Tag: ادبی مضامین

  • ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ’میرا ہندوستان‘ اینگلو انڈین مہم جو، شکاری اور مصنّف جم کاربٹ کی کتاب ہے جو متحدہ ہندوستان کے پسے ہوئے اور مجبور طبقات کی زندگی کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔

    فن و ادب سے متعلق مزید تحریریں پڑھیں

    جم کاربٹ لکھتے ہیں، ’’میرا ہندوستان‘‘ میں، میں نے اُس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوے فیصد انتہائی سادہ، ایماندار، بہادر، وفا دار اور جفا کش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ’ہندوستان کی بھوکی عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے۔‘‘

    اس کا ترجمہ محمد منصور قیصرانی نے کیا ہے۔ جم کاربٹ نے اپنی اس کتاب میں ایک نوجوان جوڑے کی درد ناک کہانی بیان کی ہے، جس کے دادا بنیے کے جال اور سود کی دلدل میں پھنس گئے تھے اور اسے بھی اپنے والد کی موت کے بعد یہ رقم اتارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔

    بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔

    اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچّے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔ چوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا دیا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔

    یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نووارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھیلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

    بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔

    اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔ ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلّے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

    ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، واپس لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں واپس لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔

    پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

    ’’میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوتا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادے کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس اسٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔‘

    بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آباؤ اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

    بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط و کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔

    بنیے نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیے سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیے نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

    جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

    جتنی دیر ہماری خط و کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

    اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

    تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

  • جواب اس کا کون دے؟

    جواب اس کا کون دے؟

    تقسیمِ ہندوستان کا اثر اردو زبان و ادب اور اردو ادیبوں پر جیسا کچھ پڑا ہے اس کا اندازہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔

    ہندوستان میں تو حکومت کی طرف سے اردو کو دیس نکالا دیا گیا۔ اور پاکستان میں اردو بیچاری سرکاری زبان بن گئی۔ مگر سرکاری زبان ہونے کے باوجود بیچاری مہاجرہ ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی بہت سی سوکنیں ہیں۔ پنجاب میں پنجابی ہے، سندھ میں سندھی ہے، سرحد میں پشتو ہے، بلوچستان میں بلوچی ہے۔ اور بنگال میں بنگالی۔ اسی لیے اردو کو ابھی اس کا اپنا گھر الاٹ نہ ہو سکا اور وہ مجبوراََ سرکاری کیمپ میں مقیم ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں یعنی میرا مطلب یہ ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں اور خواجہ ناظم الدین تقریریں فرما رہے ہیں کہ اردو کو ہر گھر میں جگہ ملنی چاہیے مگر چونکہ تقریریں تو تقریریں ہوتی ہیں اس لیے۔۔۔۔۔۔

    ویسے اردو کی یہ زبوں حالی کوئی نئی نہیں۔ بہت پرانی ہے جب سے قلعۂ معلّی اجڑا اور داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی آخری شمع یعنی حضرت بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ جاہ و حشم کا شیرازہ بکھر گیا۔ تبھی سے اردو کی حالت بڑی زار اور بڑی زبوں ہے۔ ہائے ہائے وہ زبان جس میں حضرتِ میر تقی میر، حضرت شیفتہ، حضرت انیس، حضرت انشا شاعری فرماتے تھے۔ استاد شہ حضرت ذوق اور میرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب نے جس کی نوک پلک سنواری تھی، جو نواب سعادت علی خاں کے گھر میں پلی جسے بیگماتِ شاہانِ مغلیہ نے لہجہ اور لوچ عطا کیا جو قیصر باغ میں جوان ہوئی۔۔۔۔۔ وہی زبان آج بھٹیاروں کے منہ میں آگئی ہے۔ برا ہو ان ترقی پسند مصنفین کا۔۔۔ انہوں نے زبان کو شاہی درباروں سے نکال کر بیچ بازاروں میں کھڑا کر دیا۔ کہاں یہ زبان شاہزادوں اور شہزادیوں کی تھی اور کہاں یہ زبان مزدوروں اور کسانوں میں آگئی۔ کہاں تو میر تقی میر جیسے اہل زبان شاعر تھے اور کہاں ان ترقی پسند مصنفوں نے نظیر اکبر آبادی جیسے پھکڑ شاعر کو بانس پر چڑھایا تھا۔ ان ترقی پسندوں نے جو کچھ کیا جیسے وہ کم نہ تھا کہ آج تقسیم کے بعد بیچاری اردو کے پیچھے نئی ساڑستی لگی ہوئی ہے۔ شین قاف تو پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور اب یہ خانماں بربادی۔ خدا کی سنوار اس موئے فرنگی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جس کی بدولت اب برس روز سے اردو یوں سڑکوں کی خاک پھانکتی پھر رہی ہے۔

