Tag: ادبی لطائف

  • اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں کیا فتنہ گرِ قد و گیسو تھی۔ پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ initiative ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریقِ مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔

    یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر سے ہی آیا: "تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟” اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ "تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد؟” لیکن سچّی بات یہ ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

    ” جی ہاں، نیا تو ہوں، ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں۔”

    "اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟”

    "یہی کہ عارضی ہوں۔”

    "تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں۔” رضیہ کا اشارہ دیوانِ غالب کی طرف تھا۔ میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا: "آپ دیوانِ غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟”

    "جی ہاں! اور خود غالب کو بھی۔”

    "میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پر یہ عتاب کیوں؟”

    "آپ ذرا آسان اردو بولیے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟”

    "عتاب غصّے کو کہتے ہیں۔”

    "غصّہ؟ ہاں غصّہ اس لیے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے پورا دیوان کیوں لکھ مارا؟”

    "اس لیے کہ لوگ پڑھ کر لذّت اور سرور حاصل کریں۔”

    "نہیں جناب۔ اس لیے کہ ہر سال سیکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں۔”

    "محترمہ۔ میری دل چسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمائیے آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟” جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی، لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

    میں نے کہا، "یہ تو بڑی لاجواب غزل ہے، ذرا پڑھیے تو۔”

    "میرا خیال ہے آپ ہی پڑھیں۔ میرے پڑھنے سے اس کی لاجوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے۔” مجھے محسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ صاحبہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔

    میں نے کہا، "میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہوگا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔”

    رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچّہ پڑھتا ہے۔

    ” یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل۔۔۔۔” میں نے ٹوک کر کہا۔

    "یہ وصل نہیں وصال ہے، وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔”

    رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔

    رضیہ بولی: "اچھا۔ وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟”

    "وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پھر مصرع پڑھیں۔” رضیہ نے دوبارہ مصرع پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

    "وصال یار نہیں وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔”

    "اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟”

    "یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آرہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔”

    "تو سیدھا سادہ وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟”

    "اس لیے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔” یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

    علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟”

    "علما کا تعلق وصال سے نہیں زیر سے ہے۔”

    "اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟”

    "شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔”

    "قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے، مطلب یہ کہ بے چارے کو وصال نصیب نہ ہوا۔”

    "جی ہاں کچھ ایسی ہی بات تھی۔”

    "کیا وجہ؟”

    "میں کیا کہہ سکتا ہوں؟”

    "کیوں نہیں کہہ سکتے۔ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔”

    "شاعر خود خاموش ہے۔”

    "تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی مگر یہ خوش خبری سنادی کہ وصال میں فیل ہوگئے؟”

    ” جی ہاں فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔” رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    میں نے رضیہ کی دل جوئی کے لیے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا، "شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔”

    "اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنیٰ بتا دیں۔” ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا۔

    "مطلب صاف ہے، غالب کہتا ہے قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔”

    ” توبہ اللہ، اتنا Lack of confidence، یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھےِ؟”

    گئے گزرے؟ نہیں تو۔۔۔غالب ایک عظیم شاعر تھے۔”

    "شاعر تو جیسے تھے، سو تھے لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے”

    (ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان کے قلم سے)

  • مشاعرے کے منتظم کو شاعرِ مزدور کا جواب

    مشاعرے کے منتظم کو شاعرِ مزدور کا جواب

    احسان دانش اردو زبان کے مقبول شاعر تھے جنھوں نے معاش کی سختیوں‌ اور زندگی کی تلخیوں‌ کو اپنے کلام میں یوں‌ سمویا کہ وہ ہر خاص و عام کے قریب ہوگئے۔ ان کے تجربات اور مشاہدات اصنافِ سخن کے جس سانچے میں‌ ڈھلے مقبول ہوئے۔

    احسان دانش مڈل پاس تھے اور ساری زندگی معمولی نوکری اور مزدوری کرتے گزری۔ کبھی چوکیداری کی تو کہیں‌ مالی رہے، کسی کا بوجھ ڈھو کر روٹی کا انتظام کیا تو کبھی صفائی ستھرائی کا کام کرلیا۔ اسی لیے انھیں‌ "شاعرِ مزدور” بھی کہا جاتا ہے۔

    مختلف ادبی تذکروں‌ میں‌ اس نام وَر شاعر کے حالات اور ان کی زندگی کے مختلف واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں‌ سے ایک دل چسپ واقعہ ہم آپ کے مطالعے کے لیے یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    مشہور ہے کہ کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم ایک مشاعرہ کررہے ہیں، اس میں شامل ہوکر ممنون فرمائیے۔

