Tag: اداکار برسی

  • پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے اداکاروں میں محمود صدیقی کو ان کے منفرد انداز اور دلنواز لب و لہجے کی بدولت پہچانا جاتا تھا۔ ان کا شمار سینئر اداکاروں میں ہوا۔ انھوں نے پی ٹی وی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار نبھائے۔

    محمود صدیقی 2000ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق سندھ کے مشہور شہر سکھر سے تھا۔ محمود صدیقی نے 1944ء میں ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں‌ نے قانون کی مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سندھ سے تعلق رکھنے والے نام ور شاعر اور ادیب شیخ ایاز بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ محمود صدیقی نے ان کے جونیئر کے طور پر وکالت کا آغاز کیا تھا۔ شیخ ایاز کی صحبت میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا محمود صدیقی شروع ہی سے انسانی حقوق کا شعور رکھتے تھے اور سیاسی و سماجی کاموں میں دل چسپی لیتے تھے۔
    انھوں نے ایک نظریاتی کارکن کے طور پر خود کو سیاسی پلیٹ فارم سے متحرک کرنے کا فیصلہ کیا تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن ان کا انتخاب تھی۔ وہ اس سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانہ میں محمود صدیقی نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    محمود صدیقی نے مختصر عرصہ ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر بھی گزارا اور قلیل مدّت کے لیے روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ 1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے ایک سندھی ڈرامہ بدمعاش سے اداکاری کا آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں وہ زینت، گلن وار چوکری، تلاش اور رانی جی کہانی میں نظر آئے اور اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے پی ٹی وی کے ناظرین میں خاصے مقبول ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت اردو زبان میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’دیواریں‘‘ تھا۔ اس ڈرامہ نے محمود صدیقی کو ملک گیر شہرت دی اور پھر انھیں مزید ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سبھی یادگار ثابت ہوئے۔ ان میں مشہور ڈرامہ جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں شامل ہیں۔ محمود صدیقی کو ڈرامہ کارواں میں بہترین اداکاری پر پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک سیریل نہلے پہ دہلا کے نام سے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی۔

    اداکار محمود صدیقی کراچی میں ڈالمیا روڈ پر ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    ایک زمانہ تھا جب بولی وڈ پر راجیش کھنہ کا راج تھا۔ فلم بینوں اور مداحوں نے ان کے لیے جس دیوانگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم فن کاروں کا مقدر بنا ہے۔ عالم یہ تھا کہ مداح لڑکیاں‌ ان کی کار پر بوسے دیتیں، چہرے اور بازو پر آٹو گراف دینے کی فرمائش کی جاتی اور راجیش کھنہ کی ایک جھلک دیکھنے کو گھنٹوں ان کے مداح سڑک پر کھڑے رہتے۔ اس اداکار کو بولی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے 1960 سے 70 کے عشرے میں راجیش کھنہ نے جس فلم میں بھی کام کیا وہ باکس آفس پر ہٹ ہوگئی اور فلم ساز ان سے وقت لینے کے لیے گھر کے باہر کھڑے نظر آتے۔

    راجیش کھنہ سے پہلے بھی کئی نام مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھو رہے تھے جن میں دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور جیسے اداکار شامل تھے۔ لیکن مداحوں نے راجیش کھنہ کے لیے جس جنون اور وارفتگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔

    اداکار راجیش کھنہ 29 دسمبر 1942ء کو غیر منقسم پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پہلی فلم ’آخری خط‘ تھی۔ راجیش کھنہ کو شہرت جس فلم سے ملی وہ ارادھنا تھی۔ اس سے پہلے راجیش کھنہ 1966ء میں چیتن آنند کی فلم آخری خط میں‌ کام کرچکے تھے مگر ارادھنا نے انھیں شہرت کی جن بلندیوں پر پہنچایا وہ خود ان کے لیے ناقابل فراموش ثابت ہوا۔ فلم نے گولڈن جوبلی مکمل کی۔ فلم میں ان کا ڈبل رول تھا اور راجیش کھنہ کی نشیلی آنکھیں‌ اور سر کو جھٹکنے کا انداز شائقین کو بہت بھایا۔ اس کے بعد انھوں نے متواتر کئی ہٹ فلمیں انڈسٹری کو دیں۔

    راجیش کھنہ کی مشہور اور ہم فلموں میں ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ شامل ہیں‌ جب کہ ’آپ کی قسم‘، ’دو راستے‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ سپر ہٹ فلمیں ثابت ہوئیں۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ کی مقبولیت کا یہ سلسلہ طویل نہیں تھا بلکہ جس تیزی سے انھوں نے شہرت کے ہفت افلاک طے کیے، اسی طرح ایک ٹھہراؤ بلکہ زوال کا آغاز بھی ہوا۔ راجیش کھنہ نے اپنے بنگلے کا نام آشیرواد رکھا تھا جس میں وہ فلم بابی کی ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ کو بیاہ کر لائے تھے۔ وہ فلمی دنیا میں اور اپنے مداحوں کے درمیان بھی ’کاکا‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی بیٹی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ہیں۔ اداکار کئی عوارض کی وجہ سے جسمانی پیچیدگیوں کا سامنا کررہے تھے جس کے بعد ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور 18 جولائی 2012ء کو راجیش کھنہ انتقال کرگئے۔ غصہ کرنا اور شراب نوشی راجیش کھنہ کی وہ خراب عادات تھیں جس نے ان کی خانگی زندگی کو بھی نقصان پہنچایا اور ٹوئنکل کھنہ بہت جلد ان سے دور ہوگئیں۔ وہ وقت بھی آیا کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہ گھر چھوڑ دیا جس میں وہ سپر اسٹار کی شریکِ سفر بن کر آئی تھیں۔

