Tag: ادبی خبریں

  • ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    لاہور: اردو کے ممتاز فکشن نگار، ڈراما نویس، مصور اور دانش ور ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ آج لاہور میں ادا کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف ادیب انور سجاد گزشتہ روز جمعرات کو لاہور میں 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے، انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنی رہایش گاہ میں لیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ میں اہل خانہ اور معروف شخصیات سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

    انور سجاد طویل عرصے سے علیل تھے، پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے تاہم لوگوں میں ان کی شہرت ان کے لکھے گئے ڈراموں، اداکاری اور فکشن نگاری کی وجہ سے تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  “خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    دریں اثنا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اردو ادب کا اثاثہ تھے، ادب و فن کے لیے ان کی گراں قدر خدمات بھلائی نہیں جا سکتیں۔

    خیال رہے کہ ڈاکٹر انور سجاد 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے، ان کے سوگواران میں ایک بیوہ اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

  • ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    سویڈن: ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی جسے سویڈش اکیڈمی کہا جاتا ہے، نے ادب کے ایک پروفیسر کو اپنا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی نوبیل کمیٹی نے جنسی ہراسگی اسکینڈل کے بعد ادب کا نوبیل انعام معطل کر دیا تھا، جس کے بعد آخر کار کمیٹی نے نیا سربراہ کا انتخاب کر لیا ہے۔

    گوٹن برگ یونی ورسٹی میں ادبی نظریات کے پروفیسر ماٹس مالم کو نوبیل انعام برائے ادب کے حقدار کا انتخاب کرنے والی سویڈش اکیڈمی کے سربراہ بنا دیا گیا ہے۔

    54 سالہ پروفیسر مالم نے اپنی نام‍زدگی پر مسرت کا اظہار کیا، انھیں چار ماہ قبل سویڈش اکیڈمی میں شامل کیا گیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  جنسی ہراسگی‘ ادب کا نوبل انعام رواں برس نہیں دیا جائے گا

    اکیڈمی نے کہا ہے کہ اس سال 2019 کے ادب کے نوبیل انعام کے علاوہ 2018 کے لیے اس انعام کے حقدار کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ 2017 میں اس کمیٹی کو در پیش ایک بڑے جنسی اسکینڈل کے بعد سے ہر سال ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کا سلسلہ ابھی تک معطل ہے۔

    ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کی خاتون ممبر کے شوہر اور کمیٹی سے وابستہ فوٹو گرافر جین ارنالٹ پر پہلی خاتون سیکریٹری سارا ڈینئس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام تھا۔

    سارا ڈینئس کے استعفے کے بعد کمیٹی کی 6 مزید خواتین بھی مستعفی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے کمیٹی کی 18 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں خالی ہو گئی تھیں۔

  • اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    لاہور: اردو ادب کی ممتاز شخصیت، استاد، افسانہ نگار، نقاد اور 100 سے زائد کتب کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر لاہور میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے نامور نقاد، افسانہ نگار، ماہرِ لسانیات، ماہرِ اقبالیات، ادبی مؤرخ، معلم اور محقق ڈاکٹر سلیم اختر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    [bs-quote quote=”سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ڈاکٹر سلیم اختر کی نمازِ جنازہ بہ روز پیر 10 بجے صبح نرسری گراؤنڈ، جہاں زیب بلاک اقبال ٹاؤن میں ادا کی جائے گی-

    سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، انھیں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 2008 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکاردگی سے نوازا گیا۔

    ڈاکٹر سلیم اختر 11 مارچ 1934 کو لاہور میں پیدا ہوئے، جامعہ پنجاب سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم ہی سے بہ طور اردو لیکچرار وابستہ ہوگئے اور مختلف ادبی رسالوں کے ساتھ بھی منسلک رہے۔

    ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب ’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ اردو ادب میں اب تک لکھی گئی تاریخ میں اہم ترین حوالے کے طور پر یاد کی جاتی ہے، انھوں نے ’اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ‘ بھی مرتب کی۔


    یہ بھی پڑھیں:  شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے


    سلیم اختر نے فکرِ اقبال کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی آشکار کیا، اور شرح ارمغان حجاز لکھی، اقبالیات پر انھوں نے 9 اہم ترین کتابیں تصنیف کیں۔

    ڈاکٹر سلیم اختر اپنے افسانوں کے سبب بھی الگ پہچان رکھتے ہیں، ان کے افسانوی مجموعوں میں آدھی رات کی مخلوق، مٹھی بھر سانپ، کڑوے بادام، کاٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، ضبط کی دیوار شامل ہیں، افسانوں کی کلیات بھی نرگس اور کیکٹس کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

    ان کی دیگر کتب میں اک جہاں سب سے الگ (سفرنامہ)، نشان جگر سوختہ (آپ بیتی)، انشائیہ کی بنیاد، ادب اور کلچر، ادب اور لاشعور، شادی جنس اور جذبات وغیرہ شامل ہیں۔

  • اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    لاہور: نامور شاعرہ، مترجم اور افسانہ نویس فہمیدہ ریاض کو لاہور کے ایک مقامی قبرستان میں سپردِ خا کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز نظم نگار اور افسانے لکھنے والی ترقی پسند 73 سالہ ادیبہ فہمیدہ ریاض گزشتہ روز انتقال کر گئیں تھیں، انھیں آج لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

    [bs-quote quote=”شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فہمیدہ ریاض کی نمازِ جنازہ میں ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات نے شرکت کی۔

    نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں معروف شاعر امجد اسلام امجد بھی شامل تھے، شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

    فہمیدہ ریاض نے اپنی ادبی اور سماجی زندگی میں ملک میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور خواتین کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے جدوجہد کی۔

    خیال رہے فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں


    ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔

    فہمیدہ ریاض کے انتقال پر آج پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی اظہارِ افسوس کیا۔

  • کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے

    کراچی: صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ کراچی گیارہ برسوں سے مسلسل دنیا کی سب سے بڑی اردو کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے آرٹس کونسل کے منظر اکبر ہال میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا، انھوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کے زیرِ اہتمام گیارہویں اردو کانفرنس 22 نومبر سے شروع ہو رہی ہے جو کہ 25 نومبر تک جاری رہے گی۔

    [bs-quote quote=”اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”احمد شاہ”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے فلسفی، محقق، ادیب اور شاعر شامل ہوں گے۔ کانفرنس میں شامل ہونے والوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہو گا جن میں ہندوستان، امریکا، چین، جرمنی اور برطانیہ سرِ فہرست ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، ڈراما، فلم، تعلیم، زبانوں، رقص، مصوری، اور صحافت کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

    احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اردو کانفرنس کے آغاز کے بعد کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف کانفرنسز اور ادبی فیسٹیولز کا اجرا ہوا، ان سرگرمیوں کی مدد سے ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر رہے ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  جب آنگن میں‌ ستارے اتریں گے، گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 22 نومبر کو ہوگا


    احمد شاہ نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے اردو کانفرنس کو ترویج دینے میں بہت معاونت کی، میڈیا ہی کی وجہ سے اس وقت عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کی ایک بین الاقوامی برانڈ بن چکی ہے۔

    پریس کانفرنس میں سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز فاروقی، معروف ادیبہ حسینہ معین اور تھیٹر کی نامور شخصیت طلعت حسین بھی موجود تھے۔

    اردو کانفرنس میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا دوسرا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوراڈ فلم اور ٹی وی کے شعبے میں ضیا محی الدین کو دیا جائے گا جب کہ کانفرنس کے پہلے روز نام ور شاعر جون ایلیا کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا جائے گا۔

  • افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    ڈاکٹر افشاں ملک

    ناصر دفتر سے لوٹا تو روزانہ کی طرح امّاں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھیں‘ ہاتھ میں تھمی تسبیح کے اک تواتر سے گرتے دانے ،بند آنکھیں اور بے آواز ہونٹوں کی جنبش بتا رہی تھی کہ کوئی ورد جاری ہے۔ شہلا اپنے کمرے میں اپنی کسی دل چسپی میں مگن تھی اور ملازمہ معمول کے مطابق باورچی خانے میں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی۔

    ناصر کی شادی کو ایک سال ہونے والا تھا لیکن امّاں نے ابھی تک اس کی بیوی شہلا کو گھر کی ذمہ داریوں سے دور ہی رکھا تھا۔ وہ خود ملازمہ کے ساتھ مل کر بڑی خوش اسلوبی سے گھر چلا رہی تھیں ۔ لیکن ناصر چاہتا تھا کہ اب شہلا گھر کی ذمّہ داریاں سنبھال لے۔ وہ جب بھی امّاں کو ملازمہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مصروف دیکھتا تو بڑی محبت سے کہتا: ” امّاں اب آپ گھرکے کاموں کی ذمّہ داری شہلا کو سونپ کر سبک دوش ہو جائیں ،آرام کریں اور ہم دونوں سے اپنی خدمتیں کروائیں ۔“

    ناصر کی اس محبت پر امّاں کی آنکھیں بھر آتیں: ”بس بیٹا‘ رہنے دو ابھی اسے آزاد کچھ دن۔ عمر پڑی ہے کام کرنے کے لیے۔ یہی کچھ دن ہوتے ہیں لڑکیوں کے جب وہ کچھ آزادی محسوس کرتی ہیں۔ بعد میں تو بچوں کی دیکھ بھال اور گھر گرہستی کے کاموں میں گزر جاتی ہے ان کی ساری زندگی اور ملازمہ بھی توہے میری مدد کے لیے بس ذرا نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے سو میں دیکھ لیتی ہوں ۔“

    ناصر نے اماں کے اکیلے پن کو دیکھتے ہوئے گھر کے کاموں کے لیے کل وقتی ملازمہ بہت پہلے ہی رکھ لی تھی۔ بھلی اور ایمان دار عورت تھی، کوئی بچہ بھی نہ تھا، شوہر کے انتقال کے بعد بے گھر ہو گئی تھی۔ یوں اسے بھی مخلص لوگ اور ایک چھت میسر آ گئی تھی ۔امّاں اور ناصر اسے گھر کے فرد جیسا ہی سمجھتے تھے۔

