Tag: ادبی اقتباسات

اردو کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں اور ان کی کتابوں سے ادبی اقتباسات جن میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، شان الحق حقی، نیاز فتح پوری و دیگر شامل ہیں

  • کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    وطنِ عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جال و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومت وقت اور برسر اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحت قلب اور روحت روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔ مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔ شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔

    حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • اگلے وقتوں کی روایات!

    اگلے وقتوں کی روایات!

    اگلے وقتوں سے روایت یہ چلی آرہی تھی۔ عید کی نماز بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں آسمان تلے پڑھی جائے۔ اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان آباد چلے آتے تھے اور چلے آتے ہیں بستی سے باہر عید گاہ تعمیر کی جاتی تھی۔

    یہ کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لمبی دیوار جس میں پیش امام کے لیے محراب بنی ہوتی تھی۔ دیوار کے دونوں کناروں پر دو بلند مینار، بیچ میں ایک گنبد۔

    مگر عید کی صبح یہی سادہ سی دو میناروں والی دیوار نمازیوں کا مرجع بن جاتی تھی۔ عہدِ مغلیہ میں دلّی تک کا نقشہ یہ تھا کہ جمعتہ الوداع کی نماز بہت دھوم سے شاہ جہانی مسجد میں ہوتی تھی۔ آس پاس کی بستیوں سے بھی نمازی کھنچ کر وہاں پہنچتے تھے۔ مگر عید کی صبح اور تو اور بادشاہ سلامت بھی اپنے جدّ کی تعمیر کی ہوئی بڑی مسجد سے کنی کاٹ کر عید گاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ پھر توپ بھی وہیں دغتی تھی۔

    ہاں عید گاہ کے نمازیوں میں سب سے پُرجوش نمازی کم سن صاحب زادگان ہوتے تھے۔ جو نئے بھڑکیلے کپڑے پہن کر ’سلمہ ستارے‘ کے کام سے لیس مخملی ٹوپی سر پر سجا کر اور بڑوں کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے۔ نماز بڑے خضوع و خشوع سے پڑھتے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر باہر سجے ہوئے عید بازار یا عید میلہ میں گھس جاتے اور رنگ رنگ کے کھلونے خرید کر خوش خوش گھر واپس آتے۔ پھر گلی گلی ان کے لائے ہوئے غبارے اڑتے نظر آتے اور بانس کی تیلیوں سے بنی ہوئی پھٹ پھٹ گاڑیوں کے شور سے گلیاں گونجتی نظر آتیں۔

    ارے ہاں گھروں کے اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی تو سن لیجیے۔ لو منہارن کو تو ہم بھولے ہی جا رہے تھے۔ ہم کیا اسے تو زمانے نے فراموش کر دیا۔ ورنہ 29 رمضان کے دن سے لے کر چاند رات تک اسی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ رنگ رنگ کی چوڑیوں کی گٹھری کمر پر لادے گھر گھر کا پھیرا لگاتی۔ لڑکیاں بالیاں کنتی خوش ہو کر اس کا استقبال کرتیں اور اپنی گوری گوری کلائیاں اس کے سامنے پھیلا دیتیں۔ کتنی چوڑیاں کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے چکنا چور ہو جاتیں۔ بہرحال کلائیوں پر چڑھی چوڑیاں جلد ہی کھن کھن کرنے لگتیں۔

    اور ہاں ہتھیلیوں، پوروں اور انگلیوں پر گھلی منہدی کا لیپ، عید کی صبح کو یہ منہدی اپنی بہار دکھائے گی۔ یہ سارا کاروبار گزرے زمانے میں گھروں کے اندر ہوتا تھا۔ اب بازاروں میں ہوتا ہے۔ اور ہاں سویّوں کا کاروبار بھی تو بھلے دنوں میں گھروں کے اندر ہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو لکڑی کی بنی گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ان کے پیندے میں ایک چھلنی پیوست ہوتی تھی۔ بچے بڑے اس پر سوار ہوتے تھے تب وہ پچکتی تھی اور پیندی والی چھلنی سے سویاں نکلنی شروع ہوتی تھیں۔ ان لمبی لمبی سوئیوں کو دھوپ میں رکھے جھاڑ جھنکاڑ پر پھیلا دیا جاتا تھا۔ سکھا کر انہیں بارود میں پھونا جاتا تھا۔ پھر ابلتے دودھ میں انھیں بار بار ابالا دے کر شیر تیار کیا جاتا تھا۔ گھوڑی گئی تو ہتھے والی مشین آگئی۔ مگر اب ہم بازار سے سویاں خریدتے ہیں۔

