Tag: ادبی لطائف

  • ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید بدرِ عالم بھی بابائے اردو کے ایک رتن تھے، ان کے خادمِ خاص۔ بابائے اردو کی طرح انھوں نے بھی گھر بار کا جنجال نہیں پالا تھا۔

    خواجہ صاحب کے بہ قول ان کے دو شوق تھے۔ اخباروں سے فلم ایکٹریسوں کی تصویریں کاٹ کر ایک رجسٹر میں چپکانا اور اگر کوئی شخص گفتگو میں کوئی نیا لفظ استعمال کرے تو اسے یاد کر لینا اور اپنی گفتگو میں استعمال کرنا۔

    ایک دن ان کی موجودگی میں کسی صاحب نے ہیچ و پوچ، کے الفاظ استعمال کیے۔

    سید صاحب کو یہ الفاظ بڑے بھلے معلوم ہوئے اور انھوں نے یاد کرلیے، استعمال کے منتظر رہے۔

    اتفاق یہ کہ دو تین دن کے بعد جگر صاحب انجمن آئے۔ کراچی آئے ہوئے تھے تو مولوی صاحب سے ملنے آگئے۔

    مولوی صاحب نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جگر صاحب اطمینان سے بیٹھے تو شعر خوانی کا آغاز ہوا۔ جگر صاحب کا لحن اور کلام کی رعنائی، سید صاحب مسحور ہوگئے۔ بے اختیار ہو کر بولے:

    ”ایسا ہیچ و پوچ کلام تو آج تک نہیں سنا۔“

    جگر صاحب سناٹے میں آگئے۔ مولوی صاحب نے ڈانٹا، ”کیا بکتا ہے۔“

    مگر سید صاحب بھی اپنی وضع کے ایک ہی تھے، کہنے لگے، ”چاہے مار ڈالو، مگر کلام بڑا ہیچ و پوچ ہے۔“

    مولوی صاحب نے چھڑی سنبھالی، مگر کچھ سوچ کر ٹھیرے۔ پوچھا، ”کچھ سمجھتا بھی ہے، کیا بک رہا ہے؟“

    سید صاحب نے کہا۔ ”سمجھتا کیوں نہیں۔ بڑا اعلیٰ درجے کا کلام ہے۔“

    مولوی صاحب ہنس پڑے، پوچھا، ”یہ الفاظ تجھے کس نے سکھائے؟“

    سید صاحب نے بتایا فلاں صاحب اس دن آئے تھے، انھوں نے یہ الفاظ کہے تھے، مجھے اچھے لگے، میں نے یاد کرلیے۔

    جگر صاحب یہ سُن کر مسکرائے اور سید صاحب کی گلو خلاصی ہوئی۔

    (ڈاکٹر اسلم فرخی کی تحریر سے اقتباس)

  • جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگر میر مہدی مجروح تھے۔

    غالب انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے اور اپنا فرزند کہتے تھے۔

    ایک روز میر مہدی مجروحؔ اپنے استاد اور محسن مرزا غالب کے کمرے میں‌ داخل ہوئے تو دیکھا کہ استاد صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ مجروح‌ ان کے پاؤں دابنے بیٹھ گئے۔

    مرزا صاحب نے کہا، بھئی تُو سید زادہ ہے، اس طرح‌ مجھے کیوں گناہ گار کرتا ہے؟

    میر مہدی مجروح کے دل میں‌ جانے کیا آئی کہ بولے، آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجیے گا۔

    اس پر استاد نے کہا، ہاں اس میں مضائقہ نہیں۔

    مجروح‌ پیر داب کر اٹھے تو ازراہِ تفنن مرزا صاحب سے اجرت طلب کی۔

    سچ ہے استاد تو استاد ہی ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے شاگرد کی بات سنی اور ان کی طرف دیکھ کر بولے۔

    بھیا کیسی اجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے، میں نے تمہارے پیسے دابے۔ یوں‌ حساب برابر ہوا۔

  • 25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    صوبۂ پنجاب میں سیلاب کے بعد لاہور کے طلبا نے مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں اس وقت کے نام ور شعرا نے شرکت کی۔

    اس مشاعرے کی تمام آمدن متأثرینِ سیلاب پر خرچ کی جانی تھی۔ یعنی یہ مشاعرہ جذبۂ خدمت کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ طلبا اس سلسلے میں خاصے پُرجوش تھے۔

