Tag: اداکار برسی

  • آغا طالش: فلم کی دنیا کا ایک بڑا نام

    آغا طالش: فلم کی دنیا کا ایک بڑا نام

    آج آغا طالش کی برسی ہے جنھیں پاکستانی فلمی صنعت کے لیجنڈری اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اگرچہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ہی اداکاری شروع کر چکے تھے، مگر قیامِ پاکستان کے بعد فلمی دنیا میں انھیں لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    آغا طالش کی شخصیت کے کئی دل چسپ اور باوقار پہلو ہیں جب کہ ان کے فن و کمال کا اعتراف فلمی ناقدین اور ان کے ہم عصر بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کے دو ہی شوق تھے، ایک اداکاری اور دوسرا دریا پر جا کر مچھلیاں پکڑنا۔ آغا صاحب نے دونوں کاموں میں زندگی گزار دی۔ وہ جوانی میں ترقی پسند رہے اور نام ور ادیبوں کے ساتھ ان کی دوستی اور تعلقات رہے۔ آغا طالش کی مادری زبان فارسی تھی اور ان کی شادی بھی ایسے ہی خاندان میں ہوئی تھی۔ اہلیہ انتہائی پردہ دار اور مذہبی خاتون تھیں۔ آغا طالش کو اداکار بننے کا شوق ریڈیو سے صدا کاری کے دوران ہوا۔ وہ اداکار تو بعد میں بنے تھے مگر ریڈیو پر صدا کاری نے ان کو ایک اچھا اداکار بننے میں بہت مدد دی۔ اس سے قبل انھیں فوج میں نوکری مل گئی تھی جسے اس شوق کی خاطر چھوڑ کر آغا طالش لاہور سے ممبئی چلے گئے تھے۔ اُن دنوں ادیبوں اور شاعروں کی ترقی پسند تحریک عروج پر تھی، لہٰذا آغا طالش بھی ان کے ہمنوا ہو گئے۔ ان کی دوستی کرشن چندر، کیفی اعظمی، نیاز حیدر، سبط حسن، ابراہیم جلیس، سجاد ظہیر، علی سردار جعفری اور ساحر لدھیانوی جیسے عظیم شاعروں اور ادیبوں سے ہو گئی۔ بعد میں لاہور میں ان کی دوستی فلم انڈسٹری کے ترقی پسند ادیب اور شاعر ریاض شاہد سے ہوئی جو تا دمِ حیات برقرار رہی۔

    اداکار طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں تھے اور جب طالش کی پیدائش کے بعد ان کا تبادلہ متھرا ہوا تو وہیں‌ آغا طالش نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھیں بمبئی میں کام تو مل گیا تھا، مگر تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرنا پڑی لیکن طالش نے پاکستان میں بریک تھرو فلم سات لاکھ سے حاصل کیا جس میں سلیم رضا کا سدا بہار گیت ان پر عکس بند کیا گیا جس کے بول تھے، یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔ لیکن ان کی اصل پہچان فلم شہید کا منفرد کردار تھا جو 1962 میں پاکستانی فلم بینوں‌ کو بہت بھایا۔ اس فلم میں طالش نے ایک انگریز "اجنبی” کا کردار ادا کیا تھا جو تیل کی تلاش میں صحرائے عرب کی خاک چھانتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتا ہے اور مقامی قبیلے میں نفاق ڈال کر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ طالش نے اس کردار کو بخوبی نبھایا اور اس یادگار کردار کے بعد انھیں فلموں‌ میں بڑے اور بھاری رول ملنے لگے۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امراؤ جان ادا سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    1962 میں فلم شہید، 1964 کی فلم فرنگی اور چند سال بعد زرقا وہ فلم ثابت ہوئی جس نے آغا طالش کو صفِ اوّل کا اداکار بنا دیا۔ ان فلموں‌ میں طالش کو ان کے کرداروں نے امر کر دیا۔ تقسیم سے قبل ان کی پہلی فلم سرائے کے باہر (1947) تھی جو لاہور میں بنی تھی۔ تقسیم کے بعد طالش کی پہلی فلم نتھ بتائی جاتی ہے جو 1952 میں‌ ریلیز ہوئی لیکن ابتدائی درجنوں فلموں میں ان کے کردار شائقین کی توجہ حاصل نہیں‌ کرسکے تھے۔ اس عرصہ میں طالش ہیرو بنے، ولن کا رول کیا اور معاون اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی پردے پر دکھائی دیے۔ مگر اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے وہ معیاری پرفارمنس دی کہ سنیما بین اور فلمی نقاد بھی ان کے معترف ہوگئے۔ وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔

    اداکار نے دہائیوں پر محیط اپنے فنی سفر میں فلمی صنعت کا معتبر نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • غیور اختر: پی ٹی وی کے معروف اداکار کا تذکرہ

    غیور اختر: پی ٹی وی کے معروف اداکار کا تذکرہ

    غیور اختر کی مقبولیت کی وجہ تو اُن کی مزاحیہ اداکاری ہے، لیکن انھوں نے سنجیدہ کردار بھی بہت خوب صورتی سے نبھائے اور ناظرین سے خوب داد و تحسین سمیٹی۔ آج غیور اختر کی برسی ہے۔ غیور اختر 7 فروری 2014ء میں وفات پا گئے تھے۔

