Tag: ادب

  • ہم اسی دھرتی سے پھوٹنے والے بُوٹے ہیں…

    ہم اسی دھرتی سے پھوٹنے والے بُوٹے ہیں…

    میں بہ مشکل ابھی ٹین ایج میں داخل ہو رہا تھا جب پاکستان ٹائمز کے باہر ایک کڑی دوپہر کی دھوپ میں، میں نے فیض صاحب کے آگے اپنی آٹو گراف بک کھول کر کہا ”آٹو گراف پلیز…“

    فیض صاحب نے آٹو گراف بک پر ایک مصرع گھسیٹ دیا اور ان کی لکھائی ہمیشہ گھسیٹی ہوئی لگتی تھی۔ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے!

    میں کسی حد تک قلم کو جانتا تھا لیکن یہ لوح کیا بلا ہے نہیں جانتا تھا اور ان کی بچوں کی مانند پرورش کے بارے میں تو بالکل ہی نہیں جانتا تھا چناں چہ میں نے گھگھیا کر درخواست کی کہ وہ رباعی لکھ دیں، رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی۔

    تو فیض صاحب نے سگریٹ کا ایک اور سوٹا لگا کر کہا۔ بھئی وہ تو ہمیں یاد نہیں۔ تو میں نے فوراً کہا۔ جی مجھے یاد ہے۔ میں آپ کو لکھا دیتا ہوں اور میں نے وہ رباعی فیض صاحب کو لکھوائی۔ یعنی آج سے تقریباً 65 برس پیش تر میں فیض صاحب کو شعر لکھوایا کرتا تھا۔ اس رباعی کے پہلو میں ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے بھی آج تک موجود ہے اور میں اس مصرع کے بارے میں ہمیشہ مخمصے میں ہی رہا۔ اور پھر میری حیات میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ کائنات کے آغاز کی مانند ہر سو تاریکی تھی۔ آمریت، جبر اور ظلم کی اتھاہ تاریکی اور اس میں ایک چراغ روشن ہوا۔ احتجاج کا۔ ”الفتح“ کا۔ میں نہیں مانتا اس صبحِ بے نور کو۔ ایک ایسا چراغ اور اسے روشن کرنے والا محمود شام تھا۔ اور تب پہلی بار مجھ پر آشکار ہوا کہ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے کا کیا مطلب ہے۔ یہ مصرع محمود شام کی ذات کی مکمل تفسیر ہے۔

    محمود شام اور مجھ میں ایک قدر مشترک ہے۔ ہم دونوں اس دھرتی میں سے پھوٹنے والے بوٹے ہیں جو سندھ اور چناب کے پانیوں میں سے اپنے تخلیقی جوہر کشید کرتے ہیں۔

    (از قلم: مستنصر حسین تارڑ)

  • پشاور میں سہ روزہ پشتو ادبی کانفرنس پوری آب و تاب کے بعد اختتام پذیر

    پشاور میں سہ روزہ پشتو ادبی کانفرنس پوری آب و تاب کے بعد اختتام پذیر

    پشاور: خیبر پختون خوا کے شہر پشاور میں سہ روزہ پشتو ادبی کانفرنس پوری آب و تاب کے بعد اختتام پذیر ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تین روزہ پشتو ادبی میلہ نشتر ہال پشاور میں پوری آب و تاب کے بعد ختم ہو گیا، ادبی میلے میں بڑی تعداد میں نامور ادبا، شعرا اور مفکرین نے شرکت کی۔

    ادبی میلے کا مقصد پشتو کمیونٹی کے درمیان فکری گفتگو کو فروغ دینا اور ان کی کاوشوں کا اعتراف کرنا تھا، شرکا نے پشتو ادب کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کے مختلف پہلووٴں پر عملی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔

    اس ادبی میلے میں ادب اور ثقافت کے حوالے سے مقررین نے اپنے مقالے پیش کیے، ناظرین میلے کے دوران روایتی رقص اور پشتو شاعری سے بھی لطف اندوز ہوئے۔

