Tag: ادبی اقتباس

  • ایک مشہور شعر اور سودا کی شاعر سے متعلق پیش گوئی

    ایک مشہور شعر اور سودا کی شاعر سے متعلق پیش گوئی

    اردو کے کئی بڑے اور معروف شعرا کا کلام یا وہ اشعار جنھیں‌ ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا، کسی تذکرہ نویس کی غلطی، یا ناقص معلومات کے سبب کسی دوسرے شاعر کے نام سے مشہور ہوگئے اور یہ اشعار آج بھی زباں زدِ‌ عام ہیں، مگر اصل شاعر کا نام کسی کو معلوم نہیں بلکہ یہ ایک بحث ہے اور اس پر بھی مصنّفین اور ادبی محققین نے بہت کچھ لکھا ہے۔

    یہاں‌ ہم آپ کو مولانا محمد حسین آزاد جیسے صاحبِ طرز ادیب کی کتاب ’’آبِ حیات‘‘ میں مرزا رفیع سودا سے متعلق رقم ایک واقعہ سنارہے ہیں جو ایسے ہی ایک شعر اور شاعر کے تذکرے پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ’’ایک دن سودا مشاعرے میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کی بارہ تیرہ سال کی عمر تھی، اس نے غزل پڑھی، مطلع تھا۔

    دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
    اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

    گرمی کلام پر سودا بھی چونک پڑے۔ پوچھا۔ یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا حضرت، یہ صاحبزادہ ہے، انہوں نے بھی بہت تعریف کی، بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ لڑکے! جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت کچھ دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا۔‘‘

    بعض ناقدین نے اس سارے قصے کو آزاد کا طبع زاد افسانہ کہا ہے۔ ان کے بقول یہ شعر اس لڑکے کا ہے ہی نہیں بلکہ یہ پنڈت مہتاب رائے تاباں دہلوی کے شعر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ تاباں، میر درد کے ہم عصر تھے۔ بعض تذکرہ نویس تاباں، بعض تائب اور بعض تاب لکھتے ہیں۔ مختار الدین احمد، تائب کو درست کہتے ہیں۔ ایک کتاب ’’آثار شعرائے ہنوز‘‘ مطبوعہ 1886ء میں تاباں اور تاب کو الگ الگ شاعر کہا گیا ہے۔ دونوں کو برہمن لکھا ہے۔ تاب کشمیری الاصل تھے اور ان کا نام مہتاب رائے تھا۔ تاباں کے متعلق جن سے یہ شعر حقیقتاً منسوب ہے، لکھا ہے۔ ’’پنڈت مہتاب رائے بارہ برس کے تھے کہ انہوں نے میر درد کے مشاعرے میں آکر غزل پڑھی۔ مطلع یہ ہے:

    ’’شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے… الخ‘‘

  • کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس

    کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس

    اردو ادب میں صوفی غلام مصطفی تبسم ادیب اور شاعر کی حیثیت سے خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اردو، پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے اور اصنافِ نظم و نثر میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہوئے۔ صوفی صاحب ہمہ جہت شخصیت تھے اور تدریس کے ساتھ ان کے ادبی مشاغل میں ڈرامہ نگاری، بچّوں کے لیے نظمیں لکھنا، تراجم کرنا بھی شامل رہا۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو تعلیمی ادارے میں اردو کے ایک بڑے مزاح نگار اور پروفیسر، احمد شاہ المعروف پطرس بخاری کا ساتھ بھی نصیب ہوا۔ ان شخصیات نے تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں خلوصِ‌ نیّت سے انجام دیں۔ یہ پارہ اسی کی ایک جھلک دکھاتا ہے جو صوفی صاحب کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ۱۹۴۸ء کی بات ہے، شام کا وقت تھا۔ پروفیسر بخاری اور میں بیٹھے کالج کی باتیں کررہے تھے۔ میں نے کالج کی تدریسی اور ادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں کچھ تجویزیں پیش کیں۔

