Tag: ادبی اقتباس

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ’’آشفتہ بیانی میری‘‘

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ’’آشفتہ بیانی میری‘‘

    ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ رشید احمد صدیقی کی مشہور خودنوشت ہے جس میں رشید احمد صدیقی نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار کے ساتھ بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (ایم ۔اے۔او۔کالج) کی بہت مؤثر اور دل آویز تصویر پیش کی ہے۔ اس میں سر سید کے زمانے سے لے کر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور تک بہت سی چھوٹی بڑی شخصیتوں کی یاد کو زندہ کیا گیا ہے جن کو علی گڑھ نے اور جنھوں نے علی گڑھ کو کچھ نہ کچھ دیا ہے۔

    یہ پارے علی گڑھ سے متعلق ہماری معلومات میں نہ صرف اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس دور کی سیاسی، علمی فضا اور شخصیات کے کردار و کارناموں کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ قاریئن کی دل چسپی کے لیے اس کتاب سے چند اقبتاسات پیش کیے جارہے ہیں۔

    ۱۸۵۷ء کے سانحہ کے بعد ہندوستان میں ایم ۔اے ۔او کالج علی گڑھ نے جو کردار ادا کیا اس کا بیان اپنی خودنوشت میں رشید احمد کچھ اس طرح کرتے ہیں:

    ’’غالباً مدرسۃ العلوم علی گڑھ (ایم ۔ اے۔او۔ کالج) ہی ایسا ادارہ تھا جس پر قوم کا پورے طور پر ہمیشہ بھروسا رہا جس نے بحیثیت مجموعی قوم کی سب سے مفید اور دیرپا خدمات انجام دیں اور جس کی خدمات کو متفقہ طور پر تقریباً ہر حلقے میں سراہا گیا۔ جس نے مسلمانوں کو ہر سمت سے تقویت پہنچائی، ان کے حوصلے اور عزائم کو پروان چڑھایا اور دور نزدیک ان کی توقیر بڑھائی۔ اس کی تاریخ میں وقتاً فوقتاً طرح طرح کے نشیب و فراز بھی آئے جن پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کی خدمات کے بیش بہا ہونے میں کوئی کلا م نہیں۔‘‘

    سرسید احمد خان، مدرسۃ العلوم کا قیام، علی گڑھ کی تہذیبی روایت، سرسید کے رفقا کی کاوشوں کا تذکرہ رشید احمد صدیقی یوں کرتے ہیں:

    ’’سرسید مغلیہ سلطنت کی تباہی اور غدر کی ہولناکیوں سے برآمد ہوئے تھے۔ ان کی شخصیت ان صلاحیتوں پر مشتمل تھی جن کو ایک طرف مٹتے ہوئے عہد کا قیمتی ورثہ اور دوسری طرف اس کی جگہ لینے والے صحت مند تصرفات کی بشارت کہہ سکتے ہیں! وہ ایک ایسے رشتے یا واسطے کے مانند تھے جو ایک عظیم ماضی کو اس کے عظیم تر مستقبل سے منسلک و مربوط رکھتا ہے، جس کے بغیر نہ تو کسی قوم کے تہذیبی شعور میں ربط و تسلسل باقی رہتا ہے نہ خود نسلِ انسانی اس منزلت پر فائز ہوسکتی ہے جس کی بشارت دی گئی ہے۔ مدرسۃ العلوم کا قیام انھیں صلاحیتوں کا تقاضہ تھا جن کو سرسید اور ان کے رفقائے کرام نے اپنی تحریر، تقریر، شاعری، شخصیت، اور عمل محکم اور مسلسل سے متشکل ، مستحکم اور مزیّن کردیا۔‘‘

    انھوں نے سرسید کی اہمیت و مرتبت سے متعلق لکھا:

    ’’وہ بڑے مخلص، ہمدرد، ذہین ، دلیر، عالی حوصلہ ، دور اندیش، اَن تھک اور ناقابل تسخیر تھے۔ ان میں جہاں داری اور جہاں بینی کی جھلک ملتی ہے جو کبھی ہمارے اسلاف کی صفات تھیں!‘‘۔

    اس کتاب کے مطالعہ سے بہ یک وقت جہاں مکمل علی گڑھ اور اس کی روایات کی تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، وہیں علی گڑھ کے طلباء، ان کے لباس کی وضع قطع، ڈسپلن، تہذیبی پاس و لحاظ، اور آداب و احترام وغیرہ پر بھی نظر جاتی ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

    ’’مقررہ یونی فارم میں، مقررہ اوقات میں، مقررہ آداب کے ساتھ ڈائننگ ہال جا کر ہر طرح کے ساتھیوں کے ہمراہ سالہا سال کھانا، پینا، ہر موضوع پر آزادی کے ساتھ گفتگو کرنا، طبیعت کتنی ہی بدحظ یا افسردہ کیوں نہ ہو کھانے کے میز پر اچھے لوگوں کے طور طریقے ملحوظ رکھنا، مانیٹروں (Monitars)، منشیوں، نوکروں سے طرح طرح کے مواقع پر عہد برآ ہونا، ایسی باتیں تھیں جو سیرت میں توازن اور شخصیت میں دل آویزی پیدا کرتی تھیں۔‘‘

    ’’علی گڑھ یونیورسٹی کی حیثیت محض ایک درسگاہ کی نہیں ہے ۔ اس کی نوعیت ایک وسیع خاندان کی بھی ہے۔ ایسا خاندان جو ہر طبقے اور مزاج کے ’’خورد و کلاں‘‘ پر مشتمل ہو۔‘‘

    رشید احمد صدیقی اپنے دور میں علی گڑھ کی اہمیت، تہذیب و روایت کی قدر و قیمت اور ہر طرف اس کا بول بالا ہونے سے متعلق لکھتے ہیں:

    ’’اس زمانے میں کالج کی شوکت و شہرت پورے عروج پر تھی۔ کھیل میں، لکھنے پڑھنے میں، یونین کی سرگرمیوں میں، یورپین وضع قطع، رئیسانہ طور طریقوں اور شریفانہ رکھ رکھاؤ میں، چھوٹے بڑوں کے آپس کے سلوک میں غرض اس وقت کے معیار سے زندگی کا ہر پہلو بابرکت اور بارونق نظر آتا تھا اور ایک طرح کی آسودگی، احترام اور آرزومندی کی فضا چپّے چپّے پر چھائی ہوئی تھی۔‘‘

  • مولوی، مولانا اور مسٹر

    مولوی، مولانا اور مسٹر

    پکالیں پیس کر دو روٹیاں تھوڑی سی جو لانا
    ہماری کیا ہے اے بھائی نہ مسٹر ہیں نہ مولانا