    اور ہاں عید کا چاند۔ ارے یارو، نئے لوگوں کے تعقل سے مرعوب ہو کر تم ہلالِ عید کی دید سے کیوں بیزار ہو گئے ہو۔ یہ عید کا فیض ہے کہ چاند ہمارے لیے آج بھی زندہ جیتی جاگتی مخلوق ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب نے تو اسے سائنس کا کفن پہنا کر مردہ بنا دیا ہے۔ ویسے جب سے رویت ہلال کا فریضہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ تب سے ہم بھی چاند کی دید سے محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ 29 کی شام کو بچے بڑے چھتوں پر چڑھ کر آسمان پر اسے کس شوق سے ڈھونڈتے تھے۔ ہلال کی ایک جھلک کس طرح ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کرتی تھی، سلام عید سے پہلے چاند رات کا سلام اپنی بہار دکھاتا تھا۔

    (انتظار حسین کے کالم ’عید گاہ گم منہارن غائب‘ سے ماخوذ)

  • نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    سعادت حسن منٹو جیسے بڑے قلم کار نے کئی سال قبل اپنے وقت کی ایک بڑی گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں پر یہ مضمون لکھا تھا۔ اس میں منٹو نے نور جہاں کے فن اور ان کی شخصیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ دل چسپ باتیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً‌ وہ بتاتے ہیں کہ گلوکارہ اپنی آواز کے بگڑنے اور گلے کے خراب ہونے کا خیال کیے بغیر کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں کرتی تھیں۔

    منٹو نے ملکۂ ترنّم نور جہاں کے بارے میں لکھا: میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ ’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔

    سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔

    نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔

    نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپد گاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خداداد چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔

    میں یہاں آپ کے لیے ایک دل چسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پر واضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

    شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہے لیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘

    یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صدا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔

  • بحث اور تکرار

    بحث اور تکرار

    جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں، تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بُری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، تو پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے۔ پھر باچھیں چِر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ داڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور نحیف آواز کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔

    اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کے کان اس کے منہ میں، اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کم زور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا۔

    نا مہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی اسی طرح پر تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کے آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر وہی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے۔ دوسرا بولتا ہے واہ! یوں نہیں یوں ہے، وہ کہتا ہے، واہ! تم کیا جانو… دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے… تیوری چڑھ جاتی ہے… رخ بدل جاتا ہے… آنکھیں ڈراؤنی ہوجاتی ہیں… باچھیں چِر جاتی ہیں… دانت نکل پڑتے ہیں… تھوک اڑنے لگتا ہے… باچھوں تک کف بھر آتے ہیں… آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں… نحیف نحیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں… آستینیں چڑھا، ہاتھ پھیلا اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی داڑھی اس کی مٹھی میں لپّا ڈُپّی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کرا کر چھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک اُدھر چلا گیا اور ایک اِدھر۔ اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کم زور نے پٹ کر کپڑے جھاڑتے، سر سہلاتے اپنی راہ لی۔

    جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو جاتی ہے۔ کہیں تُو تکار پر نوبت آجاتی ہے۔ کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے پر ہی خیر گزر جاتی ہے، مگر ان میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے، آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہوتی ہے، مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی محبت اور دوستی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔

    پس اے میرے عزیز ہم وطنو! جب تم کسی کے خلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دوبدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو اور بناوٹ بھی نہ پائی جائے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے الفاظ استعمال کرو۔ مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا میں غلط سمجھا۔ گو بات تو عجیب ہے مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔ جب بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے نہ دے تو زیادہ تکرار مت بڑھاؤ۔ یہ کہہ کر میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا۔ جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کر ختم کرو۔ دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلاؤ کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا۔ کیوں کہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور اپنی عزیز شے (جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے، جب کہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملتے ہیں، تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے، تکرار اور مباحثہ کو آنے مت دو۔ کیوں کہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے، تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگتی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو اس کو ختم کرو اور آپس میں ہنسی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کر لو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان کی مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔

    (مضامینِ سر سید احمد خان سے انتخاب)

  • تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    یہ مجازؔ کا تذکرہ ہے، وہ مجاز جس کا کلام ہندوستان بھر میں مقبول تھا اور خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں جس کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھا کرتے تھے۔ مجاز کی نظموں میں جذبات کی شدّت اور ایسا والہانہ پن تھا جس نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ شاعر اسرارُ الحق مجازؔ کی نظم ’آوارہ‘ نے اپنے دور میں سبھی کو چونکا دیا تھا۔ یہ نظم بہت مقبول ہوئی اور ہر باذوق کی زبان پر جاری ہوگئی تھی۔ مجاز کو شراب نے اتنا خراب کیا کہ عین جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ اردو شاعری کے آسمان پر گویا لمحوں کے لیے چمکے اور پھر ہمیشہ کے لیے سب کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

    معروف ادیب مجتبیٰ حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ اس وقت وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئے تھے۔ شراب نے انھیں برباد کردیا تھا۔ لکھنؤ میں انتقال کرنے والے مجاز کا خاکہ مجبتیٰ حسین کی کتاب نیم رُخ میں شامل ہے۔ مجبتیٰ حسین لکھتے ہیں:

    بارے مجاز ڈائس پر آئے۔ انہوں نے "اعتراف” سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آ رہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے۔ طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جا رہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہو چکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہو کر پڑھے جا رہے تھے:

    خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
    شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
    شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
    خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

    ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آ گیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔ مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔ دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے۔‘

    معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔ جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔ اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔

  • معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اردو زبان و ادب میں ’پطرس بخاری‘ کے قلمی نام سے خوب لکھا اور بطور مزاح نگار اس قلمی نام سے ان کی منفرد پہچان بنی۔ علمی و ادبی حلقے اور باذوق قارئین انھیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ پطرس بخاری کی ہمہ گیر شخصیت کا تعارف بیک وقت مزاح نگار، نقّاد، مترجم، صحافی، براڈ کاسٹر، ایک ماہرِ تعلیم، اور سفارت کار کے طور پر ہم سے ہوتا ہے۔

    پطرس بخاری کی اپنے دور کے ادب، ادبی سرگرمیوں اور اہلِ قلم کی بعض کم زوریوں پر نظر رہی۔ اس کا اندازہ ان کے ایک انگریزی مقالہ سے ہوتا ہے۔ یہ مقالہ پطرس مرحوم نے ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے جے پور میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں پڑھا تھا۔ اس میں ان کا موضوع اردو ادب کا جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔ مظفر علی سیّد نے اس کا ترجمہ کیا تھا جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم و بصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُر جوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ’’کل‘‘ کو پا لے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا، اس کو درونِ خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔

  • ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    یہ اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کا تذکرہ ہے جنھوں نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی اور اردو ادب کو اپنی تصانیف سے مالا مال کیا۔ ادبیاتِ اردو میں انھیں ایک محقق، نقاد، ادبی مؤرخ، مترجم، لغت نویس اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

    جالبی صاحب کا یہ تذکرہ انتظار حسین کے قلم کی نوک سے نکلا ہے جو اردو کے ایک مشہور ادیب اور نقاد تھے۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی قلم کار تھے جن کا نام مین بکر پرائز کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ آج دونوں‌ ہی شخصیات اس دنیا میں‌ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی تصانیف اور بہت سی ادبی تحریریں ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ انتظار حسین کی کتاب ‘چراغوں کا دھواں’ سے جمیل جالبی کے بارے میں یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    انتظار حسین لکھتے ہیں، "سلیم کو تو 1947ء میں جیسا چھوڑا تھا، اب بھی ویسا ہی پایا، مگر وہ جو اس ٹولی کا دوسرا جوان تھا، جمیل خان اور جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ماشاء اللہ کیا قد نکالا تھا۔ جب میرٹھ میں دیکھا تھا، تو نام خدا ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ چھریرا بدن، گوری رنگت، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس۔ میرٹھ کالج کا نیا دانہ اور اب جو دیکھا، تو نقشہ کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلے میں گلوری، ہونٹوں پر پان کی لالی، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی۔ کتنی جلدی مگر کسی شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔ ”ناصر صاحب پان لیجیے اور یہ قوام چکھیے۔“

    ناصر کاظمی کو جمیل خاں کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فوراً ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر دیا۔ ”یہ تمہارے جمیل صاحب آدمی شستہ ہیں۔“ پانوں کی اس ڈبیا اور قوام کی اس ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔ ”ارے میاں تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔“

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)

  • بھیا احسان الحق!