    ہنس کر بولے،’’صوفی! یہ تو شعر ہوئے۔ تم نے سنائے اور میں نے سن کر داد دی۔‘‘ میں چپ ہوگیا۔

    کچھ وقفے کے بعد بولے، ’’سنو!‘‘ تم استاد ہو، اور میں کالج کا پرنسپل۔ ہمارا کام اس درس گاہ کے نظم و نسق کو عملی طور پر آگے بڑھانا ہے۔ میرے نزدیک وہ تجاوز جو عملی صورت میں نہیں آتی، خواہ وہ آسمان ہی سے کیوں نہ نازل ہوئی ہو، محض ذہنی عیاشی ہے اور میں ذہنی عیاشیوں میں شعروں اور دوستانہ خوش گپیوں کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ میں نے مرزا بیدل کی ایک غزل جو اسی روز پڑھی تھی سنائی شروع کر دی۔

    رات کچھ بے چینی سی رہی۔ ایک مدر سے کالج میں اردو کی تدریس شبانہ جاری کرنے کا ارادہ تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے ’’ادیب فاضل کلاس‘‘ کی تدریس کا ایک مکمل ’’پیش نامہ‘‘ مرتب کرلیا، اور اس کی تین نقلیں بھی تیار کردیں۔ شام کو یہ مسل بغل میں دبائے بخاری صاحب کے مکان پر پہنچا۔

    یانہوں نے پوچھا، ’’ضلع کچہری سے آئے ہو؟‘‘

    میں نے کہا، ’’گھر سے آرہا ہوں۔‘‘

    ’’تو یہ پلندہ کیسا ہے؟‘‘

    ’’میرے ذاتی کاغذات ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک، بیٹھو‘‘

    ان دنوں پرنسپل کے مکان میں سرکاری کاغذات کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک آدھ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد میں جھجکتے جھجکتے اپنا تجویز کلام سنانا شروع کیا۔

    میں نے کہا ’’عام شائقین کے لئے اردو کی اعلیٰ تدریس کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ارادہ ہے کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس شام کو جاری کی جائے۔ اس کلاس کے جملہ نظم و نسق، ترتیب و تدوین اور درس کا کفیل کالج ہی ہو۔‘‘

    حسب معمول کہنے لگے، ’’یہ طرحیہ اشعار ہیں؟‘‘

    میں نے کہ، ’’جی ہاں۔ مطلع سنا چکا ہوں، پوری غزل یہ رہی۔‘‘

    یہ کہہ کر میں نے کاغذات کا پلندہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ اسے پڑھتے جاتے اور ان کا چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتماجاتا تھا۔ درمیان میں کہیں کہیں وہ کچھ سوال بھی پوچھتے جاتے۔ میں جواب دیتا اور کہتا، ’’آپ سارا مسودہ پڑھ لیں آپ کو معلوم ہوجائے گا۔‘‘

    کاغذات ختم ہوئے تو بولے، ’’ہوں… گویا میں بھی پڑھاؤں گا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’آپ فقط پرنسپل ہی نہیں، استاد بھی ہیں۔‘‘

    ’’کیوں نہیں۔‘‘

    اسں کے بعد انہوں نے ایک سگرٹ سلگایا، جس کا دھواں تھوڑے ہی وقفے میں برآمدے کے ہر گوشے میں لہرارہا تھا۔

    شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ موٹر کار میں بیٹھ کر شہر میں گھومنے لگے۔ جہاں جاتے اسی غزل کی تلاوت ہوتی اور پڑھنے کے ساتھ ہی اس طرح داد بھی دیتے کہ دوسروں کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی۔ اہلِ فکر حضرات اور مشفق احباب سب نے اسے سراہا۔ اس تبلیغی اعلان اور نشری پرچار میں آدھی رات گزر گئی۔

    صبح کو یہ بات لاہور کی گلی گلی کوچے میں گشت لگارہی تھی۔ ایک ہفتہ کے اندر تمام ضروری مراحل طے ہوگئے۔ محکمانہ اجازت، اشتہار و اعلان اور درخواستوں کی طلبی، امیدواروں کی پیشی، داخلہ اور پڑھائی۔

