Tag: اداکار برسی

  • افسانوی شہرت کے حامل اداکار سلطان راہی کا تذکرہ

    افسانوی شہرت کے حامل اداکار سلطان راہی کا تذکرہ

    1980 کے عشرے میں اسکرین پر گنڈاسا تھامے سلطان راہی کا زور چلتا تھا۔ وہ بڑی اسکرین پر چھائے ہوئے تھے اور مشکل نظر آتا تھا کہ اگلے کئی برسوں میں کوئی زبردست آئے گا اور سلطان راہی کی اس سلطنت کو اپنے زورِ دست سے زیر و زبر کر دے گا، لیکن ایک ناگہانی واقعے نے اس خیال کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ سلطان راہی 9 جنوری 1996ء کو گولی کا نشانہ بن گئے اور راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ آج سلطان راہی کی برسی ہے۔

    پنجابی فلموں کے سلطان نے اس دنیا سے کوچ کیا تو اُن کی 54 فلمیں زیرِ تکمیل تھیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سلطان راہی اور بھارت میں وریند ایکشن فلموں کی جان تھے اور دونوں ہی اندھی گولی کا نشانہ بنے۔ وریندر بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور ہیرو دھرمیندر کے کزن تھے۔

    فروری 1979ء میں نام وَر فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم کے دو مرکزی کردار سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی تھے۔ اس فلم میں سلطان راہی کو ایک نیک سیرت انسان اور مصطفیٰ قریشی کو ایک بدمعاش کے روپ میں‌ پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم نے کام یابی کا وہ ریکارڈ قائم کیا جس کی انڈسٹری میں مثال نہیں ملتی۔ باکس آفس پر فلم اس قدر ہٹ ہوئی کہ مسلسل ڈھائی سال زیرِ نمائش رہی اور لوگوں‌ نے متعدد بار بڑے پردے پر یہ فلم دیکھی۔


    مشہور فلمی رسالہ "شمع” (نئی دہلی) میں "ستاروں کی دنیا” کے عنوان سے یونس دہلوی کا مقبولِ عام کالم "مسافر” کے قلمی نام سے شایع ہوتا تھا۔ انھوں نے 1990ء کے شمارے میں اپنے اس کالم میں پاکستان کی مشہور فلم "مولا جٹ” کا ذکر کیا تھا۔ یونس دہلوی لکھتے ہیں:

    "10 مارچ 1990ء کو مسافر کا اچانک ہی لاہور جانا ہو گیا۔ دانہ پانی کا اٹھنا سنتے تھے، مگر اس روز مسافر اس محاورے پر پورا ایمان لے آیا۔ اس وقت پاکستان کے شہرۂ آفاق فلم ساز سرور بھٹی کی شہرۂ آفاق فلم "مولا جٹ” کی نمائش کا موقع تھا۔”

    "ہندوستان میں اگر ریکارڈ توڑ فلم "شعلے” بنی ہے تو پاکستان میں ریکارڈ توڑ ہی نہیں کرسی توڑ فلم "مولا جٹ” بنی۔ کرسی توڑ اس لیے کہ ‘مولا جٹ’ لاہور میں مشترکہ 216 ویں ہفتہ میں چل رہی تھی کہ حکومتِ وقت نے اس پر پابندی لگا کر اتار دیا۔”

    "مولاجٹ 9 فروری 1979ء کو لاہور کے شبستان سنیما میں ریلیز ہوئی تھی اور 3 فروری 1981ء کو 104 ویں ہفتہ میں تھی کہ اس طرح سنیما سے اُچک لی گئی جیسے باغ میں کھلنے والا سب سے خوب صورت پھول اچک لیا جاتا ہے۔”

    "بات کورٹ کچہری تک گئی۔ ہائی کورٹ نے 27 دن کی کارروائی کے بعد 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا اور حکومت کے اس فعل کو غیر قانونی قرار دیا۔”

    "25 اپریل 1981ء کو "مولا جٹ” کو پھر سے کرسیاں توڑنے اور ریکارڈ توڑنے کے لیے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اچانک 18 مئی 1981ء کو مارشل لا قوانین کے تحت فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔ اس طرح ‘مولا جٹ’ کی آزادی ختم ہو گئی۔”

    "پاکستان سے مارشل لا گیا تو سرور بھٹی نے ‘مولا جٹ’ کی حبسِ بے جا کے خلاف عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے اور 9 مارچ 1990ء کو ایک بار پھر ‘مولا جٹ’ کا راج آ گیا۔ اس بار ‘مولا جٹ’ لاہور کے دس سنیما گھروں میں ایک ساتھ ریلیز کی گئی۔”

    یونس دہلوی آگے لکھتے ہیں‌، "‘مولا جٹ’ چوں کہ ریکارڈ توڑ اور کرسی توڑ فلم تھی اس لیے منٹ منٹ پر تالیاں اور سیٹیاں بج رہی تھیں۔”

