Tag: اداکار انتقال

  • امجد خان کا تذکرہ جنھیں "گبر سنگھ” نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا!

    امجد خان کا تذکرہ جنھیں "گبر سنگھ” نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا!

    بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’’شعلے‘‘ کے ’’گبر سنگھ‘‘ کو کون نہیں‌ جانتا۔ فلم کے اس کردار کا ایک مکالمہ ’سو جا بیٹے ورنہ گبر آجائے گا‘ آج بھی موقع کی مناسبت سے زبان پر آجاتا ہے۔ گبر سنگھ کا کردار امجد خان نے ادا کیا تھا جو ان کی وجہِ شہرت بنا اور یہ کردار اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ تفریحاً گبر سنگھ کے لب و لہجے اور انداز کی نقل کرنے لگے۔

    ’کتنے آدمی تھے؟،‘ ’تیرا کیا ہوگا کالیا؟،‘ بھی اسی فلم میں‌ گبر سنگھ کے وہ جملے تھے جو ہر کسی کی زبان پر رواں ہوگئے تھے۔

    امجد خان نے بالی وڈ کی فلم خون پسینہ، کالیہ، نصیب، مقدر کا سکندر، سہاگ، ستہ پہ ستہ میں منفی کردار اس خوبی سے نبھائے کہ لوگ ان سے پیار کرنے لگے۔

    ستیہ جیت رائے کی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ وہ فلم تھی جس میں وہ اپنے سنجیدہ نوعیت کے کردار کی بنا پر چھا گئے۔ امجد خان نے منفی اور سنجیدہ نوعیت کے کرداروں کے علاوہ پھلکے مزاحیہ کردار بھی نبھائے اور خوب شہرت پائی۔

    اس اداکار نے 1992ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ امجد خان 12 نومبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی ہندوستانی فلموں میں‌ ولن کے کردار نبھانے کے لیے مشہور تھے۔بطور اداکار امجد خان نے اپنے کیریئر کا آغاز 1957ء میں فلم ’’اب دہلی دور نہیں‘‘ سے کیا۔ شعلے وہ فلم تھی جو 1975ء میں ریلیز ہوئی اور اس نے امجد خان کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ مشہور فلم قربانی میں انھیں شائقین نے انسپکٹر خان کے بہروپ میں بہت پسند کیا جب کہ فلم چمیلی کی شادی میں انھوں نے ایک ایڈووکیٹ کے بہروپ میں جان دار اداکاری کی اور بعد کے برسوں میں امجد خان بطور ہدایت کار بھی سامنے آئے۔

    1986ء میں بالی وڈ کے اس مشہور اداکار نے کار کے ایک حادثے میں موت کو تو شکست دے دی، لیکن طویل عرصہ زیرِ علاج رہنے اور ادویہّ کے مسلسل استعمال کے باعث ان کا جسم فربہی کی طرف مائل ہوگیا تھا اور یوں وہ فلمی دنیا سے دور ہوگئے۔ اسی دوران وہ متعدد جسمانی پیچیدگیوں اور امراض کا شکار ہوئے اور زندگی سے دور ہوتے چلے گئے۔

    امجد خان کا فلمی سفر بیس سال جاری رہا جس میں انھوں‌ نے 132 فلموں‌ میں اپنے فنِ اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا۔

  • آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار حسام قاضی 3 جولائی 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج اس اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1961 میں‌ پیدا ہونے والے حسام قاضی کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ انھوں نے بیالیس سال کی عمر پائی۔ اپنے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے کرنے والے حسام قاضی کو کاظم پاشا کے ڈراما سیریل "چھاؤں” سے پاکستان بھر میں شہرت ملی۔

    حسام قاضی نے زمانہ طالبِ علمی میں‌ اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ وہ کامرس میں ماسٹر کرنے کے بعد کوئٹہ کے ایک کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے اور تدریسی مصروفیات کے ساتھ اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ حسام قاضی پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے ان اداکاروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنے کرداروں کے سبب ملک گیر شناخت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    حسام قاضی کے مشہور ڈرامہ سیریلوں میں ماروی، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیر تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔

    سنہ 2000 میں‌ حسام قاضی کو دل کے عارضے کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم ضروری علاج اور دیکھ بھال کے بعد وہ طبیعت میں‌ بتدریج بہتری محسوس کررہے تھے۔ انھوں نے آرام کی غرض سے کالج میں اپنی ذمہ داریوں‌ سے طویل رخصت لے رکھی تھی اور اپنے کنبے کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں‌ آخری سانس تک قیام پذیر رہے۔

    حسام قاضی نے ٹیلی ویژن پر اپنے وقت کے بڑے اور سینئر اداکاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ دھیما لہجہ، خوب صورت آواز اور عمدہ پرفارمنس ناظرین میں حسام قاضی کی مقبولیت کا سبب تھی۔ پی ٹی وی کے ناظرین نے خاص طور پر ڈرامہ ماروی میں‌ ان کی پرفارمنس کو بے حد پسند کیا تھا۔

  • ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک زمانہ تھا جب غیر ناطق فلموں‌ میں اداکار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو متوجہ کرتے تھے اور داد وصول کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔ اسی زمانے میں نور محمد چارلی نے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور ہندوستان میں شہرت اور مقبولیت پائی۔

    انیسویں صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں‌ نام کمانے والے نور محمد چارلی مشہور مزاحیہ اداکار تھے۔ وہ پہلے مزاحیہ اداکار بھی تھے جنھیں اس دور میں‌ ایک فلم کے لیے ہیرو منتخب کیا گیا اور دیگر فلموں میں بھی انھوں نے مرکزی کردار نبھائے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دور کے مزاحیہ فن کاروں میں پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود انھوں نے بھی اپنی فلموں کے لیے گیت گائے تھے۔

    نور محمد چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیرناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا تھا۔ اس سے اگلے برس ایک فلم انڈین چارلی پیش کی گئی جسے بعد میں 1933ء میں ناطق فلم کے طور پر بھی بنایا گیا اور اس فلم کا ٹائٹل رول نور محمد نے اس خوب صورتی سے نبھایا کہ شائقین نے انھیں ‘نور محمد چارلی’ کہنا شروع کردیا۔ چارلی ان کے نام سے آخری عمر تک جڑا رہا۔

    نور محمد چارلی نے کئی فلموں میں مرکزی کردار نبھائے جن میں سنجوگ (1943)، مسافر (1940)، چاند تارا (1945) جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد یہ مزاحیہ اداکار ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں اپنی پہلی فلم مندری (1949) میں کام کیا، لیکن تقسیمِ ہند سے قبل شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اس اداکار کو پاکستان میں سنیما پر خاص کام یابی نہیں ملی۔

    نور محمد چارلی نے اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا اور ناکام رہے جس کے بعد تین سندھی فلموں میں خود کو آزمایا اور یہاں بھی بدقسمتی سے شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ ان ناکامیوں سے گھبرا کر وہ بھارت چلے گئے، جہاں انھیں تین فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا، لیکن ان کے بخت کا ستارہ اب زوال پذیر تھا، وہ مایوس ہو کر پاکستان لوٹ آئے۔ وطن واپسی کے بعد یہاں مزید دو فلموں میں کام کیا تھا۔ 30 جون 1983ء کو نور محمد چارلی کراچی میں وفات پاگئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل انھوں نے جن فلموں میں کام کیا، ان میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی آخری فلم استادوں کا استاد (1967) کے علاوہ ایک پنجابی فلم پلپلی صاحب (1965) بھی تھی جس میں انھوں نے ٹائٹل رول نبھایا تھا۔

  • آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    ’سڈنی ایک ایسے شخص تھے جس نے اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنایا۔‘ یہ الفاظ مشہور امریکی اداکار جارج کلونی نے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک کے انتقال پر ادا کیے تھے۔

