Tag: ادبی لطائف

  • جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    جب عدم سگریٹ سلگا کر واپس گھر کی طرف چل پڑے

    عبدالحمید متخلص بہ عدمؔ اردو کے قادر الکلام اور زود گو شاعر تھے۔ ایک دور تھا جب وہ بطور رومانوی شاعر بہت مقبول رہے۔ مختصر بحروں میں عدم کا کلام سلاست و روانی کا نمونہ ہے۔

    یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے اور عدم کی شخصیت، ان کے مزاج سے متعلق ہے۔

    عدم ان دنوں راولپنڈی میں تھے اور ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں افسر تھے۔ صادق نسیم بھی اسی دفتر میں ملازم تھے۔ دونوں کا ٹھکانہ قریب قریب تھا۔ وہ صبح سویرے اکٹھے دفتر کے لیے پاپیادہ نکل کھڑے ہوتے تھے۔

    صادق نسیم نے لکھا ہے کہ ایک صبح دفتر جاتے ہوئے انہیں ہوا کی تندی کا سامنا کرنا پڑا جو سامنے سے ان پر گویا جھپٹ رہی تھی۔ عدم نے چلتے چلتے سگریٹ نکالا اور دیا سلائی سے اُسے سلگانے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ تیز ہوا دیا سلائی کو بجھا دیتی۔ اس پر عدم نے پورا یو ٹرن لے کر اپنی پیٹھ ہوا کی طرف کر کے سگریٹ سلگایا تو وہ سلگ اٹھا۔ اس پر وہ دوبارہ اپنا رخ دفتر کی طرف کرنے کی بجائے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے واپس گھر کی طرف چل پڑے۔ اس پر صادق نسیم نے پکار کے کہا ’’حضور! دفتر اس طرف ہے۔‘‘ عدم کہنے لگے۔ ’’ہوا مخالف ہے۔ مجھ سے دفتر نہیں جایا جاتا۔‘‘

    صادق نسیم تو دفتر کی طرف بڑھ گئے مگر عدم واپس گھر جا پہنچے۔

    فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل
    مجھ کو بھی کام ہے ابھی تجھ کو بھی کام ہے

  • شیطان کی کوٹھری

    شیطان کی کوٹھری

    اردو کے نام ور شاعر مرزا غالب کی شاعری، ان کی نثر نگاری بالخصوص ان کے خطوط کے علاوہ ہمیں ان سے منسوب لطائف یا دل چسپ واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو مرزا غالب کی شگفتہ مزاجی اور شوخی و ظرافت کا ثبوت ہیں۔

    مرزا غالب کے قریبی احباب، اور ان کے شاگردوں‌ نے ایسے کئی واقعات ادبی تذکروں‌ میں رقم کیے ہیں جن میں‌ سے ایک ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    مرزا غالب رمضان کے مہینے میں دہلی کے محلے قاسم جان کی ایک کوٹھری میں بیٹھے پچسی کھیل رہے تھے۔ میرٹھ سے ان کے شاگرد مفتی شیفتہ دہلی آئے تو مرزا صاحب سے ملنے گلی قاسم جان آئے۔

    انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے متبرک مہینے میں مرزا پچسی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا: مرزا صاحب ہم نے سنا ہے کہ رمضان میں شیطان بند کردیا جاتا ہے۔

    مرزا غالب نے جواب دیا مفتی صاحب آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شیطان جہاں قید کیا جاتا ہے، وہ کوٹھری یہی تو ہے۔

  • شاعری کا مثبت نتیجہ

    شاعری کا مثبت نتیجہ

    اردو ادب میں جہاں ہم نثر پارے، شاعری اور مضامین وغیرہ پڑھتے ہیں اور تحریروں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ مصنّف کی فکر و نظر، اسلوب اور زبان و بیان کے حوالے سے اسے سراہتے ہیں، وہیں‌ اہلِ قلم اور نام ور ادبی شخصیات سے کچھ لطائف بھی منسوب ہیں۔ یہ لطائف اور شگفتہ باتیں ان بڑے لوگوں کی ذہانت، بذلہ سنجی، برجستہ گوئی اور ظرف کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔

    یہ ایک ایسا ہی لطیفہ ہے جو اردو کے باکمال ادیب، شاعر اور مقبول کالم نگار مشفق خواجہ کی ظرافت کی مثال ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ناہید اختر نے مشفق خواجہ سے ذکر کیا کہ: احمد فراز اور پروین شاکر کی شاعری کے مطالعے سے ان کے اندر بھی شاعری کا شوق پیدا ہوا۔

