Tag: اداکار کمال

  • سیّد کمال: خوبرو اور پُرکشش اداکار جنھیں پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا ہے

    سیّد کمال: خوبرو اور پُرکشش اداکار جنھیں پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا ہے

    اداکار کمال انتہائی خوبرو اور پُرکشش تھے جو مشہور بھارتی اداکار راج کپور سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور کمال کی اُن سے ملاقاتیں اور بے تکلفی بھی تھی۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اداکار کمال کو اردو اخبارات اور فلمی جرائد میں‌ اکثر پاکستانی راج کپور بھی لکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی اتفاق سے دونوں ملکوں کے ان فن کاروں‌ کی ملاقات ہوجاتی تو اس کی خبر یا کسی اسٹوری میں ان کی شکل و صورت کا ذکر ضرور کیا جاتا۔ آج اداکار کمال کے یومِ وفات پر اسی مناسبت سے ایک مشہور قصّہ ملاحظہ کیجیے: ایک مرتبہ کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے راج کپور بھارت کے کسی شہر کے ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، بھارت میں ان کے مداحوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی اور وہ اپنے وقت کے مقبول ہیرو تھے۔ مقامی لوگوں اور راج کپور کے مداحوں کو ہوٹل میں‌ ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہاں‌ ایک جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا۔ ان کا اصرار تھا کہ راج کپور ہوٹل کی بالکونی میں آکر انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    شہرت اور مقبولیت بھی عجیب شے ہے۔ فلم اسٹارز کو اپنے مداحوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ راج کپور کی طبیعت اس وقت کچھ ناساز تھی۔ سیّد کمال ان کے ساتھ تھے، راج کپور نے انھیں کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور لوگوں کو اپنا دیدار کرائیں۔ سیّد کمال ہوٹل کی بالکونی میں پہنچے اور لوگوں کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلایا۔ لوگوں نے ان سے محبّت جتائی، نیک تمنّاؤں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ انھیں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہ ہوا کہ یہ راج کپور نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

    اس مجمع میں سے کچھ لوگوں نے راج کپور سے آٹو گراف لینا چاہا تو ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ استقبالیہ پر رش بڑھنے لگا۔ انتظامیہ کی مشکل کو دیکھتے ہوئے راج کپور نے کمال سے پھر درخواست کی کہ وہ ان کی طرف سے آٹو گراف دے دیں۔ کمال کو یہ بھی کرنا پڑا۔ انھوں نے آٹو گراف بکس لیں اور انھیں‌ بھرتے چلے گئے۔ یہاں‌ بھی کسی کو شک نہ ہوسکا۔

    مشہور ہے کہ سیّد کمال نے راج کپور سے کہا تھا کہ ’’آپ کی وجہ سے مجھے آج مداحوں کو آٹو گراف دینے اور کی محبت سمیٹنے کا ایسا خوب صورت تجربہ ہوا ہے، جب کہ ابھی میں کچھ نہیں ہوں۔ اس پر راج کپور نے کہا وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ سیّد کمال سے آٹو گراف لینے آئیں گے۔ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور سیّد کمال نے پاکستان میں مقبولیت اور نام و مقام حاصل کیا۔

    اداکار کمال نے فلموں میں رومانوی، المیہ اور مزاحیہ کردار ادا کیے اور مشہور ہوئے۔ انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں زیبا، دیبا، نیلو، شبنم، نشو اور رانی کے ساتھ کئی فلمیں کیں۔ کمال نے بطور فلم ساز بھی سنیما کو فلمیں دی ہیں۔ ان میں‌ اردو اور چند پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں جو سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے اور ڈراموں میں‌ اداکاری کے علاوہ ان کا بطور میزبان ایک پروگرام بھی بہت مقبول ہوا۔

    اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ان کا تعلق میرٹھ سے تھا جہاں وہ 27 اپریل 1937 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ بطور اداکار کمال نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں ایک مختصر کردار نبھایا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آئے اور ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام حاصل کرکے پاکستانی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا آغاز کیا۔

    کمال ایک منجھے ہوئے اداکار ہی نہیں‌ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے۔ اداکاری کے میدان میں‌ وہ اپنے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کرداروں میں فلم بینوں‌ کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ ان کی 80 سے زائد فلموں‌ میں اردو فلموں کے علاوہ چند پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے۔ سیّد کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرین پر اداکار کمال مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی نظر آئے تھے۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں بھی اترے، مگر کام یاب نہ ہوئے۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ کمال نے بطور مصنّف اپنی خود نوشت سوانح بھی یادگار چھوڑی۔ انھوں نے تین مرتبہ نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا جب کہ انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم کے علاوہ ٹیلی ویژن پر بھی اداکاری کی اور اپنے اسٹیج شو کے ذریعے بھی ناظرین کو محظوظ کیا۔

