Tag: اداکار علی اعجاز

  • علی اعجاز: تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    علی اعجاز: تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    علی اعجاز نے اسٹیج، ٹیلی ویژن اور فلم میں بطور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ان فن کاروں میں شامل ہیں جن کی اداکاری اس قدر بے ساختہ اور عمدہ ہوتی ہے کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگے۔ علی اعجاز ہر میڈیم میں یکساں طور پر کام یاب رہے اور ریڈیو کے لیے بھی ڈرامے کیے۔ انھیں عجوبۂ روزگار فن کار کہا جاسکتا ہے۔

    آج اداکار علی اعجاز کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2018ء میں آج ہی کے روز طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ علی اعجاز نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام "ندائے حق” سے کیا تھا۔ بعد میں تھیٹر اور پھر فلم میں بطور اداکار شہرت پائی۔ علی اعجاز کی پہلی فلم، پہلا فلمی سین اور پہلا فلمی گیت بھی اداکار ننھا کے ساتھ تھا جو ان کے قریبی دوست بھی رہے۔ علی اعجاز ان کے ساتھ بینک میں کام کرتے تھے اور دونوں کو اداکاری کا شوق تھا۔ علی اعجاز 1941 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور ننھا کے ساتھ فلم ’انسانیت‘ سے اپنا سفر شروع کیا لیکن شہرت ان کو فلم ’دبئی چلو‘ سے ملی۔ علی اعجاز نے 80 کی دہائی میں منور ظریف، ننھا اور رنگیلا کی موجودگی میں اپنی الگ پہچان بنائی۔ اداکار نے اپنے وقت کی نام ور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا لیکن فلم اسٹار ممتاز کے ساتھ ان کے کئی گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    اداکار علی اعجاز کو فلم کی دنیا میں خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔ 1979ء تک وہ ڈیڑھ سو کے قریب فلموں میں عام مزاحیہ اداکاری کے علاوہ ولن اور ملے جلے کردار کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ٹی وی پر بھی کام کرتے رہے جہاں ‘خواجہ اینڈ سنز’ اور ‘شیدا ٹلی’ وغیرہ ان کے مشہور ڈرامے ثابت ہوئے۔ یہ ستر کی دہائی تھی جب ایک ڈرامے "دبئی چلو” میں علی اعجاز نے لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لیے اور پھر اس ڈرامے سے متاثر ہوکر ہدایت کار حیدر چوہدری نے اسی نام پر فلم بنائی اور علی اعجاز کو وہی کردار دیا جو انھوں نے ٹی وی ڈرامے میں کیا تھا۔ علی اعجاز نے اپنی بے ساختہ اداکاری سے اس فلم میں اپنے کردار کو یادگار بنا دیا۔ اسّی کی دہائی میں علی اعجاز ایک بڑے فلمی ہیرو اور ٹی وی کے مقبول اداکار بن چکے تھے۔ علی اعجاز نے جہاں فلمی دنیا میں اپنا عروج دیکھا وہیں انھوں نے فلمی صنعت اور شائقین کے رجحانات بدل جانے کے بعد اپنی شہرت کا گراف نیچے جاتا ہوا بھی دیکھا اور یہ کوئی انہونی نہ تھی۔ ایک عرصہ تک اپنے مداحوں کو مزاحیہ اور سنجیدہ کرداروں سے بہلانے والے علی اعجاز نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ بننے والی فلموں میں بے مثال اداکاری کی۔ ان میں دلبر جانی، یملا جٹ، جی او جٹا، دبئی چلو، عشق پیچاں اور دوستانہ ان کی یادگار فلمیں ہیں۔

  • فلم اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز کی دوسری برسی

    فلم اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز کی دوسری برسی

    پاکستانی فلم نگری اور ٹیلی ویژن کے معروف اداکار علی اعجاز 18 دسمبر 2018ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ آج اس فن کار کی دوسری برسی ہے۔ علی اعجاز کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔

    علی اعجاز نے اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان میں‌ تھیٹر ایک پسندیدہ میڈیم تھا۔ لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل میں اسٹیج پر پیش کیے جانے والے شائقین میں بہت مقبول تھے۔

    لاہور سے ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو سلسلے وار کھیل ’لاکھوں میں تین‘ پیش کیا جانے لگا جس کے تین مرکزی کرداروں میں سے ایک علی اعجاز نے نبھایا۔ اس زمانے میں ہر ایک کی زبان پر ان کا تکیہ کلام ’ایوری باڈی کو چائے کا صلح مارتا ہے!‘ چڑھا ہوا تھا۔ اس کردار نے انھیں مقبولیت دی۔ انھوں نے زیادہ تر مزاحیہ کردار نبھائے۔

    اس دور میں فلمیں‌ بھی بنائی جارہی تھیں اور سنیما پر نئے چہرے جگہ پارہے تھے۔ علی اعجاز نے فلموں میں چند معمولی نوعیت کے کردار نبھائے اور پی ٹی وی پر بھی مصروف رہے۔ ان کی شہرت میں‌ ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ نے بھی اضافہ کیا۔ اسی کھیل پر مبنی اسی نام سے ایک فلم 1980ء میں ریلیز ہوئی جس کے بعد علی اعجاز کو دھڑا دھڑا فلمیں ملنا شروع ہو گئیں۔

    1980ء کی دہائی میں اداکار خاور رفیع (ننھا) کے ساتھ ان کی جوڑی فلموں میں‌ بہت مقبول ہوئی۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    علی اعجاز نے مختلف سیریلوں اور ڈراما سیریز میں مختلف کردار نبھائے۔ وہ جوان، بوڑھے، مختلف عمر اور لہجوں اور بولیوں‌ والے ان کرداروں‌ کو نہایت خوبی سے نبھاتے رہے اور اپنے فن اور صلاحیتوں کو منوایا۔ پوپلے منہ والا، توتلے شخص، نیم مخبوط الحواس بوڑھا اور خبطی یا جھکّی انسان والے کرداروں میں انھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

    علی اعجاز کا ایک کردار خواجہ اینڈ سنز میں ایسے ہی بوڑھے کا تھا جو آج بھی ناظرین کو یاد ہے۔

    فلموں‌ کی بات کی جائے تو علی اعجاز نے سادھو اور شیطان، لیلیٰ مجنوں، سدھا رستہ، بادل، مسٹر افلاطون، نوکر تے مالک، باؤ جی، اندھیر نگری، چور مچائے شور اور اردو و پنجابی زبان کی متعدد فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا۔