Tag: ادبی اقتباسات

اردو کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں اور ان کی کتابوں سے ادبی اقتباسات جن میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، شان الحق حقی، نیاز فتح پوری و دیگر شامل ہیں

  • فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض صاحب کی شخصیت آہستہ آہستہ پاکستانی ادب اور تہذیب و ثقافت کا امتیازی نشان بنتی چلی گئی۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، اسی لیے ایک شاعر کی حیثیت سے، ایک نثر نگار کی حیثیت سے، ایک صحافی کی حیثیت سے، ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے، ایک ڈاکیومنٹری اور فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے، ایک استاد کی حیثیت سے، ایک دانشور کی حیثیت سے، ایک ثقافتی کارکن اور مفکر کی حیثیت سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک انسان کی حیثیت سے انہوں نے اپنے عہد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

    فیض صاحب کی بہ حیثیت صحافی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں ان کے ایک رفیقِ کار اور پاکستان میں انگریزی صحافت کی ایک اہم شخصیت احمد علی خان نے لکھا:

    ’’فیض صاحب نے صحافت کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ملکی صحافت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ تقسیم سے سال بھر پہلے تک برصغیر پاک و ہند میں جہاں کئی کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے کانگریس کے ہم نوا تھے، وہاں صرف تین قابلِ ذکر انگریزی روزنامے تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ ڈان، دہلی سے نکلتا تھا جب کہ اسٹار آف انڈیا اور مارننگ نیوز کلکتے سے نکلتے تھے۔ ان دنوں اس علاقے میں جو اب مغربی پاکستان (اور اب صرف پاکستان) کہلاتا ہے انگریزی کے چار قابل ذکر روزنامے تھے۔ ٹریبیون اور سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور سے شائع ہوتے تھے جب کہ سندھ آبزرور اور ڈیلی گزٹ کراچی سے نکلتے تھے۔ یہ چاروں اخبار غیر مسلموں کے ہاتھوں میں تھے اور ان میں سے کوئی بھی تحریک پاکستان کا حامی نہ تھا۔ 1947ء میں جب میاں افتخار الدین مرحوم نے پاکستان ٹائمز کی بنیاد ڈالی تو گویا دو کام بیک وقت انجام دیے۔ ایک تو تحریک پاکستان کو جو نہایت نازک موڑ پر پہنچ چکی تھی تقویت پہنچائی اور دوسرے نوزائیدہ مملکت کی آئندہ صحافت کی سمت اور معیار کا نشان بھی دیا۔ لفظ پاکستان کے شیدائی پہلے تو اس کے نام ہی پر جھوم اٹھے اور پھر بہت جلد اس اخبار کے صحافتی معیار اور اس کے پر وقار اور متین انداز سے متاثر ہونے لگے۔

    فیض صاحب نے جب اس کی ادارت کا بوجھ سنبھالا تو وہ اس ذمہ داری کے لیے نئے تھے لیکن ان میں اس کام کی بنیادی صلاحیتیں موجود تھیں۔ علمی لیاقت، سیاسی ادراک، تاریخ کا شعور، معاشرے کے مسائل کا علم، ادب پر گہری نظر، اور اچھی نظر لکھنے (انگریزی اور اردو) کا سلیقہ اور اپنی ان تمام صلاحیتوں سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ان کے اداریے اپنی سلاست، شگفتگی اور ادبیت کے باعث ابتداء ہی سے مقبول ہوئے۔ ملک کے سیاسی مسائل پر فیض صاحب کے اداریے وسیع حلقے میں پڑھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ ‘‘

    فیض صاحب کاتا اور لے دوڑے کے راستے پر چلنے کے قائل نہیں تھے۔ شاعری ہو نوکری ہو خطابت ہو یا صحافت ہو غرض یہ کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ جلد باز نہیں رہے۔ ایک طرح سے تکمیلیت پسند شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان کے بیش تر کام ادھورے رہ گئے۔ لیکن اخبار کا معاملہ مختلف ہے اس میں سر پر روزانہ ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ آج کا کام آج ہی ہونا چاہیے ورنہ تو اخبار کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ ان سب ترجیحات کے باوجود یہاں بھی انہوں نے اپنے ہی انداز میں کام نمٹایا۔ ان کے دوست حمید اختر کہتے ہیں: ’’وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر، پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔ موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہو جاتا تھا لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔ پاکستان ٹائمز کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے ہیں اور جب فرار کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں اس وقت اس بوجھ کو اتارتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انہیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے۔ جب کہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس کے بعد لکھتے تھے۔‘‘

    سبط حسن نے بھی جو کہ صحافت کی دنیا میں ان کے ساتھ تھے فیض صاحب کی صحافتی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے: ’’فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف نہیں لکھا بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی، اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دلچسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے لے کر پڑھتے تھے۔ ‘‘

    اس کا ایک سبب ان کی واضح سیاسی سوچ اور مسئلے کو اس کی اصل گہرائی تک جا کر دیکھنے کی صلاحیت تھی۔

    (ماخوذ از مقالہ بعنوان فیض احمد فیض…. شخصیت اور فن، مصنّفہ اشفاق حسین)

  • اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور مؤثر بتایا ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر ’’تغزل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

    صوتی سطح پر اس تغزل کی سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہوتی ہے جسے ہم شعر کا صوتی آرکسٹرا کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف صوتی اکائیوں (صوتیوں) کے صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے مشاقانہ جوڑ توڑ سے بھی۔ اردو کے شاعر کے پاس ان ’صوتیوں ‘ کا کل سرمایہ 47 ہے۔ ان میں سے 10 مصوتے (Vowels) ہیں اور 37 مصمتے (Consonants) ان مصمتوں میں 6 عربی فارسی سے مستعار آوازیں ہیں، /ف/، /ز/، ژ/، /خ/، /غ/، اور/ق/۔ ان میں /ژ/ کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے۔ /ق/ سے قطع نظر جو ایک بند شیہ (Stop) ہے، باقی تمام آوازیں صفیری (Fricatives) ہیں جن کی ادائیگی کے وقت ہوا خفیف ’’رگڑ‘‘ کے ساتھ نکلتی ہے۔ غالب اور اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا صوتی آہنگ فارسی کا ہے، اس لیے بے بنیاد ہے کہ مذکورۂ بالا 6 آوازوں کو چھوڑ کر اردو کی باقی تمام آوازیں (بہ شمولِ مصوتے) خالص ہند آریائی ہیں۔ ہر چند ان میں سے بعض فارسی عربی کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔

    فارسیت کا الزام ان دونوں شاعروں کے شعری فرہنگ پر لگایا جا سکتا ہے، صوتی آہنگ پر نہیں۔

    اقبال کی ابتدائی دور کی دو نظمیں اس اعتبار سے دل چسپ مواد فراہم کرتی ہیں کہ صوت و معنیٰ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’’بانگِ درا‘‘ کے دوسرے حصے میں شامل ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ہے جس میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ سات اشعار پر مشتمل یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شام کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ کام شعوری طور پر نہیں کیا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ایک ایسی کیفیت سے برآمد ہوتی ہے جسے ہم مکمل ’’اظہار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں 6 بار آیا ہے۔ جن اصوات (صوتیوں) سے یہ مرکب ہے وہ ہیں، خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس کی کلیدی اصوات ہیں۔ ان میں /خ/ کی تکرار 8 بار، /ا/ کی 21 بار، /م/ کی 12 بار، /و/ کی 22 بار، اور /ش/ کی 6 بار ہے۔ خاموشی کا منظر ہے جسے شاعر بصری اور سماعی دونوں اعتبار سے محسوس کر رہا ہے۔ مفعول مفاعلن، فعولن کی تفکر اور تامل سے لبریز بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ /ا/اور /و/ کے علاوہ خاموشی کی گہرائی میں اضافہ کرنے والے دیگر طویل مصوتے/ی/، /اَی/ اور /اَے / ہیں جن کی مجموعی تعداد 32ہو جاتی ہے۔ /ش/کی/16/ہُش ہُش کرتی آوازوں میں /س/کی 7 ’’سرسراتی‘‘ آوازیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ /م/ کی غنائی کیفیت کے لیے 3/ن/ اور 9 انفیائے مصوتے بھی شامل ہیں۔

    مجموعی طور پر اقبال کے صوتی آہنگ کے سب سے اونچے سُر انفی مصمتوں اور انفیت (Nasalization) سے مرتب ہوتے ہیں اور 6 صفیری آوازوں خ، غ، ش، س، ز، اور ف سے۔ اقبال بنیادی طور پر غالب کی طرح صوتی آہنگ کے شاعر نہیں۔۔۔ فکر اور تخیل کی آویزش اور آمیزش سے ان کے یہاں نور و نغمہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نور ان کی شاعرانہ بصیرت ہے اور نغمہ ان کا صوتی آہنگ!