    مجھ مسکین بے نوا کے حسب حال تو مولانا اکبر حسین کا وہ شعر ہے جو اس تحریر کا زیب عنوان ہے اور یہ بر سبیل انکسار نفس نہیں، بلکہ از راہ حقیقت۔ لیکن وائے بر حال ان حضرات کے جن کے ناموں کے پہلے دکن ریویو میں مولوی کا لفظ لکھا دیکھ کر ہمارے دیرینہ کرم فرما مولانا وبالفضل اولیٰنا مولوی ثناء اللہ صاحب ایڈیٹر اہل حدیث کو اس قدر طیش آیا کہ آپ نے ایک طویل مضمون ان کی شان میں لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی۔

    مولانا نے اپنی شان ثقاہت کو بالائے طاق کر بہ تقلید روش عوام کالانعام اپنے مضمون میں جا بجا اشعار بھی درج کئے ہیں جن کا مقصود ان کے زعم میں اظہار شوخی یا تفنن طبع ہو تو لیکن ہماری دانست میں اس مضمون کے حصہ نثر کا سب سے بڑا وصف اس کی تلخی اور حصہ نظم کی سب سے بڑی صنعت اس کی بے نمکی ہے۔

    معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی شان جلالی کو سب سے زبردست تحریک اس خیال نے پہونچائی کہ مولوی کا لقب و عرف عام میں ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو زبان عربی میں دینی معلومات پر عبور رکھتے ہوں کیوں ایسے لوگوں کے نام کے ساتھ استعمال کیا گیا جن پر مولوی کی یہ پرانی دقیانوسی تعریف صادق نہیں آتی۔ چنانچہ اسی حالت عتاب و بر افروختگی میں آپ دکن ریویو کے مولویوں کی نسبت فرماتے ہیں:
    گر مولویت ہمیں است کہ ایشاں وارند
    وائے گر پس امروز بو و فردا

    بہتر ہوتا کہ مولانا شاعر کے مشہور شعر
    اگر اسلام ہمیں است کہ واعظ دارد
    وائے گر از پس امروز بود فردائے

    میں اپنے مجتہدانہ تصرف سے فن عروض کو یوں زیر بار احسان نہ فرماتے۔ اور سکتہ متواتر و زحاف مسلسل کے جدید صنائع کی ایجاد سے مشرقی شاعری کو جو نکتہ چینوں کی نظروں میں پہلے ہی تصنع کے بوجھ کے تلے بہت کچھ دبی ہوئی ہے اور زیادہ گرانبار نہ کرتے۔

    چونکہ ہمارا عمل ظن المومنین خیرا کے اصول پر ہے اس لئے ہم یہ تو نہ کہیں گے کہ مولانا کے مضمون زیر بحث کا تعریضی حصہ اس معتدل نکتہ چینی کا جواب ہے جو اسلام نمبر سلک اوّل میں رحمۃ للعالمین کی شرح کرتے وقت ہم نے مولانا کی مراتب فضیلت و مدارج مولویت کا ادب قائم رکھ کر کی تھی خواہ ہمارے پاس اصول مذکور کی عمومیت میں شان استثنا پیدا کرنے کے لئے یہ دلیل موجود ہی ہو کہ اس سے پہلے دکن ریویو میں لفظ مولوی کا استعمال علی الرغم استدلال مولانا ہوا ہے۔ لیکن مولانا کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوا البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ مولانا نے اس لفظ کو ایک خاص گروہ اور ایک خاص طبقہ سے مخصوص کرنے میں اس بخل سے کام لیا ہے جس کی ہمیں ان کی سی روشن خیال اور زمانہ شناس عالم سے توقع نہ تھی۔ زمانہ سدا ایک نہیں رہتا۔ جو حالت قدیم سے چلی آرہی تھی ممکن نہیں کہ وہ بدستور قائم رہے اور زمانے کے گوناگوں انقلابات کے سانچہ میں ڈھل کر نئی شکل نہ پیدا کرے۔

    جہاں نے ساز بدلا ساز نے نغموں کی گت بدلی
    گتوں نے رنگ بدلا رنگ نے یاروں کی مت بدلی
    فلک نے دور بدلا دور نے انسان کو بدلا
    گئے ہم تم بدل قانون بدلا سلطنت بدلی
    (اکبر الہ آبادی)

    اب وہ وقت آگیا ہے کہ پرانے رسمی عقیدے چھوڑے جائیں اور نئے عقائد زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں کے لحاظ سے قائم کئے جائیں۔ اور انہیں ضرورتوں اور مصلحتوں کا ایک اقتضا یہ بھی ہے کہ لفظ مولوی جس کا اطلاق پہلے صرف عربی جاننے والوں پر ہوتا تھا تعلیم یافتہ گروہ کے ان مسلمان افراد پر ہو جن کی تعداد بفضل خدا روز بہ ترقی کر رہی ہے اور جو اپنے ناموں کے ساتھ لفظ مسٹر کا یورپین اور بدیہی دم چھلا لگانے کے مقابلہ میں اپنی ہی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

    لفظ مولوی کی صرفی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اصل میں مولائی تھا جس کے معنی تھے میرے آقا۔ لیکن بوتہ تعلیل میں پگھل کر مولوی ہوگیا اور عرف عام کی توجہ سے پیرایۂ معنی سے عاری ہو کر یہ خود تو صدرہ اور شمس بازغہ کی رٹنے والوں کا علم ہوگیا اور ریائے متکلم علم بردار بن گئی ۔اس سے واضح ہوگا کہ مولوی محض ایک اعزازی لقب تھا جس کا استعمال مخاطب یا غائب کے نام کے ساتھ بلحاظ اوس کے علو شان کے تکریماً کیاجاتا تھا، عام اس سے کہ وہ شان دینی ہو یا دنیوی۔ چنانچہ اب تک بھی سلطان مراکو مولائی کہلاتے ہیں۔ اور سلطان المعظم کو بھی مولانا کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ البتہ چونکہ اسلام نے ہمیشہ علم و فضل کا بہت بڑا مرتبہ مانا ہے اسی لئے لفظ مولوی خصوصیت کے ساتھ تعلیم یافتہ اشخاص کے لئے استعمال ہونے لگا۔ اور چونکہ تعلیم کی حصول کا ذریعہ مسلمانوں کے لئے زبان عربی ہی تھی اس لئے مولوی وہی کہلاتے تھے جو عربی میں دستگاہ رکھتے تھے۔

    لیکن اس زمانہ میں جب کہ حصول علم کے ذرایع عربی ہی تک محدود نہیں جب کہ اردو ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی اور ملکی زبان بن کر روز افزوں ترقی کر رہی ہے، جب کہ انگریزی فارسی، عربی اردو ایک مسلمان نوجوان کی تعلیم میں منفرداً یا مجتمعا کافی حصہ لے رہی ہیں۔ جب کہ لسانی عصبیت کا تقاضا ہورہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ملکی زبان میں انہیں زبانوں کے الفاظ کی آمیزش جائز رکھی جائے جن سے اس کا زیادہ قریب کا رشتہ ہے ۔ لفظ مولوی کو صرف ان چند لوگوں کے لئے مخصوص کر دینا جو ضرب یضرب ضرباً کی حد سے ایک انچ آگے نہ بڑھ سکے ہوں اس لفظ پر سخت ظلم کرنا ہے۔

    ہمارے اس بیان سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم خدا نخواستہ عربی کے مخالف ہیں۔ گو ہم خود شومی قسمت سے اس زبان میں اتنی مہارت نہیں رکھتے کہ مولانا ابوالوفا کے معیار کے لحاظ سے لقب مولوی کے مستحق قرار پا سکیں لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جس شخص کو انگریزی کے ساتھ عربی نہیں آتی وہ صحیح معنوں میں تعلیم یافہت نہیں کہاجاسکتا۔ انگلستان میں تعلیم یافتہ ہونے کے لئے فرانسیسی و لاطینی جاننا لازمی ہے ۔ دنیائے اسلام میں یہی لزوم عربی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، لیکن اس سے پھر بھی یہ نہیں لازم آتا کہ مولوی کا اعزازی و تکریمی لقب کسی مسلمان گریجویٹ یا انڈر گریجویٹ یا کسی اور لکھے پڑھے مسلمان کو نہ دیا جائے ۔ ہماری رائے میں وہ وقت آگیا ہے کہ مولویت اور عربیت میں تفریق کردی جائے ۔ دونوں لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ نئی تعلیم یافتہ جماعت میں کثرت سے ایسے لوگ گنائے جا سکتے ہیں جو مسٹر کہلانا پسند نہیں کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے لئے کون سا اعزازی لقب تجویز کیا جائے ۔ اردو میں صرف دو لفظ ایسے ہیں جو موزوں طور پراس ضرورت کو رفع کرتے ہیں۔ منشی اور مولوی۔ ان دونوں میں زیادہ جامع مولوی ہے۔ منشی سے انشا پرداز مراد ہے۔

    مولوی سے مراد ہے مخدومی اور اس لئے وہ انگریزی مسٹر کا صحیح مرادف و بدل ہوسکتا ہے۔ لفظ مسٹر کی تاریخ بھی انگریزی میں وہی ہے جو عربی میں مولوی کی ہے۔ یہ پہلے ماسٹر تھا جس کے معنی مالک یا آقا کے ہیں۔ بدلتے بدلتے مسٹر ہوگیا۔ انگلستان کی قومی یک رنگی و یکجہتی کو دیکھئے کہ مسٹر کے لقب کا مستحق ادنی سے اعلیٰ تک اپنے اپنے طبقہ میں ہر شخص ہے ۔ جان مارلے با ایں ہمہ جلالت قدر و تبحر علمی مسٹر کہلاتے ہیں اور ایک ادنی درجہ کا جاہل گورا جس کا باپ لندن کی گلیوں میں بوٹ صاف کرتے کرتے مر گیا وہ بھی مسٹر ہی کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔

    ہمارے ملک میں ابھی تک اتنی آزادی نہیں آئی اور اس کے علاوہ لفظ مولوی کا پرانا مفہوم لوگوں کے ذہن میں اس قدر راسخ ہوگیا ہے کہ ابھی توقع نہیں ہے کہ اس کا استعمال ہر کس و ناکس کے نام کے ساتھ کیا جائے ۔ لیکن جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں وہ وقت ضرور آگیا ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان عام اس سے کہ وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں آپس میں ایک دوسرے کو مولوی کے لقب سے مخاطب کیا کریں۔ ریاست حیدرآباد دکن میں یہ راز اچھی طرح سمجھ لیا گیا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس بارہ میں ہندوستان کے دوسرے حصے اس کی تقلید نہ کریں۔

    مولانا ابو الوفا اور ان کے ہم خیال علما اگر ہماری اس تحریر کو اپنے حقوق میں غاصبانہ دست اندازی سے تعبیر کریں تو ہم ان کی خدمت بابرکت میں نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ ان کے مقدس گرو کے لیے مولانا اور علماء کے مہتم بالشان القاب موجود ہیں جن کے استعمال میں ہم عامیوں اور جاہلوں کی مجال نہیں کہ ان کے شریک و سہیم ہوسکیں۔ مولوی میں ی صیغہ واحد متکلم کی ہے اور اگر ایک شخص دوسرے شخص کو مولوی کہے تو اخلاق محمدی کے لحاظ سے اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت ہی نہیں بلکہ ہر طرح اولیٰ و انسب ہے ۔ بر خلاف اس کے مولانا میں نا جمع متکلم ہے۔ اور اس کا استعمال اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مخاطب مخدوم انام ہے اور یہ ایک ایسا درجہ ہے جو حقیقت میں علمائے کرام ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ طبقہ علما کے لئے علامی و فہامی اور حکیم و مجتہد کے القاب کیا کچھ کم موجود ہیں جو انہیں مولوی کے لقب سے جدائی اختیار کرنا بھی شاق گذرے۔

    از: فقیر

    (ماخوذ از رسالہ: دکن ریویو سلسلۂ جدید (اسلام نمبر، سلک دوم 1907)

  • ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    شاہد احمد دہلوی کے قلم سے کتنے ہی واقعات اور تذکرے نکلے اور بطور حوالہ و یادگار آج بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی تحریریں متحدہ ہندوستان کی اُس دلّی کی یاد تازہ کرتی ہیں جو مسلم دور کی تہذیب و ثقافت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ دلّی کے شاہد صاحب بٹوارے کے بعد وہاں گئے تو اسے بہت مختلف پایا۔ مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر دوستیاں اور میل جول ہونے لگا تھا۔ روشن خیال اور بلند فکر لوگ دلّی سے چلے گئے تھے یا پھر تنگ دل اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہندوؤں کے ڈر سے خاموش تھے اور ایک مشترکہ کلچر کو تباہ و برباد ہوتا دیکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی کو اردو کا صاحب طرز ادیب، مترجم اور ماہرِ موسیقی کہا جاتا ہے جن کی یہ تحریر موجودہ دور کے بھارت کی عکاسی کرتی ہے جو آج اپنی سیکولر شناخت کھو چکا ہے اور مودی کی پھیلائی ہوئی نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ وہاں بالخصوص مسلمانوں کو ریاستی سرپرستی میں اپنی املاک اور عبادت گاہوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے اور جھوٹے الزامات کے بعد یا مکان اور مسجد وغیرہ کو غیر قانونی تعمیر کہہ کر مسمار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بے دخلی کا ایک عمل ہے۔ شاہد احمد دہلوی بتاتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد بھی کراچی میں ہندوؤں کی جائیداد، ان کا مال و دولت محفوظ رہا بلکہ مسلمان ان کی جائیدادوں‌ پر قبضہ نہیں کرسکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ ’چرخے والان‘ کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ ’پہاڑ گنج‘ اور ’سبزی منڈی‘ میں سب مسجدیں آباد ہیں۔ ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے… چھوڑیں تو جائیں کہاں…؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر ’کسٹوڈین‘ کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر ’شرنارتھیوں‘ کو آباد کر دیا کہ ’کسٹوڈین‘ کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔ دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو ’شرنارتھیوں‘ کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھر رہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔ نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود ’کسٹوڈین‘ کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔”

    "اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔ کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر ’شرنارتھی‘ بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دو گے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔“

    (تصنیف ’دلّی کی بپتا‘ سے ماخوذ)

  • سب کچھ کھونے کے بعد بھی میں راضی بہ رضا ہوں!

    سب کچھ کھونے کے بعد بھی میں راضی بہ رضا ہوں!

    جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران پاکستان میں آزادی کے بعد عید میلادالنبی کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔

    خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ ایک نظریۂ حیات کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد جذبے میں فراوانی اور ایمان میں تازگی تھی اس لیے اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کیے ہوئے وطن میں اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔

    افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔ میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک شوخ نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا ان سے مخاطب ہو کر بولا ”بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ آپ روتے کیوں ہیں؟“ سفید ریش بزرگ نے امنڈتے ہوئے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ”عزیز من، یہ رنج کے آنسو نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدہ لاشریک کی قسم۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ ’چاندنی چوک‘ دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی ستر پوشی کر رہے ہیں۔ اس کی دکان کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔ اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اللہ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار ومددگار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں اور خوشی کے آنسو بہا رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ یہ سب کچھ کھونے کے بعد میں اپنی آنکھوں سے یہ روح پَرور منظر دیکھ رہا ہوں۔ اپنے کانوں سے سروَر دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدللہ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی بہ رضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدللہ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔“

    سوال کرنے والا شوخ نوجوان یہ سن کر والہانہ انداز میں اس عمر رسیدہ صاحب ایمان بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے اور جس کسی نے یہ دل کو تڑپا دینے والی گفتگو سنی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ اللہ اللہ کیا عجب ایمان افروز اور دل دہلانے والا منظر تھا۔

    (نواب مشتاق احمد خان کی خود نوشت ”کاروان حیات“ کا ایک ورق)

  • شاد عارفی: وہ خط جس میں شاعر نے اپنی زندگی کا درد ناک پہلو بیان کیا ہے

    شاد عارفی: وہ خط جس میں شاعر نے اپنی زندگی کا درد ناک پہلو بیان کیا ہے

    یہ تذکرہ ہے شاد عارفی کا جو اردو کے اہم شاعروں میں سے ایک تھے۔ غزل اور ںظم دونوں ہی اصناف میں شاد نے طبع آزمائی کی اور اپنی پہچان بنائی۔

    ان کا اصل نام احمد علی خان اور شاد ان کا تخلص تھا۔ وہ زندگی بھر معاش کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ زندگی کی تلخیوں نے ان کی زبان پر بھی گویا تلخی گھول دی تھی۔ ہم عصروں پر نکتہ چینی اور ان کے بارے میں شاد کی رائے اکثر اچھی نہ ہوتی۔

    ‘مشاہیر، خطوط کے حوالے سے…’ وہ عنوان ہے جس کے تحت دکن کے معروف ادیب اور نقاد رؤف خیر کے چند تنقیدی مضامین اکٹھے کیے گئے ہیں جن میں سے ایک مضمون میں انھوں نے شاد عارفی کو ان کے مکاتیب کی اوٹ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ رؤف خیر نے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے: یہ ادب کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب خطوط لکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ ادب ہی کیا کسی بھی فن کے نابغۂ روزگار کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحریر کا حسن اور واقعیت خطوط ہی سے تو جھلکتی ہے جو لکھنے والے کا ذہن اور ذہنیت پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ آگے چل کر رؤف خیر نے شاد عارفی پر بات کی ہے جس سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ رؤف خیر لکھتے ہیں:

    شاد عارفی زندگی بھر مسائل سے دوچار رہے۔ ماں کا مکان بیچ کر ماں کی تجہیز و تکفین کی۔ بیوی چند ہی ماہ ساتھ دے کر اسقاطِ حمل کے ساتھ خود بھی زندگی سے منہ موڑ گئیں۔ اولاد کا سکھ شاد نے نہیں دیکھا۔ رام پور میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے گزارہ کرتے تھے۔ کچھ ٹیوشن کر لیا کرتے تھے۔ مختلف فیکٹریوں میں معمولی سے کام پر لگے ہوئے تھے۔ رام پور کی مشہور صولت پبلک لائبر یری میں لائبریرین کی طرح کچھ دن گزارے۔ کبھی کہیں بجٹ اکاؤنٹنٹ بنے رہے۔ نواب رام پور کی شخصی حکومت کے شاد خلاف تھے۔ گویا وہ رام پور کے مخدوم محی الدین تھے۔ شاد لکھتے ہیں:

    ’’آخر میں جب ریاست (رام پور) مرج ہونے لگی تو اس سے پہلے رام پور کی پبلک نے کانگریس سے مل کر آئینی حکومت کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس میں برابر کا شریک رہا۔ بیسیوں نظمیں حکومت پر جائزہ کے تحت لکھ کر اپنا فرض ادا کیا کہ یہ شخصی حکومت اور اس کا ظلم و ستم ختم ہو۔ کانگریس بر سر اقتدار آ کر ان تاجداروں اور ظل الٰہیوں کو ان کی تنخواہوں مقرر کر کے نظم و نسق خود سنبھال لے۔ جمہوریت کا دور دورہ ہو۔ عوام کو پنپنے کا موقع ملے۔‘‘