    غیور اختر 1946ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے فنی کيريئر کا آغاز ريڈيو پاکستان سے کيا۔ اداکار غیور اختر 1970ء میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں‌ نظر آنے لگے اور جلد ہی ناظرین کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ ان کے چند کردار بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’’سونا چاندی‘‘ میں ان کا کردار ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا۔ 1980ء میں اس ڈرامے میں وہ ایک ڈرائیور کے کردار میں دکھائی دیتے تھے اور کہانی کے مطابق وہ کسی بات پر چونکتے ہوئے مخصوص تکیۂ کلام اوہو۔۔ہوہوہو ادا کرتے تھے جس نے ناظرین کو بہت محظوظ کیا اور غیور اختر گویا راتوں رات مشہور ہوگئے۔ بعد میں غیور اختر نے ڈرامہ خواجہ اینڈ سن اور راہيں ميں لازوال کردار نبھائے۔ غیور اختر نے ریڈیو کے مختلف شعبوں میں خوب کام کیا اور بطور صدا کار بھی اپنی منفرد آواز میں بہت سے پروگرام ریکارڈ کروائے۔ وہ بڑے فطری انداز میں مکالمے بولا کرتے تھے جس میں بے ساختگی ہوتی تھی۔ غیور اختر کئی دوسرے کامیڈین کی طرح اوور ایکٹنگ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ہر کردار میں حقیقت کا رنگ بھردیا۔

    پاکستان ٹیلی وژن پر بچّوں کے مقبول ڈرامہ عینک والا جن میں بھی غیور اختر نے سامری جادوگر کا کردار نبھایا تھا۔ غیور اختر نے اپنے فنی کیریئر میں چند فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فلم ڈائریکٹ حوالدار میں انھوں نے جیلر کا کردار ادا کیا تھا جسے فلم بینوں نے بہت سراہا۔ اداکار غيور اختر کو حکومت پاکستان نے ’’تمغائے حسنِ‌ کارکردگی‘‘ سے بھی نوازا تھا۔

  • سلطان راہی:‌ پنجابی فلموں کے سلطان کا تذکرہ

    سلطان راہی:‌ پنجابی فلموں کے سلطان کا تذکرہ

    گزشتہ صدی میں اسّی کی دہائی میں بڑی اسکرین پر سلطان راہی چھائے ہوئے تھے۔ گنڈاسا تھامے سلطان راہی کے مقابلے پر کوئی اور زبردست نظر ہی نہیں آتا تھا، لیکن پھر ایک حادثۂ جاںکاہ پیش آیا اور فلمی دنیا کے اس زور آور کے قدم اکھڑ گئے۔ 9 جنوری 1996ء کو اداکار سلطان راہی کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور ملک بھر میں فضا سوگوار ہوگئی۔

    پنجابی فلموں کے سلطان نے اس دنیا سے کوچ کیا تو اُن کی 54 فلمیں زیرِ تکمیل تھیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سلطان راہی اور بھارت میں وریند ایکشن فلموں کی جان تھے اور دونوں ہی اندھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ وریندر بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور ہیرو دھرمیندر کے کزن تھے۔

    فروری 1979ء میں نام وَر فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم میں دو مرکزی کردار سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے تھے۔ سلطان راہی نے فلم میں نیک سیرت انسان اور مصطفیٰ قریشی نے ایک بدمعاش کا کردار نبھایا تھا۔ اس فلم نے کام یابی کا وہ ریکارڈ قائم کیا جس کی انڈسٹری میں مثال نہیں ملتی۔ باکس آفس پر فلم اس قدر ہٹ ہوئی کہ مسلسل ڈھائی سال زیرِ نمائش رہی اور لوگوں‌ نے متعدد بار بڑے پردے پر فلم دیکھی۔

    مشہور فلمی رسالہ "شمع” (نئی دہلی) میں "ستاروں کی دنیا” کے عنوان سے یونس دہلوی کا مقبولِ عام کالم "مسافر” کے قلمی نام سے شایع ہوتا تھا۔ انھوں نے 1990ء کے شمارے میں اپنے اس کالم میں پاکستان کی مشہور فلم "مولا جٹ” کا ذکر کیا تھا۔ یونس دہلوی لکھتے ہیں:

    "10 مارچ 1990ء کو مسافر کا اچانک ہی لاہور جانا ہو گیا۔ دانہ پانی کا اٹھنا سنتے تھے، مگر اس روز مسافر اس محاورے پر پورا ایمان لے آیا۔ اس وقت پاکستان کے شہرۂ آفاق فلم ساز سرور بھٹی کی شہرۂ آفاق فلم "مولا جٹ” کی نمائش کا موقع تھا۔”

    pakistani film

    "ہندوستان میں اگر ریکارڈ توڑ فلم "شعلے” بنی ہے تو پاکستان میں ریکارڈ توڑ ہی نہیں کرسی توڑ فلم "مولا جٹ” بنی۔ کرسی توڑ اس لیے کہ ‘مولا جٹ’ لاہور میں مشترکہ 216 ویں ہفتہ میں چل رہی تھی کہ حکومتِ وقت نے اس پر پابندی لگا کر اتار دیا۔”

    "مولاجٹ 9 فروری 1979ء کو لاہور کے شبستان سنیما میں ریلیز ہوئی تھی اور 3 فروری 1981ء کو 104 ویں ہفتہ میں تھی کہ اس طرح سنیما سے اُچک لی گئی جیسے باغ میں کھلنے والا سب سے خوب صورت پھول اچک لیا جاتا ہے۔”

    "بات کورٹ کچہری تک گئی۔ ہائی کورٹ نے 27 دن کی کارروائی کے بعد 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا اور حکومت کے اس فعل کو غیر قانونی قرار دیا۔”

    "25 اپریل 1981ء کو "مولا جٹ” کو پھر سے کرسیاں توڑنے اور ریکارڈ توڑنے کے لیے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اچانک 18 مئی 1981ء کو مارشل لا قوانین کے تحت فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔ اس طرح ‘مولا جٹ’ کی آزادی ختم ہو گئی۔”

    "پاکستان سے مارشل لا گیا تو سرور بھٹی نے ‘مولا جٹ’ کی حبسِ بے جا کے خلاف عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے اور 9 مارچ 1990ء کو ایک بار پھر ‘مولا جٹ’ کا راج آ گیا۔ اس بار ‘مولا جٹ’ لاہور کے دس سنیما گھروں میں ایک ساتھ ریلیز کی گئی۔”

    یونس دہلوی آگے لکھتے ہیں‌، "‘مولا جٹ’ چوں کہ ریکارڈ توڑ اور کرسی توڑ فلم تھی اس لیے منٹ منٹ پر تالیاں اور سیٹیاں بج رہی تھیں۔”

    سلطان راہی کا اصل نام سلطان محمد تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1934 اور جائے پیدائش پاکستان کا شہر راولپنڈی ہے۔ اداکار کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ سلطان راہی نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ قرآنِ پاک مع تفسیر پڑھا۔ کم عمری میں‌ سلطان راہی کو فلموں میں دل چسپی پیدا ہوگئی اور یہ شوق اتنا بڑھا کہ وہ فلم میں کام کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔ اسی شوق کے ہاتھوں ایک روز راولپنڈی سے لاہور چلے آئے اور اسٹیج ڈراموں سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ سلطان راہی نے جس ڈرامے میں‌ پہلی مرتبہ مرکزی کردار نبھایا وہ ’شبنم روتی رہی‘ تھا۔ اس ڈرامے کے بعد ان کی رسائی فلم نگری تک ہوئی اور وہ ایکسٹرا کے کردار نبھانے لگے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں اس وقت سنتوش کمار، درپن، لالہ سدھیر، مظہر شاہ کا بڑا نام تھا۔ ایکسٹرا کے طور پر کام کرتے ہوئے سلطان راہی کو بڑے کردار کی تلاش تھی۔ باغی، ہیرسیال اور چند دیگر فلموں میں ایکسٹرا کا کردار ادا کرنے کے بعد وہ ایم سلیم کی پنجابی فلم ’امام دین گوہاویا‘ میں ایک مختصر کردار ادا کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی زمانے میں ان کی وہ فلمیں‌ بھی ریلیز ہوئیں جن میں‌ سلطان راہی نے معمولی کردار ادا کیے تھے۔ 1971ء میں سلطان راہی کو ہدایت کار اقبال کاشمیری کی فلم ’بابل‘ میں ایک بدمعاش کا ثانوی کردار ملا اور یہی ان کی فلمی زندگی میں بڑی تبدیلی کا سبب بن گیا۔

    برصغیر پاک و ہند کی پنجابی زبان میں فلمیں لاہور کے علاوہ کولکتہ اور ممبئی میں بھی بنائی جاتی رہیں اور تقسیم سے پہلے ریلیز ہوئیں لیکن ہیر رانجھا کو لاہور میں بننے والی پہلی ناطق پنجابی فلم کہا جاتا ہے۔ ابتدائی دور کی پنجابی فلمیں ہلکی پھلکی رومانوی اور نغماتی فلمیں ہوتی تھیں جو عام طور پر پنجاب کی خالص لوک داستانوں سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، سہتی مراد اور دلا بھٹی کے علاوہ ہندوؤں کی دیو مالائی داستانوں اور بدیسی قصے کہانیوں پر مبنی ہوتی تھیں۔

    پچاس کی دہائی میں پاکستان میں پنجابی فلمیں بننے لگیں جن میں عام طور پر رومانوی اور نغماتی فلموں کے علاوہ معاشرتی موضوعات کو فلمایا گیا تھا۔ اس دور میں بہت بڑی بڑی پنجابی فلمیں سامنے آئیں۔ لیکن پھر زمانہ بدل گیا اور کہتے ہیں‌ کہ وحشی جٹ سے پنجابی فلموں میں گنڈاسا کلچر شروع ہوا۔