    واللہ کیا عرض کریں حضور۔ اب تو اردو کی ساری اٹھان کا ستیا ناس ہو کر رہ گیا ہے۔ نہ و صنائع بدائع رہے، نہ وہ ضلع جگت۔ نہ وہ تشبیہات نہ وہ استعارے۔ نہ وہ سلطان العلوم رہے، نہ سعادت علی خان کے ادبی دربار رہے۔ نہ وہ مشاعرے ہیں نہ وہ شعر و سخن کی محفلیں ہیں۔ ہائے ہائے حضور۔ اب تو اہلِ فن اٹھ گئے۔ بس کٹھ ملا رہ گئے۔

    دہلی اور لکھنؤ کے کچھ ٹکسالی اشراف ایسے بھی تھے۔ جنہوں نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام پھر سے دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ مگر نیرنگیِ زمانہ کی بابت کیا کہیے کہ کل تک جو تتلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ آج اردو کے بڑے بڑے جغادری ادیب بن بیٹھے ہیں۔ بقول کسے پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند۔ اور پڑ گئے اردو کے پیچھے ڈنڈا لے کے۔

    ارے خدا کے بندو۔ اردو بھی کوئی گائے بکری ہے! غضب خدا کا یہ صنفِ نازک ہے۔ صنفِ نازک۔ ہوش کے ناخن لو محلوں کی پلی نازک اندام کو کہاں عام لوگوں اور عامیوں میں کھینچ لائے۔ جواب اس کا کون دے؟

    جانے کس کم بخت نے (ادب برائے ادب) کی بجائے (ادب برائے زندگی) کا نعرہ لگایا اور لگا اردو کے جسم کا سارا زیور لوٹنے۔ صنائع بدائع ، تشبہیہیں، استعارے، محاورے، ضلع جگت سب لوٹ لیے تو پھر اس کے خد و خال بگاڑنے شروع کیے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم کا ادیب کان پر قلم رکھ کر نکلا اور خرافات نگاری کے پل باندھنے لگا۔ پہلے کسی اہل زبان سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور پھول چنے جا رہے ہیں۔ اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اردو نہیں روڑے اور کنکر مار رہا ہے۔ ان ترقی پسند ادیبوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھو تو صاف معلوم ہو جائے گا۔ جھوٹا مسالہ کھوٹا کام۔ اجی قبلہ و کعبہ ہم دریافت کریں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ ادب کا تو صرف ادب سے تعلق ہو سکتا ہے۔ ادب اگر ادب سے متعلق نہ رہے تو پھر وہ کہاں کا ادب اور کیسا ادب۔ یا اگر ادب کے تعلق کے لیے اسی کے شایان شان زندگی بھی ہو۔ یعنی بادشاہوں کی زندگی، امرا کی زندگی۔ یہ فضلو خیرو کی زندگی سے اردو زبان و ادب کو کیا تعلق؟

    اب اللہ میاں ہی ان ترقی پسند ادیبوں سے سمجھیں۔ ایک دو حرف کیا لکھنا آیا خود کو شیخ معجونی سمجھنے لگے۔ شیخ معجونی نے ہلدی کی ایک گرہ کیا پائی کہ خود کو عطار سمجھ بیٹھے۔ بس شیخی اور نمود کی تصویر ہیں یہ لوگ۔ نہ بڑوں کا پاس نہ بزرگوں کا کچھ ادب۔ میر تقی میر کو قنوطی اور غیر ترقی پسند شاعر کہتے ہیں اور اس پھکڑ باز، بے سرے، یاوہ گو نظیر اکبر آبادی کو سب سے بڑا ترقی پسند شاعر بنا بیٹھے۔ حالانکہ حضرت شیفتہ نے اس کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ دے دیا تھا کہ یارو وہ شاعر نہیں پھکڑ باز ہے۔

