Tag: ادبی اقتباسات

اردو کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں اور ان کی کتابوں سے ادبی اقتباسات جن میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، شان الحق حقی، نیاز فتح پوری و دیگر شامل ہیں

  • جب مہاراجہ کی ٹرین "بے قابو” ہو گئی

    جب مہاراجہ کی ٹرین "بے قابو” ہو گئی

    ہندوستان کے نوابوں، راجاؤں اور مہاراجاؤں کے بعض‌ ناگفتہ بہ واقعات اور ان کی عجیب و غریب عادات یا مشاغل کا تذکرہ بدیسی صحافیوں اور مؤرخین نے اپنی تصانیف میں کیا ہے، جن میں سے بعض افسوس ناک بھی ہیں اور دل چسپ بھی۔ لیری کولنس، دامنک لیپئر کی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ کا ایک باب اسی پر مشتمل ہے۔

    اس کتاب کا اردو ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے جس میں ’محل اور شیر، ہاتھی اور جواہرات‘ کے عنوان سے مہاراجہ گوالیار کا ایک عجیب و غریب مگر دل چسپ مشغلہ بیان کیا ہے۔ مہاراجہ کے اس مشغلے نے اپنے وقت کے کئی امراء اور منصب داروں کو مصیبت میں‌ گرفتار کیا اور ایک روز وائسرائے اور ان کے اہلِ خانہ بھی برے پھنسے۔ سعید سہروردی کا ترجمہ کردہ یہ اقتباس پڑھیے۔

    "اِسی طرح مہاراجہ گوالیار نے لوہے کی ایک بہت بڑی میز بنوائی۔ اُس پر چاندی کی پٹڑیاں بٹھائی گئیں جن کی لمبائی 250 فٹ سے زیادہ تھی۔ یہ میز کھانے کے کمرے میں رکھ دی گئی۔ دیوار میں سوراخ کر کے پٹڑیاں اِس طرح آگے بڑھائی گئیں کہ اُس میز کا ربط مہاراجہ کے باورچی خانے سے قائم ہو گیا۔ اُس کے بعد ایک کنٹرول پینل بنایا گیا، جس میں نہ جانے کتنے سوئچ، الارم، سگنل اور لیور لگے تھے۔ یہ پینل میز پر فٹ کر دیا گیا۔ مہاراجہ کے مہمان میز کے چاروں طرف بیٹھتے اور مہاراجہ خود کنٹرول پینل کو قابو کرتے تھے۔ وہ سوئچ دباتے، لیور اُٹھاتے گراتے، نہ جانے کیا کھٹر پٹر کرتے۔

    چاندی کی پٹڑیوں پر ٹرین دوڑتی، رکتی، سرکتی اور بھاگتی رہتی تھی۔ وہ ٹرین باورچی خانے میں جاتی تھی جہاں ملازم چپاتی، ترکاری اور دوسرے کھانے ٹرین کے کھلے ڈبوں میں رکھ دیتے تھے۔ مال سے لدی ہوئی ٹرین کھانے کے کمرے میں آتی تھی۔ مہاراجہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جس مہمان کے سامنے چاہتے ٹرین کو روک دیتے اور وہ اپنی پسند کی چیزیں نکال لیتا۔ اِسی طرح وہ جسے بھوکا رکھنا چاہتے تو کنٹرول کے مخصوص بٹن دبا دیتے تو مال سے لدی ہوئی ٹرین بچارے مہمان کے سامنے سے بغیر رکے سرسراتی ہوئی آگے نکل جاتی تھی۔

    ایک رات مہاراجہ نے وائسرائے اور اُس کے اہلِ خانہ کو کھانے پر مدعو کیا تو کنٹرول پینل میں شارٹ سرکٹ ہو گیا۔ مال سے لدی ہوئی گاڑی باورچی خانے سے تیر کی طرح آئی اور طوفانی رفتار سے میز کا چکر کاٹنے لگی اور رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کھلے ڈبوں سے سبزی، دال، گھی، تیل اچار اچھل اچھل کر مہمانوں کے کپڑوں پر گرنے لگا۔ مہمان توبہ بول گئے۔ ریلوں کی تاریخ میں اِس قسم کا حادثہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔”

  • ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ’میرا ہندوستان‘ اینگلو انڈین مہم جو، شکاری اور مصنّف جم کاربٹ کی کتاب ہے جو متحدہ ہندوستان کے پسے ہوئے اور مجبور طبقات کی زندگی کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔

    فن و ادب سے متعلق مزید تحریریں پڑھیں

    جم کاربٹ لکھتے ہیں، ’’میرا ہندوستان‘‘ میں، میں نے اُس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوے فیصد انتہائی سادہ، ایماندار، بہادر، وفا دار اور جفا کش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ’ہندوستان کی بھوکی عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے۔‘‘

    اس کا ترجمہ محمد منصور قیصرانی نے کیا ہے۔ جم کاربٹ نے اپنی اس کتاب میں ایک نوجوان جوڑے کی درد ناک کہانی بیان کی ہے، جس کے دادا بنیے کے جال اور سود کی دلدل میں پھنس گئے تھے اور اسے بھی اپنے والد کی موت کے بعد یہ رقم اتارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔

    بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔

    اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچّے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔ چوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا دیا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔

    یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نووارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھیلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

    بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔

    اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔ ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلّے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

    ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، واپس لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں واپس لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔

    پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

    ’’میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوتا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادے کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس اسٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔‘

    بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آباؤ اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

    بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط و کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔

    بنیے نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیے سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیے نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

    جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

    جتنی دیر ہماری خط و کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

    اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

    تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

  • جب علّامہ اقبال حدیث سن کر اشک بار ہوگئے

    جب علّامہ اقبال حدیث سن کر اشک بار ہوگئے

    برصغیر کی چند بلند قامت اور متأثر کن شخصیات میں علّامہ اقبال وہ نام ہیں جن کی عظمت ایک نقش بن کر دلوں پر قائم ہے۔ اپنے عہد کے مشاہیر نے اقبال کی مدح سرائی کی ہے اور ایک مفکر و مصلح اور شاعر کے طور پر ان کا تذکرہ اپنے اپنے انداز میں کیا ہے۔