    ناصر کی دلہن کے روپ میں شہلا امّاں کو بہت اچھی لگتی تھی، وہ اس کی خوب ناز برداریاں کرتیں، اس سے پوچھ پوچھ کر اس کی پسند کے کھانے پکواتیں، کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتیں، سجا سنورا دے کھ کر خوش ہوتیں، ہزاروں دعاﺅں سے نوازتیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوش دیکھ کر مطمئن ہو جاتیں۔ لیکن شہلا عجیب مزاج کی لڑکی تھی اسے نہ امّاں پسند تھیں اور نہ امّاں کی محبت کے انداز بھاتے تھے۔ اسے صرف ناصر پسند تھا بلا شرکت غیرے۔

    امّاں کا دل چاہتا کہ شہلا ان کے پاس بیٹھے بات کرے لیکن شہلا ناصر کے دفتر جاتے ہی اپنے کمرے تک محدود ہو جاتی، گھر میں ہوتی تو ٹیلی ویژن پر ڈیلی سوپ اور فلمیں دیکھ کر وقت گزارتی، سہیلیوں سے فون پر باتیں کرتی اورسارا سارا دن یوں ہی اپنے کمرے میں گزار دیتی۔ یا پھر اسے ناصر کے ساتھ باہر گھومنے جانا پسند تھا۔ امّاں کی قربت اسے گوارا نہ تھی۔ شروع کے دنوں میں شہلا کی کم گوئی کو امّاں نے شرم پر محمول کیا لیکن رفتہ رفتہ اس کی بے نیازی انہیں محسوس ہونے لگی۔ جہاندیدہ تھیں، ایسے ہی رویوں کی ستائی ہوئی بھی تھیں سو خاموشی اختیار کرلی۔ ناصر سے بھی کچھ نہ کہا لیکن وہ شہلا کے اس رویے سے بے خبر نہ تھا اورخاموشی سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شہلا کسی وقت نہ امّاں کے پاس بیٹھتی ہے نہ ان سے مخاطب ہوتی ہے اور اگر امّاں خود اس سے مخاطب ہوتی ہیں تو لیے دیے انداز میں نپے تلے جواب دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔

    جب تک ناصر گھر میں رہتا اور امّاں کے پاس بیٹھا ہوتا تو شہلا کو بھی ناصر کی وجہ سے بادلِ نخواستہ امّاں کے پاس بیٹھنا پڑتا لیکن اس کی کوشش یہی رہتی کہ ناصر بھی امّاں سے دور رہے۔ مگردفتر سے لوٹ کرناصرکا امّاں کے پاس بیٹھ کر کچھ وقت گزارنا روزانہ کا معمول تھا اور جب سے شادی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ امّاں اور شہلا روزانہ کچھ وقت ساتھ گزاریں ،باتیں کریں۔ شہلا جب تک آکر نہ بیٹھتی ناصر اسے آوازیں دیتا رہتا۔ ناصر کے اصرار پر شہلا وہاں آکر بیٹھ تو جاتی لیکن اس کے چہرے سے بے زاری صاف جھلکتی جسے امّاں کے ساتھ ہی ناصر بھی خوب سمجھتا تھا بلکہ اب تو ملازمہ بھی امّاں کے تئیں شہلا کے اس رویے کو سمجھنے لگی تھی۔


    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں


    ناصر کی فکر دن بدن بڑھتی جا رہی تھی، وہ ہر حال میں امّاں اور شہلا کے درمیان اچھے تعلقات کا متمنی تھا ۔ ایک طرف شہلا اس کی بیوی جس سے وہ محبت کرتا تھا اوردوسری طرف امّاں تھیں جن کا دل دکھانے کا خیال بھی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔ امّاں سے تواس کا رشتہ ہی بہت انوکھا تھا بلکہ سچ تو یہ تھا کہ ان میں تو کوئی رشتہ ہی نہیں تھا نہ وہ اس کی سگی ماں تھیں نہ سوتیلی وہ تو اس کی منھ بولی ماں تھیں۔ ناصر کے دل میں ان کے لیے بے حد عزت و احترام تھا اوروہ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے۔