    احسان نے دریافت کیا، ’’معاوضہ کتنا ملے گا؟‘‘

    منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شمولیت فرماکر کم ترین کو شکر گزار فرمائیں۔‘‘

    احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچوں کا پیٹ بھرسکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

    احسان دانش کے اس جواب نے یقینا منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔

  • کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے؟

    کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے؟

    اسد اللہ خاں جنھیں دنیا مرزا غالب کے نام سے جانتی ہے، ان کی نکتہ آفرینی ہی نہیں شوخی، ظرافت اور مزاح بھی مشہور ہے۔ اردو کے نام ور ادیبوں، تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں نے مرزا غالب کی ظرافت سے متعلق متعدد واقعات اور ادبی لطائف نقل اور بیان کیے ہیں۔

    مشہور ہے کہ مرزا غالب کی بیگم ان کی مے نوشی سے سخت بیزار اور پریشان رہتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ انھیں نماز نہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے پر بھی ٹوکتی تھیں اور مرزا ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتے یا اپنی حسِّ مزاح سے کام لیتے اور ایسی بات کردیتے کہ کوئی بھی ہار مان کر چپ ہوجانے میں ہی اپنی عافیت جانتا۔

    مرزا غالب ؔ کی کوئی اولاد بھی بچپن نہ دیکھ سکی جس کا ان کی زوجہ کوسخت صدمہ اور قلق تھا اور وہ آزردہ خاطر رہتیں۔ غالبؔ ایک دردمند اور حساس طبع انسان ہونے کے ناتے ان کا یہ دکھ خوب سمجھتے تھے، اس لیے وہ ان کی دل دہی اور انھیں بہلانے کی خاطر اکثر ان سے متعلق شگفتہ بیانی اور مزاح سے کام لیتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ادبی تذکروں یوں بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ ڈاکٹر محمد عطااللہ خان کی تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہے۔

    ایک دفعہ غالب مکان بدلنا چاہتے تھے۔ ایک مکان آپ خود دیکھ کر آئے۔ اس کا دیوان خانہ پسند آگیا، مگر محل سرا نہ دیکھ سکے۔ گھر پر آکر اس کو دیکھنے کے لیے بیوی کو بھیجا۔ وہ دیکھ کر آئیں تو غالبؔ نے بیوی سے پوچھا۔

    ”مکان پسند آیا یا نہیں؟“ انھوں نے کہا کہ اس میں بلئیات ہیں۔

    مرزا غالب نے کہا ”کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے۔“

  • "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران جہاں اس خطے کے عام باسیوں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو انگریزی زبان سمجھنے اور گوروں کے ساتھ بات چیت میں دشواری پیش آتی تھی، اسی طرح انگریزوں کو بھی براہ راست عوام سے رابطے میں زبان ہی رکاوٹ تھی۔

    بعض انگریز صوبے دار اور بڑے عہدوں پر فائز افسران مقامی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہوئے۔ کچھ نے سرکاری ضرورت کے تحت اور بعض نے ذاتی خواہش اور دل چسپی سے فارسی سیکھنے کے لیے اتالیق کی مدد لی۔ تاہم عام بول چال اور بات تھی، مگر بامحاورہ اور شاعرانہ گفتگو ہضم کرنا آسان تو نہ تھا۔ اسی سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ پڑھیے۔

    مشہور ادیب آغا حشر کاشمیری کے ایک شناسا خاصے باذوق، صاحبِ علم اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ کہتے ہیں ایرانی بھی ان کی فارسی دانی کو تسلیم کرتے تھے، لیکن ان دنوں مولوی صاحب روزگار سے محروم تھے اور معاشی مسائل جھیل رہے تھے۔

    آغا حشر ان کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح مولوی صاحب کی ملازمت ہوجائے۔ ایک روز کسی نے آغا صاحب کو بتایاکہ ایک انگریز افسر فارسی سیکھنا چاہتا ہے اور کسی اچھے اتالیق کی تلاش میں ہے۔

    آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز افسر کے ہاں بھجوا دیا۔

    صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔

    "ویل مولوی صاحب ہم کو معلوم ہوا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔”

    مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ "حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔”

    صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب سے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں اور نہایت احترام سے رخصت کر دیا، لیکن جس رئیس نے انھیں بھیجا تھا، اس سے شکایت یہ کی کہ بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کے لیے میرے پاس کیوں بھیجا جو اس زبان کا ایک لفظ تک نہیں جانتا۔

  • پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    ہندوستان میں آزادی کی تحریک، مسلمانوں کی فکری راہ نمائی اور تربیت کے ساتھ اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کے حوالے سے جن شخصیات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان میں سے ایک مولانا ظفرعلی خان بھی ہیں۔

    صحافت کی دنیا میں ان کی خدمات اور ادبی کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ وہ ایک ادیب، شاعر اور جید صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ مولانا کی علمی و صحافتی خدمات اور کارناموں سے متعلق تذکروں میں ان کی زندگی اور معمولات سے متعلق یادیں بھی محفوظ ہیں۔ وہ برجستہ گو اور نکتہ آفریں ہی نہیں بذلہ سنج اور طباع بھی تھے۔ ان سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    ایک محفل میں مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان اکٹھے تھے۔ مولانا آزاد کو پیاس محسوس ہوئی، انھوں نے اس کا اظہار کیا تو ایک بزرگ جلدی سے پانی کا پیالہ لے آئے۔ مولانا آزاد نے مسکرا کر کہا:

    لے کے اک پیرِ مُغاں ہاتھ میں مینا، آیا

    مولانا ظفر علی خان جو ان کے ساتھ ہی موجود تھے، یہ سنا تو برجستہ دوسرا مصرع کہا اور شعر مکمل کر دیا:

    مے کشو! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا

  • دِلَدّر   دُور  ہو گئے!

    دِلَدّر دُور ہو گئے!

    مولانا سید مودودی کی شخصیت اور ان کے کارنامے کسی سند یا تعارف کے محتاج نہیں۔

    ان کے مختلف مضامین، خطوط، عربی سے اردو تراجم ان کی زبان و بیان پر گرفت اور وسیع مطالعہ کا ثبوت ہیں۔

    ادبی تذکروں میں مولانا مودودی اور مشہور شاعر ماہر القادری سے متعلق ایک واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اس واقعے کا لطف اٹھانے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ لفظ دِلدّر کیا ہے؟

    اس کا مطلب افلاس، تنگ دستی ہے اور اکثر یہ لفط نحوست کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

    یہ لفط سنسکرت زبان سے ماخوذ اور اسم ہے۔ اسے اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال کیا گیا ہے۔

    ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ محاورے کے طور پر ہمارے ہاں بولا جاتا ہے، لیکن سید مودودی نے اسے ’’دِلَدّر پار ہو گئے‘‘ لکھا ہے۔

    ایک بار ماہر القادری نے مولانا مودودی کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ حضرت لغت میں تو اسے ’’دِلَدّر دور ہونا‘‘ لکھا گیا ہے، مگر آپ نے اس طرح برتا ہے۔ اس پر مولانا نے اطمینان سے جواب دیا،

    ’’لغت میں تصحیح کر لیں۔‘‘

  • چائے میں چینی اور کیمرے سے تصویر!

    چائے میں چینی اور کیمرے سے تصویر!

    جگن ناتھ آزاد کو ادبی دنیا ایک خوب صورت شاعر اور نثر نگار کے ساتھ ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے جانتی ہے۔ ان سے متعلق دو شگفتہ واقعات آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہیں۔

    ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد اٹلانٹا گئے جہاں ایک جاننے والے نے انھیں اپنے گھر دعوت پر بلالیا۔

    میزبان نے گپ شپ کے دوران ان کی طرف چائے بڑھانے سے پہلے پوچھا کہ آزاد صاحب چینی کتنی لیں گے؟

    انھوں نے جواب دیا: ’’اپنے گھر تو ایک ہی چمچ لیتا ہوں، لیکن باہر چائے پینے پر دو، تین چمچ سے کم چینی نہیں لیتا۔‘‘

    یہ سن کر میزبان نے چائے کی پیالی میں ایک چمچ چینی ڈالی اور ان کی طرف بڑھاتے ہوئے ظرافت سے کہا:

    ’’آزاد صاحب! اسے اپنا ہی گھر سمجھیے۔‘‘

    اسی طرح یہ واقعہ بھی ادبی دنیا میں بہت مشہور ہے کہ اٹلانٹا ہی میں جگن ناتھ آزاد، محسن بھوپالی اور حمایت علی شاعر ایک روز اسٹون فائونڈیشن دیکھنے نکلے، اور جب حمایت علی شاعر وہاں کی سیر کے وہ لمحات کیمرے میں قید کرنے لگے تو کچھ سوچ کر اپنے ساتھیوں سے بولے۔

    کیمرہ تصویر تو لے لے گا، لیکن ہے ذرا پرانا۔

    آزاد نے اس پر برجستہ کہا:

    ’’ہمیں کون سا خریدنا ہے۔‘‘

  • خوش گمانی…..