    مشاعرے کی صدارت کے لیے حفیظ جالندھری کا نام لیا گیا جو قومی ترانے کے خالق بھی تھے۔ اس زمانے میں جمع جوڑ کے بعد اتفاقِ رائے سے طے پایا کہ مشاعرہ گاہ میں داخلے کا ٹکٹ 25 روپے کے عوض‌ جاری کیا جائے گا۔

    یہ بھی طے پایا کہ شرکت کے متمنی عام لوگوں‌ کے ساتھ شعرا کو بھی ٹکٹ خریدنا ہو گا۔ غرض یہ کہ سبھی کو اس کارِ خیر میں شامل رکھنا مقصود تھا۔ صدرِ مشاعرہ بھی اس میں شامل تھے۔

    طلبا حفیظ جالندھری کو مشاعرے کی دعوت دینے پہنچے اور تفصیل بتائی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ان کے جذبے کی داد دی۔ پھر پوچھا، شعرا کے نام بتائیں۔ اس پر طلبا نے فہرست ان کے سامنے رکھ دی۔

    حفیظ جالندھری نے اس فہرست پر نظر ڈالی اور مسکرانے لگے۔ فہرست میں شورش کاشمیری کا نام بھی شامل تھا۔
    حفیظ جالندھری نے ان طالبِ علموں کی طرف دیکھا اور بولے۔

    کیا وقت آگیا ہے، کم بخت (شورش) کو دو روپے ماہوار پر ٹیوشن پڑھایا تھا، اب 25 روپے کا ٹکٹ خرید کر سننا پڑے گا۔

  • بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں؟

    بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں؟

    علامہ انور صابری مشہور شاعر تھے۔

    تحریکِ آزادی میں پیش پیش رہنے والے انور صابری اپنی شاعری سے آزادی کے متوالوں کا لہو گرماتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

    لقب ان کا شاعرِانقلاب تھا۔ کہتے ہیں‌ اس زمانے میں‌ انور صابری مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے۔

    بڑے تن توش کے آدمی تھے۔ رنگ گہرا سانولا تھا۔ داڑھی سر سید کی داڑھی سے بس اُنیس تھی اور بہ سبب خضاب شب دیجور کو شرماتی تھی۔ بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ مشہور ہے کہ بیٹھے بیٹھے بیس تیس شعر کہہ دیتے۔ انور صابری سے کئی لطائف بھی منسوب ہیں۔ آپ بھی پڑھیے۔

    ایک بار انور صابری کا پاکستان جانا ہوا۔ راولپنڈی کے مشاعرہ میں شرکت کرنی تھی۔ مشاعرے کے بعد دل میں آیا کہ بس سے مری کا سفر کریں اور وہاں گھومیں پھریں۔ اس لیے تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے۔ بس میں ان کے ساتھ نشست پر ایک بزرگ خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔ انور صابری نے وقت گزاری کے لیے ان سے بات شروع کی اور پوچھا۔

    آپ کہاں جا رہی ہیں؟
    خاتون نے کہا۔
    میں مری جا رہی ہوں۔

    صابری صاحب خاموش ہو گئے۔ ان سے خاتون نے بھی پوچھ لیا۔
    اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں؟

    انور صابری نے بڑی متانت سے جواب دیا۔
    میں ‘‘مرا’’ جارہا ہوں!

  • میونسپل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پارسائی

    میونسپل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی پارسائی

    منیر الٰہ آبادی بڑے شریف اور ہنس مکھ انسان تھے۔ میونسپل اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اور ہمیشہ شیروانی اور ٹوپی میں نظر آتے تھے۔ اچھے شاعر تھے۔ ایک بار بمبئی میں چھوٹا سونا پور کے علاقے میں مشاعرہ تھا جس کی وہ صدارت کر رہے تھے۔ اتفاق سے بمبئی کے مشہور شاعر آوارہ سلطان پوری عین اس وقت پہنچے جب منیر صاحب اپنی غزل سنا رہے تھے.

