Tag: اداکار انتقال

  • گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی یہ تحریر اداکار اشوک کمار کے فلمی سفر اور ان کی شہرت و مقبولیت سے متعلق ہے۔ ہندوستان کی فلم نگری میں بہ طور اداکار اشوک کمار نے اپنی صلاحیتوں کو منوا کر متعدد اہم اور معتبر فلمی ایوارڈ اور حکومتی سطح پر بھی اعزازات اپنے نام کیے تھے۔

    اشوک کمار 13 اکتوبر، 1911ء کو بنگال میں پیدا ہوئے۔ انھیں دادا منی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اشوک کمار نے کئی فلموں اور بنگالی ڈراموں میں فنِ اداکاری کے جوہر دکھائے اور کام یابیاں‌ سمیٹیں۔ وہ 10 دسمبر 2001ء کو چل بسے تھے۔ ان کا انتقال ممبئی میں ہوا۔ سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں:

    نجمُ الحسن جب دیوکا رانی کو لے اڑا تو بومبے ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجمُ الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔

    بومبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ پریشان اور متفکر شخص ہمانسو رائے تھا۔ دیوکا رانی کا شوہر اور بمبے ٹاکیز کا ’’دل و دماغِ پس پردہ۔‘‘

    ایس مکر جی مشہور جوبلی میکر فلم ساز (اشوک کمار کے بہنوئی) ان دنوں بمبے ٹاکیز میں مسٹر ساوک واچا ساؤنڈ انجینئر کے اسسٹنٹ تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں ہمانسو رائے سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دیوکا رانی واپس آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا ہمانسو رائے سے مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر کوشش کی اور اپنی مخصوص حکمتِ عملی سے دیوکا رانی کو آمادہ کرلیا کہ وہ کلکتے میں اپنے عاشق نجمُ الحسن کی آغوش چھوڑ کر واپس بمبے ٹاکیز کی آغوش میں چلی آئے۔ جس میں اس کے جواہر کے پنپنے کی زیادہ گنجائش تھی۔

    دیوکا رانی واپس آگئی۔ ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا ہمانسو رائے کو بھی اپنی حکمتِ عملی سے آمادہ کرلیا کہ وہ اسے قبول کر لیں، اور بے چارہ نجمُ الحسن ان عاشقوں کی فہرست میں داخل ہوگیا جن کو سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارانہ حکمتِ عملیوں نے اپنی محبوباؤں سے جدا کر دیا تھا۔ زیرِ تکمیل فلم سے نجمُ الحسن کو قینچی سے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک تو دیا گیا مگر اب یہ سوال درپیش تھا کہ عشق آشنا دیوکا رانی کے لیے سیلو لائڈ کا ہیرو کون ہو۔

    ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کردیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

  • پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    آج مزاحیہ اداکار نرالا کا یومِ وفات ہے جو ماضی میں‌ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ایک مشہور فن کار اور شائقین میں اپنی اداکاری کے سبب خاصے مقبول تھے۔ اس اداکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

    نرالا کا اصل نام سیّد مظفر حسین زیدی تھا۔ وہ 8 اگست 1937ء کو پیدا ہوئے۔ 1960ء میں انھوں نے ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم ’اور بھی غم ہیں‘ سے بڑے پردے پر بطور اداکار اپنا سفر شروع کیا۔ پاکستان کی پہلی اردو پلاٹنیم جوبلی فلم ’ارمان‘ میں نرالا نے اپنے مزاحیہ کردار کو اس طرح نبھایا کہ شائقین سے خوب داد اور ناقدین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ وہ اس فلم کے لیے بہترین مزاحیہ اداکار کے نگار ایوارڈ کے حق دار ٹھرے۔