    اللہ اللہ کیا زبان دان تھے وہ لوگ! مر گئے مگر زبان کی اینٹھن نہ گئی، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان۔ ہیروں جواہرات کی طرح جگمگاتی زبان۔ وہ زبان جو رگ گل سے بلبل کے پر باندھتی تھی۔ وہ زبان جس کی شاعری کے ہزاروں بحر پھیلے ہوئے تھے۔ وہ زبان جس کے دامن میں الفاظ کا بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا تھا۔ وہی زبان آج لٹی ہاری، نوچی کھسوٹی، ژولیدہ زلفیں لیے یوں چوراہے پر کھڑی ہے۔

    آج میر و غالب، مومن و سودا، انیس و دبیر، انشا و شیفتہ کی روحیں بہشت میں پریشان اور لشتم پشتم پھر رہی ہوں گی کہ ہائے ہائے یہ اردو کی کیا حالت ہو گئی؟

    (اردو کے ممتاز ادیب، مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی طنزیہ مضامین پر مشتمل کتاب پبلک سیفٹی ریزر سے ایک تحریر)

  • فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض صاحب کی شخصیت آہستہ آہستہ پاکستانی ادب اور تہذیب و ثقافت کا امتیازی نشان بنتی چلی گئی۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، اسی لیے ایک شاعر کی حیثیت سے، ایک نثر نگار کی حیثیت سے، ایک صحافی کی حیثیت سے، ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے، ایک ڈاکیومنٹری اور فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے، ایک استاد کی حیثیت سے، ایک دانشور کی حیثیت سے، ایک ثقافتی کارکن اور مفکر کی حیثیت سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک انسان کی حیثیت سے انہوں نے اپنے عہد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

    فیض صاحب کی بہ حیثیت صحافی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں ان کے ایک رفیقِ کار اور پاکستان میں انگریزی صحافت کی ایک اہم شخصیت احمد علی خان نے لکھا:

    ’’فیض صاحب نے صحافت کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ملکی صحافت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ تقسیم سے سال بھر پہلے تک برصغیر پاک و ہند میں جہاں کئی کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے کانگریس کے ہم نوا تھے، وہاں صرف تین قابلِ ذکر انگریزی روزنامے تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ ڈان، دہلی سے نکلتا تھا جب کہ اسٹار آف انڈیا اور مارننگ نیوز کلکتے سے نکلتے تھے۔ ان دنوں اس علاقے میں جو اب مغربی پاکستان (اور اب صرف پاکستان) کہلاتا ہے انگریزی کے چار قابل ذکر روزنامے تھے۔ ٹریبیون اور سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور سے شائع ہوتے تھے جب کہ سندھ آبزرور اور ڈیلی گزٹ کراچی سے نکلتے تھے۔ یہ چاروں اخبار غیر مسلموں کے ہاتھوں میں تھے اور ان میں سے کوئی بھی تحریک پاکستان کا حامی نہ تھا۔ 1947ء میں جب میاں افتخار الدین مرحوم نے پاکستان ٹائمز کی بنیاد ڈالی تو گویا دو کام بیک وقت انجام دیے۔ ایک تو تحریک پاکستان کو جو نہایت نازک موڑ پر پہنچ چکی تھی تقویت پہنچائی اور دوسرے نوزائیدہ مملکت کی آئندہ صحافت کی سمت اور معیار کا نشان بھی دیا۔ لفظ پاکستان کے شیدائی پہلے تو اس کے نام ہی پر جھوم اٹھے اور پھر بہت جلد اس اخبار کے صحافتی معیار اور اس کے پر وقار اور متین انداز سے متاثر ہونے لگے۔

    فیض صاحب نے جب اس کی ادارت کا بوجھ سنبھالا تو وہ اس ذمہ داری کے لیے نئے تھے لیکن ان میں اس کام کی بنیادی صلاحیتیں موجود تھیں۔ علمی لیاقت، سیاسی ادراک، تاریخ کا شعور، معاشرے کے مسائل کا علم، ادب پر گہری نظر، اور اچھی نظر لکھنے (انگریزی اور اردو) کا سلیقہ اور اپنی ان تمام صلاحیتوں سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ان کے اداریے اپنی سلاست، شگفتگی اور ادبیت کے باعث ابتداء ہی سے مقبول ہوئے۔ ملک کے سیاسی مسائل پر فیض صاحب کے اداریے وسیع حلقے میں پڑھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ ‘‘