    (مضمون نگار مسعود حسین خان، ماخوذ از ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘)

  • ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانۂ ہٰذا میں ناول جدید ترین آٹومیٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور تیاری کے دوران انہیں ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔

    ناول اسلامی ہو یا جاسوسی، تاریخی یا رومانی۔ مال عمدہ اور خالص لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ناول مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔

    پڑھنے کے علاوہ بھی یہ کئی کام آتے ہیں۔ بچہ رو رہا ہو۔ ضد کر رہا ہو۔ دو ضربوں میں راہ راست پر آجائے گا۔ بلّی نے دودھ یا کتے نے نعمت خانہ میں منہ ڈال دیا ہو۔ دور ہی سے تاک کر ماریے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ بیٹھنے کی چوکی اور گھڑے کی گھڑونچی کے طور پر استعمال ہونے کے علاوہ یہ چوروں ڈاکوؤں کے مقابلے میں ڈھال کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے مطالعے سے دل میں شجاعت کے جذبات خواہ مخواہ موجزن ہوجاتے ہیں۔ دوسرے اپنی ضخامت اورپٹھے کی نوکیلی جلد کے باعث۔ خواتین کے لیے ہمارے ہاں واش اینڈ ویئر (Wash and Wear) ناول بھی موجود ہیں تاکہ ہیروئن کا نام بدل کر پلاٹ کو بار بار استعمال کیا جا سکے۔ ایک ہی پلاٹ برسوں چلتا ہے۔ پندرہ بیس ناولوں کے لیے کافی رہتا ہے۔ واش اینڈ ویئر کوالٹی ہمارے اسلامی تاریخی ناولوں میں بھی دستیاب ہے۔ آرڈر کے ساتھ اس امر سے مطلع کرنا ضروری ہے کہ کون سی قسم مطلوب ہے۔ ۶۵% رومان اور ۳۵% تاریخ والی یا ۶۵% تاریخ اور ۳۵% رومان والی۔ اجزائے ترکیبی عام طور پر حسب ذیل ہوں گے۔

    ۱۔ ہیروئن۔ کافر دوشیزہ۔ تیر تفنگ، بنوٹ پٹے اور بھیس بدلنے کی ماہر۔ دل ایمان کی روشنی سے منور۔ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے والی۔

    ۲۔ کافر بادشاہ۔ ہماری ہیروئن کا باپ لیکن نہایت شقی القلب۔ انجام اس کا برا ہوگا۔

    ۳۔ لشکر کفار۔ جس کے سارے جرنیل لحیم شحیم اور بزدل۔

    ۴۔ اہل اسلام کا لشکر۔ جس کا ہرسپاہی سوا لاکھ پر بھاری۔ نیکی اور خدا پرستی کا پتلا۔ پابندِ صوم و صلٰوۃ۔ قبول صورت بلکہ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والا۔

    ۵۔ ہیرو۔ لشکر متذکرہ صدر کا سردار۔ اس حسن کی کیا تعریف کریں، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔

    ۶۔ سبز پوش خواجہ خضر۔ جہاں پلاٹ رک جائے اور کچھ سمجھ میں نہ آئے، وہاں مشکل کشائی کرنے والا۔

    ۷۔ ہیرو کا جاں نثار ساتھی۔ نوجوان اور کنوارا تاکہ اس کی شادی بعد ازاں ہیروئن کی وفادار اور محرم راز خادمہ یا سہیلی سے ہوسکے۔

    ۸۔ کافر بادشاہ کا ایک چشم وزیر جو شہزادی سے اپنے بیٹے کی، بلکہ ممکن ہو تو اپنی شادی رچانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چونکہ ادھار محبت کی قینچی ہے۔ لہٰذا ہیروئن کے التفات سے محروم رہتا ہے۔

    پلاٹ تو ہمارے ہاں کئی طرح کے ہیں لیکن ایک اسٹینڈرڈ ماڈل جو عام طور پر مقبول ہے، یہ ہے کہ ایک قبیلے کا نوجوان دوسرے قبیلے کی دوشیزہ پر فدا ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ دوشیزہ لامحالہ طور پر دوسرے قبیلے کے سردارکی چہیتی بیٹی ہوتی ہے۔ پانچ انگلیاں پانچوں چراغ۔ خوبصورت، سلیقہ مند، عالم بے بدل۔ لاکھوں اشعار زبانی یاد۔ کرنا خدا کا کیا ہوتا ہے، اس بیچ میں دونوں قبیلوں میں لڑائی ٹھن جاتی ہے۔ ہمارا ہیرو محبت کو فرض پر قربان کر کے شمشیر اٹھا لیتا ہے اور بہادری کے جوہر دکھاتا، کشتوں کے پشتے لگاتا دشمن کی قید میں چلا جاتا ہے۔ محافظوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر طالب و مطلوب ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اشعار اور مکالموں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہیروئن بی پہلے ایک جان سے پھرہزار جان سے اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ راستے میں ظالم سماج کئی بار آتا ہے لیکن ہردفعہ منہ کی کھاتا ہے۔ دانت پیستا رہ جاتا ہے۔ آخر میں ناول حق کی فتح، محبت کی جیت، نعرہ تکبیر، شرعی نکاح، دونوں قبیلوں کے ملاپ اور مصنف کی طرف سے دعائے خیر کے ساتھ آئندہ ناول کی خوشخبری پر ختم ہوتا ہے۔

    آرڈر دیتے وقت مصنف یا ناشر کو بتانا ہوگا کہ ناول پانچ سو صفحے کا چاہیے، ہزار صفحے کا یا پندرہ سو کا؟ وزن کا حساب بھی ہے۔ دو سیری ناول۔ پانچ سیری ناول۔ سات سیری ناول۔ پندرہ بیس سیری بھی خاص آرڈر پرمل سکتے ہیں۔ گاہک کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسی پلاٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ماحول کس ملک کا رکھا جائے۔ عراق کا… عرب کا…. ایران کا… افغانستان کا؟ ہیرو اور ہیروئن کے نام بھی گاہک کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ ایک پلاٹ پر تین یا اس سے زیادہ ناول لینے پر ۳۳% رعایت۔

    خواتین کے لیے بھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، گھریلو اور غیر گھریلو ہر طرح کے ناول بکفایت ہمارے ہاں سے مل سکتے ہیں۔ ان میں بھی محبت اور خانہ داری کا تناسب بالعموم ۶۵% اور ۳۵% کا ہوتا ہے۔ فرمائش پر گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ خانہ داری سے مطلب ہے ناول کے کرداروں کے کپڑوں کا ذکر۔ خاندانی حویلی کا نقشہ۔ بیاہ شادی کی رسموں کا احوال۔ زیورات کی تفصیل وغیرہ۔ ہیرو اور ہیروئن کے چچازاد بھائی اور بہنیں۔ سہیلیاں اور رقیب وغیرہ بھی مطلوبہ تعداد میں ناول میں ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے کارخانے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کے ناول مروجہ پاکستانی فلموں کو دیکھ کر لکھے جاتے ہیں تاکہ بعد ازاں فلم ساز حضرات ان پر مزید فلمیں بنا سکیں۔ معمولی سی اجرت پر ان ناولوں میں گانے اور دو گانے وغیرہ بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ اس سے مصنف اور فلم ساز کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ گاہک کو فقط ہیروئن کا نام تجویز کر دینا چاہیے۔ باقی سارا کام ہمارے ذمے۔ مال کی گھر پر ڈلیوری کا انتظام ہے۔