    خواجہ صاحب نے جواب دیا: بڑی خوشی کی بات ہے کہ احمد فراز اور پروین شاکر کی شاعری کا کوئی مثبت نتیجہ نکلا۔ ورنہ اکثر لوگ ان دونوں کے کلام سے متاثر ہو کر شاعری ترک کر دیتے ہیں۔

  • معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اردو زبان کے ان شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں بہت کم کہا، لیکن اردو ادب کے معتبر اور نمایاں شاعروں میں شمار ہوئے۔ ان کی شاعری نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور ان کے متعدد اشعار ضرب المثل بنے۔

    اردو زبان کے اس مقبول شاعر سے متعلق غضنفر علی کے ایک مضمون سے یہ اقتباسات مصنّف کی یادوں پر مشتمل ہیں۔ غضفر علی کا تعلق بھارت سے ہے۔ وہ شاعر، ناقد اور فکشن رائٹر ہیں۔ انھوں نے اس تحریر میں جذبی سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ معین احسن جذبی 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں وفات پاگئے تھے۔ غضنفر لکھتے ہیں:

    "احمد جمال پاشا نے جب میرا تعارف کرایا تو جذبی صاحب اس درجہ خوش ہوئے جیسا کہ کوئی مشفق استاد یا شفیق باپ ہوتا ہے۔ مجھ سے ان کے خوش ہونے کی میرے خیال میں تین وجہیں رہی ہوں گی، پہلی وجہ یہ کہ میں اس شعبے کا طالب علم تھا جسے جذبی نے اپنا گھر سمجھا۔ دوسری یہ کہ میں اس زبان میں ریسرچ کررہا تھا جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز تھی اور تیسری شاید یہ کہ میرے اندر بھی وہ صلاحیت موجود تھی جس کی بدولت کوئی تخلیقی فن کار کسی کو اپنے قبیلے کا فرد سمجھنے لگتا ہے۔ ان میں قوی تر سبب یہ تھا کہ میں ان کے شعبے کا طالبِ علم تھا جو اس حقیقت کا غماز بھی تھا کہ اُن کو اپنے شعبے سے کس درجہ لگاؤ تھا، مگر افسوس کہ اس شعبے نے ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور اس حد تک گزند پہنچائی کہ انھوں نے برسوں اس کی طرف رخ نہیں کیا۔ یہ شعبے کی کوئی نئی بات نہیں تھی، بلکہ یہ روایت پہلے سے چلی آرہی تھی اور بعد تک باقی رہی۔ اس روایت کی آگ میں رشید احمد صدیقی بھی جلے، آلِ احمد سرور بھی جھلسے اور کئی دوسرے بھی اس کی لپٹوں میں لپیٹ لیے گئے۔ اس شعبے کی ایک مثبت اور مضبوط روایت بھی رہی۔ وہ یہ کہ بہت دنوں تک اس میں تخلیقیت کا بول بالا رہا۔ رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھ پوری، آلِ احمد سرور، معین احسن جذبی، خورشید الاسلام، خلیل الرحمان اعظمی، راہی معصوم رضا، شہریار، قاضی عبدالستار ایک سے ایک مشہورِ زمانہ تخلیق کار اس سے وابستہ رہے اور اپنے فن پاروں سے اس کے نام میں چار چاند لگاتے رہے مگر دل کو گداز کرنے، ذہن کو بالیدہ بنانے اور روح کو گرمانے والی اس روایت کو کسی کی نظر لگ گئی۔ غیر تخلیقیت کے سحر نے اس کے ارد گرد ایسا حصار کھڑا کیا کہ تخلیقیت کا داخلہ بند ہوگیا۔ تخلیقیت کے اکّے دکّے نمائندے کسی طرح داخل ہونے میں کام یاب ہوئے بھی تو وہ ہمیشہ غیر تخلیقی بلاؤں کی زد پہ رہے۔