    فیض صاحب کاتا اور لے دوڑے کے راستے پر چلنے کے قائل نہیں تھے۔ شاعری ہو نوکری ہو خطابت ہو یا صحافت ہو غرض یہ کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ جلد باز نہیں رہے۔ ایک طرح سے تکمیلیت پسند شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان کے بیش تر کام ادھورے رہ گئے۔ لیکن اخبار کا معاملہ مختلف ہے اس میں سر پر روزانہ ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ آج کا کام آج ہی ہونا چاہیے ورنہ تو اخبار کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ ان سب ترجیحات کے باوجود یہاں بھی انہوں نے اپنے ہی انداز میں کام نمٹایا۔ ان کے دوست حمید اختر کہتے ہیں: ’’وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر، پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔ موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہو جاتا تھا لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔ پاکستان ٹائمز کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے ہیں اور جب فرار کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں اس وقت اس بوجھ کو اتارتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انہیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے۔ جب کہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس کے بعد لکھتے تھے۔‘‘

    سبط حسن نے بھی جو کہ صحافت کی دنیا میں ان کے ساتھ تھے فیض صاحب کی صحافتی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے: ’’فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف نہیں لکھا بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی، اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دلچسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے لے کر پڑھتے تھے۔ ‘‘

    اس کا ایک سبب ان کی واضح سیاسی سوچ اور مسئلے کو اس کی اصل گہرائی تک جا کر دیکھنے کی صلاحیت تھی۔

    (ماخوذ از مقالہ بعنوان فیض احمد فیض…. شخصیت اور فن، مصنّفہ اشفاق حسین)

  • اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    اقبال اور غالب…..فارسیت کا الزام

    ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور مؤثر بتایا ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر ’’تغزل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

    صوتی سطح پر اس تغزل کی سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہوتی ہے جسے ہم شعر کا صوتی آرکسٹرا کہہ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف صوتی اکائیوں (صوتیوں) کے صحیح انتخاب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے مشاقانہ جوڑ توڑ سے بھی۔ اردو کے شاعر کے پاس ان ’صوتیوں ‘ کا کل سرمایہ 47 ہے۔ ان میں سے 10 مصوتے (Vowels) ہیں اور 37 مصمتے (Consonants) ان مصمتوں میں 6 عربی فارسی سے مستعار آوازیں ہیں، /ف/، /ز/، ژ/، /خ/، /غ/، اور/ق/۔ ان میں /ژ/ کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے۔ /ق/ سے قطع نظر جو ایک بند شیہ (Stop) ہے، باقی تمام آوازیں صفیری (Fricatives) ہیں جن کی ادائیگی کے وقت ہوا خفیف ’’رگڑ‘‘ کے ساتھ نکلتی ہے۔ غالب اور اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا صوتی آہنگ فارسی کا ہے، اس لیے بے بنیاد ہے کہ مذکورۂ بالا 6 آوازوں کو چھوڑ کر اردو کی باقی تمام آوازیں (بہ شمولِ مصوتے) خالص ہند آریائی ہیں۔ ہر چند ان میں سے بعض فارسی عربی کے ساتھ اشتراک رکھتی ہیں۔

    فارسیت کا الزام ان دونوں شاعروں کے شعری فرہنگ پر لگایا جا سکتا ہے، صوتی آہنگ پر نہیں۔

    اقبال کی ابتدائی دور کی دو نظمیں اس اعتبار سے دل چسپ مواد فراہم کرتی ہیں کہ صوت و معنیٰ کس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی نظم ’’بانگِ درا‘‘ کے دوسرے حصے میں شامل ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ہے جس میں اصوات نے معنی کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ سات اشعار پر مشتمل یہ نظم مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ یہاں مسلسل قافیوں کی جھنکار کے بجائے صوتی آہنگ سے دریائے نیکر کے کنارے ایک شام کے سکوت کو گہرا کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ کام شعوری طور پر نہیں کیا ہے، بلکہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، یہ ایک ایسی کیفیت سے برآمد ہوتی ہے جسے ہم مکمل ’’اظہار‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس نظم کا کلیدی لفظ ’’خاموش‘‘ ہے جو اس نظم میں 6 بار آیا ہے۔ جن اصوات (صوتیوں) سے یہ مرکب ہے وہ ہیں، خ+ا+م+و+ش۔ یہ اس کی کلیدی اصوات ہیں۔ ان میں /خ/ کی تکرار 8 بار، /ا/ کی 21 بار، /م/ کی 12 بار، /و/ کی 22 بار، اور /ش/ کی 6 بار ہے۔ خاموشی کا منظر ہے جسے شاعر بصری اور سماعی دونوں اعتبار سے محسوس کر رہا ہے۔ مفعول مفاعلن، فعولن کی تفکر اور تامل سے لبریز بحر کا انتخاب کیا گیا ہے۔ /ا/اور /و/ کے علاوہ خاموشی کی گہرائی میں اضافہ کرنے والے دیگر طویل مصوتے/ی/، /اَی/ اور /اَے / ہیں جن کی مجموعی تعداد 32ہو جاتی ہے۔ /ش/کی/16/ہُش ہُش کرتی آوازوں میں /س/کی 7 ’’سرسراتی‘‘ آوازیں بھی ملی ہوئی ہیں۔ /م/ کی غنائی کیفیت کے لیے 3/ن/ اور 9 انفیائے مصوتے بھی شامل ہیں۔

    مجموعی طور پر اقبال کے صوتی آہنگ کے سب سے اونچے سُر انفی مصمتوں اور انفیت (Nasalization) سے مرتب ہوتے ہیں اور 6 صفیری آوازوں خ، غ، ش، س، ز، اور ف سے۔ اقبال بنیادی طور پر غالب کی طرح صوتی آہنگ کے شاعر نہیں۔۔۔ فکر اور تخیل کی آویزش اور آمیزش سے ان کے یہاں نور و نغمہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ نور ان کی شاعرانہ بصیرت ہے اور نغمہ ان کا صوتی آہنگ!

    (مضمون نگار مسعود حسین خان، ماخوذ از ’اقبال کی نظری و عملی شعریات‘)

  • ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانۂ ہٰذا میں ناول جدید ترین آٹومیٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور تیاری کے دوران انہیں ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔

    ناول اسلامی ہو یا جاسوسی، تاریخی یا رومانی۔ مال عمدہ اور خالص لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ناول مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔

    پڑھنے کے علاوہ بھی یہ کئی کام آتے ہیں۔ بچہ رو رہا ہو۔ ضد کر رہا ہو۔ دو ضربوں میں راہ راست پر آجائے گا۔ بلّی نے دودھ یا کتے نے نعمت خانہ میں منہ ڈال دیا ہو۔ دور ہی سے تاک کر ماریے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ بیٹھنے کی چوکی اور گھڑے کی گھڑونچی کے طور پر استعمال ہونے کے علاوہ یہ چوروں ڈاکوؤں کے مقابلے میں ڈھال کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے مطالعے سے دل میں شجاعت کے جذبات خواہ مخواہ موجزن ہوجاتے ہیں۔ دوسرے اپنی ضخامت اورپٹھے کی نوکیلی جلد کے باعث۔ خواتین کے لیے ہمارے ہاں واش اینڈ ویئر (Wash and Wear) ناول بھی موجود ہیں تاکہ ہیروئن کا نام بدل کر پلاٹ کو بار بار استعمال کیا جا سکے۔ ایک ہی پلاٹ برسوں چلتا ہے۔ پندرہ بیس ناولوں کے لیے کافی رہتا ہے۔ واش اینڈ ویئر کوالٹی ہمارے اسلامی تاریخی ناولوں میں بھی دستیاب ہے۔ آرڈر کے ساتھ اس امر سے مطلع کرنا ضروری ہے کہ کون سی قسم مطلوب ہے۔ ۶۵% رومان اور ۳۵% تاریخ والی یا ۶۵% تاریخ اور ۳۵% رومان والی۔ اجزائے ترکیبی عام طور پر حسب ذیل ہوں گے۔

    ۱۔ ہیروئن۔ کافر دوشیزہ۔ تیر تفنگ، بنوٹ پٹے اور بھیس بدلنے کی ماہر۔ دل ایمان کی روشنی سے منور۔ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے والی۔