    سلطان راہی کا اصل نام سلطان محمد تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1934 اور جائے پیدائش پاکستان کا شہر راولپنڈی ہے۔ ان کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ سلطان راہی نے اسی ماحول میں ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ قرآنِ پاک مع تفسیر پڑھا۔ کم عمری میں‌ سلطان راہی کو فلموں میں دل چسپی پیدا ہوگئی اور یہ شوق اتنا بڑھا کہ وہ فلم میں کام کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔ اسی شوق کے ہاتھوں ایک روز راولپنڈی سے لاہور چلے آئے اور اسٹیج ڈراموں سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ سلطان راہی نے جس ڈرامے میں‌ پہلی مرتبہ مرکزی کردار نبھایا وہ ’شبنم روتی رہی‘ تھا۔ اس ڈرامے کے بعد ان کی رسائی فلم نگری تک ہوئی اور وہ ایکسٹرا کے کردار نبھانے لگے۔ فلمی صنعت میں اس وقت سنتوش کمار، درپن، لالہ سدھیر، مظہر شاہ کا بڑا نام تھا۔ ایکسٹرا کے طور پر کام کرتے ہوئے سلطان راہی کو بڑے کردار کی تلاش تھی۔ باغی، ہیرسیال اور چند دیگر فلموں میں ایکسٹرا کا کردار ادا کرنے کے بعد وہ ایم سلیم کی پنجابی فلم ’امام دین گوہاویا‘ میں ایک مختصر کردار ادا کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی زمانے میں ان کی وہ فلمیں‌ بھی ریلیز ہوئیں جن میں‌ سلطان راہی نے معمولی کردار ادا کیے تھے۔ 1971ء میں سلطان راہی کو ہدایت کار اقبال کاشمیری کی فلم ’بابل‘ میں ایک بدمعاش کا ثانوی کردار ملا اور یہی ان کی فلمی زندگی میں بڑی تبدیلی کا سبب بن گیا۔

    برصغیر پاک و ہند کی پنجابی زبان میں فلمیں لاہور کے علاوہ کولکتہ اور ممبئی میں بھی بنائی جاتی رہیں اور تقسیم سے پہلے ریلیز ہوئیں لیکن ہیر رانجھا کو لاہور میں بننے والی پہلی ناطق پنجابی فلم کہا جاتا ہے۔ ابتدائی دور کی پنجابی فلمیں ہلکی پھلکی رومانوی اور نغماتی فلمیں ہوتی تھیں جو عام طور پر پنجاب کی خالص لوک داستانوں سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، سہتی مراد اور دلا بھٹی کے علاوہ ہندوؤں کی دیو مالائی داستانوں اور بدیسی قصے کہانیوں پر مبنی ہوتی تھیں۔

    1950ء کی دہائی میں پاکستان میں پنجابی فلمیں بننے لگیں جن میں عام طور پر رومانوی اور نغماتی فلموں کے علاوہ معاشرتی موضوعات کو فلمایا گیا تھا۔ اس دور میں بہت بڑی بڑی پنجابی فلمیں سامنے آئیں۔ لیکن پھر زمانہ بدل گیا اور کہتے ہیں‌ کہ وحشی جٹ سے پنجابی فلموں میں گنڈاسا کلچر شروع ہوا۔

    اب سماجی اور رومانی فلموں کی جگہ پُرتشدد مناظر اور ایکشن سے بھرپور فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز بن رہی تھیں۔ 1979 میں پاکستانی فلمی صنعت میں انقلابی تبدیلی فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ کی صورت میں‌ آئی۔ اس فلم نے باکس آفس پر کام یابیوں کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس فلم کی نمائش ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران ہوئی تھی جس کا ذکر یونس دہلوی کے مضمون میں‌ آیا ہے۔ سلطان راہی نے ستّر کی دہائی کے آغاز پر بشیرا اور وحشی جٹ جیسی فلموں سے اپنے کیریئر کی سمت تو گویا طے کرلی تھی لیکن یہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس کی انتہا کیا ہوگی۔ لیکن فلم مولا جٹ کی بے مثال کام یابی نے یہ طے کر دیا۔ اس کے بعد سطان راہی کی پانچ فلمیں ایک ہی دن ریلیز ہوئیں۔ یہ 12 اگست 1981ء کی بات ہے جب شیر خان، سالا صاحب، چن وریام، اتھرا پُتر اور ملے گا ظلم دا بدلہ کے نام سے فلمیں ریلیز ہوئیں اور ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ ’شیر خان‘ اور ’سالا صاحب‘ نے ڈبل ڈائمنڈ جوبلی (دو سو ہفتے) اور ’چن وریام‘ نے سنگل ڈائمنڈ جوبلی مکمل کی۔