    سیوان کی اس ملاقات میں گوشہ نشینی اختیار کرنے اور مسلسل چپّی سادھ لینے والے جذبی نے ایسی جلوت پسندی اور محفل بازی کا ثبوت دیا کہ ہم دنگ رہ گئے۔ دورانِ دورِ میکشی انھوں نے ایسے ایسے قصّے سنائے اور نشے کی ترنگوں کے ساتھ لطائف کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑے کہ ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ عالمِ سرور میں ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں جذبی نے ترنم سے غزلیں بھی سنائیں۔ ترنم سے غزلیں سنتے وقت بار بار مجھے ایک واقعہ یاد آتارہا: کسی محفل میں یونی ورسٹی کے ایک استاد نے جذبی سے ترنم کی فرمائش کر دی۔ جسے سن کر جذبی چراغ پا ہوگئے اور غصّے میں ایسا دیپک راگ الاپنا شروع کیا کہ لیکچرر صاحب کو اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا۔ وہ تو بھلا ہو اس محفل میں موجود کچھ نبض شناس سینئر استادوں کا کہ جنھوں نے انگلیوں میں دبے سگار کو ماچس کی تیلی دکھا دکھا کر جذبی کی حالتِ جذب کو ٹھنڈا کیا ورنہ تو اس جونیئر استاد کا اس دن خدا ہی حافظ تھا۔

    اس واقعہ کے ساتھ ساتھ میں جذبی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایک طرف تو جذبی کسی استاد کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب بغیر کسی فرمائش کے طلبہ کو ترنم سے غزل سناتے ہیں۔ جذبی کی شخصیت کا یہ تضاد پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آیا، ہاں اتنا ضرور محسوس ہوا کہ جذبی طریقتِ شعر و سخن کے مجذوب تھے۔ مجذوب جو صرف من کی سنتا ہے۔ من کہتا ہے تو اللہ ھو کا نعرۂ مستانہ بھی لگاتا ہے اور من نہیں کہتا ہے تو بس ہُو کا عالم لیتا ہے۔

    اس ملا قات کے دوران جذبی کے جذب و مستی کے کئی اور رنگ بھی دیکھنے کو ملے، غزل سنانے کے بعد شراب کا ایک لمبا گھونٹ بھر کر بولے غضنفر! کباب کے بغیر شراب پینا کیا ایسا نہیں لگتا جیسے غریب مزدور روکھی روٹی کھا رہے ہوں مگر ہم لوگ تو غریب ہیں نہیں، تو پھر یہ روکھی روٹی کیوں؟ جاؤ گھر والوں کو بولو کہ کباب دے جائیں۔

    میں محفل سے اٹھ کر جمال پاشا کے قلعہ نما محل کے دروازے کے پاس پہنچا اور آہستہ آہستہ دستک دینا شروع کیا۔ پانچ سات منٹ تک مسلسل دستک دینے کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو جذبی صاحب اٹھ کر خود بھی دروازے کے پاس آگئے اور بولے:

    ’’اس طرح ناک کرنے سے بڑے دروازے نہیں کھلتے، انھیں پیٹنا پڑتا ہے۔ یوں۔‘‘ اور وہ دھڑا دھڑ دروازے پر مُکّے مارنے لگے۔ دھڑدھڑ کی آواز پر واقعی دروازہ کھل گیا۔ ایک گھبرایا اور ہڑبڑایا ہوا خادم قسم کا آدمی باہر نکلا اور ہکلاتا ہوا بولا،

    ’’جی، فرمائیے۔‘‘

    ’’کباب لاؤ! کباب۔‘‘ میرے منہ کھولنے سے پہلے ہی جذبی صاحب بول پڑے‘‘

    کباب! وہ اس طرح چونکا جیسے کسی پکّے مسلمان سے شراب پلانے کی فرمائش کر دی گئی ہو۔‘‘

    ’’ہاں بھئی کباب؛ کہو تو ہجّے کر کے بتاؤں‘‘ جذبی صاحب کا لہجہ سخت ہوگیا۔

    ’’مگر کباب تو نہیں ہیں۔‘‘ قدرے سنبھلتے ہوئے اس خادم نما آدمی نے جواب دیا

    ’’کیا کہا؟ کباب نہیں ہیں؟ اتنی بڑی حویلی، وہ بھی ایک مسلمان رئیس کی اور کباب نہیں؟ نہیں نہیں، کباب ضرور ہو گا جا کر کچن میں دیکھو!‘‘ جذبی صاحب کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ اس شاندار حویلی میں کباب نہیں ہوں گے۔

    وہ آدمی چپ رہا۔

    ’’کیا اس حویلی میں کچن نہیں ہے؟‘‘

    کچن کیوں نہیں ہوگا صاحب!‘‘

    تو پھر جاتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’بات یہ ہے صاحب۔۔۔‘‘

    ’’ہم کچھ سننے والے نہیں، تم جاؤ اور فوراً کباب لاؤ۔ ہمارے منہ کا مزہ بگڑا جا رہا ہے جاؤ! منہ کیا تاک رہے ہو؟‘‘جذبی صاحب نے اسے بولنے نہیں دیا۔

    اس خادم یا خادم نما آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے عزّت دار مالک کے اس معزز مہمان سے کس طرح نمٹے کہ قدرت کو اس کی حالت پر ترس آگیا اور اس نے اس کی مدد کے لیے خود مالک کو بھیج دیا۔ عین اسی وقت احمد جمال پاشا اپنی موٹر سے آدھمکے۔ شاید ہمیں وہ لینے آئے تھے۔ موٹر سے اتر کر سیدھے دروازے کے پاس آگئے۔ غالباً انھوں نے ہمیں دور ہی سے دیکھ لیا تھا۔ پاس آکر گھبراہٹ کے لہجے میں بولے:

    ’’سر! آپ یہاں؟‘‘

    ’’ارے بھائی! تمھارے اس خادم سے کب سے کباب لانے کو کہہ رہے ہیں مگر یہ ہے کہ۔۔۔

    ’’سر! آج کھانے کا انتظام کالج میں کیا گیا ہے نا، اس لیے یہاں کے تمام باورچی ادھر لگے ہوئے ہیں۔‘‘ جمال پاشا نے صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

    ’’باورچی ہی تو گئے ہیں کچن اٹھ کر تو نہیں چلاگیا!‘‘ جذبی صاحب نے صورتِ حال کو پھر سے بے قابو کر دیا۔

    ’’دراصل کئی دنوں سے کالج فنکشن میں مصروف ہونے…

    ’’رہنے دو، رہنے دو، میں سب سمجھ گیا۔ پاشا تم کیسے مسلمان ہو کہ گھر میں کباب تک نہیں رکھتے۔ لگتا ہے یہاں آ کر تم بھی بہاری ہوگئے ہو۔‘‘

    ’’بہاری ہی نہیں سر!میں تو شدھ شاکا ہاری بھی ہوگیا ہوں، مانسا ہاری۔۔۔ بیماریوں نے جسم و جان کو دبوچ جو رکھا ہے۔ جلد تشریف لے چلیے، شامی، سیخ اور بہاری تینوں وہاں آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’پاشا! میں مان گیا کہ تم واقعی مزاح نگار ہو۔ اپنے گھر کی عریانیت پر تم نے کتنا خوب صورت اور دبیز پردہ ڈال دیا، چلو میں نے تمھیں معاف کیا۔‘‘

    مصنّف نے اپنے اس مضمون کا عنوان ‘دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں’ رکھا ہے جو معین احسن جذبی کی اس مشہور غزل سے مستعار لیا گیا ہے‌۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
    یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

    جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
    اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

    جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
    جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

    دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
    دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

  • "یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے؟”

    "یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے؟”

    اردو ادب میں کئی سنجیدہ تخلیق کار اور بڑے نام ایسے بھی ہیں‌ جو اپنی برجستہ گوئی، بذلہ سنجی اور شوخی و ظرافت کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان سے منسوب کئی لطائف بھی ہمیں سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    بھارت کے معروف ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے خاکوں پر مبنی اپنی کتاب ‘سو ہے وہ بھی آدمی’ میں ایسا ہی ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی ایک بڑے افسانہ نگار، ڈراما نویس اور فلمی ہدایت کار گزرے ہیں‌ جب کہ بشیر بدر اردو کے مشہور شاعر ہیں۔ مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں:

    راجندر سنگھ بیدی کی باتیں بہت دل چسپ اور بے ساختہ ہوتی تھیں۔ ایک بار دہلی کی ایک محفل میں بشیر بدر کو کلام سنانے کے لیے بلایا گیا تو بیدی صاحب نے جو میرے برابر بیٹھے تھے۔ اچانک میرے کان میں کہا۔

    ” یار! ہم نے در بدر، ملک بدر اور شہر بدر تو سنا تھا یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے؟”