    ادب و فنون، فلسفہ و تاریخ پر مزید تحریریں‌ پڑھیں
    آغا شورش اور عبدالمجید سالک اردو ادب اور صحافت کی دو ممتاز اور نہایت بلند پایہ شخصیات ہیں جنھیں شاعری، نثر، صحافت اور تقریر و خطابت میں کمال حاصل تھا۔ شورش نے سالک مرحوم پر ایک تحریر لکھی تو اس میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی رقت قلبی اور دل زدگی کا ایک واقعہ بھی شامل کرلیا۔ یہ واقعہ شورش نے سالک صاحب کی زبانی ہی سنا تھا اور اسی طرح بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    شورش لکھتے ہیں، سالک صاحب نے علّامہ اقبال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہر چیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے، حضورؐ کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشک بار رہتے۔ ایک دفعہ میں نے حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلّی نے بچے دے رکھے تھے، صحابہؓ نے بلی کو مار کر بھگانا چاہا، حضورؐ نے منع کیا۔ صحابہؓ نے عرض کی، مسجد خراب کرتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسے مارو نہیں، یہ ماں ہوگئی ہے۔ حدیث کا سننا تھا کہ علامہ بے اختیار ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ……”سالک صاحب کیا کہا؟ مارو نہیں ماں ہو گئی ہے، اللہ اللہ امومت کا یہ شرف؟”

    سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح روتے رہے، میں پریشان ہو گیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا، ورنہ جب تک وہ اشک بار رہے، میں ہلا رہا گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی سرزد ہوگئی ہو۔

  • فیض احمد فیض: یادوں کے دریچے سے

    فیض احمد فیض: یادوں کے دریچے سے

    ماہنامہ شبستاں کا فیض نمبر 1985ء میں شایع ہوا تھا۔ شبستاں، اپنے دور کا ایک نیم ادبی تفریحی اردو ڈائجسٹ تھا جو ہندوستان اور پاکستان میں اردو قارئین میں بے حد مقبول تھا۔ شبستاں کا ترقی پسند اور لینن انعام یافتہ شاعر فیض احمد فیض پر جو خاص نمبر شائع ہوا تھا اس میں ان کی مختصر خودنوشت بھی شامل تھی۔

    ادب اور ثقافت سے متعلق مزید تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہ خودنوشت کئی دل چسپ واقعات پر مشتمل ہے اور فیض صاحب نے بڑی سادگی سے اپنے بچپن اور نوجوانی کے واقعات کے ساتھ ادبی سفر کی روداد بھی قلم بند کی ہے۔ یہ چند پارے اسی خودنوشت سے لیے گئے ہیں۔ فیض صاحب لکھتے ہیں:

    ہمارے شعراء کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ ناقدریِ ابنائے وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے الٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایت کی اس قدر بارش رہی ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے ، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں کہ اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش کا مستحق ہونے کے لئے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔

    یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بچپن ہی سے اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے، اسکول میں پڑھتے تھے تو اسکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ خواہ مخواہ انہوں نے ہمیں اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالاں کہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں، یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے ، کھیل بھی لیتے تھے لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔

    بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات خاص طور سے یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے مونہہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی پتنگ اڑا رہا ہے، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے۔ کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود دیکھتے رہتے تھے، اکیلے بیٹھ کر "ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے” کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔

    اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی میں نہیں جانتا، ہمارے زمانے میں تو اسکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلّاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ یعنی فلاں کو چانٹا لگاؤ فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا۔ کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو؟ زور سے چانٹا مارو۔

    دو تأثر بہت گہرے ہیں، ایک تو یہ کہ بچوں کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت اور خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے ملا اور آج بھی مل رہا ہے۔

    صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے، ابا کے ساتھ مسجد گئے نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لئے گئے، پھر اسکول، رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لئے، اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔

  • غدر:‌ دہلی کالج کی بربادی اور مسٹر ٹیلر کا انجام

    غدر:‌ دہلی کالج کی بربادی اور مسٹر ٹیلر کا انجام

    ہندوستان میں انگریز راج کے واقعات اور 1857ء کے ہنگامے تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ غدر کے دوران دلّی کے مشہور تعلیمی ادارے کو بھی نقصان پہنچا تھا جس پر بابائے اردو مولوی عبدالحق نے مرحوم دہلی کالج کے نام سے کتاب لکھی تھی۔ یہ ایک مدرسہ تھا جسے 1828ء میں کالج بنا دیا گیا تھا۔

    ادبی مضامین اور مشاہیر کی تحریریں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اس کالج کے پرنسپل ٹیلر صاحب باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اساتذہ بھاگ نکلے تھے جن میں سے کچھ جان بچا سکے اور باقی قتل ہوئے۔ کالج کو بڑا نقصان پہنچا جس کے بارے میں مالک رام لکھتے ہیں:

    "اس شورش سے کالج کو بہت نقصان ہوا۔ مدرسوں میں جو لوگ دیسی سپاہی کے چنگل سے بچ نکلے، وہ تتر بتر ہو گئے۔ کتاب خانہ وقف تاراج ہوا۔ جاہلوں نے کتابوں کو چیر پھاڑ کے ورق ورق کر دیا۔ یہاں کا سامان توڑ پھوڑ کر اسے ہمیشہ کے لیے بیکار بنا دیا۔”

    غدر کے بعد سات برس تک بند رہنے والے اس کالج کو جگہ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ کھولا گیا مگر اب پہلے والی شکل نہیں رہ گئی تھی اور 1877ء میں اس کا انجام ہوگیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب کے اس پارے میں ہندوستانی سپاہیوں اور مشتعل لوگوں کے انگریز اساتذہ پر حملے اور کالج میں توڑ پھوڑ کا افسوس ناک واقعہ یوں سنایا ہے:۔

    گیارھویں مئی پیر کا دن تھا۔ کالج کا وقت صبح کا تھا۔ پڑھائی حسبِ معمول ہو رہی تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے چند لالہ ہانپتے کانپتے آئے، ان کی سراسیمگی اور وحشت کا عجیب عالم تھا۔ دوڑے دوڑے آتے اور جماعتوں میں بے تحا شا گھس گئے اور اپنے لڑکوں سے کہا، گھر چلو، بھاگو غدر مچ گیا، سپاہی اور سواروں نے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ سنتے ہی لڑکے اپنے اپنے بستے سنبھال چمپت ہونے لگے۔

    پرنسپل صاحب حیران و ششدر تھے کہ یہ کیا تماشا ہے۔ اتنے میں میگزین کا چپراسی آیا اور کمانڈنٹ کا خط لایا، اس میں مرقوم تھا کہ شورش بپا ہو گئی ہے اور حالت لمحہ بہ لمحہ خطرناک ہوتی جاتی ہے، مصلحت یہ ہے کہ آپ فوراً مع انگریزی اسٹاف کے یہاں آجائیں اور میگزین میں پناہ لیں۔ پرنسپل ٹیلر، رابرٹس ہیڈ ماسٹر، اسٹوارٹ سیکنڈ ماسٹر، اسٹینر تھرڈ ماسٹر بوکھلائے ہوئے بھاگے اور میگزین میں پناہ گزیں ہوئے۔

    مسٹر ٹیلر کالج ہی کی کوٹھی میں رہتے تھے۔ رابرٹس کا بنگلہ بھی کالج کے احاطے میں تھا، ان کے بیوی بچے بھی ساتھ رہتے تھے، اسٹوارٹ منصور علی خاں کی حویلی میں اور اسٹینر کشمیری دروازے کی طرف کسی مکان میں اقامت گزیں تھے۔ پروفیسر یسوع داس رام چندر چاندنی چوک میں ایک کوٹھے پر رہتے تھے۔

