Tag: ادبی اقتباسات

اردو کے مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں اور ان کی کتابوں سے ادبی اقتباسات جن میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، گوپی چند نارنگ، شان الحق حقی، نیاز فتح پوری و دیگر شامل ہیں

  • معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اردو زبان کے ان شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں بہت کم کہا، لیکن اردو ادب کے معتبر اور نمایاں شاعروں میں شمار ہوئے۔ ان کی شاعری نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور ان کے متعدد اشعار ضرب المثل بنے۔

    اردو زبان کے اس مقبول شاعر سے متعلق غضنفر علی کے ایک مضمون سے یہ اقتباسات مصنّف کی یادوں پر مشتمل ہیں۔ غضفر علی کا تعلق بھارت سے ہے۔ وہ شاعر، ناقد اور فکشن رائٹر ہیں۔ انھوں نے اس تحریر میں جذبی سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ معین احسن جذبی 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں وفات پاگئے تھے۔ غضنفر لکھتے ہیں:

    "احمد جمال پاشا نے جب میرا تعارف کرایا تو جذبی صاحب اس درجہ خوش ہوئے جیسا کہ کوئی مشفق استاد یا شفیق باپ ہوتا ہے۔ مجھ سے ان کے خوش ہونے کی میرے خیال میں تین وجہیں رہی ہوں گی، پہلی وجہ یہ کہ میں اس شعبے کا طالب علم تھا جسے جذبی نے اپنا گھر سمجھا۔ دوسری یہ کہ میں اس زبان میں ریسرچ کررہا تھا جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز تھی اور تیسری شاید یہ کہ میرے اندر بھی وہ صلاحیت موجود تھی جس کی بدولت کوئی تخلیقی فن کار کسی کو اپنے قبیلے کا فرد سمجھنے لگتا ہے۔ ان میں قوی تر سبب یہ تھا کہ میں ان کے شعبے کا طالبِ علم تھا جو اس حقیقت کا غماز بھی تھا کہ اُن کو اپنے شعبے سے کس درجہ لگاؤ تھا، مگر افسوس کہ اس شعبے نے ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور اس حد تک گزند پہنچائی کہ انھوں نے برسوں اس کی طرف رخ نہیں کیا۔ یہ شعبے کی کوئی نئی بات نہیں تھی، بلکہ یہ روایت پہلے سے چلی آرہی تھی اور بعد تک باقی رہی۔ اس روایت کی آگ میں رشید احمد صدیقی بھی جلے، آلِ احمد سرور بھی جھلسے اور کئی دوسرے بھی اس کی لپٹوں میں لپیٹ لیے گئے۔ اس شعبے کی ایک مثبت اور مضبوط روایت بھی رہی۔ وہ یہ کہ بہت دنوں تک اس میں تخلیقیت کا بول بالا رہا۔ رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھ پوری، آلِ احمد سرور، معین احسن جذبی، خورشید الاسلام، خلیل الرحمان اعظمی، راہی معصوم رضا، شہریار، قاضی عبدالستار ایک سے ایک مشہورِ زمانہ تخلیق کار اس سے وابستہ رہے اور اپنے فن پاروں سے اس کے نام میں چار چاند لگاتے رہے مگر دل کو گداز کرنے، ذہن کو بالیدہ بنانے اور روح کو گرمانے والی اس روایت کو کسی کی نظر لگ گئی۔ غیر تخلیقیت کے سحر نے اس کے ارد گرد ایسا حصار کھڑا کیا کہ تخلیقیت کا داخلہ بند ہوگیا۔ تخلیقیت کے اکّے دکّے نمائندے کسی طرح داخل ہونے میں کام یاب ہوئے بھی تو وہ ہمیشہ غیر تخلیقی بلاؤں کی زد پہ رہے۔