    راجیش کھنہ پر فلمائے گئے مقبول ترین گیتوں میں ’میرے سپنوں کی رانی‘، ’کورا کاغذ تھا یہ من میرا‘ اور ’روپ تیرا مستانہ‘، ’یہ جو محبت ہے‘، ’یہ شام مستانی‘ اور ’ہمیں تم سے پیار کتنا‘ شامل ہیں۔

    اداکار کی آخری کام یاب فلم نوّے کی دہائی میں ’سوّرگ‘ تھی۔ بعد میں انھوں نے ’آ اَب لوٹ چلیں‘، ‘کیا دل نے کہا‘ اور ’وفا‘ نامی فلموں میں بھی کام کیا مگر اب اُن کا دور ختم ہو چکا تھا۔ دلوں میں بسنے اور باہر کی دنیا میں ہر وقت سیکڑوں نگاہوں میں‌ رہنے والا یہ اداکار عمر کے آخری دنوں میں‌ تنہائی کا شکار رہا۔

  • رومانوی اور میوزیکل فلموں کے مقبول اداکار رحمان کا تذکرہ

    رومانوی اور میوزیکل فلموں کے مقبول اداکار رحمان کا تذکرہ

    رحمان، پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایک مشہور اداکار تھے جنھوں نے رومانوی اور میوزیکل فلموں میں‌ اداکاری سے پہچان بنائی اور بطور ہیرو مقبول ہوئے۔ اردو کے علاوہ انھوں نے بنگالی فلموں میں بھی یادگار کردار نبھائے۔ پاکستانی فلمی صنعت کے زوال کے بعد رحمان بنگلہ دیش چلے گئے تھے اور وہیں وفات پائی۔

    اداکار رحمان کا پورا نام عبدالرحمان تھا۔ انہی کے زمانہ کے ایک ہم نام بھارتی فلم انڈسٹری کے اداکار بھی بہت مشہور تھے جو کئی فلموں میں بطور ہیرو کام نظر آئے مگر ان کا انتقال پاکستانی اداکار رحمان سے بہت پہلے ہوا تھا۔ پاکستانی اداکار رحمان 27 فروری 1937 کو مشرقی ہندوستان کے پنچ گڑھ کے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا۔ وہ سب سے پہلے ہدایت کار احتشام کی بنگالی فلم ’’ایہہ دیش تمارامر‘‘ میں بطور ولن سامنے آئے تھے۔ یہ فلم 1959 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد انھیں بنگالی اور اردو فلموں میں ہیرو کے طور پر لیا جانے لگا۔ رحمان اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ شبنم کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ انھوں نے 1958 سے لے کر 1970 کے آخر تک کراچی، ڈھاکہ اور لاہور کی فلموں میں کام کیا۔ رحمان نے کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ رحمان کی سپرہٹ اردو فلموں میں ’’چندا (1962)، تلاش (1963)، بہانہ (1965)، درشن (1967)، دوستی (1971) اور چاہت (1974)‘‘کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

    اداکار رحمان مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں یکساں طور پر فلم بینوں میں مقبول تھے۔ ان کی رومانوی اور میوزیکل فلمیں یادگار ثابت ہوئیں اور ہیرو رحمان پر بڑے شاندار نغمات عکس بند کیے گئے۔ اداکار نے 1974 میں ایک سسپنس فلم ’’دھماکہ‘‘ میں کام کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فلم ابنِ صفی کے ناول سے ماخوذ تھی، لیکن فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور فلم سازوں نے مان لیا کہ رحمان صرف رومانوی اور میوزیکل فلموں کے لیے ہی موزوں ہیں۔

    متحدہ پاکستان کے دور کے اس اداکار نے 60 کی دہائی میں بطور ہدایت کار بھی کام یابیاں سمیٹیں۔ اسی زمانہ میں‌ وہ ایک حادثے کا شکار ہوئے۔ فلم ’’پریت نہ جانے ریت‘‘ کی شوٹنگ کے دوران ایک حادثہ میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے اور انھیں مصنوعی ٹانگ لگوانا پڑی۔ رحمان نے دوبارہ فلم انڈسٹری میں‌ کام شروع کیا اور کام یابیوں کا سفر جاری رکھا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد رحمان نے ایک عرصہ پاکستان میں رہے، مگر 90 کی دہائی میں بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔

    رحمان کو ایکشن فلموں میں کام کرنا پسند نہیں تھا۔ ان کی اداکاری کا سب سے بڑا وصف فطری پن تھا۔ وہ بڑے دھیمے انداز میں مکالمے بولتے تھے جسے شائقین نے سراہا۔ وہ گانے بھی بڑی عمدگی سے عکس بند کراتے تھے کیوں‌ کہ وہ خود بھی موسیقی اور گائیکی کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ ان کی فلموں کے کئی گیت ہٹ ہوئے جن میں یہ موسم یہ مست نظارے (درشن)، تمہارے لیے اس دل میں اتنی محبت ہے (درشن)، پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)، ایسے وہ شرمائے (دو ساتھی)، دیکھو یہ کون آ گیا (دو ساتھی) اور دوسرے گیت شامل ہیں۔

    بنگلہ دیش جانے کے بعد رحمان نے وہاں بنگالی فلموں میں کام کیا اور اپنی مقبولیت برقرار رکھی۔ وہ 18 جولائی 2005 کو طویل علالت کے بعد ڈھاکہ میں انتقال کرگئے تھے۔

  • یادِ رفتگاں: ’’انوکھی‘‘ کا مقبول ترین فلمی گیت اور شیلا رامانی

    یادِ رفتگاں: ’’انوکھی‘‘ کا مقبول ترین فلمی گیت اور شیلا رامانی

    تقسیمِ ہند کے بعد ابتدائی برسوں میں جہاں پاکستانی فلم انڈسٹری میں شان دار کام ہوا اور معیاری فلمیں بنائی گئیں، وہیں اس دور میں سرحد پار سے بھی فن کاروں کو پاکستانی فلموں میں کام کرنے اک موقع ملا اور انھوں نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کی۔ ممبئی کی فلم انڈسٹری کی ایک اداکارہ شیلا رامانی بھی انہی میں سے ایک تھیں۔

