Tag: اداکار محمد علی

  • محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی فلم انڈسٹری میں ’’بھیا‘‘ مشہور تھے۔ ان کی فلمیں یادگار بھی ہیں اور بطور اداکار محمد علی کو ایک بے مثال فن کار کے طور پر پیش کرتی ہیں کہ وہ اپنے طرز کے واحد اداکار تھے جن پر پاکستان اور ہندوستان کے کسی بھی دوسرے اداکار کی چھاپ نہیں تھی۔

    اداکار محمد علی 19 اپریل 1931 کو بھارت کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان 1947ء میں تقسیم کے بعد ہندوستان سے کراچی ہجرت کر گیا تھا۔ محمد علی نے 1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن میں بطور براڈ کاسٹر شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان کراچی چلے گئے جہاں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری ان کی اداکاری کے لئے ان کے سرپرست بن گئے۔ محمد علی نے اپنے منفرد انداز سے اداکاری کی دنیا کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا اور بے مثال کام کیا۔ ان کے فلمی سفر کا آغاز فلم چراغ جلتا رہا سے ہوا تھا اور پھر وہ شوبز کی نگری کا معتبر اور بڑا حوالہ بن گئے۔ بلاشبہ محمد علی کردار میں اس قدر ڈوب جاتے کہ اس پر حقیقت کا گماں ہوتا۔ انہیں اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ پر کمال عبور حاصل تھا۔ ان کی آواز اور لب و لہجہ دیگر فن کاروں سے انہیں نمایاں کرتا تھا۔ محمد علی نے اداکارہ شبنم، بابرہ شریف اور دیبا سمیت ماضی کی تمام معروف اداکاراؤں کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا، لیکن زیبا کے ساتھ ان کی جوڑی بے حد مقبول ہوئی اور پھر حقیقی زندگی میں بھی وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور اس جوڑی نے فلم
    بینوں سے ہی نہایت عزت اور احترام نہیں پایا بلکہ فن و ثقافت کے ہر شعبہ میں وہ ایک مثالی جوڑا سمجھا گیا۔

    محمد علی نے آگ کا دریا، انسان اور آدمی، شمع، آئینہ اور صورت، کنیز اور صاعقہ سمیت درجنوں فلموں میں کام کیا اور فن اداکاری میں اپنا لوہا منوایا۔ ورسٹائل اداکار محمد علی کو تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ 19مارچ 2006ء کو اداکار محمد علی کا انتقال ہوگیا تھا۔

    محمد علی ان اداکاروں میں سے تھے جو ہر قسم کے کردار کو نبھانا جانتے تھے۔ چاہے وہ المیہ سین ہو یا کامیڈی، چاہے کسی جنگجو ہیرو کا کردار ادا کرنا ہو یا رومانی ہیرو کے طور پر کوئی گانا عکس بند کروانا ہو۔ اداکار محمد علی کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ ہر طبقہ سماج کے فلم بینوں میں پسند کیے گئے۔ وہ ذاتی زندگی میں ایک شریف النفس اور دوسروں کے مددگار انسان کے طور پر مشہور تھے۔

  • وہ پاکستانی فلم جس نے انڈسٹری کو مایہ ناز فن کار دیے

    وہ پاکستانی فلم جس نے انڈسٹری کو مایہ ناز فن کار دیے

    جب پاکستانی فلمی صنعت کی بنیاد رکھی گئی تو مشہور و معروف فلم سازوں کے ساتھ فن کاروں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جنھوں نے اس انڈسٹری کو بامِ عروج پر پہنچایا اور اپنے فن اور یادگار فلموں کے سبب بے مثال شہرت سمیٹی۔ اداکاروں کی بات کی جائے تو چند نام ایسے تھے جن کو پہلی ہی فلم نے ملک گیر شہرت اور مقبولیت دی اور وہ دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔

    فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی بات کی جائے تو یہ اس لحاظ سے ایک یادگار فلم ثابت ہوئی کہ اس کی بدولت فلمی انڈسٹری کو اداکار محمد علی، کمال ایرانی اور اداکارہ زیبا اور دیبا جیسے نام ملے جنھوں نے فلمی پردے پر راج کیا۔ 9 مارچ 1962ء کو ریلیز ہونے والی فلم "چراغ جلتا رہا” فضل احمد کریم فضلی کی یاد بھی تازہ کرتی ہے جو اس کے فلم ساز اور ہدایت کار ہی نہیں کہانی نگار بھی تھے۔ انھوں نے کراچی کے علاقہ ناظم آباد میں ایک فلمی ادارہ قائم کیا تھا اور وہیں اس فلم کو بنانے کا اعلان کیا تھا۔ فضلی صاحب نے اپنی فلم میں نئے فن کاروں کو متعارف کروانے کا رسک لیا اور کام یاب بھی ہوئے۔ انھوں نے ناظم آباد کی رہائشی نوجوان لڑکی ’’شاہین‘‘ کو فلم میں ’’زیبا‘‘ کے نام سے بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا۔ اس کے ساتھ محمد علی جو ان دنوں تھیٹر اور ریڈیو پر کام کرتے تھے، انھیں بھی چانس دیا۔ فلم کی موسیقی نہال عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی تھی اور میر تقی میر، مرزا غالب کے علاوہ جگر مراد آبادی، ماہر القادری جیسے شعرا کا کلام اس فلم میں‌ شامل تھا۔

