Tag: ادبی اقتباسات

اردو کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں اور ان کی کتابوں سے ادبی اقتباسات جن میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، شان الحق حقی، نیاز فتح پوری و دیگر شامل ہیں

  • میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں 1857ء ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے اس کو شورش قرار دیا تو کسی نے غدر اور فوجی بغاوت سے تعبیر کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد سے 1857ء کو آزادی کی پہلی جنگ یا قومی تحریک کے عنوان سے پکارا جاتا ہے۔ غرض کہ ڈیڑھ سو سال قبل 9 مئی 1857ء کو جو فوجی بغاوت میرٹھ سے شروع ہوئی وہ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگِ آزادی کی پہلی آواز تھا۔

    تاریخ اور ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ملکی اور غیر ملکی مؤرخ 1857ء کی بغاوت کی ماہیت کے بارے میں جتنی بھی بحث کریں لیکن ہندوستان کے عوام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ میرٹھ کی یہ بغاوت ہماری قومی تحریک کا سر چشمہ ہے۔

    خود فیلڈ مارشل لارڈ رابرٹس نے تسلیم کیا ہے کہ ’’حکومتِ ہند کے سرکاری کاغذات میں مسٹر فارسٹ کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کارتوسوں کی تیاری میں جو روغنی محلول استعمال کیا گیا تھا، واقعی وہ قابلِ اعتراض اجزاء یعنی گائے اور سؤر کی چربی سے مرکب تھا اور ان کارتوسوں کی ساخت میں فوجیوں کے مذہبی تعصبات اور جذبات کی مطلق پروا نہیں کی گئی۔

    1857ء کے اس خونیں انقلاب میں میرٹھ کے 85 بہادر سپاہیوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد، جذبۂ ایثار، مادرِ وطن کی خاطر مذہبی اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ گائے کا گوشت کھانے والے اور گائے کی پوجا کرنے والے، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان اور منتروں کا جاپ کرنے والے ہندوؤں نے مل کر بغاوت کی۔

    میرٹھ چھاؤنی سے جو بھی سپاہی ملک کے کسی حصہ کی طرف کوچ کرتا تھا وہ نعرہ لگاتا ہوا کہتا تھا کہ ’’ بھائیو! ہندو اور مسلمانو!! انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر کرو۔‘‘ انقلابیوں کے اس حقارت آمیز نعرے میں تین الفاظ اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے یعنی ’’ہندو اور مسلمان ‘‘۔ ان تین الفاظ میں اس بات کی تلقین کی جا رہی تھی کہ ہندو اور مسلمان مل کر یہ قومی جنگ لڑیں کیونکہ اس کے بغیر غلامی سے نجات نہیں ہو سکتی۔ اس اعلان کے بعد پورے ہندوستان میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔

    میرٹھ کے فوجیوں میں انقلاب کی روح پھونکنے والا شخص عبداللہ بیگ نام کا ایک بر طرف فوجی افسر تھا جس نے اپنے ہم وطن فوجی ساتھیوں سے کہا تھا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کارتوس تمہیں دیے جا رہے ہیں ان میں سؤر اور گائے کی چربی لگی ہوئی ہے اور سرکار تمہاری ذات بگاڑنے کی خواہش مند ہے۔ میرٹھ فوج کے دو مسلم سپاہی شیخ پیر علی نائک اور قدرت علی نے سب سے پہلے 23 اپریل 1857ء کی رات کو ملٹری میس میں ایک خفیہ میٹنگ کی اور اسی وقت ہندو اور مسلم فوجیوں نے مقدس گنگا اور قرآن شریف کی قسمیں کھا کر حلف لیا کہ وہ اس کارتوس کا استعمال نہیں کریں گے۔ 24 اپریل 1857ء کو فوجی پریڈ گراؤنڈ پر نوے فوجیوں میں سے 85 فوجیوں نے جن میں سے اڑتالیس مسلمان اور37 ہندو تھے کمپنی کمانڈر کرنل اسمتھ (Smyth) کے سامنے اعلان کر دیا کہ وہ چربی والے کارتوس اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک کہ وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہو جاتے۔ چنانچہ ایک فوجی عدالت میں ان سپاہیوں کو پیش کیا گیا اور جابر فوجی عدالت نے تمام سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔ سپاہیوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جو جنرل ہیوٹ (Hewitt) نے مسترد کر دی۔

    9 مئی 1857ء کو ہندوستانی رسالے کی پلٹن کو میدان میں آنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف توپ اور گورا فوج تیار کھڑی تھی۔ پچاسی سپاہیوں کو ننگے پاؤں پریڈ کراتے ہوئے میدان میں لایا گیا اور چار سپاہیوں کو وہیں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا اور بقیہ اکیاسی سپاہیوں کی وردیاں پھاڑ کر اتار دی گئیں، فوجی میڈل نوچ لئے گئے اور وہاں پہلے سے موجود لوہاروں سے ان باغی سپاہیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔

    جو سپاہی پلٹن میدان سے واپس آ گئے تھے ان میں نفرت اور غصہ پھوٹ رہا تھا اور انہوں نے 10 مئی کو اتوار کے دن جب سبھی انگریز فوجی افسر گرجا گھر میں اتوار کی عبادت کے لئے جمع ہو رہے تھے کہ یکایک چند جوشیلے نوجوانوں نے مشتعل ہو کر ہندوستانی سپاہیوں کی بیرکوں میں آگ لگا کر آزادی کی جد و جہد کا اعلان کر دیا۔ کرنل فینس (Finnis) سب سے پہلے ان انقلابی سپاہیوں کی گولی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد نو اور انگریزوں کو قتل کر دیا گیا جن کی قبریں آج بھی میرٹھ۔ رڑکی روڈ پر واقع سینٹ جونس سیمٹری میں اس تاریخی واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ حالانکہ بہت سے مؤرخین نے ہزاروں انگریزوں کے قتلِ عام کا حوالہ دیا ہے مگر میرٹھ کے قدیمی مسیحی قبرستان میں صرف دس قبریں ہیں جو دس مئی کے واقعہ کی خاموش گواہ ہیں۔

    ان انقلابی فوجیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں میرٹھ کے صدر بازار کی چار طوائف صوفیہ، مہری، زینت اور گلاب کو بھی بہت دخل ہے۔ ان فوجیوں کو ان طوائفوں نے ہی وطن پرستی کے لئے للکارا تھا اور اس طرح 1806ء میں قائم میرٹھ کی فوجی چھاؤنی دیکھتے دیکھتے ہی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گئی۔

    ظہیر دہلوی لکھتے ہیں کہ ان عورتوں نے لعن و طعن و تشنیع سے پنکھا جھل جھل کر نارِ فتنہ و فساد کو بھڑکانا شروع کیا اور ان کی چرب زبانی آتشِ فساد پر روغن کا کام کر گئی۔ ان عورات نے مردوں کو طعنے دینے شروع کیے کہ تم لوگ مرد ہو اور سپاہی گری کا دعویٰ کرتے ہو مگر نہایت بزدل بے عزت اور بے شرم ہو۔ تم سے تو ہم عورتیں اچھی ہیں تم کو شرم نہیں کہ تمہارے سامنے افسروں کے ہتھکڑیاں، بیڑیاں پڑ گئیں مگر تم کھڑے دیکھا کئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا۔ یہ چوڑیاں تو تم پہن لو اور ہتھیار ہم کو دے دو ہم افسروں کو چھڑا کر لاتی ہیں۔ ان کلمات نے اشتعال طبع پیدا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردانگی کی آگ بھڑک اٹھی اور مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ میرٹھ کے اس واقعہ نے عام بغاوت کی کیفیت پیدا کر دی تھی اور آگ کی طرح یہ خبریں پھیل گئیں تھیں۔ میرٹھ چھاؤنی کی اس چنگاری نے دیکھتے ہی دیکھتے شعلۂ جوالہ بن کر پورے برِ صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    اسی دوران انقلابیوں نے میرٹھ سینٹرل جیل کے دروازے توڑ دیے، کھڑکیاں اکھاڑ پھینکیں اور ایک دن پہلے جیل میں قید اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ ان کے ساتھ تقریباً بارہ سو قیدی بھی جیل سے نکل بھاگے۔ بعض قیدی ہتھکڑی اور بیڑی لگے ہوئے وہاں سے چل دیے اور عبداللہ پور، بھاون پور، سیال، مبارک پور ہوتے ہوئے مان پور پہونچے جہاں کسی نے انگریزوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے کی ہمت نہیں کی۔ وہاں مان پور گاؤں کے ایک لوہار مہراب خاں نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کو کنویں میں ڈال دیا۔