    سید کمال 27 اپریل 1937 کو متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں مختصر کردار نبھا کر اپنے فنی سفر کا آغاز کیاا۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے جہاں ہدایت کار شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام کرنے کا موقع دیا اور یوں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ان کے آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    وہ اداکار ہی نہیں‌ فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی کار بھی تھے۔ کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کردار نبھائے اور اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

    اداکار کمال نے 80 سے زائد فلموں‌ میں‌ اداکاری کی۔ اردو فلموں کے علاوہ انھیں چند پنجابی اور ایک پشتو فلم میں‌ بھی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ سید کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر سید کمال کا شو بھی نشر ہوا جسے ناظرین میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ کمال نے مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی کردار نبھایا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں اترے، مگر کام یابی نہ ملی۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ اداکار نے قلم اٹھایا تو اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی۔ تین بار فلم نگری کا سب سے بڑا نگار ایوارڈ اپنے نام کرنے والے سید کمال کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: راج کپور نے فلموں میں تفریح کے ساتھ سماج میں عدم مساوات اور ناانصافی کو بھی اجاگر کیا

    یومِ‌ وفات: راج کپور نے فلموں میں تفریح کے ساتھ سماج میں عدم مساوات اور ناانصافی کو بھی اجاگر کیا

    راج کپور 2 جون 1988ء کو انتقال کرگئے تھے۔ بولی وڈ کے لیجنڈری اداکار نے بطور فلم ساز اور ہدایت کار بھی خود کو منوایا اور انڈسٹری میں نام و مقام بنانے کے ساتھ سنیما بینوں‌ کے دلوں‌ پر راج کیا۔

    راج کپور کا اصل نام رنبیر راج کپور تھا۔ وہ 14 دسمبر 1924ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بھی مشہور اداکار اور فلم ساز تھے جن کا نام پرتھوی راج کپور تھا۔

    1935ء میں بطور چائلڈ ایکٹر فلم نگری میں قدم رکھنے والے راج کپور خوب رُو اور خوش قامت تھے۔ ہیرو کے روپ میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ہدایت کار کی حیثیت سے سفر کا آغاز کیا تو تیسری فلم ’آوارہ‘ نے حقیقی معنوں میں انھیں شہرت دی۔ اس کے بعد برسات، چوری چوری اور جاگتے رہو جیسی کئی فلمیں‌ سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔

    لیجنڈری اداکار راج کپور نے دو نیشنل فلم ایوارڈ اور 9 فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے اور 1988ء میں انھیں‌ فلم سازی کے لیے بھارت کا اعلیٰ ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے دیا گیا۔

    راج کپور نے اپنی فلموں میں‌ شائقینِ سنیما کی تفریح کو ضرور مدّنظر رکھا، لیکن ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی سماجی مسئلے جیسے ناانصافی اور طبقاتی اونچ نیچ کی نشان دہی بھی کریں‌۔ اسی وجہ سے وہ مساوات کے پرچارک فلم ساز کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔

    بطور ہدایت کار ان کی آخری فلم ’’حنا‘‘ تھی جو ان کی وفات کے بعد ریلیز کی گئی اور یہ فلم بھی کام یاب رہی۔

    اس اداکار کی زندگی اور فنی سفر سے متعلق جاننے کے بعد یہ واقعہ بھی آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے نام ور اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار سیّد کمال بھارتی اداکار راج کپور سے گہری مشابہت رکھتے تھے۔ راج کپور سے ان کی دوستی بھی تھی۔

    بھارت میں‌ کسی فلم کی شوٹنگ کی غرض سے راج کپور ایک شہر کے مقامی ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، وہ ہندوستان بھر میں‌ ہیرو کے طور پر شہرت حاصل کرچکے تھے۔ ان کی ہوٹل میں‌ موجودگی کا علم مقامی لوگوں کو ہوا تو وہ ہوٹل کے باہر جمع ہوگئے۔ مداحوں کا اصرار تھا کہ راج کپور انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    اُس روز راج کپور کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ وہ بستر سے اٹھنے کو تیّار نہیں تھے۔ اتفاق سے سیّد کمال ان کے ساتھ تھے۔ نیچے ہجوم کا اصرار بڑھ رہا تھا۔ راج کپور نے کمال کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور ہاتھ ہلا کر لوگوں سے محبّت کا اظہار اور ان کا شکریہ ادا کریں۔ یوں اداکار کمال نے راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو خوش کیا اور کوئی نہیں‌ جان سکا کہ بالکونی میں راج کپور نہیں بلکہ پاکستانی اداکار کمال کھڑے ہیں۔ اسی دن اداکار کمال نے راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو آٹو گراف بھی دیا۔

  • راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو آٹو گراف دینے والا پاکستانی اداکار

    راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو آٹو گراف دینے والا پاکستانی اداکار

    ’’انسان اور گدھا‘‘ پاکستانی فلمی صنعت کے نام وَر اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار سیّد کمال کی وہ فلم تھی جسے شائقین نے‌ پذیرائی دی اور بہت پسند کیا، لیکن یہ فلم اس وقت حکومتی پابندی کی زد میں آئی جب بڑے پردے پر اس کی نمائش جاری تھی۔ اسے سنیما ہالوں سے ہٹا دیا گیا جس کا سیّد کمال کو بہت دکھ ہوا، لیکن فلمی سفر تو جاری رکھنا تھا۔ وہ آگے بڑھ گئے اور آنے والے دنوں میں‌ ان کی متعدد فلمیں کام یاب ہوئیں‌ اور ان کے دل سے مذکورہ فلم کا قلق جاتا رہا۔

    سیّد کمال کو پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا تھا، کیوں کہ وہ مشہور بھارتی اداکار راج کپور سے گہری مشابہت رکھتے تھے۔ راج کپور سے ان کی بے تکلفی بھی تھی اور ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔

    مشہور ہے کہ ایک مرتبہ کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے راج کپور بھارت کے کسی شہر کے ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، بھارت میں ان کے مداحوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی اور وہ اپنے وقت کے مقبول ہیرو تھے۔ مقامی لوگوں اور راج کپور کے مداحوں کو ہوٹل میں‌ ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہاں‌ ایک جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا۔ ان کا اصرار تھا کہ راج کپور ہوٹل کی بالکونی میں آکر انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    شہرت اور مقبولیت بھی عجیب شے ہے۔ فلم اسٹارز کو اپنے مداحوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ راج کپور کی طبیعت اس وقت کچھ ناساز تھی۔ سیّد کمال ان کے ساتھ تھے، راج کپور نے انھیں کہاکہ وہ بالکونی میں جائیں اور لوگوں کو اپنا دیدار کرائیں۔ سیّد کمال ہوٹل کی بالکونی میں پہنچے اور لوگوں کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلایا۔ لوگوں نے ان سے محبّت جتائی، نیک تمنّاؤں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ انھیں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہ ہوا کہ یہ راج کپور نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

    اس مجمع میں سے کچھ لوگوں نے راج کپور سے آٹو گراف لینا چاہا تو ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ استقبالیہ پر رش بڑھنے لگا۔ انتظامیہ کی مشکل کو دیکھتے ہوئے راج کپور نے کمال سے پھر درخواست کی کہ وہ ان کی طرف سے آٹو گراف دے دیں۔ کمال کو یہ بھی کرنا پڑا۔ انھوں نے آٹو گراف بکس لیں اور انھیں‌ بھرتے چلے گئے۔ یہاں‌ بھی کسی کو شک نہ ہوسکا۔

    مشہور ہے کہ سیّد کمال نے راج کپور سے کہا تھا کہ ’’آپ کی وجہ سے مجھے آج مداحوں کو آٹو گراف دینے اور کی محبت سمیٹنے کا ایسا خوب صورت تجربہ ہوا ہے، جب کہ ابھی میں کچھ نہیں ہوں۔ اس پر راج کپور نے کہا وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ سیّد کمال سے آٹو گراف لینے آئیں گے۔ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور سیّد کمال نے پاکستان میں مقبولیت اور نام و مقام حاصل کیا۔

    کمال نے فلموں میں رومانوی، المیہ اور مزاحیہ کردار ادا کیے اور خوب شہرت حاصل کی۔ انھوں نے اپنے دور کی مشہور اداکاراؤں زیبا، دیبا، نیلو، شبنم، نشو اور رانی کے ساتھ کام کیا۔ کمال نے متعدد فلمیں بھی بنائیں۔ ان میں‌ اردو اور چند پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں جو سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ وہ فلم کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئے اور ایک شو کی میزبانی بھی کی جو بہت مقبول ہوا۔

  • شباب کیرانوی: فلمی صنعت کی تاریخ ساز شخصیت کی برسی

    شباب کیرانوی: فلمی صنعت کی تاریخ ساز شخصیت کی برسی

    شباب کیرانوی پاکستان کی فلمی صنعت کا ممتاز ترین نام ہے۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، لیکن کہانی نویسی اور شاعری میں بھی معروف ہوئے۔ وہ 5 نومبر 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج شباب کیرانوی کی برسی ہے۔

