Tag: ادبی اقتباسات

اردو کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں اور ان کی کتابوں سے ادبی اقتباسات جن میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، شان الحق حقی، نیاز فتح پوری و دیگر شامل ہیں

  • جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    جب سبطِ حسن نے جیل میں عربی سیکھی!

    لاہور کی شادمان کالونی سنٹرل جیل کو مسمار کر کے بنائی گئی۔ سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں بہت سے سیاسی اور دینی اکابرین شامل تھے۔ مولانا مجاہد الحسینی بھی ان میں شامل تھے۔ اپنے زمانۂ اسیری میں مولانا کی سبطِ حسن سے جیل میں شناسائی ہوئی اور ان میں استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بن گیا۔

    مولانا مجاہد الحسینی نے نامور ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سید سبطِ حسن سے اپنے اسی تعلق کی یادوں کو قلم بند کیا جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سید سبطِ حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔ وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چارپائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چارپائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی تحریروں مطالعہ کیا تھا، روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے میں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔

    اس پر میں نے کہا:”دنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“…. مصرع سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر میں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران میں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔

    بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟….اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا: یہ کیا؟

    میں نے کہا، میری کمر میں کھنچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چارپائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور میں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیاتِ قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران میں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا۔

  • جوتے کا ترجمہ…

    جوتے کا ترجمہ…

    لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان ہے۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ایک صاحب نے اس دکان کے شو کیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوب صورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوئے اور اس کے مالک سے پوچھنے لگے، اس جوتے کے کیا دام ہیں؟ دکان دار بولا مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا، یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے۔ وہ صاحب بولے "مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔”

    یہ صاحب ابنِ انشا تھے۔ ایک پر اسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت۔ "جوتے کا ترجمہ” تو محض ان کی "خوش طبعی” کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے۔ اور چینی نظمیں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ صحیفۂ کنفیوشش کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہدِ جدید کے منظومات بھی۔

    شخصیت کی اسی پر اسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا "گرو دیو” کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا اور اس کی کچھ نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے تھے۔ پو کے دوسرے عاشق ابنِ انشا تھے جنہوں نے پو کی پُراسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے "اندھا کنواں” کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ اس کتاب کے دیباچے میں انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پو کی تنقیدیں بھی خاصے کی چیز ہیں اور آیندہ وہ اس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ بھی کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے اس ارادے کی تکمیل نہ ہو سکی۔

    خود ابنِ انشا کی اپنی شاعری میں یہی پُراسراریت اور نرالی فضا ہے۔ ان کی نظمیں اگرچہ عصری آگہی کے اظہار میں اپنے عہد کے کسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں، مگر ان نظموں کی فضا اور ان کا تانا بانا اپنے عہد کے مروجہ اسالیب سے بالکل الگ ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام "چاند نگر” ہے جو ۱۹۵۵ء میں مکتبۂ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔

    ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: "گِرم کی پریوں کی کہانیوں میں ایک ضدی بونا سر ہلا کر کہتا ہے کہ انسانیت کا دھیلا بھر جوہر میرے نزدیک دنیا بھر کی دولت سے زیادہ گراں قدر ہے۔ میری کتنی ہی نظمیں اس دھیلا بھر انسانیت کے متعلق ہیں۔ ان میں بھوک کا جاں گداز درد بھی ہے اور جنگ کا مہیب خوف بھی۔ بھوک اور احتیاج سے رست گاری کی جدوجہد مارکس سے ہزاروں برس پہلے شروع ہوئی تھی اور اب بھی جاری ہے۔”

    واقعہ یہ ہے کہ ابن انشا ایک ترقی پسند شاعر تھے مگر ان کی ترقی پسندی تحریک، منشور اور پارٹی لائن والی ترقی پسندی سے مختلف تھی۔ جنگ اور امن کے موضوع پر اردو میں ترقی پسند شاعروں نے ہنگامی اور صحافتی انداز کی کیا کیا نظمیں نہیں لکھیں لیکن ان میں سے آج ہمارے حافظے میں کون سی نظم محفوظ رہ گئی ہے؟ مگر ابنِ انشا نے اس موضوع کو جو بظاہر وقتی اور ہنگامی ہے اپنے شاعرانہ خلوص اور فن کارانہ ایمان داری کے بدولت جاوداں کر دیا ہے۔ مضافات، امن کا آخری دن، افتاد، شنگھائی، کوریا کی خبریں، کوچے کی لڑائی وغیرہ نظمیں آج بھی شعریت سے بھرپور معلوم ہوتی ہیں۔

    ۱۹۵۵ء میں "چاند نگر” کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ ناصر کاظمی کی "برگ نے” اور راقم الحروف کا "کاغذی پیرہن” بھی اسی سال شائع ہوئے اور اس دور کے کئی نقادوں نے ان تینوں مجموعوں میں کچھ مشترک عناصر کی نشان دہی پر بطور خاص زور دیا۔ میں تو خیر کس شمار قطار میں تھا اور میرا مجموعہ دراصل میری ادھ کچری تخلیقات کا ایک البم تھا، لیکن نئے تنقیدی رویے کی بدولت مجھے بھی اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابنِ انشا)، دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور مزاح نگار ابنِ انشا کے فن و شخصیت پر بحیثیت دوست اور قلم کار یہ مضمون بھارت کے معروف شاعر اور نقّاد خلیل الرحمٰن اعظمی کے مکتوب کی صورت میں موجود ہے، جو ۱۹۷۸ء میں علی گڑھ میں اعظمی صاحب کے قلم سے نکلا تھا)