    میرٹھ کے عالم مولانا سید عالم علی اور ان کے بھائی سید شبیر علی جو صاحبِ کشف بزرگ تھے، دل کھول کر ان باغی سپاہیوں کی مدد کی۔ شاہ پیر دروازے سے نوچندی کے میدان تک ہزاروں جوان سر بکف آتشِ سوزاں بنے ہوئے نبرد آزما دکھائی دے رہے تھے۔ یکایک کپتان ڈریک اسلحہ سے لیس ایک فوجی دستہ لئے ہاپوڑ روڈ پر نمودار ہوا اور ہجوم پر فائرنگ کر دی۔ یہاں زبردست قتلِ عام ہوا۔ 11 مئی1857ء کو بائیس حریت پسندوں کو نوچندی کے میدان میں پھانسی دے دی گئی جن میں سید عالم اور سید شبیر علی صاحبان بھی شامل تھے۔ شہر کے باشندے یہ خبر سن کر بھڑک اٹھے اور اسی دن سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ انتظامیہ مفلوج ہو گئی۔ ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دھوئیں سے آسمان نظر نہیں آ رہا تھا۔

    میرٹھ کے ممتاز شاعر مولانا اسمٰعیل میرٹھی جو خود اس ہنگامے کے عینی گواہ تھے ان کے بیٹے محمد اسلم سیفی اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ دس مئی 1857ء کا واقعہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی 14تاریخ اس دن تھی۔ پڑوس میں دعوت روزہ افطار کی تھی۔ مولانا اور دیگر اعزا اس میں شریک تھے۔ یکایک ہولناک شور و غل کی آوازیں بلند ہوئیں۔

    معلوم ہوا کہ جیل خانہ توڑ دیا گیا ہے اور قیدی بھاگ رہے ہیں۔ لوہار ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ شہر کے لوگ سراسیمہ ہر طرف رواں دواں نظر آ رہے تھے۔ کثیر التعداد آدمی جیل خانہ کی سمت دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ مولانا کے قلب پر اس ہنگامہ کا بہت گہرا اثر ہوا۔ اس عظیم الشان ہنگامۂ دار و گیر کا تلاطم۔ دہلی کی تباہی کا نقشہ، اہلِ دہلی کا حالِ پریشان، ان باتوں نے مولانا کے دل و دماغ پر بچپن ہی میں ایسا گہرا اثر بٹھایا کہ آئندہ زندگی میں فلاح و بہبود و خلائق کے لئے بلا لحاظ دین و ملت یا ذات پات مصروفِ کار رہے۔‘‘ مولانا اسماعیل میرٹھی کے دل میں بھی آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی جس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔

    ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
    ہے وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
    جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
    بھلی اس محل سے جہاں کچھ خطر ہو

    (برصغیر کی تاریخ پر مبنی تحقیقی کتاب "میرٹھ اور1857ء” سے اقتباس، تالیف و تدوین ڈاکٹر راحت ابرار)

  • ذوق کے ساتھ غالب کا جھگڑا اور جواں بخت کا سہرا

    ذوق کے ساتھ غالب کا جھگڑا اور جواں بخت کا سہرا

    ہمارے اردو کے ممتاز شعرا میں ابراہیم ذوق اور مرزا اسد اللہ خان غالب، بہادر شاہ ظفر کے دربار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان سخت نوک جھونک ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ذوق اور غالب کی معرکہ آرائی معاصرانہ چشمکوں سے زیادہ حیثیت کی نہ تھی لیکن ذوق کے مقابلے میں غالب کے یہاں معاندانہ جذبات زیادہ نظر آتے تھے۔ ناقدین ادب نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔

    اردو ادب اور مشاہیر سے متعلق تحریریں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

    بادشاہ کی ملکہ زینت محل کی فرمائش پر مرزا جواں بخت کے سہرے کے موقع پر ذوق اور غالب کے درمیان کافی حملے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اردو کے ممتاز ادیب محمد حسین آزاد نے ذوق و غالب کے ایک معرکے کا حال بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں درج کیا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ناقدین ادب میں مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد دونوں نے بیک زبان اس بات کی گواہی دی ہے کہ ذوق اور غالب دونوں ہی طبعاً ایسے نہ تھے جو کسی کی طرف سے دل میلا کرتے یا کسی کی ہجو کر کے اسے آزار پہنچاتے۔

    پروفیسر احتشام حسین نے اپنے مضمون ’’ذوق و غالب‘‘ میں دونوں ہم عصروں کی باہمی چشمک کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ انہی کے الفاظ میں درج کی جاتی ہیں۔ شعراء حساس ہوتے ہی ہیں اگر انہیں ایک دوسرے سے شکایت رہی ہو تو تعجب نہ ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’اتفاق تھا کہ بہادر شاہ ظفر نے اپنی ولی عہدی کے زمانے میں ذوق کو اپنا استاد بنا لیا اور گو انہیں صرف چار روپے مہینہ تنخواہ ملتی تھی لیکن یہ اعزاز کیا کم تھا کہ لال قلعہ میں ان کی رسائی تھی اور شہزادے انہیں استاد ذوق کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ معلوم نہیں کہ ابتداً غالب نے اس کا اثر لیا یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف تو وہ اس اعزاز سے محروم رہے دوسری طرف وہ فارسی آمیز اردو شاعری، وہ بیدل کا رنگ فکر جس میں شعر کہنا وہ خود بھی قیامت سمجھتے تھے، دلّی کے عام حلقوں میں مقبول نہ ہو سکا۔

    سر دست اس بحث کو طول نہ دیتے ہوئے ہم ذوق اور غالب کے درمیان پیش آئے ایک معرکے کی روداد پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح غالب نے بادشاہ کے بیٹے کا سہرا لکھ کر شاہ ظفر کے استاد ذوق کو چیلنج کیا تھا۔ ذوق کے ساتھ ان کے جھگڑے کی اسی صورت حال کے دوران بادشاہ کی ملکہ زینت محل نے غالب سے مرزا جواں بخت کی شادی کے موقع پر ایک سہرا لکھنے کی فرمائش کی۔ غالب نے حکم کی تعمیل میں یہ سہرا لکھ کر پیش کیا۔

    ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں
    دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا

    اگرچہ مقطع میں بظاہر ایسی کوئی بات نہیں تھی جو دونوں استادوں کے درمیان نزاعی جنگ اختیار کر لیتی مگر چونکہ دلوں میں پہلے سے غبار موجود تھا اور اس سے پیشتر’ بنا ہے شہ کا مصاحب‘ والی باتیں تحت الشعور میں بیٹھی ہوئی تھیں پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ خود غالب دربار میں جگہ پا چکے تھے، اس لیے اس شعر کو ذوق کے لیے چیلنج تصور کیا گیا۔