    اس کے بعد ہندستانی سپاہیوں نے میگزین کو گھیر لیا۔ وہ ہر انگریزی چیز کو تباہ کرتے چلے آتے تھے۔ میگزین میں پانچ چھے انگریز افسر اور دو تین سارجنٹ تھے۔ ان لوگوں نے اپنی ننھّی سی جماعت سے بڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں ہندستانی سیڑھیاں لگا کر میگزین کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ جب انگریزوں کو کمک کی کوئی توقع نہ رہی تو انھوں نے میگزین کو آگ لگا دی اور ہزاروں ہندستانیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ کوئی پانچ انگریز خود بھی لقمۂ اجل ہوئے۔

    مسٹر ٹیلر اور مسٹر اسٹینر جان بچا کر بھاگے اور میگزین سے صحیح سلامت باہر نکل آئے، لیکن ہوش و حواس باختہ۔ حیران تھے کہ کہاں جائیں، ہر سمت موت کھڑی نظر آتی تھی۔ رابرٹس غریب تو وہیں ڈھیر ہو گیا اور اسٹوارٹ بھی میگزین کے شعلوں کے نذر ہوئے۔ بہ ہزار دقّت ٹیلر صاحب کالج کے احاطے میں آئے اور اپنے بڈھے خانساماں کی کوٹھری میں گھس گئے۔ اس نے انھیں محمد باقر صاحب مولوی محمد حسین آزاد کے والد کے گھر پہنچا دیا۔ مولوی محمد باقر سے ان کی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ انھوں نے ایک رات تو ٹیلر صاحب کو اپنے امام باڑے کے تہ خانے میں رکھا لیکن دوسرے روز جب ان کے امام باڑے میں چھپنے کی خبر محلّے میں عام ہو گئی تو مولوی صاحب نے ٹیلر صاحب کو ہندستانی لباس پہنا کر چلتا کیا۔ مگر ان کا بڑا افسوس ناک حشر ہوا۔

    غریب بیرام خاں کی کھڑکی کے قریب جب اس سج دھج سے پہنچے تو لوگوں نے پہچان لیا اور اتنے لٹھ برسائے کہ بچارے نے وہیں دم دے دیا۔ بعد میں مولوی محمد باقر صاحب اس جرم کی پاداش میں سولی چڑھائے گئے، اور ان کا کوئی عذر نہ چلا۔ مولوی محمد حسین آزاد کا بھی وارنٹ کٹ گیا تھا۔ مسٹر ٹیلر کے مارے جانے میں ان کی بھی سازش خیال کی گئی تھی اور ان پر بھی قوی شبہ تھا، مگر یہ راتوں رات نکل بھاگے اور کئی سال تک سرزمین ایران میں بادیہ پیمائی کرتے رہے جب معافی ہوئی تو ہندستان واپس آئے۔

    مسٹر ٹیلر نہایت قابل، نہایت ہمدرد اور شریف النفس انسان تھے۔ ان کے مرنے کا سب کو رنج اور صدمہ تھا۔ ان کے حالات میں کالج کے اساتذہ کے عنوان کے تحت الگ لکھوں گا، اس سے معلوم ہوگا کہ یہ کیسا عجیب و غریب شخص تھا۔

    اسٹینر صاحب سب سے اچھے رہے، میگزین اُڑنے سے جو اس کی چہار دیواری میں درز پڑگئی تھی اس سے ٹیلر صاحب کے ساتھ باہر نکل آئے۔ ٹیلر صاحب کی اجل تو انھیں کالج کی طرف لے گئی اور اسٹینر کی حیات انھیں جمنا پار میرٹھ لے گئی۔ وہاں یہ زندہ بچ گئے اور غدر کی پُر آشوب دارو گیر سے محفوظ رہے۔

    رہے پروفیسر رام چندر، یہ پیدل چل کر پن چکی کی سٹرک پر ہوتے ہوئے قلعے کے سامنے آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ چند ترک سوار یا مغلوں کا دستہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے ہوئے لال ڈگی کی سڑک پر آرہا ہے۔ یہ اسے دیکھ کر اپنے گھر کی طرف مڑ گئے اور چاندنی چوک کے کوٹھے پر صحیح سلامت پہنچ گئے۔ وہاں سے انھیں ان کے بھائی رام شنکر داس اپنے ساتھ لے گئے اور کایستوں کے محلّے میں اپنے کسی عزیز کے ہاں جا چھپایا، مگر ان کے اقربا نے اس خیال سے کہ ان کی وجہ سے کہیں ہم پر آفت نہ آئے ان کا وہاں زیادہ قیام گوارا نہ کیا۔ ان کا ایک قدیم نوکر جاٹ تھا، اس نے بڑی وفاداری اور رفاقت کی۔ انھیں جاٹ بنا کر گنواروں کے سے کپڑے پہنا پگڑ بندھوا اپنے گانو لے گیا اور وہاں رکھا۔ وہاں سے یہ باولی کی سرا میں انگریزی لشکر سے جا ملے۔

    رابرٹس صاحب کی دو لڑکیاں اور پانچ عیسائی طلبا بھی ان بے رحموں کے ہاتھ سے مارے گئے۔

  • فساد کا محور بننے والی نظم، غازی علم دین اور بھگت سنگھ

    فساد کا محور بننے والی نظم، غازی علم دین اور بھگت سنگھ

    طبیعت کا رخ شروع ہی سے سیاسی ہو گیا تھا۔ میرا یوم پیدائش ۱۴ اگست ۱۹۱۷ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کا دور، اسی زمانہ میں جنگ کے آثار و نتائج سے معاشرہ کا پہلا سانچہ ٹوٹا اور دوسرا بنا۔

    جلیانوالہ باغ کا حادثہ ہوا، پنجاب میں مارشل لا لگا، تحریکِ خلافت کا دریا چڑھا اور ایک طوفان امڈ آیا۔ قومی تحریک نے راہ پائی۔ ملک بھر میں عدم تعاون کے ہنگامے برپا ہوئے، لیڈر شپ کا انداز بدلا، پرانے سیاسی چہرے جُھریا گئے، ان کی جگہ نئے سیاسی رہنما آگئے۔