    بازار کے ناول بالعموم ایسے گنجان لکھے اور چھپے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی آنکھ پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ صفحے میں کم سے کم لفظ رہیں۔ مکالمے اور مکالمہ بولنے والے، دونوں کے لیے الگ الگ سطر استعمال کی جاتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے،

    شہزادی سبز پری نے کہا،
    ’’پیارے گلفام!‘‘

    پیارے گلفام نے کہا،
    ’’ہاں شہزادی گلفام۔ ارشاد!‘‘

    شہزادی سبز پری،
    ’’ایک بات کہوں؟‘‘

    گلفام،
    ’’ہاں ہاں کہو۔‘‘

    شہزادی،
    ’’مجھے تم سے پیار ہے۔‘‘

    گلفام،
    ’’سچ!‘‘

    شہزادی صاحبہ،
    ’’ہاں سچ!‘‘

    گلفام،
    ’’تو پھر شکریہ!‘‘

    شہزادی نے کہا،
    ’’پیارے گلفام۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ میرا انسانی فرض تھا۔‘‘

    ایک ضروری اعلان۔ ہمارے کارخانے نے ایک عمدہ آئی لوشن تیار کیا ہے جو رقت پیدا کرنے والے ناولوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں ایسا سین آئے، رونے کے بعد دو دو قطرے ڈراپر سے آنکھوں میں ڈال لیجیے۔ آنکھیں دھل جائیں گی۔ نظر تیز ہو جائے گی۔ مسلسل استعمال سے عینک کی عادت بھی چھوٹ جاتی ہے۔ فی شیشی دو روپے۔ تین شیشیوں پر محصول ڈاک معاف۔ آنکھیں پونچھنے کے لیے عمدہ رومال اور دوپٹے بھی ہمارے ہاں دستیاب ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار، ادیب اور شاعر ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے ایک مزاحیہ تحریر)

  • ہم اور ناخوشی

    ہم اور ناخوشی

    سقراط حکیم نے کیا خوب لطیفہ کہا ہے کہ اگر تمام اہل دنیا کی مصیبتیں ایک جگہ لا کر ڈھیر کر دیں اور پھر سب کو برابر بانٹ دیں تو جو لوگ اب اپنے تئیں بدنصیب سمجھ رہے ہیں وہ اس تقسیم کو مصیبت اور پہلی مصیبت کو غنیمت سمجھیں گے۔

    ایک اور حکیم اس لطیفے کے مضمون کو اور بھی بالاتر لے گیا ہے۔ وہ کہتا کہ اگر ہم اپنی اپنی مصیبتوں کو آپس میں بدل بھی سکتے تو پھر ہر شخص اپنی پہلی ہی مصیبت کو اچھا سمجھتا۔

    میں ان دونوں خیالوں کو وسعت دے رہا تھا، اور بے فکری کے تکیے سے لگا بیٹھا تھا کہ نیند آگئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ سلطان افلاک کے دربار سے ایک اشتہار جاری ہوا ہے۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ تمام اہل عالم اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف کو لائیں اور ایک جگہ ڈھیر لگائیں چنانچہ اس مطلب کے لئے ایک میدان کہ میدان خیال سے بھی زیادہ وسیع تھا تجویز ہوا اور لوگ آنے شروع ہوئے۔ میں بیچوں بیچ کھڑا تھا اور ان کے تماشے کا لطف اٹھا رہا تھا دیکھتا تھا کہ ایک کے بعد ایک آتا ہے اور اپنا بوجھ سر سے پھینک جاتا ہے لیکن جو بوجھ گرتا ہے مقدار میں اور بھی بڑا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مصیبتوں کا پہاڑ بادلوں سے بھی اونچا ہو گیا۔

    ایک شخص سوکھا سہما۔ دبلاپے کے مارے فقط ہوا کی حالت ہو رہا تھا اس انبوہ میں نہایت چالاکی اور پھرتی سے پھر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھا جس میں دیکھنے سے شکل نہایت بڑی معلوم ہونے لگتی تھی۔ وہ ایک ڈھیلی ڈھالی پوشاک پہنے تھا۔ جس کا دامن دامن قیامت سے بندھا ہوا تھا اس پر دیوزادوں اور جنات کی تصویریں زردوزی کڑھی ہوئی تھیں۔ اور جب وہ ہوا سے لہراتی تھیں تو ہزاروں عجیب وہ غریب صورتیں اس پر نظر آتی تھیں، اس کی آنکھ وحشیانہ تھی مگر نگاہ میں افسردگی تھی، اور نام اس کا وہم تھا۔ ہر شخص کا بوجھ۔ بندھوا تا تھا اور لد واتا تھا اور مقام مقررہ پر لے جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہم جنسوں اور ہم صورت بھائیوں کو جب بوجھوں کے نیچے گڑ گڑاتا دیکھا اور ان مصیبتوں کے انبار کو خیال کیا تو بہت گھبرایا اور دل میں ایسا ترس آیا کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ اس عالم میں بھی چند شخصوں کی حالت ایسی نظر آئی کہ اس نے ذرا میرا دل بہلایا صورت بہلا وے کہ یہ ہوئی کہ دیکھتا ہوں کہ ایک شخص پرانے سے چکن کے چغے میں ایک بھاری سی گٹھری لے آتا ہے۔ جب وہ گٹھری انبار میں پھینکی تو معلوم ہوا کہ افلاس کا عذاب تھا۔ اس کے پیچھے ایک اور شخص دوڑا آتا تھا، بدن سے پسینہ بہتا تھا، اور مارے بوجھ کے ہانپتا جاتا تھا، اس نے بھی وہ بوجھ سرسے پھینکا۔ اور معلوم ہوا کہ اس کی جورو بہت بری تھی۔ اس نے وہ بلا سر سے پھینکی ہے۔

    ان کے بعد ایک بڑی بھیڑ آئی کہ جس کی تعداد کا شمار نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ عاشقوں کا گروہ ہے۔ ان کے سروں پر دود آہ کی گٹھریاں تھیں کہ انہی میں آ ہوں کے تیر خیالی۔ اور نالوں کے نیزۂ وبالی دبے ہوئے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ مارے بوجھ کے اس طرح درد سے آہیں بھرتے تھے کہ گویا اب سینے ان کے پھٹ جائیں گے لیکن تعجب یہ ہے کہ جب اس انبار کے پاس آئے تو اتنا نہ ہو سکا کہ ان بوجھوں کو سر سے، پھینک دیں۔ کچھ جدو جہد سے سر ہلایا۔ مگر جس طرح لدے ہوئے تھے اسی طرح چلے گئے۔ بہت بڑھیاں دیکھیں کہ بدن کی جھریاں پھینک رہی تھیں۔ چند نوجوان اپنی کالی رنگت کچھ موٹے موٹے ہونٹ۔ اکثر ایسے میل جمے ہوئے دانت پھینکتے تھے کہ جنھیں دیکھ کر شرم آتی تھی مگر مجھے یہ ہی حیرت تھی کہ اس پہاڑ میں سب سے زیادہ جسمانی عیب تھے۔ ایک شخص کو دیکھتا ہوں کہ اس کی پیٹھ پر بھاری سے بھاری اور بڑے سے بڑا بوجھ ہے۔ مگر خوشی خوشی اٹھائے چلا آتا ہے۔ جب پاس آیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک کبڑا ہے۔ اور آدم زاد کے انبار رنج و الم میں اپنے کبڑے پن کو پھینکنے آیا ہے۔ کہ اس کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی مصیبت نہیں، اس انبار میں انواع و اقسام کے سقیم اور امراض بھی تھے جن میں بعض اصلی تھے اور بعض ایسے تھے کہ غلط فہموں نے خواہ مخواہ انہیں مرض سمجھ لیا تھا۔ ایک بوجھ مجھے اور نظر آیا جو امراض آدم زاد پر عارض ہوتے ہیں۔ ان سب کا مجموعہ تھا۔ یعنی بہت سے حسین نوجوان تھے کہ اپنے ہاتھوں کی کمائی یعنی امراض نوجوانی ہاتھوں میں لیے آتے تھے۔ مگر میں فقط ایک ہی بات میں حیران تھا، اور وہ یہ تھی کہ اتنے بڑے انبار میں کوئی بیوقوفی یا بد اطواری پڑی ہوئی نہ دکھائی دی۔