    شرکا نے اس طرح کا ادبی میلہ ضلعی سطح پر بھی منعقد کرنے کا عزم ظاہر کیا، کور کمانڈر پشاور نے ادبی میلے کی اختتامی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ طلبہ کے آرٹس کے نمونوں نے ادبی میلے کو چار چاند لگا دیے۔

  • Waltz: وسطی یورپ کا "فسادی اور غیر مہذّب”

    Waltz: وسطی یورپ کا "فسادی اور غیر مہذّب”

    دنیا بھر میں فنونِ لطیفہ کی نہایت مرصّع و آراستہ، پُرلطف اور قدیم صنف جسے عرفِ عام میں‌ اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے، وہ رقص ہے۔ ہر خطّے اور علاقے کی تہذیب اور ثقافت میں‌ رقص کی مختلف صورتیں‌ دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ موسیقی اور گیت بھی مقبول ہوئے جو ہر علاقے کی تہذیب اور ثقافت کی ترجمانی کرتے ہیں۔

    شاید رقص اتنا ہی قدیم ہے جتنا اس زمین پر کوئی انسانی ثقافت۔ رقص کب شروع ہوا یا کس دور میں‌ اسے آرٹ کا درجہ دیا گیا، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن برّصغیر، خصوصا ہندوستان میں لوک رقص کی معلوم تاریخ‌ بتاتی ہے کہ یہ انسانی جذبات کے اظہار اور خوشی کے مواقع کو یادگار بنانے کا ذریعہ رہا ہے۔

    پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خوا میں روایتی رقص کے کئی نام ہیں جن میں "بھنگڑا، لُڈی، سمی، گِدا، کِیکلی کے علاوہ لیوا اور چَھپ جب کہ ایتن، خٹک، گتکا، کُمبر بھی مشہور ہیں۔ ناچ گانوں میں‌ دھمال اور ہو جمالو بھی مشہور ہیں جب کہ جھومر ایسا رقص ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں‌ میں قدرے مختلف انداز میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مغل دور کی تاریخ‌ اٹھا کر دیکھیں‌ تو ہندوستان میں‌ کتھک رقص کا بہت شہرہ رہا جو آج بھی آرٹ کی دنیا میں مقبول ہے۔

    اسی طرح‌ یورپ اور دنیا بھر میں‌ رقص مختلف شکلوں میں‌ زندہ رہا اور آج جدید دنیا میں بھی اس کے نت نئے انداز اور مختلف شکلیں‌ مقبول ہیں۔ رقص کو جدید دنیا آرٹ مانتی ہے۔ اس تفصیل کے ساتھ ہم آپ کو وسطی ایشیا کے ایک ایسے رقص کے بارے میں‌ بتارہے ہیں جسے کسی زمانے میں بدترین کہا جاتا تھا۔

    وسطی یورپ کا قدیم رقص ‘والز’ ( Waltz ) ہے جس میں ‘ تھا، تھا، تھا’ کی بیٹ (beat) پر مرد و زن جھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس رقص نے عام لوگوں کو ہی نہیں اس دور کی اشرافیہ نے بھی اپنایا، لیکن مخصوص فکر کے حامل لوگوں نے اشرافیہ کے اس طرزِ عمل پر کڑی تنقید کی اور اسے لچّر و نہایت پست قرار دیا۔ امرا کے بعض حلقوں کا کہنا تھاکہ اشراف کو اس قسم کے عوامی رقص سے گریز کرنا چاہیے۔

    یہی نہیں‌ بلکہ 1825ء تک آکسفورڈ کی انگریزی لغت میں اس رقص کی تعریف بیان کرنے کے بعد تفصیل بتاتے ہوئے اسے فسادی اور غیر مہذب لکھا گیا۔

  • مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    کراچی: مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف شاعر اور استاد پروفیسر عنایت علی خان خالق حقیقی سے جا ملے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں طنز و مزاح کے نامور شاعر پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی انتقال کر گئے ہیں، ان کی نماز جنارہ کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں ادا کی جائے گی۔