    انھوں نے شعر پڑھا۔
    تقدس تری بزم کا توبہ توبہ
    یہیں تو مری پارسائی گئی ہے

    آوارہ سلطان پوری نے داد دیتے ہوئے مکرر فرمائش کی اور کہا

    واہ استاد پھر سنائیے: تقدس تری بزم کا اللہ اللہ

    منیر صاحب نے مصرع سنا تو فوراً سمجھ گئے اور ان کی اس دل نشیں انداز سے کی گئی اصلاح کو قبول کرتے ہوئے یوں شعر سنایا۔

    تقدس تری بزم کا اللہ اللہ
    یہیں تو مری پارسائی گئی ہے
    راوی: سلمان غازی

  • داغ نے شریف کو پھنسا دیا!

    داغ نے شریف کو پھنسا دیا!

    مرزا داغ کوئی دس برس تک استاد ذوق سے اصلاح لیتے رہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ انہوں نے تین سال تک غالبؔ سے بھی اکتساب فیض کیا، لیکن ان کے با قاعدہ شاگرد نہیں بنے۔

    داغ نے شاعری میں اوج حاصل کیا اور خوب شہرت پائی۔ ان کے شاگرد پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ داغ اپنے شاگردوں کے ساتھ اکثر مذاق بھی کرتے تھے۔

    ان کی شگفتہ بیانی اور مزاح کا ایک واقعہ کچھ یوں ہے۔
    داغ کے ایک شاگرد مدراس کے تھے جو شریف تخلص کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا کلام چھپوانے کا ارادہ کیا تو استاد سے نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔ داغ نے کہا ‘‘کلام شریف’’ سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔ انہیں تامل ہوا تو استاد داغ نے کہا، بھئی مضطر خیرآبادی کا دیوان نہیں دیکھا، ‘‘کلامِ مضطر’’۔

    اُس بندۂ خدا نے حقیقتاً ‘‘کلام شریف’’ کے عنوان سے اپنا دیوان چھپوا دیا۔ لوگوں نے لے دے شروع کی تو بھاگے ہوئے استاد کے پاس آئے اور بولے، حضرت غضب ہو گیا لوگ مارے ڈالتے ہیں۔“ داغ نے معصومیت سے کہا۔
    ہاں بات تو ہے بھی بے ادبی کی۔ یہ سنا تو شریف صاحب بولے۔

    آپ ہی نے تو یہ بتایا تھا۔ داغ نے ہنس کر کہا کہ اپنے نام کے ساتھ وطن مبارک کی صراحت کیوں نہ کر دی۔ کوئی جھگڑا ہی کھڑا نہ ہوتا۔ تب انہوں نے اپنا مجموعہ کلام شریف کے بجائے کلام شریف مدراسی کے نام سے شایع کروایا اور یوں مشکل سے نکلے۔

  • غلط فہمی

    غلط فہمی

    کنہیا لال کپور اردو زبان کے ان مزاح نگاروں میں شامل ہیں جن کا قلم نثر اور نظم دونوں اصناف میں متحرک رہا۔
    وہ ایک طرف اپنے مضامین میں سماجی ناہم واریوں، طبقاتی کشمکش اور انسانی رویّوں پر شگفتہ اور شوخ انداز میں قلم اٹھاتے ہیں تو دوسری طرف طنز و مزاح سے بھرپور نظمیں اور پیروڈی سے قارئین کی توجہ حاصل کر لتیے ہیں۔ ان کی تخلیقات سادہ اور عام فہم ہیں۔ طنز و مزاح کے ساتھ ان کی تحاریر میں تعمیر و اصلاح کا پہلو نمایاں ہے۔

    کنہیا لال کپور نے 1910ء میں لائل پور (فیصل آباد) میں آنکھ کھولی۔ تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گئے جہاں درس و تدریس کے شعبے میں خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ مختلف اخبار اور ادبی جرائد کے لیے طنز و مزاح لکھا۔ ان کی متعدد کتابیں منظرِعام پر آئیں جن میں بال و پَر، گستاخیاں، نازک خیالیاں، سنگ و خشت، نرم گرم مشہور ہیں۔ 1980 کنہیا لال کپور کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔

    ان سے منسوب دو لطائف آپ کی ذوقِ شگفتہ کی نذر ہیں۔

    کنہیا لال کپور نہایت نحیف اور دبلے پتلے تھے۔ ایک انگریز خاتون جو ادب کا ذوق رکھتی تھیں جب کنہیا لال کپور سے ملیں تو انھیں دیکھ کر کہنے لگیں۔
    کپور صاحب! آپ سوئی کی طرح پتلے ہیں۔
    کنہیا لال کپور نے مسکراتے ہوئے نہایت انکساری سے کہا۔
    آپ کو غلط فہمی ہوئی محترمہ، بعض سوئیاں مجھ سے بھی موٹی ہوتی ہیں۔