    سیوان کی اس ملاقات میں گوشہ نشینی اختیار کرنے اور مسلسل چپّی سادھ لینے والے جذبی نے ایسی جلوت پسندی اور محفل بازی کا ثبوت دیا کہ ہم دنگ رہ گئے۔ دورانِ دورِ میکشی انھوں نے ایسے ایسے قصّے سنائے اور نشے کی ترنگوں کے ساتھ لطائف کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑے کہ ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ عالمِ سرور میں ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں جذبی نے ترنم سے غزلیں بھی سنائیں۔ ترنم سے غزلیں سنتے وقت بار بار مجھے ایک واقعہ یاد آتارہا: کسی محفل میں یونی ورسٹی کے ایک استاد نے جذبی سے ترنم کی فرمائش کر دی۔ جسے سن کر جذبی چراغ پا ہوگئے اور غصّے میں ایسا دیپک راگ الاپنا شروع کیا کہ لیکچرر صاحب کو اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا۔ وہ تو بھلا ہو اس محفل میں موجود کچھ نبض شناس سینئر استادوں کا کہ جنھوں نے انگلیوں میں دبے سگار کو ماچس کی تیلی دکھا دکھا کر جذبی کی حالتِ جذب کو ٹھنڈا کیا ورنہ تو اس جونیئر استاد کا اس دن خدا ہی حافظ تھا۔

    اس واقعہ کے ساتھ ساتھ میں جذبی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایک طرف تو جذبی کسی استاد کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب بغیر کسی فرمائش کے طلبہ کو ترنم سے غزل سناتے ہیں۔ جذبی کی شخصیت کا یہ تضاد پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آیا، ہاں اتنا ضرور محسوس ہوا کہ جذبی طریقتِ شعر و سخن کے مجذوب تھے۔ مجذوب جو صرف من کی سنتا ہے۔ من کہتا ہے تو اللہ ھو کا نعرۂ مستانہ بھی لگاتا ہے اور من نہیں کہتا ہے تو بس ہُو کا عالم لیتا ہے۔

    اس ملا قات کے دوران جذبی کے جذب و مستی کے کئی اور رنگ بھی دیکھنے کو ملے، غزل سنانے کے بعد شراب کا ایک لمبا گھونٹ بھر کر بولے غضنفر! کباب کے بغیر شراب پینا کیا ایسا نہیں لگتا جیسے غریب مزدور روکھی روٹی کھا رہے ہوں مگر ہم لوگ تو غریب ہیں نہیں، تو پھر یہ روکھی روٹی کیوں؟ جاؤ گھر والوں کو بولو کہ کباب دے جائیں۔

    میں محفل سے اٹھ کر جمال پاشا کے قلعہ نما محل کے دروازے کے پاس پہنچا اور آہستہ آہستہ دستک دینا شروع کیا۔ پانچ سات منٹ تک مسلسل دستک دینے کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو جذبی صاحب اٹھ کر خود بھی دروازے کے پاس آگئے اور بولے:

    ’’اس طرح ناک کرنے سے بڑے دروازے نہیں کھلتے، انھیں پیٹنا پڑتا ہے۔ یوں۔‘‘ اور وہ دھڑا دھڑ دروازے پر مُکّے مارنے لگے۔ دھڑدھڑ کی آواز پر واقعی دروازہ کھل گیا۔ ایک گھبرایا اور ہڑبڑایا ہوا خادم قسم کا آدمی باہر نکلا اور ہکلاتا ہوا بولا،

    ’’جی، فرمائیے۔‘‘

    ’’کباب لاؤ! کباب۔‘‘ میرے منہ کھولنے سے پہلے ہی جذبی صاحب بول پڑے‘‘

    کباب! وہ اس طرح چونکا جیسے کسی پکّے مسلمان سے شراب پلانے کی فرمائش کر دی گئی ہو۔‘‘

    ’’ہاں بھئی کباب؛ کہو تو ہجّے کر کے بتاؤں‘‘ جذبی صاحب کا لہجہ سخت ہوگیا۔

    ’’مگر کباب تو نہیں ہیں۔‘‘ قدرے سنبھلتے ہوئے اس خادم نما آدمی نے جواب دیا

    ’’کیا کہا؟ کباب نہیں ہیں؟ اتنی بڑی حویلی، وہ بھی ایک مسلمان رئیس کی اور کباب نہیں؟ نہیں نہیں، کباب ضرور ہو گا جا کر کچن میں دیکھو!‘‘ جذبی صاحب کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ اس شاندار حویلی میں کباب نہیں ہوں گے۔