    پروفیسر بخاری اپنے روزمرّہ مشاغل میں خواہ وہ فرائضِ منصبی سے تعلق رکھتے ہوں یا نجی ہوں ایسے ہی مستعدی سے کام لیتے تھے۔ زندگی میں ان کی کام یابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔

  • ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف روس کا عظیم ڈراما نویس، ناول اور افسانہ نگار تھا جس کی تحریروں سے اپنے وقت کے بڑے بڑے دانش ور اور اہلِ قلم متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ ایسا ادیب تھا جسے اس کی تخلیقات ہی نہیں انسان دوستی اور افکار کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

    ترگنیف کا یہ تذکرہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں، احمد عقیل روبی کے قلم کی نوک سے نکلا ہے۔ وہ ایک باکمال ادیب، شاعر اور بہترین مترجم تھے جن کا غیرملکی ادب کا مطالعہ حیرت انگیز تھا۔ ایوان ترگنیف کی زندگی اور اس کے تخلیقی سفر کے بارے میں احمد عقیل روبی کی یہ تحریر پُرلطف اور دل چسپ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ماں کی ممتا پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بچے کو زندگی دیتی ہے، اسے بولنا، چلنا، زندگی کو ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی ماں بچے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ بچے کو اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتی۔ من مانی پر اتر آتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور آخر کار بچہ بغاوت کر دیتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی ہے۔ ماں غصیلی تھی، چڑ چڑاپن اپنے عروج پر تھا۔ اس پر جب غصے کا بھوت سوار ہوتا تو وہ لارڈ بائرن کے بال نوچتی، اسے بری طرح مارتی، بائرن اس سے ہر پل خائف رہتا تھا۔ جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھی اس سے اکثر پوچھتے تھے:’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن کو اس بات کا بڑا افسوس تھا۔ اسے بچپن میں ماں کا پیار نہ ملا۔ وہ ساری عمر اپنی محبوباؤں میں ماں کا پیار تلاش کرتا رہا۔ فرانسیسی ناول نگار گستاؤ فلابیئر کے ساتھ الٹا حساب ہوا۔ فلابیئر کی ماں نے اسے اتنا پیار دیا، اتنی توجہ دی کہ فلابیئر کی زندگی برباد کر دی اور ساری عمر ماں کی بغل میں سمٹ کر بیٹھا رہا۔ نہ کسی عورت سے شادی کر سکا، نہ کھل کے محبت کر سکا۔ اگر کبھی شادی کے لئے دل نے رضا مندی ظاہر بھی کی تو محبوبہ کو چھوڑ کر ماں کے پاس چلا آیا۔ ماں اس کی کمزوری بن گئی۔ کھانا، پینا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، سب کچھ ماں کے اشارے پر کرتا تھا۔ گاؤں سے کبھی پیرس گیا، اپنی محبوبہ سے ملا۔ ماں یاد آ گئی تو پیرس سے بھاگ کر گاؤں چلا آیا۔ ایک بار اس کی شاعر محبوبہ نے اس سے کہا:’’تمہاری ماں تمہاری ایسے دیکھ بھال کرتی ہے جیسے تم کوئی کنواری لڑکی ہو۔‘‘ یہی حال ترگنیف کا تھا لیکن اس نے اپنی ماں سے کھل کر اختلاف کیا۔

    اس کی ماں بہت بڑی جاگیر کی وارث تھی۔ اس کی جاگیر میں 5000 غلام (Serfs) تھے۔ ان پر وہ دل کھول کر ظلم کرتی تھی۔ ہلکی سی غلطی پر انہیں کوڑوں سے مارتی۔ ترگنیف کو ماں کی اس عادت سے نفرت تھی۔ یہ نفرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔ وہ ماں سے اختلاف کرتا رہا۔ وہ اپنے غلاموں کو انسانی حقوق دینا چاہتا تھا۔ ماں اس پر رضامند نہ تھی۔ وہ اذیت پسند تھی۔ ترگنیف اس کی اس عادت سے بیزار رہتا تھا۔ 1834ء میں ترگنیف کا باپ مر گیا جو روسی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔ ترگنیف کی ماں کے لیے اب کھلا میدان تھا‘ اس نے جی بھر کے غلاموں پر تشدد کیا۔ ترگنیف نے کبھی دبے الفاظ میں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو ماں نے اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ترگنیف کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا‘ وہ خاموشی سے ماں کی بات مانتا رہا مگر ترگنیف نے ماں کے ظالمانہ سلوک کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔

    18ء اکتوبر 1818ء کو (Oral) شہر میں ایک امیر خاندان کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماں Varvara Petr شاعرانہ اور ادبی ذوق رکھنے والی ایک رئیس اور اذیت پسند خاتون تھی۔ترگنیف یورپ اور فرانس کے ادیبوں میں بہت مقبول تھا۔ فلابیئر کے ساتھ اس کے بہت گہرے مراسم تھے۔ ترگنیف اپنا زیادہ وقت فرانس ہی میں گزارتا تھا۔ روس کے ادیب، جن میں ٹالسٹائی بھی شامل تھا، اس کی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ روس کے ادیبوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ ترگنیف کو روس سے کوئی دل چسپی نہیں، وہ ذہنی طور پر ’’یورپ زدہ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ترگنیف کی تحریروں سے واضح ہے کہ اسے روس سے بہت محبت تھی۔ روس کے کسانوں اور دیہات میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار پر اس کا دل لہو روتا۔ روس کے ادیب صرف حسد میں یہ باتیں کرتے تھے کیونکہ یورپ اور دیگر ممالک میں ترگنیف اپنے تمام ہمعصر لکھنے والوں سے زیادہ مقبول تھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ (Fathers and Sons) ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے۔ یہ ناول 1862ء میں چھپا۔ اس ناول کا ہیرو بازووف 1860ء کی نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نوجوان Nihilist تحریک سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب سمیت تمام پرانے عقائد اور اداروں کو رَد کرتی ہے۔ مغربی یورپ میں اسے پہلے روسی ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔

    ترگنیف بحیثیت شاعر تو نا کام رہا لیکن بحیثیت ناول نگار اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اسے ’’ناول نگاروں کا ناول نگار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بازووف ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو مر کر بھی زندہ رہی جس نے اپنے آپ کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا، جس نسل کے خیالات ان کی بزرگ نسل نہ سمجھ سکی۔

    ترگنیف بلاشبہ ایک ایسا ناول نگار تھا جس نے ہمیں بتلایا کہ زندگی کیا ہے۔ انسان کی مختلف پرتیں کیا ہیں۔ وہ کیا ہے جو تاریخ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ بھید کیا ہے جو انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ قاری اگر ترگنیف کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کا ان تمام چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔

    (ادبی اقتباسات)

  • ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    یہ اس برس کی بات ہے جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلی تھی۔ شہر شہر ہنگامے ہو رہے تھے۔ میرٹھ کیسے بچا رہتا۔ وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔

    اردگرد ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگ رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں مگر میرٹھ کالج میں امن و امان تھا۔ بس ایک صبح کالج کے کسی گوشے میں یہ نعرہ بلند ہوا۔ سمجھو کہ جیسے کسی نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔ آگ فورا ہی بھڑک اٹھی۔ کلاسوں سے لڑکے بھرا کھا کر نکلے۔ نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ کسی نے گھما کر پتھر مارا اور ایک کمرے کے کسی دریچے کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ بس پھر دروازوں، دریچوں کے شیشے چکنا چور ہوتے چلے گئے۔ جب ہجوم کسی طور قابو نہ آیا تو پولیس طلب کرلی گئی۔

    مگر پولیس کے آنے سے پہلے میرٹھ کے جانے مانے لیگی راہ نما ڈاکٹر اشرف کالج آن پہنچے۔ مسلمان طلباء میں جو لیڈر قسم کی مخلوق تھا، اسے ہدایات دیں اور چلے گئے۔ میں نے اردگرد نظر ڈالی تو دیکھا کہ مسلمان طلباء بھاگنے کے بجائے لپک جھپک پرنسپل چٹر جی کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ میں بھی ان میں جا شامل ہوا۔ آگے آگے جو گھڑ سوار تھا، اس نے اپنے دستہ کو ہدایت دی کہ کر لو انہیں گرفتار۔ مگر چٹر جی بیچ میں آگئے۔

