Tag: ادبی اقتباسات

اردو کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں اور ان کی کتابوں سے ادبی اقتباسات جن میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، شان الحق حقی، نیاز فتح پوری و دیگر شامل ہیں

  • ”بس“ اور ”کافر“

    ”بس“ اور ”کافر“

    صرف ادبیوں اور شاعروں کے دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم و راہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کھل کھیلنا پسند نہیں کرتے۔

    وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی الٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔

    البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں ان کے لباس تبدیل کر دیں۔ ان کی لَے اور رنگ بدل دیں، ان کا رخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرما دیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں ادنا و اعلا ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔

    ؎ ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
    ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
    (مومن خاں مومنؔ)

    لفظ ”بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔

    ؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔

    (از قلم جوشؔ ملیح آبادی)

  • جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    عبدالحمید متخلص بہ عدمؔ اردو کے قادر الکلام اور زود گو شاعر تھے۔ ایک دور تھا جب وہ بطور رومانوی شاعر بہت مقبول رہے۔ مختصر بحروں میں عدم کا کلام سلاست و روانی کا نمونہ ہے۔

    یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے اور عدم کی شخصیت، ان کے مزاج سے متعلق ہے۔

    عدم ان دنوں راولپنڈی میں تھے اور ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں افسر تھے۔ صادق نسیم بھی اسی دفتر میں ملازم تھے۔ دونوں کا ٹھکانہ قریب قریب تھا۔ وہ صبح سویرے اکٹھے دفتر کے لیے پاپیادہ نکل کھڑے ہوتے تھے۔

    صادق نسیم نے لکھا ہے کہ ایک صبح دفتر جاتے ہوئے انہیں ہوا کی تندی کا سامنا کرنا پڑا جو سامنے سے ان پر گویا جھپٹ رہی تھی۔ عدم نے چلتے چلتے سگریٹ نکالا اور دیا سلائی سے اُسے سلگانے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ تیز ہوا دیا سلائی کو بجھا دیتی۔ اس پر عدم نے پورا یو ٹرن لے کر اپنی پیٹھ ہوا کی طرف کر کے سگریٹ سلگایا تو وہ سلگ اٹھا۔ اس پر وہ دوبارہ اپنا رخ دفتر کی طرف کرنے کی بجائے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے واپس گھر کی طرف چل پڑے۔ اس پر صادق نسیم نے پکار کے کہا ’’حضور! دفتر اس طرف ہے۔‘‘ عدم کہنے لگے۔ ’’ہوا مخالف ہے۔ مجھ سے دفتر نہیں جایا جاتا۔‘‘

    صادق نسیم تو دفتر کی طرف بڑھ گئے مگر عدم واپس گھر جا پہنچے۔

    فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل
    مجھ کو بھی کام ہے ابھی تجھ کو بھی کام ہے

  • پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔

    ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے بھاؤ اور دوسرے مسائل سے کہاں فرصت ہو گی کہ شعر کہیں۔ غالب نور اللہ خاں کا نام بھی ڈائریکٹری میں ہے لیکن ہمارے مؤکل کا نام تو اسد اللہ خاں تھا جیسا کہ خود فرمایا ہے۔

    اسد اللہ خاں تمام ہوا
    اے دریغا وہ رند شاہد باز

    بے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔

    ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کر کے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روزنامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو یک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دل چسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظر بندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

    مرزا ظفر الحسن ہمارے دوست نے مرزا رسوا کو رسوائی کے مقدمے سے بری کرانے کے بعد اب مرزا غالب کی یاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مرزا کو مرزا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک ہوٹل میں ادارۂ یادگارِ غالب کا جلسہ کیا تو ہم بھی کچے دھاگے میں بندھے پہنچ گئے۔ ظفر الحسن صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد صہبا لکھنوی نے تھوڑا سا تندیٔ صہبا سے موضوع کے آبگینے کو پگھلایا۔
    اس کے بعد لوگوں نے مرزا جمیل الدین عالی سے اصرار کیا کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔ وہ نہ نہ کرتے رہے کہ ہے ادب شرط منہ نہ کھلواؤ لیکن پھر تاب سخن نہ کر سکے اور منہ سے گھنگنیاں نکال کر گویا ہوئے۔ غالب ہر چند کہ اس بندے کے عزیزوں میں تھا لیکن اچھا شاعر تھا۔ لوگ تو اسے اردو کا سب سے اونچا شاعر کہتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس کے نام پر منظوم جلسہ یعنی بیت بازی کا مقابلہ کرا رہے ہیں اور اسے کسوٹی پر بھی پرکھ رہے ہیں لیکن اس عظیم شاعر کی شایانِ شان دھوم دھامی صد سالہ برسی کے لیے ہندوستان میں لاکھوں روپے کے صرف کا اہتمام دیکھتے ہوئے ہم بھی ایک بڑے آدمی کے پاس پہنچے کہ خزانے کے سانپ ہیں اور ان سے کہا کہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ کچھ غالب نام آور کے لئے بھی ہونا چاہیے ورنہ، طعنہ دیں گے بت کہ غالب کا خدا کوئی نہیں ہے۔

