Tag: اداکار برسی

  • یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    یومِ‌ وفات: جب وجیہ صورت الیاس کاشمیری کو احساسِ گناہ ستانے لگا

    12 دسمبر 2007ء کو پاکستان کی سلور اسکرین کے مشہور ولن الیاس کاشمیری نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب اداکار تھے جنھیں پنجابی فلموں میں ان کے کرداروں کی بدولت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔

    فلم نگری سے دور ہو جانے کے بعد مدّت ہوئی الیاس کاشمیری گھر تک محدود ہوگئے تھے۔ انھیں متعدد جسمانی عوارض لاحق تھے جن میں ذیابیطس ایسا مرض تھا جس کے سبب وہ اپنی ایک ٹانگ سے بھی محروم ہوگئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انھیں اپنی ماضی کی زندگی پر پچھتاوا تھا۔ وہ اپنی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کو فلمی دنیا سے اپنی وابستگی اور رنگینیوں کا نتیجہ سمجھتے تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس کام یاب اداکار نے 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ مجموعی طور پر 547 فلموں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    یہ 1946ء کی بات ہے جب دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے۔ وہاں انھیں فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول مل گیا اور چند برس بعد تقسیمِ ہند کے نتیجے میں ہجرت کرکے الیاس کاشمیری لاہور آگئے۔ یہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول دیا۔ یہ آزادی کے بعد پاکستان میں الیاس کاشمیری کی پہلی فلم تھی۔ انھوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت پنجابی فلمیں ہیں۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلائی جاسکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لازوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا تھا۔ 73ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد پائی۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں جن میں الیاس کاشمیری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔

    اپنے وقت کے اس نام ور اداکار کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کا واحد ساتھی ان کا گھریلو ملازم تھا۔ الیاس کاشمیری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار حسام قاضی 3 جولائی 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج اس اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1961 میں‌ پیدا ہونے والے حسام قاضی کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ انھوں نے بیالیس سال کی عمر پائی۔ اپنے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے کرنے والے حسام قاضی کو کاظم پاشا کے ڈراما سیریل "چھاؤں” سے پاکستان بھر میں شہرت ملی۔

    حسام قاضی نے زمانہ طالبِ علمی میں‌ اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ وہ کامرس میں ماسٹر کرنے کے بعد کوئٹہ کے ایک کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے اور تدریسی مصروفیات کے ساتھ اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ حسام قاضی پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے ان اداکاروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنے کرداروں کے سبب ملک گیر شناخت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    حسام قاضی کے مشہور ڈرامہ سیریلوں میں ماروی، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیر تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔

    سنہ 2000 میں‌ حسام قاضی کو دل کے عارضے کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم ضروری علاج اور دیکھ بھال کے بعد وہ طبیعت میں‌ بتدریج بہتری محسوس کررہے تھے۔ انھوں نے آرام کی غرض سے کالج میں اپنی ذمہ داریوں‌ سے طویل رخصت لے رکھی تھی اور اپنے کنبے کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں‌ آخری سانس تک قیام پذیر رہے۔

    حسام قاضی نے ٹیلی ویژن پر اپنے وقت کے بڑے اور سینئر اداکاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ دھیما لہجہ، خوب صورت آواز اور عمدہ پرفارمنس ناظرین میں حسام قاضی کی مقبولیت کا سبب تھی۔ پی ٹی وی کے ناظرین نے خاص طور پر ڈرامہ ماروی میں‌ ان کی پرفارمنس کو بے حد پسند کیا تھا۔

  • ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک زمانہ تھا جب غیر ناطق فلموں‌ میں اداکار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو متوجہ کرتے تھے اور داد وصول کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔ اسی زمانے میں نور محمد چارلی نے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور ہندوستان میں شہرت اور مقبولیت پائی۔

    انیسویں صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں‌ نام کمانے والے نور محمد چارلی مشہور مزاحیہ اداکار تھے۔ وہ پہلے مزاحیہ اداکار بھی تھے جنھیں اس دور میں‌ ایک فلم کے لیے ہیرو منتخب کیا گیا اور دیگر فلموں میں بھی انھوں نے مرکزی کردار نبھائے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دور کے مزاحیہ فن کاروں میں پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود انھوں نے بھی اپنی فلموں کے لیے گیت گائے تھے۔