  • عمر کا چالیسواں برس اور مِڈ لائف کرائسس

    عمر کا چالیسواں برس اور مِڈ لائف کرائسس

    اشفاق احمد اور ان کی شریکِ سفر بانو قدسیہ کی باتیں، ان کی تخلیقات یعنی ناول اور آپ بیتیاں یا تذکرے ہماری زندگی کے مختلف ادوار، ہمارے شب و روز اور رشتوں ناتوں کی وہ جھلک ہیں جن میں ہم اپنا آپ اچھا یا برا جیسا ہو، دیکھ سکتے ہیں۔

    راہِ رواں بانو قدسیہ کی تصنیف ہے جسے ہم انہی دو شخصیات کے تعلق اور انمول یادوں کا عکس کہہ سکتے ہیں لیکن اس میں بیان کردہ واقعات، تجربات اور مشاہدات ہم سب کو کچھ نہ کچھ سیکھنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ بانو قدسیہ کی اسی کتاب سے ایک پارہ آپ کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہر انسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کر midlife کے (crisis) اور اس سے جنم لینی والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجیے لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے۔ اور عمل میں نا پختگی کا ثبوت دیتا ہے۔

    تبدیلی کو خاموشی سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی بار انسان کا (image) سوسائٹی میں بالکل برباد ہو جاتا ہے۔

    پے در پے شادیاں، معاشقے، معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں، ماں باپ سے ہیجانی تصادم، اولاد سے بے توازن رابطہ غرضیکہ اس عہد کی تبدیلی میں زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے۔

    آخری تبدیلی عموماً بڑھاپے کے ساتھ آتی ہے جب نہ اشیاء سے لگاؤ رہتا ہے، نہ انسانی رشتے ہی با معنی رہتے ہیں۔ اب اطمینانِ قلب صرف ذکرِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ بھی نصیب کی بات ہے۔

  • جب مولانا عبد السلام نیازی نے دہریے اور ایک حاجی کی خبر لی!

    جب مولانا عبد السلام نیازی نے دہریے اور ایک حاجی کی خبر لی!

    مولانا عبد السلام نیازی اپنے وقت کے ایک بڑے مفکر و عالم، محقق، اور بزرگ شخصیت گزرے ہیں۔ مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی، خواجہ حَسن نظامی، بابا غوث محمد یوسف شاہ تاجی اور جوش ملیح آبادی جیسی علمی، مذہبی و ادبی شخصیات نے ان سے استفادہ کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، جواہر لعل نہرو، میر عثمان آف حیدر آباد دکن اور سر مسعود جیسے اکابر شرف یابی کے متمنی رہتے مگر کسی کو درخورِ اعتنا نہ گردانتے۔

    دنیا جہاں کے علوم گھوٹ پی رکھے تھے۔ متروک، غیر متروک زبانوں کے عالمِ بے بدل، حکمت، دین، تصوف، فقہ، ریاضی، ہیئت، تقویم، تنویم، موسیقی، راگ داری، نجوم، علم الانسان، علم الاجسام، علم البیان، معقول و منقول، علم الانساب، عروض و معروض ایسا کون سا علم تھا جہاں وہ حرفِ آخر نہ تھے۔

    جوش صاحب تو مولانا نیازی کے منظور نظر رہے ہیں۔ جوش صاحب خود بھی مولانا کے بہت نیازمند ہوا کرتے تھے۔ مگر جب وہ الحاد کی باتیں کرنے لگتے تو مولانا کا ناریل چٹخ جاتا، کہتے کہ ’’جوش تمہارا دماغ شیطان کی کھڈی ہے۔‘‘

    ایک مرتبہ ایک صاحب نے باقاعدہ اپنی دہریت کا اعلان کر دیا۔ اب مولانا نیازی کا ناریل بڑے زور سے چٹخا۔ بولے ’’دہریہ آدمی یوں نہیں بن جاتا۔ اس کو بہت عالم فاضل ہونا چاہیے، تم کو نہ فلسفہ سے مس ہے، نہ منطق سے آشنا ہو۔ جاہلِ مطلق ہو، تم کیسے دہریے بن جاؤ گے۔ یہاں سے سدھاریے۔

    لوگوں کو معلوم تھا کہ مولانا کا ناریل جب چٹختا ہے تو دو تین بار سدھاریے کہتے ہیں اور پھر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ تو قبل اس کے کہ یہ مرحلہ آئے وہ صاحب سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    خواجہ حسن نظامی نے ایک مرتبہ ان سے فرمائش کی کہ تصوف پر کتاب لکھیے۔ انھوں نے یہ پیش کش قبول کی اور دل لگا کر تصوف پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ خواجہ صاحب کو کتاب بہت پسند آئی مگر چھپنے کے سلسلہ میں شرط یہ پیش کی کہ کتاب میرے نام سے چھپے گی۔ بس مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ انھوں نے مسوّدہ لے کر چاک کیا اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ پھر بولے، خواجہ خدا تمہیں خوش رکھے۔ اب تم ہمیں چائے پلواؤ۔