    اور مزے کی بات یہ کہ عوامی جمہوریت کے خواہش مند شاعر کو ترقی پسندوں نے کبھی گلے نہیں لگایا اور برسر اقتدار آ کر خود کانگریس نے شاد کو ’’خطرناک‘‘ سمجھ کر دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا۔

    شاد عارفی اپنی درد ناک زندگی کے بارے میں خود ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت میری عمر ۶۲باسٹھ سال ہے۔ ۱۹۰۰ء میری پیدائش ہے، اس لیے سن کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں۔ بھارت کی حکومت کے دس مہینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ جب سے بے نوکری، بے سہارا ہوں۔ مگر اس مدت میں میرا پرونڈنٹ فنڈ حکومت نے اب تک نہیں دیا بلکہ حال ہی میں اکاؤنٹنٹ جنرل الہ آباد نے بہت غل غپاڑے کے بعد بڑا معقول جواب دیا ہے کہ چونکہ تمہارے حسابات کے رجسٹر کھو گئے ہیں اس لیے تمہارا فنڈ بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے، اس لیے صبر کرو اور بھارت کی حکومت کو اس کی درازی عمر کی دعائیں دو۔ والدہ صاحبہ کی پنشن بھی بھارت سرکار نے بلا سبب بند کر دی۔ یہ پنشن ریاست لوہارو سے تھی۔ متواتر درخواستیں دیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور وہ انتظار کرتے کرتے راہی بقا ہو گئیں۔

    میں نے گھر بیچ کر مرحومہ کی تجہیز و تکفین کی، جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں اور شہر کے اندر کرائے کے مکانوں میں خانہ بدوش زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘ (بحوالہ: ایک تھا شاعر)

    اور ان کرائے کے مکانوں کا حال بھی شاد عارفی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔

    باہر برکھا بیت چکی ہے اندر ٹپکا لگا ہوا ہے
    آدھے بستر پر لیٹا ہوں آدھا بستر بھیگ چکا ہے

    یہ ساری مصیبتیں یہ سارے مسائل اس لیے تھے کہ شاد عارفی اپنے کھرے پن کی وجہ سے کسی قسم کی مصلحت یا مصالحت پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔

  • ایک مشاعرہ جس میں‌ فیض صاحب کی ابدی مسکراہٹ فتح‌ یاب ہوئی

    ایک مشاعرہ جس میں‌ فیض صاحب کی ابدی مسکراہٹ فتح‌ یاب ہوئی

    ایک زمانہ تھا جب مشاعرے ادب کی ترویج کے ساتھ تہذیب اور عوامی مذاق کا پتا دیتے تھے۔

    مشاعروں‌ میں اس وقت بھی ہلڑ بازی یا ہوٹنگ کی جاتی تھی، لیکن دہائیوں پہلے قابل اور باذوق سامعین مشاعرہ گاہ میں‌ کسی شاعر یا شعر پر بوجوہ ناپسندیدگی کا اظہار بھی بہت ہی شائستگی اور تمیز سے کیا کرتے تھے، البتہ کئی مشاعرے ایسے بھی ہیں‌ کہ ہوٹنگ کے بعد شاعر کو اسٹیج چھوڑ کر جانا پڑا۔ یہاں ہم ایک ادبی تذکرے سے یہ پارہ نقل کر رہے ہیں جس میں فیض‌ صاحب بھی منچلوں‌ کی وجہ سے مشکل میں پڑ گئے تھے۔

    1960ء کے عشرے کے اوائل میں حیدرآباد میں دو یادگار مشاعرے ہوئے۔ یہاں فیض احمد فیض نے اپنے مشہور قطعہ سنایا:

    ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
    جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
    دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خون حسرت مے
    لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں

    اس مشاعرے کی صدارت وزیر خزانہ شعیب صاحب کررہے تھے۔ وہ منچ پر آئے اور فیض صاحب کو گلے لگایا اور کہا ”فیض صاحب ہم ایسے محتسب نہیں ہیں“ اور مشاعرہ گلزار ہوگیا۔

    پھر فیض صاحب نے ایک غزل شروع کی، انہیں پتا نہیں تھا کہ ’ہوٹرز ایسوسی ایشن‘ کے چھ عدد اراکین بھی موجود ہیں۔ غزل کا دوسرا یا شاید تیسرا شعر تھا جس کا ابھی پہلا مصرع ہی پڑھا تھا ”پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید“ کہ ’ہوٹرز‘ کرسیوں پر کھڑے ہوئے اور کورَس میں ”ٹھنڈا ٹھار چھے چھے پیسے، ٹھنڈا ٹھار چھے چھے پیسے!“ کی آواز لگانا شروع ہو گئے اور سارے حاضرین ہنسی اور تالیوں کے دیوانے ہوگئے۔ دوسرے مصرعے کی نوبت ہی نہیں آنے دی، خیر، فیض صاحب کے چہرے پر جو ایک ابدی مسکراہٹ رہتی تھی وہ فتح یاب ہوئی اور فیض صاحب نے غزل پوری کی، مگر وہ فتح عارضی تھی کہ ایک شعر میں لفظ ”چاندنی“ آیا اور ’ہوٹرز‘ پھر شروع ہو گئے، ”چاندنی باجی حرام ہے چاندنی باجی حرام ہے“ اور فیض صاحب مسکراتے رہے اور حاضرین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔

    یہ شعر کچھ یوں تھا ؎
    فقیہِ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں
    کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں

  • جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    کوثر نیازی پاکستان کے نامی گرامی سیاست داں تھے جن کا دور بطور مشیر اور وزیر کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز اور متنازع بھی رہا، لیکن وہ صرف سیاست کے میدان میں متحرک نہیں رہے بلکہ ایک عالمِ دین، ادیب و شاعر اور عوام میں ایک زبردست مقرر کے طور بھی پہچانے گئے۔ پاکستان کے مقبول ترین شاعر احمد فراز اس دور میں آمریت کے خلاف اپنی مزاحمتی شاعری کی وجہ سے حکومتوں کے معتوب تھے۔ ان کی مولانا کوثر نیازی سے نہیں‌ بنتی تھی۔

    اس زمانے میں سرکاری اداروں اور حکومتی مالی امداد سے مختلف ادبی تنظمیوں کے پلیٹ فارم مشاعروں کا انعقاد کرتے تھے یہ ایک ایسے ہی مشاعرے کا دل چسپ احوال ہے جس میں کوثر نیازی اور احمد فراز نے اپنا کلام سنایا تھا۔ یہ معروف انشا پرداز اور ادیب منشا یاد کی کتاب ’’حسبِ منشا‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    گردیزی صاحب چیئرمین سی ڈی اے اور میں ان کا پی آر اوتھا۔ سی ڈی اے ہر سال یوم آزادی کے سلسلے میں ایک کل پاکستان مشاعرہ منعقد کرتا تھا جس میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور حبیب جالب کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا اور فراز تو ویسے بھی ان دنوں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لندن میں مقیم تھے۔ تاہم مجھے ان شعرا کی کمی بہت محسوس ہوتی لیکن یہ ایک سرکاری ادارہ تھا، اس لیے ہم حکومتی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تھے۔