    نور محمد چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیرناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا تھا۔ اس سے اگلے برس ایک فلم انڈین چارلی پیش کی گئی جسے بعد میں 1933ء میں ناطق فلم کے طور پر بھی بنایا گیا اور اس فلم کا ٹائٹل رول نور محمد نے اس خوب صورتی سے نبھایا کہ شائقین نے انھیں ‘نور محمد چارلی’ کہنا شروع کردیا۔ چارلی ان کے نام سے آخری عمر تک جڑا رہا۔

    نور محمد چارلی نے کئی فلموں میں مرکزی کردار نبھائے جن میں سنجوگ (1943)، مسافر (1940)، چاند تارا (1945) جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد یہ مزاحیہ اداکار ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں اپنی پہلی فلم مندری (1949) میں کام کیا، لیکن تقسیمِ ہند سے قبل شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اس اداکار کو پاکستان میں سنیما پر خاص کام یابی نہیں ملی۔

    نور محمد چارلی نے اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا اور ناکام رہے جس کے بعد تین سندھی فلموں میں خود کو آزمایا اور یہاں بھی بدقسمتی سے شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ ان ناکامیوں سے گھبرا کر وہ بھارت چلے گئے، جہاں انھیں تین فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا، لیکن ان کے بخت کا ستارہ اب زوال پذیر تھا، وہ مایوس ہو کر پاکستان لوٹ آئے۔ وطن واپسی کے بعد یہاں مزید دو فلموں میں کام کیا تھا۔ 30 جون 1983ء کو نور محمد چارلی کراچی میں وفات پاگئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل انھوں نے جن فلموں میں کام کیا، ان میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی آخری فلم استادوں کا استاد (1967) کے علاوہ ایک پنجابی فلم پلپلی صاحب (1965) بھی تھی جس میں انھوں نے ٹائٹل رول نبھایا تھا۔

  • امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    قادر خان کی فلمی کہانیاں اور ان کے تحریر کردہ مکالمے ہندی سنیما کے شائقین میں بہت مقبول ہوئے اور بحیثیت اداکار خود انھیں‌ بھی بے حد پسند کیا گیا۔

    ولن کے روپ میں شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے والے قادر خان نے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ان کے دلوں پر راج کیا۔ ان کا فلمی کیریئر شان دار ثابت ہوا جس میں انھوں نے شائقین اور انڈسٹری کو کئی یادگار فلمیں‌ دیں۔

    قادر خان کا تعلق افغانستان سے تھا جہاں‌ انھوں‌ نے 22 اکتوبر 1937ء کو آنکھ کھولی، لیکن ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ مشکل اور تکلیف دہ رہا۔ قادر خان کے والدین افغانستان سے انڈیا جا بسے تھے جہاں ان کے مابین علیحدگی ہوگئی جس کے بعد قادر خان کو سوتیلے باپ کے ساتھ غربت زدہ زندگی گزارنا پڑی۔ قادر خان کسی طرح تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔

    وہ شروع ہی سے پڑھنے، صدا کاری اور لکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ مطالعہ اور تدریس سے وابستگی کے ساتھ جب انھوں نے تھیٹر کے لیے لکھنا شروع کیا تو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے ساتھ چھوٹے موٹے کردار بھی نبھانے لگے۔ ایک مرتبہ ان کے کالج میں تھیٹر مقابلہ ہوا جہاں نریندر بیدی اور کامنی کوشل جج تھے۔ اس موقع پر قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام دیا گیا اور ساتھ ہی فلم کے لیے مکالمے لکھنے کی پیشکش بھی ہوئی۔ وہ تیّار ہوگئے۔ یہ سفر دہائیوں پر محیط ہوگیا اور 300 سو سے زائد فلموں میں انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں فلمی ڈائیلاگ لکھنے کا آغاز کیا تھا۔