    امّاں اور ناصر کے اس انوکھے رشتے کی کہانی بھی خوب تھی۔ ناصر صحافی تھا اور ایک مشہور ٹی وی چینل میں ریسرچ اور اسکرپٹ رائٹنگ کے شعبے سے منسلک تھا۔ حالیہ پروجیکٹ کے تحت چینل کی طرف سے اسے ایسے فلاحی اداروں کا سروے سونپا گیا تھا جو عمر رسیدہ، بیوہ اور بے سہارا خواتین کے تحفظ اور فلاح کے لیے کام کر رہے تھے۔ ”آشیانہ“ نام کے ایک غیر سرکاری’ اولڈ ایج ہوم ‘ میں اس کی ملاقات صابرہ خاتون سے ہوئی تھی۔ سروے کے دوران بزرگ اور بے سہارا خواتین کے بہت سے مسائل اور کچھ ایسی تلخ سچائیاں سامنے آئیں جن کا ناصر پر بہت گہرا اثر ہوا۔ وہ بے سہارا اور عمر رسیدہ خواتین جن کا دنیا میں کوئی نہیں تھا، ان اداروں میں انہیں روٹی کپڑے اور ایک محفوظ چھت کے ساتھ ہی بیماری میں دوا علاج بھی اگر میسر تھا تو غنیمت تھا اور وہ اتنی سہولیات ملنے پر مطمئن اور خوش بھی تھیں۔ زندگی کی ڈھلتی شام میں ان کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔ مگر ایسی بزرگ خواتین جو اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوکر یہاں پناہ گزین ہو گئی تھیں ذہنی طور پر زیادہ مایوس اور دکھی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنوں کا انتظار جیسے ٹھہر گیا تھا۔ اور کئی کئی برس گزر جانے کے بعد بھی آس کی ڈورکویقین سے تھامے وہ اپنوں کی راہ دیکھ رہی تھیں کہ شاید ان کے دل میں کبھی محبت کا دیا روشن ہو جائے اور وہ انہیں یہاں سے لے جائیں۔ صابرہ خاتون بھی ایک ایسی ہی ماں تھیں جو اپنے بیٹوں کی بے رخی کا شکار ہو کر اس ادارے میں آئی تھیں۔ تفصیلی بات چیت کے دوران انہوں نے ناصر کو بتایا تھا۔

    ”ان کے دو بیٹے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ میں مقیم آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سال پہلے ان کے شوہر کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا اور وہ اکیلی رہ گئیں۔ والد کے گزر جانے کے بعد بچوں نے ان سے رابطہ کیا تسلی دی اور کاروباری مصروفیت کی بنا پر فوری آنے سے معذرت کرتے ہوئے جلد ہی اپنے پاس بلانے کا یقین دلایا۔ مگر دو سال کا عرصہ گزر جانے پر بھی نہ وہ آئے اور نہ ہی مجھے اپنے پاس بلایا۔ شوہر کے گزر جانے کا صدمہ، بڑھتی عمر اور اکیلا پن مجھے اندرہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں مجھے بس اپنے بچوں کا انتظارتھا۔ میرا انتظار بڑھتا جا رہا تھا لیکن نہ وہ خود آرہے تھے اور نہ مجھے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ ہاں میرے دونوں بیٹوں کی باقاعدگی سے بھیجی گئی رقم سے میرا بینک بیلنس بڑھتا جا رہا تھا اوران کی بے رخی اور بے اعتنائی سے میرا دل خالی ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے ان کے پیسوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ میری خوشی تو اپنے بچوں اور ان کے بچو ں کے ساتھ رہنے میں تھی۔ حالاں کہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ کر انڈیا میرے پاس آکر نہیں رہ سکتے لیکن میں تو ان کے پاس جا کر رہ سکتی تھی۔ نہ معلوم وہ خود مجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے یا ان کی بیویوں کو میرا وہاں ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔“

    بولتے بولتے ان کا گلا بھر آیا تھا مگر وہ خاموش نہیں ہوئیں شاید آج پہلی بار انھوں نے کسی سے اپنا درد بانٹا تھا۔

    ”تنہائی اور خاموشی مجھے ڈر انے لگی تھی، میری دل چسپی ہر چیز سے ختم ہوگئی تھی، میرے گھر کا وہ باغیچہ جس میں میرے لگائے ہوئے بیلے اور موگرے کے پھولوں کی مہک سے فضا میں ہر وقت بھینی بھینی سی خوش بو پھیلی رہتی تھی سوکھنے لگا تھا۔ دیسی گلاب کے وہ پودے بھی میری توجہ سے محروم ہو چلے تھے جن پر کھلنے والے پیازی رنگ کے پھولوں کی مہک سے میری روح تک معطّر ہو جایا کرتی تھی۔ میرے بچوں کا بچپن ان کی معصوم شرارتیں، اچھل کود اور ہنسی کی وہ آوازیں جوگھر کے ہر گوشے میں محفوظ تھیں، تصور میں مجھے اپنا چہرہ دکھا تیں تو میری بے چینی اور بڑھ جاتی۔ اپنے ہی گھر میں ایک بھٹکی ہوئی روح کی طرح میں چکراتی پھرتی۔ تب گھبرا کر میں نے وہ گھر بیچ دیا اور ساری رقم اسی ادارے کو دے دی اور میں خود بھی یہیں آگئی، کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا میرے پاس۔ میں نے سوچا یہاں میرے جیسی اور بھی عورتیں ہوں گی سب مل کر ایک دوسرے کا درد بانٹ لیں گی۔ جب سے یہاں آئی ہوں تنہائی کا احساس کافی حد تک کم ہوگیا ہے مگر دل کا درد کم نہیں ہوتا!“

    صابرہ خاتون کی آپ بیتی سن کر ناصر بہت اداس ہو گیا تھا۔ وہ خود بھی اس دنیا میں اکیلا تھا اور اکیلے پن کے درد کو بہ خوبی سمجھتا تھا۔ اس کی ماں اس کی پیدائش کے وقت ہی چل بسی تھی‘جب وہ ایک سال کا تھا تب اس کا باپ بھی ایک حادثے کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ بوڑھی دادی تھی جس نے تین سال کی عمر تک اسے اپنے سینے سے لگائے رکھا لیکن ایک دن اچانک جب دادی بھی چل بسی تو محلے کا کوئی شخص از راہِ ہمدردی اسے ایک یتیم خانے میں چھوڑ آیا جہاں اس کی پرورش ہوئی۔