    اب سماجی اور رومانی فلموں کی جگہ پُرتشدد مناظر اور ایکشن سے بھرپور فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز بن رہی تھیں۔ 1979 میں پاکستانی فلمی صنعت میں انقلابی تبدیلی فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ کی صورت میں‌ آئی۔ اس فلم نے باکس آفس پر کام یابیوں کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس فلم کی نمائش ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران ہوئی تھی جس کا ذکر یونس دہلوی کے مضمون میں‌ آیا ہے۔ سلطان راہی نے ستّر کی دہائی کے آغاز پر بشیرا اور وحشی جٹ جیسی فلموں سے اپنے کیریئر کی سمت تو گویا طے کرلی تھی لیکن یہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس کی انتہا کیا ہوگی۔ لیکن فلم مولا جٹ کی بے مثال کام یابی نے یہ طے کر دیا۔ اس کے بعد سطان راہی کی پانچ فلمیں ایک ہی دن ریلیز ہوئیں۔ یہ 12 اگست 1981ء کی بات ہے جب شیر خان، سالا صاحب، چن وریام، اتھرا پُتر اور ملے گا ظلم دا بدلہ کے نام سے فلمیں ریلیز ہوئیں اور ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ ’شیر خان‘ اور ’سالا صاحب‘ نے ڈبل ڈائمنڈ جوبلی (دو سو ہفتے) اور ’چن وریام‘ نے سنگل ڈائمنڈ جوبلی مکمل کی۔sultan rahi film posterصحافی اور محقق و ادیب عارف وقار لکھتے ہیں کہ اسّی کے عشرے میں پنجابی فلمیں حاوی نظر آئیں۔ اس دوران سلطان راہی کی آسمان کو چھوتی مقبولیت کے سبب لالی وڈ میں اردو کی 223 فلموں کے مقابلے میں پنجابی کی 370 پکچرز ریلیز ہوئیں۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب پاکستانی فلم انڈسٹری کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور فلمی صنعت کا شیش محل زمین بوس ہو چکا تھا تب بھی ماضی کی اس شان دار عمارت کا کچھ حصّہ ایک مضبوط ستون کے سہارے کھڑا رہ گیا تھا۔ اور یہ ستون سلطان راہی کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، جو پچاس کی دہائی میں ایک ایکسٹرا بوائے کے طور پر آیا تھا اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پہلے ولن اور پھر ہیرو کے طور پر ساری صنعت پر چھا گیا تھا۔ لیکن اس کی موت سے وہ آخری ستون بھی کھسک گیا اور فلمی صنعت کی رہی سہی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔

    اداکار سلطان راہی کو لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اوم پوری: ایک باکمال اداکار اور بہترین انسان کا تذکرہ

    اوم پوری: ایک باکمال اداکار اور بہترین انسان کا تذکرہ

    آرٹ سنیما نے دنیا کو فن کی دنیا کے کئی بے مثال نام اور لازوال فلمیں دی ہیں۔ اوم پوری بھی بھارت میں آرٹ سنیما کا ایک بڑا نام تھے جن کو پاکستان میں ایسے اداکار کے طور پر پہچانا جاتا ہے جس نے ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم رکھنے کے لیے اپنی آواز بلند کی۔

    آرٹ سنیما کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے ہر شعبہ میں یعنی کہانی سے لے کر فلم سازی کے مختلف مراحل تک ہنر مند اور باکمال آرٹسٹ اور بہترین فن کاروں سے کام لیا جاتا ہے۔ اوم پوری بھی انہی فن کاروں میں شامل تھے۔ اوم پوری مشکل کردار ادا کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور اسی لیے انھیں زیادہ تر آرٹ فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کا موقع دیا جاتا تھا۔ وہ بالی وڈ کے ورسٹائل اداکار تھے جن کو شان دار اداکاری کی بدولت ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔

    اوم پوری ایک فکر و نظریے کے حامل ایسے فن کار تھے جس نے پاکستان اور بھارت کے بارے میں یہ کہا کہ اگر دونوں ملکوں کو جنگ کرنی ہے تو غربت کے خلاف کریں۔ انھوں‌ نے پاکستانی فلمو‌ں میں‌ بھی کام کیا اور جب بھارت میں ان پر تنقید ہوئی تو اس کا جواب بھی اسی طرح دیا، لیکن اپنے مؤقف کا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچائے۔ اوم پوری کی زندگی کی آخری فلم ’لشٹم پشٹم‘ ریلیز ہوئی تو اس فلم میں بھی وہ ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کے کردار کو نبھاتے نظر آئے۔ انھوں نے پاکستانی فلموں کے علاوہ برطانوی اور ہالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔ اوم پوری کی آواز اور مکالموں کی ادائیگی کا انداز بہت منفرد تھا اور شائقین نے انھیں ہر کردار میں‌ بہت سراہا۔

    اداکار اوم پوری 18 اکتوبر 1950 کو ہریانہ کے علاقہ انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزارا۔ وہ چھے سات سال کے تھے جب چائے کے ایک کھوکھے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح‌ کے چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے اپنے ننھیال آکر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور پھر اداکار بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ اس کے لیے اوم پوری نے ‘فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا’ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ دہلی کے ‘نیشنل اسکول آف ڈراما’ سے بھی تربیت لے چکے تھے جہاں معروف اداکار نصیرالدین شاہ ان کے ساتھی طلبا میں سے ایک تھے۔ اور پھر انھیں ابتدا میں لوکل تھیٹر میں چھوٹے موٹے کردار ملنے لگے۔ سال 1976ء سے فلموں میں کام کرنا شروع کیا، اور پہلی مرتبہ فلم ’گھاسی رام کوتوال‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اوم پوری نے اپنے کریئر میں سنجیدہ فلموں کے ساتھ ساتھ کامیڈی فلموں میں بھی لاجواب اداکاری کی۔ فلم ‘اردھ ستیہ’، ‘جانے بھی دو یارو’ اور ‘پار’ جیسی فلموں میں ان کے زبردست کردار اور شان دار اداکاری نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میں اوم پوری نے کمرشل فلموں کی جانب رخ کیا اور ہندی فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی بطور اداکار نظر آئے۔

    6 جنوری 2017ء کو اوم پوری دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔

  • اظہار قاضی: ٹی وی اور فلم کے ایک باصلاحیت اداکار کا تذکرہ

    اظہار قاضی: ٹی وی اور فلم کے ایک باصلاحیت اداکار کا تذکرہ

    اظہار قاضی پاکستان ٹیلی وژن اور فلم انڈسٹری کے ان اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بہت کم عرصہ میں شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور اسکرین پر کئی یادگار کردار نبھائے۔ اظہار قاضی کو امیتابھ بچن کا ہم شکل کہا جاتا تھا۔ خوب رو اور باکمال اداکار اظہار قاضی 23 دسمبر 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    اپنے وقت کے اس مقبول اداکار کا تعلق ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ انھوں‌ نے کراچی میں 15 ستمبر 1959ء کو آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں‌ سے حاجی عبداللہ ہارون سیکنڈری اسکول سے پاس کیا۔ اظہار قاضی نے ایس ایم کالج سے اوّل پوزیشن میں گریجویشن کی اور کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ انھوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ وہ پاکستان اسٹیل ملز میں ایڈمن منیجر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ اظہار قاضی کی اچانک موت نے شوبز انڈسٹری اور ملک بھر میں ان کے مداحوں کو سوگوار کردیا۔ وہ ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے جہاں انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    ٹی وی پر ممتاز ڈرامہ نویس بجیا نے اظہار قاضی کو سب سے پہلے ایک کردار سونپا تھا اور پھر اظہار قاضی فلموں میں بطور ہیرو بھی نظر آنے لگے۔ انھیں چند مختصر دورانیے کے ڈراموں میں کام کرنے کے بعد ڈراما سیریل ’’انا‘‘ میں کردار دیا گیا اور اسی کردار کی بدولت اظہار قاضی نے راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔

    80 کی دہائی میں ٹی وی کی اسکرین سے سفر شروع کرنے والے اظہار قاضی نے دائرہ، تھکن، گردش جیسے ڈراموں میں‌ کام کیا اور پھر ہدایت کار نذر شباب نے انھیں اپنی فلم روبی میں سائن کرلیا۔ یہ فلم 1986ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب رہی جس کے بعد اظہار قاضی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھتے گئے۔ اسی سال اظہار قاضی کی ہدایت کار جان محمد کے ساتھ پہلی فلم بنکاک کے چور بھی ریلیز ہوئی۔ 1987ء میں وہ فلم لو اِن نیپال میں دکھائی دیے۔ اور یہی وہ سال ہے جب اداکار اظہار قاضی نے پہلی پنجابی فلم دُلاری میں کام کیا اور فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ 2002ء میں اظہار قاضی کی پنجابی فلم بالی جٹی ریلیز ہوئی اور یہ بھی خوب کام یاب رہی۔ 2004ء میں اظہار قاضی کی واحد فلم دامن اور چنگاری ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ انڈسٹری سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔

    اظہار قاضی نے اداکاری کے ساتھ گلوکاری کے شعبہ میں بھی خود کو آزمایا۔ ان کی 2 آڈیو کیسٹس بھی ریلیز ہوئیں۔ لیکن انھیں اس میدان میں زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔ اظہار قاضی نے پچاس سے زائد فلموں میں مرکزی اور معاون اداکار کے طور پر کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں عالمی جاسوس، سر کٹا انسان، گھائل اور خزانہ کے نام بھی شامل ہیں۔

  • علی اعجاز: تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    علی اعجاز: تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    علی اعجاز نے اسٹیج، ٹیلی ویژن اور فلم میں بطور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ان فن کاروں میں شامل ہیں جن کی اداکاری اس قدر بے ساختہ اور عمدہ ہوتی ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگے۔ علی اعجاز ہر میڈیم میں یکساں طور پر کام یاب رہے اور ریڈیو کے لیے بھی ڈرامے کیے۔ انھیں عجوبۂ روزگار فن کار کہا جاسکتا ہے۔