    مرحوم کے اہل خانہ کے مطابق پروفیسر عنایت علی کا انتقال گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، مرحوم کی عمر 85 برس تھی اور وہ کئی ماہ سے علیل تھے۔

    پروفیسر عنایت طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدہ شاعری میں بھی الگ پہچان رکھتے تھے، ان کی موت سے علم و ادب کی ایک اور شمع بجھ گئی ہے، وہ 1935 میں بھارتی ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے تھے، اور نومبر 1948 میں ہجرت کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے 1962 میں سندھ یونی ورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا۔

    سنجیدہ شاعری ہو یا مزاحیہ پروفیسرعنایت علی خان منفرد اسلوب کے مالک تھے، تدریس سے وابستہ پروفیسر عنایت علی خان کو 6 کتابوں پر انعام سے بھی نوازا گیا، ان کی مشہور تصانیف میں ازراہِ عنایت، عنایات، عنایتیں کیا کیا شامل ہیں۔

    چنو منو اور شیطان، پیاری کہانیاں کے نام سے پروفیسر عنایت نے بچوں کے لیے کہانیوں اور نظموں کی دو کتابیں بھی لکھیں، ان کی نظم بول میری مچھلی کے کئی مزاحیہ قطعات زبان زد عام ہوئے۔

    پروفیسر عنایت کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

  • داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    داغ دہلوی کی "حجاب پرستی”

    حقیقت تو یہ ہے کہ داغ فطرتاً حسن پرست اور عاشق مزاج تھے۔

    طبیعت میں بلا کی شوخی تھی۔ تادم مَرگ یہ ان کے ساتھ رہی اور یہی ان کی شاعری کی کام یابی کا راز تھا۔

    داغ نے آخر وقت تک مہ و شو سے سابقہ رکھا اور ہمیشہ شگفتہ اور جان دار شعر کہتے رہے۔ چناں چہ دکن میں جو اچھی غزلیں داغ نے کہی ہیں، ان کے اکثر شعر ایسی ہی محفلوں میں لکھے گئے تھے۔

    بعض دفعہ تو یہ ہوتا کہ گانا ہورہا ہے، داغ شعر لکھوا رہے ہیں۔ آمد کا وہ عالم ہے کہ دو شاگرد علیحدہ علیحدہ لکھتے جاتے ہیں پھر بھی جس تیزی سے داغ شعر کہتے، اس رفتار سے لکھنا مشکل ہوجاتا اور نتیجتاً ایک آدھ شعر یا دو چار مصرعے چھوٹ جاتے۔

    مثنوی ”فریاد داغ“ میں داغ نے اپنی منظورِ نظر منی جان حجاب کی جوانی کی تصویر یوں کھینچی ہے۔

    سج دھج آفت غضب تراش خراش
    کسی اچھے کی دل ہی دل میں تلاش

    حجاب کے ہونٹ پر تِل تھا، داغ نے اس پر ایک رُباعی لکھی۔

    تم تو فلک حُسن پہ ہو ماہِ منیر
    سائے کی طرح ساتھ داغ دل گیر
    خالِ لب گل فام ہے شاہد اس کا
    بے داغ نہ کھنچ سکی تمہاری تصویر

    استاد شاعر داغ دہلوی کا تذکرہ، یاسین خاں علی خان کے قلم سے

  • درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی جھجک!

    درشن متوا کی ایک مختصر کہانی پڑھیے.