    اس مشاعرے میں ان تینوں کے سوا دوسرے شہروں سے تقریباً سبھی اہم شعرا جیسے حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، احسان دانش، ظہور نظر، قتیل شفائی، منیر نیازی، وزیر آغا، پروین شاکر، خاطر غزنوی، دلاور فگار، شریف کنجاہی، شہزاد احمد، ظفر اقبال، عارف عبدالمتین، عاصی کرنالی، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، اسلم انصاری، نوشابہ نرگس، مظفر وارثی، ریاض مجید، ارشد ملتانی، محسن احسان، جوگی جہلمی، جانباز جتوئی، حمایت علی شاعر، چانگ شی شوئن (انتخاب عالم)، نصیر ترابی اور بعض دیگر شعرا شامل ہوتے رہے۔ لیکن فیض، فراز اور حبیب جالب کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن یہ دور اور جنرل ضیاء الحق کے گزر جانے کے بعد جب سی ڈی اے کا مشاعرہ منعقد ہوا اور احمد فراز شہر میں موجود تھے تو میں نے انہیں مشاعرے میں شرکت کے لیے فون کیا۔

    انہوں نے صدر اور مہمانِ خصوصی وغیرہ کے بارے میں استفسار کیا تو میں نے بتایا کہ سید ضمیر جعفری صدارت کریں گے اور مولانا کوثر نیازی مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ اس پر فراز صاحب نے مشاعرے میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔میں نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانے۔ میں نے اپنے افسران کو بتا دیا کہ فراز نہیں مان رہے۔ لیکن مولانا اسلام آباد سے سینیٹر تھے اور سی ڈی اے کے کچھ مالی مفادات ان سے وابستہ تھے اس لیے انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

    ادھر احمد فراز کے بغیر مشاعرے کا کچھ لطف نہ آتا۔ ان دنوں ناصر زیدی، احمد فراز کے بہت قریب تھے اور یوں بھی وہ مشاعروں کے انتظامات اور رابطوں کے ماہر تصور کئے جاتے تھے۔ میں نے ان سے سفارش کرائی مگر فراز پھر بھی نہ مانے۔ جب میں نے بہت مجبور کیا تو اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ مولانا کے ساتھ اسٹیج پر نہیں بیٹھیں گے۔ ان کو پڑھوانے کا الگ انتظام کیا جائے۔ میں نے ان کی یہ شرط مان لی اور وہ آگئے۔ یہ مشاعرہ مقامی ہوٹل کے سوئمنگ پول کے کنارے ہو رہا تھا۔ میں خود انتظامی امور میں مصروف تھا اس لیے میں نے پروین شاکر سے نظامت کے لیے کہا۔ مگر وہ دیر سے آئیں اور میں نے ایک ایک کر کے شعرا کو اسٹیج پر بلایا اور مشاعرہ شروع کرا دیا۔ احمد فراز حسبِ وعدہ سامعین میں بیٹھ گئے۔ میں نے اشاروں سے ان کی منت سماجت کی کہ وہ اسٹیج پر آجائیں مگر وہ نہ مانے۔

    تھوڑی دیر میں پروین شاکر آگئیں تو میں نے نظامت ان کے حوالے کی اور ان سے کہا کہ وہ فراز صاحب سے کہیں کہ اسٹیج پر آجائیں کیوں کہ لوگ انہیں اسٹیج پر نہ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے بلکہ چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ پروین نے بھی انہیں اشاروں سے اسٹیج پر آنے کے لیے اصرار کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس کی بات نہیں ٹالیں گے مگر احمد فراز اپنی ضد پر قائم رہے۔ پھر جب ان کی باری آئی تو روسٹرم اسٹیج سے نیچے لایا گیا اور انہوں نے ’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں…‘‘ والی غزل پہلی بار اس مشاعرے میں سنائی جو بعد میں بہت مشہور ہوئی۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا صاحب اس پر داد دیتے اور سر ہلاتے رہے لیکن جب مولانا صاحب کے پڑھنے کی باری آئی تو احمد فراز سگریٹ سلگا کر منہ سے دھواں نکالتے ہوئے مشاعرے سے اٹھ کر چلے گئے اور ان کے پڑھ لینے کے بعد اسی طرح منہ سے دھواں نکالتے کہیں سے نمودار ہو گئے۔

  • ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    یہ احمد شاہ بخاری کا تذکرہ ہے جنھیں اردو ادب میں پطرس بخاری کے نام سے پہچان اور مقبولیت ملی۔ وہ بطور مزاح نگار نام ور ہوئے اور ادیب، نقاد، معلّم، ماہرِ نشریات اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی خود کو منوایا۔ پطرس کی پیشہ ورانہ قابلیت، ان کی ذہانت اور دور اندیشی کے ساتھ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ایک تحریر ہم یہاں نقل کررہے ہیں جو اپنے وقت کی ایک مدبر و دانش ور شخصیت ہیمر شولڈ کے قلم سے نکلی۔ ڈیگ ہیمر شولڈ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بنے تو وہاں ان کی ملاقات احمد بخاری المعروف پطرس بخاری سے ہوئی۔ ہیمر شولڈ احمد شاہ سے بہت متاثر ہوئے جس کا اظہار اپنی تحریر میں کیا ہے۔

    احمد شاہ بخاری اقوامِ متحدہ میں ان دنوں پاکستان کے نمائندے کے طور پر موجود تھے اور اقوامِ متحدہ میں انھیں اہم ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں‌۔ تعریف و توصیف پر مبنی ہیمر شولڈ کی یہ تحریر ۲۵ جون ۱۹۵۹ء کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    احمد بخاری سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے کوئی زیادہ مدت نہیں گزری تھی۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رئیس تھے اور اپنی حاضر جوابی اور شگفتہ بیانی کی بدولت عظیم شہرت کے مالک تھے۔

    اس کے علاوہ وہ اپنے ملک کے بدرجہ غایت مؤثر اور با وقار ترجمان ہونے کے اعتبار سے بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہماری پہلی گفتگو نے ان جذبات و احساسات میں کسی قدر اضافہ ضرور کیا۔ لیکن یہ اضافہ ان کی اس خیالی تصویر سے چنداں مختلف نہ تھا جس کے لیے وہ باہر کی دنیا میں معروف تھے۔