    یہ فلم اس لیے بھی پاکستانی فلمی صنعت میں اہمیت رکھتی ہے اور یادگار ہے کہ کراچی کے نشاط سنیما میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس کی اوّلین نمائش کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس فلم کے دو نغمات مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود کی آواز میں‌ ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    ایک طرف یہ فضل احمد کریم فضلی کی پہلی کاوش تھی اور دوسری طرف محمد علی اور زیبا بھی پہلی بار بڑے پردے پر نمودار ہوئے۔ بعد میں لیجنڈری اداکار محمد علی کی شادی اداکارہ زیبا سے ہوئی اور اس جوڑی نے بہت عزت اور احترام پایا۔ ٹی وی اور فلم کے معروف اداکار طلعت حسین نے اس فلم میں پہلی بار کام کیا تھا اور وہ اداکارہ دیبا کے چھوٹے بھائی بنے تھے۔

    فلم کا ایک اہم کردار شاکر تھا جس کے گرد فلم کی کہانی گھومتی ہے اور یہ کردار ریڈیو کے فن کار وحید محمود نے ادا کیا تھا۔ وہ ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر بنے تھے، جو نہایت ایمان دار، اصول پرست اور شریف شخص ہوتا ہے۔ اس کہانی میں شاکر (وحید محمود) کو اپنے قصبے کے ایک خود غرض اور لالچی سیاست داں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنی بیٹی جمیلہ (زیبا) کی شادی شاکر کے بیٹے جمیل (عارف) سے کرنے کو کہتا ہے اور شاکر کی عزت اور نیک نامی کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔ لیکن شاکر انکار کر دیتا ہے اور پھر اسے سیاست داں اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر نوکری سے برخاست کروا دیتا ہے۔ ادھر جمیلہ اور جمال کا رشتہ طے کردیا جاتا ہے، جب کہ شاکر اپنے بیٹے جمیل کو کراچی بھیج کر خود اپنی بیٹی صبا (دیبا) اور منّے (طلعت حسین) کے ساتھ کسی اور گاؤں چلا جاتا ہے۔ اس گاؤں کا نواب محمود (کمال ایرانی) اسے اپنے گاؤں میں رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یہ کردار دوسروں کو اپنا نام ایاز بتاتا ہے۔ ایاز بن کر وہ لوگوں کے دکھ اور تکلیفوں کا پتہ لگاتا ہے، اور کسی کو علم نہیں ہوتا کہ یہ نواب محمود ہے۔ اسی نواب کا چھوٹا بھائی افسر خان (محمد علی) فطرتاً ایک ہوس پرست شخص تھا، وہ ایک روز شاکر کی بیٹی صبا پر اپنی بری نظر ڈالتا ہے۔ بدقسمتی سے اصول پرست اور خود دار شاکر کی بیگم (صفیہ) ایک لالچی عورت ہوتی ہے، اور افسر خان سے صبا کی شادی پر رضامند ہوجاتی ہے جس کی شاکر مخالفت کرتا ہے۔ بیگم کو افسر خان کا بھائی بھی اس شادی سے منع کرتا ہے، مگر وہ نہیں مانتی اور حالات بدلتے ہیں تو ایک روز افسر خان صبا کو اغوا کرنے کا پروگرام بناتا ہے۔
    شاکر اپنی بیٹی کے اغوا کے بعد کراچی اپنے بیٹے جمیل کے پاس پہنچتا ہے۔ جمیل ایک پبلشر نبی احمد کے پاس رہ رہا ہوتا ہے، وہیں جمیلہ بھی موجود ہوتی ہے۔ افسر خان بھی اسی پبلشر کا مہمان بن کر اس کے گھر میں آتا ہے۔ جمیلہ کو دیکھ کر وہ اسے اپنی بیوی بنانے کا سوچتا ہے، لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جمیل کو چاہتی ہے، تو افسر خان جمیل کو نوکری دلانے کے چکر میں ڈھاکا بھیج دیتا ہے، تا کہ جمیلہ سے شادی کر سکے۔ شاکر دوبارہ اپنے قصبے کی طرف روانہ ہوتا ہے، جہاں اسٹیشن پر اس کی ملاقات اپنی بیٹی صبا سے ہوتی ہے، جو اسے بتاتی ہے کہ افسر خان نے شادی کا دھونگ رچا کر اس کی عزت برباد کردی ہے، یہ سن کر شاکر افسر خان کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ صبا کو اپنی بیوی تسلیم کرے، ورنہ اسے عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سن کر افسر خان اپنے تعلقات سے شاکر کو جیل کروا دیتا ہے۔ جب جمیل کو سارے حالات کا پتہ چلتا ہے، تو وہ گاؤں آکر افسر خان کو ختم کرنے جاتا ہے، لیکن وہ اسے پولیس کے ذریعے گرفتار کرا دیتا ہے۔ جیل میں باپ اور بیٹے کی ملاقات ہوتی ہے۔ جمیل شاکر اپنے اچھے کردار کی وجہ سے تمام قیدیوں کی نظر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک روز افسر خان کا ساتھی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، اور افسر خان کے سارے مظالم سے پردہ ہٹا دیتا ہے۔ افسر خان کو پولیس پکڑ لیتی ہے۔ جمیل اور جمیلہ کی شادی ہوجاتی ہے۔ شاکر کی ساری تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں اور ایک نئی صبح کا چراغ جلتا ہے۔