    ان صاحب نے کہا، ’’آپ غالب کا ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لائے؟‘‘ یہ بولے، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’پھر کس بات کے روپے مانگتے ہو، وہ تو کہیں آگرے، دلّی میں پیدا ہوا، وہیں مر کھپ گیا۔ پاکستان میں شاعروں کا کال ہے۔‘‘ عالی صاحب نے کہا، ’’اچھا پھر کسی پاکستانی شاعر کا نام ہی بتا دیجیے کہ غالب کا سا ہو۔‘‘ بولے، ’’میں زبانی تھوڑا ہی یاد رکھتا ہوں۔ شاعروں کے نام، اچھا اب لمبے ہو جائیے، مجھے بجٹ بنانا ہے۔‘‘

    خیر ہندوستان کے شاعر تو ہندوستانیوں ہی کو مبارک ہوں۔ خواہ وہ میر ہوں یا انیس ہوں یا امیر خسرو ساکن پٹیالی واقع یوپی لیکن غالب کے متعلق ایک اطلاع حال میں ہمیں ملی ہے جس کی روشنی میں ان سے تھوڑی رعایت برتی جا سکتی ہے۔ ہفت روزہ قندیل لاہور کے تماشائی نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک اعلان سنا کہ اب اردن کے مشہور شاعر غالب کا کلام سنیے۔ یہ بھی تھا کہ ’’اردن کو مرزا غالب پر ہمیشہ ناز رہے گا۔‘‘ تو گویا یہ ہمارے دوست ملک اردن کے رہنے والے تھے۔ تبھی ہم کہیں کہ ان کا ابتدائی کلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا اور عربی فارسی سے اتنا بھرپور کیوں ہے اور کسی رعایت سے نہیں تو اقربا پروری کے تحت ہی ہمیں یوم غالب کے لیے روپے کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اردن سے ہماری حال ہی میں رشتے داری بھی ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ صد سالہ برسی فروری میں ہے۔
    فردوسی کی طرح نہ ہو کہ ادھر اس کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا اور ادھر خدام ادب اشرفیوں کے توڑوں کا ریڑھا دھکیلتے غزنی کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے۔

    عالی صاحب کا اشارہ تو خدا جانے کس کی طرف تھا۔ کسی سیٹھ کی طرف یا کسی اہل کار کی طرف۔ لیکن مرزا ظفر الحسن صاحب نے دوسرے روز بیان چھپوا دیا کہ ہم نے حکومت سے کچھ نہیں مانگا، نہ اس کی شکایت کرتے ہیں، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ یہ شکوہ شکایت ادارہ یادگارِ غالب کے حساب میں نہیں، مرزا جمیل الدین عالی کے حساب میں لکھا جائے، ہم تو پنسیلیں بیچ کر یوم غالب منائیں گے۔‘‘

    ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازار بند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔

    منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
    عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر و ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • اردو کے دو بڑے ادیبوں کے ڈیرے

    اردو کے دو بڑے ادیبوں کے ڈیرے

    ادیب اور صحافی اختر عبّاس نے اردو کے دو ممتاز ادیبوں اشفاق احمد اور احمد ندیم قاسمی کی علمی و ادبی مجلس کا یہ تذکرہ بہت ہی دل چسپ انداز میں رقم کیا ہے اور لائقِ مطالعہ ہے۔