    مجھے یاد ہے کہ کس طرح اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے عالمی مسائل سے زیادہ انگریزی زبان کے ماورائی شعراء کے بارے میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا تھا۔

    کم و بیش ایک سال کے بعد جب مجھے اس ادارے کے لیے عالم اسلام کے ایک اعلیٰ نمائندے کی جستجو ہوئی تو قدرتی طور پر میرا ذہن بخاری کی طرف متوجہ ہوا اور مجھے یہ معلوم کر کے مزید مسرت ہوئی کہ وہ ہمارے عملے میں شرکت کے لیے رضامند ہیں۔ یوں پہلے پہل ان کی خود سپردگی کسی قدر اچنبے کی بات تھی۔

    جنوری ۱۹۵۵ء میں وہ میرے ہمراہ پیکنگ گئے جہاں مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہوا بازوں کی ایک جماعت کو رہا کرانے کے لیے بات چیت کرنی تھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ بڑے ہوش مند اور زیرک مشیر تھے لیکن اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ جس بات پر انہیں زیادہ تسکین حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ انہیں مشرقی ایشیا کی تہذیب سے رابطہ پیدا کرنے کا اولین موقع ہاتھ آیا تھا۔ یہ تہذیب مغربی ایشیا کی ثقافت کے متوازی اوصاف رکھتی تھی کہ جس رنگ میں وہ خود رنگے ہوئے تھے۔

    اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے دوروں میں مجھے چند موقعوں پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ان ہی سفروں کے دوران، میں نے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر یہ محسوس کیا کہ ان کی شخصیت پر ان کے عہد شباب کے تجربوں اور خاص کر ان کی خاندانی روایات کی کتنی گہری چھاپ ہے۔ ان کے تمام رفقاء اور احباب جانتے ہیں کہ ان کی قدرتی گرم جوشی اور سادگی میں حیا داری کس قدر رچی بسی ہوئی تھی۔ ان مرکب اوصاف کے پیچھے ان کے عمیق شریفانہ اطوار کارفرما تھے۔ دراصل وہ ایک احساس فخر بھی رکھتے تھے۔ جس کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دو موقعوں پر کیا۔ ان میں سے ایک ان طنزیہ الفاظ سے بھی مترشح ہے کہ "میری پرورش و تربیت اونٹ کے کوہان پر ہوئی۔”

    میں نے اس جگہ روایات کے اس پس منظر پر خاص زور دیا ہے جس سے انہیں واقعی دل بستگی تھی۔ دوسرے اصحاب بلاشبہ ان کی علمی فضلیت اور مغربی اقدار پر ان کی بصیرت کا ذکر کریں گے۔ فی الواقع انہیں انگریزی زبان اور اپنے علاقے کی زبانوں پر زبردست قدرت حاصل تھی اور وہ غیر معمولی طور پر مغربی ادب کے بھی بلند پایہ نقاد تھے۔

    قدرتی طور پر میرے لیے لازم ہے کہ احمد بخاری کے اوصاف و کمال کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے اسے چند لفظوں میں سمیٹ کر یہ بیان کروں کہ ان کی یہ خصوصیات ایک سیاسی سفیر کی حیثیت میں کس طرح ظاہر ہوتیں اور اپنا اثر ڈالتی تھیں۔ یہ کام میں جیقس برزون (Jacques Barzun) کی تازہ تصنیف دی ہاؤس آف انٹی لیکٹ کا ایک اقتباس پیش کر کے بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں "حکمت عملی (سفارت) کا تقاضہ ہے کہ دوسرے کے افکار و اذہان سے آگاہی حاصل ہو، یہ انشاء پرداز کا بھی ایک امتیازی وصف ہے مگر اس سے دوسرے درجے پر کہ وہ دوسروں کے دلائل کا جواب کس ہوش مندی اور واضح استدلال کے ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ‘حاضر دماغ’ سفیر اور ایک ‘پریشان خیال’ سفیر اصلاح میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔”

    احمد بخاری حقیقت میں ان اوصاف پر پورے اترنے والے سفیر تھے جو مندرجہ بالا اقتباس میں بیان کئے گئے ہیں۔

  • اے حمید کے رقص اور خواب کا قصّہ

    اے حمید کے رقص اور خواب کا قصّہ

    اے حمید صاحب اسلام آباد آئے تو میں شام کو انہیں اپنے ایک دوست کے گھر پارٹی میں لے گیا۔ میری ان سے کئی سالوں کے بعد ملاقات ہو رہی تھی اس لیے کہ جب سے میری ٹرانسفر پنڈی/ اسلام آباد کر دی گئی تھی میرا لاہور آنا جانا بہت کم ہو گیا تھا۔

    اس شام حمید صاحب اپنے کارڈرائے کے ہلکے براؤن سوٹ میں تھے، اور ان سے ایوننگ ان پیرس کی خوشبو آرہی تھی۔ پارٹی میرے ایک دوست کے گھر میں تھی۔ دروازے کے باہر سیڑھیوں پر دیے جل رہے تھے، اندر مدھم روشنیوں میں خوش لباس مہمان خوش گپیاں کر رہے تھے۔ بیک گراؤنڈ میں ہلکی سی جاز کی موسیقی چل رہی تھی۔ ایک طرف بار تھی جہاں ہر قسم کے ولایتی مشروبات رکھے تھے، میں نے حمید صاحب کو اپنے دوستوں سے ملایا اور انہیں ان کی پسند کا مشروب پیش کیا، کچھ دیر بعد رقص کی موسیقی شروع ہو گئی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس رومانٹک ماحول میں رقص کرنے لگے، ان میں کئی غیرملکی جوڑے بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی ایک جرمن خاتون دوست کو حمید صاحب سے ملوایا اور سے کہا تم حمید صاحب کے ساتھ رقص کرو۔ حمید صاحب بہت دیر تک شرماتے اور جھجکتے رہے لیکن پھر میرے اور خاتون کے اصرار پر اس کے ساتھ ڈانس فلور پر چلے گئے۔ میں انہیں رقص کرتے ہوئے دیکھتا رہا، وہ آنکھیں بند کیے موسیقی کی دھن پر ہلکے ہلکے جھوم رہے تھے جیسے کوئی بچہ نیند میں خواب دیکھ رہا ہو۔ جب وہ واپس آئے تو میں نے کہا ’حمید صاحب یہ کیا؟ صرف ایک ڈانس؟ آپ تو آج ساری رات رقص کریں اور جی بھر کر پیئیں اور پلائیں۔ سرگوشی میں کہنے لگے، ‘بس سرمد یار میرے لیے اینی خوبصورتی کافی اے ’ (بس سرمد یار میرے لیے اتنی خوبصورتی کافی ہے)۔