    اداکار نرالا کی فلموں کی تعداد سو سے زائد ہے جن میں کئی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں اور ان کی اداکاری کو ناقابلِ فراموش اور یادگار قرار دیا گیا۔ نرالا نے فلم سپیرن، مسٹر ایکس، شرارت، چھوٹی بہن، ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، دوراہا، زمین کا چاند، انسان اور گدھا، جہاں تم وہاں ہم، نصیب اپنا اپنا جیسی کام یاب ترین فلموں میں اپنے مزاحیہ کردار نبھا کر شائقینِ سنیما کے دل جیت لیے۔ ان کی آخری فلم چوروں کا بادشاہ تھی۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور و معروف اداکار، نرالا نے 9 دسمبر 1990ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انھیں‌ کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    دیو آنند صاف گو اور باضمیر کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ وہ حیرت انگیز شخصیت کے مالک اور ایسے انسان تھے جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔

    ہندوستان کی فلم نگری میں‌ دیو آنند کا کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ وہ 2011ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    بولی وڈ میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت کام یاب ہونے والے اس اداکار نے عشق اور سیاست دونوں میں ناکامی کا منہ دیکھا، لیکن ایسی بھرپور زندگی گزاری جس میں ہر خاص و عام ان کے فن کا مداح اور شخصیت کا گرویدہ رہا۔

    دیو آنند کے ناکام عشق سے جڑا فلم کی شوٹنگ کے دوران پیش آنے والا ایک حادثہ کچھ یوں تھا کہ فلم ’ودیا‘ کے ایک گانے ’کنارے کنارے چلے جائیں گے‘ کی عکس بندی کی جارہی تھی۔ دیو آنند اور اداکارہ ثریا کشتی میں سوار تھے جو اچانک پلٹ گئی۔ اس موقع پر دیو آنند نے کسی طرح ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ اس حادثے کا تو چرچا ہوا ہی، ان کی محبّت کا خوب شہرہ بھی ہوا، لیکن کہتے ہیں کہ ثریا کی نانی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں‌ ہوسکی۔

    اس واقعہ کے کئی سال بعد اداکارہ نے فلمی میگزین کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بعد میں دیو آنند سے کہا کہ ’اس دن اگر آپ مجھے نہیں بچاتے تو میں ڈوب جاتی، انھوں نے جواب دیا کہ آپ ڈوب جاتیں تو میں بھی مر جاتا۔‘

    عملی سیاست میں ان کا حصّہ لینا اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ وہ واحد بولی وڈ اسٹار تھے جس نے قومی سطح کی سیاسی پارٹی تشکیل دی تھی، اور اپنے نظریے اور اصول کی بنیاد پر حکم رانوں کی مخالفت بھی کی۔

    دیو آنند نے متحدہ ہندوستان میں شکرگڑھ میں 26 ستمبر 1923ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دھر دیو پشوری مل آنند تھا۔ گریجویشن انگریزی ادب میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے مکمل کی، لیکن آگے تعلیم حاصل نہیں‌ کرسکے۔ والد نے انھیں نوکری کرنے کو کہہ دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اسی شہر سے انھوں نے ایک دن ممبئی کا سفر اختیار کیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔

    یہ 1943ء کی بات ہے جب وہ نوکری کے بجائے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے ممبئی کے لیے نکلے تھے۔ لیکن اتنی آسانی سے کام کہاں‌ ملتا۔ کچھ کوششوں کے بعد ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ تقریباً ایک سال تک نوکری کرنے کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندوستانی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہاں دیو آنند کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا اور چھوٹے موٹے کردار ان کی ہمّت اور حوصلہ بڑھانے لگے۔

    سال 1945ء میں فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیو آنند کو اپنے نئے سفر کے آغاز کا موقع ملا۔ سال 1948ء میں فلم ضدی پردے پر سجی جو ان کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیو آنند نے اسی عرصے میں فلم ڈائریکشن کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا کام یاب فلمیں بنائیں۔

    1954ء میں اداکار کی شادی کلپنا کارتک سے ہوئی جو مشہور اداکارہ تھیں۔ دیو آنند نے ہالی وڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم گائیڈ بنائی، جس پر انھیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں‌ دو فلم فیئر اپنے نام کیے۔