    یہ زمانہ گاندھی، محمد علی جوہر، ابو الکلام آزاد اور سیکڑوں دوسرے رہنماؤں کا تھا۔ سارا ملک کروٹ لے چکا تھا، ہمارا گھر بھی اس سے متاثر ہوا۔ میں آواز آشنا ہوا تو یہ چیزیں میرے ذہنی آب و گل میں تھیں۔ گویا دماغ بعض خفی و جلی سیاسی اثرات سے تیار ہو رہا تھا۔ عرض یہ زمانہ ہی سیاسیات کا تھا۔ آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میرا شعور ناپختگی کے باوجود سیاسی ہو چکا تھا۔ تحریک خلافت کا تو مجھے ہوش نہیں لیکن ۱۹۲۷ اور ۱۹۲۸ء میں لاہور کے ہندو مسلم فسادات کی بعض یادیں میرے ذہن میں اب تک محفوظ ہیں۔ جہاں ہندوؤں کا زور ہوتا کسی اکّا دکّا مسلمان مسافر کو مار دیتے۔ جہاں مسلمانوں کا غلبہ ہوتا وہ کسی ہندو یا سکھ کو ہلاک کر ڈالتے۔ ایک موت سارے اخباروں کی شہ سرخی ہوتی۔ فریقین کے اخبار واویلا کرتے۔ اخباری شاعری میں ایک دوسرے کو لتاڑا جاتا۔ "پرتاب” کے مہاشہ نازتک لڑاتے۔ مولانا ظفر علی خان بدیہ گوئی کے شہنشاہ تھے، ان کی ایک نظم "دم مست قلندر دھر رگڑا، فساد کا محور ہو گئی۔

    اس نظم کو اتنی شہرت ہوئی کہ بچہ بچہ کی زبان پر آگئی۔ محفلوں میں تو اس کا ذکر تھا ہی، چانڈو خانوں میں بھی چرچا ہوگیا۔ گھڑا بجتا، دھیمی دھیمی سریں اور اس کے مصرعے سلفہ کی اُڑانوں میں گھلتے جاتے۔ مولانا ظفر علی خان کی طبیعت کا جوہر انہی ہنگاموں میں لگتا تھا۔

    راجپال (شاتمِ رسول) میرے سامنے قتل ہوا۔ اس کی دکان سے علم دین کو خنجر گھونپ کر نکلتے دیکھا۔ کچھ آگے لکڑیوں کا ایک ٹال تھا، علم دین اس میں گھس گیا۔ ٹال کا مالک ہندو تھا، اس نے گھیرا ڈالا۔ اتنے میں پولیس آگئی۔ علم دین کو گرفتار کیا اور لے گئی۔ دنوں تک مقدمہ چلتا رہا۔ سیشن کورٹ نے موت کی سزا دی جو ہائی کورٹ میں بحال رہی۔ آخر ایک دن علم دین کو میانوالی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ان کی نعش اسلامی رسومات کے مطابق میانوالی ہی میں دفن کر دی گئی ہے۔ مسلمانانِ لاہور بھڑک اٹھے، حکومت نے ہنگامہ و ہیجان سے خوف زدہ ہو کر نعش کو حوالے کر دیا۔ لاہور میں نعش کا جتنا بڑا جلوس نکلا، اتنا بڑا جلوس شاید ہی کبھی نکلا ہو۔ میّت کو کندھا دینے کے لیے بڑے بڑے بانس لگائے گئے۔ بیک وقت ہزار ڈیرھ ہزارآدمی کندھا دے رہے تھے۔ ہر خیال کے مسلمان رہنما جنازے میں شریک تھے۔ سر محمد شفیع بھی تھے اور مولانا ظفر علی خان بھی۔ ایک چھوٹی سی بات مجھے اب تک یا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے قبر میں لیٹ کر اس کی وسعت کا جائزہ لیا تھا۔

    انہی دنوں ۱۹۲۸ء میں سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیا گیا۔ کمیشن لاہور پہنچا تو زبردست مظاہرہ ہوا۔ ریلوے اسٹیشن پر سہ طرفہ خار دار جنگلہ لگا دیا گیا۔ پولیس کی بڑی بڑی جمعیتوں نے اسٹیشن اور اس کی سٹرکوں کو گھیر رکھا تھا لیکن اس کے باوجود ہزاروں انسانوں کا جلوس لالہ لاجپت رائے، مولانا ظفر علی خان، چوہدری افضل حق، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر ستیہ پال وغیرہ کی قیادت میں اسٹیشن کے سامنے مظاہرہ کر رہا تھا۔ لاہور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس نے یہیں جلوس پر ڈنڈے برسائے۔ لاجپت رائے کی چھاتی پر چوٹیں آئیں اور چند دن بعد اس صدمہ کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ موری دروازہ کے باہر مظاہرہ کی رات کو زبردست جلسہ ہوا۔ لالہ لاجپت رائے بے نظیر مقرر تھے۔ نوجوانوں کو ہلا دیا، کہا…. عزیزو! میرے بڑھاپے کی لاج رکھنا، تمہاری جوانی کا فرض ہے جو لاٹھیاں آج میرے سینہ پر لگی ہیں وہ برطانوی اقتدار کے تابوت میں آخری میخ ثابت ہوں۔

    بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے انہی الفاظ کی تحریک پر سانڈرس کو قتل کیا اور مرکزی اسمبلی میں بم پھینکا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو پہلی دفعہ اسی جلسہ میں سنا۔ کیا جادو تھا کہ سارا مجمع مسحور ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انگریز جا ہی رہے ہیں۔ اُس زمانہ میں پولیس آفیسر گھوڑوں پر سوار ہو کر پٹرول کرتے اور گھومتے پھرتے تھے۔ رات گیارہ ساڑھے گیارہ تک جلسہ رہا۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور دوسرے آفیسر آخر تک گھوڑوں پر سوار کھڑے رہے۔ اس جلسہ سے میرا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ لوگوں کے دل سے غیر ملکی حکومت کا خوف نکل چکا ہے۔

    (ممتاز شاعر و ادیب، صحافی اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کاشمیری تحریکِ آزادی میں بھی پیش پیش رہے تھے جن کی مشہور کتاب پسِ دیوارِ زنداں سے یہ پارہ منتخب کیا گیا ہے)

  • انتساب

    انتساب

    ادب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی نوعیت غیر قانونی نہ سہی، مشتبہ ضرور ہے۔ انھیں میں سے ایک انتساب ہے۔

    انتساب نہ تو کوئی صنفِ ادب ہے نہ ادب کی کوئی شاخ (شاخسانہ ضرور ہے۔) اردو میں انتساب کو آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ دورِ مغلیہ کے بعد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ بہت زیادہ قدیم ہوتی تو اب تک متروک ہو جاتی۔ متروک نہ ہوتی تو مکروہات میں ضرور شمار ہونے لگتی۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے اچھے دن دیکھے تھے۔ ان دنوں انتساب نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ خوشی خوشی کتابیں پڑھا کرتے تھے (اس زمانے میں کتابیں تھیں بھی کم۔) انتساب کی تحریک، پڑھے لکھے لوگوں کی اجازت بلکہ ان کے علم و اطلاع کے بغیر اچانک شروع ہوئی اور جب یہ شروع ہوئی اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ آگے چل کر یہ اتنی خطرناک صورت اختیار کرے گی کہ صرف انتساب کی خاطر کتابیں لکھی جانے لگیں گی اور ان کے شائع کیے جانے کے لیے متعلقہ لوگ جان کی بازی لگا دیں گے۔