    مجھے یک دم ان سے اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی۔ میں جب دسویں جماعت میں پڑھتا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے بڑے بھائی جاوید کے گھر واہ کینٹ چلا جاتا تھا۔ واہ کینٹ ایک بہت خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا، آبادی کم تھی، آسمان بغیر کسی آلودگی کے نیلا دکھائی دیتا تھا اور رات کو ستارے پوری آب و تاب سے چمکتے تھے۔ ماحول بڑا رومانٹک تھا۔ بھائی جان کے گھرمیں بہت سی کتابیں تھیں، منٹو، بیدی، کرشن چندر اور اے حمید کی لکھی ہوئیں، میں ان سے سب سے تقریباً نا آشنا تھا۔ اس لیے کہ ہمارے اپنے گھر میں ان میں سے کسی کی بھی کوئی کتاب نہیں تھی۔ منٹو صاحب نے اپنی کتاب ’اوپر نیچے اور درمیان‘ بھائی جان کو تحفے میں دی تھی۔ اس پر منٹو صاحب نے لکھا تھا، ’پیارے جاوید میں تو نہ اوپر ہوں نہ نیچے اور نہ درمیان تم جہاں کہیں بھی ہو خوش رہو‘۔ میں نے ان ادیبوں کو پڑھنا شروع کر دیا، لیکن میرے لیے یہ سب ذرا زیادہ ہی بالغ تھے، سوائے اے حمید کے۔ میں ان کی کوئی بھی کتاب پڑھتا تو مجھ پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہونا شروع ہوجاتی، ایسی منظر نگاری، ایسا رومانس اور پھر میرے لڑکپن کا زمانہ۔ حمید صاحب کی تحریروں نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا۔ اسی زمانے میں جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ مری گیا تو مجھے ساتھ والے بنگلے میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو گیا، یہ میرا اوّلین عشق تھا۔ میں نے اسے جو پہلا خط لکھا اس میں اے حمید کے رومانوی افسانوں کی بازگشت تھی۔

    جب میں لاہور واپس آیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میری حمید صاحب سے ملاقات ہو جائے گی۔ جالی صاحب ایک مصور تھے جو ادبی کتابوں اور رسائل کے ٹائٹل بناتے تھے، انہوں نے اے حمید کی کچھ کتابوں کے بھی ٹائٹل بنائے تھے۔ میری ان سے جانے کب اور کیسے دوستی ہو گئی تھی۔ میں جب بھی انار کلی سے گزرتا ان کے دفتر ضرور جاتا۔ ایک دن دیکھا کہ ان کے دفتر میں حمید صاحب بیٹھے ہیں۔ مجھے ان دنوں اپنے پسندیدہ شاعروں ادیبوں سے آٹو گراف لینے کا شوق تھا چنانچہ میں نے حمید صاحب سے بھی اس کی فرمایش کی۔ انہوں نے میری آٹو گراف پر لکھا۔ ’جھونپڑیوں میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھنا بہتر ہے اس سے کہ آدمی محلوں میں رہے اور اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہ ہو۔‘ حمید صاحب اسلام آباد کی پارٹی میں اس رات شاید مجھے یہی کہنا چاہتے تھے کہ اگر وہ ساری رات رقص کرتے رہے اور پیتے پلاتے رہے تو ان کے پاس خواب دیکھنے کو باقی کچھ نہیں بچے گا۔

    (شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار سرمد صہبائی کی یادوں سے چند پارے)

  • "میاں! اسٹیشن واپس چلو…”

    "میاں! اسٹیشن واپس چلو…”

    اردو کے ممتاز نقاد، بہترین مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی سادگی، اپنے شہر سے ان کی الفت اور تہذیب و ثقافت سے لگاؤ کا یہ قصّہ دل چسپ بھی ہے اور ایک بڑے آدمی کی شخصیت کا وہ پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے، جس سے عام طور پر قاری واقف نہیں ہوتے۔ محمد حسن عسکری اپنی غیر معمولی تنقیدی تحریروں کے لیے اردو ادب میں شہرت رکھتے ہیں۔

    حسن عسکری کے درویش صفت اور سیدھے سادے انسان ہونے کا احوال سنانے والے بھی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ اور وہ ہیں ڈاکٹر عبادت بریلوی جنھیں اردو کا صفِ اوّل کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقدمہ میں اس کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ جن دنوں عسکری صاحب کو روزگار کی شدید ضرورت تھی اور بریلوی صاحب نے کچھ کوشش کر کے انھیں اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں انگریزی زبان کے لیکچرر کے طور پر ایک اسامی کے لیے روانہ کیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ روانگی کے بعد تیسرے روز ہی حسن عسکری صاحب سے عربک کالج، دہلی میں ان کا آمنا سامنا ہوگیا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں:

    ”عسکری صاحب کہنے لگے: صاحب! آپ نے مجھے کہاں بھیج دیا تھا۔ میں اعظم گڑھ تک نہ پہنچ سکا۔ درمیان سے واپس آ گیا۔“ میں نے کہا وہ کیسے؟

    کہنے لگے: میں اعظم گڑھ کے اسٹیشن پر اترا۔ ویران سا اسٹیشن تھا۔ باہر نکل کر میں نے ایک تانگے والے سے کہا کہ میاں! شبلی کالج پہنچا دو۔ وہ تیار ہو گیا۔ میں اس کے تانگے میں سامان رکھ کر بیٹھ گیا۔ اجاڑ سی سڑک پر تانگہ چلنے لگا۔

    کچھ دور اور آگے گیا تو سڑک کچھ اور بھی ویران نظر آنے لگی۔ اس سڑک پر تو بجلی کے کھمبے تک نہیں تھے۔ میونسپلٹی لالٹین لگی تھیں، گاؤں کا سا ماحول معلوم ہوتا تھا۔ لوگ عجیب سے پوربی لہجے میں اردو بول رہے تھے۔ اس ماحول کو دیکھ کر میری طبیعت گھبرا گئی اور اختلاج سا ہونے لگا۔ چناں چہ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس ویران جگہ میں نہیں رہ سکوں گا۔ اس لیے میں نے تانگے والے سے کہا میاں! اسٹیشن واپس چلو، میں شبلی کالج نہیں جاؤں گا۔ میں اس شہر میں رہنے کے لیے تیار نہیں۔