    بطور ہدایت کار ان کی فلموں میں 1950ء کی فلم افسر کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں انھیں پدم بھوشن اور ہندی سنیما کے معتبر ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    دیو آنند نے ہر قسم کے کردار ادا کیے، اور ان کی مقبولیت اور وجہِ شہرت وہ انداز تھا جس میں دیو آنند جھک کر لہراتے ہوئے چلتے، مخصوص انداز سے بولتے اور اسی طرح ان کے لباس میں شامل اسکارف اور سَر پر بیگی ٹوپی بالخصوص شائقین کی توجہ حاصل کرلیتی تھی۔ دیو آنند انڈسٹری میں‌ اپنے اسٹائل کے لیے مشہور تھے۔

  • فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    ایم اسماعیل نے تقسیمِ ہند سے قبل بننے والی فلموں سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ آزادی کے بعد جب پاکستان میں فلمی صنعت کا قیام عمل میں آیا تو انھوں نے یہاں اپنی اداکاری سے بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ ایم اسماعیل نے انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں‌ دیں۔ آج اس معروف اداکار کی برسی ہے۔

    فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے 22 نومبر 1975ء کو وفات پائی۔ ان کا تعلق اندرونِ بھاٹی گیٹ، لاہور کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جو علم و فنون کا دلدادہ اور خطّاطی کے فن کے لیے مشہور تھا۔ ایم اسماعیل 6 اگست 1902ء کو پیدا ہوئے۔ خطّاطی اور مصوّری کا شوق اور اس میں‌ کمال و مہارت انھیں گویا ورثے میں‌ ملی تھی۔ وہ خوش نویسی اور اسکیچ بناتے تھے۔

    ایم اسماعیل جس محلّے میں رہتے تھے، وہیں اپنے وقت کے نام وَر فلم ساز اے آر کاردار بھی رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے خوب رُو اور جاذبِ نظر ایم اسماعیل کو فلم نگری میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ان کے کہنے پر ایم اسماعیل نے بمبئی کا رخ کیا جو متحدہ ہندوستان میں اس وقت فلم سازی کا مرکز تھا۔ وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ وہاں انھیں‌ چند فلموں‌ میں کام کرنے کا موقع ملا اور شوق پورا ہونے کے ساتھ انھوں نے بہت کچھ سیکھا بھی۔ تاہم جب لاہور میں فلمیں بننے لگیں تو ایم اسماعیل یہیں‌ چلے آئے اور فلمی صنعت میں اپنی جگہ بنائی۔

    ایم اسماعیل کی خاموش فلموں میں حسن کا ڈاکو، آوارہ رقاصہ اور ہیر رانجھا بہت مشہور ہوئیں۔ لوک داستانوں اور تاریخی کرداروں پر مبنی فلموں میں انھوں نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کے دل جیتے۔ فلم ہیر رانجھا میں اس اداکار نے کیدو کا مشہور کردار نبھایا تھا۔

    ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو انھیں یہی کردار حورِ پنجاب اور ہیر سیال نامی فلموں میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ ایم اسماعیل نے خزانچی، پھول، سوہنی مہینوال، وامق عذرا اور لیلیٰ مجنوں جیسی کام یاب فلموں میں اداکاری کی جنھیں‌ شائقین نے بہت سراہا اور اس اداکار کو بڑی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے پنجابی فلموں کے ساتھ اردو فلموں‌ میں بھی اداکاری کی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات اور فطری اداکاری کے ساتھ اپنی تیکھی آواز کے لیے بھی مشہور تھے۔

    ان کی آخری فلم مان جوانی دا تھی جو 1977ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے مجموعی طور پر 156 فلموں میں‌ کام کیا تھا۔ ایم اسماعیل لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    آج اقبال حسن کی برسی ہے جو 1984ء میں کار کے حادثے میں‌ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور و معروف اداکار کے تذکرے کے ساتھ ہی اسلم پرویز کی جدائی کا زخم بھی تازہ ہو جاتا ہے جو کار میں اُن کے ساتھ تھے۔ اس حادثے میں شدید زخمی ہو جانے والے اسلم پرویز بھی ایک ہفتے بعد خالقِ‌ حقیقی سے جاملے۔