    انتساب کو ادب میں اب وہی مقام حاصل ہے جو سترھویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دربار میں بیربل اور راجا ٹوڈر مل کو حاصل تھا۔ بیربل اور ٹوڈر مل کے فرائضِ منصبی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے اور مزاجاً بھی ان دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اسی لیے ان دونوں کا نام ایک ساتھ لیا گیا۔ انتساب بھی اپنے صفات کے اعتبار سے اتنے ہی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔

    ادب کے نصاب میں انتساب اگرچہ اختیاری مضمون ہے لیکن بے انتساب کتاب اس موسیقار کی طرح ہوتی ہے جو سُر میں نہ ہو۔ آج بھی اکثر کتابیں یوں ہی چھپ جاتی ہیں۔ یوں ہی سے مراد ایسی جن میں صفحۂ انتساب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ صفحۂ انتساب موجود نہ ہو تو قاری کے ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ مصنف میں قوتِ فیصلہ کا فقدان ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اپنی تصنیفِ لطیف کو کسی کے نام معنون نہ کر کے مصنف نے کسی کا حق غصب کیا ہے لیکن اسے تساہل تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ ایک ادیب میں قوتِ فیصلہ ہونی ہی چاہئے۔ بہت سے ادیب تو اپنے انتسابوں کی وجہ سے پہچانے جاتے اور ترقی کرتے ہیں۔ (انتساب کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلتا ہی ہے) مشکل یہ بھی ہو گئی ہے کہ اگرکتاب میں صفحۂ انتساب نہ ہو تو اسے بداخلاقی بلکہ بدنیتی سمجھا جانے لگا ہے۔ (مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی)

    انتساب ہر کسی کے استعمال کی چیز نہیں ہے۔ اس کے لیے ذرا ترقی کرنی پڑتی ہے۔ مضمون، افسانے، غزل یا رباعی کا انتساب نہیں ہوا کرتا۔ تہنیتی اور تعزیتی قطعات جن کے آخری مصرعے سے کسی واقعے یا سانحے کی تاریخ نکلتی ہو (صحیح یا غلط)، انتساب کی تعریف میں نہیں آتے۔ خود قصیدہ بھی جو کافی طویل اور سوائے ممدوح کے دوسروں کے لیے صبرآزما ہوتا ہے۔

    انتساب تو ایک نازک چیز ہوتی ہے اور اہم بھی۔ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنی پڑتی ہے۔ اس میں ضخامت کی کوئی قید نہیں۔ اگر وہ کتاب نہیں صرف کتابچہ ہے تب بھی اس کا انتساب جائز ہے۔ صندوق اور صندوقچے میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ بلکہ صندوقچہ زیادہ قیمتی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    انتساب اور نذرمیں بڑا فرق ہے۔ نذر بظاہر انتساب سے ملتی جلتی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ انتساب کی طرف پہلا قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ شاعر اپنی ایک مختصر سی غزل جس میں پورے 7 شعر بھی نہیں ہوتے۔ کسی پرچے میں چھپواتے وقت اسے اپنے سے ایک سینئر شاعر کے نام نذر کردیتے ہیں، یہ نجی طور پر تو جائز ہے، لیکن اس کی ادبی حیثیت صفر سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ شاعر تو مشاعروں میں اپنا کلام سنانے کے دوران بھی اپنے اشعار(ظاہر ہے انھیں کے ہوتے ہوں گے) مختلف سامعین (جنھیں وہ اپنی دانست میں معززین سمجھتے ہیں) کی نذر کرتے رہتے ہیں اور کسی دوسرے مشاعرے میں وہی نذر شدہ اشعار بانیانِ مشاعرہ میں سے کسی اور کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اسے انتساب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اسے نذر کہنا بھی خوش اخلاقی ہے۔ یہ صرف ایک عادت ہے جو مصالحِ انتظامی کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اور یہ رفتہ رفتہ اتنی جڑ پکڑ لیتی ہے کہ شاعر سے صرف اسی وقت چھوٹتی ہے جب اس کا مشاعروں میں آنا جانا موقوف ہوجاتا ہے۔

    اس کے برخلاف انتساب یوں جگہ جگہ استعمال کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مستقل اور دائم حیثیت ہے، یعنی اگر اتفاق سے (جسے حسنِ اتفاق نہیں کہا جاسکتا) کسی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے چھپنے کی نوبت آئے تو اس ایڈیشن میں بھی، سابقہ انتساب حسبِ حال برقرار رہے گا۔ چاہے ممدوح کی وفات ہی کیوں نہ واقع ہو چکی ہو۔ اپنا بیان مع اندازِ بیان اور اپنا کلام مع زورِ کلام کسی حد تک واپس لیا جاسکتا ہے لیکن ایک مرتبہ کے کیے ہوئے انتساب پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہوتا ہے۔

    انتساب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جتنی تصنیفات اتنی ہی قسمیں، لیکن سہولت کی خاطر انھیں چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تقسیم کا عمل ان دنوں بہت ضروری ہے اور اسے مجلسِ اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے۔

    انتساب کی موٹی موٹی قسمیں یہ ہیں۔

    حروف تہجی کے نام
    اس انتساب میں قارئین کو پتا نہیں چلتا کہ اس تصنیف کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس کا فیض مصنف اور ممدوح کی حد تک محدود رہتا ہے۔ ان دونوں کے قریبی دوستوں اور چند مخصوص سہیلیوں کو البتہ اس بات کی اطلاع ہوتی ہے کہ اس حروف تہجی کے پردہ نگاری کے پیچھے کون چھپا ہوا ہے۔ یہ بات آہستہ آہستہ کوٹھوں چڑھتی ہے۔ (اب تو لفٹ کی بھی سہولت موجود ہے۔)

    ایسی کوئی کتاب جس کا انتساب حرف الف کے نام کیا گیا ہو ہماری نظر سے نہیں گزری، لیکن کہیں نہ کہیں کوئی ضرور۔ ’ب‘ کا انتساب ہم نے ضرور دیکھا ہے۔ غالباً یہ کوئی مجموعۂ کلام تھا۔ اسی طرح سب تو نہیں لیکن کئی حروف تہجی انتساب میں کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سلام بن رزاق کی کتاب ’ع‘ کے نام ہے۔ اب یہ ’ع‘ ظاہر ہے عبدالسلام یا عبیداللہ نہیں ہوسکتے۔ ان دونوں میں سے کوئی ہوتے تو علی الاعلان سامنے آتے۔ حروف تہجی کے انتساب ہمیں بہرحال پسند ہیں۔ ہندستان میں تھوڑا بہت پردہ ابھی باقی ہے۔