    وہ آدمی چپ رہا۔

    ’’کیا اس حویلی میں کچن نہیں ہے؟‘‘

    کچن کیوں نہیں ہوگا صاحب!‘‘

    تو پھر جاتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’بات یہ ہے صاحب۔۔۔‘‘

    ’’ہم کچھ سننے والے نہیں، تم جاؤ اور فوراً کباب لاؤ۔ ہمارے منہ کا مزہ بگڑا جا رہا ہے جاؤ! منہ کیا تاک رہے ہو؟‘‘جذبی صاحب نے اسے بولنے نہیں دیا۔

    اس خادم یا خادم نما آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے عزّت دار مالک کے اس معزز مہمان سے کس طرح نمٹے کہ قدرت کو اس کی حالت پر ترس آگیا اور اس نے اس کی مدد کے لیے خود مالک کو بھیج دیا۔ عین اسی وقت احمد جمال پاشا اپنی موٹر سے آدھمکے۔ شاید ہمیں وہ لینے آئے تھے۔ موٹر سے اتر کر سیدھے دروازے کے پاس آگئے۔ غالباً انھوں نے ہمیں دور ہی سے دیکھ لیا تھا۔ پاس آکر گھبراہٹ کے لہجے میں بولے:

    ’’سر! آپ یہاں؟‘‘

    ’’ارے بھائی! تمھارے اس خادم سے کب سے کباب لانے کو کہہ رہے ہیں مگر یہ ہے کہ۔۔۔

    ’’سر! آج کھانے کا انتظام کالج میں کیا گیا ہے نا، اس لیے یہاں کے تمام باورچی ادھر لگے ہوئے ہیں۔‘‘ جمال پاشا نے صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

    ’’باورچی ہی تو گئے ہیں کچن اٹھ کر تو نہیں چلاگیا!‘‘ جذبی صاحب نے صورتِ حال کو پھر سے بے قابو کر دیا۔

    ’’دراصل کئی دنوں سے کالج فنکشن میں مصروف ہونے…

    ’’رہنے دو، رہنے دو، میں سب سمجھ گیا۔ پاشا تم کیسے مسلمان ہو کہ گھر میں کباب تک نہیں رکھتے۔ لگتا ہے یہاں آ کر تم بھی بہاری ہوگئے ہو۔‘‘

    ’’بہاری ہی نہیں سر!میں تو شدھ شاکا ہاری بھی ہوگیا ہوں، مانسا ہاری۔۔۔ بیماریوں نے جسم و جان کو دبوچ جو رکھا ہے۔ جلد تشریف لے چلیے، شامی، سیخ اور بہاری تینوں وہاں آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’پاشا! میں مان گیا کہ تم واقعی مزاح نگار ہو۔ اپنے گھر کی عریانیت پر تم نے کتنا خوب صورت اور دبیز پردہ ڈال دیا، چلو میں نے تمھیں معاف کیا۔‘‘

    مصنّف نے اپنے اس مضمون کا عنوان ‘دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں’ رکھا ہے جو معین احسن جذبی کی اس مشہور غزل سے مستعار لیا گیا ہے‌۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
    یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

    جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
    اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

    جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
    جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

    دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
    دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

  • کون جعلی سکّوں پر اپنی نیت خراب کرے؟

    کون جعلی سکّوں پر اپنی نیت خراب کرے؟

    تقسیمِ ہند سے قبل کا دلّی زبان و ادب ہی نہیں زبان کے چٹخاروں کے لیے بھی مشہور تھا۔ یہاں کے پکوان کی طرح تہذیب و ثقافت کا بھی ہندوستان بھر میں چرچا تھا۔ لیکن ہر قوم اور شہر میں کچھ بد اطوار یا جرائم پیشہ بھی ضرور ہوتے ہیں اور یہ ایک عام بات ہے۔ دلّی میں بعض ٹھگ، لٹیرے، اور نوسر باز بھی مشہور تھے اور جہاں‌ دلّی کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بڑے ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے، وہیں ان ٹھگوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے بعض دل چسپ واقعات بھی ان کی کتابوں میں پڑھے جاسکتے ہیں۔

