Tag: ادبی لطائف

  • عینی آپا کا پرس

    قرۃُ العین حیدر اردو ادب میں اپنے فکشن اور افسانہ نگاری کے سبب ممتاز اور بالخصوص ایک ادیبہ کی حیثیت سے انھیں ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ کی وجہ سے پاک و ہند میں‌ پذیرائی ملی۔ ان کے تخلیقی جوہر نے تاریخ اور تہذیب کو شاہکار بنا دیا ہے

    یہاں ہم اس نام وَر ادیبہ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ان کی تعلیم لکھنؤ سے لے کر کیمرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سارا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے مزاج میں خود سری (DOGMATISM) تھی۔

    ’’بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہو جاتی تھیں۔ انٹرویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘(دہلی) کے دفتر میں وہ محوِ گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خوش کلامی کو بریک سا لگ گیا اور سخت ناراضی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔

    کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں، جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رخِ زیبا سنوارنے لگیں۔ تھوڑی سی لپ اسٹک بھی لگائی، تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا، اب تصویر کھینچیے۔‘‘

    (رؤف خیر، ماہ نامہ ایوانِ اردو 2008ء)

  • زبان اور اندازِ بیان

    زبان اور اندازِ بیان

    دنیا کی مختلف زبانیں‌ سیکھنے والوں کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ وہ اس کے قواعد، املا اور رسمُ‌ الخط سے واقف ہوجائیں‌ بلکہ کسی بھی زبان کو خوب خوب سیکھنے کے ساتھ اس کے مختلف لب و لہجوں اور مقامی لوگوں کے اندازِ بیاں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی غیرمقامی اور دور دراز کا رہنے والا سلیس اور بامحاورہ زبان بول اور اچھی طرح سمجھ سکے۔

    یہاں ہم ایک مشہور واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں جو ممتاز ادیب اور نقاد آل احمد سرور نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا۔

    ایک انگریز افسر نے اپنی ملازمت کے دوران کسی منشی سے فارسی اور اردو پڑھی۔ جاتے وقت ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیجیے تاکہ کوئی دوسرا افسر آئے تو اسے بھی پڑھا سکوں۔ چنانچہ ان انگریز افسر نے ایک سرٹیفکیٹ دیا جس میں ان (منشی) کی علمی قابلیت کی بڑی تعریف کی تھی۔ اس سرٹیفکیٹ کو لے کر یہ منشی جی نئے افسر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس نے پڑھ کر ان سے کہا کہ صاحب نے تمہاری بڑی تعریف کی ہے۔ تم بڑا قابل ہے۔ انہوں نے حسبِ دستور جواب دیا کہ یہ صاحب کی ذرّہ نوازی ہے، میں کس قابل ہوں۔

    انگریز افسر یہ سمجھا کہ منشی جی نے پرانے افسر کو دھوکہ دیا ہے اور حقیقت اب ظاہر کر دی ہے۔ اس نے اس پرانے افسر کو لکھا کہ منشی تو خود اپنی نالائقی کا اعتراف کرتا ہے۔ تم کیسے اس کی تعریف کرتے ہو۔ تب اسے یہ جواب ملا کہ وہ واقعی بہت قابل ہے۔ یہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا اندازِ بیان ہے۔

  • جب استادوں کے جھگڑے میں شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھالیں!

    جب استادوں کے جھگڑے میں شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھالیں!

    اردو ادب میں استادی شاگردی کی روایت بہت پرانی ہے۔

    پرانے زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ جس طرح کوئی شخص استاد کی جوتیاں سیدھی کیے بغیر بڑھئی یا لوہار نہیں بن سکتا، اسی طرح شاعر بننے کے لیے بھی کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنا ضروری ہے۔ گویا قلم گھسنا بھی رندہ پھیرنے اور ہتھوڑا چلانے جیسا کام تھا۔

    دلّی اور لکھنؤ میں ایک ایک استاد کے سیکڑوں شاگرد تھے، اور پھر فارغ الاصلاح شاگردوں کے بھی شاگرد ہوتے تھے جو اپنے استاد کے استاد کو دادا استاد کہتے تھے۔ اس طرح ہر شاعر کے دو شجرہ ہائے نسب ہوتے تھے جن میں سے ایک کا باپ سے اور دوسرے کا استاد سے تعلق ہوتا تھا۔ باپ والے شجرے کو کوئی نہیں پوچھتا تھا مگر استاد والے شجرۂ نسب کے بغیر مشاعرے میں شرکت کی اجازت نہیں ملتی تھی۔