    پڑھے لکھے نوجوان کو کہیں جانا تھا۔ وہ بس کے اڈّے پر بسوں کے بورڈ پڑھتا پھر رہا تھا۔
    بے وقوف کہلانے کے ڈر سے اس نے کسی سے بس کے بارے میں پوچھا نہیں، صرف گھومتا رہا۔
    ایک بس سے دوسری اور دوسری سے تیسری اور چوتھی۔
    ایک اَن پڑھ سا آدمی آیا، اس نے بس میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا اور جھٹ سے بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی۔
    پڑھا لکھا نوجوان اب بھی بسوں کے بورڈ پڑھتا ہوا وہیں چکر لگا رہا تھا۔

    جھجک کے عنوان سے یہ کہانی آپ کو یقینا پسند آئی ہو گی. اس کہانی کا موضوع اور بُنت بتاتی ہے کہ مصنف اپنے گرد و پیش اور ماحول سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مشاہدہ گہرا ہے. دوسری طرف مختصر نویسی درشن متوا کی بلند تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔

    درشن متوا کا شمار پنجابی اور ہندی زبان کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے زرخیز ذہن اور قوتِ متخیلہ سے کام لے کر ان موضوعات کو برتا ہے جو ایک زمانے میں ان کے محلِ نظر تھے۔ درشن متوا نے نہ صرف کئی صفحات پر مشتمل ناول اور دیگر کہانیاں لکھیں بلکہ مختصر نویسی میں بھی ان کو کمال حاصل تھا۔ پیشِ نظر کہانی نہ صرف ایک تعلیم یافتہ فرد اور ایک ان پڑھ کے درمیان اعتماد کے فرق اور شعور کی حالتوں کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ ایک عام رویے کی عکاس ہے۔ اس کہانی میں ایک خاص قسم کے غرور یا کسی کے اپنے پڑھے لکھے ہونے کے بے جا یا غیر ضروری فخر کو نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے. مصنف نے بتایا ہے کہ یہی فخر ایک موقع پر آگے بڑھنے میں‌ یا کسی کام کو انجام دینے میں‌ کیسے رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے اور اکثر اس کے سبب ناکامی مقدر بنتی ہے۔ یہ لفظی منظر کشی بامقصد، دل چسپ اور نہایت پُراثر ہے۔

  • جب شاعرِ مزدور نے جمعداروں کی نگرانی کرنے کا ارادہ کیا!

    جب شاعرِ مزدور نے جمعداروں کی نگرانی کرنے کا ارادہ کیا!

    احسان دانش اردو ادب کی ان چند شخصیات میں سے ہیں جن کا فن اور فکر آسودہ حالی، معاشی بے فکری کے ساتھ نظم کی شکل میں نہیں ڈھلا بلکہ اس کی آب یاری زندگی کی تلخیوں، مصائب، کڑے حالات اور معاشی تگ و دو نے کی۔

    احسان دانش نے زندگی کے کئی اتار چڑھاؤ اور روپ دیکھے۔ کبھی مزدوری کی، مالی بن کر کسی گلستاں کو سنوار تو پیٹ کی خاطر چپراسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ غرض کوئی بھی کام ملا کر لیا۔ لیکن اس محنت اور کڑی مشقت کے ساتھ ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا۔

    احسان دانش کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔

    اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی زندگی صبح سے رات تک محنت مشقت کرنے اور اگلے دن پھر معاش کی فکر میں گزر جاتی۔ احسان دانش نے محنت سے کبھی منہ نہ موڑا اور حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔

    معروف ادیب اور باکمال خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
    احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔

    احسان دانش عوامی شاعر اور باکمال انشا پردار کی حیثیت سے آج بھی اردو ادب کی تاریخ میں زندہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اس مقبول ترین شاعر کا کلام انقلاب آفریں نغمات، عوامی جذبات کی ترجمانی اور رومان پرور خیالات سے آراستہ ہے۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

  • حکومت سندھ کا ادب و ثقافت دشمن فیصلہ، کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کا نوٹس جاری کر دیا

    حکومت سندھ کا ادب و ثقافت دشمن فیصلہ، کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کا نوٹس جاری کر دیا