    بازاروں میں اور ان مقامات پر جہاں بہت سے لوگ جمع ہوتے ہوں اکثر جیب کترے بھی موجود ہوتے ہیں جو ہاتھ کی صفائی اس طرح دکھاتے کہ لٹنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا اور وہ نقدی سے محروم ہوجاتا۔ وہ یہ کام بڑی مہارت اور باریکی سے کرتے کہ ذرا چوک ہوئی نہیں اور بھرے بازار میں لوگوں کے ہاتھوں پٹائی اور پھر قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دلّی میں کئی جیب کترے موجود تھے جو انفرادی اور گروہ کی شکل میں لوگوں کی جیب کاٹنے کو نکلتے تھے۔ یہ جیب تراش اپنا ‘فن’ اپنی اولاد اور شاگردوں کو منتقل کرتے تھے اور ان کو باقاعدہ اس کی تربیت دیتے تھے۔ ان میں سے بعض اس کام میں اس قدر ماہر اور نامی گرامی تھے کہ لوگوں میں اگرچہ عزّت نہ تھی، مگر ان کا نام لے کر ان کے اس ‘ہنر’ کا ذکر کیا جاتا تھا۔ یہ بڑے فن کار قسم کے لوگ تھے۔چالاک اور نہایت پھرتیلے۔ ایسے جیب کتروں کا شہرہ سن کر ان کو آزمانے کے لیے ایک صاحب دلّی چلے آئے اور چند دن بعد ان کو اپنی معلوم ہوا کہ جیب کتروں نے انھیں تاڑ تو رکھا تھا، لیکن ان کی جیب نہ کاٹی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ جاننے کے لیے اخلاق احمد دہلوی کی کتاب ’’پھر وہی بیان اپنا‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    "دہلی میں ایک جیب کترے تھے جن کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی طرح دو دھارا تھا اور کلمے کی انگلی پتھر پر گھس گھس کر شیشے کی مانند سخت کرلی تھی۔ بس جہاں ان کی انگلی لگ جاتی تو قینچی کو پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ ایک صاحب کوئی باہر کے، خواجہ حسن نظامی کے ہاں آئے اور شکایت کی۔”

    ’’دہلی کے جیب کترے کی بڑی دھوم سنی تھی۔ آج ہمیں دہلی کے بازاروں میں پھرتے چار دن ہوگئے ہیں لیکن کسی کو مجال نہیں ہوئی کہ ہماری جیب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیں۔‘‘

    "خواجہ صاحب نے اس چٹکی باز کو بلوایا اور ان صاحب سے اس چٹکی باز کا آمنا سامنا کرایا۔ اس ہنرمند نے مسکرا کر کہا۔”

    ’’خواجہ صاحب! میرے شاگردوں نے ان صاحب کا حلیہ بتایا تھا۔ چار دن سے انگرکھے کی اندر کی جیب میں پیتل کی آٹھ ماشیاں (آٹھ ماشا وزن کے سکے) ڈالے گھوم رہے ہیں اور وہ بھی گنتی کے چار۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کون جعلی سکوں پر اپنی نیت خراب کرے گا۔‘‘

  • ادیبوں کے جھگڑے…

    ادیبوں کے جھگڑے…

    اردو ادب کا ایک موضوع معاصرانہ چشمک بھی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور کوئی بھی زمانہ رہا ہو، اس میں اہلِ قلم اور بڑے بڑے ادیب رشک و حسد میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    کئی عالی دماغ اور بلند حوصلہ ایسی ادبی ہستیاں جو اپنے پڑھنے والوں میں مقبول رہی ہیں، وہ بھی باہمی چپقلش اور جھگڑوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں انتہائی پست اور اکثر سوقیانہ پن کا شکار ہوگئے۔ تاہم بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہم عصروں سے چھیڑ چھاڑ اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں ایک حد قائم رکھی۔ یہاں‌ ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔”

    "اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشکؔ بنا تھا۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو رو کر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔”

    شاہد احمد دہلوی آگے لکھتے ہیں۔

    "منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا، لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔”

    "شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اُسے لطف آتا تھا۔ ن م راشد سے میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے؟‘‘

    راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا، ’’دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔‘‘ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے۔ چٹخ کر بولے کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، کتھا کلی، کتھک، منی پوری؟…. فراڈ کہیں کا۔‘‘ بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔”