Tag: اداکار برسی

  • اسلم پرویز کا تذکرہ جنھیں ‘‘قاتل’’ نے پہچان دی!

    اسلم پرویز کا تذکرہ جنھیں ‘‘قاتل’’ نے پہچان دی!

    پچاس کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار اسلم پرویز نے قدم رکھا تو کوئی نہیں‌ جانتا تھا کہ بطور ہیرو ہی وہ مقبول نہیں‌ ہوں گے بلکہ ایک ولن کے روپ میں بھی فلم بین انھیں بہت پسند کریں گے۔ اسلم پرویز نے اپنے فنی سفر کا آغاز فلم ‘‘قاتل’’ سے کیا تھا اور بعد کے برسوں میں ورسٹائل اداکار کے طور پر پہچانے گئے۔

    شہرت اور مقبولیت کی دوڑ میں اسلم پرویز نے جلد ہی فلم انڈسٹری کے کئی ناموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مگر اسی تیز رفتاری سے موت نے بھی ان کی زندگی کو مات دے دی۔ اسلم پرویز 1984ء میں آج ہی کے دن ایک ٹریفک حادثے میں چند روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ اسلم پرویز ایک فلم کی شوٹنگ کے بعد ساتھی فن کار اقبال حسن کے ساتھ گھر لوٹ رہے تھے کہ سڑک پر حادثہ پیش آیا۔ اقبال حسن موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔

    اسلم پرویز لاہور کا دل کہلانے والے مال روڈ پر ایک کوٹھی میں پل کر جوان ہوئے تھے۔ ایک خوش حال گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم ایک انگریزی اسکول میں ہوئی جہاں تعلیم کے ساتھ کرکٹ اور دیگر کھیلوں کے علاوہ ڈرامہ اور میوزک کے حوالے سے بھی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔ اسی نے فنون لطیفہ سے اسلم پرویز کی دل چسپی پیدا کی۔ لیکن حالات بدلے تو اس کنبے کو مال روڈ کا گھر چھوڑ کر انڈس ہوٹل کے عقب میں واقع وکٹوریہ پارک کی طرف منتقل ہونا پڑا۔ اب وہ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ کے طالب علم بن گئے۔ اسلم پرویز کے گھر والوں نے 1953ء میں ان کی شادی کر دی جب کہ ان کی فلم ’’قاتل‘‘ 1955ء میں‌ ریلیز ہوئی۔ گھر والوں اور اسلم پرویز کی زوجہ کو فلم میں ان کا کام کرنا پسند نہ تھا۔ لیکن اسلم پرویز اپنی آنکھوں‌ میں کچھ خواب سجا چکے تھے اور قسمت ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ انھوں نے اگلے برسوں میں مزید فلمیں کیں۔ اسلم پرویز کی فلم نگری میں آمد نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا کی بدولت ہوئی جنھوں نے اسلم پرویز کو معروف فلم ساز آغا جی اے گل سے ملوایا تھا۔ اس وقت وہ فلم قاتل کے لیے کسی نئے چہرے کو آزمانا چاہتے تھے اور یوں پہلی بار اسلم پرویز نے ہیرو کے روپ میں کیمرے کا سامنا کیا۔ اس فلم کے بعد انھیں مزید آفرز ہونے لگیں اور پاکستان فلم انڈسٹری کے ابتدائی دور کا یہ باکمال اداکار بہ طور ہیرو فلم پاٹے خان، کوئل، شیخ چلی، چھومنتر، نیند اور عشق پر زور نہیں میں نظر آیا اور فلم بینوں سے خوب داد سمیٹی۔ وہ ایک باکمال اداکار تھے اور بعد میں سلور اسکرین پر انھوں نے ولن کے روپ میں بھی بے مثال اداکاری کی اور خود کو ورسٹائل فن کار کے طور پر منوایا۔ اداکار اسلم پرویز نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔

  • ونود مہرا: چائلڈ آرٹسٹ سے بولی وڈ ہیرو بننے تک

    ونود مہرا: چائلڈ آرٹسٹ سے بولی وڈ ہیرو بننے تک

    بھارتی فلم انڈسٹری میں ونود مہرا کو ان کی متاثر کن اداکاری کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ پچاس کی دہائی میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کرنے والے ونود مہرا نے دو دہائیوں بعد فلم بینوں کو ہیرو کے روپ میں بھی اپنی اداکاری سے محظوظ کیا اور کام یابیاں سمیٹیں۔

    ونود مہرہ 13 فروری 1945ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ سو سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے ونود مہرہ کی بطور چائلڈ آرٹسٹ پہلی فلم 1958ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کا نام ’’راگنی‘‘ تھا اور ونود مہرہ نے کشور کمار کے بیٹے کا رول نبھایا تھا۔ یہ رول انھوں نے نہایت عمدگی سے نبھایا تھا اور فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے تھے۔ ونود مہرا نے اپنی پہلی فلم کے بعد اپنی حوصلہ افزائی سے وہ اعتماد حاصل کیا جس نے انھیں بعد میں ایک کام یاب ہیرو بنا دیا۔ 1971ء میں ونود مہرا نے فلم ’ایک تھی ریٹا‘ میں تنوجا کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا۔ اس جوڑی کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور ونود مہرا اپنی عمدہ اداکاری کی وجہ سے مزید آفرز حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ ان کی چند کام یاب فلموں میں ’پردے کے پیچھے‘،’امر پریم‘ اور’ لال پتھر‘ شامل ہیں۔ فلم ’لال پتھر‘ میں راج کمار، ہیما مالنی اور راکھی جیسے بڑے اداکاروں کے ساتھ ونود مہرا نے خوب کام کیا۔1972ء میں فلم ’’انوراگ‘‘ کو زبردست کام یابی ملی اور یہی وہ فلم تھی جس نے ونود مہرا کو فلم اسٹار بنا دیا۔ اداکار ونود مہرا نے ہیرو اور کبھی سائیڈ ہیرو کا بھی رول نبھایا اور ہر مرتبہ فلم بینوں‌ سے داد سمیٹی۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی کام یاب ترین فلموں پر اداکار ونود مہرا کو کئی ایوارڈز بھی دیے گئے۔

    بالی وڈ اداکار ونود مہرا نے تین شادیاں‌ کی تھیں۔ ان کا اپنے وقت کی سپراسٹار اداکارہ ریکھا کے ساتھ بھی نام لیا جاتا رہا اور مشہور ہوگیا تھا کہ دونوں نے شادی کی تھی، مگر بعد میں اداکارہ ریکھا نے ایک انٹرویو میں اس کی تردید کی تھی۔ ونود مہرا 30 اکتوبر 1990ء کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔

  • پی ٹی وی کی معروف اداکارہ خالدہ ریاست کی برسی

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ خالدہ ریاست کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ خالدہ ریاست نے اپنے وقت کے مقبول ترین ٹی وی ڈراموں میں بہترین اداکاری کی اور ناظرین کی توجہ حاصل کی۔ اداکارہ خالدہ ریاست سرطان کے مرض میں مبتلا تھیں اور 26 اگست 1996ء کو وفات پائی۔ آج اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    پی ٹی وی کے ناظرین کو اپنی عمدہ پرفارمنس سے متاثر کرنے والی خالدہ ریاست یکم جنوری 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز 70 کی دہائی میں ڈرامہ سیریل ‘نامدار‘ سے کیا، جس میں ان کے ساتھ نام ور اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خالدہ ریاست کی مقبولیت کا آغاز حسینہ معین کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ‘بندش‘ سے ہوا۔ انھوں نے انور مقصود کے اسکرپٹ پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل ‘ہاف پلیٹ‘ میں بھی لیجنڈری اداکار معین اختر کے ساتھ اپنا کردار نبھایا تھا۔

    اداکارہ خالدہ ریاست کے دیگر مشہور ڈراموں میں لازوال، مانی، ایک محبت سو افسانے، پڑوسی، کھویا ہوا آدمی، ٹائپسٹ شامل ہیں۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پران: بولی وڈ کا سب سے بڑا ولن