    پرانے استادوں میں مصحفی استاذُ الااساتذہ تھے۔ ان کے شاگردوں، اور پھر شاگردوں کے شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جن دنوں وہ لکھنؤ میں مقیم تھے، اس شہر کے آدھے سے زیادہ شاعر انہی کے سلسلۂ سخن سے تعلق رکھتے تھے۔ شہر کے باقی شعرا انشاءُ اللہ خاں انشا کے شاگرد تھے۔ دونوں استادوں میں جب جھگڑا ہوا تو ان کے شاگردوں نے قلم کی جگہ تلواریں سنبھال لیں۔ بعض بااثر لوگوں کے دخل دینے سے بات آگے نہ بڑھی ورنہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک باب ”شہیدانِ سخن“ کے عنوان سے کہا جاتا جس میں ان شاعروں کے حالات درج ہوتے جو اس جھگڑے میں کام آتے۔

    پرانے زمانے میں بڑے بڑے نوابوں اور امیروں کو بھی شاعری کا شوق تھا کیونکہ اس زمانے میں بٹیر بازی اور مرغ بازی کی طرح شاعری بھی ایک تفریح کا درجہ رکھتی تھی۔ نواب اور امیر عموماً موزوں طبع نہیں ہوتے تھے، اس لیے کسی نامور شاعر کو صیغۂ شاعری میں ملازم رکھ لیتے تھے۔ یہ شاعر استاد کہلاتا تھا جس کا کام اپنے شاگرد یعنی آقائے ولی نعمت کے نام غزلیں لکھنا ہوتا تھا۔ بعض استاد نوکری نہیں کرتے تھے، کھلے بازار میں غزلیں بیچتے تھے۔

    مصحفی کے بارے میں مشہور ہے کہ جتنا کلام ان کے نام سے موجود ہے، اس سے کہیں زیادہ انہوں نے فروخت کر دیا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر میر سوز نے البتہ دانش مندی سے کام لیا۔ وہ ایک عرصہ تک فرخ آباد میں وہاں کے ایک بڑے عہدے دار مہربان خان رند کے پاس صیغۂ شاعری میں ملازم رہے۔ استاد اور شاگردوں کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں کے دیوانوں میں بہت سی غزلیں مشترک ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ سوز اپنے شاگرد کو جو غزل لکھ کر دیتے، اسے اپنے دیوان میں بھی درج کر لیتے تھے۔

    پرانے زمانے میں بڑا شاعر اسے نہیں سمجھا جاتا تھا جس کا کلام سب سے اچھا ہو، بلکہ اسے اچھا شاعر مانا جاتا تھا جس کے شاگردوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ اس سلسلے میں غالب کے شاگرد صفیر بلگرامی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے پاس ایک رجسٹر تھا جس میں وہ شاگردوں کے نام اور شاگرد ہونے کی تاریخ درج کرتے تھے۔ آخر آخر شاگرد بنانے کا شوق اتنا بڑھا کہ اگر کوئی ملاقات کے لیے آتا تھا تو اس کا نام بھی شاگردوں کے رجسٹر میں لکھ لیتے تھے۔ ان کے بیٹے کی شادی میں جتنے مہمان شریک ہوئے ان کے نام بھی انہوں نے اس رجسٹر میں درج کر لیے۔ اس طرح ایک دن میں سو سے زیادہ لوگوں نے ان کی شاگردی قبول کی۔

    (از قلم مشفق خواجہ)

  • گالیوں کا پٹارا

    گالیوں کا پٹارا

    نواب تاباںؔ بھی شاعر تھے، اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور فارسی میں بھی۔

    حکیم اجمل خاں کے ہاں شرفائے دہلی کا جمگھٹا رہتا تھا۔ حکیم صاحب بھی طرفہ خوبیوں کے آدمی تھے، یہ جتنے بڑے طبیب تھے اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے۔ ایک دفعہ شبلی نعمانی دلّی آئے تو حکیم صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب تاباںؔ کی تعریفِ غائبانہ بہت کچھ سن چکے تھے، ان سے ملنے کے خواہش مند ہوئے۔

    حکیم صاحب نے سوچا کہ نواب صاحب کو اگر یہاں بلایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس بات کا برا مان جائیں، لہٰذا ایک صاحب کے ساتھ شبلی کو ان کے گھر بھیج دیا۔ نواب صاحب نے بڑے تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا، عزت سے بٹھایا، خاطر تواضع کی۔