    سڈنی پولک نے اپنی فلموں میں سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرکے نہ صرف شہرت پائی بلکہ انھیں بہت عزّت اور محبّت بھی ملی۔ 1960 سے 80 کی دہائی تک انھوں نے اپنی فلموں کی بدولت شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل کیے رکھی اور ان کے کام کو ناقدین نے بھی خوب سراہا۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک 73 برس کی عمر میں امریکا کے مشہور شہر لاس اینجلس میں چل بسے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ سڈنی پولک کا فلمی کیریئر پچاس سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے اپنی فلموں کے لیے ہر خاص و عام سے داد سمیٹی اور اپنے کام پر ناقدین سے تعریف و ستائش وصول کی۔

    سڈنی پولک کی مشہور ترین فلموں میں ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ شامل ہیں۔ یہ بلاک بسٹر فلمیں تھیں جن کے ہدایت کار سڈنی پولک تھے۔ انھوں نے ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم پروڈیوس کی۔ ’ٹوٹسی‘ کے لیے 1982 میں سڈنی کو بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نام زد کیا گیا تھا جب کہ ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بہترین ہدایت کار کا یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے۔ یہ وہ فلم تھی جسے مجموعی طور پر سات آسکر ایوارڈز دیے گئے تھے۔

    سڈنی پولک 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ کے لیے بھی بطور ڈائریکٹر آسکر اعزاز کے لیے نام زد ہوئے تھے۔

    ان کا سنِ پیدائش 1934 ہے اور وہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بطور اداکار قسمت آزمائی کے لیے نیویارک پہنچے تھے اور ٹیلی وژن پر اداکاری کا موقع ملا تو وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ 1961 میں سڈنی پولک نے ٹیلی وژن کے لیے پروگرام بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور چار برس بعد بطور ہدایت کار ’دا سلنڈر تھریڈ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنائی۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے پروڈیوسر کے طور پر کام شروع کیا اور ’دا فرم‘ جیسی ہٹ فلم سامنے آئی۔ ہدایت کار کے طور پر ان کی آخری فلم ’ اسکیچیز آف فرانک گہرے‘ تھی۔ یہ اپنے وقت کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں دستاویزی فلم تھی۔

    26 مئی 2008 کو سڈنی پولک نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

  • معین اختر: ایک عہد جو تمام ہوا، ایک نام جو دلوں میں‌ زندہ ہے!

    معین اختر: ایک عہد جو تمام ہوا، ایک نام جو دلوں میں‌ زندہ ہے!

    ہر دل عزیز معین اختر نے اسٹیج سے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پھر فلم تک کئی روپ بدلے اور سیکڑوں ایسے کردار نبھائے جو لازوال ثابت ہوئے اور مداحوں کا دل جیتا۔ معین اختر 2011ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ، خاص طورپر نقالی کے فن کی بات کی جائے تو معین اختر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس فن کو نہایت خوبی سے اپنی شناخت کا ذریعہ بناتے ہوئے معین اختر نے صدا کاری سے ادا کاری تک اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    وہ ایک ایسے ورسٹائل اور باکمال فن کار تھے جس نے اپنے فن کا شان دار مظاہرہ کیا اور اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کامیڈی ہی نہیں سنجیدہ کردار بھی اس عمدگی سے نبھائے کہ وہ ذہن پر نقش ہوگئے۔ صدا کار، ادا کار، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کے ساتھ وہ میزبان کے طور پر اپنی برجستہ گوئی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی کے سبب مقبول ہوئے اور مہمان سمیت حاضرین و ناظرین کی دل چسپی اور توجہ حاصل کی۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا۔ انھوں نے 24 دسمبر، 1950 کو یہیں آنکھ کھولی۔ والد کی وفات کے بعد نوعمری میں معاش کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی اور جلد وہ وقت آیا جب معین اختر کو ملک بھر میں پہچان مل گئی۔

    سولہ برس کی عمر میں‌ اسٹیج پر پہلی پرفارمنس سے حاضرین کے دل جیتنے والے معین اختر نے جب ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا تو گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں مقبول ہو چکے تھے۔