    پران: بولی وڈ کا سب سے بڑا ولن

    ہندی سنیما میں بطور اداکار نصف صدی تک کام کرنے والے پران کو ‘ولن آف دی ملینیئم’ کہا جاتا ہے۔ وہ ایسے فن کار تھے جن کی مقبولیت آخر برقرار رہی اور کسی ہیرو کی طرح پران نے بڑے پردے پر بحیثیت ولن راج کیا۔

    بولی وڈ کے معروف اداکار پران 1998ء میں فلم انڈسٹری سے دور ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ بڑھتی ہوئی عمر کے سبب مسائل اور دل کا عارضہ تھا۔ 12 جولائی 2013ء کو اداکار پران چل بسے تھے۔

    اداکار پران کے باررے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے دور میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے چند فن کاروں میں سے ایک تھے۔ یہ تک کہا جاتا ہے کہ 1969ء کے بعد فلموں میں ان کی مقبولیت کے بعد انھیں ہیرو سے زیادہ معاوضہ آفر کیا جانے لگا تھا۔ اداکار پران نے 350 سے زائد فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔

    بھارت کے اس مشہور فلمی اداکار کا پورا نام پران کرشن سکند تھا جو پرانی دہلی کے علاقے بلی ماراں میں 12 فروری 1920ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد سول انجینیئر تھے جن کا قیام سرکاری کاموں‌ کی غرض سے مختلف شہروں میں رہا۔ تعلیم کے شعبے میں پران نے بڑی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہ ریاضی کے مضمون میں طاق تھے اور اس مضمون میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ اداکار پران نے 1945ء میں شکلا اہلووالیا سے شادی کی، وہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ تھے۔ عملی زندگی کے ابتدائی دور میں پران نے دہلی میں بطور پروفیشنل فوٹوگرافر کام شروع کیا۔ بعد میں ایک اسکرپٹ رائٹر کے کہنے پر فلم نگری میں‌ چلے آئے، اور تقسیمِ ہند سے قبل لاہور میں اداکاری کا آغاز کیا۔ ان کے فلمی کیريئر کا آغاز بطور ہیرو 1940ء میں فلم ’جٹ یملا‘ سے ہوا۔ لیکن ان کی شکل و صورت، چال ڈھال اور انداز ایسا تھا کہ انھیں ہدایت کاروں نے ولن کے روپ میں‌ پردے پر آزمانا زیادہ بہتر سمجھا اور یوں پران نے اس سمت میں اڑان بھری۔ تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو پران بمبئی کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے اور جلد ہی جگہ بنالی، فلم بین واقعی ان کے منفی روپ سے نالاں اور بطور ولن ان کے عزائم اور ارادوں سے متنفر نظر آتے تھے۔ لیکن صفِ اوّل کے ولن پران نے اسی روپ میں‌ مزاحیہ اداکاری بھی اس طرح کی کہ ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان ملی۔

    اداکار پران نے فلم ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر کے علاوہ کئی سپرہٹ فلموں میں ولن کا رول ادا کیا اور امیتابھ بچن اور سپر اسٹار کا درجہ رکھنے والے کئی اداکاروں کے ساتھ کام کرکے اپنا لوہا منوایا۔ انھوں نے ہندی سنیما کی دھوم مچا دینے والی فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں بھی کردار ادا کیے تھے۔ اسی طرح دلیپ کمار کی فلموں دیوداس، مدھومتی، دل دیا درد لیا، رام اور شیام اور آدمی میں بھی بطور ولن پران کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    آواز میں انفرادیت اور مکالمے ادا کرنے کا انداز بھی بطور ولن پران کی اس قدر مقبولیت کی ایک وجہ تھا۔ انھوں نے مار دھاڑ کرنے والے، ایک بدمعاش، قاتل اور چور اچکے کا ہی کردار نہیں نبھایا بلکہ ایک نیک سیرت اور رحم دل انسان کے طور پر بھی ناظرین کے سامنے آئے اور ان مضبوط کرداروں میں پران کی شان دار پرفارمنس نے شائقین کو ان کا مداح بنا دیا۔