    یہ ایک کام یاب فلم تھی جس کے ہیرو عارف کی اداکاری کو بھی فلم بینوں نے پسند کیا تھا، لیکن وہ دوبارہ بڑے پردے پر نظر نہیں‌ آئے۔

  • پاکستانی فلم "چراغ جلتا رہا” یادگار کیوں؟

    پاکستانی فلم "چراغ جلتا رہا” یادگار کیوں؟

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کی رونقیں عروج پر تھیں اور سنیما ایک مقبول تفریحی میڈیم تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلم سازی کا آغاز ہوا تو انڈسٹری میں آرٹسٹوں کی بڑی تعداد سامنے آئی جنھوں نے مختلف شعبہ جات میں اپنے فن اور صلاحیتوں کا اظہار کیا اور لازوال شہرت اور نام و مقام حاصل کیا۔ ان میں کئی اداکار ایسے تھے جن کی پہلی ہی فلم نے انھیں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔

    یہاں ہم بات کررہے ہیں ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی جو اس لحاظ سے یادگار فلم تھی کہ اس سے پاکستان کے چار باکمال اداکاروں محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی نے اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا۔

    یہ فلم 9 مارچ 1962ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ "چراغ جلتا رہا” کے فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نگار جناب فضل احمد کریم فضلی تھے۔ اس کی موسیقی نہال عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی تھی جب کہ میر تقی میر، مرزا غالب کے علاوہ جگر مراد آبادی، ماہر القادری جیسے شعرا کا کلام شامل تھا جب کہ فضل احمد کریم فضلی نے بھی اس فلم کے لیے گیت تحریر کیے تھے۔

    اس لحاظ سے بھی یہ فلم یادگار ہے کہ اس کی اوّلین نمائش کراچی کے نشاط سنیما میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کی تھی۔ فلم کے دو نغمات مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے تھے۔

    فضل احمد کریم فضلی کی اس فلم محمد علی کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا اور ان کے ساتھ زیبا بھی پہلی بار بڑے پردے پر نمودار ہوئیں جو بعد میں لیجنڈ اداکار محمد علی کی جیون ساتھی بنیں۔ یہی نہیں‌ بلکہ ریڈیو پاکستان کے نوجوان صدا کار طلعت حسین بھی اسی فلم میں پہلی بار بطور اداکار شائقین کے سامنے آئے۔ اسی طرح دیگر فن کار بھی جو پہلی بار اس فلم کے ذریعے بڑے پردے پر متعارف ہوئے، نام و مقام بنانے میں‌ کام یاب رہے اور محمد علی، زیبا دہائیوں تک پاکستانی سنیما پر چھائے رہے اور شائقین کے دلوں پر راج کیا۔

    یہ بھی بتاتے چلیں کہ انڈسٹری کو‌ چار فلمی ستارے اور باکمال اداکار دینے والی ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کے ہیرو عارف اس فلم کے بعد کبھی بڑے پردے پر نظر نہیں‌ آئے۔

  • حسد اور تعصب کی نذر ہونے والی "کلرک”

    حسد اور تعصب کی نذر ہونے والی "کلرک”

    کیا آپ جانتے ہیں‌ کہ پاکستانی فلمی صنعت کے نام وَر اداکار اور اپنے وقت کے مقبول ہیرو محمد علی نے ایک زمانے میں بھارتی فلم میں بھی کام کیا تھا، لیکن شہنشاہِ جذبات کے لقب سے یاد کیے جانے والے اس فن کار کی یہ فلم منوج کمار کے تعصب اور حسد کی نذر ہوگئی۔