    مزاحیہ شوز ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسا ٹی وی پلے ان کی شان دار پرفارمنس کی وجہ بہت پسند کیا گیا۔ معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن رہا۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے۔ انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ہندوستان ہی نہیں‌ معین اختر بیرونِ ملک بھی اپنے اسٹیج شوز کی وجہ سے پہچانے گئے اور اردو داں طبقے میں انھیں بہت شہرت ملی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    معین اختر نقالی کے فن میں طاق تھے۔ انھوں نے کئی فن کاروں اور مشہور شخصیات کی آواز اور ان کے انداز کو اپنا حاضرین کو محظوظ کیا۔ ان کے مداحوں کی طویل فہرست میں پاکستان، بھارت کے علاوہ دنیا بھر کے نام وَر فن کار اور کئی مشہور شخصیات شامل ہیں۔

  • صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انھیں فلم انڈسٹری میں‌ رینوکا دیوی کے نام سے پہچان ملی تھی۔

    بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اسلام قبول کرنے کے بعد شیخ عبداللہ کے نام سے جانے گئے جو ایک بیدار مغز اور سوسائٹی میں نہایت فعال اور متحرک تھے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کی تمام اولادیں کسی نہ کسی صورت میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ رہیں۔ خود شیخ عبداللہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی۔ شیخ عبداللہ نے 4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کا نام خورشید جہاں رکھا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی کا نام ڈاکٹر رشید جہاں تھا اور وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں شامل تھیں۔ اسی طرح خورشید جہاں بھی فن اور ادب کی دنیا میں معروف ہوئیں۔ ان کے بھائی بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔

    بیگم خورشید مرزا 17 برس کی تھیں جب وہ اکبر حسین مرزا سے رشتۂ ازدواج میں‌ منسلک ہوگئیں جو پولیس افسر تھے۔ اسی نسبت وہ خورشید جہاں سے بیگم خورشید مرزا مشہور ہوئیں۔ ان کے بھائی محسن عبداللہ بھی متحدہ ہندوستان میں مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں کو فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کرنے کا موقع ملا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ آئیں تو ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری پر داد پائی اور ریڈیو کے لیے انھیں صدا کار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے سامنے آئی تھی جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اپنے وقت کی اس سینئر اداکارہ کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف اداکار خیّام سرحدی کا تذکرہ

    معروف اداکار خیّام سرحدی کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار اور سینئر فن کار خیّام سرحدی 3 فروری 2011ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ٹی وی اداکار خیام سرحدی کے والد اپنے زمانے کے نام ور اور باکمال ہدایت کار تھے جنھوں‌ نے ”ہم لوگ” اور ”فٹ پاتھ” جیسی شاہ کار فلمیں بنائی تھیں۔ انہی کی بدولت خیّام سرحدی فن اور آرٹ کی دنیا کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ شوق گویا انھیں ورثے میں ملا تھا۔

    ان کا شمار منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا تھا۔ حکومت نے انھیں فنی خدمات کے اعتراف میں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا تھا۔

    خیّام سرحدی ممبئی میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد فلمی صنعت میں‌ اپنی قسمت آزمائی کے لیے مقیم تھے۔ بعد میں ان کا خاندان ہجرت کے لاہور آگیا اور یہاں سے وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    وارث، ریزہ ریزہ، من چلے کا سودا، دہلیز، لازوال، سورج کے ساتھ ساتھ اور کئی دوسرے ڈراموں میں خیّام سرحدی نے اپنے کرداروں کو حقیقت کا رنگ دے کر ناظرین سے داد وصول کی۔ ان کے کردار بہت مقبول ہوئے۔ اداکار نے تین فلموں ’’اک سی ڈاکو‘‘،’’بوبی‘‘ اور ’’مہک‘‘ میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے اس معروف اداکار نے امریکا سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ستّر کے دہائی میں ڈرامہ ’ْایک تھی مینا‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ خیّام سرحدی نے تحریکِ پاکستان کے پس منظر میں اور قائدِ اعظم کی زندگی پر بننے والی ایک دستاویزی فلم میں مسلمانوں کے مقبول راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا کردار بھی ادا کیا تھا۔