    وہ لوگ جو زندگی کی ساٹھ سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں، اور سنیما کے شوقین رہے ہیں، انھوں نے شیلا رامانی کی وہ پاکستانی فلم ضرور دیکھی ہوگی جس کا یہ گیت بہت مقبول ہوا، ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…‘‘ یہ فلم ’’انوکھی‘‘ کا گیت تھا۔ اس کے ہدایت کار شاہ نواز تھے۔ فلم کی ہیروئن شیلا رامانی تھیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل صوبۂ سندھ کے ایک شہر میں پیدا ہوئیں، اور بعد میں ہجرت کرکے بھارت چلی گئی تھیں جہاں وہ ممبئی کی فلم نگری سے وابستہ رہیں۔ فلم انوکھی میں شیلا رامانی کے مدمقابل اداکار شاد نے کام کیا تھا۔ اس فلم کے لیے شیلا رامانی کو خصوصی طور پر بمبئی سے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ 1956 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں شیلا رامانی نے بلاشبہ عمدہ کام کیا۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔

    شیلا رامانی 2015ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ 2 مارچ 1932ء کو پیدا ہونے والی شیلا رامانی کو چیتن آنند نے بولی وڈ میں متعارف کرایا تھا۔ 1954ء میں اداکارہ کی فلم ٹیکسی ڈرائیور ریلیز ہوئی تو انھیں بڑے پردے کے شائقین نے بہت سراہا۔ شیلا رامانی کی ایک سندھی فلم ابانا ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔ اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ شادی کے بعد شیلا رامانی امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    اداکارہ نے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستگی کے دوران ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار، جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کیا۔

  • سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    پاکستانی فلمی صنعت سنتوش کمار کو رومانوی فلموں‌ کے ایک بے مثال اداکار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی جو اپنے وقت کے مقبول ترین ہیرو بھی تھے جاذب و پُرکشش شخصیت کے مالک سنتوش کمار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش کمار نے بطور ہیرو زبردست کام یابیاں سمیٹیں‌ اور ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ بحیثیت اداکار سنتوش کی شہرت و مقبولیت کے علاوہ ایک باعثِ پذیرائی صبیحہ خانم سے شادی بھی تھا۔ صبیحہ خانم بھی پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن تھیں اور نہایت باوقار خاتون تھیں جن کی کام یاب شادی فلم انڈسٹری کے لیے مثال بھی ہے۔ یہ دونوں فن کا عام زندگی میں بھی اپنے حسنِ اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی وجہ سے بھی لوگوں کی نظر میں قابل احترام رہے ہیں۔

    بطور اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر نظر آئے تھے۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ وہ اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلمی دنیا کی طرف آئے تھے۔ انھوں نے ہیرو کا ایک رول اس وقت قبول کیا جب تقسیمِ ہند کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کلکتہ اور ممبئی کے ساتھ لاہور بڑے فلمی مراکز تھے۔ اداکار سنتوش نے بمبئی سے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں پاکستان ہجرت کر کے آئے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں اداکار سنتوش نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار کو ان کی بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    اداکار سنتوش کمار 1978ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    طلعت حسین: فن کی دنیا کے ”عالی جاہ‘‘کا تذکرہ

    اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ طلعت حسین نے فن کی دنیا میں نصف صدی اپنے نام کی ہے۔ تھیٹر سے ریڈیو، ٹی وی ڈراموں اور فلموں تک ان کا فنی سفر یادگار اور بے مثال ہے۔سینئر اداکار طلعت حسین پچھلے برس 84 سال کی عمر میں‌ انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ طلعت حسین کو عالی جاہ بنانے والے حمید کاشمیری

    طلعت حسین کو بطور صدا کار ان کے منفرد لب و لہجے کے ساتھ عمدہ تلفظ کی وجہ سے الگ پہچان ملی طلعت حسین کو شروع ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ وہ انگریزی اور اردو ادب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ اداکاری کے میدان میں ان کا مخصوص اور متاثر کن انداز انھیں ہم عصروں میں امتیاز بخشتا ہے۔

    طلعت حسین سنہ 1940 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ طلعت حسین کا پورا نام طلعت حسین وارثی تھا۔ ان کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان کی مقبول اناؤنسر تھیں جب کہ ان کے والد الطاف حسین وارثی انڈین سول سروس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ان کی فیملی 1947ء میں ہجرت کر کے کراچی پہنچی۔ پاکستان آنے کے بعد والد کی بیماری کے باعث مالی حالات بہت خراب ہو گئے۔ ان کی والدہ نے ریڈیو پر ملازمت اختیار کر لی۔ طلعت حسین نے یہاں اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ گھر کے نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی ماسٹر کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ معاش کے لیے کئی چھوٹی موٹی نوکریاں بھی کیں اور فن کی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    طلعت حسین کو شہرت سنہ 1970 سے ملنا شروع ہوئی۔ اسٹیج اور تھیٹر پر انھوں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور پھر ٹی وی ڈراموں نے انھیں ملک گیر شہرت دی۔ طلعت حسین کے مقبول ڈراموں میں پرچھائیاں، ہوائیں، کشکول، طارق بن زیاد، دیس پردیس اور دیگر شامل ہیں۔ فن کی دنیا کے کئی ایوارڈ اپنے نام کرنے والے طلعت حسین کو حکومت نے ستارۂ امتیاز اور تمغائے حسن کارکرگی سے نوازا۔