    لاہور میں‌ اشفاق احمد کا گھر اور ان کی بیٹھک جب کہ قاسمی صاحب کا دفتر اور ان کا رسالہ فنون گویا دونوں ہی ادبی موضوعات پر مباحث، پرانے اور نئے لکھنے والوں کی تخلیقات پر تنقید اور ستائش کے ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ اسی سے متعلق ایک پارہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    شہر لاہور کی خوبیوں اور خوب صورتی میں اردو کے دو بڑے ادیبوں کے دو ڈیرے بھی شامل رہے ہیں۔ ایک داستان سرائے ماڈل ٹاؤن میں جناب اشفاق احمد کا گھر اور دوسرا کلب روڈ پر مجلسِ ترقّیِ ادب میں جناب احمد ندیم قاسمی کا دفتر۔ اشفاق صاحب کے ہاں ان کی کتابوں، سوچ اور ذات سے محبت کرنے والوں کا اکٹھ ہوتا، ادبی، علمی اور روحانی مسائل پہ محفل جمتی اور آنے والے عقیدت اور محبّت کی سرشاری لے کر لوٹتے۔

    اس عہد کے بڑے ادیب اور شاعر وہاں جمنے والی محفلوں، کھانوں، مکالموں میں موجود ہوتے۔ اکثر ان کو ان کی گفتگو کے ترازو میں تولتے، ان کا ادبی کام اور قد کاٹھ کہیں پیچھے ڈال دیتے، کئی تو موقع دیکھ کر ان کے بعض خیالات کی بے وجہ تردید کرنے لگتے۔

    یہ ڈیرہ اردو سائنس بورڈ میں بھی برسوں رہا، جمعرات کا لنگر بھی اس کا حصہ ہوتا جو بانو آپا کی نگرانی میں تیار ہوتا۔ اس سوچ کے گھنے سایے میں جوان ہونے والے بہر حال اسے کسی ادارے کی شکل نہ دے سکے اور اشفاق احمد کی پہچان ادیب سے زیادہ زاویے والے بابا جی کی بن کے رہ گئی۔

    1974ء میں مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر بننے کے بعد احمد ندیم قاسمی کا ڈیرہ یوں آباد ہوا کہ 2006ء تک جب 10 جولائی کو وہ رخصت ہوئے اس ڈیرے کی رونق کم نہیں ہوئی۔ فنون کی ادارت لکھنے والوں کی مسلسل تربیت کی صورت ایک تنظیم میں ڈھلتی گئی۔

    آج (2013ء) میں شاید کسی فرد کی شخصی محبت سے اوپر اٹھ کر جائزہ لینا اور انھیں یاد کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوگیا ہے کہ ادبی آسمان پر چھائی بدلیوں میں احمد ندیم قاسمی کا عکس ہے، یا ان کے نام پر برسنے والی بدلیاں بہت ہیں۔ یہ خوش نصیبی سب کے ہاتھ میں نہیں آتی۔

    بچپن میں ہی والد کی وفات کے صدمے نے بقول ان کے ’’بوڑھا‘‘ کر دیا تھا۔ اس صدمے نے انھیں آنے والی زندگی میں پختگی اور ذمہ داری عطا کر دی۔ 70 سال کے طویل ادبی کیریئر میں کم سے کم تین نسلوں کے شعرا اور ادیبوں نے ان سے فیض پایا۔

    یہ ان کی کمال خوبی تھی کہ نئے لکھنے والوں کو ظرف اور کمال شفقت سے اپنا لیتے، ان کو خط لکھتے، ملنے کے لیے آتے تو خوش دلی سے وقت دیتے، باتیں کرتے، لطیفے سناتے، اصلاح کرتے۔

    وہ کبھی بھی مصلح نہیں تھے بلکہ ایک عمدہ شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر ان کی پہچان مسلَّم ہے۔ اس سے پہلے ان کا تعارف ایک فکاہیہ کالم نگار کا تھا، ہم تک آتے آتے وہ شاعروں کے پیش امام اور بڑے افسانہ نگاروں کے سرخیل بن چکے تھے۔

    البتہ کالم نگاری نے ان کا بہت قیمتی اور تخلیقی وقت لے لیا۔ میں نے دو ادیبوں کا قابلِ رشک بڑھاپا دیکھا۔ ’’اشفاق صاحب کا اور احمد ندیم قاسمی کا۔‘‘ قاسمی صاحب کی بیٹھی بیٹھی گھمبیر آواز کی مٹھاس آخر تک قائم رہی۔