    فلم اور شوبزنس انڈسٹری کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی پران کو اعزازات سے نوازا گیا اور فنِ اداکاری میں ان کی بے مثال پرفارمنس کو تسلیم کیا گیا۔ سنہ 1997 میں انھیں لائف ٹائم ایوارڈ دیا گیا اور بعد میں ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ دیا گیا۔

  • مشہور فلمی اداکار ساون کا تذکرہ جسے غرور اور لالچ لے ڈوبا

    مشہور فلمی اداکار ساون کا تذکرہ جسے غرور اور لالچ لے ڈوبا

    فلمی دنیا کے کئی ستارے ایسے ہیں‌ جنھوں نے شہرت اور مقبولیت کے ساتھ اپنے فلمی کیریئر میں خوب دولت بھی سمیٹی، لیکن بددماغی اور لالچ انھیں لے ڈوبی۔ اداکار ساون نے پاکستان کی فلمی صنعت کے عروج کے زمانہ میں بے مثال شہرت پائی اور حیرت انگیز کام یابیاں حاصل کیں۔ وہ ایک ایکسٹرا سے چوٹی کے ولن بنے اور پھر کیریکٹر ایکٹر تک صفِ اوّل کے اداکاروں‌ میں شمار کیے گئے، لیکن ان کا انجام اچھا نہیں ہوا۔

    اداکار ساون دراز قد اور تنو مند ہی نہیں تھے بلکہ گرج دار آواز کے مالک بھی تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کے ڈیل ڈول اور شخصیت کو دیکھتے ہوئے بھی فلم میں ان کا کردار لکھا جاتا تھا۔ وقت بدلا تو چوٹی کے اس ولن کو گزر بسر اور اخراجات کے لیے چھوٹے موٹے کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ اداکار ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔ 60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کو بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر اردو اور پنجابی فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ شمولیت اختیار کرلی تھی، فوج کی نوکری سے فارغ ہوئے تو روزی روٹی کمانے کے لیے تانگہ چلانے لگے، لیکن قسمت نے یاوری کی اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے جہاں شہرت اور دولت گویا ان کی منتظر تھی۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بال بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون فلم نگری میں قدم رکھنے سے قبل 1950ء میں کراچی میں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنے پہنچے۔ اس کے علاوہ بھی وہ دوسرے چھوٹے موٹے کام اور ہر قسم کی مزدوری کر کے چار پیسے بنا لیتے تھے۔ اسی دوران شہر کے ایک سنیما کے ملازمین سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کے کہنے پر ساون کو فلموں میں کام کرنے کا شوق ہوا۔ انھیں فلم اسٹوڈیوز کے چکر تو لگانے پڑے لیکن یہ ریاضت رائیگاں نہ گئی اور فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ساون کو کردار نبھانے کا موقع مل ہی گیا۔ یہیں ان کو ساون کا نام دے دیا گیا اور پھر کسی نے لاہور جا کر قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون نے لاہور کا قصد کیا اور ایک روز وہاں آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس فلم کے بعد ساون کو فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا جس نے انھیں ایک مقبول اداکار بنا دیا۔ اس کے بعد ساون کو بطور ولن کام ملنے لگا اور کام یابی ان کا مقدر بنتی رہی۔