    غالب کی جانب سے اس حملہ کے بعد ظاہر ہے استاد ذوق نے محاذ سنبھالا۔ ان کے لیے اس سے بہتر اور کون سا موقع میسر آسکتا تھا۔ انہوں نے غالب کے سہرے کو سامنے رکھ کر جواباً سہرا لکھا اور اپنے مقطع میں غالب کے چیلنج کو قبول کر کے بھرپور جواب دیا۔

    جس کو دعوی ہے سخن کا یہ سنا دے اس کو
    دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا

    دو بڑے شعرا کے درمیان ایک ہی زمیں پر لکھا گیا سہرا پڑھ کر ناقدین ادب آج بھی اس پر بحث کرتے ہیں۔ کسی کو غالب کا تو کسی کو استاد ذوق کا سہرا اچھا لگتا ہے۔ لیکن بعض ناقدین نے لکھا ہے کہ بلاشبہ ذوق کا لکھا ہوا سہرا فنی اعتبار سے بلند ہے اور اس اعتبار سے بھی وہ ذوق کے لیے مشکل تھا کہ اسی زمین میں غالب نے پہلے لکھ دیا تھا لہٰذا استاد ذوق نے شان دار جواب دے کر کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

    جب بہادر شاہ ظفر کے دربار تک ذوق کے سہرے کی گونج سنائی دی اور غالب کو معلوم ہوا کہ بادشاہ کے استاد سے ٹکر لینے میں ان کے لیے خیر نہیں ہے اس لیے موقع کی نزاکت محسوس کر کے غالب نے ایک معذرت نامہ بادشاہ کی خدمت میں روانہ کیا جس کے کچھ اشعار پیش ہیں۔

    منظور ہے گزارش احوال واقعی
    اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
    سو سال سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
    کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
    آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
    ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
    کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
    مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
    استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
    یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
    مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
    مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
    قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں
    ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
    صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
    کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

    کہا جاتا ہے کہ غالب کے ان اشعار کو پڑھ کر بہادر شاہ ظفر نے غالب کو بخش دیا تھا۔

    (برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکلی کی ادبی تحقیق پر مبنی ایک تحریر سے اقتباسات)

  • اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    شعرائے متقدمین اور نثر نگاروں کے درمیان ادبی معرکہ آرائی، معاصرانہ چشمک کے علاوہ بعض ایسے تنازع بھی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں‌ جن میں اپنے عہد کی نام ور شخصیات اور مشاہیر کا نام سامنے آتا ہے۔ یہ جھگڑے کہیں خالص ادبی نوعیت کے تھے تو کبھی ان کی وجہ محض عداوت اور حسد رہا۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کو بھی اپنی مثنوی میں قدیم صوفی شعرا پر تنقید کے بعد اپنی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    ادبی تحریریں‌ اور علمی و تحقیقی مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فارسی کی مثنوی اسرارِ خودی کی اشاعت 1915ء میں ہوئی جو اقبال کے فلسفیانہ خیالات پر مبنی تھی۔ اسرارِ خودی کو چند سطروں میں سمیٹا جائے تو یہ ایسی مثنوی تھی جس میں اقبال نے اس دنیا کا تصور پیش کیا ہے جس میں مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنیاد پر متحد ہوں۔ اقبال کی فکر کہتی ہے کہ اس کی تکمیل کے لیے ‘خودی’ پر انحصار کرنا ہوگا اور عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن صوفی شاعروں کے ترکِ دنیا کا فلسفہ بے عملی کی ترغیب دیتا ہے جو مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ اقبال نے صوفیا پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا کہ مسلمانوں کو گوشہ نشینی کی نہیں عملی میدان میں‌ اترنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اقبال نے فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی اور ساتھ ہی فلسفۂ وحدت الوجود پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بعض ایرانی شعرا نے وحدت الوجود سے متعلق جو نکتہ طرازیاں کی ہیں، وہ صرف پُرکشش ہیں، مگر اس شاعری نے تقریباً تمام اسلامی دنیا کو ذوقِ عمل سے محروم کردیا ہے جسے خودی کا فلسفہ بیدار کرسکتا ہے۔

    ادبی تذکروں میں یہ تفصیل کچھ اس طرح پڑھنے کو ملتی ہے:

    علّامہ اقبال کی فارسی مثنوی 1915ء میں شائع ہوئی۔ اس میں افلاطونؔ اور حافظ شیرازیؔ پر علّامہ نے تنقید کی تھی۔ انہوں نے حافظؔ پر 35 اشعار میں تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کو حافظ کے کلام سے دور رہنے کی تلقین کی تھی جس پر ادبی حلقوں میں بحث چھڑ گئی۔ اخباروں میں ان کے خلاف مضامین لکھے گئے۔ اہلِ تصوف علاّمہ سے بدظن ہوگئے۔ بعض حضرات نے ان کی مثنوی کا منظوم جواب دیا۔ جہلم کے میاں ملک محمد قادری نے اپنے منظوم جواب میں حافظ شیرازی کا دفاع کیا، اسی طرح پیر زادہ مظفر احمد فضلی نے ’اسرارِ خودی‘ کے جواب میں ’’رازِ بے خودی‘‘ کے عنوان سے مثنوی لکھی جس میں علاّمہ اقبال پر تنقید اور حافظ کا دفاع کیا گیا تھا۔

    فارسی کے عظیم شاعر حافظ پر تنقید سے حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی بھی ناراض ہوئے۔ مؤخرالذّکر نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام اپنے خطوط میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’اسرار خودی‘ کے شائع ہونے کے دو سال بعد انہوں نے مولانا دریا بادی کو ایک خط تحریر کیا:’’اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے۔ کہتے ہیں عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے، خلافِ اسلام ہے۔‘‘

    جب ’رموز بے خودی‘ شائع ہوئی تو اقبالؔ نے اس کا نسخہ اکبر الہ آبادیؔ کو بھی روانہ کیا جنھوں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے مولانا دریا بادی کو لکھا: ’اقبال نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ بُرا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ ان کی مثنوی اسرارِ خودی آپ نے دیکھی ہوگی۔ اب رموزِ بے خودی شائع ہوئی ہے۔ میں نے نہیں دیکھی۔ دل نہیں چاہا۔‘ تاہم بعد میں اکبر الہ آبادی ہی نے علامہ اقبال اور حسن نظامی میں صلح کروا دی۔

    حافظ پر تنقید سے اہلِ تصوف بھی علّامہ سے ناراض ہوئے۔ انہوں نے اس تنقید کو تصوّف دشمنی پر محمول کیا۔ چنانچہ 15 جنوری 1916ء کو علامہ اقبال نے ’’وکیل‘‘ میں ’اسرارِ خودی اور تصوّف‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس سے یہ سطور ملاحظہ ہوں:

    ’’شاعرانہ اعتبار سے میں حافظؔ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں لیکن ملّی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراضِ زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے۔ اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو پست یا کمزور کرنے کا میلان رکھتے ہوں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔ جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ حالت افرادِ قوم کے لیے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطر ناک ہے۔‘‘

    انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو بھی اس کے دو ماہ بعد ایک خط میں یہی بات دہرائی اور فن کے متعلق اپنا نظریہ واضح کیا۔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہ ہوا اور غالباً پیدا بھی نہ ہوگا لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور اور ناتواں کرنے والی ہے۔‘‘

    ادھر علاّمہ اقبال کی حمایت میں مولانا اسلم جیراجپوری نے بھی ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ خواجہ حافظ ؔ کے بارے میں اس طرح کی آرا پہلے بھی ظاہر کی جاچکی ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے منادی کرا دی تھی کہ دیوانِ حافظ کوئی نہ پڑھے کیوں کہ لوگ اس کے ظاہری معنیٰ سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔

  • مانگے کی چیز برتنا!