    پاکستان میں شاید ہی کسی بوڑھے آدمی کی اتنی محبت اور شان سے سالگرہ منائی جاتی رہی ہو، بے شک سالگرہ کی یہ سالانہ تقریب ایک طرح کی لاہور کی مستقل ادبی روایت کا روپ دھار گئی تھی۔

    نوجوان، بزرگ، نئے، پرانے، کافی پرانے، ادبی، غیر ادبی ہر طرح اور ہر سطح کے لوگ ان سالگرہوں میں آتے اور قاسمی صاحب بار بار اپنی سیٹ سے اٹھ کر مہمانوں سے گلدستے اور خوبصورت تحفے وصول کرتے، میز پھولوں سے’’لبالب‘‘ بھر جاتے تو منصورہ احمد کچھ گلدستے پرے کر دیتیں۔

    میں نے ان مواقع پر جناب اشفاق احمد، عطاءُ الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر یونس جاوید سمیت آج کے ہر اہم اور مشہور شاعر اور ادیب کو وہاں شریک ہوتے اور اظہارِ خیال کرتے دیکھا۔

    جناب اشفاق احمد اور عطاءُ الحق قاسمی کی بعض گفتگوئیں جنھوں نے سماں باندھا مجھے آج بھی یاد ہیں۔ دل میں ممکن ہے سب کے ہو کہ کبھی ان کی بھی اسی طرح دھوم دھام سے سالگرہ منائی جائے مگر ایسے کام خواہشوں سے نہیں ان لوگوں کی محبت سے ہوتے ہیں جنھوں نے آپ سے فیض پایا ہو۔ آپ سے جُڑے رہے ہوں۔

    میرے ان سے تعارف اور تعلق میں کئی چھوٹی چھوٹی یادیں شامل ہیں۔ مارچ 1981ء ابوظہبی میں جشن قاسمی منایا گیا تو انہی دنوں بہاولپور میں صادق ایجرٹن کالج کے سو سال مکمل ہونے پر ہونے والے جشن کی کاغذی کارروائیاں زوروں پر تھیں۔

    مہمانوں کے بڑے بڑے ناموں میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا نام بار بار آتا کہ وہ اس کالج کے گلِ سر سبد تھے۔ کالج کی اسٹوڈنٹس یونین میں ہونے کے باعث ایسی محفلوں میں شرکت کا موقع ملتا تو ان کو دیکھنے اور ملنے کا اشتیاق اور بھی گہرا ہوا۔

    اب اسے اتفاق ہی جانیے کہ لاہور آکر پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران کوئی وقت ہی نہ بن پایا۔ فیروز سنز میں ایڈیٹر مطبوعات مقرر ہونے کے بعد لاہور اور بیرونِ لاہور ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ پھول کے علاوہ وہ تہذیبِ نسواں، ادبِ لطیف سویرا، امروز، نقوش اور فنون کے مدیر رہے۔

    یہاں حسنِ اتفاق سے مجھے ان کے نقوشِ پا پہ چلتے ہوئے دورِ نو کے پھول کی ادارت کا 13 سال اعزاز ملا۔ اب کے ان تفصیلی انٹرویو کا موقع ملا جو پھول کی زینت بنا، کئی دفعہ وہ نہ ملتے تو ڈاکٹر یونس جاوید بہت عمدہ میزبانی کرتے۔

    جناب انور سدید نے عربی کتاب ’’بہانے باز‘‘ کا دیباچہ لکھتے ہوئے جو جملے لکھے وہ جناب احمد ندیم قاسمی کے کام اور اس کی گہرائی کا بہت عمدہ اعتراف ہے، انھوں نے لکھا ’’جب جب اختر عباس کا ذکر آئے گا مجھے احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں۔ قاسمی صاحب جب اختر عباس کی عمر کے تھے تو وہ دارُالاشاعت لاہور سے مولوی ممتاز علی کی نگرانی میں رسالہ پھول نکالتے تھے جسے میری عمر کے بچّے اسکول کی لائبریری میں پڑھتے تھے۔

    بعد میں قاسمی صاحب بڑے ہوگئے جیسے ہر بچّہ بڑا ہوجاتا ہے مگر جس طرح انھوں نے صحافت سے ابتدا کی اور صحافت کے ساتھ عمر بھر کا سنجوگ قائم رکھا اسی طرح اختر عباس نے بھی ادب کا آغاز صحافت سے کیا ہے اور آہستہ آہستہ اسی سنجوگ کو پختہ اور مائل بہ ارتقا کر رہے ہیں۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے پاؤں اس ’کھڑاواں‘ میں ڈالے ہیں جو کبھی قاسمی صاحب نے پہنی تھی۔