    ۲۔ کافر بادشاہ۔ ہماری ہیروئن کا باپ لیکن نہایت شقی القلب۔ انجام اس کا برا ہوگا۔

    ۳۔ لشکر کفار۔ جس کے سارے جرنیل لحیم شحیم اور بزدل۔

    ۴۔ اہل اسلام کا لشکر۔ جس کا ہرسپاہی سوا لاکھ پر بھاری۔ نیکی اور خدا پرستی کا پتلا۔ پابندِ صوم و صلٰوۃ۔ قبول صورت بلکہ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والا۔

    ۵۔ ہیرو۔ لشکر متذکرہ صدر کا سردار۔ اس حسن کی کیا تعریف کریں، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔

    ۶۔ سبز پوش خواجہ خضر۔ جہاں پلاٹ رک جائے اور کچھ سمجھ میں نہ آئے، وہاں مشکل کشائی کرنے والا۔

    ۷۔ ہیرو کا جاں نثار ساتھی۔ نوجوان اور کنوارا تاکہ اس کی شادی بعد ازاں ہیروئن کی وفادار اور محرم راز خادمہ یا سہیلی سے ہوسکے۔

    ۸۔ کافر بادشاہ کا ایک چشم وزیر جو شہزادی سے اپنے بیٹے کی، بلکہ ممکن ہو تو اپنی شادی رچانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چونکہ ادھار محبت کی قینچی ہے۔ لہٰذا ہیروئن کے التفات سے محروم رہتا ہے۔

    پلاٹ تو ہمارے ہاں کئی طرح کے ہیں لیکن ایک اسٹینڈرڈ ماڈل جو عام طور پر مقبول ہے، یہ ہے کہ ایک قبیلے کا نوجوان دوسرے قبیلے کی دوشیزہ پر فدا ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ دوشیزہ لامحالہ طور پر دوسرے قبیلے کے سردارکی چہیتی بیٹی ہوتی ہے۔ پانچ انگلیاں پانچوں چراغ۔ خوبصورت، سلیقہ مند، عالم بے بدل۔ لاکھوں اشعار زبانی یاد۔ کرنا خدا کا کیا ہوتا ہے، اس بیچ میں دونوں قبیلوں میں لڑائی ٹھن جاتی ہے۔ ہمارا ہیرو محبت کو فرض پر قربان کر کے شمشیر اٹھا لیتا ہے اور بہادری کے جوہر دکھاتا، کشتوں کے پشتے لگاتا دشمن کی قید میں چلا جاتا ہے۔ محافظوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر طالب و مطلوب ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اشعار اور مکالموں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہیروئن بی پہلے ایک جان سے پھرہزار جان سے اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ راستے میں ظالم سماج کئی بار آتا ہے لیکن ہردفعہ منہ کی کھاتا ہے۔ دانت پیستا رہ جاتا ہے۔ آخر میں ناول حق کی فتح، محبت کی جیت، نعرہ تکبیر، شرعی نکاح، دونوں قبیلوں کے ملاپ اور مصنف کی طرف سے دعائے خیر کے ساتھ آئندہ ناول کی خوشخبری پر ختم ہوتا ہے۔

    آرڈر دیتے وقت مصنف یا ناشر کو بتانا ہوگا کہ ناول پانچ سو صفحے کا چاہیے، ہزار صفحے کا یا پندرہ سو کا؟ وزن کا حساب بھی ہے۔ دو سیری ناول۔ پانچ سیری ناول۔ سات سیری ناول۔ پندرہ بیس سیری بھی خاص آرڈر پرمل سکتے ہیں۔ گاہک کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسی پلاٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ماحول کس ملک کا رکھا جائے۔ عراق کا… عرب کا…. ایران کا… افغانستان کا؟ ہیرو اور ہیروئن کے نام بھی گاہک کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ ایک پلاٹ پر تین یا اس سے زیادہ ناول لینے پر ۳۳% رعایت۔