    بے نام کے انتساب
    اس قسم کے انتساب بھی مقبول ہیں اور ان میں مصنف ذرا سی محنت کرے تو بڑی نزاکتیں پیدا کر سکتا ہے۔ اکثر مصنفین اس میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ بشر نواز نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’رائیگاں‘ شائع کیا تو اس کا انتساب اس طرح کیا، ’’نام پر اس حسین کے، جس کا نام نیلگوں آسمان کے صفحے پر روشنی کے قلم نے لکھا ہے۔ ’’

    یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتساب رائیگاں نہیں کیا ہوگا۔

    بے نام کے انتساب کا اشارہ کئی لوگوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جن کی شناخت ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جب اپنی کتاب ’نئے افسانہ نگاروں کے نام‘ معنون کی تو کئی افسانہ نگار جو کافی پرانے تھے اس انتساب کی خاطر نئے بن گئے (حالانکہ ادب میں دل بدلی ہوتی نہیں ہے) ایک نوجوان نے تو ہر کسی سے پوچھنا شروع کردیا کہ کیا آپ نے فاروقی صاحب کی وہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں‘ پڑھی ہے جس کا انتساب میرے نام ہے۔ ایک اور نوجوان چار قدم اور آگے نکل گئے اور فرمایا کہ اب جب کہ میرے نام یہ کتاب معنون ہی کردی گئی ہے تو میں بھی افسانے لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کسی دن لکھ ڈالوں گا کیوں کہ پلاٹ کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔

    اسی طرح بلراج کو مل نے اپنی ’نژاد سنگ‘ بچھڑے ہوئے دوستوں کے نام معنون کی ہے اور آج کل بچھڑے ہوئے دوستوں کی تعداد ’جاریہ‘ دوستوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ شناخت دونوں کی مشکل ہے۔ یوں بھی اب دوست ایک ہی جگہ رہتے ہیں لیکن بچھڑے رہتے ہیں۔ یہ خاموش ادبی معرکہ ہوتا ہے۔

    غلام ربانی تاباں نے ’ذوقِ سفر‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے، ’’میرے وہ دوست جنھیں میری شاعری پسند ہے اب اس بوجھ کو سنبھالیں۔ انھیں کے نام یہ کتاب معنون کرتا ہوں۔‘‘ اس انتساب میں بھی شناخت مشکل ہے۔ کوئی آگے بڑھ کر نہیں کہتا کہ یہ کتاب میرے نام ہے۔

    انگریزی کی ایک کتاب کا انتساب البتہ کچھ اس طرح کا تھا، ’’اپنی بیوی کے نام جو اس کتاب کی اشاعت میں اگر میرا ہاتھ نہ بٹاتیں تو یہ کتاب آج سے 5 سال پہلے چھپ جاتی۔‘‘

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کے مضمون سے شگفتہ پارے)

  • جب ایک پاکستانی مصوّر نے بھوک مٹانے کے لیے تصویری زبان کا سہارا لیا

    جب ایک پاکستانی مصوّر نے بھوک مٹانے کے لیے تصویری زبان کا سہارا لیا

    انسان نے جب اپنی عقل اور سوجھ بوجھ سے کام لے کر زمین پر اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنا چاہا تو ابتداً لکیروں اور مختلف نشانیوں کا سہارا لیا اور پھر تصویریں بنانے لگا پھر تحریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج اگر ہم بیرونِ ملک جائیں یا ایسے مقام پر ہوں جہاں کوئی ہماری مادری زبان نہ سمجھتا ہو تو اپنی بات اسے سمجھانا کتنا مشکل ہوگا، اس کا اندازہ آپ کر ہی سکتے ہیں۔

    اردو ادب اور مشاہیر سے متعلق تحریریں پڑھیں

    عطاء اللہ پالوی اردو کے ایک ایسے نثر نگار گزرے ہیں جنھوں نے علمی و ادبی موضوعات پر کئی مضامین اور کتب یادگار چھوڑی ہیں جو مصنف کے فلسفیانہ اور تنقیدی شعور کے ساتھ مذہبی رجحان، قرآن فہمی اور دینی تعلیمات میں غور و فکر کا نمونہ ہیں۔ وہ ایک صاحبِ مطالعہ ادیب تھے اور تاریخ و مذہب، سوانح و ادبی تذکرہ نویسی میں پہچان بنائی۔ وہ 1913 میں پیدا ہوئے تھے اور 1998 میں انتقال کیا۔ انھوں نے اپنی کتاب مشاطہ گانِ ادب میں زبان سے ناواقفیت کا ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے جو پاکستان کے ممتاز مصور زین العابدین کے اسپین میں قیام سے متعلق ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    نشانوں اور لکیروں نے ہی ترقی کر کے تحریر کی طرف قدم بڑھایا ۔ انسان کی پہلی تحریر بڑی سادہ اور بچوں جیسی تھی۔ اُس نے اپنا مطلب بیان کرنے کے لئے تصویریں بنانی شروع کیں۔ اس کو تصویری خط پکٹوریل (PICTORIAL) یا تصویری زبان ہیروگلی فکس (HIEROGLYPHICS) کہتے ہیں۔ تصویر کشی یا مرقع نویسی، دنیا میں انسان کی سب سے پہلی تحریر یا تصویری زبان ہے۔ اور اس تصویری تحریر یا تصویر کی زبان استعمال کرنے کی منزل سے، اگر چہ انسان، عرصہ دراز گزرا کہ ترقی کر کے بہت آگے بڑھ گیا ہے، مگر یہ تصویری زبان، اب بھی رائج اور کارفرما ہے۔

    مسٹر زین العابدین، پاکستان کے دوسرے نامور مصور ہیں۔ انھوں نے اپنے سفرِ اسپین کی روداد، رسالہ ماہِ نو، کراچی کے اگست نمبر1955ء میں شائع کرایا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ مجھے ایک اہم ضرورت سے اسپین جانا پڑا۔ ہوٹل میں اوپر سامان رکھنے کے بعد، نیچے کھانے کے لئے گئے۔ ہوٹل کے ویٹر صرف فرانسیسی اور اسپینی زبانیں بولتے تھے اور زین العابدین صاحب ان دونوں زبانوں سے ناواقف تھے۔ اب مصیبت ہو گئی۔ ویٹر ان کے پاس آتے تھے اور اپنی زبان میں سوال کر کے آرڈر لینا چاہتے تھے۔ جواب نہ ملنے پر واپس چلے جاتے تھے۔ زین العابدین صاحب نے لکھا ہے کہ بغل کے ٹیبل پر ایک صاحب مچھلی کھا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ ویٹر کو اس کی شکل دکھا کر مچھلی ہی منگا کے کھا لوں۔

    مگر جب تک ویٹر آوے آوے، وہ صاحب مچھلی کا آخری لقمہ بھی منہ میں ڈال چکے تھے۔ ناچار خاموش رہے اور سوچتے رہے کہ اس صورت حال میں تو پاکستان واپس چلا جانا ہو گا۔ کیونکہ یہ دقت ہر جگہ ہو گی اور بالخصوص جب کھانا ہی نہیں مل سکے گا تو یہاں رہا کیسے جا سکتا ہے؟