    خلیق انجم اپنے مضمون میں بتاتے ہیں کہ ایک صاحب حج سے واپس آنے کے بعد مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا کو بتانے والوں نے بتایا تھا کہ ان صاحب کی دو کنواری بیٹیاں گھر بیٹھی ہیں۔ یہ قرض لے کر حج پر گئے اور حج کے بعد بھی وہاں خاص وقت گزارا۔ اب واپس آئے ہیں۔ مولانا اس پر ناخوش تھے کہ گھر میں دو جوان بیٹیاں شادی کی منتظر ہوں اور باپ اس فرض کو فراموش کر کے قرض لے کر حج پر چلا جائے۔ یہ غیر شرعی عمل ہے۔

    مولانا نے ان صاحب سے کہا کہ آپ قرض لے کر حج پر گئے جب کہ آپ کی دو بیٹیاں شادی کی منتظر بیٹھی ہیں اور پھر حج کے بعد بھی وہاں اپنے قیام کو اتنا طول دیا۔

    ان صاحب نے جواب دیا، حضرت جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ روشنی سے کنارہ کر کے اندھیرے کی طرف کیسے جائے۔

    بس پھر کیا تھا۔ مولانا کا ناریل چٹخ گیا۔ ’’بولے، سالے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھیرے میں رہتے ہیں۔ تو قرض لے کر اس روشنی میں گیا تھا۔ چل نکل یہاں سے۔ بس وہ صاحب فوراً ہی رفو چکر ہو گئے۔

    (معروف ادیب، ناول نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی ایک تحریر سے اقتباسات)

  • اوّلین محبت کی تلاش…

    اوّلین محبت کی تلاش…

    اے حمید اپنی یادوں میں لکھتے ہیں، ”امرتسر میرا وطن ہے، میں وہاں پیدا ہوا تھا۔ لیکن میں جب بھی بھاگ کر کسی دوسرے ملک کے، شہروں میں جہاں جہاں بھی آوارہ گردی کرتا رہا لاہور کی یاد میرے دل کے ساتھ لگی رہی، امرتسر کا صرف کمپنی باغ اور وہ لڑکی یاد آتی جس سے مجھے بچپن ہی سے پیار ہو گیا تھا۔

    یہ اردو کے مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کا تذکرہ ہے اور اسے ہم تک سرمد صہبائی نے پہنچایا ہے جو ایک ادیب، ڈرامہ، فلم اور تھیٹر کے ہدایت کار ہیں۔ اے حمید اور کئی دوسرے مشاہیر سے سرمد صہبائی کی دوستی اور رفاقت رہی اور اس تحریر میں انھوں نے اے حمید کی یاد تازہ کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ستمبر کی ایک سہ پہر میرے دفتر کا دروازہ کھلتا ہے….

    حمید صاحب اندر داخل ہوتے ہیں اور کھڑے کھڑے کہتے ہیں۔ ’اٹھ یار سرمد اج میں تینوں اک چیز دکھانی اے، چل اٹھ!‘ (اٹھو یار سرمد، میں آج تمہیں ایک چیز دکھانی ہے)۔ میں ان کے ساتھ چل پڑتا ہوں، ایمپریس روڈ سے کچھ دور سڑک کے دائیں طرف ایک کچی گلی آتی ہے، ہم اس گلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر حمید صاحب ایک جگہ کھڑے ہوگئے ہیں، وہ بڑی محویت سے ایک بوسیدہ پرانے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں حمید صاحب کے قدم خود بخود اس کے سامنے کیوں رک گئے ہیں۔

    ’حمید صاحب؟‘ میں ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوں!

    ’یار سرمد اوہ ساہمنے تینوں باری نظر ارہی اے،‘ (یار سرمد وہ سامنے تمہیں کھڑکی نظر آ رہی ہے؟) وہ مجھے بغیر دیکھے کہتے ہیں جیسے اپنے آپ سے بات کر رہے ہوں۔ میں ایک چھوٹی سی پرانی کھڑکی دیکھتا ہوں جس پر بہت خوبصورت رنگین شیشے جڑے ہوئے ہیں۔ ’یار ایہہ باریاں پتہ نییں ہن کتھے چلی گیاں نیں۔ ‘ (یار یہ کھڑکیاں نہ جانے اب کہاں چلی گئی ہیں) وہ یک دم بہت اداس سے ہو گئے ہیں۔ پتہ نہیں اس کھڑکی کے پار کون رہتا ہے۔ مجھے منیر نیازی کی نظم یاد آتی ہے، لگتا ہے حمید صاحب نے یہ کھڑکی منیر نیازی کو بھی دکھائی ہوگی اور منیر صاحب نے شاید اسی کھڑکی کو دیکھ کر اے حمید سے کہا ہو گا۔

    اک اوجھل بے کلی رہنے دو
    اک رنگیں ان بنی دنیا پر
    اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو

    یہ اوجھل بے کلی اور رنگین ان بنی دنیا کا نظارہ ہے۔ حمید صاحب اس کھڑکی کو دیکھتے چلے جا رہے ہیں جیسے جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہے ہوں، شاید اس کھڑکی کے پیچھے وہی لڑکی کھڑی ہے جو ان کو انارکلی کے جھروکے سے جھانکتی تھی۔ شاید وہ اپنی اوّلین محبت کو تلاش کر رہے ہوں۔ اوّلین محبت کی سرشاری، جیسے دنیا ابھی ابھی پیدا ہوئی ہو، جیسے روز آفرینش حوا اور آدم نے پہلی بار ایک دوسرے کی طرف دیکھا ہو۔

  • مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    اردو ادب میں منیر نیازی وہ خوش قسمت شاعر تھے جنھیں اُن کی زندگی میں بڑا شاعر تسلیم کیا گیا اور ان کی تعریف کی گئی۔

    ممتاز ادیب اور فکشن رائٹر انتظار حسین منیر نیازی کے فن و کمال کے معترف رہے اور منیر نیازی بھی اُن کی تحریروں کو سراہتے تھے۔ انتظار حسین نے کی شاعری اور شخصیت پر ایک مضمون لکھا تھا جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    دراصل میں اور منیر نیازی جنت میں ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت سے پہچانا ہے۔ چلتے پھرتے کسی موٹر پر ہماری مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے کہ اس کی بستی کے آدمیوں کے کیسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں کہ اپن بستی میں شام کیسے پڑتی ہے۔ اور مور کس رنگ سے بولتا تھا۔ منیر نے ہمیشہ اسی طرح سنایا اور سنا جیسے کہ وہ یہ داستان پہلی مرتبہ سن رہا ہے اور پہلی مرتبہ سن رہا ہے۔ ایک ملال کے ساتھ سناتا ہے اور ایک حیرت کے ساتھ سنتا ہے۔ ہم اپنی گمشدہ جنت اپنے دھیان میں بسائے پھرتے ہیں۔ اوروں کے تصور میں بھی اسے تو بسا تو رہنا چاہیے تھا۔ مگر لگتا یوں ہے کہ سب نے کسی نہ کسی رنگ سے اس کی تلافی کر لی ہے۔ یا ضعف حافظہ نے ان کی مدد کی ہے مگر ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ حافظے نے بی بی حوا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنت سے نکلنے کے بعد انہیں جنت کی ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انہوں نے جنت کو بہت یاد کیا اور بہت روئیں۔ جنت کی یاد بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ روئے ارض پر جتنے مہندی کے پیڑ ہیں وہ سب بی بی حوا کے آنسوؤں کا فیض ہیں۔

    مجھے مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان میں تھوڑی میری آنکھوں کی نمی بھی شامل ہے۔ جب منیر اپنے خانپور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک بستی پکارنے کو جی چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے باغوں اور جنگل کا ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی عالم میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں۔ ہماری بستی کا جنگل کچھ بہت گھنا نہیں تھا مگر میری یادوں نے اسے گھنا بنا دیا ہے۔ جب میں منیر نیازی کے شعر پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ جنگل اور زیادہ گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ سو اپنا جنگل بہت گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے، سو اب اپنا جنگل بہت گھنا اور بہت پھیلا ہوا ہے لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ لگتا ہے کہ اس سے آگے بھی کوئی جنگل ہے۔ اپنے جنگل میں چلتے چلتے میں اچانک کسی اور ہی جنگل میں جا نکلتا ہوں، زیادہ بڑے اور زیادہ پُر ہول جنگل میں۔ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے جیسے کہ میں عہدِ قدیم میں سانس لے رہا ہوں۔ شاید عہدِ قدیم بھی ہمارے بچپن کے منطقے کے آس پاس ہی واقع ہے یا منیر نیازی نے اپنے شعروں سے کوئی عجب سی پگڈنڈی بنا دی ہے کہ وہ خانپور سے چل کر میری بستی کو چھوتی ہوئی عہد قدیم میں جا نکلتی ہے۔ تو اب صورت یہ ہے کہ میں منیر کے شعر پڑھتے ہوئے اپنے بچپن کے راستے عہد قدیم میں جا نکلتا ہوں۔ بچپن کے اندیشے اور وسوسے عہد قدیم کے آدمی کے وسوسوں اور اندیشوں سے جا ملتے ہیں۔

    جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
    مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو

    مگر مجھے لگتا ہے کہ منیر نے خود مڑ کر دیکھ لیا ہے۔ وسوسے اور اندیشے عہد قدیم سے آج تک آتے آتے آدمی کے اندر اتر گئے ہیں۔ اب باہر سے ہم ہمت والے ہیں اندر سے خوف زدہ ہیں۔ پہلے ہم مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اب اندر دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ کیا اندر بھی کوئی جنگل ہے۔ جنگل اصل میں ہمارے پہلے باہر تھا، اب ہمارے اندر ہے۔ ہم تو جنگل سے نکل آئے اور بڑے بڑے شہر تعمیر کر کے اپنے چاروں طرف فصیلیں کھڑی کر لیں مگر جنگل ہماری بے خبری میں ہمارے اندر اتر گیا اور سات پردوں میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ اب وہ ہمارے اندر سو رہا ہے۔ منیر نیازی وہ شخص ہے جس کے اندر جنگل جاگ اٹھا ہے اور سنسنا رہا ہے۔ اس نے مڑ کر جو دیکھ لیا ہے اس کی شاعری کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم جنگل میں چل رہے ہیں اور پاتال میں اتر رہے ہیں، عجب عجب تصویریں ابھرتی ہیں۔