    آج اداکار علی اعجاز کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2018ء میں آج ہی کے روز طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ علی اعجاز نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام "ندائے حق” سے کیا تھا۔ بعد میں تھیٹر اور پھر فلم میں بطور اداکار شہرت پائی۔ علی اعجاز کی پہلی فلم، پہلا فلمی سین اور پہلا فلمی گیت بھی اداکار ننھا کے ساتھ تھا جو ان کے قریبی دوست بھی رہے۔ علی اعجاز ان کے ساتھ بینک میں کام کرتے تھے اور دونوں کو اداکاری کا شوق تھا۔ علی اعجاز 1941 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور ننھا کے ساتھ فلم ’انسانیت‘ سے اپنا سفر شروع کیا لیکن شہرت ان کو فلم ’دبئی چلو‘ سے ملی۔ علی اعجاز نے 80 کی دہائی میں منور ظریف، ننھا اور رنگیلا کی موجودگی میں اپنی الگ پہچان بنائی۔ اداکار نے اپنے وقت کی نام ور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا لیکن فلم اسٹار ممتاز کے ساتھ ان کے کئی گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    اداکار علی اعجاز کو فلم کی دنیا میں خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ 1979ء تک وہ ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں عام مزاحیہ اداکاری کے علاوہ ولن اور ملے جلے کردار کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ٹی وی پر بھی کام کرتے رہے جہاں ‘خواجہ اینڈ سنز’ اور ‘شیدا ٹلی’ وغیرہ ان کے مشہور ڈرامے ثابت ہوئے۔ یہ ستر کی دہائی تھی جب ایک ڈرامے "دبئی چلو” میں علی اعجاز نے لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے اور پھر اس ڈرامے سے متاثر ہوکر ہدایت کار حیدر چوہدری نے اسی نام پر فلم بنائی اور علی اعجاز کو وہی کردار دیا جو انھوں نے ٹی وی ڈرامے میں کیا تھا۔ علی اعجاز نے اپنی بے ساختہ اداکاری سے اس فلم میں اپنے کردار کو یادگار بنا دیا۔ اسّی کی دہائی میں علی اعجاز ایک بڑے فلمی ہیرو اور ٹی وی کے مقبول اداکار بن چکے تھے۔ علی اعجاز نے جہاں فلمی دنیا میں اپنا عروج دیکھا وہیں انھوں نے فلمی صنعت اور شائقین کے رجحانات بدل جانے کے بعد اپنی شہرت کا گراف نیچے جاتا ہوا بھی دیکھا اور یہ کوئی انہونی نہ تھی۔ ایک عرصہ تک اپنے مداحوں کو مزاحیہ اور سنجیدہ کرداروں سے بہلانے والے علی اعجاز نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ بننے والی فلموں میں بے مثال اداکاری کی۔ ان میں دلبر جانی، یملا جٹ، جی او جٹا، دبئی چلو، عشق پیچاں اور دوستانہ ان کی یادگار فلمیں ہیں۔

  • الیاس کاشمیری: پاکستانی فلموں کا مشہور ولن جو پچھتاوے کا شکار ہوگیا!

    الیاس کاشمیری: پاکستانی فلموں کا مشہور ولن جو پچھتاوے کا شکار ہوگیا!

    الیاس کاشمیری پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام تھا جن کو بطور ولن فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور خاص طور پر ان کی پنجابی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔ 12 دسمبر 2007ء کو الیاس کاشمیری انتقال کرگئے تھے۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔

    اپنے وقت کے اس کام یاب ولن کی زندگی کا ایک المیہ یہ تھا کہ فلم سے دور ہونے کے بعد وہ نہ صرف گھر تک محدود ہوگئے تھے بلکہ احساسِ‌ گناہ کا شکار بھی تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض بھی لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوچکے تھے۔ اس پر ان کو یہ احساس ستانے لگا کہ ان بیماریوں اور جسمانی تکالیف کی وجہ ان کی فلمی دنیا سے وابستگی ہے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن ولن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل ولن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے الیاس کاشمیری نے مجموعی طور پر 547 فلموں میں کردار نبھائے جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    فلم نگری میں قدم رکھنے کے لیے الیاس کاشمیری نے 1946ء میں اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی کا رخ کیا تھا۔ وہ دراز قد اور خوبرو نوجوان تھے اور انھیں یقین تھا کہ فلموں میں کام مل جائے گا۔ الیاس کاشمیری کو فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے ساتھ ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کا اعلان ہوگیا۔ الیاس کاشمیری بھی ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ بطور اداکار ان کی اُردو فلموں کی تعداد بہت کم ہے۔ 1956ء میں ’ماہی منڈا‘ الیاس کاشمیری کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔

    ولن کے روپ میں فلم بینوں‌ کی توجہ حاصل کرنے والے الیاس کاشمیری کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ایک گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • اشوک کمار: لیبارٹری کی چلمن سے نکل کر بڑے پردے پر کام یابیاں‌ سمیٹنے والا فن کار

    اشوک کمار: لیبارٹری کی چلمن سے نکل کر بڑے پردے پر کام یابیاں‌ سمیٹنے والا فن کار

    ہندوستانی فلمی صنعت میں اشوک کمار نے اداکار ہی نہیں بطور گلوکار بھی شہرت پائی اور ایک فلم ساز و ہدایت کار کے طور پر بھی کام کیا بولی وڈ سے متعدد فلمی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے اشوک کمار 2001ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا۔ اشوک کمار کا فلمی کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط تھا۔