    ساون نے کئی اردو فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ پنجابی زبان میں ان کی کام یاب فلموں‌ میں‌ ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ابتدائی فلموں کے بعد جب ساون نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلی تو انھیں‌ ولن کے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا اور اس روپ میں انھیں خوب شہرت ملی۔ ساون کی فلمیں‌ کام یاب ثابت ہوئیں۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلم ساز ان سے رابطہ کرنے لگے۔ انھیں اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا، لیکن اپنی مانگ اور ایسی پذیرائی نے اداکار ساون کو بد دماغ بنا دیا۔ وہ کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے اور اب فلم سازوں‌ سے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ یہی لالچ انڈسٹری میں ان کے زوال کا سبب بنی۔ بعد میں اداکار ساون اکثر اپنے احباب سے بھی کہتے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” اس دور میں‌ کئی کام یاب فلمیں‌ دینے والے ساون سے فلم ساز گریز کرنے لگے اور پھر انھیں‌ اہم کردار ملنا بند ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • حسام قاضی: پی ٹی وی کے بے مثال اداکار کا تذکرہ

    حسام قاضی: پی ٹی وی کے بے مثال اداکار کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے فن کاروں کی کہکشاں میں شامل کئی چہرے اُس نسل کی یادوں کا حصّہ ہیں جس نے گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں ہوش سنبھالا۔ انہی میں ایک فن کار حسام قاضی ہیں جو ٹی وی ڈراموں میں اپنے کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئے۔ 3 جولائی 2004ء کو اداکار حسام قاضی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    حسام قاضی نے 4 مارچ 1961ء کو کوئٹہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ زندگی نے انھیں بہت کم مہلت دی اور صرف 42 سال جیے۔ کراچی میں وفات پانے والے حسام قاضی کے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے ہوا تھا۔ یہ کوئٹہ سینٹر کی پیشکش تھی اور اس کے پروڈیوسر دوست محمد گشکوری تھے۔ اس دور میں‌ پی ٹی وی باکمال ہدایت کار کاظم پاشا کے ڈرامہ سیریل "چھاؤں” کے ایک کردار سے حسام قاضی کو ملک گیر شہرت ملی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ اداکاری کا آغاز کرنے والے حسام قاضی کامرس کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ کوئٹہ کے ایک کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دینے کے ساتھ حسام قاضی نے اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ منفرد آواز انداز اور متاثر کن شخصیت کے ساتھ اپنے خوب صورت لب و لہجہ سے حسام قاضی نے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ حسام قاضی پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے قابلِ ذکر فن کاروں میں سے ایک تھے۔

    اداکار حسام قاضی کے مشہور ڈرامہ سیریلوں میں ماروی، چاکرِ اعظم، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیرِ تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔ سنہ 2000ء میں‌ حسام قاضی کو دل کے عارضے کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم علاج اور دیکھ بھال کے بعد وہ طبیعت میں‌ بتدریج بہتری محسوس کررہے تھے۔ اداکار نے آرام کی غرض سے کالج میں اپنی ذمہ داریوں‌ سے طویل رخصت لے رکھی تھی اور اپنے کنبے کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن پر حسام قاضی نے اپنے وقت کے باکمال اور سینئر فن کاروں کے ساتھ کام کیا اور ان کے درمیان اپنی شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ ماروی کو حسام قاضی کے کیریئر کا ایسا کھیل کہا جاسکتا ہے جسے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی اور حسام قاضی کا کردار ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا۔

  • سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    مردانہ وجاہت کا نمونہ، نفیس شخصیت کے مالک اور شستہ زبان کے حامل سنتوش کمار نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں رومانوی ہیرو کے روپ میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ وہ تقسیمِ ہند سے قبل ہی فلمی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے اور اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔

    اس اداکار کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور فلمی دنیا میں سنتوش کے نام سے شہرت پائی۔ اس بارے میں معروف صحافی اور کالم نگار مسعود اشعر 1982 کے روزنامہ امروز میں لکھتے ہیں:
    ’اس زمانے میں مسلمان اداکار اپنا اصلی نام ظاہر کرنا معیوب خیال کرتے تھے۔ اشوک کمار اور دلیپ کمار اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ان کے نام پر اپنا فلمی نام رکھنا لوگ اپنی عزت اور نیک شگون سمجھتے تھے۔ موسیٰ رضا نے ممبئی کی فلمی زندگی میں اس روایت کے زیرِ اثر اپنا نام سنتوش کمار رکھ لیا۔