    مانگے کی چیز برتنا!

    چراغ حسن حسرت کا یہ مضمون اُن کے قلم کی شوخی و ظرافت اور مزاح کی طاقت سے ایک نہایت دل پذیر تحریر کے ساتھ ہمارے سماجی رویوں پر گہری چوٹ ہے۔ حسرت نے یہ شگفتہ پارے کئی سال پہلے تحریر کیے تھے، مگر اس کی افادیت آج بھی وہی ہے، جو اس دور میں رہی ہوگی۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد کے مقبول ترین قلم کاروں میں سے ایک تھے۔

    حسرت اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں۔

    پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

    اصل مضمون تو بیری پین کا ہے، اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔ بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

    ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے چلے آئیں ہیں کہ معنی کہتے چلے جائیں گے۔

    میں نے عہد جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیات مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔۔۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنی ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

    غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔ مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہو کے رہ گیا۔

    یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت موثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔ چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

    آخر زندگی کا مقصد اس کے سوا اور ہے بھی کیا کہ خوش ہونے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر مانگے کی چیز برتنا زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے اور اللہ کی مخلوق کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تو اسے برا کون کہتا ہے۔ وہ تو ایک طرح کی عبادت ہے عبادت۔

    اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادوں کی مانگے تانگے کی چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو خوش کرنے کا کام کیسے لیا جائے یا لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی کوٹھی ہے اور کوٹی میں کوئی مالی ہے تو اس سے گھاس چھیننے کا کھرپا مانگ لائیے۔ اس بات پر چونک نہ پڑیے۔ حاشا و کلا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کو گھسیارا یا مالی سمجھتا ہوں یا میرے نزدیک کھرپا آپ کے مصرف کی کوئی چیز ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہو کہ جب آپ مالی سے کھرپا مانگیں تو اسے اس خیال سے کتنی طمانیت حاصل ہوگی کہ اس کا کھرپا بھی بڑے کام کی چیز ہے یعنی وہ اپنے پڑوسی سے عاریتاً کھرپا دے کے اس کی گردن اپنے بار احسان سے جھکا سکتا ہے۔

    آپ کو مالی کھرپا دینے سے ہر گز انکار نہیں کرے گا۔ اور انکار کرنے کی وجہ بھی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تو الٹا آپ کا احسان مند ہوگا کہ احسان اٹھانا گوارا کر لینا بیچارے مالی کے لئے کتنا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ وہ مہینوں لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہے گا۔ برسوں اس کے گن گائے گا۔ جس سے کہے گا کہ یہ صاحب جو پڑوس میں آکے ٹکے ہیں بہت شریف آدمی ہیں، ابھی کچھ دن ہوئے کہ مجھ سے کھرپا مانگ کر لے گئے تھے، جانے کیا ضرورت تھی، چاہتے تو نوکر کو بھیج دیتے، لیکن وہ خود آئے اور کھرپا مانگ کر لیے گئے اور یہ نہیں بلکہ چلتے وقت اس طرح میرا شکریہ ادا کیا کہ جیسے میں کہیں کا نواب ہوں اور جب بچے رات کو سوتے وقت کہانی کے لیے ضد کریں گے تو مالی اپنے پڑوسی بابو صاحب اور اپنے کھرپے کا قصہ لے بیٹھے، اور خدا جانے کتنی نسلوں تک یہی واقعہ کس قدر تغیر و تبدل کے ساتھ روتے بچوں کو بہلانے اور منانے کے کام آتا رہے گا۔

    یہ جو کچھ میں نے کہا ہے مثال کے طور پر کہا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ صرف مالی سے مانگیے اور کھرپا ہی مانگیے۔ مالی ہی سے نہیں اڑوس پڑوس میں جتنے لوگ ہیں سب سے مانگیے۔ راستہ چلتوں سے مانگیے۔ دوکانداروں پر اعتماد کریں تو ان سے مانگیے۔ درزی سے انگشتانہ قینچی، سوئی یا ہو سکے تو کپڑے سینے کی مشین مانگ لائیے۔ بڑھئی سے بسولا، لوہار سے ہتھوڑا، سقے سے مشک غرض کہ جس گھر پر اداسی چھائی ہوئی نظر آئے وہاں سے کوئی نہ کوئی چیز مانگ لائیے۔ اکثر لوگوں کی زندگی تو اس خیال نے تلخ کر رکھی ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے۔ نہ مال ہے نہ دولت، نہ اثاثہ نہ جائیداد، نہ وہ کسی پر احسان کرنے کے قابل ہیں نہ کوئی احسان اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی چیز مانگنا ان پر احسان کرنا ہے کیونکہ اس طرح ان کا بھی کوئی مصرف ہے۔ وہ بھی دوسرے انسانوں پر احسان کر سکتے ہیں۔ غرض مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے تو آپ بھی خوش دوسرے بھی خوش۔ دوسروں کو یہ احساس کہ وہ احسان کرنے کے قابل ہیں اور آ پ کو یہ احساس کہ آپ لوگوں کے احسان اٹھا کے ان کی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

    اب فرمائیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہوگی کہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مانگے کی چیز برتنے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں۔ کیسی ہی ضرورت کیوں نہ آپڑے کسی سے مانگیں گے نہیں۔ اس عادت نے ان کی طبیعت میں اکل کھرا پن پیدا کردیا ہے۔ مزاج میں شگفتگی نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس رو ہی دیں گے۔ گھر میں بیوی سے چخ چلتی ہے، باہر ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان سے ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں ان کی زندگی ہمیشہ تلخ رہے گی۔

    مجھے ایک شخص نے بتایا ہے کہ ان کا بچپن سے یہی حال ہے۔ اسکول میں تھے، جب بھی مانگے تانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اس میں کچھ زیادہ قصور نہیں۔ تربیت ہی ناقص ہوئی ہے ورنہ کون ہے جو اسکول میں مانگے کی چیز برتنے کو معیوب سمجھے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں جہاں اور بہت سی باتیں سکھائی جاتی ہیں وہاں مانگے کی چیزیں برتنا بھی سکھایا جاتا ہے اور سکھایا کیا جاتا ہے خود آجاتا ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے قلم، دوات، کتاب، پنسل، ربڑ مانگ کر برتتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔ لیکن اسکولوں میں چیزیں مانگنا محض اختیاری مضمون ہے لازمی مضمون قرار دے کر اسکول کے نصاب میں شامل کر لیا جائے اور یہی نہیں بلکہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کو تربیت دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں۔

    مانگے کی چیزیں برتنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چیزوں کو احتیاط سے برتنے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ اپنی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دوسرے کی چیز کو برتتے وقت انسان بڑی احتیاط کرتا ہے اور جو لوگ بچپن ہی سے مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ اپنی چیزیں بھی احتیاط سے برتنے لگتے ہیں۔

    غرض یہ کہ اگر آپ چیزیں برتنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو مانگے تانگے کی چیزیں استعمال کیجیے اور اگر آپ نے بہت سی ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں اور انہیں برتنے کا سلیقہ نہیں آیا تو جو کوئی مانگنے آئے اسے بے تکلف دے ڈالیے۔ اس طرح آپ کی چیزیں محفوظ رہیں گی۔ اور اس زمانے میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ نئی چیز یں نہ خریدی جائیں اور پرانی چیزوں ہی سے کام لیا جائے اور اگر کوئی صاحب اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی طریقہ نہیں سوجھتا تو میری خدمات حاصل کریں۔

  • اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے!

    اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے!

    فراز جیسے سخن طراز کا تذکرہ ہو تو ان کا وہ مشہور کلام بھی سماعتوں میں رس گھولنے لگتا ہے جسے پاکستان کے بڑے گلوکاروں نے گایا۔ فراز کی غزلیں ہوں یا نظمیں اور فلموں میں‌ شامل کی گئی وہ شاعری جو نور جہاں اور مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کی گئی، آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے۔ فراز کے مجموعہ ہائے کلام کے کئی ایڈیشن بازار میں آئے اور فروخت ہوگئے۔ احمد فراز اردو کے صفِ اوّل کے شاعر اور اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کی شاعری میں رومانویت اور مزاحمت کا عنصر نمایاں ہے۔

    یہ پارہ جمیل یوسف کی کتاب "باتیں کچھ ادبی’ کچھ بے ادبی کی” سے لیا گیا ہے جو بطور شاعر احمد فراز کی اہمیت اور مقبولیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جمیل یوسف نے شاعری اور ادبی تنقید کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلا یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

    جمیل یوسف لکھتے ہیں، ”شاعروں میں جو شہرت، عزت اور دولت احمد فراز نے کمائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کسی اور شاعر کو زندگی میں وہ بے پناہ محبت اور والہانہ عقیدت نہیں ملی جو احمد فراز کے حصے میں آئی۔ اقبال اور فیض کی بات الگ ہے۔ وہ بلاشبہ احمد فراز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے شاعر تھے، ان کی زندگی میں بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کچھ کم نہ تھی مگر ان کی پذیرائی اور ان کی اہمیت کی سطح کچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ پھر ان کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ اتنا وسیع اور بے کراں نہیں تھا۔ مثلاً فراز کی زندگی میں ان کے شعری مجموعے جس کثیر تعداد میں فروخت ہوئے اس کی کوئی مثال اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پھر جتنی محفلوں اور مشاعروں میں احمد فراز کو سنا گیا اس کی بھی کوئی نظیر اردو شاعری کی تاریخ میں موجود نہیں۔

    جمیل یوسف مزید لکھتے ہیں، ایک مشاعرے کے دوران ظفر اقبال نے احمد فراز سے کہا کہ ” فراز! جس طرح کی شاعری تم کرتے ہو، کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد یہ زندہ رہے گی؟”

    احمد فراز نے جواب دیا، ”ظفر اقبال! جتنی عزت، لوگوں کی محبت اور شہرت مجھے مل گئی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری شاعری میرے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے یا نہیں۔”

  • کوٹھی کے صحن میں ‘بزمِ‌ اقبال’

    کوٹھی کے صحن میں ‘بزمِ‌ اقبال’

    علّامہ اقبال کی کوٹھی پر یوں تو روز ہی کوئی ملاقاتی آیا کرتا تھا، لیکن اکثر شام کو مشاہیر اور کئی باذوق شناسا اکٹھا ہوتے تو علمی و ادبی موضوعات کے ساتھ سیاست پر بھی خوب گفتگو ہوتی اور مباحث چھیڑے جاتے۔ اقبال سب کو سنتے اور مناسب سمجھتے تو اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے۔ وہ حقّہ پیتے جاتے اور عام دل چسپی کے موضوعات بھی باتیں کرتے۔ یوں اقبال کی صحبت میں وقت گزرنے کا احساس ہی کسی کو نہ ہوتا۔

    مشاہیرِ اردو ادب کی تحریریں پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    چراغ حسن حسرت جیسے انشا پرداز، شاعر اور صحافی بھی علّامہ اقبال کی شخصیت اور افکار سے بے حد متاثر تھے۔ انھوں نے اپنی ایک تحریر بعنوان بزمِ اقبال میں چند لمحے سپردِ‌ قلم کی تھی جس سے یہ سطور قارئین کی دل چسپی کے لیے نقل کی جارہی ہیں۔ چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں:

    میں نے علامہ اقبال کو جلسوں میں بھی دیکھا ہے، پارٹیوں، دعوتوں اور پنجاب کونسل کے اجلاسوں میں بھی، لیکن جب ان کا ذکر آتا ہے تو میرے تصور کے پردے پر سب سے پہلے ان کی جو تمثال ابھرتی ہے وہ ان کی نج کی صحبتوں کی تصویر ہے۔

    شام کا وقت ہے، وہ کوٹھی کے صحن میں چارپائی پر ململ کا کرتا پہنے بیٹھے ہیں۔ چوڑا چکلا سینہ، سرخ و سپید رنگت، زیادہ سوچے کی وجہ سے آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں۔ چارپائی کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی ہیں، لوگ آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لوگ ہیں، شاعر، لیڈر، اخبار نویس اسمبلی کے ممبر، وزیر، پارلیمنٹری سیکرٹری، طالب علم، پروفیسر، مولوی۔ کوئی آدھ گھنٹے سے بیٹھا، کوئی گھنٹا بھر، لیکن بعض نیاز مند ایسے ہیں جو گھنٹوں بیٹھیں گے۔ اور خاصی رات گئے گھر جائیں گے۔

    حقہ کا دور چل رہا ہے۔ علمی ادبی اور سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال سب کی باتیں سنتے ہیں اور بیچ میں ایک آدھ فقرہ کہہ دیتے ہیں۔ جو خود اس موضوع پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب اندر چلا آ رہا ہے۔ اردو میں باتیں کرتے کرتے پنجابی کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی انگریزی کا ایک آدھ فقرہ زبان پر آجاتا ہے، لیکن بات میں الجھاؤ بالکل نہیں۔ جو کہتے ہیں دل میں اتر جاتا ہے۔

    میں نے کبھی ان کی صحبتوں میں اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا ہے، لیکن مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا ہے کہ مجھ سے دور ہیں۔ بہت دور شاذ و نادر ہی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو انہیں ہم دنیا والوں کے قریب لے آتا ہے۔

    ان کی گفتگو علم و حکمت اور فلسفہ و سیاست کے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لطیفے اور پھبتیاں بھی کہتے تھے۔ میں نے انہیں موسیقی اور پتنگ بازی کے متعلق بھی باتیں کرتے سنا ہے۔ ان کے ہاں آنے والوں میں صرف اہلِ علم ہی نہیں تھے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں علم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ ان سے انہیں کے ڈھب کی باتیں کرتے۔

  • لالٹین کا جواب

    لالٹین کا جواب

    خواجہ حسن نظامی کو اردو ادب کے تاریخ میں کئی حیثیتوں سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ وہ ایک ادیب و مؤرخ، انشا پرداز اور صحافی تھے جنھوں نے اپنی فکرِ‌ رسا اور نکتہ بینی کی عادت سے کئی ایسے مظاہر اور اشیاء کو بھی اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے جنھیں‌ ہم غیر اہم یا معمولی خیال کرسکتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کی نثر رواں، بے حد شگفتہ اور دل کش ہے اور ان کا انداز قاری کو متوجہ کرنے کی قوّت رکھتا ہے۔