    اداکار کے طور پر وہ 1973ء میں فلم داغ میں نظر آئے۔ یہ ایک وکیل کا معمولی کردار تھا اور 1977ء میں انھیں پولیس انسپکٹر کا کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی تحریر کردہ فلم مقدّر کا سکندر ہٹ ہوئی اور اس کے ڈائیلاگ ہر گھر میں بولے گئے، پھر ‘خون پسینہ، شرابی، لاوارث، امر اکبر انتھونی، قلی، نصیب، قربانی جیسی کام یاب فلمیں آئیں جنھوں نے انھیں ولن کے روپ میں اور مکالمہ نویس اور اسکرپٹ رائٹر کے طور پر بھی نام و مقام دیا۔

    1983ء میں فلم ‘ہمت والا’ بڑے پردے پر پیش کی گئی اور بہت کام یاب ہوئی۔ قادر خان اس کے مصنّف بھی تھے اور اس فلم میں انھوں نے ایک مزاحیہ کردار بھی ادا کیا۔

    اُس زمانے میں‌ امیتابھ بچن کے کیریئر کو سنوارنے والے قادر خان ہی تھے، لیکن خود قادر خان کی زندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب 1974ء میں من مومن دیسائی اور راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ‘روٹی’ میں انھیں کام کرنے کا موقع ملا۔

    اداکاری قادر خان کا اوّلین شوق تھا۔ اپنے فلمی کیریئر میں انھوں نے مجموعی طور پر 400 فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری بڑی فلم محبوبہ تھی جو ان کی وفات سے دس سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔

    بولی وڈ کے اس فن کار کی زندگی کے اس پہلو سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی عملی کوششیں کرتے رہے۔ انھوں نے بالخصوص فلم نگری سے دور ہوجانے کے بعد دین پھیلانے اور اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو مٹانے کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے مشہور ہے کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی زبان بھی سیکھتے رہے۔

    قادر خان 31 دسمبر 2018ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے تھے۔

  • عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    دیو آنند صاف گو اور باضمیر کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ وہ حیرت انگیز شخصیت کے مالک اور ایسے انسان تھے جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔

    ہندوستان کی فلم نگری میں‌ دیو آنند کا کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ وہ 2011ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    بولی وڈ میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت کام یاب ہونے والے اس اداکار نے عشق اور سیاست دونوں میں ناکامی کا منہ دیکھا، لیکن ایسی بھرپور زندگی گزاری جس میں ہر خاص و عام ان کے فن کا مداح اور شخصیت کا گرویدہ رہا۔

    دیو آنند کے ناکام عشق سے جڑا فلم کی شوٹنگ کے دوران پیش آنے والا ایک حادثہ کچھ یوں تھا کہ فلم ’ودیا‘ کے ایک گانے ’کنارے کنارے چلے جائیں گے‘ کی عکس بندی کی جارہی تھی۔ دیو آنند اور اداکارہ ثریا کشتی میں سوار تھے جو اچانک پلٹ گئی۔ اس موقع پر دیو آنند نے کسی طرح ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ اس حادثے کا تو چرچا ہوا ہی، ان کی محبّت کا خوب شہرہ بھی ہوا، لیکن کہتے ہیں کہ ثریا کی نانی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں‌ ہوسکی۔

    اس واقعہ کے کئی سال بعد اداکارہ نے فلمی میگزین کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بعد میں دیو آنند سے کہا کہ ’اس دن اگر آپ مجھے نہیں بچاتے تو میں ڈوب جاتی، انھوں نے جواب دیا کہ آپ ڈوب جاتیں تو میں بھی مر جاتا۔‘

    عملی سیاست میں ان کا حصّہ لینا اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ وہ واحد بولی وڈ اسٹار تھے جس نے قومی سطح کی سیاسی پارٹی تشکیل دی تھی، اور اپنے نظریے اور اصول کی بنیاد پر حکم رانوں کی مخالفت بھی کی۔

    دیو آنند نے متحدہ ہندوستان میں شکرگڑھ میں 26 ستمبر 1923ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دھر دیو پشوری مل آنند تھا۔ گریجویشن انگریزی ادب میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے مکمل کی، لیکن آگے تعلیم حاصل نہیں‌ کرسکے۔ والد نے انھیں نوکری کرنے کو کہہ دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اسی شہر سے انھوں نے ایک دن ممبئی کا سفر اختیار کیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔

    یہ 1943ء کی بات ہے جب وہ نوکری کے بجائے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے ممبئی کے لیے نکلے تھے۔ لیکن اتنی آسانی سے کام کہاں‌ ملتا۔ کچھ کوششوں کے بعد ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ تقریباً ایک سال تک نوکری کرنے کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندوستانی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہاں دیو آنند کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا اور چھوٹے موٹے کردار ان کی ہمّت اور حوصلہ بڑھانے لگے۔

    سال 1945ء میں فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیو آنند کو اپنے نئے سفر کے آغاز کا موقع ملا۔ سال 1948ء میں فلم ضدی پردے پر سجی جو ان کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیو آنند نے اسی عرصے میں فلم ڈائریکشن کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا کام یاب فلمیں بنائیں۔

    1954ء میں اداکار کی شادی کلپنا کارتک سے ہوئی جو مشہور اداکارہ تھیں۔ دیو آنند نے ہالی وڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم گائیڈ بنائی، جس پر انھیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں‌ دو فلم فیئر اپنے نام کیے۔

    بطور ہدایت کار ان کی فلموں میں 1950ء کی فلم افسر کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں انھیں پدم بھوشن اور ہندی سنیما کے معتبر ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    دیو آنند نے ہر قسم کے کردار ادا کیے، اور ان کی مقبولیت اور وجہِ شہرت وہ انداز تھا جس میں دیو آنند جھک کر لہراتے ہوئے چلتے، مخصوص انداز سے بولتے اور اسی طرح ان کے لباس میں شامل اسکارف اور سَر پر بیگی ٹوپی بالخصوص شائقین کی توجہ حاصل کرلیتی تھی۔ دیو آنند انڈسٹری میں‌ اپنے اسٹائل کے لیے مشہور تھے۔

  • پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    دھیمے لب و لہجے، مگر رعب دار شخصیت کے مالک شفیع محمد شاہ نے پاکستان ٹیلی وژن ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے اور خود کو ورسٹائل فن کار بھی ثابت کیا۔ آج شفیع محمد شاہ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 نومبر 2007ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    شفیع محمد شاہ نے اردو اور سندھی فلموں میں بھی کردار نبھائے، لیکن پاکستان بھر میں انھیں ٹیلی ویژن ڈراموں کی بدولت مقبولیت ملی۔ ان کے کئی ڈرامے یادگار ثابت ہوئے۔

    1948ء میں کنڈیارو میں پیدا ہونے والے شفیع محمد شاہ نے سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور ایک زرعی بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن وہ بطور اداکار کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی آواز میں‌ خاص قسم کی مٹھاس، نرمی اور لہجے میں وہ دھیما پن تھا جس میں ایک جاذبیت اور کشش تھی۔ ان کا یہی انداز اور لب و لہجہ انھیں ریڈیو پاکستان تک لے گیا جہاں وہ صدا کار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔

    فن کار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کرنے کے بعد شفیع محمد شاہ نے ملازمت ترک کی اور لاہور چلے گئے جہاں اداکار محمد علی نے فلم کورا کاغذ میں ایک کردار دلوا دیا۔ اسی زمانے میں ٹیلی وژن کے نہایت قابل اور نام ور پروڈیوسر شہزاد خلیل نے انھیں اپنے ڈرامے اڑتا آسمان میں‌ ایک کردار کی پیش کش کی اور یوں ٹی وی کے ناظرین سے ان کا تعارف ہوا۔ انھوں نے لاہور میں قیام کے دوران چند فلموں میں کام کیا اور پھر کراچی آگئے۔

    شفیع محمد شاہ کو سیریل تیسرا کنارا اور آنچ سے ملک بھر میں شہرت ملی۔ آنچ وہ ڈرامہ ثابت ہوا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی اور وہ ہر دل عزیز فن کار بن گئے۔

    ٹیلی وژن ڈراموں کے مقبول ترین ڈراموں آنچ، چاند گرہن، جنگل، دائرے، تپش، کالا پل، ماروی میں‌ شفیع محمد شاہ نے اپنے کرداروں میں‌‌ حقیقت کا رنگ بھرا اور ناظرین کے دل جیتے۔