    پھر انھوں نے ایک دل چسپ اور انوکھی بات لکھی’’توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس سفر میں مختلف فلیگ اسٹاپ‘‘ عبور کر کے مرکزِ ادب ہی نہیں، مرکزِ نگاہ بھی بن جائیں گے۔ اس وقت زندہ رہا تو اختر عباس کا ایک طویل خاکہ لکھوں گا اور اگر عقبیٰ کو چلا گیا تو وہاں سے کسی فرشتے کے ہاتھ اختر عباس کے پرچے میں اشاعت کے لیے بھجواؤں گا۔ مجھے خوشی ہے، پھول کے پہلے دور نے اردو ادب کو احمد ندیم قاسمی جیسا افسانہ نگار دیا اور دوسرے دور سے ایک اور بڑا کہانی نگار ابھر رہا ہے جس کی ابتدا میں مستقبل کی کام رانیاں نمایاں ہیں۔‘‘

    سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر انور سدید کی تحریر نے ایک بار تو حیران، پریشان بلکہ سوالیہ نشان ہی کردیا۔ جناب قاسمی کا ذکر ایک ایسے لیجنڈ کے طور پر کیا کہ جس کی کھڑاویں پہننا ہی نہیں چھُونا بھی اعزاز سے کم نہیں۔

  • دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں؟

    دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں؟

    پرانے زمانے میں جب انسان جنگی دور میں تھا تو غصہ ایک اندھا جذبہ ہوا کرتا تھا۔

    ہوتا یوں تھا کہ اگر آپ پر کسی نے پتھر پھینکا اور پھر بھاگ گیا اس پر آپ کو غصہ آجاتا۔۔۔ آپ اپنا تیر کمان اٹھا لیتے اور گھر سے نکل جاتے۔ باہر کوئی بھی چلتا پھرتا نظر آتا، چاہے وہ انسان ہو یا پرندہ یا پڑوسی کی بھینس، آپ اس پر تیر چلا دیتے اور پھر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے بعد جھونپڑے میں داخل ہو کر آرام سے اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے۔ اس زمانے میں بدلے یا انتقام کا سوال نہ تھا۔ صرف دل ٹھنڈا کرنے کی بات تھی۔ اس کے بعد انسان آہستہ آہستہ مہذب ہوتا گیا اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ غصّہ نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ غصّہ دلانے والے کو سزا دی جائے۔

    آج کی صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم پھر سے جنگلی دور میں جا داخل ہوئے ہیں جب بھی ہم غصّے میں آتے ہیں تو جوش میں باہر نکلتے ہیں۔ سڑک پر چلتی بسوں کو روک کر انہیں آگ لگا دیتے ہیں، چلتی گاڑیوں پر پتھر پھینکتے ہیں، چار ایک نعرے لگاتے ہیں، منہ سے جھاگ نکالتے ہیں۔ اور یوں دل ٹھنڈا کرنے کے بعد اپنے کارنامے پر نازاں خوشی خوشی گھر لوٹتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں؟

    بھئی، غصّہ تو آنی جانی چیز ہے لیکن اسے قائم کر لینا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ سیانوں کا کہنا ہے "غصہ پہاڑ کی برفیلی چوٹی کی طرح ہے۔ آپ چوٹی پر جاسکتے ہیں، وہاں قیام نہیں کرسکتے۔”

    (اقتباس رام دین از ممتاز مفتی)

  • اے حمید: جن کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی

    اے حمید: جن کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی

    منیر نیازی اور اے حمید میں بہت سی باتیں ایک ہی رنگ میں تھیِں۔ دونوں خوبرو، خوش لباس اور دونوں حسن و جمال کے عاشق اور دونوں کو خوشبو پسند۔ منیر صاحب شاعر تھے اور حمید صاحب نثر میں شاعری کرتے تھے۔