    مشاہیرِ‌ اردو ادب کی بہترین اور لازوال تحریریں پڑھیے

    خواجہ صاحب کے زمانے میں‌ اجالا کرنے کے لیے لالٹین کا استعمال عام تھا جو بظاہر ایک سادہ اور معمولی چیز تھی، مگر جب خواجہ حسن نظامی کی خوش فکری نے اس پر توجہ کی تو یہ مختصر مگر نہایت پُراثر مضمون سامنے آیا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ایک رات میں نے لالٹین سے پوچھا: کیوں بی! تم کو رات بھر جلنے سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی؟

    بولی: آپ کا خطاب کس سے ہے؟ بتی سے، تیل سے، ٹین کی ڈبیہ سے، کانچ کی چمنی سے یا پیتل کے اس تار سے جس کو ہاتھ میں لے کر لالٹین کو لٹکائے پھرتے ہیں۔ میں تو بہت سے اجزا کا مجموعہ ہوں۔

    لالٹین کے اس جواب سے دل پر ایک چوٹ لگی ۔ یہ میری بھول تھی۔ اگر میں اپنے وجود کی لالٹین پر غور کر لیتا تو ٹین اور کانچ کے پنجرے سے یہ سوال نہ کرتا۔ میں حیران ہوگیا کہ اگر لالٹین کے کسی جزو کو لالٹین کہوں تو یہ درست نہ ہوگا اور اگر تمام اجزا کو ملا کر لالٹین کہوں تب بھی موزوں نہ ٹھہرے گا، کیونکہ لالٹین کا دم روشنی سے ہے۔ روشنی نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مگر دن کے وقت جب لالٹین روشن نہیں ہوتی، اس وقت بھی اس کا نام لالٹین ہی رہتا ہے۔ تو پھر کس کو لالٹین کہوں۔

    جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، تو مجبورا لالٹین ہی سے پوچھا: میں خاکی انسان نہیں جانتا کہ تیرے کس جزو کو مخاطب کروں اور کس کو لالٹین سمجھوں۔

    یہ سن کر لالٹین کی روشنی لرزی، ہلی، کپکپائی۔ گویا وہ میری ناآشنائی و نادانی پر بے اختیار کھلکھلا کر ہنسی اور کہا: "اے نورِ خدا کے چراغ، آدم زاد! سن، لالٹین اس روشنی کا نام ہے جو بتی کے سر پر رات بھر آرا چلایا کرتی ہے۔ لالٹین اس شعلے کو کہتے ہیں جس کی خوراک تیل ہے اور جو اپنے دشمن تاریکی سے تمام شب لڑتا بھڑتا رہتا ہے۔ دن کے وقت اگرچہ یہ روشنی موجود نہیں ہوتی لیکن کانچ اور ٹین کا پنجرہ رات بھر، اس کی ہم نشینی کے سبب لالٹین کہلانے لگتا ہے۔ تیرے اندر بھی ایک روشنی ہے۔ اگر تو اس کی قدر جانے اور اس کو پہچانے تو سب لوگ تجھ کو روشنی کہنے لگیں گے ، خاک کا پتلا کوئی نہیں کہے گا۔”

    دیکھو، خدا کے ولیوں کو جو اپنے پروودگار کی نزدیکی و قربت کی خواہش میں تمام رات کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے، تو دن کے وقت ان کو نورِ خدا سے علیحدہ نہیں سمجھا جاتا رہا ، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی ان کی وہی شان رہتی ہے۔ تو پہلے چمنی صاف کر۔ یعنی لباسِ ظاہری کو گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کے بعد ڈبیا میں صاف تیل بھر۔ یعنی حلال کی روزی کھا، اور پھر دوسرے کے گھر کے اندھیرے کے لئے اپنی ہستی کو جلا جلا کر مٹا دے۔ اس وقت تو بھی قندیلِ حقیقت اور فانوسِ ربانی بن جائے گا۔”

  • تذکرۂ میرؔ: وہ غریبُ الوطن شاعر جسے ہوائے شوق لکھنؤ لے گئی!

    تذکرۂ میرؔ: وہ غریبُ الوطن شاعر جسے ہوائے شوق لکھنؤ لے گئی!

    اردو ادب میں باقر مہدی کا نام ایک روایت شکن اور ممتاز نقاد اور بحیثیت شاعر ہی نہیں کیا جاتا بلکہ وہ ایک حد دجہ انا پرست اور درشت مزاج انسان بھی مشہور تھے۔ ہمیں خدائے سخن میر تقی میر کی انا اور خود داری کے چند واقعات بھی ادبی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ تحریر بھی میر کی زندگی اور ان کے ایک کڑے وقت سے متعلق ہے۔

    اردو ادب سے متعلق تحریریں اور اہلِ‌ قلم کے مضامین پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    یہاں ہم میر سے متعلق باقر مہدی کی تحریر کردہ چند سطریں‌ نقل کر کے آگے بڑھیں گے مگر یہ واضح کر دیں کہ یہاں باقر مہدی کی انا پرستی اور مزاج کی سختی کا ذکر میر کی شخصیت کی مناسبت سے کیا ہے۔ مقصود، شاعرِ درد و غم میر تقی میر پر اسلم فرخی کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کرنا ہے۔

    آغاز باقر مہدی کی تحریر سے کرتے ہیں جنھوں نے میر کی زندگی کو یوں دیکھا:

    غم کے کیا معنی ہیں؟ بھوک، پیاس، در بدری، معاشی جدوجہد کی مسلسل ناکام کوششیں، ہجرت اور پھر موت کی پیہم خواہش۔ اس لیے نجات کی ساری راہیں عذاب الیم سے ہو کر گزرتی ہیں اور اس سفر کا زاد راہ ’’صبر‘‘ ہے۔ میر کی شعری شخصیت کا پہلا پتھر ’’صبر‘‘ تھا۔ کمسنی میں یتیمی، کم عمری میں تلاش معاش، عزیزوں اور رشتہ داروں کی بے رخی، محسنوں کا قتل اور بار بار سر پر مسلسل آلام کی دھوپ، رات آتی بھی ہے تو ایک عذاب اور ساتھ لاتی ہے…. بے خوابی اور بے قراری۔۔۔ ایک کم عمر لڑکا ان بحرانی حالات میں پڑوان چڑھتا ہے تو اکثر اس کی شخصیت ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے لیکن میر تو اس برگد کی طرح تھے جس کی شاخیں آندھیوں کو بھی جذب کر لیتی ہیں،

    خوگر ہوئے ہیں عشق کی گرمی سے خار و خس
    بجلی پڑی رہی ہے مرے آشیاں کے بیچ

    اسلم فرخی نے لکھنؤ میں میر کے ساتھ پیش آنے والے ایک ناخوش گوار واقعے کو اپنی تحریر میں حوالہ و سند کے ساتھ یوں سمویا ہے: میر جب تک دلّی میں رہے شاہی دربار سے بھی کچھ نہ کچھ آتا رہتا تھا، لیکن شاہی دربار کیا، ایک درگاہ رہ گئی تھی جس کا تکیہ دار خود بادشاہ تھا۔ دلّی کے صاحبانِ کمال اس بے یقینی سے دل برداشتہ ہوکر شہر چھوڑے جارہے تھے۔

    استاد الاساتذہ سراجُ الدّین علی خان آرزو لکھنؤ چلے گئے۔ مرزا محمد رفیع سودا کہ سر خیالِ شعرائے شاہ جہاں آباد تھے، لکھنؤ چلے گئے۔ میر سوز بھی لکھنؤ چلے گئے، دلّی اجڑ رہی تھی، لکھنؤ آباد ہو رہا تھا کہ وہاں داخلی اور بیرونی کش مکش نہ تھی۔