    میں یہ تماشے دیکھتا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ اگر ہو سہائے نفسانی اور ضعف جسمانی اور عیوب عقلی سے کوئی نجات پانی چاہے تو اس سے بہتر موقع نہ ہاتھ آئے گا۔ کاش کہ جلد آئے اور پھینک جائے۔ اتنے میں ایک عیاش کو دیکھا کہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے بے پرواہ چلا آتا ہے اس نے بھی ایک گٹھری پھینک دی مگر جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ گناہوں کے عوض اپنی عاقبت اندیشی کو پھینک گیا۔ ساتھ ہی ایک چھٹے ہوئے شہدے آئے۔ میں سمجھا کہ یہ شاید اپنی کوتاہ اندیشی کو پھینکیں گے مگر وہ بجائے اس کے اپنی شرم و حیا کو پھینک گئے۔
    جب تمام بنی آدم اپنے بوجھوں کا وبال سر سے اتار چکے تو میاں وہم کہ جب سے اب تک اس مصروفیت میں سرگرداں تھے مجھے الگ کھڑا دیکھ کر سمجھے کہ یہ شخص خالی ہے۔ چنانچہ اس خیال سے میری طرف جھکے ان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میرے حواس اڑ گئے، مگر انہوں نے جھٹ اپنا آئینہ سامنے کیا مجھے اپنا منھ اس میں ایسا چھوٹا معلوم ہوا کہ بے اختیار چونک پڑا۔ بر خلاف اس کے بدن اور قد و قامت ایسا چوڑا چکلا نظر آیا کہ جی بیزار ہو گیا، اور ایسا گھبرایا کہ چہرے کو نقاب کی طرح اتار کر پھینک دیا او رخاص خوش نصیبی اس بات کو سمجھا کہ ایک شخص نے اپنے چہرے کو بڑا اور اپنے بدن پر ناموزوں سمجھ کر اتار پھینکا تھا۔ یہ چہرہ حقیقت میں بہت بڑا تھا، یہاں تک کہ فقط اس کی ناک میرے سارے چہرے کے برابر تھی۔

    ہم اس، نبوہ پر آفات پر غور سے نظر کر رہے تھے اور اس عالم ہیولائی کی ایک ایک بات کو تاک تاک کر دیکھ رہی تھے۔ جو سلطان افلاک کی بارگاہ سے حکم پہنچا کہ اب سب کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اپنے اپنے رنج و تکلیف تبدیل کر لیں، اور اپنے اپنے بوجھ لے کر گھروں کو چلے جائیں۔ یہ سنتے ہی میاں وہم پھر مستعد ہوئے اور پھر بڑی ترت پھرت کے ساتھ اس انبار عظیم کے بو جھ باندھ باندھ کر تقسیم کرنے لگے۔ ہر شخص اپنا اپنا بوجھ سنبھالنے لگا اور اس طرح کی ریل پیل اور دھکم دھکا ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ اس وقت چند باتیں جو میں نے دیکھیں وہ بیان کرتا ہوں۔

    ایک پیر مرد کہ نہایت معزز محترم معلوم ہوتا تھا درد قولنج سے جان بلب تھا اور لاولدی کے سبب سے اپنے مال و املاک کے لئے ایک وارث چاہتا تھا اس نے درد مذکور کو پھینک کر ایک خوبصورت نوجوان لڑکے کو لیا مگر لڑکے نا بکار کو نافرمانی اور سرشوری کے سبب سے دق ہو کر اس کے باپ نے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ اس نالائق نوجوان نے آتے ہی جھٹ بڈھے کی ڈاڑھی پکڑ لی اور سر توڑنے کو تیار ہوا۔ اتفاقاً برابر ہی لڑکے کا حقیقی باپ نظر آیا کہ اب وہ درد قولنج کے مارے لوٹنے لگا تھا۔ چنانچہ بڈھے نے اس سے کہا کہ برائے خدا میرا درد قولنج مجھے پھیر دیجئے اور اپنا لڑکا لیجئے کہ میرا پہلا عذاب اس سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ مگر مشکل یہ ہوئی کہ مبادلہ اب پھر نہ سکتا تھا۔

    ایک بچارہ جہازی غلام تھا کہ اس نے قید زنجیر اور جہازی محنت کی تکلیف سے دق ہو کر اس عذاب کو چھوڑا تھا اور جھولے کے مرض کو لے لیا تھا۔ اسے دیکھا کہ دو قدم چل کر بیٹھ گیا ہے اور سر پکڑ کر بسور رہا ہے۔

    غرض اسی طرح کئی شخص تھے کہ اپنی حالت میں گرفتار تھے، اور اپنے کیے پر پچھتا رہے تھے۔ مثلاً کسی بیمار نے افلاس لے لیا تھا، وہ اس سے ناراض تھا۔ کسی کو بھوک نہ لگتی تھی، وہ اب جوع البقر کے مارے پیٹ کو پیٹ رہا تھا ایک شخص نے فکر سے دق ہو کر اسے چھوڑا تھا اب وہ درد جگر کا مارا لوٹ رہا تھا اور اسی طرح برعکس۔ غرض ہر شخص کو دیکھ کر عبرت اور پشیمانی حاصل ہوئی تھی۔

    عورتیں بچاری اپنے ادل بدل کے عذاب میں گرفتار تھیں۔ کسی نے تو سفید بالوں کو چھوڑا تھا۔ مگر اب پا ؤں میں ایک پھوڑا ہو گیا تھا کہ لنگڑاتی تھی اور ہائے ہائے کرتی چلی جاتی تھی۔ کسی کی پہلے کمر بتخ پتلی تھی مگر چونکہ سینہ اور بازو بھی دبلے تھے، اس لئے پتلی کمر کو چھوڑا تھا۔ اب گول گول بارودوں کے ساتھ بڑی سی توند نکالے چلی جاتی تھی۔ کسی نے چہرے کی خوبصورتی لی تھی مگر اس کے ساتھ بے آبروئی کا داغ اور بدنامی کا ٹیکا بھی چلا آیا تھا۔ غرض ان سب میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جسے پہلے نقص کی نسبت نیا نقص گراں نہ معلوم ہو رہا ہو۔ ان سب کی حالتوں کو دیکھ کر یہ میری سمجھ میں آیا کہ جو مصیبتیں ہم پر پڑتی ہیں۔ وہ حقیقت میں ہمارے سہارنے کے بموجب ہوتی ہیں َ یا یہ بات ہے کہ سہتے سہتے ہمیں ان کی عادت ہو جاتی ہے۔