    فلمی دنیا میں اشوک کے قدم رکھنے اور ایک خوب صورت ہیروئن کے ساتھ اس کی جوڑی مقبول ہونے کا قصہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے یوں بیان کیا ہے: ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    منٹو مزید لکھتے ہیں، یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے، تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے۔

    اشوک کمار نے دو مرتبہ بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ، سنہ 1988ء میں ہندی سنیما کا سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے وصول کیا اور 1999ء میں انھیں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔

    اشوک کمار کی پیدائش بہار کے بھاگلپور شہر میں 13 اکتوبر 1911 کو ایک متوسط طبقے کے بنگالی خاندان میں ہوئی تھی۔ اشوک کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم کھندوا شہر سے مکمل کی اور گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور یہیں ان کی دوستی ششادھر مکر جی سے ہوئی جو ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جلد ہی دوستی کا یہ تعلق ایک رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ اشوک کمار کی بہن کی شادی مکر جی سے ہوگئی اور اشوک ان کے سالے بن گئے اور انہی کے طفیل فلم نگری میں وارد ہوئے۔

    اشوک کمار کو فلمی دنیا کا سب سے شرمیلا ہیرو مانا جاتا تھا۔ "اچھوت کنیا، قسمت، چلتی کا نام گاڑی، خوب صورت” اور” کھٹا میٹھا "ان کی کام یاب ترین فلمیں ٹھہریں۔ انھوں نے لگ بھگ 300 فلموں میں کام کیا۔

  • ششی کپور: ہندی سنیما کا وجیہ صورت اداکار

    ششی کپور: ہندی سنیما کا وجیہ صورت اداکار

    ششی کپور اپنے زمانے کے سب سے خوب صورت اداکار تھے جنھوں نے بولی وڈ کے فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔ وہ ہندوستان کے معروف کپور خاندان کے فرد تھے جو اداکاری سے لے کر فلم سازی تک بے مثال رہا۔

    وجیہہ صورت ششی کپور کا بچپن کھیل کود کے ساتھ کپور خاندان کے فلم اسٹوڈیو میں فن اور فن کاروں کے درمیان گزرا اور انھوں نے بھی بطور اداکار فلم انڈسٹری میں نام و مقام پایا۔ سنہ 1965 میں ششی کپور کی دو فلمیں باکس آفس پر بلاک بسٹر ثابت ہوئیں۔ ان میں ایک یش چوپڑا کی فلم ’وقت‘ اور دوسری سورج پرکاش کی رومانوی میوزیکل فلم ’جب جب پھول کھلے‘ تھی۔ ششی کپور کو ان فلموں نے شہرت کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔ چالیس کی دہائی میں ششی کپور نے کئی فلموں میں بطور چائلڈ ایکٹر کام کیا تھا۔ ان میں 1948 کی فلم آگ اور 1951 کی مشہور فلم آوارہ شامل ہیں جن میں وہ راج کپور کے بچپن کا کردار ادا کرتے دکھائی دیے۔ 1965 سے 1976 کا عرصہ ان کا سنہرے دور ثابت ہوا اور ششی کپور نے جن فلموں میں کام کیا وہ زیادہ تر کام یاب ثابت ہوئیں۔

    اداکار ششی کپور کا نام پیدائش کے وقت بلبیر راج رکھا گیا لیکن بعد میں گھر والوں نے ان کو ششی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ وہ پرتھوی راج کپور کے بیٹے تھے جن کا ہندوستانی فلم انڈسٹری اور سنیما پر گہرا اثر تھا۔ ششی کپور 18 مارچ 1938 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ششی کپور نے لگ بھگ 61 فلموں میں بطور سولو ہیرو اور 116 فلموں میں مرکزی کردار نبھائے۔ تاہم انھوں نے زیادہ تر مسالہ فلمیں کیں۔ اداکار ششی کپور کو سنہ 2014 میں ’دادا صاحب پھالکے‘ ایوارڈ دیا گیا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے بولی وڈ کے اس معروف اداکار کو ’پدما بھوشن‘، کے علاوہ دو فلم فیئر ایوارڈ بھی ملے۔ ششی کپور 4 دسمبر 2017 کو چل بسے تھے۔

    ششی کپور نے اپنے والد پرتھوی راج کپور کے ساتھ سنہ 1953 سے 1960 تک پرتھوی تھیٹر میں کام کیا۔ اسی زمانے میں وہ جینیفر کینڈل کی محبت میں گرفتار ہوئے اور شادی انجام پائی۔ لیکن گھر والے پہلے اس رشتے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اداکار اپنی کتاب ’پرتھوی والا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں جینیفر کو اپنے والدین کے پاس نہیں بلکہ شمی کپور اور گیتا بالی کے پاس لے گیا۔ وہ ہمیں اپنی کار اور کچھ پیسے دیتے تاکہ ہم ڈرائیو پر جا سکیں، اکٹھے کھا پی سکیں۔ بعد میں میرے کہنے پر شمی نے ہمارے والدین سے ہمارے بارے میں بات کی۔ ان کے سمجھانے کے بعد ہی انھوں نے بڑی مشکل سے ہمارے رشتے کو قبول کیا۔‘سنہ 1984 میں جینیفر کپور کا انتقال ہو گیا اور ششی کپور میں جینے کی امنگ جیسے دم توڑ گئی۔ ان کا وزن تیزی سے بڑھا اور ان کے گھٹنوں نے جواب دے دیا۔ زندگی کے آخری دنوں میں ششی کپور کی یاداشت بھی انتہائی کمزور ہو گئی تھی۔