    "نہیں انہیں نہیں۔ یہ میرے بچّے ہیں۔”

    سو رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت

    کالج بند ہوگیا مگر پروفیسر مکر جی کلاس سے اپنی بے تعلقی کو زیادہ دن برداشت نہ کرسکے، جلد ہی اس جمود کو توڑا اور کلاس لینا شروع کر دی۔ آج یوں ہوا کہ انگریزی شاعری کے نئے رجحانات پر بات کرتے کرتے کہیں ایزرا پاؤنڈ کا حوالہ آگیا۔ لیجیے پھر ایزرا پاؤنڈ پر ہی رواں ہوگئے۔ یہ دھیان ہی نہیں رہا کہ ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں۔ ذرا وقفہ آیا تو ایک طالب علم ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا اور جھجھکتے ہوئے بولا: سر، ایزرا پاؤنڈ ہمارے کورس میں نہیں ہے۔

    بس مکر جی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کورس؟ میں کورس نہیں پڑھاتا، تمہیں انگریزی ادب پڑھاتا ہوں۔ یہ کہا، سامنے رکھی کتاب کہنے والے طالبِ علم کی طرف پھینک کر ماری اور بھنّا کر باہر نکل گئے۔ کلاس ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔

    اگلے دن کلاس میں طلباء سب موجود، مکر جی غائب۔ بہت انتظار کیا مگر بے سود۔ تب طلباء کو احساس ہوا کہ مکر جی کچھ زیادہ ہی خفا ہوگئے ہیں۔ اگلے دن طلباء کی ایک ٹولی ان کے گھر پہنچی۔ منت سماجت کی، روٹھے ہوئے کو منایا اور کلاس میں لے کر آئے۔ یہ تھے ہمارے پروفیسر مکر جی۔

    (ماخوذ از "جسجتو کیا ہے”)

  • "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟

    مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے سے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہیں گے، مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ حالانکہ اگر اسے ڈھونڈ نکالیں تو عیش و مسرت کا سارا سامان اسی کوٹھڑی کے اندر سمٹا ہوا مل جائے۔ ایوان و محل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں، دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے تو سبزۂ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں، اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں ہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئیں ہیں تو ہو جائیں، صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی، چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی، لیکن اگر دل زندہ پہلو میں نہ رہے، تو خدارا بتلائیے اس کا بدل کہاں ڈھونڈیں؟ اس کی خالی جگہ بھرنے کے لیے کس چولھے کے انگارے کام دیں گے۔

    میں آپ کو بتلاؤں اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا۔ کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہاں زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدۂ خلوت کے دم سے ہیں۔ یہ اجڑا اور ساری دنیا اجڑ گئی۔

    (انشاء پرداز مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِ خاطر سے اقتباس)

  • قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ”بنات“ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ”چاکلیٹ کا قلعہ“ بنات میں شایع ہوئی تھی۔ قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ماری پور میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں۔ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی۔

    آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک بی نارتھ ناظم آباد میں ہوئی، کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے اپنے ضخیم ناول ”آگ کا دریا“ اور “سفینۂ غم دل“ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں۔

    مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ”عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں، اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔“ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ”عصمت“ اور ”تہذیبِ نسواں“ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔

    باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھا کر حجرِ اسود کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔

    ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچّے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔ پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں۔ ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔

    (مصنّف حاذق الخیری، ماخذ خود نوشت ’جاگتے لمحے‘)

  • دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وہ پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو ۳۲ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے، اس کو جوڑ کر دکھاؤ۔

    اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہوکے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے، میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا۔

    اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کے دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی۔

    (’’زاویہ‘‘ اشفاق احمد سے اقتباس)