    صحافی اور محقق و ادیب عارف وقار لکھتے ہیں کہ اسّی کے عشرے میں پنجابی فلمیں حاوی نظر آئیں۔ اس دوران سلطان راہی کی آسمان کو چھوتی مقبولیت کے سبب لالی وڈ میں اردو کی 223 فلموں کے مقابلے میں پنجابی کی 370 پکچرز ریلیز ہوئیں۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب پاکستانی فلم انڈسٹری کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور فلمی صنعت کا شیش محل زمین بوس ہو چکا تھا تب بھی ماضی کی اس شان دار عمارت کا کچھ حصّہ ایک مضبوط ستون کے سہارے کھڑا رہ گیا تھا۔ اور یہ ستون سلطان راہی کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، جو سن پچاس کی دہائی میں ایک ایکسٹرا بوائے کے طور پر آیا تھا اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پہلے ولن اور پھر ہیرو کے طور پر ساری صنعت پر چھا گیا تھا۔ لیکن اس کی موت سے وہ آخری ستون بھی کھسک گیا اور فلمی صنعت کی رہی سہی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔

    سلطان راہی لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    اشوک کمار ‘بَن کا پنچھی’

    ہندوستانی فلمی صنعت میں اشوک کمار کو بہ طور اداکار خوب شہرت ملی، لیکن انھوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کی اور فلم ساز و ہدایت کار کے طور پر کام کیا اشوک کمار کو متعدد فلمی ایوارڈز دیے گئے۔ اشوک کمار 2001ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    بولی وڈ اداکار اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا اور ہر میڈیم کے ناظرین کو اپنی پرفارمنس سے متاثر کرنے میں کام یاب رہے۔ اشوک کمار کا فلمی کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط تھا۔

    فلمی دنیا میں اشوک کے قدم رکھنے اور ایک خوب صورت ہیروئن کے ساتھ اس کی جوڑی مقبول ہونے کا قصہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے یوں بیان کیا ہے: ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

    اشوک کمار کو دو مرتبہ بہترین اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ، سنہ 1988ء میں ہندی سنیما کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے اور 1999ء میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔

    اشوک کمار کی پیدائش بہار کے بھاگلپور شہر میں 13 اکتوبر 1911 کو ایک متوسط طبقے کے بنگالی خاندان میں ہوئی تھی۔ اشوک کمار نے اپنی ابتدائی تعلیم کھندوا شہر سے مکمل کی اور گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور یہیں ان کی دوستی ششادھر مکر جی سے ہوئی جو ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جلد ہی دوستی کا یہ تعلق ایک رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ اشوک کمار کی بہن کی شادی مکر جی سے ہوگئی اور اشوک ان کے سالے بن گئے اور انہی کے طفیل فلم نگری میں وارد ہوئے۔

    اشوک کمار کو فلمی دنیا کا سب سے شرمیلا ہیرو مانا جاتا تھا۔ "اچھوت کنیا، قسمت، چلتی کا نام گاڑی، خوب صورت” اور” کھٹا میٹھا "ان کی کام یاب ترین فلمیں ٹھہریں۔ انھوں نے لگ بھگ 300 فلموں میں کام کیا۔

  • دیوین ورما: بولی وڈ‌ کے مقبول مزاحیہ اداکار کا تذکرہ

    دیوین ورما: بولی وڈ‌ کے مقبول مزاحیہ اداکار کا تذکرہ

    دیوین ورما ہندی سنیما میں مزاحیہ اداکار کے طور اس دور میں مقبول ہوئے جب فلمیں ہیرو کی دبنگ انٹری اور آئٹم سانگ یا مار دھاڑ کی محتاج نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان کی کام یابی کا انحصار جان دار کہانی اور شان دار اداکاری پر ہوتا تھا۔ دیوین ورما نے دہائیوں تک اپنی مزاحیہ اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا۔ دیوین 2 دسمبر 2014 کو 78 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔

    دیوین ورما نے اپنی مزاحیہ اداکاری سے دیکھنے والوں کو اپنا پرستار بنا لیا تھا۔ وہ فلموں میں شائشتہ کردار نبھاتے ہوئے اپنے انداز اور برجستہ جملوں سے مزاح پیدا کرتے تھے۔ دیوین ورما نے ہندی فلموں کے علاوہ مراٹھی اور بھوجپوری فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب فلم ’انگور‘ تھی جو شیکسپیئر کے ڈرامے ’کامیڈ ی آف ایررز‘ پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں دیوین ورما نے بہادر کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ معروف نغمہ نگار اور فلم ساز گلزار کی ایک کام یاب فلم تھی۔ دیوین ورما کو اس فلم کے لیے بہترین کامیڈین کا اعزاز دیا گیا۔