    خواتین کے لیے بھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، گھریلو اور غیر گھریلو ہر طرح کے ناول بکفایت ہمارے ہاں سے مل سکتے ہیں۔ ان میں بھی محبت اور خانہ داری کا تناسب بالعموم ۶۵% اور ۳۵% کا ہوتا ہے۔ فرمائش پر گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ خانہ داری سے مطلب ہے ناول کے کرداروں کے کپڑوں کا ذکر۔ خاندانی حویلی کا نقشہ۔ بیاہ شادی کی رسموں کا احوال۔ زیورات کی تفصیل وغیرہ۔ ہیرو اور ہیروئن کے چچازاد بھائی اور بہنیں۔ سہیلیاں اور رقیب وغیرہ بھی مطلوبہ تعداد میں ناول میں ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے کارخانے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کے ناول مروجہ پاکستانی فلموں کو دیکھ کر لکھے جاتے ہیں تاکہ بعد ازاں فلم ساز حضرات ان پر مزید فلمیں بنا سکیں۔ معمولی سی اجرت پر ان ناولوں میں گانے اور دو گانے وغیرہ بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ اس سے مصنف اور فلم ساز کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ گاہک کو فقط ہیروئن کا نام تجویز کر دینا چاہیے۔ باقی سارا کام ہمارے ذمے۔ مال کی گھر پر ڈلیوری کا انتظام ہے۔

    بازار کے ناول بالعموم ایسے گنجان لکھے اور چھپے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی آنکھ پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ صفحے میں کم سے کم لفظ رہیں۔ مکالمے اور مکالمہ بولنے والے، دونوں کے لیے الگ الگ سطر استعمال کی جاتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے،

    شہزادی سبز پری نے کہا،
    ’’پیارے گلفام!‘‘

    پیارے گلفام نے کہا،
    ’’ہاں شہزادی گلفام۔ ارشاد!‘‘

    شہزادی سبز پری،
    ’’ایک بات کہوں؟‘‘

    گلفام،
    ’’ہاں ہاں کہو۔‘‘

    شہزادی،
    ’’مجھے تم سے پیار ہے۔‘‘

    گلفام،
    ’’سچ!‘‘

    شہزادی صاحبہ،
    ’’ہاں سچ!‘‘

    گلفام،
    ’’تو پھر شکریہ!‘‘

    شہزادی نے کہا،
    ’’پیارے گلفام۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ میرا انسانی فرض تھا۔‘‘

    ایک ضروری اعلان۔ ہمارے کارخانے نے ایک عمدہ آئی لوشن تیار کیا ہے جو رقت پیدا کرنے والے ناولوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں ایسا سین آئے، رونے کے بعد دو دو قطرے ڈراپر سے آنکھوں میں ڈال لیجیے۔ آنکھیں دھل جائیں گی۔ نظر تیز ہو جائے گی۔ مسلسل استعمال سے عینک کی عادت بھی چھوٹ جاتی ہے۔ فی شیشی دو روپے۔ تین شیشیوں پر محصول ڈاک معاف۔ آنکھیں پونچھنے کے لیے عمدہ رومال اور دوپٹے بھی ہمارے ہاں دستیاب ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار، ادیب اور شاعر ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے ایک مزاحیہ تحریر)

  • ہیبت ناک افسانے

    ہیبت ناک افسانے

    یہ فرانس کے ایک مشہور ادیب مورس لیول (Maurice Level) کی پُراسرار اور دہشت انگیز کہانیوں کے اردو ترجمہ پر رواں تبصرہ ہے، اور اس کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، براڈ کاسٹر اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری ہیں۔

    پطرس کو یہ کتاب معروف ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج نے ارسال کی تھی جو ان کہانیوں کے اردو مترجم ہیں۔ اگر آپ دل چسپی رکھتے ہیں اور یہ کہانیاں‌ پڑھنا چاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر اردو ترجمہ دست یاب ہے۔ فرانس کے ادیب مورس لیول کو بطور فکشن نگار اور ڈرامہ نویس دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔ ان کی خوف ناک اور پرتجسس واقعات پر مبنی مختصر کہانیاں بہت مقبول ہوئیں اور امتیاز علی تاج انہی کو اردو زبان میں ڈھالا تھا جس پر پطرس بخاری کا یہ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    ”ہیبت ناک افسانے“ کا پیکٹ جب یہاں پہنچا۔ میں گھر پر موجود نہ تھا۔ میری عدم موجودگی میں چند انگریز احباب نے جو کتابوں اور اشیائے خوردنی کے معاملے میں ہر قسم کی بے تکلفی کو جائز سمجھتے ہیں، پیکٹ کھول لیا۔