    اداکاری و صدا کاری دونوں ہی شعبہ جات میں طلعت حسین بلاشبہ ایک منجھے ہوئے فن کار کے طور پر مشہور تھے۔ طلعت حسین نے اپنے فن کے سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو وہ ڈراموں کی جانب آ گئے۔ ان کا پہلا ڈرامہ ”ارجمند‘‘ تھا جو 1967ء میں آن ایئر ہوا۔ 1972ء میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور ”لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ وہاں برطانوی ڈرامہ میں بھی کام کیا اور متعدد غیر ملکی فلموں، ٹی وی ڈراموں اور طویل دورانیے کے کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ ناروے کی فلم ”امپورٹ ایکسپورٹ‘‘ میں وہ بہترین معاون اداکار کا ”ایمنڈا ایوارڈ‘‘ بھی لینے میں کام یاب ہوئے تھے۔ اس فلم میں انھوں نے اللہ دتہ نامی شخص کا کردار ادا کیا تھا۔ ایک بھارتی فلم ”سوتن کی بیٹی‘‘ میں طلعت حسین نے اداکارہ ریکھا اور جیتندر کے ساتھ کام کیا تھا۔ 1970ء میں طلعت حسین فلم ”انسان اور آدمی‘‘ میں نظر آئے جب کہ فلم ”گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کا کردار ادا کرنے پر بہترین اداکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔

    1998ء میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر بننے والی فلم ”جناح‘‘ میں بھی انھوں نے کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ہالی ووڈ کے اداکار کرسٹوفر لی اور بھارتی اداکار ششی کپور نے بھی کام کیا تھا۔

  • وہ اردو فلم جس کا ٹائٹل ہی مزاحیہ اداکار منور ظریف کے نام پر رکھا گیا

    وہ اردو فلم جس کا ٹائٹل ہی مزاحیہ اداکار منور ظریف کے نام پر رکھا گیا

    منور ظریف کا نام پاکستانی فلموں کے مشہور کامیڈین کے طور پر لیا جاتا ہے جو بے مثال شہرت اور مقبولیت کے حامل رہے۔ منور ظریف نے ابتدائی دور ہی میں اپنی بے ساختہ پرفارمنس اور چہرے کے تاثرات سے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور وہ مقبول ترین مزاحیہ اداکاروں میں شامل ہوئے۔

    منور ظریف کی آج برسی منائی جا رہی ہے اور اس مناسبت سے ہم اُس فلم کا تذکرہ کریں گے جو اپنے ٹائٹل کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ کی واحد فلم کہی جاسکتی ہے جسے دو مزاحیہ اداکاروں‌ کے نام سے ریلیز کیا گیا۔ یہ اداکار تھے رنگیلا اور منور ظریف۔ فلم کا نام ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘ تھا۔ نذر آرٹ پروڈکشنز کے بینر تلے عکس بند ہونے والی اس فلم کو شباب کیرانوی نے ہدایت کار نذر شباب اور موسیقار ایم اشرف کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ فلم میں صاعقہ اور شائستہ قیصر بالترتیب ان دونوں کے مقابل ہیروئن تھیں اور دیگر فن کار اورنگ زیب، ممتاز، نذر، آشا پوسلے، ساقی، نجمہ محبوب، اسلم پرویز اور دیگر شامل تھے۔

    یہ مزاحیہ اور نغماتی فلم لاہور پنجاب سرکٹ میں 30 نومبر 1973ء کو ریلیز ہوئی، جب کہ کراچی سندھ سرکٹ میں 5 جنوری 1974ء کو اسکرین کی زینت بنی۔ پورے ملک میں اس فلم نے باکس آفس پر خوب بزنس کیا۔ اس میں بھی رنگیلا اور منور ظریف کی کامیڈی سے شائقین بہت محظوظ ہوئے۔ منور ظریف نے اس فلم کی کہانی کے تناظر میں ایک ڈبل رول خان بہادر اشتیاق علی کا نبھایا۔ باقی پوری فلم میں اُن کے کردار کا نام منور ظریف ہی تھا۔ یہ وہ فلم تھی جس سے ثابت ہوا کہ اس زمانے میں ان اداکاروں کے نام پر فلمیں بزنس کرتی تھیں۔

    اداکار منور ظریف 1976ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئے تھے۔ منور ظریف 2 فروری 1940ء کو لاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلم اونچے محل سے اپنے مزاحیہ فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا، لیکن اس فلم کی نمائش سے پہلے ان کی ایک اور فلم ڈنڈیاں ریلیز کردی گئی تھی۔ یوں اسی کو منور‌ ظریف کی پہلی فلم کہا جاتا ہے۔ منور ظریف نے پنجابی اور چند اردو فلموں میں بھی کام کیا۔ اداکار منور ظریف کا فلمی کیریئر 15 سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے ساڑھے تین سو فلمیں کیں۔ اداکار کی پہلی سپر ہٹ فلم ہتھ جوڑی تھی۔ منور ظریف کی مقبولیت اور فلمی دنیا میں‌ ان کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک تو فلم کا ٹائٹل ان کے نام پر تھا اور دوسرا فلم سازوں نے ان کی شخصیت کے مطابق فلمی سین اور مکالمے لکھوانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

    بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام ان کی کام یاب ترین فلموں میں سے ایک ہیں۔ منور ظریف کی آخری فلم لہو دے رشتے تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔

    منور ظریف لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شیام سندر چڈھا: مقبول فلمی ہیرو جو رنگین مزاج اور دل پھینک بھی مشہور تھا

    شیام سندر چڈھا: مقبول فلمی ہیرو جو رنگین مزاج اور دل پھینک بھی مشہور تھا

    متحدہ ہندوستان کی فلمی دنیا کا ایک نام شیام سندر چڈھا بھی ہے جنھیں بطور ہیرو ہی مقبولیت نہیں ملی بلکہ وہ اپنے رومانس اور اسکینڈلز کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے تھے۔

    25 اپریل 1951ء کو شیام نے ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار دی تھی۔ وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے تھے اور زندہ نہ بچ سکے۔ اس زمانے کے مقبول ترین فلمی جرائد نے اس افسوس ناک حادثے کی تفصیلات کے ساتھ شیام کی زندگی پر مضامین شایع کیے تھے۔ شیام کا خاندان تقسیم سے قبل راولپنڈی میں آباد تھا۔ ان کے دادا گاؤں کے پٹواری اور علاقے کے چند پڑھے لکھے اور صاحب ثروت لوگوں میں سے تھے۔ شیام نے فروری 1920 میں سیتا رام کے ہاں جنم لیا۔ والد ان کے فوج میں تھے۔ شیام کی والدہ چنن دیوی کا انتقال ہوگیا تو انھوں نے دوسری شادی کرلی جس نے شیام اور سارے بچوں کی پرورش کی۔ طالبِ علمی کے دور میں‌ ڈرامہ اور مباحث نے شیام کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا اور پھر اوائل جوانی میں وہ سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہو گئے جس نے انھیں روشن خیال اور فن و ادب سے ان کا لگاؤ بھی بڑھا دیا۔ بعد میں وہ تھیٹر اور فلمی دنیا میں‌ مشغول ہوگئے۔ شیام نے اپنی 10 سالہ فلمی زندگی میں بازار، کنیز، دل لگی، رات کی کہانی، چاندنی، مینا بازار نامی فلموں میں کام کیا تھا۔

    اداکار شیام افسانہ نگار اور فلم رائٹر سعادت حسن منٹو کے گہرے دوستوں میں سے ایک تھے۔ معروف صحافی اور ادیب علی سفیان آفاقی لکھتے ہیں:‌ وہ (شیام) اپنے رومان اور اسکینڈلوں کے لیے بہت مشور تھے۔ دراز قد، کھلتا ہوا رنگ، متناسب جسم، شوخ آنکھیں اور بات بات پر مسکرانا اور قہقہہ لگانا ان کی عادت تھی۔ ہندوستانی فلموں کے اداکار شیام کے مختلف فلمی ہیروئنوں کے ساتھ دوستیوں کے چرچے ہوتے رہتے تھے۔ ان کی کئی فلمیں بہت کام یاب ہوئی تھیں، اپنی دل کش شخصیت اور خوش مزاجی کی وجہ سے وہ فلمی دنیا میں بہت مقبول تھے۔ اس زمانے میں اخبارات میں فلمی دنیا کی خبریں شائع نہیں ہوتی تھیں۔ اس مقصد کے لئے بہت اچھے اور خوبصورت فلمی میگزین نکلا کرتے تھے جن سے فلمی دنیا اور فلمی لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی رہتی تھیں۔ ایک دن معلوم ہوا کہ شیام گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گئے۔ یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کیونکہ شیام بہت اچھے گھڑ سوار تھے۔ بعد میں تفصیل معلوم ہوئی کہ شیام ایک فلم "شبستان” کی شوٹنگ کے لئے گھڑ سواری کر رہے تھے۔ اچانک گھوڑا بدک گیا اور شیام گھوڑے سے نیچے گر گئے۔ گرنے سے زیادہ چوٹ نہیں آئی لیکن المیہ یہ ہوا کہ ان کا پیر رکاب میں پھنس گیا تھا۔ گھوڑا مسلسل بھاگتا رہا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو پکڑ کر شیام کا پیر رکاب سے نکالا۔ مگر کافی دور تک زمین پر گھسیٹنے اور سَر کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے شدید چوٹیں آئی تھیں۔ انہیں فوراً اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکے۔ اس طرح ایک ہنستا کھیلتا خوش باش اداکار چند لمحے میں زندگی سے رشتہ توڑ گیا۔

    شیام جس وقت دنیا سے رخصت ہوئے اس وقت وہ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ تھے۔ شیام رنگین مزاج اور دل پھینک تو تھے ہی۔ اس زمانے میں ایک سوشل گرل ممتاز قریشی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات پسندیدگی اور پھر پیار میں تبدیل ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب شیام نے بمبئی میں رہائش اختیار کی تو ان کی شادی شدہ زندگی بہت خوشگوار تھی۔ شیام دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن دو بچے اور ایک بیوی چھوڑ گئے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ شیام کی ہلاکت کے بعد تاجی اپنے بچوں کو لے کر بمبئی سے لاہور آ گئی۔ ان کا ایک بیٹا شاکر اور ایک بیٹی ساحرہ ساتھ تھی، ممتاز بیگم عرف تاجی نے روالپنڈی کے ایک بڑے عہدے دار سے شادی کرلی جس نے تاجی اور شیام کے بچوں کو اپنے حقیقی بچوں کی طرح پالا پوسا، اعلی تعلیم دلوائی اور انہیں ہر وہ سہولت فراہم کی جو ایک باپ اپنے بچوں کو دے سکتا ہے۔

    شیام کا اصل نام شیام سندر چڈھا تھا۔ اس کے گھرانے کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ چڈھا پنجابی ہندو کتھری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیام کی پرورش راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ اس نے پنڈی کے مشہور گورڈن کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیام نے فلمی صنعت میں کام کرنے کا ارادہ کیا۔ شیام نے اداکاری کا آغاز ایک پنجابی فلم "گوانڈی” سے کیا۔ یہ فلم 1942ء میں بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد وہ بمبئی چلا گیا جہاں اداکار کی حیثیت سے اس کو بہت کامیابیاں حاصل ہوئیں اور وہ ایک مقبول ہیرو بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم اور فلم آرٹسٹوں کے واقعات اور شخصی خاکے لکھے ہیں اور شیام سے بھی ان کی گہری دوستی تھی۔ منٹو نے سندر شیام چڈھا کا بھی خاکہ لکھا ہے۔

    1942ء میں جب شیام نے فلموں میں کام شروع کیا تھا تو منٹو بھی فلم کے لیے کہانیاں اور مکالمے لکھنے میں مصروف تھے اور وہیں ان کی دوستی کا آغاز بھی ہوا۔ منٹو اپنے ایک خاکے میں شیام سے متعلق لکھتے ہیں: شیام صرف بوتل اور عورت ہی کا رسیا نہیں تھا۔ زندگی میں جتنی نعمتیں موجود ہیں، وہ ان سب کا عاشق تھا۔ اچھی کتاب سے بھی وہ اسی طرح پیار کرتا تھا جس طرح ایک اچھی عورت سے کرتا تھا۔ اس کی ماں اس کے بچپن ہی میں مر گئی تھی مگر اس کو اپنی سوتیلی ماں سے بھی ویسی ہی محبت تھی، جو حقیقی ماں سے ہوسکتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سوتیلے بہن بھائی تھے۔ ان سب کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صرف اس کی اکیلی جان تھی۔ جو اتنے بڑے کنبے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

    ایک عرصے تک وہ انتہائی خلوص کے ساتھ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ اس دوران میں تقدیر نے اسے کئی غچے دیے مگر وہ ہنستا رہا، ’’جانِ من ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تو میری بغل میں ہوگی۔‘‘ اور وہ کئی برسوں کے بعد آخر وہ دن آہی گیا کہ دولت اور شہرت دونوں اس کی جیب میں تھیں۔

    موت سے پہلے اس کی آمدنی ہزاروں روپے ماہوار تھی۔ بمبے کے مضافات میں ایک خوبصورت بنگلہ اس کی ملکیت تھا اور کبھی وہ دن تھے کہ اس کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تھی، مگر مفلسی کے ان ایام میں بھی وہی ہنستا ہوا شیام تھا۔ دولت و شہرت آئی تو اس نے ان کا یوں استقبال نہ کیا جس طرح لوگ ڈپٹی کمشنر کا کرتے ہیں۔ یہ دونوں محترمائیں اس کے پاس آئیں تو اس نے ان کو اپنی لوہے کی چارپائی پر بٹھا لیا اور پٹاخ پٹاخ بوسے داغ دیے۔

    میں اور وہ جب ایک چھت کے نیچے رہتے تھے تو دونوں کی حالت پتلی تھی۔ فلم انڈسٹری ملک کی سیاسیات کی طرح ایک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہی تھی۔ میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ اس کا وہاں ایک پکچر کا کنٹریکٹ تھا دس ہزار روپے میں۔ عرصے کی بیکاری کے بعد اس کو یہ کام ملا تھا۔ مگر وقت پر پیسے نہیں ملتے تھے۔ بہرحال ہم دونوں کا گزر کسی نہ کسی طور ہو جاتا تھا۔ میاں بیوی ہوتے تو ان میں روپے پیسے کے معاملے میں ضرور چخ چخ ہوتی، مگر شیام اور مجھے کبھی محسوس تک نہ ہوا۔ ہم میں سے کون خرچ کررہا ہے اور کتنا کررہا ہے۔

    ایک دن اسے بڑی کوششوں کے بعد موٹی سی رقم ملی (غالباً پانچ سو روپے تھے) میری جیب خالی تھی۔ ہم ملاڈ سے گھر آرہے تھے۔ راستے میں شیام کا یہ پروگرام بن گیا کہ وہ چرچ گیٹ کسی دوست سے ملنے جائے گا۔ میرا اسٹیشن آیا تو اس نے جیب سے دس دس روپے کے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ آنکھیں بند کر کے اس کے دو حصے کیے اور مجھ سے کہا، ’’جلدی کرو منٹو۔۔۔ ان میں سے ایک لے لو۔‘‘

    میں نے گڈی کا ایک حصہ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا۔ اور پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ شیام نے مجھے’’ٹاٹا‘‘ کہا اور کچھ نوٹ جیب سے نکال کر لہرائے، ’’تم بھی کیا یاد رکھو گے سیفٹی کی خاطر میں نے یہ نوٹ علیحدہ رکھ لیے تھے۔۔۔ ہیپ ٹلا!‘‘ شام کو جب وہ اپنے دوست سے مل آیا تو کباب ہورہا تھا۔ مشہور فلم اسٹار’’کے کے‘‘ نے اس کو بلایا تھا کہ وہ اس سے ایک پرائیویٹ بات کرنا چاہتی ہے۔ شیام نے برانڈی کی بوتلیں بغل میں سے نکال کر اور گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈال کر مجھ سے کہا، ’’پرائیویٹ بات یہ تھی۔ میں نے لاہور میں ایک دفعہ کسی سے کہا تھا کہ ’’کے کے‘‘ مجھ پر مرتی ہے۔ خدا کی قسم بہت بری طرح مرتی تھی۔ لیکن ان دنوں میرے دل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اس نے مجھے اپنے گھر بلا کر کہا کہ تم نے بکواس کی تھی۔ میں تم پر کبھی نہیں مری۔ میں نے کہا تو آج مر جاؤ۔ مگر اس نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور مجھے غصے میں آکر اس کے ایک گھونسہ مارنا پڑا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا، ’’تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا؟‘‘ شیام نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا جو زخمی ہو رہا تھا، ’’کم بخت آگے سے ہٹ گئی۔ نشانہ چوکا اور میرا گھونسہ دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خوب ہنسا، ’’سالی بیکار تنگ کررہی ہے۔‘‘