    جان و مال کا تحفّظ تھا، در و دیوار سے شعر و نغمہ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ آصفُ الدّولہ کی داد و دہش سے گھر گھر دولت کی گنگا بہہ رہی تھی۔ نئی تراش خراش، نئی وضع، ایک نیا طرزِ احساس، ایک نیا تہذیبی مرکز وجود میں آچکا تھا۔

    سوداؔ کا انتقال ہوا تو آصفُ الدّولہ کو خیال ہوا کہ اگر میر لکھنؤ آجائیں تو لکھنؤ کی شعری حیثیت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ چناں چہ آصفُ الدّولہ کے ایما سے نواب سالار جنگ نے زادِ راہ اور طلبی کا پروانہ بھجوا دیا۔

    میر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں فرّخ آباد کے نواب نے انھیں صرف چھے دن کے لیے روکنا چاہا، مگر میر ہوائے شوق میں اڑ رہے تھے، رکے نہیں۔ حُسن افزا منزل کے مشاعرے میں ‘‘ہستی اپنی حباب کی سی ہے۔ یہ نمائش سراب کی سی ہے’’ پڑھ کر آگے بڑھ گئے اور لکھنؤ پہنچے۔

    یہ واقعہ ۱۱۹۶ھ (1782ء) کا ہے۔ میر اس وقت ساٹھ برس کے ہوچکے تھے۔ اور اب یہ راقم آثم کہ اردو ادب کے البیلے انشا پرداز مولوی محمد حسین آزاد کا سوانح نگار بھی ہے اور خوشہ چیں بھی، الفاظ کے رنگ و آہنگ اور تخیل کی تجسیم کے اس باکمال مصور کے نگار خانے کی ایک تصویر آپ کی نذر کرتا ہے اور سلسلۂ سخن کو یوں رونق دیتا ہے کہ ‘‘لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔

    ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستو لیے کا کمر سے بندھا۔ ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کے عرض کے پائنچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلِ محفل ہوئے تو شہرِ لکھنؤ میں نئے انداز، نئی تراش، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انھیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔

    میر صاحب بے چارے غریبُ الوطن، زمانے کے ہاتھ پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفوِ تقصیر چاہی، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔

    آزاد کے نگار خانے کا ورق ختم ہوا۔ میر صاحب آصفُ الدّولہ کے یہاں حاضر ہوئے۔ آصفُ الدّولہ لطف و کرم سے پیش آئے۔ دو سو روپے ماہ وار وظیفہ مقرر ہوا۔ نواب بہادر جاوید خان کے یہاں بائیس روپے ماہ وار ملتے تھے اور میر صاحب خوش تھے کہ روزگار کی صورت برقرار ہے، اب دو سو ملتے ہیں اور میر صاحب فریاد کرتے ہیں۔

    خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
    وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

    لکھنؤ میں میر صاحب نے عمرِ عزیز کے اکتیس برس گزارے۔ دلّی میں دل کی بربادی کے نوحے تھے، لکھنؤ میں دل اور دلّی دونوں کے مرثیے کہتے رہے:

    لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
    میر کو سر گشتگی نے بے دل و حیراں کیا

    1810ء کو نوّے برس کی عمر میں میر صاحب کا انتقال ہوا۔

    مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر
    کیا دوانے نے موت پائی ہے

  • تان رس اور میرزا بابر بہادر کے شکاری کتّے

    تان رس اور میرزا بابر بہادر کے شکاری کتّے

    ہندوستان کی سرزمین پر سُروں کی بادشاہت اور ساز و آواز کا صدیوں سے راج رہا ہے۔ یہاں‌ بیسویں صدی کے وسط تک کلاسیکی گائیکی کے میدان میں کئی سریلے اور باکمال ہو گزرے ہیں۔ یہ موسیقار اور گویّے سلاطینِ وقت، نوابوں اور امراء کے درباروں‌ سے منسلک رہے اور عوام میں‌ بھی مقبول تھے۔ انہی میں ایک نام تان رَس کا بھی ہے جو ایک مشہور ہندوستانی گویّے تھے۔

    اپنے فن میں‌ طاق اور اپنے انداز میں‌ یگانہ تان رس کا اصل نام قطب بخش تھا، اور تان رس ان کا شاہی خطاب۔ مغل دور کے اس گویّے کا یہ واقعہ ان کے فن و انداز سے متعلق نہیں بلکہ شاہزادوں اور شاہی خاندان کی اہم شخصیات کے ہنسی ٹھٹھے اور اپنے وظیفہ خواروں‌ سے چھیڑ چھاڑ کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ یہ دل چسپ واقعہ مرزا احمد سلیم شاہ عرش تیموری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔ بائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں قلعے میں دیوان عام کے پیچھے زنانہ محل واقع تھا، جس کو بیٹھک کہتے تھے اس کے قریب ایک بڑا حوض تھا جس پر سنگِ سرخ کا قد آدم کٹہرا لگا ہوا تھا۔

    حوض کے ایک طرف کوٹھے اور دوسری طرف میرزا بابر فرزند اکبر شاہ ثانی کی خوبصورت کوٹھی بنی ہوئی تھی اور وہاں سے ذرا ہٹ کر حضرت ابو ظفر ولی عہد بہادر کا محل تھا۔ وہاں تان رسؔ خاں بیٹھے گائنوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جب تعلیم ختم کر چکے تو چلنے کا ارادہ کیا۔ دریچے میں سے دیکھا کہ شاہزادۂ آفاق میرزا بابر بہادر حوض پر کھڑے ہیں اور دو بڑے کتّے جو صورت شکل اور قد و قامت میں مثل شیر کے ہیں، ساتھ ہیں۔

    تان رسؔ خاں ان کتوں کے خوف سے بڑی دیر تک باہر نہ نکلے لیکن جب بہت دیر ہوگئی تو مجبوراً محل سے باہر آئے اور اس زمانے کے قاعدے کے مطابق منہ پر کپڑا ڈال کر میرزا بابر بہادر سے چھپ کے نکلے مگر صاحبِ عالم عالمیاں کی نگاہ پڑگئی اور للکار کر کہا، ’’کیوں بے تینو!‘‘

    انہوں نے فوراً عرض کیا، ’’غریب پرور!‘‘

    صاحبِ عالم نے فرمایا، ’’کیوں صاحب! اب تو تم الگ الگ جانے لگے۔‘‘

    انہوں نے عرض کیا، ’’حضور! فدوی کی کیا مجال، خانہ زاد نے دیکھا نہیں تھا۔‘‘

    فرمایا، ’’ہاں… اچھا!‘‘

    یہ کہہ کر ایک کتّے کو چھچکارا اور دوسرے کو بھی للکارا۔ بس کیا تھا گویا کتّوں کے بدن میں بجلی کوند گئی۔ نہایت اضطراب کے ساتھ ادھر اُدھر پھرنے لگے۔ کتّے آدمی کی باؤلی کھائے ہوئے نہ تھے، ورنہ اس دن موت تو آنکھوں میں پھر ہی گئی تھی۔ آخر کار تان رسؔ خاں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، جب جا کر کہیں چھٹکارا ملا اور فرمایا، ’’اچھا جاؤ آئندہ خیال رکھنا۔‘‘

  • جواب اس کا کون دے؟

    جواب اس کا کون دے؟

    تقسیمِ ہندوستان کا اثر اردو زبان و ادب اور اردو ادیبوں پر جیسا کچھ پڑا ہے اس کا اندازہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔

    ہندوستان میں تو حکومت کی طرف سے اردو کو دیس نکالا دیا گیا۔ اور پاکستان میں اردو بیچاری سرکاری زبان بن گئی۔ مگر سرکاری زبان ہونے کے باوجود بیچاری مہاجرہ ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی بہت سی سوکنیں ہیں۔ پنجاب میں پنجابی ہے، سندھ میں سندھی ہے، سرحد میں پشتو ہے، بلوچستان میں بلوچی ہے۔ اور بنگال میں بنگالی۔ اسی لیے اردو کو ابھی اس کا اپنا گھر الاٹ نہ ہو سکا اور وہ مجبوراََ سرکاری کیمپ میں مقیم ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں یعنی میرا مطلب یہ ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں اور خواجہ ناظم الدین تقریریں فرما رہے ہیں کہ اردو کو ہر گھر میں جگہ ملنی چاہیے مگر چونکہ تقریریں تو تقریریں ہوتی ہیں اس لیے۔۔۔۔۔۔

    ویسے اردو کی یہ زبوں حالی کوئی نئی نہیں۔ بہت پرانی ہے جب سے قلعۂ معلّی اجڑا اور داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی آخری شمع یعنی حضرت بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ جاہ و حشم کا شیرازہ بکھر گیا۔ تبھی سے اردو کی حالت بڑی زار اور بڑی زبوں ہے۔ ہائے ہائے وہ زبان جس میں حضرتِ میر تقی میر، حضرت شیفتہ، حضرت انیس، حضرت انشا شاعری فرماتے تھے۔ استاد شہ حضرت ذوق اور میرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب نے جس کی نوک پلک سنواری تھی، جو نواب سعادت علی خاں کے گھر میں پلی جسے بیگماتِ شاہانِ مغلیہ نے لہجہ اور لوچ عطا کیا جو قیصر باغ میں جوان ہوئی۔۔۔۔۔ وہی زبان آج بھٹیاروں کے منہ میں آگئی ہے۔ برا ہو ان ترقی پسند مصنفین کا۔۔۔ انہوں نے زبان کو شاہی درباروں سے نکال کر بیچ بازاروں میں کھڑا کر دیا۔ کہاں یہ زبان شاہزادوں اور شہزادیوں کی تھی اور کہاں یہ زبان مزدوروں اور کسانوں میں آگئی۔ کہاں تو میر تقی میر جیسے اہل زبان شاعر تھے اور کہاں ان ترقی پسند مصنفوں نے نظیر اکبر آبادی جیسے پھکڑ شاعر کو بانس پر چڑھایا تھا۔ ان ترقی پسندوں نے جو کچھ کیا جیسے وہ کم نہ تھا کہ آج تقسیم کے بعد بیچاری اردو کے پیچھے نئی ساڑستی لگی ہوئی ہے۔ شین قاف تو پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور اب یہ خانماں بربادی۔ خدا کی سنوار اس موئے فرنگی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جس کی بدولت اب برس روز سے اردو یوں سڑکوں کی خاک پھانکتی پھر رہی ہے۔

    واللہ کیا عرض کریں حضور۔ اب تو اردو کی ساری اٹھان کا ستیا ناس ہو کر رہ گیا ہے۔ نہ و صنائع بدائع رہے، نہ وہ ضلع جگت۔ نہ وہ تشبیہات نہ وہ استعارے۔ نہ وہ سلطان العلوم رہے، نہ سعادت علی خان کے ادبی دربار رہے۔ نہ وہ مشاعرے ہیں نہ وہ شعر و سخن کی محفلیں ہیں۔ ہائے ہائے حضور۔ اب تو اہلِ فن اٹھ گئے۔ بس کٹھ ملا رہ گئے۔

    دہلی اور لکھنؤ کے کچھ ٹکسالی اشراف ایسے بھی تھے۔ جنہوں نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام پھر سے دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ مگر نیرنگیِ زمانہ کی بابت کیا کہیے کہ کل تک جو تتلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ آج اردو کے بڑے بڑے جغادری ادیب بن بیٹھے ہیں۔ بقول کسے پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند۔ اور پڑ گئے اردو کے پیچھے ڈنڈا لے کے۔

    ارے خدا کے بندو۔ اردو بھی کوئی گائے بکری ہے! غضب خدا کا یہ صنفِ نازک ہے۔ صنفِ نازک۔ ہوش کے ناخن لو محلوں کی پلی نازک اندام کو کہاں عام لوگوں اور عامیوں میں کھینچ لائے۔ جواب اس کا کون دے؟

    جانے کس کم بخت نے (ادب برائے ادب) کی بجائے (ادب برائے زندگی) کا نعرہ لگایا اور لگا اردو کے جسم کا سارا زیور لوٹنے۔ صنائع بدائع ، تشبہیہیں، استعارے، محاورے، ضلع جگت سب لوٹ لیے تو پھر اس کے خد و خال بگاڑنے شروع کیے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم کا ادیب کان پر قلم رکھ کر نکلا اور خرافات نگاری کے پل باندھنے لگا۔ پہلے کسی اہل زبان سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور پھول چنے جا رہے ہیں۔ اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اردو نہیں روڑے اور کنکر مار رہا ہے۔ ان ترقی پسند ادیبوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھو تو صاف معلوم ہو جائے گا۔ جھوٹا مسالہ کھوٹا کام۔ اجی قبلہ و کعبہ ہم دریافت کریں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ ادب کا تو صرف ادب سے تعلق ہو سکتا ہے۔ ادب اگر ادب سے متعلق نہ رہے تو پھر وہ کہاں کا ادب اور کیسا ادب۔ یا اگر ادب کے تعلق کے لیے اسی کے شایان شان زندگی بھی ہو۔ یعنی بادشاہوں کی زندگی، امرا کی زندگی۔ یہ فضلو خیرو کی زندگی سے اردو زبان و ادب کو کیا تعلق؟

    اب اللہ میاں ہی ان ترقی پسند ادیبوں سے سمجھیں۔ ایک دو حرف کیا لکھنا آیا خود کو شیخ معجونی سمجھنے لگے۔ شیخ معجونی نے ہلدی کی ایک گرہ کیا پائی کہ خود کو عطار سمجھ بیٹھے۔ بس شیخی اور نمود کی تصویر ہیں یہ لوگ۔ نہ بڑوں کا پاس نہ بزرگوں کا کچھ ادب۔ میر تقی میر کو قنوطی اور غیر ترقی پسند شاعر کہتے ہیں اور اس پھکڑ باز، بے سرے، یاوہ گو نظیر اکبر آبادی کو سب سے بڑا ترقی پسند شاعر بنا بیٹھے۔ حالانکہ حضرت شیفتہ نے اس کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ دے دیا تھا کہ یارو وہ شاعر نہیں پھکڑ باز ہے۔

    اللہ اللہ کیا زبان دان تھے وہ لوگ! مر گئے مگر زبان کی اینٹھن نہ گئی، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان۔ ہیروں جواہرات کی طرح جگمگاتی زبان۔ وہ زبان جو رگ گل سے بلبل کے پر باندھتی تھی۔ وہ زبان جس کی شاعری کے ہزاروں بحر پھیلے ہوئے تھے۔ وہ زبان جس کے دامن میں الفاظ کا بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا تھا۔ وہی زبان آج لٹی ہاری، نوچی کھسوٹی، ژولیدہ زلفیں لیے یوں چوراہے پر کھڑی ہے۔

    آج میر و غالب، مومن و سودا، انیس و دبیر، انشا و شیفتہ کی روحیں بہشت میں پریشان اور لشتم پشتم پھر رہی ہوں گی کہ ہائے ہائے یہ اردو کی کیا حالت ہو گئی؟

    (اردو کے ممتاز ادیب، مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی طنزیہ مضامین پر مشتمل کتاب پبلک سیفٹی ریزر سے ایک تحریر)