    شباب کیرانوی کا شمار ایسی شخصیات میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی فلموں کی ترقّی و ترویج میں نہایت اہم اور قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔

    اس کہانی نویس، نغمہ نگار، ہدایت کار اور فلم ساز نے ہر شعبے میں خود کو ثابت کیا اور نام و مقام بنایا۔

    1925ء میں کیرانہ میں پیدا ہونے والے شباب کیرانوی کا اصل نام نذیر احمد تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل جن دو فلموں سے اپنے سفر کا آغاز کیا، وہ مکمل نہ ہوسکیں۔ 1955ء میں بطور فلم ساز انھوں‌ نے جلن کے نام سے فلم بنائی، جس کے ہدایت کار اے حمید تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور متعدد فلمی گیتوں‌ کے خالق بھی جو بے حد مقبول ہوئے۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی شایع ہوئے۔

    1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پرکام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز دیے گئے۔

    شباب کیرانوی کی بدولت فلمی صنعت کو کئی باصلاحیت فن کار ملے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    لاہور میں‌ شباب کیرانوی کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا اور وفات کے بعد انھیں اسی کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فلم نگری کے نام وَر سیّد کمال کی برسی

    فلم نگری کے نام وَر سیّد کمال کی برسی

    نام ور اداکار سید کمال نے یکم اکتوبر 2009 کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ سید کمال فلم ساز، ہدایت کار اور لکھاری بھی تھے۔‌ انھوں نے فلم اور ٹیلی ویژن پر بھی کام کیا اور نام و مقام بنایا۔

    سید کمال 27 اپریل 1937 کو متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام سید کمال شاہ تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں مختصر کردار نبھا کر اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور تقسیم کے بعد پاکستان آگئے جہاں ہدایت کار شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام کرنے کا موقع دیا اور یوں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کردار نبھائے اور اپنی فنی صلاحیتوں کا خوب اظہار کیا

    اداکار کمال نے 80 سے زائد فلموں‌ میں‌ اداکاری کی۔ اردو فلموں کے علاوہ انھیں چند پنجابی اور ایک پشتو فلم میں‌ بھی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ سید کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر سید کمال کا شو بھی نشر ہوا جسے ناظرین میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ کمال نے مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی کردار نبھایا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں اترے، مگر کام یابی نہ ملی۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ اداکار نے قلم اٹھایا تو اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی۔ تین بار فلم نگری کا سب سے بڑا نگار ایوارڈ اپنے نام کرنے والے سید کمال کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • اداکارسید کمال کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے

    اداکارسید کمال کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے

    کراچی: ڈرامہ اورفلم انڈسٹری کے مقبول ترین اداکار اداکار سید کمال کو مداحوں سے بچھڑے 10 سال بیت گئے، فلم اورٹی وی دونوں کے لیے ان کی یکساں خدمات ہیں۔

    سید کمال 27 اپریل سن 1937ء کو بھارتی شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہوں نے فلمی سفر کا آغاز سن 1957ء میں معروف فلم پروڈیوسر شباب کیرانوی کی فلم ٹھنڈی سڑک سے کیا۔

    اداکار کمال نے پردہ سیمیں پراداکاری کے ساتھ ساتھ بطور فلم ساز و ہدایت کاربھی کئی مشہور فلمیں بنائیں۔ وہ مزاحیہ، المیہ اور رومانوی ہر قسم کے کرداروں میں جان ڈال دیتے تھے، انہیں بھارتی اداکارراج کپور سے مشابہت کی بناء پر پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا تھا۔

    کمال نے اپنے فنی کیرئیر کے دوران لگ بھگ 200 فلموں میں کردار نگاری کی۔ ان کے فلمی کیرئیر میں فلم بہن بھائی، روڈ ٹو سوات، گلفروش، آشیانہ، دل نے تجھے مان لیا، گھر داما د اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔

    انھیں ٹیلی وڑن پر کما ل شو کے نام سے بھی کافی شہرت ملی۔ اپنے کیریئر کے دوران اداکار کمال نے بہترین کارکردگی پر بے شمار فلمی ایوارڈز حاصل کیے جبکہ ایک پنجابی زبان کی فلم پر بیک وقت بہترین فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار کا ایوارڈ حاصل کیا۔

    لیجنڈ اداکار یکم اکتوبرسن 2009ء کو حرکتِ قلب بند جانے کے باعث اس جہان فانی سے کوچ کرگئے تھے، فنون لطیفہ سے وابستہ ان کے ہم عصر اداکاروں کے مطابق سید کمال کی وفات سے پاکستانی فلمی صنعت کے فن کا ایک باب بند ہوگیا، ان کی گراں قدرخدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