  • ٹی وی اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار افضال احمد کا تذکرہ

    ٹی وی اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار افضال احمد کا تذکرہ

    افضال احمد نے ساٹھ کی دہائی کے آواخر میں ٹیلی ویژن اور فلمی پردے پر اپنی عمدہ پرفارمنس، ڈائیلاگ ڈیلیوری کے منفرد انداز اور رعب دار آواز کی بدولت دیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ آنے والے برسوں میں ان کی پہچان ایک باکمال اور پُراعتماد فن کار کے طور پر بنی۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو اپنی پرفارمنس سے یادگار بنا دیا۔ آج افضال احمد کی برسی ہے۔

    اشفاق احمد کا تحریر کردہ ڈرامہ ’’اچے برج لاہور دے‘‘ ہو یا منو بھائی کا ’’جزیرہ‘‘ افضال احمد نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے۔ انھوں نے تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک ٹی وی اور فلم کی دنیا میں‌ کام کیا۔ دو دسمبر 2022ء کو افضال احمد لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ان کا پورا نام سید افضال احمد تھا۔ پرکشش شخصیت کے مالک افضال احمد جھنگ کے ایک صاحبِ ثروت گھرانے کے فرد تھے۔ ان کی تعلیم ایچی سن سے ہوئی۔ ٹی وی ڈراموں کے بعد انھیں فلموں کی آفر ہوگئی جن میں اردو، پنجابی اور پشتو فلمیں شامل ہیں۔ فلموں میں کام ملنے کی ایک وجہ افضال احمد کی دل کش شخصیت اور سرخ وسپید رنگت کے ساتھ ان کی بھاری آواز اور مکالمہ ادا کرنے کی وہ صلاحیت بھی تھی جس نے فلم سازوں کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ افضال احمد نے فلموں میں بطور ہیرو، ولن اور سائڈ ہیرو کے کردار ادا کیے۔

    اداکار افضال احمد نہایت قابل اور باصلاحیت بھی تھے اور فن سے محبت کرنے والے بھی۔ انھوں نے پاکستان میں تھیٹر کو فروغ دینے اور جدید تھیٹر کو روشناس کرانے کے لیے بہت کام کیا۔ وہ پاکستان میں تھیٹر کی ترقی و ترویج کے لیے کوششیں‌ کرنے والے چند بڑے فن کاروں میں سے ایک ہیں۔

    نام ور ڈرامہ نگار، شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد لکھتے ہیں، عابد علی، محبوب عالم اور سہیل اصغر کے بعد افضال احمد وہ چوتھا اداکار تھا جس نے میرے تین سے زیادہ سیریلز میں ہمیشہ یاد رہ جانے والے کردار ادا کیے۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ایک اپاہج کی سی زندگی گزار رہا تھا لیکن جن لوگوں نے اس کو ساٹھ کی دہائی کے آخر سے لے کر اس کے برین ہیمرج کے درمیانی تقریباً 35 برسوں میں ٹی وی اور فلم کی اسکرین پر جھنڈے گاڑتے دیکھا ہے، ان کے لیے وہ کسی بھی طرح ایک سپر اسٹار سے کم نہ تھا۔

    امجد اسلام امجد آگے لکھتے ہیں، اس کا سرخ و سفید رنگ جس کی وجہ سے اسے افضال چٹا بھی کہا جاتا تھا، متاثر کن شخصیت اور بارعب آواز اس کی ایسی پہچان تھی جس کا کوئی مماثل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ خاندانی طور پر مضبوط معاشی پس منظر کا حامل ہونے کی وجہ سے اس کے مزاج میں ایک طرح کا اعتماد شامل تھا مگر اسے غرور کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ہر محفل میں فوراً گھل مل جاتا تھا اور خاص طور پر جونیئر اور معاشی طور پر کمزور فن کاروں کے لیے اس کے دل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا البتہ سیٹ پر ساتھی اداکاروں کے لیے اس کی شرارت پسند طبیعت سے نباہ مشکل ہو جاتا تھا۔ اپنے کام اور رول کے تقاضوں کے ساتھ اس کی کمٹمنٹ دیدنی تھی۔

    فالج کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی قوتِ گویائی بھی جاتی رہی تھی اور افضال احمد معذوری کے باعث وہیل چیئر پر تھے۔ اداکار کی مشہور فلموں میں شعلے، شریف بدمعاش، وحشی جٹ، عشق نچاوے گلی گلی اور دیگر شامل ہیں۔