    شبلی کی فرمائش پر اپنی غزل سنانی شروع کی۔ شبلی بھی ذرا مدمغ آدمی تھے۔ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ تاباںؔ نے دیکھا کہ مولانا ہوں ہاں بھی نہیں کرتے تو چمک کر بولے، ’’ ہاں صاحب، یہ شعر غور طلب ہے۔‘‘ یہ کہہ کر غزل کا اگلا شعر سنایا۔

    مولانا نے اوپری دل سے کہا، ’’ سبحان اللہ! اچھا شعر کہا ہے آپ نے۔‘‘ بس پھر تاباںؔ آئیں تو جائیں کہاں؟ بولے، ’’ابے لنگڑے! میں نے تو یہ شعر تین دن میں کہا اور تُو نے ایک منٹ میں اسے سمجھ لیا؟ بیٹا، یہ شعرُ العجم نباشد!‘‘ اس کے بعد ان کا گالیوں کا پٹارا کھل گیا اور مولانا شبلی کو اپنا پنڈ چھڑانا مشکل ہو گیا۔ ویسے اپنی روز مرّہ کی زندگی میں تاباںؔ بڑے زندہ دل آدمی تھے اور دوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے۔ شطرنج کی انہیں دھت تھی اور چال بھی اچھی تھی۔ بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ہاں آتے رہتے تھے۔

    (اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے اقتباس)

  • جب محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی!

    جب محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی!

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔ انھوں نے اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے کوششوں میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بہت ساتھ دیا اور ان کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

    وہ بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    کیفی دہلوی ایک بار لکھنو گئے تو ان کی اعزاز میں محفل شعر و سخن سجائی گئی۔ حامد علی خان بیرسٹر ایٹ لاء شعر و سخن کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ وہ بھی محفل میں موجود تھے۔ ان سے کلام پیش کرنے کی فرمائش کی گئی تو کیفی دہلوی کے کان کے پاس جا کر یہ شعر کہا:

    اکہتر، بہتّر، تہتر، چوہتر
    پچھتر، چھہتر، ستتّر، اٹھتّر

    اس مذاق پر کیفی دہلوی نے خوش دلی سے داد دی۔ آخر میں جب کیفی صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو وہ بیرسٹر حامد علی خان کے قریب گئے اور یہ شعر سنایا :

    اکیاسی، بیاسی، تراسی، چوراسی
    پچاسی، چھیاسی، ستاسی، اٹھاسی

    شعرا اور سامعین نے یہ سنا تو خوب ہنسے۔ محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی اور اردو ادبی تذکروں میں‌ یہ لطیفہ زندہ رہ گیا۔

  • علّامہ اقبال اور پیارے صاحب رشید لکھنوی کا ایک دل چسپ واقعہ

    علّامہ اقبال اور پیارے صاحب رشید لکھنوی کا ایک دل چسپ واقعہ

    رفتگاں کی بات کی جائے تو جہانِ ادب کی نام وَر شخصیات اور مشاہیر نے آپس میں ملاقات کے دوران کسی علمی و ادبی موضوع پر گفتگو اور بحث کرتے ہوئے شائستگی اور احترام کو ملحوظ رکھا۔

    ایک زمانہ تھا جب کسی ہم عصر کے فن و تخلیق پر تبصرہ کیا جاتا تو تعریف اور سراہنے میں بخل سے کام نہیں لیا جاتا تھا، لیکن اسی طرح اصلاح و بہتری کی غرض سے تنقید بھی کی جاتی تھی۔ ایسی ہی مجلس میں اکثر احباب میں سے کوئی شوخی اور ظرافت پر آمادہ ہوجاتا تو محفل زعفران زار ہوجاتی۔

    ادبی تذکروں میں مشاہیر سے منسوب ایسے ہی مختلف دل چسپ واقعات اور لطائف بھی ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک واقعہ شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال سے منسوب ہے، جو اکثر نقل کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک مرتبہ علامہ اقبال تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنؤ گئے۔ اس سفر کے دوران انھیں اردو کے مشہور فکشن رائٹر سیّد سجّاد حیدر یلدرم کے ساتھ تانگے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔

    دونوں حضرات پیارے صاحب رشید لکھنوی کے گھر پہنچے۔ دورانِ گفتگو اقبال نے اپنی ایک مشہور غزل انھیں سنائی۔ اقبال کی اس غزل کو پیارے صاحب رشید بڑی خاموشی سے سنتے رہے اور کسی بھی شعر پر داد نہ دی۔ جب وہ اپنی پوری غزل سنا چکے تو پیارے صاحب نے فرمایا،

    ”اب کوئی غزل اردو میں بھی سنا دیجیے۔ ” اس واقعے کو علّامہ اقبال اپنے دوستوں میں ہنس ہنس کے بیان کرتے تھے۔

  • فحاشی پر سزا اور جرمانہ

    فحاشی پر سزا اور جرمانہ

    ایک دور میں ملک میں قلم کی آزادی طرح طرح کی پابندیوں اور مختلف بندشوں کے ساتھ سنسر شپ کی وجہ سے متاثر تھی۔

    ادیب، فلم ساز اور صحافی موضوعات کے چناؤ میں محتاط رہتے تھے۔ اس وقت علامتی افسانے اور کہانیاں لکھی جاتی تھیں جب کہ مضمون نگار مخصوص طبقات کی ناراضی اور برہمی اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی ادبی قصّہ آپ کی نذر کررہے ہیں‌ جس کا تعلق آزادیِ اظہار سے ہے اور اس کے نتیجے میں‌ اردو زبان و ادب کی دو مشہور شخصیات کو قید و جرمانہ ہوا۔

    علم و ادب کا شوق رکھنے والے قارئین ابراہیم جلیس کے نام سے ضرور واقف ہوں گے جو پاکستان کے مشہور ادیب اور صحافی تھے۔ ان کا قلم طنز و مزاح خوب لکھتا تھا، وہ اپنے فکاہیہ مضامین اور کالم کے ذریعے مختلف معاشرتی مسائل اور سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے رہتے تھے۔ ابراہیم جلیس کے ایک قلم کار دوست اور افسانہ نگار کا نام رفیق چوہدری تھا۔

    رفیق چوہدری نے اپنے افسانوں کو کتابی شکل میں شایع کروانے کا فیصلہ کیا اور جب انتخاب اور ترتیب و تدوین کے مراحل طے پاگئے تو انھوں نے ابراہیم جلیس سے دیباچہ لکھنے کو کہا۔

    اس افسانوی مجموعہ کا نام ’’محبتوں کے چراغ‘‘ تھا جو ابراہیم جلیس کی تحریر (دیباچہ) کے ساتھ شایع ہوگیا، لیکن اشاعت کے بعد معلوم ہوا کہ مصنّف کی کہانیاں بے حیائی اور فحاشی کے فروغ کا سبب بنی ہیں اور دیباچہ لکھنے والے نے گویا مصنّف کا ساتھ نبھایا ہے اور یوں وہ بھی لائقِ‌ گرفتِ قانون ہے۔

    افسانہ نگار اور دیباچہ نویس دونوں کو سرکارِ وقت نے فحاشی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ ان پر مقدّمہ چلا اور تین ماہ قید اور تین ہزار جرمانہ کی سزا سنائی دی گئی۔ مشہور ہے کہ اس واقعہ کے بعد ابراہیم جلیس نے چوہدری رفیق سے کہا:

    ’’اب تم ناول لکھنا بند کر دو اور میں تمھاری کہانیوں کے دیباچے لکھنا تا کہ دوبارہ یہ دن نہ دیکھنا پڑے۔‘‘

  • "تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں” (ادبی لطائف)

    "تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں” (ادبی لطائف)

    وہ (عبدالمجید سالک) قلم اور زبان دونوں کے حاتم تھے، جس محفل میں بیٹھتے، پھبتیوں کی جھاڑ باندھتے اور لطیفوں کا انبار لگاتے۔

    ایک محفل میں اختر علی خاں (اللہ انہیں بخشے) کے لاابالی پن کا ذکر ہو رہا تھا کہ وہ شہید گنج میں کوئی دستاویز اٹھاکر ماسٹر تارا سنگھ کو دے آئے تھے۔

    سالک صاحب نے تبسم فرمایا اور کہا، چھوڑ یار، اختر علی خاں بھی تو تارا سنگھ ہی کا ترجمہ ہے۔

    کلیم صاحب ملٹری اکاؤنٹس میں غالباً ڈپٹی اکاؤنٹینٹ جنرل یا اس سے بھی کسی بڑے عہدے پر فائز تھے۔ انھیں شعر و سخن سے ایک گونہ لگاؤ تھا، اکثر مشاعرے رچاتے۔ ایک مشاعرہ میں سالک صاحب بھی شریک تھے۔ کسی نے ان سے کلیم صاحب کے بیٹے کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔

    آپ کلیم صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ رگِ ظرافت پھڑک اٹھی فرمایا۔

    تو یہ کہیے آپ ضربِ کلیم ہیں۔

    غرض ان کا سینہ اس قسم کے لطائفُ الادب کا خزینہ تھا، جس محفل میں ہوتے چھا جاتے۔ برجستہ گوئی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی، شگفتہ مزاجی، شعر فہمی، نکتہ آفرینی، یہ سب گویا ان کے خانہ زاد تھے۔ طبیعت میں آمد ہی رہتی، آورد کا ان کے ہاں گزر ہی نہیں تھا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب و شاعر عبدالمجید سالک کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کے حوالے سے یہ واقعات نام ور شاعر، ادیب اور صحافی شورش کاشمیری نے اپنے مضمون میں رقم کیے ہیں)

  • بُوئے کباب، بلبل کا دل اور جگرؔ

    بُوئے کباب، بلبل کا دل اور جگرؔ

    کسی مشاعرے میں ایک استاد اٹھے اور انھوں نے طرح کا ایک مصرع دیا۔

    ’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘

    بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی، لیکن کوئی کمال گرہ نہ لگا سکا۔ ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھالی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس کا طریقہ انھوں نے یہ نکالا کہ ہر صبح دریا کے کنارے چلے جاتے اور وہاں بیٹھ کر اونچی آواز سے الاپتے،’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب‘‘

    ایک روز وہ دریا کنارے اسی مصرع میں الجھے ہوئے بیٹھے تھے۔ قریب سے ایک نوعمر لڑکا گزر رہا تھا جس کے کان میں یہ مصرع پڑا۔ اس لڑکے نے فوراً گرہ لگائی:

    ’’کسی بلبل کا دل جلا ہوگا‘‘

    شاعر نے پلٹ کر دیکھا اور ان سے رہا نہ گیا، دوڑے اور اس لڑکے کو سینے سے لگالیا۔ معلوم ہوا اس کا نام علی سکندر ہے۔ یہی لڑکا بعد میں جہانِ سخن میں اپنے تخلّص، جگر سے مشہور ہوا۔ جگر نے اپنے تخلّص میں آبائی علاقے کی نسبت مراد آبادی کا اضافہ کیا اور جگر مراد آبادی کے نام سے استاد شاعر مشہور ہوئے۔

    (ادیبوں اور شعرا کے مشہور لطائف اور تذکروں سے انتخاب)

  • مہمان کی تواضع

    مہمان کی تواضع

    قتیل شفائی نے ایم۔ اسلم سے اپنی اوّلین ملاقات کااحوال بیان کرتے ہوئے کہا۔

    ’’کتنی عجیب بات ہے کہ میں اسلم صاحب کی کوٹھی میں ان سے ملنے گیا لیکن اس کے باوجود ان کا تازہ افسانہ سننے سے بال بال بچ گیا۔‘‘

    ’’یہ ناممکن ہے …!‘‘ احباب میں سے ایک نے بات کاٹتے ہوئے فوراً تردید کر دی۔

    ’’سنیے تو۔‘‘ قتیل نے مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

    ’’ہوا یوں کہ انتہائی خاطر و مدارات کے بعد جب اسلم صاحب اپنا افسانہ سنانے کے موڈ میں آنے لگے تو انہوں نے کہا… ’’قتیل صاحب! آپ کی کچھ نظمیں میری نظر سے گزری ہیں ۔آپ تو خاصے مقبول شاعر ہیں، مگر نہ جانے عام لوگ ہر ترقی پسند شاعر کے بارے میں کیوں بدگمانی کا شکار ہیں۔‘‘ اور اسلم صاحب کی اس بات کے جواب میں نہایت انکساری سے کام لیتے ہوئے میں نے کہا:

    ’’جی ہاں واقعی عام لوگ بہت غلط فہمیاں پیدا کردیتے ہیں۔ دیکھیے نا، اب آپ کے بارے میں بھی یوں تو یہی مشہور ہے کہ آپ ہر نو وارد مہمان کی تواضع کرنے کے بعد اپنا کوئی نیا افسانہ ضرور سناتے ہیں، حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘

    (اردو کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کی اپنے زمانے کے مشہور و معروف ناول اور افسانہ نگار ایم اسلم سے متعلق شگفتہ بیانی)