    ’چور کے گھر کے چور‘ اور ’چوری میرا کام‘ وہ فلمیں تھیں جن میں دیوین ورما کی مزاحیہ اداکاری شائقین کو بہت بھائی اور انھیں بہترین کامیڈین کا فلم فيئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ دیوین ورما پونے میں سنہ 1937 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے سیاسیات اور سماجیات میں گریجویشن کیا۔ دیوین ورما کی شادی معروف اداکار اشوک کمار کی بیٹی روپا گنگولی سے ہوئی تھی۔

    اداکار دیوین ورما کی یادگار فلموں میں ’کھٹا میٹھا،‘ ’بے شرم‘، ’بھولا بھالا،‘ ’جدائی،‘ ’تھوڑی سی بے وفائی،‘ ’گول مال،‘ ’رنگ برنگیت‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    ایکٹنگ کے علاوہ دیوین ورما نے کئی فلمیں پروڈیوس بھی کیں جن میں ’دانا پانی،‘ ’بے شرم،‘ ’نادان‘ اور ’یقین‘ شامل ہیں۔ ان میں سے بعض فلموں کی ہدایات بھی انھوں نے دیں۔

    دیوین ورما 1960 کی دہائی میں اداکار بننے کا خواب لے کر ممبئی گئے تھے۔ ان کے کیریئر کا آغاز 1961 میں یش چوپڑا کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم "دھرم پتر” سے ہوا۔ فلم باکس آفس پر کام یاب رہی لیکن دیوین ورما شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ سال 1963 میں اس اداکار کو بی آرچوپڑا کی فلم گمراہ میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن یہ بھی ان کی کام یابی کی بنیاد نہ بن سکی۔ اداکار کے فلمی کیریئر میں 1966 ایک اہم سال ثابت ہوا۔ اس سال دیور، بہاریں پھر بھی آئیں گی اور انوپما جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں دیوین ورما بطور اداکار مختلف انداز میں سامنے آئے اور مزاحیہ اداکار کے طور پر بولی وڈ میں‌ اپنی جگہ بنائی۔

  • سیّد کمال: خوبرو اور پُرکشش اداکار جنھیں پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا ہے

    سیّد کمال: خوبرو اور پُرکشش اداکار جنھیں پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا ہے

    اداکار کمال انتہائی خوبرو اور پُرکشش تھے جو مشہور بھارتی اداکار راج کپور سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور کمال کی اُن سے ملاقاتیں اور بے تکلفی بھی تھی۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اداکار کمال کو اردو اخبارات اور فلمی جرائد میں‌ اکثر پاکستانی راج کپور بھی لکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی اتفاق سے دونوں ملکوں کے ان فن کاروں‌ کی ملاقات ہوجاتی تو اس کی خبر یا کسی اسٹوری میں ان کی شکل و صورت کا ذکر ضرور کیا جاتا۔ آج اداکار کمال کے یومِ وفات پر اسی مناسبت سے ایک مشہور قصّہ ملاحظہ کیجیے: ایک مرتبہ کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے راج کپور بھارت کے کسی شہر کے ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، بھارت میں ان کے مداحوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی اور وہ اپنے وقت کے مقبول ہیرو تھے۔ مقامی لوگوں اور راج کپور کے مداحوں کو ہوٹل میں‌ ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہاں‌ ایک جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا۔ ان کا اصرار تھا کہ راج کپور ہوٹل کی بالکونی میں آکر انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    شہرت اور مقبولیت بھی عجیب شے ہے۔ فلم اسٹارز کو اپنے مداحوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ راج کپور کی طبیعت اس وقت کچھ ناساز تھی۔ سیّد کمال ان کے ساتھ تھے، راج کپور نے انھیں کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور لوگوں کو اپنا دیدار کرائیں۔ سیّد کمال ہوٹل کی بالکونی میں پہنچے اور لوگوں کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلایا۔ لوگوں نے ان سے محبّت جتائی، نیک تمنّاؤں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ انھیں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہ ہوا کہ یہ راج کپور نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

    اس مجمع میں سے کچھ لوگوں نے راج کپور سے آٹو گراف لینا چاہا تو ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ استقبالیہ پر رش بڑھنے لگا۔ انتظامیہ کی مشکل کو دیکھتے ہوئے راج کپور نے کمال سے پھر درخواست کی کہ وہ ان کی طرف سے آٹو گراف دے دیں۔ کمال کو یہ بھی کرنا پڑا۔ انھوں نے آٹو گراف بکس لیں اور انھیں‌ بھرتے چلے گئے۔ یہاں‌ بھی کسی کو شک نہ ہوسکا۔

    مشہور ہے کہ سیّد کمال نے راج کپور سے کہا تھا کہ ’’آپ کی وجہ سے مجھے آج مداحوں کو آٹو گراف دینے اور کی محبت سمیٹنے کا ایسا خوب صورت تجربہ ہوا ہے، جب کہ ابھی میں کچھ نہیں ہوں۔ اس پر راج کپور نے کہا وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ سیّد کمال سے آٹو گراف لینے آئیں گے۔ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور سیّد کمال نے پاکستان میں مقبولیت اور نام و مقام حاصل کیا۔

    اداکار کمال نے فلموں میں رومانوی، المیہ اور مزاحیہ کردار ادا کیے اور مشہور ہوئے۔ انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں زیبا، دیبا، نیلو، شبنم، نشو اور رانی کے ساتھ کئی فلمیں کیں۔ کمال نے بطور فلم ساز بھی سنیما کو فلمیں دی ہیں۔ ان میں‌ اردو اور چند پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں جو سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے اور ڈراموں میں‌ اداکاری کے علاوہ ان کا بطور میزبان ایک پروگرام بھی بہت مقبول ہوا۔

    اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ان کا تعلق میرٹھ سے تھا جہاں وہ 27 اپریل 1937 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ بطور اداکار کمال نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں ایک مختصر کردار نبھایا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آئے اور ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام حاصل کرکے پاکستانی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا آغاز کیا۔

    کمال ایک منجھے ہوئے اداکار ہی نہیں‌ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے۔ اداکاری کے میدان میں‌ وہ اپنے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کرداروں میں فلم بینوں‌ کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ ان کی 80 سے زائد فلموں‌ میں اردو فلموں کے علاوہ چند پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے۔ سیّد کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرین پر اداکار کمال مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی نظر آئے تھے۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں بھی اترے، مگر کام یاب نہ ہوئے۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ کمال نے بطور مصنّف اپنی خود نوشت سوانح بھی یادگار چھوڑی۔ انھوں نے تین مرتبہ نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا جب کہ انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • پال نیومین:‌ نیلی آنکھوں والا اداکار اور ایک غیر معمولی انسان

    پال نیومین:‌ نیلی آنکھوں والا اداکار اور ایک غیر معمولی انسان

    ہالی وڈ کی تاریخ میں پال نیومین کو ان کی بے مثال اداکاری کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھیں اکثر دنیا کا غیر معمولی انسان بھی کہا گیا ہے جس کی وجہ اُن کی انسان دوستی اور جذبۂ خدمت ہے۔ پال نیومین نے 83 سال کی عمر پائی اور 2008ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    اداکار پال نیومین نے فلم کی دنیا میں اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے خوب شہرت کمائی اور شائقین میں مقبول ہوئے۔

    پال نیومین اپنی آنکھوں کی رنگت کی وجہ سے بھی اسکرین پر اور ہر محفل مین سب سے الگ نظر آتے تھے۔ ان کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا۔ وہ ایک وجیہ صورت مرد تھے جس نے اسکرین پر اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا اور آسکر ایوارڈ یافتہ فن کاروں کی صف میں‌ شامل ہوئے۔ پال نیومین نے ہالی وڈ کی مشہور فلموں ’دی ہسلر‘، ’کیٹ آن اے ہاٹ ٹِن رُوف‘ اور ’دی کلر آف منی‘ میں بے مثال اداکاری کی اور اپنے دور کے کام یاب فن کاروں کے درمیان اپنی پہچان بنائی۔

    پال نیومین کا فلمی سفر پانچ دہائیوں پر محیط رہا۔ اس عرصہ میں انھوں نے لگ بھگ ساٹھ فلموں میں کام کیا۔ بہترین پرفارمنس کی بنیاد پر 10 مرتبہ پال نیومین کا نام اکیڈمی ایوارڈ کے لیے فہرست میں‌ شامل کیا گیا اور ’دی کلر آف منی‘ وہ فلم تھی جس میں اپنی شان دار اداکاری پر وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    پال نیومین نے 26 جنوری 1925ء کو امریکہ کے علاقے کلیولینڈ اوہائیو میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کھیلوں کے سامان کی خرید و فروخت کام کرتے تھے۔ نیومین نے ابتدا میں نیوی میں ملازمت کرنا چاہی، لیکن ان کی نیلی آنکھیں اس راستے میں رکاوٹ بن گئیں۔ دراصل نیومین بطور امیدوار ادارے کی جانب سے ایک ٹیسٹ کے دوران بعض رنگوں کی شناخت نہیں کر سکے تھے اور اسے اُن کا نقص کہہ کر ناکام قرار دے دیا گیا۔

    اداکار پال نیومین ایک نہایت متحرک اور فعال شخص تھے جس نے ہمیشہ اپنے شوق کو اہمیت دی۔ وہ 70 کی دہائی میں فلمی دنیا سے صرف اس لیے دور ہوگئے تھے کہ انھیں گاڑیوں کی ریسں کا شوق پورا کرنا تھا۔ ایک ماہر ڈرائیور کی حیثیت سے پال نیومین نے ریس کے متعدد مقابلوں میں حصّہ لیا اور ایک کار ریس میں انھوں‌ نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

    ہالی وڈ میں پال نیومین نے اپنی اداکاری کی بنیاد پر کُل تین آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ انھوں نے اپنے فلمی سفر کے دوران شریکِ‌ حیات کے طور پر جو این ووڈورڈ کا انتخاب کیا تھا جو خود بھی اداکارہ تھیں۔ وہ پانچ بیٹیوں کے والدین بنے۔

    نیلی آنکھوں والے پال نیومین کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے، لیکن وہ جب تک زندہ رہے دوسروں کے لیے جینے اور سب کے کام آنے کو اپنا مقصدِ‌ حیات بنائے رکھا۔ پال نیومین نے اُن بچّوں کے لیے ’سمر کیمپ‘ قائم کیے تھے جو مہلک بیماریوں کا شکار تھے۔ اداکار کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جذبۂ خدمت کے تحت کئی خیراتی اداروں کی مالی امداد کرتے رہتے ہیں۔

  • سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش، پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک کام یاب فن کار تھے اور فلم بینوں میں اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش ایک مقبول اور کام یاب ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ آج پاکستان کے اس نام ور اداکار کی برسی ہے۔

    اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے تھے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ سنتوش کمار نے انہی سے شادی کی تھی۔ ان کی یہ جوڑی جہاں‌ فلمی صنعت میں اپنی اداکاری اور کام یاب فلموں کی وجہ سے مشہور ہوئی، وہیں اپنے حسنِ اخلاق، تہذیب و شائستگی کے لیے بھی مثال ہے۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے، 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، اور اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلم میں ہیرو کے طور پر رول قبول کر لیا۔ یہ سفر متحدہ ہندوستان کے زمانے میں شروع ہوا تھا جس میں سنتوش نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں وہ پاکستان ہجرت کر کے آگئے تھے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں انھوں نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ انھیں لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    معروف اداکار جمیل فخری کی برسی

    جمیل فخری کو پولیس کی وردی میں جعفر حسین کے نام سے کردار نبھاتے ہوئے دیکھنے والے کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی لازوال سیریز ’اندھیرا اجالا‘ کا یہ مقبول کردار ہمارے ذہنوں پر نقش ہے۔ جمیل فخری 9 جون 2011ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    ستّر کی دہائی میں اداکاری کا آغاز کرنے والے جمیل فخری کو اطہر شاہ خان نے ’اندر آنا منع ہے‘ نامی اسٹیج ڈرامے میں متعارف کرایا تھا جس کے بعد انھوں نے اسٹیج اور پھر ٹی وی پر متعدد ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ تاہم ان کی ملک گیر وجہِ شہرت پولیس انسپکٹر کا کردار تھا اور اسی روپ میں جمیل فخری نے مداحوں کے دلوں میں مقام بنایا۔

    یہ اس دور کی بات ہے جب چھوٹی اسکرین پاکستان بھر میں ناظرین کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتی تھی اور اندھیرا اجالا سماجی مسائل اور جرم و سزا پر ایک ایسی ڈرامہ تھا جو نشر ہوتا تو گویا ہر سڑک اور ہر گلی سنسان ہوجاتی۔ ناظرین ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس ڈرامے کے دیگر مرکزی کرداروں میں‌ منجھے ہوئے اداکار قوی خان اور عرفان کھوسٹ شامل تھے۔

    پولیس انسپکٹر کے روپ میں جمیل فخری کا مخصوص لہجہ اس قدر مقبول تھا کہ لوگ ان کے انداز کی نقل کرتے اور ان کے ادا کردہ مکالمے بھی سب کی زبان پر ہوتے تھے۔

    جمیل فخری نے تیس سے زائد پاکستانی فلموں میں کام کیا۔ اگرچہ ان میں کوئی مرکزی کردار شامل نہیں ہے، لیکن انھوں نے اپنے ہر کردار کو بخوبی نبھایا اور اس کا گہرا تأثر فلم بینوں پر چھوڑا۔ اداکار جمیل فخری نے کئی اسٹیج شوز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے، لیکن پھر خود کو پی ٹی وی کے ڈراموں تک محدود کرلیا۔

    دلدل، تانے بانے، وارث، بندھن، ایک محبت سو افسانے وہ ڈرامے تھے جن میں جمیل فخری نے بے مثال اداکاری کی۔

    اداکار جمیل فخری ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ ان کی وفات سے چند ماہ قبل امریکا میں ان کے بڑے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا جس کا انھیں شدید صدمہ پہنچا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی الم ناک موت کے بعد زیادہ تر خاموش رہنے لگے تھے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے اس معروف اداکار کو لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • لالہ سدھیر: ‘جنگجو ہیرو’ جس نے دلوں پر راج کیا

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لالہ سدھیر تاریخ کے مشہور جنگجو اور لڑاکا کرداروں کو نبھانے میں اپنے دور کے ہر اداکار سے آگے نکل گئے اور دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔ بلاشبہ انھوں نے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    وہ پاکستان کی فلمی تاریخ کے پہلے سپر اسٹار اور ابتدائی دور کے کام یاب اور مقبول فلمی ہیرو کہلاتے ہیں۔ وہ سب کے لیے لالہ سدھیر تھے اور ہر جگہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔

    لالہ سدھیر نے جنگجو اور ایک لڑاکا کے طور پر اس دور کی فلموں میں جو کردار نبھائے، وہ ان کی خاص شناخت بنے۔ میدانِ جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے لالہ سدھیر کی متأثر کن اداکاری نے انھیں عوام میں ‘جنگجو’ مشہور کردیا تھا۔ آج پاکستانی فلمی صنعت کے اس مقبول ہیرو کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا۔ سنیما نے انھیں سدھیر کا نام دیا اور ہر ایک نے انھیں عزّت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارنا شروع کردیا۔ کہتے ہیں سدھیر ایک نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے اور اپنی اسی عادت اور خوش اخلاقی کی وجہ سے ہر کوئی انھیں پسند کرتا تھا۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔ سن آف اَن داتا، کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔ سدھیر خود پر گیت فلم بند کروانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ ان کا ایکشن فلمی ہیرو کا وہ امیج تھا جو جنگ و جدل کے لیے تو ایک آئیڈیل ہیرو تھا لیکن رومانٹک کرداروں اور گانا گانے والے ہیرو کے لیے موزوں نہیں تھا۔

    سدھیر کو ان کے 30 سالہ شان دار فلمی سفر پر خصوصی نگار ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔ انھوں نے کئی فلمی اعزازات اپنے نام کیے۔

    19 جنوری 1997ء کو لالہ سدھیر اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

  • اوم پوری: وہ اداکار جو غربت کے خلاف اعلانِ جنگ چاہتا تھا!

    اوم پوری بالی وڈ کے ان اداکاروں‌ میں سے تھے جنھیں مشکل کردار ادا کرنے کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے زیادہ تر آرٹ فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ شائقینِ‌ سنیما نے انھیں‌ سنجیدہ اور مزاحیہ کرداروں‌ میں ہمیشہ پسند کیا اور ان کی اداکاری کو سراہا۔ اوم پوری 2017ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    66 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والے اوم پوری کی موت کے بعد شبہ ظاہر کیا گیا کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ اوم پوری کے سَر پر چوٹ کے نشان تھے، جب کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے واقع ہوئی تھی۔

    اوم پوری نے آکروش، گپت، جانے بھی دو یارو، چاچی 420، مالا مال ویکلی جیسی فلموں میں‌ شان دار پر اداکاری کی۔ بڑے پردے پر ان کی آخری فلم ‘گھایل ریٹرنز’ تھی۔

    بولی وڈ میں‌ اوم پوری ہر فن مولا مشہور تھے۔ انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز مراٹھی فلم ‘گھاسی رام کوتوال’ سے کیا تھا۔ یہ فلم سنہ 1976ء میں شائقین کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    اوم پوری نے فلم آرٹ کی باقاعدہ تعلیم ‘فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا’ سے حاصل کی تھی۔ ماقبل انھوں نے دہلی کے ‘نیشنل اسکول آف ڈراما’ سے اداکاری کی تربیت لی تھی۔

    وہ بولی وڈ کے ان فن کاروں‌ میں‌ شامل تھے جنھیں‌ پاکستان آنے کا بھی موقع ملا اور یہاں‌ انھوں‌ نے فلموں‌ میں‌ کام کیا۔ اوم پوری کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔ وہ کہتے تھے کہ دونوں ممالک کو غربت کے خلاف جنگ لڑنا چاہیے۔

    اوم پوری 18 اکتوبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انتہائی غربت اور مشکلات سے لڑتے ہوئے گزرا۔ انھوں‌ نے محض چھے سال کی عمر میں‌ ایک چائے والے کے پاس کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح‌ چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے وہ زندگی کی گاڑی کھینچتے رہے اور بڑے ہوگئے۔ اوم پوری کو اسی زمانہ میں‌ ایک وکیل کے یہاں بطور منشی کام مل گیا، لیکن اس وقت تک وہ اسٹیج اور اداکاری کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ڈرامہ میں حصّہ لینے کی وجہ سے وکیل کے دفتر نہیں‌ جاسکے اور یوں نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن کسی طرح ایک کالج میں ڈراموں میں حصّہ لیتے رہے۔ یہیں ان کی ملاقات ہرپال اور نینا توانا سے ہوئی جن کے طفیل انھوں نے پنجاب اسٹیج تھیٹر تک رسائی حاصل کی۔