    ناصر ایک ذہین اور سلجھا ہوا بچہ تھا، اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے یتیم خانے کے مہتمم سر فراز علی نے ذاتی طور پراس کی سرپرستی کی ذمّہ داری اپنے سر لے لی اوراس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ ناصر نے بھی ان کو کبھی مایوس نہیں کیا، تعلیمی مراحل بہ خوبی طے کیے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے صحافت کو بہ طور کیریئر چنا۔ تین سال پرنٹ میڈیا میں کام کرنے کے بعد ناصر نے الیکٹرانک میڈیا کی طرف رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنی محنت اور لگن سے بہت جلد اپنی شناخت قائم کر لی۔

    صابرہ خاتون سے مل کرجب ناصر لوٹا تو اس نے اپنے دل میں ایک مضبوط فیصلہ کرلیا تھا۔ اس نے ایک ہفتے کے اندر ہی ” آشیانہ “پہنچ کر صابرہ خاتون سے دوبارہ ملاقات کی اورنم ناک آنکھوں اور بھرّائی ہوئی آواز میں ان سے اپنی دلی تمنا کا اظہارکر دیا۔

    صابرہ خاتون کو اس وقت ناصر ایک معصوم بچہ نظر آیا۔ ایک لمحے کو انہیں محسوس ہوا کہ ایک اونچے پورے مرد کے اندر کا بچہ ماں کی مامتا پانے کے لیے بے قرار ہے۔ پیٹ کی اولاد نے تو آنکھیں پھیر لی تھیں لیکن دو ملتجی غیر آنکھیں ان کے چہرے پر جمی ہوئی ان سے مامتا کی بھیک مانگ رہی تھیں۔ بس وہی ایک لمحہ زخمی مامتا پر جیسے مرہم کا ٹھنڈا پھاہا رکھ گیا، صابرہ خاتون نے ناصر کی خواہش پر ہامی بھردی ۔

    ناصر نے ضابطے کے مطابق حلف نامہ جمع کرایا اور صابرہ خاتون کوماں بنا کراپنے گھرلے آیا ۔ دونوں کے بیچ کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک خوبصورت اور مضبوط رشتہ بن گیا۔ ان کو ناصر کے ساتھ رہتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے اوراب وہ ناصر کی شادی کر کے ایک ماں کا فرض ادا کرنا چاہتی تھیں۔ ایک دن جب ناصر بہت اچھے موڈ میں ان کے پاس بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا تب انہوں نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی۔

    ”بیٹا میں چاہتی ہوں تمہاری شادی ہوجائے‘ گھر بس جائے تمہارا۔“

    ”گھر تو بسا ہوا ہے امّاں!“

    ”کب اور کیسے؟ “ صابرہ بیگم نے حیران ہو کر ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” آپ کے آجانے سے امّاں‘ ‘ وہ شرارت پر آمادہ تھا۔

    ”بے وقوف لڑکے‘ میں تیری شادی کی بات کر رہی ہوں۔ “ ناصرکی بات سن کر وہ مسکرائے بغیرنہ رہ سکی تھیں۔

    ”دیر سے شادی ٹھیک نہیں بچّے۔ اگر تم نے کوئی لڑکی پسند کر رکھی ہو تو بتاؤ، ورنہ میں کچھ کرتی ہوں۔“

    ”ارے نہیں امّاں! میں نے کوئی لڑکی وڑکی پسند نہیں کر رکھی‘ بس آپ کو پسند کیا تھا اور لے آیا۔“ وہ بہ دستور مذاق کے موڈ میں تھا اور ہنس رہا تھا لیکن صابرہ خاتون کو سنجیدہ دیکھ کر بول اٹھا ۔”اچھا اچھا ‘ جیسی آپ کی مرضی! لیکن میری ایک شرط ہے کہ شادی آپ کی پسند سے ہوگی اورآپ کو حق ہے جس پر چاہیں قربان کر دیں مجھے‘ اُف بھی نہ کروں گا۔ “

    وہ چھیڑنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ اس کی رضا مندی مل جانے پر صابرہ خاتون نے سرفراز علی کی بیوی کی مدد سے دو ایک لڑکیاں دیکھیں اور شہلا کو پسند کرکے بہو بنالائیں۔

    ناصر کی زندگی میں شہلا بہار بن کر چھا گئی۔ خلوتیں آباد ہوئیں تو زندگی اس کے سامنے ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ دل میں مسرت اور شادمانی کے موسم اُتر آئے، بشاشت اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگی، اس کی زندگی میں اب خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔

    چند مہینے ہی اچھے گزرے پھر رفتہ رفتہ صابرہ خاتون کے تئیں شہلا کا رویّہ بدلنے لگا۔ اس کی نظروں میں ان کے لیے نہ احترام ہوتا نہ محبت۔ امّاں کو اس طرح نظر اندازکرتے دیکھ کر ناصرکو تشویش ہونے لگی۔ اسے شہلا کے رویے کی وجہ سے اپنے دل میں امّاں سے عجیب سی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ توتصوّر میں بھی امّاں کو دکھ نہیں پہنچا سکتا تھا۔ زندگی میں ان کے آجانے سے اس نے ماں کی مامتا کو محسوس کیا تھا اور ایک ایسا رشتہ جیا تھا جس کا مزہ اس نے چکھا ہی نہیں تھا، اس کی زندگی کے اتنے بڑے خلا کو صابرہ خاتون نے اپنی بے لوث محبت سے پُر کیا تھا۔ وہ بےچین ہو اٹھا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شہلا سے کھل کر بات کرے گا اور اسے سمجھائے گا۔ امّاں سے اپنے رشتے کی نوعیت بتائے گا۔ ناصر کو یقین تھا کہ شہلا پڑھی لکھی لڑکی ہے احساس دلانے پراپنے رویے پر ضرورغور کرے گی۔ لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی ناصر نے اس سے کھل کر بات کی تو وہ بھی کھل کر سامنے آگئی، دل میں صابرہ خاتون کو لے کر جو غبار بھرا ہوا تھا ایک جھٹکے میں نکال باہر کیا۔

    ”ناصر اچھا ہوا تم نے ہی بات چھیڑ دی۔ میں خود تم سے بات کرنے والی تھی۔“

    ”ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اگر امّاں سے تمہیں کوئی شکایت ہو تو مجھے بتاﺅ۔ یوں تووہ تم سے اور مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں سارا گھر سنبھال رکھا ہے انہوں نے پوری طرح آزاد ہو تم۔ وہ اسے احساس دلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن شہلا تو جیسے ناصر کی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی اپنی ہی کہے جا رہی تھی۔

    ”ناصر حیرت ہوتی ہے مجھے تمہاری حرکتیں دیکھ کر۔ تمہارا سارا دھیان صرف امّاں کی خوشی میں ہی رہتا ہے۔ ۔چہرہ پڑھتے رہتے ہو تم ان کا۔ میں تو تمہیں نظر ہی نہیں آتی۔ لوگ سگی ماؤں کی اتنی پرواہ نہیں کرتے جتنی تم اس غیرعورت کی کرتے ہو۔ اور تم کوئی بچّے تو تھے نہیں کہ تمہیں ماں کی اتنی ضرورت تھی کہ اپنی ماں نہیں تھی تو اولڈ ایج ہوم سے ہی ماں کے نام پراٹھا لائے ایک عورت۔“

    وہ ایسا زہر اگلے گی ناصر کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ گنگ سا بیٹھا وہ اسے دیکھ رہا تھا مگرشہلا کے ترکش میں ابھی کچھ تیر باقی تھے۔

    ”تنگ آگئی ہوں میں ان کی دخل اندازی سے۔ ہر وقت نصیحتیں، ہر وقت تاکیدیں، ناصر کو یہ پسند ہے، وہ پسند نہیں ہے۔ ناصر لاابالی سا ہے، اس کی بکھری چیزیں سمیٹ کر رکھ دیا کرو۔ اس کی پسند کی ایک ڈش بنا لیا کرو۔ اس کی الماری ٹھیک کردیا کرو، حد ہوگئی ہے ناصر۔ اچھا یہ بتاﺅ وہ ہوتی کون ہیں مجھ پر اس طرح حکم چلانے والی؟ بس ایک منھ بولا رشتہ ہی تو ہے تمہارے اور ان کے درمیان۔ اور سنو، وہ جس طرح تمہارے اوپر حکم چلاتی ہیں مجھے وہ بھی پسند نہیں ہے۔ تمہیں نہیں لگتا کہ حد پار کر رہی ہیں وہ؟“

    ”خاموش ہو جاﺅ! اب ایک لفظ بھی آگے مت بولنا۔‘‘ ناصرچیخ پڑا۔ ’’کتنی بے حس ہو تم! جذبات سے عاری عورت۔ اور کیسی تعلیم حاصل کی ہے تم نے کہ ذرا تمیز نہیں ہے تمہیں۔بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، ادب لحاظ سب طاق پر رکھ دیا ہے۔ کبھی سوچا تم نے کہ تمہارا یہ رویّہ کتنا دکھ دیتا ہوگا انہیں؟“

    ناصر کے اندر ایک درد سا اتر آیا لیکن شہلا کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی اسے توجیسے اپنے اور ناصر کے درمیان صابرہ خاتون کا وجود برداشت ہی نہیں تھا ۔امّاں کو لے کردونوں کے بیچ سرد جنگ شروع ہو گئی آپس میں بات چیت بھی کم ہو گئی، دونوں کھنچے کھنچے سے رہنے لگے۔ کئی دن یوں ہی گزر گئے۔