    محمد علی کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ ایک خدا ترس، محبت اور سب سے تعاون کرنے والے انسان بھی تھے۔ جب کبھی پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کا تذکرہ ہو گا، محمد علی کا نام ضرور لیا جائے گا۔

    یہ 1983ء کی بات ہے جب اس وقت کے حکم راں ضیاء الحق محمد علی کو اپنے ساتھ بھارت کے دورے پر لے گئے تھے۔ وہاں‌ اندرا گاندھی نے ضیاءُ الحق سے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین خوش گوار تعلقات کو فروغ دینے کے لیے فن و ثقافت کا سہارا لیا جائے اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی ظاہر کردی کہ اداکار محمد علی بھارتی فلموں میں کام کریں۔ پاکستان واپسی کے بعد ضیاءُ الحق نے خصوصی طور پر محمد علی کو ملاقات کے لیے بلایا اور انھیں‌ بھارتی فلموں میں کا م کرنے کے لیے راضی کیا۔

    یوں‌ محمد علی اپنی بیوی اور اس زمانے کی مشہور اداکارہ زیبا کے ساتھ بھارت گئے اور وہاں‌ بھارتی فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور ایکٹر منوج کمار کی فلم "کلرک” میں کام کیا، لیکن محمد علی کی پرفارمنس نے منوج کمار کو حسد اور ایک قسم کے احساسِ‌ کمتری سے دوچار کردیا۔ فلم ریلیز ہوئی تو معلوم ہوا کہ تعصب کی بنیاد پر محمد علی کے اہم ترین سین کی کاٹ چھانٹ نے ان کے کردار کو‌ ثانوی کردیا ہے۔ منوج کمار کی اس حرکت کے باعث فلم بھی ناکامی سے دوچار ہو گئی۔

  • سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    پاکستانی فلموں کے سپراسٹارز اور مشہور فن کاروں‌ نے ڈبل رول ہی نہیں‌‌ بیک وقت تین اور چار کردار بھی نبھائے اور فلم بینوں‌ نے انھیں‌ بے حد سراہا۔ ان میں اداکار اور اداکارائیں‌ دونو‌ں ہی شامل ہیں، لیکن یہاں‌ ہم صرف اُن چند اداکاروں کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو مختلف فلموں میں ڈبل رول ادا کر کے شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے۔

    محمد علی کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے وقت کے اس اداکار نے کئی فلموں‌ میں‌ یادگار کردار نبھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ محمد علی نے فلم’’راجا جانی، آنسو بن گئے موتی‘‘ اور ’’میرا گھر میری جنت‘‘ نامی جیسی کام یاب فلموں میں‌ ڈبل کردار نبھائے اور ہر روپ میں‌ انھوں‌ نے اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایک اور سپراسٹار ندیم ہیں جنھوں نے پانچ دہائیوں تک فلمی دنیا پر راج کیا۔ اداکار ندیم نے بھی متعدد فلموں میں ڈبل کردار ادا کیے اور سنیما بینوں‌ سے خوب داد وصول کی۔ فلم ’’ہم دونوں‘‘اور’’ سنگ دل‘‘ میں انھیں‌ ڈبل کردار نبھانے کا موقع ملا تو انھوں‌ نے بھی اسے غنیمت جانا اور کمال پرفارمنس دی۔ ’’جلتے سورج کے نیچے‘‘ وہ فلم تھی جس میں‌ ندیم نے دو نہیں‌ بہ یک وقت تین کردار نبھائے اور فلم بینوں کے دل جیتے۔

    چاکلیٹی ہیرو یعنی وحید مراد نے فلم ’’ہل اسٹیشن، مستانہ ماہی اور ناگ منی‘‘ میں ڈبل کردار نبھائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

    بات ہو بھولی بھالی صورت والے اداکار کمال کی تو جہاں فلم انڈسٹری ان کے فنِ اداکاری کی معترف ہے، وہیں پاکستانی سنیما انھیں‌ ایک ہدایت کار اور فلم ساز کے طور پر بھی یاد رکھے گا۔ سید کمال نے ’ہم دونوں‘‘ اور ’’گھر داماد‘‘ میں ڈبل کردار ادا کیے تھے۔

    مشہور اداکار شاہد نے دو یا تین نہیں‌ بیک وقت چار روپ دھارے اور شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ اس فلم کا نام ’’بہت خُوب‘‘ تھا جس میں‌ انھیں چار مختلف کردار نبھانے کا موقع ملا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں مصطفیٰ قریشی اپنے مخصوص انداز اور مکالموں کی ادائیگی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے ’’جیوا‘‘ اور ’’بارود کی چھاؤں‘‘ نامی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے تھے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار منور ظریف کو ’’نمک حرام‘‘ میں ڈبل کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