    اوم پوری نے مقامی تھیٹر پر چھوٹے موٹے کردار نبھانے سے اپنا جو سفر شروع کیا تھا، وہ 1976ء میں انھیں مقامی فلم انڈسٹری تک لے گیا۔ پہلی فلم میں اوم پوری نے مرکزی کردار نبھایا۔ یہ مراٹھی ڈرامہ پر بنائی گئی تھی جس میں وہ گھاسی رام کے مرکزی کردار میں کام یاب رہے۔ اس کے بعد بھوک، شاید اور چند دوسری آرٹ فلموں میں اداکاری کی، لیکن خاص توجہ نہ حاصل کرسکے۔ سال 1980ء میں فلم’ آکروش‘ ان کے کیریئر پہلی ہٹ فلم تھی۔ اس میں اوم پوری نے ایک ایسے شخص کا کردار نبھایا تھا جس پر بیوی کے قتل کا الزام لگایا جاتا ہے۔ وہ اپنی پُراثر اداکاری اور بہترین ڈائیلاگ ڈیلیوری کی وجہ سے بہت پسند کیے گئے اور اس پر بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ اوم پوری نے پاکستانی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے پاکستانی فلم ‘ایکٹر ان لا’ میں فہد مصطفیٰ کے والد کا کردار ادا کیا تھا۔ آنجہانی اوم پوری نے برطانوی اور ہالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔

  • ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    ٹیلی ویژن اور فلم کے معروف اداکار علی اعجاز کی برسی

    خواجہ اینڈ سنز میں علی اعجاز کا کردار آج بھی پی ٹی وی کے ناظرین کے ذہنوں‌ میں تازہ ہے اور ان کا پسندیدہ بھی۔ علی اعجاز ڈرامے میں ایک منظر میں اگر نہایت سنجیدہ نظر آتے، تو دوسرے ہی لمحے ظرافت آمیز مکالمے اس خوبی سے ادا کرتے کہ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    فنِ اداکاری میں ان کے چہرے کے تأثرات اور مکالمے کی ادائیگی کا ڈھب مثالی تھا۔ ٹی وی کے ڈراموں میں علی اعجاز نے مختلف کردار نبھائے اور یہ سب منفرد اور یادگار ثابت ہوئے۔ ان کرداروں نے انھیں ایسے فن کار کے طور پر شہرت دی جو کسی بھی عمر کی مختلف شخصیات کے روپ میں، ان کے انداز اور لب و لہجے کو خوبی سے نبھا سکتا ہے اور یہ ان کے فن کی خاص بات تھی۔ اس کی ایک مثال خواجہ اینڈ سنز کا وہ بوڑھا بھی ہے جو ڈرامے میں ابّا جان بنا تھا۔

    18 دسمبر 2018ء کو پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کے معروف اداکار علی اعجاز لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔ آج علی اعجاز کی برسی ہے۔

    علی اعجاز نے تھیٹر کی دنیا میں 60 کی دہائی میں قدم رکھا جب پاکستان میں لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل میں اسٹیج ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ اس کے چند برس بعد لاہور سے ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں معروف ڈرامہ نگار، ادیب اور شاعر اطہر شاہ خان المعروف جیدی کے سلسلہ وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ میں مرکزی کردار دیا گیا۔ یہ کھیل لائیو پیش کیا جاتا تھا۔ علی اعجاز نے اس کھیل میں‌ جو تکیہ کلام اپنایا ہوا تھا، وہ بہت مقبول ہوا۔

    اسی زمانہ میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کا موقع بھی ملا جہاں انھوں نے چند چھوٹے کردار تو ادا کیے تھے، مگر دبئی چلو وہ فلم تھی جس کے بعد انھیں انڈسٹری میں مزید کام کرنے کی پیشکش ہونے لگی۔ اس سے قبل وہ ٹی وی پر عارف وقار کے پیش کردہ مقبول ترین ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ میں کردار نبھا کر اپنے فن کی داد اور مقبولیت سمیٹ چکے تھے۔ اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی تھی اور یہ 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ علی اعجاز کو شائقینِ سنیما نے مشہور مزاحیہ اداکار ننھا کے ساتھ بھی دیکھا اور ان کی جوڑی مقبول ہوئی۔

    اداکار علی اعجاز 1941ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف ان کے بچپن کے دوست تھے اور انہی کی وجہ سے علی اعجاز کو بھی اداکاری کا شوق ہوا تھا۔ اس دور میں اسٹیج پلے دیکھنے والوں کی بڑی تعداد سے علی اعجاز نے اپنے فنِ‌ اداکاری کی داد پائی جب کہ ٹی وی کے بعد ان کی پہلی فلم ’انسانیت‘ تھی۔ علی اعجاز نے پنجابی اور اردو فلموں میں‌ کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