    ایک ذہین معمر ویٹر جب ان کے پاس آرڈر لینے کے لئے آیا اور اس کو سوال کا جواب اسپینی اور فرانسیسی دونوں زبانوں میں نہ ملا تو وہ سمجھ گیا کہ مسافر فرانسیسی اور اسپینی زبانیں نہیں جانتا اور اُس کو کھانا ملنا بھی چاہیے، لہٰذا اس نے منیجر کے پاس جا کر اس کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ تجربہ کار منیجر نے ویٹر سے کہا کہ اس مسافر کو باورچی خانہ میں لے جاؤ اور سب کھانے دکھاؤ اور جس جس چیز کو وہ پسند کرے، وہ اس کو دی جائے۔ چنانچہ وہ زین العابدین صاحب کو باورچی خانہ میں لے گیا۔ وہاں سب عورتیں ہی عورتیں تھیں۔ ویٹر کے صورت حال سمجھانے پر وہ سب کھل کھلا کے ہنس پڑیں، جس سے زین العابدین صاحب کو گُونہ خفت محسوس ہوئی مگر اسے برداشت کرنا ہی پڑا۔

    آخر کھانے سب دکھائے گئے اور جنہیں انھوں نے پسند کیا وہ ان کے سامنے پیش کیے گئے۔ اُس وقت تو کھانے کا مسئلہ یوں حل ہو گیا، مگر وہ بیچارے پریشان تھے کہ اس طرح کب تک اور کہاں کہاں کام چلے گا؟ بالآخر انہیں یکایک خیال آیا کہ تصویری زبان میں کیوں نہ بات کی جائے؟

    چنانچہ اس کے بعد جب وہ کھانے کی میز پر جاتے تو پنسل اور کاغذ ساتھ لے جاتے اور جو جو چیزیں چاہتے تھے، اس کی تصویریں بنا دیتے تھے۔ مثلاً بوائلڈ انڈہ طلب کرنا ہوا تو مرغی کی تصویر بنائی۔ اس کے پاس انڈے کی تصویر بنائی۔ اس کے سامنے چولھا کی تصویر بنائی اور اس پر پانی کو اُبلتے دکھا کے، انڈے کو اس میں کھولتے دکھاتے تھے۔ ویٹر مسکرا کر ان کے لئے ابالے ہوئے انڈے لے آتا تھا، یا گوشت منگوانا ہوا تو خصّی کی ران اور چولھا کی تصویر بنائی اور تیر کے ذریعہ اس کو چولھے کی طرف لے گئے اور دیگچی میں پکتے دکھایا۔ اس تصویری زبان کو دیکھنے اور مزہ لینے کے لئے ہر کھانے کے وقت متعدد ویٹر ان کے پاس اکٹھے ہو جاتے تھے اور دو ایک اور گاہک بھی وہاں پر تماشا دیکھنے آجاتے، اور ان میں سے کوئی نہ کوئی انگریزی زبان جاننے والا اُن کو مل جاتا تھا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے جو کام تھا اور جتنے دن کا کام تھا، میں نے ہر جگہ اسی ’تصویری زبان‘ کو استعمال کیا اور اس موقع سے کوئی نہ کوئی انگریزی داں مجھے مل جاتا تھا۔ یہاں تک کہ میں اپنا کام پورا کر کے کراچی واپس آیا۔ اس طور پر ساری ترقیوں کے باوجود اب بھی تصویری زبان سے انسان کام لے رہا ہے اور یہ زبان اب بھی زندہ ہے اور شاید ہمیشہ زندہ رہے گی۔

  • کبوتر کو بچانے کے لیے بادل خاں خود بندوق کے چھرّے کا ہدف بن گئے!

    کبوتر کو بچانے کے لیے بادل خاں خود بندوق کے چھرّے کا ہدف بن گئے!

    اردو شاعری میں ادا جعفری کو ان کے منفرد لب و لہجے اور شستہ طرزِ کلام کی بدولت امتیازی مقام حاصل ہوا۔ تہذیبی شائستگی اور معیار ان کے کلام کا بنیادی وصف ہے جس کے ساتھ ادا جعفری کی غزلیں اور نظمیں روایت و جدّت کا حسین امتزاج ہیں۔

    فنونِ لطیفہ اور اردو ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ادا جعفری بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ان کے شعری مجموعوں کے علاوہ 1995ء میں ایک خودنوشت بھی بعنوان "جو رہی سو بے خبری رہی” شایع ہوئی تھی جس میں انھوں نے اپنے ننھیال کے ایک پرانے اور وفادار نوکر کا تذکرہ کیا ہے جن کا نام بادل خاں تھا۔ ادا جعفری نے اُنھیں ایک ذمہ دار، اصولوں کا پابند اور بامروّت شخص بتایا ہے۔ خودنوشت سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    بدایوں کے شب و روز کی یاد کے ساتھ بادل خاں کا ہیولا بھی سامنے آ جاتا ہے۔ بادل خاں چھوٹی حویلی اور بڑی حویلی کے باورچی خانوں کے نگران اعلیٰ تھے۔

    جب میں نے انہیں دیکھا بوڑھے ہو پہلے تھے۔ ڈھکتا ہوا رنگ۔ لحیم شحیم۔ اودھ کے رہنے والے تھے۔ بیٹے سے کسی بات پر ناراض ہو کر آئے تھے اور پھر مڑ کر نہیں گئے۔ بیٹا کئی بار منانے کے لیے آیا لیکن وہ اس کا سامنا نہیں کرتے۔ جیسے ہی اطلاع ملتی گھر کے کسی کونے کھدرے میں ایسے روپوش ہوتے کہ ڈھونڈے نہ ملتے۔ تنخواہ البتہ ہر مہینے بڑی پابندی سے پوتی پوتوں کے لیے بھیج دیتے تھے۔

    عجیب و غریب زبان بولتے تھے جسے لکنت بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بعض حروف کی صحیح ادائیگی سے معذور تھے لیکن بولتے فراٹے سے تھے۔ کوئی نیا آدمی ان کی بات نہیں سمجھ سکتا تھا۔ گھر میں اتنے عرصے سے تھے کہ مطلب بہرحال سب کو سمجھا دیتے۔

    غلّہ کی کوٹھری کے انچارج تھے۔ ہر صبح چاول، دالیں، آٹا، گھی، ترازو میں تول کر پکانے کے لیے دیتے۔ روٹی پکانے والی سے خاص طور پر لڑائی رہتی۔ کیا مجال کہ وہ مقررہ وزن سے چٹکی بھر زیادہ آٹا ترازو کے پلڑے میں ڈال سکے۔ کھانا تیار ہو جاتا تو ہانڈیوں کے ڈھکن اتار کر معائنہ کرنا بھی ضروری سمجھتے۔ روٹی کا کٹور دان بھی کھول کر ضرور دیکھتے۔