    اقبال حسن فلم جھورا کی عکس بندی کے بعد اپنے ساتھی اداکار کے ساتھ فیروز پور روڈ، لاہور سے اپنی کار میں گزر رہے تھے جو ایک ویگن سے ٹکرا گئی۔ اس تصادم کے نتیجے میں اقبال حسن جاں بحق ہوگئے تھے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو پنجابی فلموں کے ٹائٹل کردار نبھا کر کئی فن کاروں نے نام پیدا کیا، لیکن جو مقام فلم ’’شیر خان‘‘ کی ریلیز کے بعد اقبال حسن کو ملا، وہ ایک مثال ہے۔

    فلم انڈسٹری میں اقبال حسن نے اپنے کیریئر کے دوران 285 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور مقبول ہوئے۔ ان کی فلمی زندگی کا آغاز ہدایت کار ریاض احمد کی پنجابی فلم سستی پنوں سے ہوا تھا۔ انھوں نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ شہرت علاقائی زبان میں بننے والی فلمیں ہی بنیں۔ وہ بلاشبہ پنجابی فلموں کے ایک مقبول اداکار تھے۔

    اقبال حسن کی مشہور فلموں میں یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، سجن دشمن، مرزا جٹ، شامل ہیں۔

  • پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1980ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے درپن نے بڑے پردے پر ہیرو کے طور پر کام یابیاں سمیٹنے کے بعد اپنے کیریئر کے دوران کیریکٹر اور سپورٹنگ رول بھی ادا کیے۔

    درپن 1928ء کو اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عشرت عباس تھا اور فلم نگری میں انھوں نے درپن کے نام سے پہچان بنائی اور شہرت پائی۔ ان کے فلمی کریئر کا آغاز 1950ء میں فلم امانت سے ہوا۔ پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے جہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارت کی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ پاکستان واپسی پر درپن نے کئی کام یاب فلموں میں کام کیا، جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔

    بطور ہیرو ان کی آخری کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اداکار درپن نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 فلمیں پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ سے شادی کی تھی اور ان کا یہ تعلق زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    درپن نے بہترین اداکار کے زمرے میں دو نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔ اداکاری کے علاوہ انھوں نے خود کو فلم ساز کے طور پر بھی آزمایا اور بالم، گلفام، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے فلمیں بنائیں۔

    وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • جیمز بانڈ اسٹار سَر شان کونری کا تذکرہ

    جیمز بانڈ اسٹار سَر شان کونری کا تذکرہ

    جیمز بانڈ کے کردار نے سَر شان کونری کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس مشہورِ زمانہ جاسوس کے روپ میں انھوں نے بڑی اسکرین پر سات فلموں میں اداکاری کی۔

    انھیں ملکہ برطانیہ نے 2000ء میں "سَر” کے خطاب سے نوازا۔ شان کونری 90 سال کی عمر میں پچھلے سال وفات پا گئے تھے۔

    اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس اداکار کا کریئر دہائیوں پر محیط ہے۔ انھیں بہترین اداکار مانا جاتا ہے اور متعدد فلمی ایوارڈز حاصل کرنے والے شان کونری نے ایک آسکر، دو بافٹا ایوارڈّز اور تین گولڈن گلوبز بھی اپنے نام کیے۔

    انھیں 1988ء میں فلم دی انٹچ ایبلز میں ایک آئرش پولیس افسر کا کردار نبھانے پر بہترین معاون ادکار کا ایوارڈ ملا تھا۔ سر شان کونری کی دیگر فلموں میں دی ہنٹ فار ریڈ اکتوبر، انڈیانا جونز اور لاسٹ کروسیڈ اور دی راک شامل ہیں۔

    شان کونری 1930ء کو اسکاٹش شہر ایڈنبرا کی نواحی بستی فاؤنٹین برج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور نوعمری میں‌ رنگ ریزی، دودھ فروشی اور لائف گارڈ جیسے معمولی کام اور نوکریاں کیں۔

    نوجوانی میں انھیں اداکار بننے کا شوق ہوا اور اس میں کام یاب بھی ہوگئے۔ تاہم وہ برطانوی اور امریکی فلمی صنعت تک محدود رہے اور بہترین اداکاری سے پہچان بنائی۔

    شان کونری کو فلمی افق پر شہرت سن 1962ء کی فلم ڈاکٹر نو سے ملی۔ اس کے بعد وہ جیمز بانڈ سیریز کی فلموں میں نظر آئے اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    وہ زندہ شخصیات میں اسکاٹ لینڈ کا سب سے معتبر اور مقبول فرد قرار پائے تھے۔ انھیں امریکن فلم انسٹیٹیوٹ کا ‘لائف ٹائم اچیومنٹ‘ اعزاز بھی دیا گیا تھا۔

  • ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    1959ء میں ہالی وڈ کے شائقین فلم ’سَم لائیک اٹ ہاٹ‘ سے محظوظ ہوئے اس فلم کو کلاسک کامیڈی مانا جاتا ہے۔

    فلم کا ایک کردار ٹونی کرٹس نے ادا کیا تھا جب کہ ساتھی فن کار جیک لیمن تھے۔ ان دونوں مرد اداکاروں نے فلم میں عورتوں کا بہروپ بھرا تھا جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ اسی فلم میں ان کے ساتھ اپنے وقت کی مقبول ترین اداکارہ مارلن منرو نے بھی اپنا کردار نبھایا تھا۔ فلم میں ٹونی کرٹس اسی اداکارہ کے محبوب کے طور پر نظر آئے تھے۔

    اس فلم نے اداکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔

    2010ء میں آج ہی کے دن ٹونی کرٹس نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ آئیے برنارڈ شوارٹز المعروف ٹونی کرٹس کی زندگی اور فلمی سفر کے بارے میں جانتے ہیں۔

    وہ 3 جون 1925ء کو نیویارک میں پیدا ہوئے۔ اداکاری کے بعد ان کا دوسرا مشغلہ آرٹ اور مصوّری تھا۔

    کلاسک کا درجہ رکھنے والی ہالی وڈ کی کئی فلموں میں اس فن کار نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا جن میں مذکورہ فلم کے علاوہ ’سپارٹیکس‘ اور ’دی ڈیفینیٹ ونس‘ شامل ہیں۔

    ٹونی 1950ء کی دہائی کے مقبول، کام یاب ترین اور وجیہ صورت اداکاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے فلموں اور ڈراموں دونوں میں کام کیا اور ہر جگہ کام یاب رہے۔

    کرٹس کو دی ڈیفینیٹ ونس میں عمدہ کردار نگاری پر ‘اکیڈمی ایورڈ’ کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا، مگر وہ یہ ایوارڈ نہ جیت سکے۔ انھیں فلمی دنیا کے دیگر کئی اعزازات سے نوازا گیا جب کہ لاس اینجلس میں ان کا نام ‘والک آف دے فیم’ پر بھی روشن ہوا۔

    2008ء میں ٹونی کرٹس کی سوانحِ حیات بھی شائع ہوئی، جس میں انھوں نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے فن کاروں سے اپنے تعلقات اور اپنے بچپن کی یادوں کے ساتھ اداکاری کے میدان میں اپنے سفر کی روداد بیان کی ہے۔

    ٹونی کرٹس نے اپنے فلمی کیریئر میں 140 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انھوں نے زیادہ تر میں فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کیے۔

    ٹونی کرٹس نے چھے شادیاں کی تھیں۔ وہ ایک زمانے میں آوارہ مزاج اور عیّاش بھی مشہور تھے۔

  • یومِ وفات: محمود صدیقی نے دیواریں اور جنگل جیسے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کی

    یومِ وفات: محمود صدیقی نے دیواریں اور جنگل جیسے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کی

    آج پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو کے معروف فن کار محمود صدیقی کی برسی ہے۔ وہ سن 2000ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور شہرت حاصل کی۔

    محمود صدیقی نے 1944ء میں سندھ کے مشہور شہر سکھر کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی۔ قانون کی تعلیم حاصل کی اور نام ور ادیب اور شاعر شیخ ایاز کے جونیئر کے طور پر وکالت کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ شروع ہی سے انسانی حقوق، مختلف سیاسی اور سماجی امور کے حوالے سے نظریاتی اور عملی سرگرمیوں میں دل چسپی لیتے رہے اور سیاست کا شوق ہوا تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے جڑ گئے۔ اس پلیٹ فارم سے سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    محمود صدیقی نے مختصر وقت کے لیے ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر اور کچھ عرصہ روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں بھی کام کیا۔

    1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے سندھی ڈرامہ بدمعاش سے اداکاری کا آغاز کیا اور زینت، گلن وار چوکری، تلاش اور رانی جی کہانی سے خاصے مقبول ہوئے۔

    اردو زبان میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’دیواریں‘‘ ان کی ملک گیر شہرت کا آغاز ثابت ہوا جس کے بعد جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں نے ان کی شہرت کو مزید استحکام بخشا۔ ڈرامہ کارواں کے لیے بہترین اداکاری پر انھیں پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے نہلے پہ دہلا کے نام سے ایک سیریل بنائی تھی جسے بہت پسند کیا گیا۔

    محمود صدیقی کراچی میں ڈالمیا کے نزدیک ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • بالی وڈ اداکار امجد خان کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ’’گبر سنگھ‘‘ بنا

    بالی وڈ اداکار امجد خان کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ’’گبر سنگھ‘‘ بنا

    بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’’شعلے‘‘ کے ’’گبر سنگھ‘‘ کو کون نہیں‌ جانتا۔ اداکار امجد خان کو اس کردار نے ایسی منفرد شناخت دلائی، جو آج بھی قائم ہے۔ ان کا یہ کردار شائقین میں اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ تفریحاً اس کی آواز، انداز اور چال ڈھال کی نقل کرنے لگے۔ یہی نہیں‌ بلکہ اس کا ایک مکالمہ ’سو جا بیٹے ورنہ گبر آجائے گا‘ آج بھی موقع کی مناسبت سے بے ساختہ زبان پر آجاتا ہے۔

    امجد خان 1992ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 12 نومبر 1940ء کو پیدا ہونے والے امجد خان کو اداکاری وراثت میں ملی تھی۔ ان کے والد بھی فلموں میں‌ ولن کے کردار نبھانے کے لیے مشہور تھے۔

    بطور اداکار امجد خان نے اپنے کیریئرکا آغاز 1957ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’اب دہلی دور نہیں‘‘ سے کیا تھا۔ اور 1975ء میں فلم شعلے نے انھیں‌ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ انھوں‌ نے ایکشن فلموں کے ساتھ کامیڈی فلموں میں‌ بھی کام کیا۔ بالی وڈ کے اس کام یاب ولن نے خون پسینہ، کالیہ، دیش پریمی، نصیب، مقدر کا سکندر، سہاگ اور رام بلرام میں منفی کردار نبھائے اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔

    ’شطرنج کے کھلاڑی‘ وہ فلم تھی جو ’شعلے‘ کی نمائش کے دو برس سنیما پر سجی اور امجد خان کو اودھ کے نواب واجد علی شاہ کے سنجیدہ کردار پر حاوی دیکھا گیا۔ اسی طرح فلم قربانی‘ کے انسپکٹر خان اور ’چمیلی کی شادی‘ کے ایڈووکیٹ ہریش کے کرداروں نے انھیں باکمال ثابت کیا اور پھر مالا مال اور ہمّت والا جیسی فلموں میں انھوں‌ نے ہلکے پھلکے مزاحیہ کردار نبھا کر شائقین کو محظوظ کیا۔ ان کا ایک حوالہ فلمی ہدایت کاری بھی ہے۔

    1986ء میں امجد خان نے ایک کار حادثے میں موت کو تو شکست دے دی تھی، لیکن علاج اور ادویہّ کے مسلسل استعمال کے باعث ان کا جسم فربہی کی طرف مائل ہوگیا جس کی وجہ سے انھیں فلم نگری سے دور ہونا پڑا۔ ممبئی میں وفات پانے والے امجد خان زندگی کے آخری ایّام میں مختلف بیماریوں کا شکار رہے۔