    امّاں کی وجہ سے ناصر بات کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا تھا، سو اس نے خود ہی شہلا سے بات کرنے کی پہل کر دی۔ شہلا بھی شاید انتظار میں ہی تھی، اس نے بھی زیادہ نخرے نہیں دکھائے۔ ماحول میں کچھ اچھی سی تبدیلی ہوئی تو ناصر کو بھی سکون کا احساس ہوا اورحالات کے بہتر ہونے کی آس بھی بندھ گئی۔

    اس دن جب ناصر دفتر سے لوٹا تو خلافِ معمول شہلا کو اچھے موڈ میں دیکھ کر اسے اطمینان سا ہوا۔ سوچنے لگا کہ شاید شہلا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں پہنچا تو شہلا کو اپنا منتظر بھی پایا۔ ادھر کافی دنوں سے وہ دیکھ رہاتھا کہ جب وہ بیڈ روم میں آتا تو شہلا اسے سوئی ہوئی ملتی، نہ معلوم سو جاتی تھی یا سوجانے کا ناٹک کرتی تھی۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوگیا۔

    ’’کیا بات ہے بھئی آج تو تم جاگ رہی ہو، کیا ہمارا انتظار ہو رہا تھا ؟“ اس نے مسکراتے ہوئے شریر انداز میں شہلا کی طرف دیکھا۔

    ”ہاں ناصر! میں کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ تم سے بات کروں لیکن تم ناراض تھے تو میری ہمت ہی نہیں ہوئی۔“ بڑی ادا سے اس نے ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” ہاں تھا تو ناراض۔ تم منا لیتیں۔ میں تو منتظر تھا۔ خیر کوئی بات نہیں میں منا لیتا ہوں تمہیں۔ بتاؤ کیا بات ہے؟“ وہ ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ” ناصر غلطی میری بھی ہے اتنے دنوں میں بھی تم سے دور دور رہی۔“

    شہلا کی اس تبدیلی پر ناصرکو حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہو رہی تھی۔ و ہ اسے اب اور شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھاوہ تو بس یہی چاہتا تھا کہ شہلا ماں کے رشتے کی نوعیت کو سمجھ لے ان کی عزت کرے ان سے محبت کرے بس!

    ”ہاں تم کیا کہنا چا رہی تھیں کہو نہ۔ دل کی بات دل دار سے کہنے میں اتنی شرم؟“ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ ایک قاتل ادا سے شہلا نے ناصر کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔

    ”ناصر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم امّاں کو واپس ’آشیانہ‘ پہنچا دو؟“

  • عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    وہ بہت سہولت کے ساتھ سادہ جملوں میں آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔ اکیلے میں جب آپ ان کا لکھا متن پڑھتے ہیں تو مسلسل ہنسنے کی وجہ سے دور سے دیکھنے والا آپ کو یقیناً پاگل سمجھے گا۔ یہ ذکر ہے اس عہدِ مزاح کا جو حیاتِ عارضی کی چمکیلی لیکن مسلسل پگھلتی برف پر پھسلتے پھسلتے اختتام کے نشان پر ٹھہر گیا ہے۔

    یہ ذکر ہے مشتاق احمد یوسفی کا، ذکر ہے آبِ گم کا، ذکر ہے خاکم بَدہن کا، اور زرگزشت کا اور چراغ تلے کا۔ یہ ذکر ہے مسلسل اور باقاعدہ فکر میں مبتلا کرنے والے مزاح کا، ان قہقہوں کا جو آپ کے حلق سے نکلتے ہیں اور اس رجحان ساز ادیب کے گرد خراجِ تحسین کا ہالہ بنا دیتے ہیں۔

    ابنِ انشا اور ظہیر فتح پوری سے ہم تک آتے آتے، کل تک ہم بجا طور پر کہا کرتے تھے کہ ’ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘ یہ عہد اب ختم ہوچکا۔ وہ مرچکے لیکن ان کی لطیف نثر انھیں ہمارے قہقہوں میں زندہ رکھے گی۔ مجھے وہ اس لیے پسند ہیں کیوں کہ وہ اس عہد کے کم کوش اور کم مطالعہ قاری کو بے خوفی سے اپنی شگفتہ نثر میں بھاری الفاظ کا جام پلا دیتے تھے، یہ قاری سمجھتے تھے کہ ان کا ادیب کسی دوسرے پر طنز کر رہا ہے لیکن بھاری لفظ پر پھسلنے والے کو احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ طمانچہ انھیں بھی پڑ چکا ہے۔

    94 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت سے ہونے والے اس عہد ساز ادیب نے سماج کے ہر شعبے کے افراد سے اپنی نثر کے ذریعے تعارف قائم کیا ہے، حتیٰ کہ ہمارا سیاسی شعبہ بھی جس سے وابستہ اکثر لوگ کتاب پڑھنے سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے جہل علم سے دور رہتی ہے، ان کی نثر کا مداح ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عہدِ یوسفی کو کس طرح خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

    صدر، وزیر اعظم و دیگر سیاسی شخصیات کا خراج تحسین


    ملک کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر صدر مملکت، نگراں وزیر اعظم اور ملک کی دیگر اہم سرکاری و سیاسی شخصیات کی جانب سے تعزیتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