    میں نے منیر صاحب کو بھی اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ بس اتنی خوب صورتی کافی ہے۔ لفظ ’کافی‘ میں ایک تشنگی ہے، یہی ایک ادھوری جگہ ہے جہاں ہمارے خواب جنم لیتے ہیں۔ انسان سے اگر اس کا تخیل چھین لیا جائے تو اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہیں رہتا، اور یہ خواب ہی ہیں جو ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔ ہم پر امکانات کا در وا کرتے ہیں اور ہمیں ایک ان دیکھی دنیا کا نظارہ کرواتے ہیں اور اسی لیے حمید صاحب کو محلوں سے زیادہ ان کے خواب عزیز تھے۔ انہوں نے دنیا کی بدصورتی میں زندگی بسر کرنے کے لیے ایک خوب صورت جواز پیدا کیا تھا، محبت، فطرت اور انسانیت دوستی کا خواب، وہ ’خوابوں کے صورت گر‘ تھے۔ سفاک حقیقت کے درمیان تاریکی میں جہاں کہیں انہیں کسی کرن کی جھلک دکھائی دیتی تو وہ اس سے ایک روشن صبح کے پر بنا لیتے۔ ان کی تحریروں میں قدیم شاعروں، دیوی دیوتاؤں رشیوں اور دشت نوردوں کے نوحے ان کی نغمہ گری اور ان کے خوابوں کی تاثیر ہم پر ایک سحر طاری کرتی ہیں۔

    ان کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی۔ بہت سالوں بعد میں جب میں نے ٹی وی پر اسکرپٹ پروڈیوسر کی ملازمت شروع کی تو تقریباً روز ہی میری حمید صاحب سے ملاقات رہتی۔ ان کے ساتھ ہمیشہ ان کا قریبی دوست نواز ہوتا جو پنجابی کا بڑا اعلی لکھاری تھا۔ ’شام رنگی کڑٰی‘ اس کی کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ میرے کالج کا دوست اور ٹی وی پروڈیوسر نصیر ملکی بھی زیادہ وقت میرے ہی کمرے میں رہتا۔ اس کی بھی ان سے بہت گہری دوستی تھی۔ حمید صاحب ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھتے تھے، اس لیے ان کا ہفتے میں تین چار مرتبہ ریڈیو اور ٹی وی کا چکر لگتا رہتا۔ حمید صاحب آتے تو اکثر ان کے ہاتھ میں کوئی پھول ہوتا اور آنکھیں کسی غائب کے نظارے سے مست رہتی۔ گم صم اور رومانٹک۔ اُن کو چائے سے بہت محبت تھی۔ کہتے تھے، ’سرمد یار چاء وچ وی جان ہوندی اے۔‘ چائے آتی تو وہ کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ ان کے لیے چائے دانی ٹی کوزی میں ایک ڈھکی چھپی محبوبہ تھی۔ چائے دم پر آنے تک وہ بھی چپ چاپ کوئی دم پڑھتے رہتے۔ پھر آہستہ سے ٹی کوزی اُتاری جاتی جیسے کوئی اپنی محبوبہ کو بے حجاب کر رہا ہو۔ چائے حمید صاحب کو اور حمید صاحب چائے کو اپنی خوشبو سے سیڈوس کرتے یعنی رجھاتے رہتے۔ حمید صاحب کے ہاتھ نہایت لاڈ سے چائے دانی کو اپنی آغوش میں تھام کر اُسے پیالی میں عریاں کرتے، آہستہ بہت آہستہ۔ چائے بھی جھک کر کہتی اور ذرا آہستہ!

    جیسے وہ اپنی چائے ہلکی ہلکی چسکیاں لے کر پیتے، ویسے ہی وہ اپنی کہانی بیان کرتے ٹھہر ٹھہر کر۔ وہ کسی تجربے یا واقعے کو ہلکے شرابی کی طرح غٹاغٹ نہ پی جاتے بلکہ اہلِ ظرف کی طرح دیر تک شیشے میں تندیٔ صہبا کا ارغوانی دیدار کرتے اور پھر مزے لے لے کر پیتے۔

    (پاکستان کے معروف فکشن رائٹر، ڈرامہ اور سفرنامہ نویس اے حمید سے متعلق سرمد صہبائی کی یادوں سے ایک جھلک، سرمد صہبائی شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں)

  • معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی اردو…. (دل چسپ قصّہ)

    معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی اردو…. (دل چسپ قصّہ)

    اشفاق احمد بانو قدسیہ کے متعلق کہا کرتے تھے جب ہم گورنمنٹ کالج میں کلاس فیلو تھے تو بانو قدسیہ کو اردو بالکل نہیں آتی تھی۔

    اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ریاضی میں بی ایس سی کی تھی۔ وہ ”ہمدردی‘‘ کو ”ہمددری‘‘ لکھتی تھیں۔ خواہشمند کی میم ”ہ‘‘ سے پہلے آ جاتی تھی۔ خیر پڑھنا شروع کیا، جب ہمارے پہلے ضمنی امتحان ہوئے تو بانو فرسٹ آ ئیں، ہم پیچھے رہ گئے۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ جو چیزیں مجھ میں بہت کم ہیں وہ ان میں بہت زیادہ ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان خوبیوں کو گھر لے جائیں۔

    دوسری جانب بانو قدسیہ خود کو اشفاق احمد کی چیلی قرار دیا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اشفاق صاحب نے ہمیشہ تلقین کی جب ایک بھی لکھنے کا کام کرو تو مکمل کرو۔ کوئی ملنے آ جائے تو انکار کر دو، جہاں بیٹھ کر لکھو یکسوئی سے لکھو۔

    اردو کی یہ نامور مصنفہ بانو قدسیہ مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئی تھیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آ گئی تھیں۔ ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی عمر اس وقت ساڑھے تین سال رہی ہوگی۔

    بانو قدسیہ کو بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ پانچویں جماعت میں ہی تھیں تو ان کے اسکول میں ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں ہر کلاس کو اپنا اپنا ڈرامہ پیش کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود کلاس کو تیس منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لیے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔ ان سے درخواست کی گئی کہ تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو۔ بانو قدسیہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بقول ان کے جتنی بھی اردو آتی تھی اس میں ڈرامہ لکھ دیا۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی۔ اس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز دیا گیا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔

    طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ”واماندگی شوق‘‘ 1950ء میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ”ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ بانو قدسیہ کہتی تھیں، ”میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہو گئی۔ اس کے بعد اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا اگر تمہیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے تاکہ مقابلہ پورا ہو۔ اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اشفاق صاحب نے ہمت بھی دلائی اور حوصلہ شکنی بھی کی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک ان کا رویہ استاد کا ہی رہا، میں انہیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں۔‘‘

    (ماخوذ از سوانح و تذکرہ بانو قدسیہ)

  • میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہو گا۔

    یہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جنھوں نے موزونی طبع کی وجہ سے یا اپنا دل بہلانے کی خاطر یا دوسروں سے تحسین سننے کے لیے شعر کہے ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمہ تن شعر میں ڈوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے اپنے کلام سے اردو کی فصاحت کو چمکایا اور زبان کو زندہ رکھا۔

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    یہ شعر کس قدر سادہ ہے، اس سے زیادہ آسان، عام اور معمولی الفاظ اور کیا ہوں گے لیکن اندازِ بیان درد سے لبریز ہے اور لفظ لفظ سے حسرت و یاس ٹپکتی ہے۔ اردو کیا مشکل سے کسی زبان میں اس پائے کا اور ایسا درد انگیز شعر ملے گا۔ ایک دوسری بات اس شعر میں قابلِ غور یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو غل نہ کرنے اور آہستہ بولنے کی ہدایت کر رہا ہے، وہ بھی بیمار کے پاس بیٹھا ہے، اور اس پر لازم ہے کہ یہ بات آہستہ سے کہے۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ لفظ ایسے چھوٹے، دھیمے اور سلیس ہوں کہ دھیمی آواز میں ادا ہو سکیں۔ اب اس شعر کو دیکھیے کہ لفظ تو کیا ایک حرف بھی ایسا نہیں جو کرخت ہو یا ہونٹوں کے ذرا سے اشارے سے بھی ادا نہ ہو سکتا ہو۔

    جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
    تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

    اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں، مگر شعر کس قدر پُر درد ہے، دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیز بنا دیا ہے۔ یہ سلاست اور یہ اندازِ بیان اور اس میں یہ درد میرؔ صاحب کا حصہ ہے، ان اشعار کے سامنے صنائع و بدائع، تکلف و مضمون آفرینی، فارسی، عربی ترکیبیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔

    (مقدمۂ انتخابِ میر از مولوی عبدالحق سے اقتباس)