    میں نے اوپر روپے پیسے کا ذکر کیا ہے۔ غالباً دو برس پیچھے کی بات ہے۔ میں یہاں لاہور میں فلمی صنعت کی زبوں حالی اور اپنے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے مقدمے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ عدالتِ ماتحت نے مجھے مجرم قرار دے کر تین مہینے قیدِ بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ میرا دل اس قدر کھٹا ہوگیا تھا کہ جی چاہتا تھا، اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کردوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ چنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں، کسی پر نکتہ چینی کروں نہ کسی معاملے میں اپنی رائے دوں۔

    ایک عجیب و غریب دور سے میرا دل و دماغ گزر رہا تھا۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ افسانے لکھ کر ان پر مقدمے چلوانا میرا پیشہ ہے۔ بعض کہتے تھے کہ میں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ سستی شہرت کا دلدادہ ہوں اور لوگوں کے سفلی جذبات مشتعل کر کے اپنا الو سیدھا کرتا ہوں۔ مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں۔ ان چار الوؤں کو سیدھا کرنے میں جو خم میری کمر میں پیدا ہوا، اس کو کچھ میں ہی جانتا ہوں۔

    مالی حالت کچھ پہلے ہی کمزور تھی۔ آس پاس کے ماحول نے جب نکما کردیا تو آمدنی کے محدود ذرائع اور بھی سکڑ گئے۔ ایک صرف مکتبہ جدید، لاہور کے چودھری برادران تھے جو مقدور بھر میری امداد کررہے تھے۔ غم غلط کرنے کے لیے جب میں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کی تو انہوں نے چاہا کہ اپنا ہاتھ روک لیں۔ مگر وہ اتنے مخلص تھے کہ مجھے ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔

    اس زمانے میں میری کسی سے خط کتابت نہیں تھی۔ دراصل میرا دل بالکل اچاٹ ہو چکا تھا۔ اکثر گھر سے باہر رہتا اور اپنے شرابی دوستوں کے گھر پڑا رہتا، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی صحبت میں رہ کر جسمانی و روحانی خود کشی کی کوشش میں مصروف تھا۔ ایک دن مجھے کسی اور کے گھر کے پتے سے ایک خط ملا۔ تحسین پکچرز کے مالک کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا کہ میں فوراً ملوں۔ بمبے سے انہیں میرے بارے میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہے۔ صرف یہ معلوم کرنے کے لیے یہ ہدایت بھیجنے والا کون ہے۔ میں تحسین پکچرز والوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ بمبے سے شیام کے پے در پے انہیں کئی تار ملے ہیں کہ مجھے ڈھونڈ کر 500 روپے دے دیے جائیں۔ میں جب دفتر میں پہنچا تو وہ شیام کے تازہ تاکیدی تار کا جواب دے رہے تھے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود انہیں منٹو نہیں مل سکا۔ میں نے 500 روپے لے لیے اور میری مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    میں نے بہت کوشش کی کہ شیام کو خط لکھ کر اس کا شکریہ ادا کروں اور پوچھوں کہ اس نے مجھے یہ 500 روپے کیوں بھیجے تھے، کیا اس کو علم تھا کہ میری مالی حالت کمزور ہے۔ اس غرض سے میں نے کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ میرے لکھے ہوئے الفاظ شیام کے اس جذبے کا منہ چڑا رہے ہیں جس کے زیرِ اثر اس نے مجھے یہ روپے روانہ کیے تھے۔

  • منوج کمار: بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار جن کے والد اردو کے معروف شاعر تھے

    منوج کمار: بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار جن کے والد اردو کے معروف شاعر تھے

    قومی تفاخر اور حب الوطنی کے موضوع پر بولی وڈ کی فلموں میں شان دار پرفارمنس کی وجہ سے منوج کمار کو ‘بھارت کمار‘ بھی کہا جانے لگا تھا۔ منوج کمار نے فلم انڈسٹری میں بطور اداکار ہی نہیں شہرت پائی بلکہ پروڈکشن اور ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی کام کیا اور نوّے کی دہائی انڈسٹری میں خاصے متحرک رہے۔

    ہری کرشن گوسوامی المعروف منوج کمار 1937ء میں ایبٹ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایچ ایل گوسوامی کے بیٹے تھے جو اردو شاعر کی حیثیت سے پہچان رکھتے تھے۔ ایبٹ آباد منوج کمار کا ننھیالی گاؤں تھا جب کہ ددھیال ضلع شیخو پورہ کے جنڈیالہ شیر خان سے تعلق رکھتا تھا۔ اداکار منوج کمار کی مذکورہ شہروں کے ساتھ لاہور سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوا تو منوج کمار کے والد کو بھی اپنی زمین چھوڑنا پڑی۔ بھارت میں‌ منوج کمار کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا جس کے باعث منوج کمار کو بھی ادب سے دل چسپی رہی اور فلمیں دیکھنے کا بھی شوق پیدا ہوگیا۔