  • پاکستانی فن کاروں کی حمایت پر بھارت میں تنقید کا سامنا کرنے والے اوم پوری کا تذکرہ

    پاکستانی فن کاروں کی حمایت پر بھارت میں تنقید کا سامنا کرنے والے اوم پوری کا تذکرہ

    تھیٹر پر اداکاری کے ساتھ 1970ء کے عشرے میں اوم پوری نے مراٹھی فلم میں کردار نبھا کر اپنے جس فلمی سفر کا آغاز کیا تھا وہ بعد میں‌ ہندی سنیما سے ہالی وڈ تک دراز ہوگیا۔ انھوں نے چند پاکستانی فلموں میں بھی اداکاری کی تھی۔ اوم پوری 2017ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    ہالی وڈ میں انھیں ’سٹی آف جوائے‘، ’وولف‘ اور ’دی گھوسٹ اینڈ دی ڈارک نیس‘ جیسی فلموں میں کام کرتے دیکھا گیا۔ اوم پوری نے ’ایسٹ اِز ایسٹ‘ ، ’دی پیرول آفیسر‘ سمیت متعدد برطانوی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 2014ء میں‌ انھوں نے ’دی ہنڈرڈ فُٹ جرنی‘ میں‌ کام کیا تھا جب کہ مشہورِ‌ زمانہ فلم ’گاندھی‘ میں انھوں نے یادگار پرفارمنس دی تھی۔

    اوم پوری 1950ء میں بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر انبالہ کے ایک پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے پُونے کے فلم اینڈ ٹیلی وژن انسٹیٹیوٹ سے گریجویشن کی اور 1973ء میں نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخلہ لیا۔

    ان کا شمار ایسے فن کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے آرٹ اور کمرشل فلموں کے کئی کرداروں کو یادگار بنا دیا۔ وہ ’آکروش‘، ’ماچس‘، ’گُپت‘، ’دھوپ‘ اور ’بجرنگی بھائی جان‘ جیسی کام یاب ہندی فلموں میں‌ نظر آئے۔ اوم پوری مشکل کردار نبھانے کے لیے تیّار رہتے تھے۔ انھیں بالی وڈ میں ہرفن مولا شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔

    اوم پوری تھیٹر کے اداکار تھے۔ فلم نگری میں آنے سے قبل وہ تھیٹر پر کئی ڈرامے کرچکے تھے۔ اوم پوری کو ان کی بہترین اداکاری پر دو نیشنل فلم ایوارڈز سمیت کئی اعزازات دیے گئے۔ سنجیدہ کرداروں کے ساتھ انھوں نے ہلکے پھلکے تفریحی اور مزاحیہ کردار بھی نہایت خوبی سے نبھائے اور شائقینِ سنیما کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔

  • امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    قادر خان کی فلمی کہانیاں اور ان کے تحریر کردہ مکالمے ہندی سنیما کے شائقین میں بہت مقبول ہوئے اور بحیثیت اداکار خود انھیں‌ بھی بے حد پسند کیا گیا۔

    ولن کے روپ میں شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے والے قادر خان نے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ان کے دلوں پر راج کیا۔ ان کا فلمی کیریئر شان دار ثابت ہوا جس میں انھوں نے شائقین اور انڈسٹری کو کئی یادگار فلمیں‌ دیں۔

    قادر خان کا تعلق افغانستان سے تھا جہاں‌ انھوں‌ نے 22 اکتوبر 1937ء کو آنکھ کھولی، لیکن ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ مشکل اور تکلیف دہ رہا۔ قادر خان کے والدین افغانستان سے انڈیا جا بسے تھے جہاں ان کے مابین علیحدگی ہوگئی جس کے بعد قادر خان کو سوتیلے باپ کے ساتھ غربت زدہ زندگی گزارنا پڑی۔ قادر خان کسی طرح تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔

    وہ شروع ہی سے پڑھنے، صدا کاری اور لکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ مطالعہ اور تدریس سے وابستگی کے ساتھ جب انھوں نے تھیٹر کے لیے لکھنا شروع کیا تو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے ساتھ چھوٹے موٹے کردار بھی نبھانے لگے۔ ایک مرتبہ ان کے کالج میں تھیٹر مقابلہ ہوا جہاں نریندر بیدی اور کامنی کوشل جج تھے۔ اس موقع پر قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام دیا گیا اور ساتھ ہی فلم کے لیے مکالمے لکھنے کی پیشکش بھی ہوئی۔ وہ تیّار ہوگئے۔ یہ سفر دہائیوں پر محیط ہوگیا اور 300 سو سے زائد فلموں میں انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں فلمی ڈائیلاگ لکھنے کا آغاز کیا تھا۔

    اداکار کے طور پر وہ 1973ء میں فلم داغ میں نظر آئے۔ یہ ایک وکیل کا معمولی کردار تھا اور 1977ء میں انھیں پولیس انسپکٹر کا کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی تحریر کردہ فلم مقدّر کا سکندر ہٹ ہوئی اور اس کے ڈائیلاگ ہر گھر میں بولے گئے، پھر ‘خون پسینہ، شرابی، لاوارث، امر اکبر انتھونی، قلی، نصیب، قربانی جیسی کام یاب فلمیں آئیں جنھوں نے انھیں ولن کے روپ میں اور مکالمہ نویس اور اسکرپٹ رائٹر کے طور پر بھی نام و مقام دیا۔

    1983ء میں فلم ‘ہمت والا’ بڑے پردے پر پیش کی گئی اور بہت کام یاب ہوئی۔ قادر خان اس کے مصنّف بھی تھے اور اس فلم میں انھوں نے ایک مزاحیہ کردار بھی ادا کیا۔

    اُس زمانے میں‌ امیتابھ بچن کے کیریئر کو سنوارنے والے قادر خان ہی تھے، لیکن خود قادر خان کی زندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب 1974ء میں من مومن دیسائی اور راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ‘روٹی’ میں انھیں کام کرنے کا موقع ملا۔

    اداکاری قادر خان کا اوّلین شوق تھا۔ اپنے فلمی کیریئر میں انھوں نے مجموعی طور پر 400 فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری بڑی فلم محبوبہ تھی جو ان کی وفات سے دس سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔

    بولی وڈ کے اس فن کار کی زندگی کے اس پہلو سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی عملی کوششیں کرتے رہے۔ انھوں نے بالخصوص فلم نگری سے دور ہوجانے کے بعد دین پھیلانے اور اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو مٹانے کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے مشہور ہے کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی زبان بھی سیکھتے رہے۔

    قادر خان 31 دسمبر 2018ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے تھے۔

  • الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    زندگی کے آخری ایّام میں الیاس کاشمیری گم نامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ جسمانی عوارض کے ساتھ شدید کرب اور پچھتاوے کا شکار بھی تھے۔ ذیابیطس اور اس مرض کی پیچیدگی کے نتیجے میں ٹانگ سے محروم ہوجانے کے بعد وہ اپنی بیماریوں اور تکالیف کو فلم نگری کی چکاچوند اور رنگینیوں کا نتیجہ گردانتے تھے۔

    آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔ 12 دسمبر 2007ء کو پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور اداکار نے زندگی کی آخری سانس لی تھی۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب ولن تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    الیاس کاشمیری 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے مجموعی طور پر 547 فلموں میں کام کیا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    1946ء میں دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے تھے اور فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول حاصل کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد الیاس کاشمیری لاہور آگئے جہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل خوب رُو الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول مل گیا۔ یہ پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی۔ انہوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن اصل کام یابی پنجابی فلموں کے ذریعے ہی نصیب ہوئی۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلا سکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لا زوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا۔ فلم ’بابل‘ اور ’بشیرا‘ نے جہاں سلطان راہی کے لیے مستقبل میں ایک عظیم فلمی ہیرو بننے کا راستہ ہموار کیا، وہیں الیاس کاشمیری کو بھی کام یاب ترین وِلن کا تاج پہنا دیا۔

    1973ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد بٹوری۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں اور الیاس کاشمیری پاکستان کے معروف ترین اداکاروں میں شمار کیے گئے۔