    مجھے اس بڈھے کے حال پر نہایت افسوس ہوا کہ ایک خوبصورت سجیلا جوان بن کر چلا۔ مگر مثانہ میں ایک پتھری ہو گئی کہ اب بھی سیدھی طرح نہ چل سکتا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اس نوجوان کے حال پر افسوس آتا تھا کہ بچارا لکڑی ٹیکتا گرتا پڑتا چلا جاتا تھا۔ کمر جھکی ہوئی۔ گردن بیٹھی ہوئی تھی کھوئے ہوئے سر سے اونچے نکل آئے تھے اور جو عورتیں پہلے اس کی سج دھج پر جان دیتی تھیں ان کا غول گرد تھا۔ یہ انھیں دیکھتا تھا اور پانی پانی ہوا جاتا تھا۔ جب سب کے مباد لے بیان کئے ہیں تو اپنے مبادلے سے بھی مجھے صاف نہ گزرنا چاہیے، چنانچہ اس کی صورت حال یہ ہے کہ بڑے چہرے والے یار میرے چھوٹے چہرے کو لے کر ایسے بدنما معلوم ہونے لگے کہ جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو اگرچہ میرا ہی چہرہ تھا۔ مگر میں بے اختیار ہنسا کہ میری اپنی بھی صورت بگڑ گئی اور صاف معلوم ہوا کہ وہ بچارا میرے ہنسنے سے شرما گیا مگر مجھے بھی اپنے حال پر کچھ فخر کی جگہ نہ تھی۔ کیوں کہ جب میں اپنی پیشانی سے عرق ندامت پوچھنے لگا تو وہاں تک ہاتھ نہ پہنچ سکا، چہرہ اتنا بڑا ہو گیا تھا کہ ہاتھ رکھتا کہیں تھا اور جا پڑتا کہیں تھا۔ ناک اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ جب چہرے پر ہاتھ پھیرا تو کئی دفعہ ہاتھ نے ناک سے ٹکر کھائی۔ میرے پاس ہی دو آدمی اور بھی تھے کہ جن کے حال پر تمسخر کرنا واجب تھا۔ ایک تو وہ شخص تھا کہ پہلے ٹانگوں کے مٹاپے کے سبب سے چھدرا کر چلتا تھا۔ اس نے ایک لم ٹنگو سے مبادلہ کر لیا تھا کہ جس میں پنڈلی معلوم نہ ہوتی تھی۔ ان دونوں کو جو دیکھتا تھا وہ ہنستا تھا۔ ایک تو ایسا معلوم ہوتا تھا۔ گویا دو بلیوں پر چلا جاتا ہے، سرکا یہ عالم تھا گویا ہوا میں اڑا جاتا ہے اور دوسرے کا یہ حال تھا کہ دونوں طرف دو دائرے کھینچے چلے جاتے تھے۔ میں نے اس عجیب الخلقت کی حالت غریب کو دیکھ کر کہا کہ میاں اگر دس قدم سیدھے چلے جاؤ تو سوا دمڑی کی ریوڑیاں کھلاتے ہیں۔

    غرض وہ سارا انبار عورتوں اور مردوں میں تقسیم ہو گیا۔ مگر لوگوں کا یہ حال تھا کہ دیکھنے سے ترس آتا تھا۔ یعنی جان سے بیزار تھے اور اپنے اپنے بوجھوں میں دبے ہوئے اوپر تلے دوڑتے پھرتے تھے۔ سارا میدان گر یہ وزاری نالہ و فریاد آہ و افسوس سے دھواں دھار ہو رہا تھا۔ آخر سلطان افلاک کو بیکس آدم زاد کے حال دردناک پر رحم آیا، اور حکم دیا کہ اپنے اپنے بوجھ اتار کر پھینک دیں، پہلے ہی بوجھ انھیں مل جائیں۔ سب نے خوشی خوشی ان وبالوں کو سرد گردن میں سے اتار کر پھینک دیا۔ اتنے میں دوسرا حکم آیا کہ وہم جس نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا وہ شیطان نابکار یہاں سے دفع ہو جائے۔ اس کی جگہ ایک فرشتہ رحمت آسمان سے نازل ہوا۔ اس کی حرکات و سکنات نہایت معقول و باوقار تھیں اور چہرہ بھی سنجیدہ اور خوش نما تھا۔ اس نے بار بار اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور رحمت الہی پر توکل کر کے نگاہ کو اسی کی آس پر لگا دیا اس کا نام صبر و تحمل تھا۔ ابھی وہ اس کوہ مصیبت کے پاس آکر بیٹھا ہی تھا جو کوہ مذکور خودبخود سمٹنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ گھٹتے ایک ثلث رہ گیا۔ پھر اس نے ہر شخص کو اصلی اور واجبی بوجھ اٹھا اٹھا کر دینا شروع کیا اور ایک ایک کو سمجھاتا گیا کہ نہ گھبراؤ اور بردباری کے ساتھ اٹھاؤ ہر شخص لیتا تھا اور اپنے گھر کو راضی رضا مند چلا جاتا تھا۔ ساتھ ہی اس کا شرمیہ ادا کرتا تھا کہ آپ کی عنایت سے مجھے اس انبار لا انتہا میں سے اپنا بار مصیبت چننا نہ پڑا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور انشا پرداز محمد حسین آزاد کی مشہور تصنیف نیرنگِ خیال سے اقتباس)

  • افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    آلڈس ہکسلے سے کسی نے پوچھا کہ ادیب بننے کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں؟ اس نے بے تامل جواب دیا کہ ایک قلم، ایک دوات اور کچھ کاغذ۔

    ایک رسالے میں اردو کی مشہور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کا انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں انھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ کچھ کاغذ سے کیا مراد ہے۔ فرماتی ہیں کہ جب میرا افسانہ لکھنے کو جی چاہا تو میں نے اپنے والد کے حساب کتاب کے رجسٹر کی جلد توڑ دی اور اس میں لکھنا شروع کر دیا، قیاس ہوتا ہے کہ اگر ان کے والد حساب کتاب نہ رکھا کرتے، جیسا کہ بعض لوگ نہیں رکھتے اور جمیلہ کے ہاتھ نہ پڑتا تو افسانہ نگار نہ بن سکتیں۔ جو حضرات اپنی بہنوں بیٹیوں کو افسانہ نگار بنانا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ فوراً بہی کھاتے خریدیں اور جو اپنی نور نظر کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیں، انھیں لازم ہے کہ اپنے رجسٹروں کو دکان پر تالے کے اندر رکھا کریں۔

    لیکن ہمارا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگار کے طور پر کی تھی اور اس کے لیے نہایت عمدہ چکنے کاغذوں کی ایک کاپی مجلد تیار کرائی تھی۔ ایک روز ہم کاپی کو افسانے کے ایک نازک موڑ پر بستر پر کھلی چھوڑ گئے۔ واپس آکر کھولا تو صورت احوال یوں نظر آئی:

    ’’امجد نے کہا۔ میری رانی بولو تمہیں کیا چاہیے۔ کہو تو آسمان کے تارے توڑ کر تمھارے قدموں میں لا بچھاؤں۔ تمھارا دامن بہار کے رنگین پھولوں اور کلیوں سے بھر دوں۔ بولو بولو کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے کہا،’’امجد مجھے دنیا میں اور کچھ مطلوب نہیں فقط:
    بنولے ڈیڑھ من
    بھوسہ دس من
    نمک ایک ڈلا
    گڑ ڈھائی من
    چارپائی کا بان پانچ گٹھے
    گھی سات سیر

    ہم نے جھنجھلا کر وہ صفحہ پھاڑ کر پھینک دیا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے چچا عینک کو ناک کی پھننگ پر جمائے کچھ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ بولے بیٹا یہاں ایک کاپی میں کچھ حساب لکھا تھا میں نے۔ منڈی جارہا ہوں سودا لانے۔ کہاں گئی وہ کم بخت کاپی؟

    ہمارے نقطۂ نظر سے یہ افسانہ بہترین افسانوں میں سے تھا۔ اس کا کلائمکس یعنی نقطۂ عروج اس کے آخر میں آتا تھا۔ یہ وضاحت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ بعض افسانوں کا کلائمکس بالکل شروع میں آجاتا ہے۔ آخری پیرا لکھتے لکھتے ہمیں ایک ضرورت سے تھوڑی دیر کو باہر جانا ہوا۔ واپس آئے تو افسانہ مکمل تھا۔

    ’’امجد نے آبدیدہ ہوکر کہا۔ میری غلام فاطمہ۔ اب میں گاؤں واپس آگیا ہوں اور زندگی تمھارے قدموں میں گزاروں گا۔ رانی نے مجھ سے دغا کی۔ اب مجھے سچی محبت کی قدر ہوئی۔ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہ جانو۔ مجھے معاف کردو۔ غلام فاطمہ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔ امجد۔ اب میری زندگی میں رہ کیا گیا ہے، چند آنسو، چند آہیں اور…
    قمیضیں بڑی پانچ عدد
    پاجامے چھوٹے چار عدد
    تکیے کے غلاف دس
    تولیے دو
    جھاڑن دو
    کھیس چارخانہ دو عدد
    کل 25