    اداکار سنتوش کی پہلی پاکستانی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم کا جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ ان سے سنتوش کمار نے دوسری شادی کی تھی۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ وہ تقسیم سے قبل اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔ موسیٰ رضا نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن سے گریجویشن کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے تحصیل دار کے عہدے کے لیے بھی منتخب ہوگئے تھے، مگر نوکری کے بجائے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔

    سنتوش کمار نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ پاکستان ہجرت کر کے آنے کے بعد مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا کیریئر یہاں شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔ سنتوش کمار نے اپنے دور کی مشہور اداکاراؤں کے ساتھ یادگار کردار ادا کیے۔ ان میں سورن لتا، شمیم آرا، شمی، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، مینا شوری، اور راگنی شامل ہیں جن کے ساتھ سنتوش کی درجنوں رومانوی فلموں نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

    اداکار سنتوش کمار کی یادگار فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    جمیل فخری:‌ فن کی دنیا کا ایک باوقار نام

    پاکستان میں ٹیلی ویژن کے کئی اداکاروں کو ان کے فنی سفر کے ابتدا میں ہی وہ کردار ملے جن کی بدولت انھوں نے راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چُھو لیا، لیکن وہ زیادہ عرصہ اس کام یابی کو برقرار نہ رکھ سکے، جب کہ کچھ ایسے فن کار بھی ہیں کہ اپنی شہرت کو آخری دَم تک نہ صرف قائم رکھا بلکہ فن کی دنیا میں لازوال پہچان بنائی۔ ان میں ایک نام اداکار جمیل فخری کا بھی ہے جنھوں نے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔

    1970ء میں اداکاری کا آغاز کرنے والے جمیل فخری کو پولیس کی وردی میں جعفر حسین کا کردار نبھاتے ہوئے دیکھنے والے کبھی فراموش نہیں کرے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی لازوال سیریز ’اندھیرا اجالا‘ کا یہ مقبول کردار ہمارے ذہنوں پر نقش ہے۔ جمیل فخری 9 جون 2011ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    جمیل فخری نے کمر عمری میں تھیٹر ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا تھا اور ستّر کی دہائی میں وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے۔ جمیل فخری نے اپنے طویل کریئر میں مزاحیہ، سنجیدہ اور منفی کردار بھی ادا کیے اور ہر رنگ میں اپنا منفرد انداز برقرار رکھا جمیل فخری کو اطہر شاہ خان نے ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد انھوں نے اسٹیج اور پھر ٹی وی کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ جعفر حسین کے پولیس انسپکٹر کے کردار میں جمیل فخری نے ملک گیر شہرت ہی نہیں پائی بلکہ ان کا یہ کردار لازوال ثابت ہوا۔

    یہ اس دور کی بات ہے جب چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو گویا ہر سڑک اور ہر گلی سنسان ہو جاتی۔ ناظرین ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس ڈرامے کے دیگر مرکزی کرداروں میں‌ منجھے ہوئے اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ شامل تھے۔ پولیس انسپکٹر کے روپ میں جمیل فخری کا مخصوص لہجہ اس قدر مقبول تھا کہ لوگ ان کے انداز کی نقل کرتے اور ان کے ادا کردہ مکالمے بھی سب کی زبان پر ہوتے تھے۔

    جمیل فخری نے تیس سے زائد پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔ اگرچہ ان میں کوئی مرکزی کردار شامل نہیں ہے، لیکن انھوں نے اپنے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اس کا گہرا تأثر فلم بینوں پر چھوڑا۔ اداکار جمیل فخری نے کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن پھر خود کو پی ٹی وی کے ڈراموں تک محدود کرلیا۔ دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے وہ ڈرامے تھے جن میں جمیل فخری نے بے مثال اداکاری کی۔

    اداکار جمیل فخری ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ جمیل فخری کے انتقال سے چند ماہ قبل امریکا میں اپنے بڑے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ نہایت غم زدہ اور پریشان رہنے لگے تھے۔ ایک باپ کی حیثیت سے یہ وہ صدمہ تھا جسے سہنا ان کے لیے یقیناً‌ آسان نہیں‌ تھا۔ ان کے احباب کے مطابق بیٹے کی یوں الم ناک موت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔

    معروف اداکار جمیل فخری کو لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • انتھونی کوئن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار

    انتھونی کوئن: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار

    انتھونی کوئن دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام ہیں جن کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ اداکاری کیا ہوتی ہے یہ دیکھنا ہو اور اداکاری سیکھنا ہو تو کوئی انتھونی کوئن سے سیکھے۔ عالمی شہرت یافتہ اداکار انتھونی کوئن کی اسلامی ممالک میں وجہِ شہرت صحابی حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اور شہید عمر مختار کے کردار بنے جو انھوں نے دو مختلف فلموں‌ میں نبھائے تھے۔

    امریکا میں میکسیکو کے ایک خاندان میں 1915ء میں پیدا ہونے والے انتھونی کوئن نے ہالی وڈ کی کئی کام یاب فلموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان فلموں میں زوربا دی گریگ، لارنس آف عربیہ، دی گنز آف نیوارون، دی میسج، لائن آف دی ڈیزرٹ اور لا استرادا کو بے مثال کام یابی نصیب ہوئی۔ انتھونی کوئن کو دو مرتبہ بہترین معاون اداکار کا اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ اداکار انتھونی کوئن نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1936ء میں پیرول اور دی ملکی وے سے کیا تھا۔ ان کی پہلی کام یاب فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی جس کا نام ویوا زاپاتا تھا۔ اس فلم میں انتھونی کوئن نے مارلن برانڈو کے مد مقابل معاون کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار ایلیا کازان تھے جنھیں اپنے شعبے میں زبردست کام کی وجہ سے عالمی سطح پر پہچانا جاتا ہے۔ انتھونی کوئن نے اس کے لیے معاون اداکار کی حیثیت سے آسکر اپنے نام کیا تھا۔ ونسنٹ منیلی کی 1956ء کی فلم لسٹ فار لائف میں وہ ایک مرتبہ پھر معاون اداکار کی حیثیت سے نظر آئے اور اس کردار پر بھی انھیں آسکر دیا گیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ فلم میں انتھونی کوئن صرف 8 منٹ کے لیے پردے پر نظر آئے تھے اور اس دورانیہ میں ان کی لاجواب اداکاری نے سبھی کو حیران کر دیا تھا۔

    1961ء کی مشہورِ زمانہ فلم دی گنز آف نیوارون تھی جس میں انتھونی کوئن ایک یونانی مزاحمت کار کے روپ میں پردے پر جلوہ گر ہوئے۔ اس فلم نے ہر طرف تہلکہ مچا دیا۔ یہ ایک کام یاب ترین فلم تھی۔ 1962ء میں اداکار کو لارنس آف عربیہ میں ایک بدوی راہ نما عودہ ابو تایہ کے کردار میں دیکھا گیا۔ 1964ء میں فلم زوربا دی گریک نے خوب کام یابی سمیٹی اور انتھونی کوئن کو بہترین اداکار کے آسکر کے لیے نامزد کیا گیا۔

    1977ء میں معروف مسلمان ہدایت کار مصطفیٰ العقاد کی اسلام کے ابتدائی دور پر بنائی گئی مشہورِ زمانہ فلم دی میسیج میں انتھونی کوئن کو صحابی حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کا کردار سونپا گیا اور 1980ء میں انھوں‌ نے لیبیا میں اٹلی کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے والے عمر مختار کی زندگی پر بنائی گئی فلم لائن آف دی ڈیزرٹ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انتھونی کوئن کو ان کرداروں‌ نے اسلامی دنیا میں خاص طور پر شہرت دی۔

    اداکاری کے علاوہ انتھونی کوئن کو فنونِ لطیفہ سے لگاؤ ہی نہیں تھا بلکہ انھوں نے مجسمہ سازی، مصوری بھی کی اور دو آپ بیتیاں بھی رقم کیں۔ آخر عمر میں اداکار حلق کے سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے۔ 2001ء میں انتھونی کوئن آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ 86 سالہ اداکار کی موت کا سبب نمونیہ تھا۔