    گھٹنوں کے نیچے کمر بند سے بندھا ہوا چابیوں کا وزنی گچھا لٹکا رہتا تھا۔ غلّہ کی کوٹھڑی میں ایک تالا پڑتا جس کی ظاہر ہے کہ ایک ہی چابی ہو گی لیکن نہ جانے کہاں کہاں سے ان گنت چابیاں جمع کر رکھی تھیں جو اُن کی پوشاک کا حصہ بن چکی تھیں۔

    دیگلچیوں کے معائنے کے دوران میں خاموش رہنا گوارا نہیں تھا۔ گھر کے سب ملازم پرانے تھے۔ وفادار بھی اور ایمان دار بھی۔ لیکن ان کی کسی نہ کسی حرکت سے بادل خاں کو ہمیشہ چوری کا ثبوت ملتا رہتا تھا۔ کبھی خود ہی کہہ سن کر خاموش ہو جاتے، کبھی مالکوں تک رپورٹ پہنچانا ضروری سمجھتے۔ مجرم کو قرار واقعی سزا نہ ملتی تو لاکھ کے گھر کو خاک کرنے کے ملال کا اظہار برملا کرتے۔ انہیں گھر کی خواتین کے احساسِ ذمہ داری سے بڑے شکوے تھے۔

    ظاہر ہے کہ جس لہجے اور جن الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے اس کا نتیجہ اور جواب ہمیشہ زیرِ لب تبسم ہوتا تھا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ بیبیوں کا احترام بھی لازم تھا۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے کبھی کوئی ملازمہ یا ملازم بد دل نہیں ہوا نہ کسی نے کبھی اس کی شکایت کی۔ جس کی بڑی وجہ ان کی غرابتِ گفتار تھی۔

    نماز کے سخت پابند تھے اور ہمیشہ بلند آواز سے پڑھتے۔ عربی الفاظ کی قرأت ایسی کہ سننے والے کو روزِ قیامت بھی یاد آتا اور ہنسی روکنا بھی دشوار ہوتا۔

    حویلیوں میں زندگی رواں دواں تھی اور بادل خان کی موجودگی سے خاصی بشاش بھی کہ ایک غیر معمولی واقعہ ظہور پذیر ہوا۔

    ان دنوں نانا نے صدقی کو چھرّے والی چھوٹی سی بندوق خرید کر دی تھی اور اب ننھّا شکاری تھا اور اس کا اشتیاق۔ سارا سارا دن نشانہ لگانے کی مشق جاری رہتی اور شکار کی تلاش بھی۔ مگر کسی چڑیا یا کوّے نے اس شوقِ بے پایاں کی پذیرائی معقول اور معروف طریقے سے نہیں کی۔ ادھر صدقی نشانہ باندھتے ادھر پرندہ مائلِ پرواز ہو جاتا۔ ایک دن سامنے کبوتر تھا۔ بادل خاں ادھر سے گزرے اور ٹھٹک گئے۔ اپنی زبان میں جو ہم لوگ سمجھ لیتے تھے، کہنے لگے۔ کبوتر کو مارنا جائز نہیں ہے، کیونکہ کبوتر روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ انہیں کسی حاجی نے بتایا تھا۔

    آخر بچوں کی ضد کے آگے کبوتر کو بچانے کے لیے وہ خود ہدف بننے پر تیار ہو گئے۔ دیوار کی طرف منھ کر کے کھڑے ہوئے اور اپنی پیٹھ برہنہ کر دی۔ اب یہ سوچ تھی کہ پیٹھ کے کس حصے پر نشانہ آزمایا جائے۔ عین اس وقت جب اس کا فیصلہ ہو گیا بادل خاں نے مڑ کر تاخیر کا سبب جاننا چاہا۔ چھرّا بندوق کی نالی سے آزاد ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھ کے نیچے پیوست ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ہم سب تماشائیوں کا بھی خون خشک ہو گیا کہ اب نانا کو علم ہو گا اور خیر نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ نانا نے ان کے چہرے پر پٹی بندھی دیکھی اور سبب پوچھا تو انہوں نے اپنا پیر پھسلنے اور کسی گستاخ اینٹ پتّھر کے بارے میں اتنی طویل تقریر کی کہ گھبرا کر نانا نے کچھ سمجھنے یا ہمدردی کرنے کی کوشش ہی ترک کر دی۔ بندوق کا چھرّا ان کے چہرے کو زخمی کر گیا تھا۔

    زخم کے معالج وہ خود ہی تھے۔ چنانچہ بخار آگیا اور ایسا کہ کئی دن پلنگ پر پڑے رہے۔ گھر والوں نے ان کا علاج تو کروایا لیکن ایک فروگزاشت ایسی ہوئی جو بادل خاں کی شان کے خلاف تھی۔ ان کے آرام کے خیال سے گھر کی کسی بی بی نے غلّہ کی کوٹھڑی کی دوسری چابی چند دن کے لیے ایک پرانی ملازمہ کو دے دی۔ اس سانحہ کا انکشاف جس دن ان پر ہوا اسی رات وہ بغیر اطلاع ہمارے گھر سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔

  • ساحرؔ کے بجھے ہوئے سگریٹ اور امرتا کے تخیل کی کرامات

    ساحرؔ کے بجھے ہوئے سگریٹ اور امرتا کے تخیل کی کرامات

    پنجابی زبان کی مقبول شاعرہ اور ادیب امرتا پریتم کی آپ بیتی رسیدی ٹکٹ ان کی زندگی کی وہ جھلک دکھاتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امرتا پریتم ایک آزاد اور بے باک قلم کار تھیں۔

    برصغیر کے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی سے امرتا پرتیم کے عشق اور ان کے درمیان ملاقاتوں کا بھی خوب چرچا ہوا تھا۔ اور پھر امرتا نے اپنی آپ بیتی میں ساحر سے متعلق اپنے جذبات اور چند واقعات بھی لکھے ہیں۔ امرتا اور ساحر ایک تو نہیں ہو سکے لیکن دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان کی کہانی زندہ ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی‌ ہیں:

    لاہور جب کبھی ساحرؔ ملنے آیا کرتا تھا تو گویا میری ہی خاموشی میں سے خاموشی کا ٹکڑا، کرسی پر بیٹھتا اور چلا جاتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی میں بجھا دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔ کبھی ایک بار اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی، لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت بھی تخیل کی کرامات کا سہارا لیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔ سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی۔ ہر سگریٹ سلگاتے وقت محسوس ہوتا…. وہ پاس ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہو جاتا تھا۔ پھر برسوں بعد، اپنے اس احساس کو میں نے ’ایک تھی انیتا‘ ناول میں قلم بند کیا۔ لیکن ساحرؔ کو ابھی تک سگریٹ کی اس تاریخ کا علم نہیں۔‘‘