    دبی ہوئی ہے زیرِ زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
    بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے ہوئے تہ خانے میں
    ٭٭٭

    کرے گا تو بیمار مجھے یا
    بنے گا نامعلوم کا ڈر
    رہے گا دائم گہری تہ میں
    جیسے اندھیرے میں کوئی در

    پھر میرے تصور میں عجب عجب تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ میں اپنے پاتال میں اترنے لگتا ہوں۔ اگلی پچھلی کہانیاں اور بھولے بسرے قصے یاد آنے لگتے ہیں چمکتی دمکتی اشرفیوں سے بھری زمین دوز دیگیں راجہ باسٹھ راجہ باسٹھ کے محل کے سنہری برج جو زمین کے اندھیرے میں جگمگ جگمگ کرتے ہیں۔ میری نانی اماں بہت سنایا کرتی تھیں کہ زمیں میں دبی یہ دیگیں کس طرح اندر ہی اندر سفر کرتی ہیں اور پکارتی ہیں اور جب کسی کو یہ پکار سنائی دے جاتی ہے تو اس پر کیا بیتتی ہے۔ ان کی باتیں اسی پکار کو سننے کی خواہش کی غمازی بھی کرتی ہیں مگر وہ ڈرتی بھی رہتی ہیں کہ کہیں سچ مچ کسی سنسان اندھیری رات میں یہ پکار انہیں سنائی نہ دے جائے۔ سانپ ان دیگوں کی رکھوالی کرتا ہے۔ میری نانی اماں یہ بتاتی تھیں کہ سانپوں کا ایک راجہ ہے۔ اسے وہ راجہ باسٹھ کہتی تھیں۔ ہندو دیو مالا کے تذکروں میں اس کا نام راجہ بسو کا لکھا ہے اس کا محل سونے کا بنا ہوا ہے اور پاتال کے اندھیرے میں جگمگاتا ہے۔ میری نانی اماں سانپ کا نام شاذ و نادر ہی لیتی تھیں۔ اشاروں کنایوں سے اس کا ذکر کرتی تھیں۔ منیر نیازی بھی اس کا نام لینے سے ڈرتا ہے مگر اس کا ذکر بہت کرتا ہے۔ اتنا خوف اور اتنی کشش آخر کیوں؟

    نامعلوم کا خوف اور نامعلوم کے لیے کشش اس خوف اور کشش کی صورت میں منیر نیازی کی شاعری میں کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے آدم و حوا ابھی ابھی جنت سے نکل کر زمیں پر آئے ہیں۔ زمین ڈرا بھی رہی ہے اور اپنی طرف کھینچ بھی رہی ہے۔ پاتال بھی ایک بھید ہے اور وسعت بھی ایک بھید ہے۔ بھید بھری فضا کبھی اس حوالے سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی اس حوالے سے اور شعر کے ساتھ دیومالائی قصے اور پرانی کہانیاں لپٹی چلی آتی ہیں۔

    سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
    کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
    نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
    پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستا ہی نہ ہو

    منیر نیازی کے لیے زمین اپنے پاتال اور اپنے پھیلاؤ کے ساتھ دہشت و حیرت سے بھرا ایک تجربہ ہے۔ مگر پھر وہی سوال کہ آخر کیوں؟ کیا اس کا تعلق بھی جنت سے نکلنے سے ہے؟ کیا یہ ہجرت کا ثمر ہے؟ مہندی کے یہ پیڑ خود بخود تو نہیں اگ آئے، قدیم آدمی کے تجربے تو ہمارے آپ کے اندر اور دیو مالاؤں اور داستانوں کے اندر دبے پڑے ہیں۔ آخر کوئی واقعہ تو ہوا ہے کہ یہ تجربے پھر سے زندہ ہوئے ہیں اور ایک نئی معصومیت اختیار کر گئے۔

    ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک پوری نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے۔ اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں اس تجربے نے الگ الگ روپ دکھائے ہیں۔ منیر نیازی کے یہاں اس کے فیض سے ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا سا نقشہ پیش کرتا ہے۔ باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربے کے حوالے کے بغیر خالی ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے۔

    (انتظار حسین کی یہ تحریر امجد طفیل کی کتاب بعنوان منیر نیازی: شخصیت و فن میں شامل ہے)

  • بخاری صاحب کا دل…

    بخاری صاحب کا دل…

    بڑے لوگوں کا طرزِ فکر، کسی معاملہ میں ان کی سوچ اور ردعمل بھی عام آدمی یا اوسط درجے کے آدمی سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان کے کام بھی۔ اس تحریر میں غلام رسول مہر نے یہی بات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

    غلام رسول مہر اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز، ادیب اور شاعر تھے اور یہاں بطور مصنّف ان کے ممدوح‌ ہیں جہانِ علم و ادب کی مایہ ناز شخصیت ذوالفقار علی بخاری جن سے مصنّف نے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے، ان کے بارے میں اپنے خیالات کو نہایت خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ یہ مختصر تحریر علم و ادب کے شیدائیوں کو نہایت پُراثر اور دل پذیر معلوم ہوگی۔ مہر صاحب لکھتے ہیں:

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۲۱ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لاتعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِاقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہوچکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبدالقادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضمونوں کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سیدامتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہوسکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چارپانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔

    سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔ بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    ۱۹۲۲ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تادیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔
    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لاتعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساس ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظام زندگی کی پابند ہو۔ اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

  • ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے!

    ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے!

    روزگار کا مسئلہ ہر زمانے میں رہتا ہے۔ اس لئے پیٹ آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ لیکن حالی اور اقبال کے زمانے میں لوگوں کو پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں تھیں۔ جب پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں ہوں تو خود پیٹ کی فکر کو بھی اجتماعی فکروں کے پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں آدمی صرف اپنی نہیں سوچتا بلکہ آس پاس کے لوگوں کے متعلق بھی سوچتا ہے یا یہ کہ اپنے متعلق دوسروں سے غیر متعلق ہو کر نہیں سوچتا۔ یہیں سے ادب کے لئے کشش پیدا ہوتی ہے۔ آدمی اور آدمی کے درمیان رشتہ نہ رہے یعنی اجتماعی فکریں ختم ہو جائیں اور ہر فرد کو اپنی فکر ہو تو ادب اپنی اپیل کھو بیٹھتا ہے۔

    ادیب بھی آدمی ہوتے ہیں۔ اردگرد کے حالات اس کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہر شخص کو اپنی فکر ہو تو ادیب کو بھی اپنی فکر پڑتی ہے۔ اپنی فکر کو دوسروں کی فکروں کے رشتہ میں رکھ کر دیکھنے یعنی آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا عمل اسے فضول نظر آتا ہے۔ پھر وہ لکھنے کے نئے نئے فائدے دریافت کرتا ہے۔ جس نے فائدے دریافت کر لیے وہ کامیاب ادیب ہے۔ اگر فائدے حسبِ دل خواہ حاصل نہ ہوں تو اچھا بھلا ادیب نرا میرزا ادیب بن کر رہ جاتا ہے۔

    ہر گنہگار معاشرہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے عضوِ ضعیف پر ڈالتا ہے۔ گنہگار معاشرہ میں ادیب کی حیثیت عضوِ ضعیف کی ہوتی ہے۔ وہ پہلے ادیبوں کو کبھی بہلا پھسلا کر، کبھی عرصۂ حیات تنگ کر کے اپنی راہ پر لاتا ہے اور بعد میں خود ہی ادیبوں کی روش پر نکتہ چیں ہوتا ہے اور کبھی ادبی جمود کی، کبھی ادیبوں میں قومی احساس کے فقدان کی شکایت کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے اندر کے جمود اور اپنے قومی احساس کے فقدان پر پردہ ڈالتا ہے۔

    معاشرہ کا اپنے ادیب سے تعلق کبھی عقیدت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی غصہ کی صورت میں۔ دونوں صورتوں میں لکھنے کے ایک معنی ہوتے ہیں اور عرضِ ہنر کی بہت قیمت ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں۔ شعر و افسانہ پر داد نہ ملتی، بیداد تو ملتی مگر وہ بھی نہیں ہے،

    دیوانہ بہ راہے رود و طفل بہ راہے
    یاراں مگر ایں شہر شما سنگ ندارد

    ہمارے معاشرہ کو ادب کی تو آج بھی ضرورت ہے، اس لئے کہ کرکٹ کے میچ سال بھر متواتر نہیں ہوتے۔ آخر ایک میچ اور دوسرے میچ کے درمیانی عرصے میں کیا کیا جائے۔ غزل اور افسانہ ہی پڑھا جائے گا۔ مگر غزل اور افسانے میں کرکٹ میچ کی کمنٹری والا لطف نہیں آتا۔ اس لئے ادبی جمود کی شکایت بر محل ہے۔ خیر افسانہ پڑھنے والوں کو تو جاسوسی اور اسلامی تاریخی ناول میں مکتی مل گئی ہے۔ شعر کی تلافی کیسے کی گئی ہے اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اس قسم کے قارئین سے حالی اور اقبال کو پالا پڑا تھا نہ عصمت اور منٹو کو، اور اگر میرے ساتھ کے لکھنے والوں کو یاد ہو تو پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہمارے قارئین کا رویہ بھی مختلف تھا۔ اس وقت ادب ان کی دل لگی کا سامان نہیں تھا بلکہ ایک دردِ مشترک تھا جو ہمارے اور ان کے درمیان تعلق پیدا کرتا تھا۔ مگر دیکھتے دیکھتے زیر آسمان ترقی کی نئی راہیں نکل آئیں۔ کچھ نئی راہیں ادیبوں نے بھی دریافت کیں۔ ترقی کی رفتار تیز ہے اور لکھنا ایک سست رو مشغلہ ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ جتنے عرصے میں ابنِ انشا نے یورپ اور ایشیا کا چکر لگایا اتنے عرصے میں میں نے صرف ایک افسانہ لکھا۔

    ایسے عالم میں جو لکھنے والا لکھتا رہ گیا ہے اور عرضِ ہنر کو سب سے بڑی قدر جانتا ہے، وہ معاشرہ کا بچھڑا ہوا فراد ہے۔ یہاں مجھے مولانا حالی سے ذرا پہلے کا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں جب مجاہدین ہارے تو بہت سے مر کٹ گئے۔ بہت سوں نے مفاہمت کر لی، بہت سے روپوش ہو گئے۔ مگر چند کا عالم یہ تھا کہ مورچہ ہارتے تھے تو بھاگ کر دوسرا مورچہ سنبھالتے تھے اور لڑتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ میدان ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کی شمشیر زنی کا کوئی حاصل نہیں اور زمانہ اتنا بدل چکا ہے کہ وہ مارے گئے تو وہ ہیرو اور شہید بھی نہیں بنیں گے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ لڑ رہے تھے۔ ہمارے معاشرہ نے لکھنے والوں کا وہ حال کیا جو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے مجاہدوں کا حال کیا تھا۔ ۱۸۵۸ء کے نئے ہندوستان کو یہ علم نہیں تھا کہ ابھی تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ زندہ ہیں اور جنگل جنگل چھپتے پھرتے اور انگریز پر شب خون مارتے پھرتے ہیں۔ شاید تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ کو بھی یہ آرزو نہیں رہی تھی کہ ہندوستان اس واقعہ کو جانے۔

    ہم میں سے جو لوگ لکھتے رہ گئے ہیں، ان میں ابھی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی اس آرزو پر قابو نہیں پا سکے ہیں کہ معاشرہ یہ جانے کہ کچھ ہنرمند آج بھی عرضِ ہنر ہی کو فائدہ جانتے ہیں۔ میری کمزوری یہ ہے کہ میں اپنے ۱۹۴۹ء کے افسانے کی دنیا کو نہیں بھولا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سواریوں کی زبان کوچوان اور کوچوان کی زبان سواریاں سمجھیں۔ لیکن اگر میرے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے اور میں واقعی افسانہ لکھنا چاہتا ہوں تو میری فلاح اس میں ہے کہ میں اپنے لکھے ہوئے افسانے کو بھول کر چیخوف کے افسانے کے معنی کو سمجھوں۔ افسانہ اب میرے لئے اپنی ذات کو محسوس کرنے اور قائم رکھنے کا وسیلہ ہے اور یہ کام میں گھوڑے کو کہانی سنا کر بھی کر سکتا ہوں۔

    جو معاشرہ اپنے آپ کو جاننا نہیں چاہتا وہ ادیب کو کیسے جانے گا۔ جنہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی، انہیں ادیب کی آواز بھی سنائی نہیں دے سکتی۔ ایسے معاشرہ میں لکھنے کا ان معنوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ تحریر کے معنی پوری طرح نہیں ابھرتے۔ آخر ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے۔ اس میں لکھنے والے اور قاری دونوں کی تخلیقی کاوش شامل ہوتی ہے۔ تحریر میں کچھ معنی لکھنے والا پیدا کرتا ہے، کچھ اس میں قاری شامل کرتا ہے۔ اس طرح ادب معاشرہ میں ایک فعال طاقت بنتا ہے اور ادیب کی شخصیت تکمیل حاصل کرتی ہے لیکن اگر معاشرہ ادیب سے قطع تعلق کر لے تو ادیب کے لئے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی یہی صورت ہے کہ وہ اپنی ہی ذات میں اپنی تکمیل تلاش کرے۔

    دلّی اور لکھنؤ کے زوال کے بعد فیروز شاہ کے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، لیکن ایسے عالم میں جب پورا ہندوستان اپنی جگہ سے ہل گیا تھا وہ بے فائدہ شمشیر زنی کرکے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لکھنے والا ایک سرد مہر معاشرہ میں یہی کرتا ہے۔ اس کی تحریر اپنی ذات کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ ہم نے ابھی بات شاید پوری طرح نہیں سمجھی ہے اور اس لئے ہم معاشرہ کی شکایت کرتے ہیں۔

    (ممتاز ادیب اور کالم نگار انتظار حسین کی تحریر ادب، گھوڑے سے گفتگو سے اقتباسات)

  • ارم لکھنوی نے شعر سنا کر بخاری صاحب کی ناراضی دور کر دی!

    ارم لکھنوی نے شعر سنا کر بخاری صاحب کی ناراضی دور کر دی!