  • پنڈت اخترؔ کی جوش پر برجستہ چوٹ

    پنڈت اخترؔ کی جوش پر برجستہ چوٹ

    اردو ادب کے کئی مشاہیر، معروف شخصیات اور باذوق لوگوں سے منسوب اور ان کے متعلق لطائف بھی ہم نے سنے اور پڑھے ہیں اور یہ زبان کی تفہیم، تعلیم و تدریس میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اکثر یہ زبان کی درستی اور نزاکتوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

    پنڈت ہری چند اخترؔ ایک شاعر اور صحافی تھے جن کی شوخ طبیعت نے بہت سے لطائف کو جنم دیا۔ ان کا ایک مشہور لطیفہ ملاحظہ کیجیے:

    ایک دن پنڈت صاحب، اپنے دوست اور نام ور شاعر جوش ؔملیح آبادی سے ملنے گئے اور رسماً ان الفاظ میں‌ خیریت دریافت کی، ’’جناب کے مزاج کیسے ہیں؟‘‘

    جوشؔ صاحب نے اپنی عادت کے عین مطابق اُن کی زبان کی گرفت کی۔ کہنے لگے: ’’پنڈت صاحب! آپ غلط اردو بول رہے ہیں۔ مزاج تو ایک ہی ہوتا ہے، میرا تو ایک ہی مزاج ہے۔‘‘

    چند روز بعد ان دونوں کی پھر ملاقات ہوئی۔ جوشؔ نے پنڈت صاحب سے کہا،’’ابھی ابھی جنگ ناتھ آزادؔ کے والد تشریف لائے تھے۔‘‘

    یہ سنتے ہی پنڈت اخترؔ نے برجستہ چوٹ کی:’’کتنے؟‘‘

  • ’’غزل پر تو الزام نہ لگائیے!‘‘

    ’’غزل پر تو الزام نہ لگائیے!‘‘

    شاعری، ناشاعری کی بحث کے ساتھ متشاعر بھی اردو کے اُن شعراء کے لیے ہمیشہ مسئلہ رہے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ:

    خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
    تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت

    لیکن متشاعروں کو اس سے کیا وہ اپنے دل کو تو کیا لہو کرتے ہیں، بڑے بڑے مشاعروں میں شرکت کے لیے بھی انھیں پسینہ نہیں بہانا پڑتا اور ان کا نام شعراء کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ ادبی دنیا کے لطائف، شعراء سے متعلق دل چسپ واقعات اور تذکروں‌ میں ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر سے منسوب ایک ایسا ہی واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    1975ء کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں ایک نوجوان شاعرہ نے اپنے حسن اور ترنم کے طفیل شرکت کا موقع حاصل کر لیا تھا۔ جب موصوفہ نے غزل پڑھی تو سارے سامعین جھوم اٹھے۔ غزل بھی اچھی تھی۔ لیکن نادانستگی میں اس شاعرہ سے زیر، زبر اور پیش کی کئی غلطیاں سرزد ہوئیں تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحر تاڑ گئے کہ غزل کسی اور کی ہے۔

    غزل سنانے کے بعد جب موصوفہ اپنی نشست پر واپس آکر جلوہ گر ہوئیں تو ایک مداح شاعر نے ان سے کہا،’’محترمہ آپ کے کلام نے واقعی مشاعرہ لوٹ لیا۔‘‘

    اس پر سحرصاحب خاموش نہ رہ سکے، برجستہ تصحیح فرمائی، ’’یوں کہیے برخوردار کہ محترمہ نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ بیچاری غزل پر تو الزام نہ لگائیے۔‘‘

    یہ سن کر مداح اور شاعر دونوں زبردستی کی ہنسی ہنس کر چپ ہوگئے۔

  • سحرؔ کی شگفتہ مزاجی

    سحرؔ کی شگفتہ مزاجی

    ہندوستان میں اردو شاعری کا ایک معتبر نام کنور مہندر سنگھ بیدی کا تھا جو بھارت اور پاکستان میں بھی مشاعروں میں شرکت کرتے رہے اور باذوق سامعین سے اپنے کلام پر داد سمیٹی۔ سحرؔ ان کا تخلّص تھا۔ ان کی ظرافت اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے۔ سحرؔ محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر جانتے تھے۔