    صدر مملکت ممنون حسین نے رجحان ساز مزاح نگار کی دنیا سے رخصتی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ادبی خدمات یاد رکھی جائیں گی، صدر کی جانب سے مرحوم کی مغفرت اور اخروی زندگی میں درجات کی بلندی کی دعا بھی کی گئی۔

    نگراں وزیر اعظم ناصر الملک کی جانب سے بھی مشتاق یوسفی کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، دعاؤں کے ساتھ انھوں نے مرحوم کی ادبی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا، کہا اُن کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    دریں اثنا نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے بہترین مزاح تخلیق کرنے والے ادیب کو خراجِ عقیدت پیش کیا، انھوں نے یوسفی کے غم زدہ خاندان سے اظہار ہم دردی کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے منفرد اسلوب سے مزاح نگاری کو نئی جہت دی۔ ان کا نہایت دکھ سے کہنا تھا کہ آج سے اُردو ادب میں مزاح نگاری کے خوب صورت عہد کا خاتمہ ہوگیا۔

    دوسری طرف کلیدی سیاسی شخصیات کی جانب سے بھی اُردو ادب کے اس روشن اور ہنستے ستارے کے انتقال پر تعزیتی پیغامات جاری کیے گئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی صنف مزاح نگاری سیاسی شعبے کے افراد سے کتنی قربت کی حامل ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ زبان و ادب کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی خدمات اَن مول ہیں، انھوں نے یوسفی کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ ان کی موت سے اردو مزاح نگاری کا عظیم عہد تمام ہوا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی منفرد مزاح نگار کے انتقال پر اظہارِ افسوس پر مبنی پیغام جاری کیا گیا ہے، ان کے بیان میں مرحوم کو اُردو ادب کا درخشندہ ستارہ قرار دیا گیا۔ بلاول نے مرحوم کے غم زدہ خاندان سے تعزیت کی اور کہا کہ یوسفی کی ادبی خدمات گراں قدر ہیں۔

    لطف کی بات ہے کہ سیاسی شخصیات سے ہٹ کر ایک اہم عسکری شخصیت پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے یوسفی کے انتقال پر تعزیت کی ہے۔ آصف غفور نے لکھا کہ مشتاق احمد یوسفی مسکراتے ہوئے ہمیں چھوڑ کر جنت کے ابدی امن کی طرف چل دیے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔

    آصف غفور نے ٹوئٹ کے ساتھ یوسفی کا ایک اقتباس بھی شیئر کیا ہے جو چراغ تلے سے لیا گیا ہے: ’انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔‘

    فردوس عاشق اعوان نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ اُردو ادب کے اثاثے کے چلے جانے پر انھیں گہرے دکھ نے آلیا ہے۔

    امجد اسلام امجد، افتخار عارف اور صابر ظفر


    ملک کی ممتاز ادبی شخصیات کی جانب سے بھی صاحب اسلوب مزاح لکھنے والے ادیب مشتاق یوسفی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز شاعروں میں سرِ فہرست شاعر، ڈراما نگار اور نغمہ نگار امجد اسلام امجد نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی شخصیت کے ایک اہم پہلو کو یاد کیا، کہا کہ مشتاق یوسفی محبت کرنے اور بانٹنے والی شخصیت تھے۔ معروف شاعر افتخار عارف نے بھی کہا کہ مزاح نگاری کے لیے یوسفی کی خدمات گراں قدر ہیں۔

    کراچی سے تعلق رکھنے والے منفرد اور ملک بھر میں مقبول شاعر اور مقبول ترین نغمہ نگار صابر ظفر نے یوسفی کے انتقال پر کہا ہے کہ وہ اس عہد کے مقبول ترین مزاح نگار تھے اور رہیں گے، بہ حیثیتِ انسان وہ بہت شفیق اور مہربان طبیعت کے مالک تھے۔ صابر ظفر نے بھی مرحوم کی شخصی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بعد آنے والے لکھاریوں کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے تھے، عبید اللہ علیم، افتخار عارف اور نصیر ترابی کو سامنے لانے میں ان کی نوازشوں کا بڑا دخل رہا۔ معروف شاعر نے انھیں ایک شجرِ سایہ دار قرار دیا جس کا خلا پورا ہونا ممکن نہیں لگتا۔

    قارئین اور مداحوں کا خراجِ تحسین


    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی پاکستان کے عظیم مزاح نگار کی موت پر انھیں ان کی خدمات کے صلے میں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا، ٹوئٹ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔

    ممتاز مزاح نگار کو ان کے قارئین نے اردو ادب کا لے جنڈ قرار دیا، مداحوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ جوش و خروش سے مرحوم کے لکھے ہوئے مشہور مضامین میں سے اقتباسات شیئر کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مشتاق یوسفی سے آخری دنوں میں ملاقات کرنے والی شخصیات نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یادگار تصاویر شیئر کیں، اور ان کے حوالے سے اہم باتیں بتائیں۔ ایک میڈیا شخصیت نے بتایا کہ 94 سال کی عمر میں بھی مرحوم کی یادداشت نہایت اچھی تھی، وہ ذہنی طور پر کچھ پریشان تھے کیوں کہ بہت کم زور ہوگئے تھے اور خوراک نہیں لے پا رہے تھے۔