    کراچی: سندھ حکومت کے محکمۂ ثقافت نے حیدر آباد کا کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کیفے انتظامیہ کو قانونی نوٹس جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ ثقافت نے حیدر آباد کا کیفے خانہ بدوش خالی کرانے کے لیے کیفے کی انتظامیہ کو قانونی نوٹس جاری کر دیا، ڈائریکٹر جنرل ثقافت نے وکیل کے ذریعے نوٹس دیا۔

    محکمہ ثقافت کا کہنا ہے کہ کیفے خانہ بدوش 4 سال پہلے سول سوسائٹی کو کرائے پر دیا گیا تھا، 4 سال کے دوران کیفے کا کرایہ ادا نہیں کیا گیا، ساڑھے 44 لاکھ روپے کی رقم کیفے کی جانب واجب الادا ہے۔

    اس سے قبل بھی کیفے خانہ بدوش کی اونر امر سندھو کو لاکھوں روپے کے واجبات کی عدم ادائیگی پر نوٹس بھجوایا جا چکا ہے جس میں کرائے اور بجلی سمیت دیگر واجبات شامل تھیں، جو ادا کر دیے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ محکمہ ثقافت کی جانب سے فروری 2015 میں ایک معاہدے کے تحت سندھ میوزیم میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کے لیے سندھ کی نام ور دانش ور اور ادیب امر سندھو کو 20 ہزار کرائے پر جگہ دی گئی تھی جس کا نام کیفے خانہ بدوش رکھا گیا تھا، جو آج حیدر آباد کا اہم ثقافتی و ادبی مرکز بن چکا ہے۔

    سندھ کے ادیبوں، شاعروں اور کالم نگاروں نے کیفے خانہ بدوش کو خالی کرانے کے نوٹس پر احتجاج کیا ہے، اور سندھ کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبے میں ادب و ثقافت کی سرگرمیوں کو حوصلہ شکنی کی بجائے اس کی سرپرستی کرے۔

    رانی باغ، قاسم آباد میں کیفے خانہ بدوش کا قیام مصنفہ امر سندھو اور عرفانہ ملاح کی کوششوں کا نتیجہ ہے، چند ماہ قبل یہاں سندھی کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی یاد میں پانچ روز کا ایک شان دار میلہ بھی منعقد ہوا۔

    ادب و ثقافت سے وابستہ افراد کا مؤقف ہے کہ معاملہ کرایہ نہ دینے یا جگہ خالی کروانے سے زیادہ ان ترقی پسند اور روشن خیال ادیبوں اور فن کاروں کی آمد کا ہے جو حیدر آباد میں علم و فکر اور جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں۔

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔

  • کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی: صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا، انھوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام گیارہویں اردو کانفرنس 22 نومبر سے شروع ہو رہی ہے جو کہ 25 نومبر تک جاری رہے گی۔

    [bs-quote quote=”اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”احمد شاہ”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے فلسفی، محقق، ادیب اور شاعر شامل ہوں گے۔ کانفرنس میں شامل ہونے والوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہو گا جن میں ہندوستان، امریکا، چین، جرمنی اور برطانیہ سرِ فہرست ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، ڈراما، فلم، تعلیم، زبانوں، رقص، مصوری، اور صحافت کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

    احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا، ان سرگرمیوں کی مدد سے ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر رہے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  جب آنگن میں‌ ستارے اتریں گے، گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 22 نومبر کو ہوگا


    احمد شاہ نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اردو کانفرنس کو ترویج دینے میں بہت معاونت کی، میڈیا ہی کی وجہ سے اس وقت عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کی ایک بین الاقوامی برانڈ بن چکی ہے۔

    پریس کانفرنس میں سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی، معروف ادیبہ حسینہ معین اور تھیٹر کی نامور شخصیت طلعت حسین بھی موجود تھے۔

    اردو کانفرنس میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا دوسرا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوراڈ فلم اور ٹی وی کے شعبے میں ضیا محی الدین کو دیا جائے گا جب کہ کانفرنس کے پہلے روز نام ور شاعر جون ایلیا کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا جائے گا۔