    اس اداکار نے سیاست کی دنیا میں بھی قدم رکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ٹکٹ پر انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصّہ لیا، لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ یہ 2002ء کی بات ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا اور بعد از مرگ شفیع محمد شاہ کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ’’زینت‘‘ کی عکس بندی کررہے تھے اسٹوڈیو میں قوّالی کا منظر عکس بند کیا جارہا تھا۔ وہاں ایک اسکول کی چند طالبات بھی موجود تھیں جن میں خورشید اختر بھی شامل تھی۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔

    شوکت حسین رضوی نے خورشید اختر کو قوّالی میں شامل کرلیا۔ ریلیز کے بعد اس فلم نے ہندوستان بھر میں زبردست کام یابی سمیٹی اور وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اسی فلم نے خورشید اختر کو شیاما کے نام سے بڑے پردے پر نام و مقام بنانے کا موقع دیا۔

    شیاما نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور شہرت پائی۔ ان کا تعلق باغ بان پورہ، لاہور سے تھا۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ پیدا ہونے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں‌ نے فلم نگری میں‌ بحیثیت اداکارہ خوب شہرت پائی۔

    شیاما کی ایک فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جو اپنے زمانے کی کام یاب ترین اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے ساتھ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور فلم سازوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

    ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو 1953ء میں شیاما کا فلمی نام دیا تھا اور بعد میں وہ اسی نام سے جانی گئیں۔

    شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے جہاں فلم بینوں کے دل جیتے، وہیں اپنے اعتماد اور ذہانت کے سبب فلم سازوں کو بھی متاثر کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ ان میں‌ اپنے زمانے کے باکمال اور نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار اور گرو دَت بھی شامل تھے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آرپار’ میں کاسٹ کیا جس کی کام یابی نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء کی اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے جب کہ شیاما کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

    شیاما کی ایک کام یاب ترین فلم ضیا سرحدی کی ‘ہم لوگ’ تھی جو سال 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ان پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت سراہا گیا۔ اداکارہ شیاما نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔

    1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شیاما نے 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے شادی کی تھی۔ وہ آخری بار سلور اسکرین پر فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ انھوں نے 82 سال کی عمر پائی اور 14 نومبر 2017ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وہ ممبئی میں‌ مقیم تھیں اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

  • پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    آج اقبال حسن کی برسی ہے جو 1984ء میں کار کے حادثے میں‌ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور و معروف اداکار کے تذکرے کے ساتھ ہی اسلم پرویز کی جدائی کا زخم بھی تازہ ہو جاتا ہے جو کار میں اُن کے ساتھ تھے۔ اس حادثے میں شدید زخمی ہو جانے والے اسلم پرویز بھی ایک ہفتے بعد خالقِ‌ حقیقی سے جاملے۔

    اقبال حسن فلم جھورا کی عکس بندی کے بعد اپنے ساتھی اداکار کے ساتھ فیروز پور روڈ، لاہور سے اپنی کار میں گزر رہے تھے جو ایک ویگن سے ٹکرا گئی۔ اس تصادم کے نتیجے میں اقبال حسن جاں بحق ہوگئے تھے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو پنجابی فلموں کے ٹائٹل کردار نبھا کر کئی فن کاروں نے نام پیدا کیا، لیکن جو مقام فلم ’’شیر خان‘‘ کی ریلیز کے بعد اقبال حسن کو ملا، وہ ایک مثال ہے۔

    فلم انڈسٹری میں اقبال حسن نے اپنے کیریئر کے دوران 285 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور مقبول ہوئے۔ ان کی فلمی زندگی کا آغاز ہدایت کار ریاض احمد کی پنجابی فلم سستی پنوں سے ہوا تھا۔ انھوں نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ شہرت علاقائی زبان میں بننے والی فلمیں ہی بنیں۔ وہ بلاشبہ پنجابی فلموں کے ایک مقبول اداکار تھے۔

    اقبال حسن کی مشہور فلموں میں یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، سجن دشمن، مرزا جٹ، شامل ہیں۔

  • ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    آج ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اسٹیج کے معروف فن کار جمشید انصاری کی برسی ہے جو ڈراموں میں اپنے مزاحیہ کرداروں کی وجہ سے ملک بھر میں مقبول ہوئے۔ وہ 24 اگست 2005ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    جمشید انصاری 31 دسمبر 1942ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر سہارن پور میں پیدا ہوئے، تقسیمِ ہند کے موقع پر ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا جہاں جمشید انصاری نے تمام عمر گزار دی۔

    انھوں نے تقریباً 200 ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کا فنی کیریئر 40 برسوں پر محیط ہے جن میں جمشید انصاری نے ’انکل عرفی‘، ’گھوڑا گھاس کھاتا ہے‘، ’تنہائیاں’، ’اَن کہی‘ جیسے مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ ’ جھروکے‘، ’دوسری عورت‘، ’زیر زبر پیش‘، ’منزلیں‘، ’بے وفائی‘ بھی ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ یس سر نو سر، برگر فیملی، رات ریت اور ہوا، زہے نصیب، ماہِ نیم شب میں انھوں نے مزاحیہ کردار ادا کیے تھے۔

    ایک زمانہ تھا جب ملک بھر میں لوگوں کی تفریح اور معلومات کا واحد اور مقبول ترین ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ پاکستان میں ریڈیو پروگرام اور ڈراموں میں کئی آرٹسٹوں نے اپنی آواز اور صدا کاری کے فن کو آزمایا اور خوب شہرت حاصل کی جن میں جمشید انصاری بھی شامل تھے۔

    مرحوم نے ریڈیو پر طویل ترین عرصے تک چلنے والے مقبول ترین پروگرام ’حامد میاں کے ہاں‘ میں صفدر کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ اس کھیل میں ان کے ادا کیے ہوئے مکالمے زبان ردِ عام ہوئے۔

    پی ٹی وی کے ڈراموں کی بات کی جائے تو ’چکو ہے میرے پاس‘، ’قطعی نہیں!‘، اور ڈرامے میں بات بات پر ان یہ کہنا، ’افشاں تم سمجھ نہیں رہی ہو‘ اور ’زور کس پر ہوا‘ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔

    جمشید انصاری نے مشہور اسٹیج ڈرامے ’بکرا قسطوں پر‘ میں بھی کردار ادا کیا تھا۔

    2005ء میں انھیں برین ٹیومر تشخیص ہوا تھا جو بہت زیادہ پھیل چکا تھا اور اسی مرض نے انھیں ہمیشہ کے لیے اپنے پرستاروں سے دور کردیا۔ لیکن ان کی یاد آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔

  • یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کا نام ایک بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر لیا جاتا تھا جنھوں نے کئی کام یاب فلمیں کیں۔ ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ بھرتی ہوئے اور فوج سے فارغ ہونے کے بعد کر روزی کمانے کے لیے تانگہ چلانا شروع کر دیا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور انھیں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بالوں بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ کہتے ہیں کہ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون اپنے طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے 1950ء میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام، مزدوری بھی شروع کردی۔ ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ اسی عرصے میں شہر کے ایک سنیما کے عملے سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان لوگوں نے ساون کو فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔ ساون نے فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیے اور آخر کار فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ایک کردار حاصل کرنے میں‌ کام یاب ہوگئے۔

    فلمی دنیا میں‌ قدم رکھنے والے ظفر احمد بٹ کو ساون کا نام دیا گیا۔ اسی زمانے میں کسی نے لاہور جاکر قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ اپنی گرج دار آواز اور ڈیل ڈول کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون لاہور چلے گئے اور آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا گیا۔ ’’سولہ آنے‘‘ کے بعد وہ فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کاسٹ کر لیے گئے اور اس فلم نے انھیں مقبول اداکار بنا دیا۔

    ساون نے کئی پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ساون نے مقبولیت اور کام یابی کا زینہ طے کرتے ہوئے فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ شروع کردیا تھا جس نے انھیں عروج سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔ وہ خود کہنے لگے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” کئی کام یاب فلمیں کرنے کے بعد ساون کو فلموں میں اہم کرداروں کی آفر کا سلسلہ بند ہوتا چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