    خوش گمانی…..

    ایک دفعہ حبیب کنتوری صاحب کے ہاں نشست تھی جس میں مرزا داغؔ بھی شریک تھے۔

    کنتوری صاحب نے غزل پڑھی جس کی زمین تھی ’’سفر سے پہلے، ہجر سے پہلے۔‘‘ انھوں نے ایک شعر جس میں ’سفر‘ کا قافیہ باندھا تھا، بہت زور دے کر اسے پڑھا اور فرمایا کہ ’’کوئی دوسرا اگر ایسا شعر نکالے تو خون تھوکنے لگے۔‘‘

    استاد داغ دہلوی یہ سن کر مسکرائے اور بولے:

    ’’ہم تو اس زمین پر تھوکتے بھی نہیں۔‘‘ اس جملے پر حاضرین میں ہنسی دوڑ گئی اور کنتوری صاحب کو خفت محسوس ہوئی۔

  • "انجیروں” کو اگر "انجینئروں” لکھ دیا تو کیا غلط کیا؟

    "انجیروں” کو اگر "انجینئروں” لکھ دیا تو کیا غلط کیا؟

    پہلے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ایک دن جھنجھلا کر کاتب بن گئے۔

    آپ کی تحریر پر پِروئے ہوئے موتیوں کا گماں گزرتا ہے۔ زبان کے پکے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو اسی سال کام مکمل کر کے رہتے ہیں۔

    لکھتے وقت موقعے (اور اپنے موڈ کے مطابق) عبارت میں ترمیم کرتے جاتے ہیں۔

    عالمِ دلسوزی کو عالمِ ڈلہوزی، بِچھڑا عاشق کو بَچھڑا عاشق، سہروردی کو سر دردی، سماجی بہبودی کو سماجی بیہودگی، وادیٔ نیل کو وادیٔ بیل بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔

    کسی غلام حسن کے نواسے نے اپنے آپ کو نبیرہ غلام حسن لکھا جو آپ کو نامانوس سا معلوم ہوا۔ چناں چہ آپ نے کچھ دیر سوچ کر اسے بٹیرہ غلام حسن تحریر فرمایا۔

    ایک رومانی افسانے میں حور شمائل نازنین کو چور شمائل نازنین لکھ کر کہانی کو چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح قہقہے کو قمقمے، موٹے موٹے انجیروں کو موٹے موٹے انجینیئروں، اپنا حصّہ کو اپنا حقّہ، پُھلواری کو پٹواری بنا دیتے ہیں۔

    پروازِ تخیل کی انتہا ہے کہ جہاں شبلی عفی عنہ لکھنا چاہیے تھا وہاں لکھا ستلی کئی عدد۔ اس وقت ملک میں آپ سے بہتر کاتب ملنا محال ہے۔


    (شفیق الرحمٰن کی کتاب میں یہ شگفتہ پارہ "صحیح رقم خوش نویس” کے عنوان سے محفوظ ہے)

  • کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟

    پطرؔس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔

    انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔

    گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے، مگر بخاری صاحب نے ایسے سوال کیے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انھوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟‘‘ لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’آپ شاعر ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’دیکھنے میں تو آپ مجنوں گورکھپوری نظر آتے ہیں۔‘‘

    پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

    ’’بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوںؔ گورکھپوری سے ملتی ہے۔‘‘ پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ ’’آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’ضرور ملیے۔ وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔‘‘

    پھر پوچھا۔ ’’یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں، جانتے ہو کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ جو شخص ہروقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔‘‘

    ’’کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے، جو کتاب کے بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔‘‘

    پروفیسر ڈکنسن نے بخاری صاحب سے دریافت کیا۔ ’’ان کے بی اے میں کتنے نمبر آئے تھے؟‘‘

    انھوں نے میرا ایک سرٹیفیکیٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا۔ ۳۲۹ فرسٹ ڈویژن۔

    ’’تو پھر کیا خیال ہے؟‘‘ پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔

    بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’ داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہوسکا وہ انھوں نے کردیا۔

    پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون سا کام بخاری صاحب؟‘‘

    سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا۔

    ’’یہی بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا۔‘‘

    (معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم سے)