  • خواجہ دل محمد کی نظم اور ڈپٹی نذیر احمد کی چوگوشیہ ٹوپی

    خواجہ دل محمد کی نظم اور ڈپٹی نذیر احمد کی چوگوشیہ ٹوپی

    خواجہ دل محمد ایک شاعر، ریاضی دان، ماہرِ تعلیم اور مصنف تھے جنھوں نے ریاضی کی کتب تصنیف کرنے کے علاوہ شعر و ادب میں اپنی نظموں اور دوہا نگاری کے ساتھ مذہبی کتب کے منظوم تراجم سے پہچان بنائی۔ وہ فروری 1883ء میں پیدا ہوئے اور 1961ء میں بعارضۂ سرطان وفات پائی۔

    مولانا عبدالمجید سالک نے اپنی خودنوشت سوانح "سرگزشت” میں انجمنِ حمایتِ اسلام، لاہور کے ایک جلسے کا دل چسپ واقعہ بعنوان "خواجہ دل محمد اور ڈپٹی نذیر احمد” قلم بند کیا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    اس اجلاس میں ایک بہت دل چسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

    اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔ آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بری چیز نہیں۔ حسان بن ثابت حضرت رسولِ خدا کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے بیکار شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

    اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب درد ناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہٗ کے سامنے بھی نہیں اتری محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہو گا۔

    بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سنی۔”

  • جب ایک مقروض شخص والٹر اسکاٹ کو سَر کا خطاب دیا گیا

    جب ایک مقروض شخص والٹر اسکاٹ کو سَر کا خطاب دیا گیا

    سر والٹر اسکاٹ (1832۔ 1771) کا شمار انگریزی ادب کے نامور افراد میں ہوتا ہے۔ مگر اس کو یہ مقام معمولی حیثیت کی قیمت میں ملا۔ اس کی معمولی حیثیت اس کے لیے وہ زینہ بن گئی جس پر چڑھ کر وہ اعلیٰ درجہ کو پہنچے۔

    والٹر اسکاٹ اپنی ادھیڑ عمر تک ایک معمولی صلاحیت کاانسان سمجھا جاتا تھا۔ اس کی حیثیت بس ایک تیسرے درجہ کے شاعر کی تھی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ اس کے اوپر قرضوں کا بوجھ لد گیا۔ اس کی شاعری اس کو اتنی آمدنی نہ دے سکی جس سے وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی کرسکے۔

    بالآخر اس کے حالات نہایت شدید ہوگئے۔ شدید حالات نے اس کی شخصیت کو آخر حد تک جھنجھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ والٹر اسکاٹ کے اندر سے ایک نیا انسان ابھر آیا۔ اس کی ذہنی پرواز نے کام کا نیا میدان تلاش کرلیا۔

    اب اس نے نئی نئی کتابیں پڑھیں۔ یہاں تک کہ اس پر کھلا کہ وہ محبت کی تاریخی داستانیں لکھے۔ چنانچہ اس نے محبت کی تاریخی داستانوں کو ناول کے انداز میں قلم بند کرنا شروع کردیا۔

    قرض کی ادائیگی کے جذبہ نے اس کو ابھار اکہ وہ اس میدان میں زبردست محنت کرے۔ اس نے کئی سال تک اس راہ میں اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ اس کو اپنی کہانی بازار میں اچھی قیمت میں فروخت کرنی تھی اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب کہ اس کی کہانیاں اتنی جان دار ہوں کہ قارئین کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں۔

    چنانچہ ایسا ہی ہوا والٹر اسکاٹ کی غیر معمولی محنت اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی ضامن بن گئی۔ اس کی لکھی ہوئی کہانیاں اتنی زیادہ فروخت ہوئیں کہ اس کا سارا قرض ادا ہوگیا۔ والٹر اسکاٹ پر اگر یہ آفت نہ آتی تو اس کے اندر وہ زبردست محرک پیدا نہیں ہوسکتا جس نے اس سے وہ کہانیاں لکھوائیں جس نے اس کو انگریزی ادب میں غیر معمولی مقام دے دیا۔

    اس کے بعد والٹر اسکاٹ کو سَر کے خطاب سے نواز اگیا۔ والٹر اسکاٹ کے لیے قرض کا مسئلہ نہایت جاں گداز مسئلہ تھا۔ لیکن اگر یہ جاں گداز مسئلہ نہ ہوتا تو والٹراسکاٹ، سَر والٹر اسکاٹ بھی نہ بنتا۔

    (ہندوستانی اسلامی اسکالر، مفکر اور کئی کتب کے مصنف مولانا وحید الدین خاں کی کتاب رازِ حیات سے اقتباس)