    ایک اور واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔
    ایک مرتبہ کنہیا لال کپور کسی شخص سے الجھ گئے۔ بات بڑھی تو برہم ہوتے ہوئے بولے۔
    میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا۔
    میں بھی آپ کو شریف آدمی سمجھا تھا۔ اس شخص نے بھی برہم ہو کر سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا۔
    اس پر کنہیا لال نے نہایت سنجیدگی اور کمال عجز کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
    تو حضور آپ ٹھیک سمجھے، غلط فہمی تو مجھی کو ہوئی تھی۔

  • ادبی دنیا میں‌ مشہور لِب لی اور المامون کا قصہ

    ادبی دنیا میں‌ مشہور لِب لی اور المامون کا قصہ

    علامہ شبلی نعمانی اور اکبر الہ آبادی کسی دعوت میں اکٹھے ہوئے تو اکبر نے شبلی کو دعوتِ طعام دیتے ہوئے ایک شعر پڑھا۔
    بات یہ ہے کہ بھائی شبلی
    آتا نہیں مجھے قبلہ قبلی
    جواب میں شبلی نے کہا، کیا خوب قافیہ نکالا ہے آپ نے قبلی کے علاوہ شبلی کا اور کوئی قافیہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس پر اکبر کچھ سوچنے لگے۔ چند لمحوں بعد بولے۔ کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔
    شبلی نے کہا، تو فرمائیے۔ اکبر بولے، ‘‘لِب لی’’ ہو سکتا ہے۔ اس پر شبلی نے تعجب کا اظہار کیا اور ان سے کہا، یہ کیا ہے؟
    اکبر خاصے موڈ میں تھے۔ بولے سند پیش کروں؟ شبلی نے کہا ضرور، ضرور۔
    تب اکبر الہ آبادی نے یہ شعر پڑھا۔
    تم بھی اس راہ پر چلے شبلی
    عشق نے آبروئے غالبؔ لی

    ایک اور ادبی واقعہ ہے کہ اکبر الہ آبادی کی موجودگی میں کوئی صاحب علامہ شبلی سے ملنے آئے اور نانا فرنویس کی تعریفوں کے پُل باندھنے لگے۔

    اس مدح سرائی کا سلسلہ تھا کہ ختم ہی نہیں ہو کر دے رہا تھا۔ اکبر سے رہا نہ گیا۔ تنگ آکر بولے، جناب میرا مشورہ ہے کہ آپ نانا فرنویس پر ایک کتاب لکھیں، میں اس پر بڑا عمدہ تبصرہ قلم بند کروں گا۔ وہ اکبر کی طرف متوجہ ہوئے تو اکبر نے کہا، آپ اپنی کتاب کا نام ‘‘النانا’’ رکھیں، میں تبصرے میں لکھوں گا کہ خوبیوں کے اعتبار سے النانا تو ‘‘المامون’’ کا بھی باپ ہے۔ اس پر شبلی بے اختیار ہنس دیے۔ یہ علامہ کی مشہور تصنیف کا نام ہے۔

  • آپ کی عمر کتنی ہے؟

    آپ کی عمر کتنی ہے؟

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب معروف مزاح نگار پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے۔ ایک مرتبہ معروف ادیب، شاعر اور جید صحافی مولانا ظفرعلی خان تقریرکے لیے ریڈیو اسٹیشن آئے اور ریکارڈنگ کے بعد پطرس کے پاس جا بیٹھے۔
    بات شروع ہوئی تو اچانک مولانا نے پوچھا۔
    پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔
    پطرس نے کچھ سوچا اور مولانا ظفر علی سے سوال کیا۔
    مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟
    اس پر مولانا کھٹکے ضرور مگر جواب دیا۔
    یہی کوئی 75 سال.
    یہ سن کر پطرس نے کہا۔
    مولانا جب آپ نے اتنی عمر یہ فرق جانے بغیر گزار ہی دی ہے تو دو چار برس اور گزار لیجیے۔