    ہم نے شور مچایا۔ یہ کیا غضب کر دیا۔ بہن بولیں۔ ارے میاں کچھ نہیں۔ دھوبی کا حساب لکھا ہے۔ اس سے پہلے مرقع چغتائی کے حاشیے پر لکھا کرتی تھی۔ وہاں اب جگہ نہیں رہی۔ یہ کاپی خالی نظر آئی اس میں لکھ دیا۔ ہم نے کہا بہن اب یہ کاپی تم ہی رکھو۔ ہمارے کام کی نہیں رہی، چنانچہ اس روز ہم نے افسانہ نگاری کو خیر باد کہا اور شعر کہنے لگے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعر لکھنے کے لیے کسی کاپی اور رجسٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھیں دروازے کی چوکھٹ پر لکھا جاسکتا ہے قمیص کے کفوں پر لکھا جاسکتا ہے۔ سکتا کیا معنی، ہم لکھتے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر اور مزاح نگار ابن انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • دلّی والے اور برسات

    دلّی والے اور برسات

    اب ہم نشیں میں روؤں کیا اگلی صبحوں کو
    بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئی ہیں

    جن وقتوں کا یہ ذکر ہے، ان کو بیتے 50 سال سے اوپر ہوئے، ہر چند کہ ’غدر‘ کے بعد دلّی والوں کی قسمت میں زوال آگیا تھا اور مصائب و آلام نے ان کو گھروں سے بے گھر کر دیا تھا، مگر اَمی جَمی ہو جانے پر ان کی فطری زندہ دلی پھر کے سے ابھر آئی۔

    بے شک وقت اور حالات نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا، لیکن ان کے طور طریق، ان کا رکھ رکھاؤ، ان کی قدیم روایات، ان کا ہنسنا بولنا اور ان کی وضع داریاں ان کے سینوں سے لگی رہیں، مگر یہ سب باتیں بھی انھی لوگوں کے دم قدم سے تھیں۔ جب نئی تعلیم اور نئی تہذیب نے نئی نئی صورتوں کے جلو میں اپنی جوت دکھائی تو ’شاہ جہاں آباد‘ کے وہ سدا بہار پھول کملانے لگے۔ ان وقتوں میں دلّی والے اپنی زندگی ہنس بول کر گزارتے تھے۔ سال کا ہر موسم اور مہینے کا ہر روز ان کے لیے خوشی کا ایک نیا پیغام لاتا تھا۔ آندھی جائے، مینہ جائے ان کو خوش رہنے اور خوش رکھنے سے کام۔

    یادش بخیر، مینہ کا ذکر آیا، تو برسات کے وہ سہانے سمے آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ آج کی دہلی دیکھیے تو زمین آسمان کا فرق…! اب کی باتیں تو خیر جانے دیجیے کہ اس زمانے میں خوش وقتی کا جو ہدڑا بنا ہے وہ ہر بھلے مانس کو معلوم ہے۔ آئیے ذرا دیکھیں کہ ان مبارک دنوں میں دلّی والے برسات کو کس طرح مناتے تھے۔

    جیٹھ بیساکھ کی قیامت خیز گرمیاں رخصت ہوئیں، اب برسات کی آمد آمد ہے۔ بہنوں کو سسرال آئے ہوئے مہینوں گزر گئے اور ان کی آنکھیں میکے کے کاجل کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ نیم میں نبولیاں پکتی دیکھ کر ان کو میکہ یاد آ رہا ہے اور وہ چپکے چپکے گنگناتی ہیں۔

    نیم کی نمبولی پکی، ساون بھی اب آوے گا
    جیوے میری ماں کا جایا، ڈولی بھیج بلاوے گا

    لیجیے یہ وقت بھی آگیا، ساون کی اندھیری جھکی ہوئی ہے۔ لال کالی آندھیاں چل رہی ہیں۔ خاک اور ہوا کا وہ زور کہ الامان الحفیظ! آخر مینہ برسنا شروع ہوا، خاک دب گئی ہے اور پچھلے مہینوں گرمی نے جو آفت ڈھائی تھی، اس سے خدا خدا کر کے چھٹکارا ملا۔ بارش کے دو چار ہی چھینٹوں نے ہر شے میں نئی زندگی پیدا کر دی ہے۔ لوؤں کے تھپیڑوں سے جھلسے ہوئے درخت اور پودے جو سوکھ کر کھڑنک ہوگئے تھے، اب پھر ہرے بھرے ہو گئے ہیں۔ اونچے اونچے پیڑوں کی ٹہنیاں خوشی سے جھوم رہی ہیں، جہاں تک نظر جاتی ہے، مخملی فرش بچھا ہوا ہے۔ دلّی والے، سیلانی پنچھی، گھڑی گھڑی آسمان کو دیکھتے ہیں اور دل میں کہہ رہے ہیں۔

    کبھی ساون کی جھڑی اور کبھی بھادوں برسے
    ایسا برسے میرے اللہ کہ چھاجوں برسے

    (اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار، ڈراما نویس اور مترجم صادق الخیری کے مضمون سے اقتباسات جو 1939ء میں لکھا گیا تھا)

  • حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    ریل کی نقل و حمل کا آغاز متحدہ ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ 1857ء میں کئی ریلوے کمپنیوں کے انجنیئروں‌ اور بہت سے ہنر مندوں‌ نے یہاں‌ ریلوے ٹریک بچھانے کا کام شروع کیا۔ یہ ریلوے نظام انگریز راج میں یہاں کے عوام کے لیے گویا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ اس نے ہندوستان میں دور دراز مقامات تک لوگوں‌ کی رسائی آسان بنا دی اور مسافروں کے علاوہ مال گاڑیوں کے ذریعے بھاری ساز و سامان بھی آسانی سے دوسرے علاقوں تک پہنچنے لگا۔

    معروف صحافی، مصنف اور محقق رضا علی عابدی کی کتاب ’ریل کہانی‘ سے یہ اقتباس اس دور کی ایک تصویر دکھاتا ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    1857ء کے یہ وہی دن تھے، جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جا رہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جا رہی تھیں۔

    ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے، تاکہ فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔

    وہ جو آزادی کی دھن میں مگن تھے، سندھ سے لے کر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طمنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر قہر کر رہے تھے، لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔

    کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا۔عمارت کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعے کی طرح بنایا گیا۔ اس میں فصیلیں بھی تھیں، برج بھی تھے، رائفلیں داغنے کے لیے فصیلوں روزن بھی تھے، غرض یہ کہ حملہ آور کو پرے رکھنے کے سارے انتظامات تھے۔ اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے تھے، تاکہ حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے۔ شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیے جاتے تھے۔ یہ شاید وہی دن تھے، جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔ لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے۔ اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی، جہاں یہ اسٹیشن ہے، اسے بھی ہٹا کر دور لے جانا پڑا۔

  • قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    اردو ادب میں قتیل شفائی بطور شاعر اپنی غزل گوئی کے ساتھ فلمی گیتوں‌ کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جنھیں پاکستان میں سرکاری سطح پر اور متعدد ادبی تنظیموں نے بھی اعزازات سے نوازا۔ قتیل شفائی کی غزلیں مشہور گلوکاروں نے گائیں اور ان کے فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دیگر ممالک میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا جہاں شرکا فرمائش کرکے قتیل شفائی سے ان کی مشہور غزلیں سنا کرتے تھے۔

    قتیل شفائی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی آپ بیتی میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں‌ جو ان کے فن و شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ پیشِ نظر پارے قتیل شفائی کی آپ بیتی ‘گھنگرو ٹوٹ گئے’ سے لیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    مدراس کے مشاعرے میں جب میں اپنا کلام سن چکا تو دیکھا کہ لمبی لمبی داڑھیوں والے دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مشاعرے کے دوسرے دور میں آپ اپنی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘سنائیں۔

    میں نے ہزار سمجھایا کہ وہ فلم کی غزل ہے اور آپ مجھ سے یہ سن کر بہت بے مزہ ہوں گے۔ مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ غزل آپ کی زبان سے سننے کی بڑی تمنا ہے۔ چنانچہ خاص طور پر اس غزل کے لئے اناؤنسمنٹ ہوئی اور اس کی فرمائش کی گئی۔ میں نے تحت اللفظ یہ غزل پڑھی۔ اور اس پر مجھے جو داد ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔ مجھ سے اس کا ایک ایک مصرح چار چار بار پڑھایا گیا اور پتا چلا کہ یہی وہ غزل تھی جس کی وجہ سے مجھے وہاں بلایا گیا تھا۔

    وہیں سے ہم احمد آباد گئے جہاں پرانے مسلمان بادشاہوں کے آثار دیکھے اور پتھر کی جالیوں کا کام دیکھا جن کا جواب نہیں تھا۔ ایک مسجد میں بھی پتھر کی جالیاں دیکھیں۔ اس کے ایک مینار کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اسے اوپر سے دھکا دیا جائے تو ہلتا ہے۔ اس لئے اس کو مینارِ لرزاں بھی کہتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مینار سنگِ لرزاں سے بنا ہوا ہے۔

    ہمارے ساتھ مشہور خاتون سیدہ اختر حیدر آبادی تھیں جو خاکسار تحریک میں بھی کام کر چکی تھیں۔ انہیں خطیبۂ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بہت موٹی تھیں۔ وہ کچھ انجمنوں کی عہدیدار تھیں اور مشاعروں اور دوسری تقاریب میں ہر جگہ آگے آگے رہتی تھیں۔ جب ہم مینار کے اوپر چڑھے تو یہ ذرا سا ہلتا ہوا نظر آیا۔ سیدہ اختر سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ بنگلور کی رہنے والی تھیں اور مشاعرہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ میرے بہت تعلقات بن گئے تھے لیکن بعض اوقات ایک جملہ تعلقات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔

    جب ہم مینارِ لرزاں سے نیچے اترے تو کہنے لگیں کہ دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ مینار ہلتا ہے۔ میں نے کہا بیگم اختر یہ مینار ہمارے ہلانے سے تو نہیں ہلا البتہ آپ کے اوپر جانے سے ہلا ہے۔ وہ یہ جملہ سننے کے بعد بالکل خاموش ہو گئیں اور اس کے بعد جتنا عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بول چال بند رکھی اور بنگلور کا پروگرام بھی گول کر دیا۔

    دراصل سیدہ اختر حیدر آبادی بہت موٹی تھیں اور خواہ مخواہ جی چاہتا تھا کہ ان سے کوئی شرارت کی جائے۔ اس وقت ہمارے ساتھ پاکستان سے سحاب قزلباش بھی تھیں۔ سیدہ اختر کے بال اتنے لمبے تھے کہ بلا مبالغہ ٹخنوں تک پہنچتے تھے اور کنگھی کر کے انہیں کھلا چھوڑتی تھیں۔ موٹی تو سحاب قزلباش بھی تھیں مگر یہ اچھی شکل و صورت والی تھیں۔ یہ کہنے لگیں کہ مجھے نظر آتا ہے کہ اختر کے بال مصنوعی ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں مصنوعی بال اتنے زیادہ سنبھالے ہی نہیں جا سکتے۔ کہنے لگیں نہیں کسی طرح ان کے بال ٹیسٹ کر کے مجھے بتاؤ۔ جوانی کا زمانہ تھا اور شرارتیں کرنے کے دن تھے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو وہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے عمداً یہ کیا کہ ان کے بیٹھتے ہوئے بال ذرا ادھر رکھ کے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ بال اٹک گئے اور جب میں نے سیٹ بدلوانے کے لئے انہیں اٹھنے کو کہا تو چونکہ بال اٹکے ہوئے تھے اس لئے ان کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ بال کھینچنے سے انہیں تکلیف ہوئی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ میں نے یہ عمداً کیا ہے۔ لیکن سحاب قزلباش کے لئے تصدیق ہو گئی اور اب یہ محترمہ چین سے بیٹھیں۔ اگر انہیں پتا چل جاتا تو یقیناً اس روز ناراضی ہو جاتی۔ میں نے زندگی میں اتنے لمبے بال کسی کے نہیں دیکھے۔

  • ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے!

    ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے!

    سعادت حسن منٹو افسانہ نگاری کےساتھ فلم کی دنیا میں بطور لکھاری بھی مصروف رہے اور ہندوستان کے بڑے نگار خانوں سے وابستگی کے دوران انھوں نے فلم اور فلم سازی کو جس طرح سمجھا اسے اپنے مضامین کی شکل میں پیش کیا۔ ان کی ایک تحریر ہندوستانی صنعت فلم سازی پر ایک نظر کے عنوان شایع ہوئی تھی۔ اسی مضمون سے یہ اقتباس پیش خدمت ہے۔

    تیس برس سے ہالی ووڈ کے اربابِ فکر اس بات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلم سازی میں اسٹار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے یا خود فلم کو۔

    اس مسئلے پر اس قدر بحث کی جا چکی ہے کہ اب اس کے تصور ہی سے الجھن ہونے لگتی ہے۔ آخر متذکرہ صدر سوال کا فیصلہ کن جواب کیا ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے یہ سوال سن کر یوں کہہ دیا جائے، ’’کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا؟ اگر اس کا جواب کچھ ہو سکتا ہے تو یقیناً اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ اسٹار زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا خود فلم۔

    فرینک کیپرا کولمبیا
    فلم کمپنی کے ماہرِ فن ڈائریکٹر نے حال ہی میں اس مسئلے پر اپنے افکار انگریزی اخبارات میں شائع کئے ہیں۔ مسٹر کیپرا کہتے ہیں، ’’میں ان لوگوں کا ہم خیال ہوں جو فلم کو سب سے اہم سمجھتے ہیں۔ فلم، اسٹار بناتے ہیں اور درخشاں سے درخشاں ستارہ کمزور یا برے فلم کو ناکامی سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ تجربے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فلم ستارہ ساز ہے اور ستارے کمزور فلم کو تابانی نہیں بخش سکتے، مگر ہمارے یا مسٹر کیپرا کے خیال سے سب متفق نہیں ہو سکتے۔ ایسے سیکڑوں اصحاب موجود ہوں گے جو اپنے نظریے کے جواز میں اور مسٹر کیپرا کے نظریے کے ابطال میں ٹھوس دلائل و براہین پیش کر سکتے ہیں۔

    اس ضمن میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ستارے کیوں کر بنتے ہیں یا وہ کون سی چیز ہے جو ستارے بناتی ہے؟

    مسٹر کیپرا نے اس سوال کا جواب نہایت دلچسپ انداز میں دیا۔ آپ کہتے ہیں، ’’اگر دنیا کے تمام پروڈیوسر اپنا سرمایہ جمع کر کے میرے حوالے کر دیں (جو یقیناً کافی و وافی ہوگا) اور مجھ سے یہ کہیں کہ ہمارے فلمی آسمان کے لئے تین ستارے چن کر لا دو، تو میں یقیناً خالی الذہن ہو جاؤں گا۔ اس لئے کہ مجھے وہ جگہ معلوم ہی نہیں۔ جہاں سے یہ ستارے مل سکتے ہیں۔‘‘

