پائی جب کہ ٹی وی کے بعد ان کی پہلی فلم ’انسانیت‘ تھی۔ علی اعجاز نے پنجابی اور اردو فلموں میں‌ کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    12 دسمبر 2007ء کو پاکستان کی سلور اسکرین کے مشہور ولن الیاس کاشمیری نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب اداکار تھے جنھیں پنجابی فلموں میں ان کے کرداروں کی بدولت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔

    فلم نگری سے دور ہو جانے کے بعد مدّت ہوئی الیاس کاشمیری گھر تک محدود ہوگئے تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے بھی محروم ہوگئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھیں اپنی ماضی کی زندگی پر پچھتاوا تھا۔ وہ اپنی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کو فلمی دنیا سے اپنی وابستگی اور رنگینیوں کا نتیجہ سمجھتے تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس کام یاب اداکار نے 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ مجموعی طور پر 547 فلموں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    یہ 1946ء کی بات ہے جب دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے۔ وہاں انھیں فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہجرت کرکے الیاس کاشمیری لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ انھوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں ہیں۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔

    اپنے وقت کے اس نام ور اداکار کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ان کا گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • فلم ایکٹریس جس کی لاش ٹھیلے پر اسپتال سے لے جائی گئی

    فلم ایکٹریس جس کی لاش ٹھیلے پر اسپتال سے لے جائی گئی

    زندگی کیسے کیسے روپ بدلتی ہے۔ واقعات کس عجب طور رونما ہوتے ہیں اور گردشِ زمانہ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ یہ تذکرہ ہے تقدیر کے مذاق کا نشانہ بننے والی ویمی کا جس نے پردۂ سیمیں پر بطور اداکارہ اپنا سفر شروع کیا اور پھر عبرت کا نشان بن کر رہ گئی۔

    ساحر لدھیانوی کا یہ فلمی گیت کئی سماعتوں میں‌ محفوظ ہو گا۔

    تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
    میں یوں ہی مست نغمے لٹاتا رہوں

    یہ نغمہ بھی اسی شاعرِ بے بدل کے قلم سے نکلا تھا۔

    کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے
    پرستش کی تمنا ہے عبادت کا ارادہ ہے

    1967ء میں‌ ہندوستانی فلم ہمراز ریلیز ہوئی جس کے نغمات بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ اس کا مرکزی کردار ویمی نے نبھایا تھا اور یہ گیت اسی اداکارہ پر فلمائے گئے تھے۔

    وہ 1943ء میں پیدا ہوئی تھی۔ سکھ خاندان سے تعلق رکھنے والی ویمی نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ اسے شروع ہی سے گلوکاری کا شوق تھا اور اداکاری میں بھی دل چسپی رکھتی تھی۔ یہی شوق اسے ممبئی میں ہونے والے ثقافتی پروگراموں میوزک شوز میں لیے جاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کی ملاقات میوزک ڈائریکٹر روی سے ہوئی جنھوں نے اس لڑکی کو بی آر چوپڑا کے بینر تلے بننے والی فلم میں‌ کام دلوا دیا۔ یوں‌ ویمی کو بڑے پردے پر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع مل گیا۔

    ہمراز وہ فلم تھی جس نے راتوں رات ویمی کو اسٹار بنا دیا اور اپنے اسٹائل کی وجہ سے بھی اسے خاصی شہرت ملی۔ اس کے بعد وہ فلم آبرو میں‌ نظر آئی اور اپنی اداکاری سے شائقین کو محفوظ کیا۔ ویمی کی تصاویر اس وقت کے ہر مقبول فلمی رسالے کی زینت بننے لگی تھیں۔ وہ اپنے وقت کے کام یاب بزنس مین شیو اگروال سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی اور شاید یہی اس کی زندگی کا بدترین فیصلہ تھا۔

    22 اگست 1977ء کو ویمی نے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا۔ بے بسی اور نہایت غربت کے عالم میں انتقال کرنے والی ویمی کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئیں، ان کے مطابق وہ شوہر کی طرف سے جسمانی تشدد اور مسلسل زیادتی کا نشانہ بنتی رہی اور تب یہ رشتہ ختم ہوگیا تھا۔ علیحدگی کے بعد ویمی نے کلکتہ میں ٹیکسٹائل کا کاروبار شروع کیا لیکن اس میں‌ بری طرح ناکام رہی۔ اسے فلمی زندگی سے بھی دور ہونا پڑ گیا تھا اور وہ شہرت اور دولت جو اس نے حاصل کی تھی، اس کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ ویمی نے ان ناکامیوں کے بعد مایوس ہو کر شراب نوشی شروع کردی۔ اس نے جو کچھ کمایا تھا، وہ اس کے اخراجات اور شراب خریدنے پر اٹھتا جارہا تھا۔ حال یہ ہوا کہ وہ مفلس ہوگئی اور اس نے شراب خریدنے کے لیے جسم فروشی شروع کر دی۔

    اس کے اچھے دنوں کے ساتھی اور فلمی دنیا کے لوگ جانے کہاں رہ گئے تھے۔ ویمی نے آخری سانس ایک اسپتال کے جنرل وارڈ میں لی جہاں‌ وہ ایک غریب اور بدحال عورت کے طور پر جگر کی بیماری کی وجہ سے پہنچی تھی۔ اسے کیا نام دیجیے کہ کل تک جو لڑکی فلم، فیشن اور اسٹائل کی دنیا میں نمبر ون کی دوڑ میں شامل ہورہی تھی، اس کی لاش کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ایک ٹھیلے پر ڈال کر لے جایا گیا۔

  • خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    سینئر اداکارہ دردانہ بٹ نے اپنے کیریئر کے دوران اسٹیج، ٹیلی وژن اور فلمی پردے پر کئی سنجیدہ اور مزاحیہ کردار نبھائے۔ ان کی پہچان اور مقبولیت کا سبب خاص طور پر ٹیلی وژن ڈراموں کے کامیڈی کردار ہیں۔ کینسر کے مرض میں مبتلا دردانہ بٹ پچھلے سال 12 اگست کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    دردانہ بٹ 9 مئی 1938ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم برطانیہ میں‌ حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان کے سفارت خانے میں تعلیمی اتاشی تھے۔ وہ گیارہ سال کی تھیں جب والد کا پاکستان تبادلہ ہوگیا اور یہاں لاہور میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد دردانہ بٹ کو ان کے والد نے مری کے مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔

    1967ء میں دردانہ بٹ کی شادی سعید احمد خان سے ہوئی جو ان کے ننھیالی عزیز بھی تھے، لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کالج سے گریجویشن کرنے کے دوران وہاں اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلوما حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی اسکول میں پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔

    دردانہ بٹ نے بطور کمرشل پائلٹ کچھ عرصہ ہوا بازی بھی کی، لیکن نظر کم زور ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ وہ جوڈو کراٹے اور آتشیں اسلحے کا استعمال بھی جانتی تھیں۔

    تھیٹر اور اسٹیج سے اداکاری نے انھیں پی ٹی وی تک پہنچا دیا اور یہاں دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مزاحیہ خاکوں پر مشتمل پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں نظر آئیں اور ناظرین میں‌ پہچان بنائی۔ پی ٹی وی پر انھوں نے معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا جیسے ڈراموں میں‌ کردار نبھائے اور تنہائیاں میں بی بی کے روپ میں زبردست پذیرائی اور شہرت حاصل کی، بعد میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں بھی مختلف ڈراموں میں‌ کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    دردانہ بٹ نے 2019 میں آخری مرتبہ ڈرامہ رسوائی میں اپنا کردار نبھایا تھا۔