  • آغا طالش: پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام

    آغا طالش: پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام

    قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمی دنیا آباد ہوئی تو طالش بھی ان فن کاروں‌ میں شامل تھے جنھوں‌ نے سنیما بینوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز کیا۔ اگرچہ وہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ہی اداکاری شروع کرچکے تھے، لیکن اب پاکستان میں بڑے پردے پر نام بنانا ان کی خواہش تھی۔ آج آغا طالش کی برسی ہے جنھیں لیجنڈری اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    1962 میں فلم شہید، 1964 کی فلم فرنگی اور چند سال بعد زرقا وہ فلم ثابت ہوئی جس نے آغا طالش کو صفِ اوّل کا اداکار بنا دیا۔ ان فلموں‌ میں طالش کو ان کے کرداروں نے امر کر دیا۔ تقسیم سے قبل ان کی پہلی فلم سرائے کے باہر (1947) تھی جو لاہور میں بنی تھی۔ تقسیم کے بعد طالش کی پہلی فلم نتھ بتائی جاتی ہے جو 1952 میں‌ ریلیز ہوئی لیکن ابتدائی درجنوں فلموں میں ان کے کردار شائقین کی توجہ حاصل نہیں‌ کرسکے تھے۔ اس عرصہ میں طالش ہیرو بنے، ولن کا رول کیا اور معاون اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی پردے پر دکھائی دیے۔ مگر پھر اپنی محنت اور لگن سے انھوں نے وہ معیاری پرفارمنس دی کہ سنیما بین اور فلمی نقاد بھی ان کے معترف ہوگئے۔ اداکار آغا طالش نے فلم کی دنیا میں دہائیوں پر محیط اپنے سفر میں شان دار پرفارمنس کی بدولت پاکستانی فلمی صنعت کا معتبر ترین نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش انتقال کرگئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آغا طالش نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان کے پشاور سینٹر سے کیا اور بعد میں فلم کی طرف آئے۔

    اداکار طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محکمۂ پولیس میں تھے اور جب طالش کی پیدائش کے بعد ان کا تبادلہ متھرا ہوا تو وہیں‌ آغا طالش نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھیں بچپن سے اداکاری کا شوق ہوگیا تھا۔ طالش نے بطور چائلڈ اسٹار اسٹیج ڈراموں میں اداکاری بھی کی اور پھر سنیما کا شوق ایسا ہوا کہ بمبئی پہنچ گئے۔ کام تو مل گیا، مگر تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرنا پڑی اور یہاں طالش کو بریک تھرو فلم سات لاکھ سے ملا تھا جس میں ان پر سلیم رضا کا سدا بہار گیت عکس بند کیا گیا جس کے بول تھے، یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں۔ لیکن ان کی اصل پہچان فلم شہید کا منفرد کردار تھا جو 1962 میں پاکستانی فلم بینوں‌ کو بہت بھایا۔ اس فلم میں طالش نے ایک انگریز "اجنبی” کا کردار ادا کیا تھا جو تیل کی تلاش میں صحرائے عرب کی خاک چھانتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتا ہے اور مقامی قبیلے میں نفاق ڈال کر اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے۔ طالش نے اس کردار کو بخوبی نبھایا اور اس یادگار کردار کے بعد انھیں فلموں‌ میں بڑے اور بھاری رول ملنے لگے۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امراؤ جان ادا سرفہرست ہیں۔ انھوں نے اردو فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    آغا طالش نے پاکستانی فلموں میں مختلف کردار نبھائے۔ وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔ آغا طالش ان فن کاروں‌ میں شامل ہیں جنھیں‌ اداکاری کا جنون تھا اور انھیں‌ جب موقع ملا تو ہر کردار اس خوبی سے نبھایا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    اداکار آغا طالش لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