    خاموش فلموں کے زمانے میں ہالی ووڈ کے آسمان فلم کے لئے ستارے عام طور پر ہوٹلوں، کارخانوں اور دفتروں وغیرہ سے آتے تھے، لیکن اب فلموں کی خاموشی تکلم میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس صنعت کو کافی فروغ حاصل ہو چکا ہے۔ ستاروں کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے یہاں صنعت فلم سازی کے آغاز میں قحبہ خانے تھیٹر اور چکلے ستارے مہیا کیا کرتے تھے اور اب کہ ہماری صنعت کو کسی قدر فروغ حاصل ہوا ہے، علمی طبقے نے بھی ہمارے فلمی آسمان کے لئے ستارے پیش کرنے شروع کئے ہیں اور مستقبل بعید یا مستقبل قریب میں ایک ایسا وقت آئے گا، جب ہالی ووڈ کی طرح یہاں بھی ستاروں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ مگر ہم یہ سوچ رہے تھے کہ وہ کون سی شے ہے جو ستارے بناتی ہے؟

    مسٹر فرینک کیپرا کی (جن کی ڈائریکشن میں ہالی ووڈ کے بڑے بڑے نامور ستارے کام کر چکے ہیں) رائے ہے کہ کرداروں کی صحیح تقسیم (یعنی موزوں و مناسب کاسٹ) ستارے بناتی ہے۔ ان کے نظریے کے اعتبار سے چینی آدمی کا روپ صرف چینی ہی بطریق احسن دھار سکتا ہے اور لنگڑے یا کبڑے آدمی کا پارٹ صرف لنگڑا یا کبڑا آدمی ہی خوبی سے ادا کر سکتا ہے۔ ہمیں مسٹر کیپرا کے اس نظریے سے اتفاق ہے۔ اسکرین پر کسی کیریکٹر کی ادائیگی کے لئے اتنا ہی زیادہ انہیں کامیابی کا موقع ملے گا، جس آسانی سے ہم اور آپ اپنے آپ یعنی اپنے اصل کو پیش کر سکتے ہیں۔ اس آسانی سے ہم کسی اور کی نقل نہیں کر سکتے جہاں تصنع اور بناوٹ کو دخل ہوگا وہاں اصلیت برقرار نہیں رہ سکتی۔

    اس نظریے کے جواز میں مسٹر فرینک کیپرا نے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جن میں سے ایک گیری کو پر کی ہے۔ آپ کہتے ہیں، گیری کوپر اسکرین پر اپنے آپ کو اصلی رنگوں میں پیش کرتا ہے اور چونکہ وہ ایک خوش ذوق، عالی خیال اور صاحب فہم انسان ہے، اسی لئے وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہتا ہے۔

    ہم یہ کہہ رہے تھے کہ موزوں و مناسب کاسٹ ستارے بناتی ہے، مگر یہ قطعی اور آخری فیصلہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ صرف کاسٹ کا موزوں و مناسب ہونا ہی کسی فلم کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ فلم کی کامیابی کے لئے اور بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے جن کو آپ بخوبی سمجھتے ہوں گے۔ مختصر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب تک مشینری کے سب پرزے اپنی اپنی جگہ پر اچھا کام نہ کریں گے، فلم کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کرداروں اور ٹیکنیشینوں کا باہمی اتحاد پکچر کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس طرح قیمتی سے قیمتی گھڑی ایک ٹک کرنے سے بھی انکار کر دیتی ہے، ا س لئے کہ اس کے کسی پرزے کے ساتھ میل کا ایک ننھا سا ذرہ چمٹا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح قیمتی سے قیمتی فلم، ایک حقیر اور معمولی سی فروگزاشت یا غلطی کے باعث فیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح کاسٹ ستارے بنانے میں دیگر عناصر سے کہیں زیادہ ممد و معاون ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے غورو فکر کے بعد یقیناً ہمارے ہم نوا ہو جائیں گے، چنانچہ فلموں کو کامیاب بنانے اور ستارے پیدا کرنے کے لئے ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے۔

  • ”تم دونوں مسلمان ہو!“

    ”تم دونوں مسلمان ہو!“

    پاک و ہند کی تقسیم کے وقت فسادات اور ان گنت خوں آشام واقعات میں ہر مذہب اور قومیت کے ماننے والے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے اور ہزاروں لوگ بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ سرحدی لکیر کے باعث بٹ جانے والی زمین نے انسان کی بے رحمی کا وہ منظر دیکھا کہ خود انسانیت بھی اس پر کانپ اٹھی۔ رام لعل کو بھی فسادیوں نے گھیر لیا تھا۔ وہ ایک بالغ نظر اور انسانیت پر یقین رکھنے والے ایسے ہندو تھے جو زمین کے بٹوارے کو تو شاید قبول کرلیتا مگر ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کا بٹ جانا اسے قبول نہیں‌ تھا، لیکن لاکھوں کی آبادی میں ان جیسے دردمند اور بلاتفریقِ ملّت و مذہب انسانوں سے پیار کرنے والے بہت کم تھے۔

    رام لعل اردو ادب کے بڑے افسانہ نگار اور بلند پایہ ادیب تھے۔ انھوں‌ نے تقسیمِ ہند اور ہجرت کے واقعات اور مختلف انسانی المیوں کی کہانیاں لکھیں اور تذکرہ نویسی کے ساتھ رام لعل نے شخصیات کے قلمی خاکے بھی تحریر کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ ’زرد پتوں کی بہار‘ کے نام سے رام لعل نے پاکستان یاترا کی کہانی بھی رقم کی تھی۔ فسادات کے موقع پر ریل میں انھیں بھی بلوائیوں نے گھیر لیا تھا، اور اس واقعے کو رام لعل نے بعد میں‌ اپنی خود نوشت بعنوان کوچۂ قاتل میں رقم کیا۔ ملاحظہ کیجیے:

    میں تو اپنے ڈبے میں واپس آگیا۔ ملک وزیر چند نے بہت ہی گھبرائے ہوئے لہجے میں کھڑکی میں سے مجھے پکارا:

    ”رام لعل ذرا باہر آنا…!“ باہر جا کر میں نے دیکھا۔ انہیں سکھوں اور ہندوؤں کے ایک گروہ نے گھیر رکھا ہے۔ ملک صاحب نے کہا:

    ”یہ لوگ کہتے ہیں، میں مسلمان ہوں…!“ مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر گھسیٹ لیا اور کئی لوگ بہ یک زبان ہو کر بولے:

    ”ہاں ہاں! تم دونوں مسلمان ہو! پاکستان جانے کا راستہ نہیں ملا تو دلّی کی طرف بھاگ رہے ہو!“

    ہم دونوں نے شلوار قمیص پہن رکھی تھیں۔ ملک وزیر چند کے بڑے بڑے گل مچھے تھے۔ ہمارے سروں کے بال عین بیچ میں سے تقسیم ہوتے تھے اور بکھرے ہوئے تھے… ہماری بھوری بھوری آنکھیں ان لوگوں کی آنکھوں کی رنگت سے بالکل جدا تھیں۔ میں سمجھ گیا، وہی کہانی پھر دہرانی پڑے گی۔ ہمارا تعلق مغربی پنجاب سے ہےِ، وہاں کی آب و ہوا اور بود و باش کی وجہ سے ہمارے لہجے مختلف ہیں اور پھر اچانک میری زبان سے یہ بھی نکل گیا ”قرآن ساں (قرآن کی قسم) ہم ہندو ہیں…!“

    ”دیکھا دیکھا! سالے مسلے ہیں، قرآن کی قسم کھاتے ہیں، میں نہ کہتا تھا۔“
    میں نے انہیں سمجھایا:

    ”یہ ہمارا روایہ ہے۔ اسی علاقے کا، ہم وہاں قرآن ہی کی قسم کھاتے تھے، لیکن ہم مسلمان نہیں ہیں ہمارا یقین کرو۔“

    انہیں تب تک یقین نہیں ہوا۔ جب انہوں نے ہماری شلواریں کھلوا کر اطمینان نہیں کر لیا، لیکن یہ واقعی ہم دونوں کے لیے بے حد باعث شرم تھا۔ ملک صاحب مجھ سے عمر میں کافی بڑھے تھے اور لاہور میں ’سرپرست‘ ہونے کے ناتے سے میرے والد کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں انہیں چاچا جی کہہ کر ہی بلاتا تھا، لیکن فسادیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہوجانے پر مجبور ہو گئے تھے۔