    منوج کمار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دلیپ کمار کی فلم ”جگنو‘‘ دیکھنے کے بعد وہ ان کے دیوانے ہوگئے۔ اس کے بعد فلم ”شبنم‘‘ دیکھی جس میں دلیپ کمار نے منوج کا کردار نبھایا تھا۔ اسی فلم کو دیکھنے کے بعد ہری کرشن گوسوامی نے اپنا نام منوج کمار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت وہ دہلی میں مقیم تھے اور پھر نوجوانی میں فلم میں کام کرنے کا خواب سجائے 1956ء میں بمبئی چلے گئے۔ وہ ایک خوش قامت اور وجیہ صورت نوجوان تھے جس کے چچا بمبئی میں تھے اور یوں منوج کمار کو وہاں رہائش کا مسئلہ نہیں ہوا۔ کچھ وقت نگار خانوں کے چکر کاٹنے کے بعد منوج کمار کو فلم ”فیشن‘‘ میں کردار مل گیا۔ اس کے بعد اسے چند اور فلمیں سہارا، چاند، ہنی مون میں چھوٹے اور مختصر کردار نبھانے کا موقع ملا۔ پہلا لیڈنگ رول 1961ء میں منوج کمار نے فلم ”کانچ کی گڑیا‘‘ میں نبھایا اور اسی برس تین مزید فلموں ”پیا ملن کی آس‘‘، ”سہاگ سیندور‘‘ اور ”ریشمی رومال‘‘ میں کام کیا۔ اگلے ایک سال کے دوران منوج کمار کو ”اپنا بنا کے دیکھو‘‘اور ”گرہستی‘‘ جیسی فلمیں ملیں۔ لیکن شہرت انھیں راج کھوسلہ کی فلم ”وہ کون تھی؟‘‘ سے ملی۔ یہ فلم 1964ء میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی۔ اس فلم میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے دو گیتوں ”لگ جا گلے‘‘ اور ”نیناں برسیں رِم جھم رِم جھم‘‘ شامل تھے جو ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ اب فلم ”شہید‘‘ آئی جس میں منوج کمار نے بھگت سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ جنگِ‌ آزادی اور انقلابی تحریک کی وہ داستان تھی جسے ہندوستان بھر میں‌ سراہا گیا اور منوج کمار کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    اب منوج کمار فلمی دنیا میں بطور اداکار اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے خود کو بطور ہدایت کار منوانے کا فیصلہ کیا اور 1967ء میں ان کی فلم ”اُپکار‘‘ ریلیز ہوئی جس نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ وطن سے محبت پر منوج کمار کے فلموں میں کردار کو شائقین نے بہت پسند کیا اور پھر وہ بھارت کمار کے نام سے مشہور ہوگئے۔ 1969ء میں فلم ”ساجن‘‘ اور اگلے ہی سال ”پورب اور پچھم‘‘ نے منوج کمار کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ 1972ء کی ریلیز کردہ فلم ”بے ایمان‘‘ پر منوج کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال فلم ”شور‘‘ پر بھی وہ فلم فیئر ایوارڈ لے اڑے۔ پھر ان کی ایک بلاک بسٹر فلم ”کرانتی‘‘ سامنے آئی اور وہ اس ہدایت کار بھی تھے۔ یہ فلم سال کی بہترین فلم قرار پائی۔ بعد کے برسوں‌ میں منوج کمار نے خاص کام یابی نہیں سمیٹی لیکن انھیں فلم بین اور فن کار کوئی بھی فراموش نہیں کرسکا۔

    دل کے عارضے میں‌ مبتلا منوج کمار جمعہ (آج) کے روز ممبئی کے ایک اسپتال میں چل بسے۔ وہ حکم راں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن بھی رہے۔ 1950ء کی دہائی میں اداکاری کا آغاز کرنے والے منوج کمار نے بھارتی سنیما کا سب سے بڑا اعزاز ‘دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ بھی حاصل کیا تھا۔

  • محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی فلم انڈسٹری میں ’’بھیا‘‘ مشہور تھے۔ ان کی فلمیں یادگار بھی ہیں اور بطور اداکار محمد علی کو ایک بے مثال فن کار کے طور پر پیش کرتی ہیں کہ وہ اپنے طرز کے واحد اداکار تھے جن پر پاکستان اور ہندوستان کے کسی بھی دوسرے اداکار کی چھاپ نہیں تھی۔

    اداکار محمد علی 19 اپریل 1931 کو بھارت کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان 1947ء میں تقسیم کے بعد ہندوستان سے کراچی ہجرت کر گیا تھا۔ محمد علی نے 1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن میں بطور براڈ کاسٹر شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان کراچی چلے گئے جہاں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری ان کی اداکاری کے لئے ان کے سرپرست بن گئے۔ محمد علی نے اپنے منفرد انداز سے اداکاری کی دنیا کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا اور بے مثال کام کیا۔ ان کے فلمی سفر کا آغاز فلم چراغ جلتا رہا سے ہوا تھا اور پھر وہ شوبز کی نگری کا معتبر اور بڑا حوالہ بن گئے۔ بلاشبہ محمد علی کردار میں اس قدر ڈوب جاتے کہ اس پر حقیقت کا گماں ہوتا۔ انہیں اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ پر کمال عبور حاصل تھا۔ ان کی آواز اور لب و لہجہ دیگر فن کاروں سے انہیں نمایاں کرتا تھا۔ محمد علی نے اداکارہ شبنم، بابرہ شریف اور دیبا سمیت ماضی کی تمام معروف اداکاراؤں کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا، لیکن زیبا کے ساتھ ان کی جوڑی بے حد مقبول ہوئی اور پھر حقیقی زندگی میں بھی وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور اس جوڑی نے فلم
    بینوں سے ہی نہایت عزت اور احترام نہیں پایا بلکہ فن و ثقافت کے ہر شعبہ میں وہ ایک مثالی جوڑا سمجھا گیا۔

    محمد علی نے آگ کا دریا، انسان اور آدمی، شمع، آئینہ اور صورت، کنیز اور صاعقہ سمیت درجنوں فلموں میں کام کیا اور فن اداکاری میں اپنا لوہا منوایا۔ ورسٹائل اداکار محمد علی کو تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ 19مارچ 2006ء کو اداکار محمد علی کا انتقال ہوگیا تھا۔

    محمد علی ان اداکاروں میں سے تھے جو ہر قسم کے کردار کو نبھانا جانتے تھے۔ چاہے وہ المیہ سین ہو یا کامیڈی، چاہے کسی جنگجو ہیرو کا کردار ادا کرنا ہو یا رومانی ہیرو کے طور پر کوئی گانا عکس بند کروانا ہو۔ اداکار محمد علی کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ ہر طبقہ سماج کے فلم بینوں میں پسند کیے گئے۔ وہ ذاتی زندگی میں ایک شریف النفس اور دوسروں کے مددگار انسان کے طور پر مشہور تھے۔