    شہنشاہ حسین ارم لکھنوی نے اردو شاعری میں اپنے خوب صورت اشعار کی بدولت بڑا نام پایا، لیکن آج اس روایتی غزل گو شاعر کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے۔ نئی نسل شاید ہی ان کے نام سے واقف ہو۔ لیکن ایک دور تھا جب وہ کراچی شہر کے مشاعروں میں شریک ہوتے اور اپنے کلام پر خوب داد پاتے تھے۔

    ارم لکھنوی نے 1910ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے اور تقسیم کے بعد ان کا گھرانہ ہجرت کرکے کراچی پہنچ گیا۔ یہاں ارم لکھنوی نے ریڈیو پاکستان کے کراچی سینٹر میں اصلاحِ تلفظ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اردو غزل کے اس روایتی شاعر نے 5 فروری 1967ء کو وفات پائی اور شہر کے لیاقت آباد قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

    اس تعارف کے بعد ہم آغا ناصر جیسے نام ور براڈ کاسٹر اور مصنّف کی خاکوں پر مبنی کتاب ”گم شدہ لوگ” سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ اس زمانے میں ادیب و شاعر اور ماہرِ نشریات ذوالفقار علی بخاری المعروف زیڈ اے بخاری ریڈیو کے کرتا دھرتا تھے۔ آغا ناصر لکھتے ہیں کہ ذوالفقار بخاری جن لوگوں کو عزیز رکھتے تھے ان میں سے اگر کسی کے ساتھ ناراض ہوتے تو اپنی خفگی کے اظہار کے لیے ان سے بول چال بند کر دیتے۔ اسی تناظر میں، جب بزرگ شاعر ارمؔ لکھنوی اور بخاری صاحب میں بول چال بند تھی، تو کراچی کے ایک مشاعرے میں جس کی صدارت بخاری صاحب کر رہے تھے، ارمؔ لکھنوی بھی بطور شاعر مدعو تھے۔

    اپنی باری آنے پر جب انہوں نے غزل سنائی تو ساری محفل داد و تحسین کے شور سے گونج اٹھی، مگر بخاری صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے، خشمگیں نگاہوں اور تنی ہوئی بھنوؤں کے ساتھ ساری غزل سماعت کی۔ غزل کے اختتام پر ارم ؔصاحب نے بخاری صاحب کو مخاطب کر کے کہا، حضور! ایک شعر صرف آپ کی خدمت میں عرض ہے، اور پھر بڑی رقت کے ساتھ درج ذیل شعر پڑھا:

    ؎ یوں وہ گزرے نظر چرائے ہوئے
    ہم لیے رہ گئے سلام اپنا

    بخاری صاحب شعر سن کر پھڑک اٹھے اور جذباتی انداز میں اپنی نشست سے اٹھ کر ارمؔ لکھنوی کو گلے لگا لیا۔

  • ویرانے میں مزار کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟

    ویرانے میں مزار کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟

    قدیم استاد شاعر شمس الدّین فیض حیدر آباد دکن کے دربارِ آصفی سے وابستہ اور منصب و جاگیر سے سرفراز تھے۔ اسی سرزمینِ دکن کے ڈاکٹر زور ؔ نے بھی ادبی دنیا میں شاعر، افسانہ نگار، بلند پایہ نقاد، با کمال محقق اور ادبی مؤرخ و سوانح نگار کے طور پر خوب شہرت پائی اور خاص طور پر لسانیات و دکنیات میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

    ڈاکٹر صاحب ایک روز دکن کے استاد شاعر شمس الدین متخلص بہ فیض سے متعلق تحقیقی مضمون لکھنے کی غرض سے ان کی قبر پر پہنچے۔ یاد رہے کہ فیض صاحب 27 نومبر 1866ء میں انتقال کرگئے تھے۔ ڈاکٹر زور ؔنے قبر پر حاضری کے وقت وہاں ایسا کچھ دیکھا، جو اُن کے لیے باعثِ حیرت تھا اور اس کا تذکرہ ادبی رسالہ ”سب رس” کے ڈاکٹر زور ؔنمبر میں ملتا ہے۔

    اس کی راوی ڈاکٹر سیدہ جعفر ہیں جو ”سب رس” کی اشاعتِ خاص میں محی الدین قادری زور ؔپر اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ایک روز ڈاکٹر زور ؔکہنے لگے کہ ”بڑی تلاش اور تحقیقِ بسیار کے بعد لال دروازے کے اس گورستان کا پتا چلایا جہاں اوائل دور کے قدیم استاد شاعر میر شمس الدین فیض ؔکا مدفن تھا۔ یہاں ہر طرف ایک ہُو کا عالم تھا۔ قبروں کی حالت انتہائی شکستہ تھی۔ ہر طرف مٹی کے ڈھیر اور کوڑا کرکٹ کے انبار لگے ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کی نشان دہی پر جب میں فیضؔ صاحب کی قبر پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کی قبر دوسروں کے مقابلے میں صاف اور گرد و غبار سے پاک تھی۔ میں اپنی جگہ حیران تھا کہ اس ویرانے میں فیض صاحب کے مزار کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ غرض میں فاتحہ خوانی کے بعد گھر واپس آگیا، لیکن یہ سوال میرے ذہن میں ہنوز موجود تھا۔ میں نے فیض ؔکا دیوان اٹھایا، اور اس سوال کا اعادہ کرتے ہوئے دیوان کھولا اور دائیں ہاتھ کے پہلے صفحے پر دیکھا تو سب سے اوپر یہ شعر لکھا پایا:

    ؎ موجۂ بادِ بہارِ چمنستانِ بہشت
    مشہدِ فیضؔ پہ جاروب کشی کرتا ہے