    بھیا احسان الحق!

    علم و فنون کی دنیا کے کئی نام ایسے ہیں جنھیں آج کوئی نہیں جانتا اور اردو زبان و ادب کے متوالوں کی فہرست میں‌ کئی ایسے لوگ شامل ہیں جن کا ذکر بھی اب نہیں کیا جاتا، لیکن کبھی یہ لوگ علمی مجالس اور ادبی بیٹھکوں کی رونق بڑھاتے تھے۔

    یہ معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے ایسی ہی ایک شخصیت کا تذکرہ ہے۔ خلیق ابراہیم خلیق نے اپنے دورۂ بھارت( دہلی) کی یادوں میں بھیّا احسان الحق کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    بھیّا احسان الحق سے، جن کے ہاں میں بستی نظام الدّین (دہلی) میں مقیم تھا، میرے بزرگوں کے پرانے مراسم تھے۔ ان کا لقب فقیر عشقی نظامی تھا اور عرفِ عام میں انھیں‌ بھیا جی کہتے تھے۔

    ایک زمانے میں شعر بھی کہتے تھے اور فلسفی تخلص کرتے تھے۔ وہ میرٹھ کے مشہور بھیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے تمول اور امارت کا بہت شہرہ تھا۔ اپنے والد کی زندگی میں بھیا احسان الحق میرٹھ میں رہتے تھے، مگر 1918ء میں ان کے انتقال کے بعد جائیداد اور بعض دوسرے امور کی دیکھ بھال کے سلسلے میں انھیں دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرنا پڑی۔

    میرٹھ سے دہلی آکر وہ اس مکان میں قیام پذیر ہوئے جو جامع مسجد کے سامنے اردو بازار میں سنگم تھیٹر سے متصل تھا اور انھیں اپنے والد کے ترکے میں ملا تھا۔ اس مکان کو بھیا احسان الحق نے ”اردو منزل“ کا نام دیا اور اس کا ایک حصہ دس پندرہ سال تک خواجہ حسن نظامی کے لیے وقف رہا۔

    خواجہ صاحب بستی نظام الدین میں اپنے گھر سے روزانہ صبح یہاں آجاتے، دن بھر اپنا دفتر جماتے اور کام کرتے اور رات کو اپنے گھر واپس جاتے۔ ان سے ملنے جلنے والے بھی یہیں آتے۔ اردو منزل میں اکثر و بیش تر علمی و ادبی صحبتیں جمتیں اور نشستیں برپا ہوتیں جن کے باعث اسے دہلی کے ایک اہم ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون نے 1960 میں بھیا احسان الحق کی وفات کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میں اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دوپہر کے کھانے، شام کی چائے اور رات کے کھانے پر دس پندرہ افراد کا ہونا روز کا معمول تھا اور سارے اخراجات بھیا احسان الحق اٹھاتے تھے۔

    خواجہ حسن نظامی سے بھیا احسان الحق کی پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی تھی جب وہ کالج کے طالب علم تھے۔ یہ ملاقات تاحیات رفاقت کی بنیاد بن گئی اور بہت جلد خواجہ صاحب کے مقربین خاص میں ملا واحدی کے ساتھ بھیا احسان الحق سرفہرست ہوگئے۔

    بھیا احسان الحق کو شروع ہی سے تصوف، ادب اور صحافت سے بہت دل چسپی تھی۔ وہ وحدتُ الوجود کے قائل اور قول و فعل میں صوفیائے کرام کی انسان دوست تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور صحافت کے ذریعے قوم کے سماجی شعور کو نکھارنے اور سنوارنے کے خواہش مند تھے۔

    خواجہ حسن نظامی کی شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے طرزِ تحریر کو پسند کرتے تھے۔ چنانچہ 1913میں انھوں نے خواجہ غلام الثقلین کی معیت میں ہفت روزہ ”توحید“ نکالا تو اس کی ادارت کے لیے خواجہ حسن نظامی کو میرٹھ بلایا۔ مسجد مچھلی بازار کانپور کی تحریک کے سلسلے میں جو اثر انگیز مضامین اس پرچے میں شائع ہوئے ان کی بنا پر حکومت نے اسے بند کردیا جب تک یہ پرچہ نکلتا رہا، خواجہ حسن نظامی میرٹھ میں بھیا احسان الحق کے مہمان رہے۔

    (معروف افسانہ نگار، شاعر اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادوں سے ایک پارہ)

  • طارق چھتاری: "جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے!”

    طارق چھتاری: "جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے!”

    طارق چھتاری کا خیال ذہن میں آتا ہے تو ع۔۔۔ فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں، والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں اور اس میں سن و سال کی کوئی قید نہیں کہ جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور یہ روشنی دیر تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔

    طارق چھتاری سے اپنی پہلی ملاقات یاد نہیں لیکن ان کا تصور آتے ہی جو پہلا منظر سامنے آتا ہے اس کا مختصراً بیان کچھ یوں ہے۔ پس منظر میں مسلم یونیورسٹی کی اونچی سرخ عمارتیں، تارکول کی سڑک کے دو رویہ سرکش و سرسبز درخت، جاڑوں کا موسم، ایک وجیہ و شکیل نو عمر جس کے بدن پر گہرے رنگ کا قدرے لمبا کوٹ تھا اور ہاتھوں میں ایک سرخ بائسیکل کے ہینڈل تھے یا شاید اسکوٹر کے ہینڈل تھے۔ وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہم عمر دو لڑکے اور تھے۔ میں انھیں دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔ یہ لڑکے اس زمانے کی یونیورسٹی کے خوش لباسوں میں یگانہ تھے۔ آج سے تیس بتیس برس پہلے کی یونیورسٹی۔ طارق چھتاری نے ایک مضمون میں اس زمانے کا بڑا سچا اور دل کش نقشہ کھینچا ہے۔ کچھ سطریں اس مضمون سے مستعار ہیں، ’’یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کی پرکشش اور سحر آگیں رومانوی فضا یونیورسٹی کے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور استعمال کرنے کی محرک ہوا کرتی تھی۔ کنیڈی ہاؤس کا خوش نما احاطہ، مولانا آزاد لائبریری کے سامنے کا وسیع سبزہ زار، فیکلٹی آف آرٹس کی سہ منزلہ جدید طرز کی خوب صورت عمارت کے صدر دروازے پر بنے حوض، مختلف عمارتوں کو ایک دھاگے میں پرونے والی صاف شفاف دھلی دھلائی سی سفید ٹھنڈی سڑکیں۔ پام، ساگون، گل مہر اور یوکلپٹس کے اونچے اونچے درخت۔ کینٹین کے وسیع وعریض ہال کی نیم تاریک اور پُرسکون فضا میں صوفے نہایت سلیقے سے آراستہ ہیں، طالبِ علم خراماں خراماں چلے آرہے ہیں، برآمدے نما پورٹیکو میں داخل ہوتے ہیں اور رنگین شیشوں والے محراب دار بڑے دروازے سے اندر پہنچ کر صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سعادت مند ویٹر پانی کے گلاس ٹرے میں لیے قریب آتے ہیں اور جھک کر میز پر سجا دیتے ہیں۔ سینئر طالبِ علم آرڈر دے دیتا ہے، اس کی آواز اتنی نرم اور دھیمی ہوتی ہے کہ اگر خاص طور سے سننے کی کوشش نہ کی جائے تو شاید برابر بیٹھا شخص بھی نہ سن سکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ طالبِ علم گفتگو میں محو ہی رہتے ہیں اور ویٹر پانی لگا کر خاموشی سے بغیر آرڈر لیے واپس چلا جاتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹرے میں ٹیکوزی ڈھکی کیتلی، دودھ دان، شکر دان، چمچے اور چند پیالیاں لے کر اس طرح آتا ہے جیسے طالبِ علموں کی خواہشات اور ضروریات سے وہ پہلے سے واقف ہو۔ نہ کسی کو آرڈر دینے کی ضرورت ہے، نہ اسے آرڈر لینے کی، گویا وہ سب کے دل کی زبان سمجھتا ہے۔

    اس زمانے میں اس کینٹین کا کنٹریکٹ اُردو کے ایک مشہور شاعر جناب جاوید کمال کے پاس تھا۔ کاؤنٹر پر کبھی جاوید کمال صاحب اور کبھی میکش بدایونی صاحب بیٹھے نظر آتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد کبھی کبھی جذبی صاحب بھی شام کی چائے پینے اسی کینٹین میں تشریف لاتے۔ ان شخصیات کی موجودگی آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی، صغیر افراہیم، شارق ادیب، فرحت احساس، خورشید احمد، نسیم صدیقی، غضنفر، اظہار ندیم، پیغام آفاقی، پرویز جعفری، عبدالرحیم قدوائی، قمرالہدیٰ فریدی، اسعد بدایونی، شہپررسول، غیاث الرحمٰن، ابن کنول اور سیّد محمد اشرف کو اکثر و بیش تر وہاں کھینچ لاتی۔ گفتگو شروع ہوتی، کبھی کسی ادبی مسئلے پر بحث ہو رہی ہے، کبھی کوئی مضمون پڑھا جا رہا ہے، کبھی شاعری سنی جارہی ہے اور کبھی افسانہ، یہاں سے اٹھ کر یہ احباب کبھی شہریار صاحب تو کبھی قاضی عبدالستار صاحب کے دولت کدے پہنچتے اور بہت سی گتھیاں ان اہل دانش کی گفتگو سن کر سلجھ جاتیں۔ ان دنوں علی گڑھ کے یہ نوجوان ادیب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت دونوں کے فکری اور فنی رویوں سے غیر مطمئن تھے اور کسی نئی راہ کی تلاش میں تھے۔

    اس وقت علی گڑھ میں کئی ایسے ریسٹورنٹ تھے جہاں ادیب اور شاعر بیٹھتے۔ کیفے ڈی لیلیٰ، کیفے ڈی پھوس، پیراڈائز، کبیرؔ کا ٹی ہاؤس، عاشق علی کی کینٹین، رائل کیفے اور Monsieurکے علاوہ راجا پنڈر اول کا ایک خوب صورت ریستوراں ’’Seven Stars‘‘ بھی تھا۔ رائل کیفے اور Monsieur جدید طرز کے ریسٹورینٹ تھے جہاں بلیرڈ کی میزیں بھی تھیں مگر سیون اسٹارس ایسا ریستوراں تھا جس میں قدیم وضع کے صوفے، نقشیں چمنیوں والے شمع دان، عالی شان فانوس، انگلستانی کروکری اور خوش اخلاق و خوش گفتار و خوش رو راجا قاسم علی خاں نواب آف پنڈر اوّل کی بہ نفس نفیس موجودگی۔ وہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے، شعر سنتے اور شعر سناتے۔‘‘

    ان ناموں میں جاوید حبیب، نذیر بوم اور محی الدین اظہر کانام بھی شامل سمجھا جائے۔

    اس زمانے میں دن طویل ہوتے تھے اور راتیں طویل تر۔ کلاس روم کی پڑھائی کے علاوہ ذہن پر اگر کوئی بوجھ ہوتا تھا توبس یہ کہ اخراجات کے لیے گھر سے جو روپے آتے ہیں وہ مہینہ سے پہلے ختم نہ ہوجائیں۔ دل میں ترنگیں تھیں اور آنکھوں میں اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، گلابی گلابی رنگوں کے خواب لشکارے مارتے تھے۔ اس زمانے میں زندگی کے طے شدہ مقاصد کا اتنا رواج نہیں تھا جتنا اب ہے۔ خود میں نے یونیورسٹی چھوڑ نے سے ڈیڑھ دو برس پہلے سوچا تھا کہ مستقبل میں دو وقت کی روٹی کا کیا انتظام ہو۔ طارق چھتاری نے بھی یقیناً وقت کو اتنے ہی عرصے تک بہلا پھسلا کر رکھا ہوگا اور غالباً دوستوں نے ایساہی کیا ہوگا۔ وہ وقت اور تھا۔ شروع میں طارق چھتاری کا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھا جو عرفِ عام میں شاعر و ادیب کہلاتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے شاعروں اور ادیبوں کی جماعت کو احساس ہوا کہ ایک ذہین، شگفتہ مزاج، باحوصلہ اور بامروت شخص آپ ہی آپ ان کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ بغیر کسی اعلان کے ہوا تھا۔ میرے استاد زادے اور ہم وطن اور بڑے بھائی کے دوست شارق ادیب (ڈاکٹر مظفر سیّد) نے ایک دن چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا،

    ’’یارا شرف! طارق کو دیکھ کر فاختہ کا خیال آتا ہے۔‘‘

    مجھے ان کا یہ جملہ آدھا سچ لگا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ بولے، ’’یہ اس لیے کہ فاختہ کسی کو زک نہیں پہنچاتی۔ بے ضرر ہوتی ہے۔‘‘

    طارق چھتاری کے بارے میں اس وقت میری معلومات کم تھیں لیکن پرندوں کے بارے میں اچھی خاصی تھیں۔ میں نے کہا، ’’فاختہ اپنے سے چھوٹی چڑیا کے لیے رحم دل ہے لیکن اس سے زیادہ طاقت کا کوئی پرندہ اگر اس کو تکلیف دے تو وہ فضا میں اُڑ اُڑ کر اس سے ٹکر لیتی ہے۔‘‘

    میں نے اپنے قصبے کے آنگن میں لیٹے لیٹے ایسے کئی منظر یاد کیے جس میں بڑی فاختہ (یا حق تو، یا دوست تو) نے فضا میں اس کوے پر کئی کاری جھپٹیں کی تھیں جو اس کا گھونسلہ خراب کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ سب بیان کیا تو شارق ادیب ہنس پڑے۔

    اس شام ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ طارق چھتاری کوؤں کے علاوہ باقی تمام مخلوق کے لیے فاختہ کی طرح بے ضرر ہیں۔

    کچھ دن بعد شارق ادیب نے مجھے مطلع کیا کہ چوں کہ طارق چھتاری نجی محفلوں میں کسی غائب شخص کے بارے میں برے کلمات نہیں کہتے، اسی بے ضرر ہونے کی صفت کی وجہ سے انھیں فاختہ سے تشبیہ دی گئی۔ اب جو غور کیا تو طارق چھتاری کے کردار کی ایک اور خوبی سامنے آئی کہ وہ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ یہ خوبی یا خرابی اب تک باقی ہے۔

    اس زمانے میں طارق چھتاری کو بزرگوں سے بہت لگاؤ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب جب رشید صاحب کے گھر گیا تو طارق چھتاری وہاں موجود تھے یا دروازے سے نکل رہے تھے، یا رشید صاحب نے ان کی آمد کا ذکر کیا۔

    1975ء تک علی گڑھ کے طالبِ علم ادیب دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے، لیکن میں نے اکثر دیکھا کہ طارق چھتاری کو کسی کے ساتھ سے پرہیز نہیں تھا۔ علی گڑھ میں اس وقت علم و ادب سے وابستہ مندرجہ ذیل شخصیات تھیں۔ طارق چھتاری نے اپنے ایک ہم عصر پر شخصی مضمون لکھتے وقت ان سب کو یاد کیا ہے۔

    طارق چھتاری کے خلاقانہ انتظام کا ایک نمونہ گورکھ پور ریڈیو اسٹیشن پر نظر آیا۔ طارق چھتاری نے فکشن پر ایک ایسے سمینار کا اہتمام کیا جس میں اردو اور ہندی کہانی لکھنے والوں کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اردو اور ہندی کی کہانی پر دو مضمون پڑھے جاتے ایک اردو نقاد کا دوسرا ہندی نقاد کا۔ مقصد صرف یہ نہیں تھاکہ دونوں زبانوں کے ادیب اور نقاد ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ اصل مدعا یہ تھاکہ ایک زبان کی کہانی پر اسی زبان کے نقاد اور دوسری زبان کے نقاد کی تنقید کا فرق سامنے آسکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس بہانے کئی اچھے افسانے اور کئی اچھے مضامین وجود میں آگئے۔

    نیّر مسعود نے اپنی کہانی ’’وقفہ‘‘ پڑھی تھی۔ خورشید احمد نے ایک ہندی کہانی پر بہت اچھا مضمون پڑھا تھا۔ دو دن کی ان محفل آرائیوں کے روح رواں طارق چھتاری تھے۔ ان محفلوں میں قاضی عبدالستار اور کے پی سنگھ جیسے بزرگ بھی تھے، گو اس وقت وہ ایسے بزرگ نہیں تھے۔ ایک لطیفے کا صدور بھی ہوا۔ علی گڑھ سے جب گورکھ پور چلنے کی تیاری ہورہی تھی تو میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ آپ میرا بھی ریزرویشن کرا دیں، جب وہاں ریڈیو سے پیسہ ملے گا تب ادا کر دوں گا۔ فرمایا، ’’آپ خورد ہیں اورآپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے بڑوں سے ایسی فرمائش کریں۔ میں کے پی سنگھ سے کہتا ہوں۔‘‘

    غرض یہ کہ ریزرویشن ہوا اور ہم لوگ گورکھ پور پہنچے۔ کڑاکے کے جاڑے تھے۔ تمام ادیب گرم لباس میں ملبوس تھے۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سے پیسے ملے۔ میں نے فوراً حساب لگایا اور بیچ محفل میں جا کر قاضی صاحب سے کہا، ’’یہ ٹکٹ کے پیسے ہیں۔‘‘

    انھوں نے تیوری چڑھا کر ڈانٹا اور کہا، ’’خوردوں کو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح بزرگوں کو روپے واپس کریں۔ میں ان روپوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا۔ آپ یہ روپے کے پی سنگھ کو دے دیں۔ میں ان سے لے لوں گا۔ یا بصورت دیگر کل صبح جب میں دستانے پہنے ہوں تب آپ یہ روپے مجھے دیجیے گا۔‘‘

    علی گڑھ میں کوئی ادیب شاعر آئے، شہریار اور طارق چھتاری سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ طارق چھتاری شعبۂ اُردو سے مہمان خانے تک اس مہمان کا ساتھ دیتے ہیں اور ضرورت پڑے تو اس مہمان کی ملاقات یونیورسٹی کے دوسرے ادیبوں سے کرانے میں پٹرول اور وقت دونوں کی پروا نہیں کرتے اور یہ سب کچھ بے غرض ہوتا ہے۔ وہ شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے غیر رسمی چیف آف دی پروٹو کول ہیں۔ طارق چھتاری ادب میں اپنی شہرت اور مقبولیت اور شعبے میں منصب کے اس درجے پر فائز ہیں کہ انھیں ان محنتوں اور زحمتوں کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن ان معاملات میں وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ بنگال کے کسی دور افتادہ قصبے کا اُردو کا کوئی استاد اگر شعبۂ اُردو میں قدم رکھے گا تو سب سے پہلے طارق چھتاری کو ہی دریافت کرے گا اور یہ عین ممکن ہے کہ طارق چھتاری نے اس دن سے پہلے اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھی ہوگی۔

    ادبی جلسوں میں طارق چھتاری سب کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ ادیب اور شاعر انھیں بہت توجہ سے سنتے ہیں۔ کسی سمینار یا سمپوزیم کی نظامت کر رہے ہوں یا Moderation کر رہے ہوں تو ان کی باتیں سننے میں دل لگتا ہے۔ ادبی معاملات میں وہ بہت صاف گو ہیں لیکن یہ صاف گوئی کسی کی دل آزاری یا حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بنتی۔ وہ اپنی بات بہت سلیقے، تہذیب اور پُر زور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

    ستر کی دہائی کے آخری حصے میں ان کی کہانیاں سامنے آئیں۔ یہ وقت ترقی پسندی اور جدیدیت کی سخت آویزش کا دور تھا۔ طارق چھتاری اور علی گڑھ میں ان کے معاصرین ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کے بھی باد فروش بننا نہیں چاہتے تھے۔ ان دونوں گروہوں کے بڑوں کے درمیان کھڑے ہوکر طارق چھتاری بہت اطمینان سے اپنا موقف بیان کرتے اور لہجے کو تاب دار کیے بغیر اپنی بات مکمل کرکے ہی گفتگو ختم کرتے۔ ہم لوگ ذرا اکھڑ لہجے، طنز آمیز مکالموں اور دل آزار جملوں سے کام لیتے تھے۔ اس لیے اکثر بھول چوک ہوجاتی تھی۔ طارق چھتاری ایسے تمام موقعوں پر اپنے نرم لہجے، دلیل کی قطعیت اور مناسب مثالوں کے ہتھیاروں سے کام لے کر ہم لوگوں کی حماقتوں کی تلافی کردیتے تھے۔

    ( طارق چھتاری اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ 1970ء کے بعد کی نسل کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ بھارت کے معروف ادیب اور افسانہ نگار سید محمد اشرف کے طارق چھتاری کے فن اور شخصیت پر ایک مضمون سے یہ پارے نقل کیے گئے ہیں)