    کنور مہندر سنگھ بیدی متخلص بہ سحرؔ کے کئی شگفتہ اور شوخ فقرے اور وہ واقعات بھی ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں جو ان کی بذلہ سنجی اور خوش مزاجی کا ثبوت ہیں‌۔ ایسے ہی دو قصّے ہم یہاں نقل کررہے ہیں ملاحظہ کیجیے۔

    جن دنوں جوش ملیح آبادی ماہنامہ’’آج کل‘‘ کے مدیرِ اعلٰی تھے، ان کے دفتر میں اکثر شاعروں ادیبوں اور مداحوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ پنڈت ہری چند اختر عرش ملسیانی، بسمل سعیدی ٹونکی، جگن ناتھ آزاد اور مانی جائسی جوش صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہورہی تھیں کہ پنڈت جی نے بیدی صاحب کو پنجابی زبان میں مخاطب کیا۔ جوش صاحب نے فوراً ٹوک کر کہا کہ پنڈت جی یہ تو جہنم کی زبان ہے۔

    بیدی صاحب نے فوراً گزارش کی، جوش صاحب! آپ ابھی سے یہ زبان سیکھنا شروع کر دیں تاکہ آپ کو آخری جائے قیام میں تکلیف نہ ہو۔‘‘

    ایک اور موقع پر جب گوپی ناتھ امن کے فرزند کی شادی تھی۔ انہوں نے دہلی کے دوست شعراء کو بھی مدعو کیا۔ ان میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی شریک تھے۔ ہر شاعر نے سہرا یا دعائیہ قطعہ یا رباعی سنائی۔ امن صاحب نے بیدی صاحب سے درخواست کی کہ آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیے تو بیدی صاحب نے فی البدیہ یہ شعر سنا دیا۔

    جنابِ امن کے لختِ جگر کی شادی ہے
    مگر غریب کو کس جرم کی سزا دی ہے

  • جوش ملیح آبادی اور بچپن!

    جوش ملیح آبادی اور بچپن!

    کہتے ہیں ایک بار بسمل سعیدی نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب آپ کے کلام میں سوز و گداز کی ذرا کمی نہ ہوتی تو آپ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔

    جوش ملیح آبادی نے کہا، ’’ہرگز نہیں، میرے یہاں سوز و گداز کی کمی ہرگز نہیں۔ لو یہ شعر سنو:‘‘

    میرے رونے کا جس میں قصّہ ہے
    عمر کا بہترین حصّہ ہے

    بسمل سعیدی نے قہقہہ لگا کر کہا، ’’واللہ جوش صاحب بچپن کے مضمون پر اس سے بہتر شعر میں نے نہیں سنا تھا۔‘‘

    (ممتاز نقّاد، فکشن نگار اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی کے افسانے لاہور کا ایک واقعہ سے اقتباس)

  • آپ کہاں جا رہی ہیں؟

    علامہ انور صابری ایک زمانے کے مقبول ترین شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ شاعرِ انقلاب ان کا لقب تھا، اور شاعری بھی بڑی انقلابی تھی۔

    تحریک آزادی کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ مشاعروں کی جان تھے۔ بڑے تن توش کے آدمی تھے۔ رنگ گہرا سانولا تھا۔ بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ ہم نے خود دیکھا بیٹھے بیٹھے بیس تیس شعر کہہ ڈالتے، سامنے پڑے ہوئے کسی بھی کاغذ پر لکھ کر وہیں چھوڑ کر اٹھ جاتے تھے۔ اس وجہ سے نہ جانے کتنا کلام ضائع ہو گیا۔

    انور صابری کے لطیفے بھی بہت مشہور ہیں۔

    ایک بار وہ پاکستان گئے ہوئے تھے۔ راولپنڈی کے مشاعرہ میں شرکت کے بعد تفریحاً بس سے مری جانے کی ٹھانی اور تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے۔ بس میں ان کے ساتھ والی نشست پر انہی کے سے جان جثہ کی ایک بزرگ خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔ انور صابری صاحب نے وقت گزاری کے لیے ان خاتون سے پوچھا: آپ کہاں جا رہی ہیں؟

    خاتون نے کہا: میں مری جا رہی ہوں۔ صابری صاحب خاموش بیٹھے رہے۔ اب ان خاتون نے پوچھا، اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں؟

    انور صابری صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا: میں مرا جا رہا ہوں!

    (علمی و ادبی شخصیات سے منسوب لطائف، از طارق غازی اور سلمان غازی)