    یہ دوست اردو بالکل نہیں جانتے۔ بجز چند ایسے کلموں کے جو غصے یا رنج کی حالت میں وقتاً فوقتاً میری زبان سے نکل جاتے ہیں اور جو بار بار سننے کی وجہ سے انہیں یاد ہوگئے ہیں۔ اردو تقریر میں ان کی قابلیت یہیں تک محدود ہے۔ تحریر میں اخبار ”انقلاب“ کا نام پہچان لیتے ہیں وہ بھی اگر خط طغریٰ میں لکھا گیا ہو چنانچہ جب واپس پہنچا تو ہر ایک نے محض کتاب کی وضع قطع دیکھ کر اپنی اپنی رائے قائم کر رکھی تھی۔ سرورق پر جو کھوپڑی کی تصویر بنی ہوئی ہے اس سے ایک صاحب نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کتاب،

    میں بھی کبھی کسی کا سر پر غرور تھا

    سے متعلق ہے۔ ایشیا کے ادیب (عمر خیام، گوتم بدھ وغیرہ) اکثر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے صاحب سمجھے کہ فن جراحی کے متعلق کوئی تصنیف ہے۔ ایک بولے جادو کی کتاب معلوم ہوتی ہے (ہندوستان کے مداریوں کا یہاں بڑا شہرہ ہے ) ایک خاتون نے کتاب کی سرخ رنگت دیکھ کر بالشویکی شبہات قائم کر لیے۔

    میں نے کتاب کو شروع سے آخر تک پڑھا۔ گو یہ سب کی سب کہانیاں میں پہلے انگریزی میں پڑھ چکا ہوں۔ اور ان میں سے اکثر تراجم کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے خود امتیاز سے سن چکا ہوں۔ وہ مختلف قسم کی دلفریبیاں جو مجھے کبھی کسی تصنیف کو مسلسل پڑھنے پر مجبور کرسکتی ہیں سب کی سب یہاں یکجا تھیں۔ کتابت ایسی شگفتہ کہ نظر کو ذرا الجھن نہ ہو تحریر میں وہ سلاست اور روانی کہ طبیعت پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ اور پھر امتیاز کے نام میں وہ جادو جس سے ہندوستان یا انگلستان میں کبھی بھی مَفر نہ ہو۔ یہ کتاب تیرہ ہیبت ناک افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جن کے مصنف کا مدعا یہ تھا کہ پڑھنے والوں کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے اور ہر افسانے میں درد و کرب خوف و دہشت یا پھر مرگ و ابتلاء کی ایسی خونیں تصویر کھینچی جائے کہ بدن پر ایک سنسنی سی طاری ہوجائے۔

    ایڈگر ایلن پو کے پڑھنے والے ایسے افسانوں سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ حق تو یہ ہے کہ پو اس فن کا استاد تھا۔ اور یہ جو آج کل اس صنف ادب کی کثرت فرانس میں نظرآتی ہے عجب نہیں کہ اس کا بیشتر حصہ تو اسی کی بدولت ہو۔ کیونکہ فرانس کی ادیبات پر پو کا اثر مسلّم ہے اور ادب کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو۔ جہاں کسی نہ کسی صورت میں اس نے اپنا رنگ نہ پھیر رکھا ہو۔ پیرس میں ایک خاص تھیٹر اسی بات کے لئے وقف ہے کہ اس میں دہشت انگیز کھیل دکھائے جائیں۔ اس کمپنی نے اس قسم کے ڈراموں کا اچھا خاصا مجموعہ مہیا کر رکھا ہے۔ تھیٹر کی ڈیوڑی میں چیدہ چیدہ ڈراموں کے مشہور مناظر کی تصاویر آویزاں ہیں۔ کہیں کوئی بدنصیب موت کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ چہرہ تنا ہوا ہے اور آنکھیں باہر پھوٹی پڑتی ہیں۔ کہیں کوئی سفاک کسی حسینہ کی آنکھیں نکال رہا ہے۔ بائیں ہاتھ سے گردن دبوچے ہوئے ہے۔ دائیں ہاتھ میں خون آلود چھری ہے اور لڑکی کی آنکھوں سے لہو کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔ کھیل کو ہیبت ناک بنانے کے لئے جو جو تدابیر بھی ذہن میں آسکتی ہیں ان سب پر عمل کیا جاتا ہے۔ ایکٹر اپنی شکل شباہت اپنی آواز اور اپنی حرکات کے ذریعے ایک خوف سے کانپتی ہوئی فضا پیدا کر لیتے ہیں۔ پردہ اُٹھنے سے پہلے ہی گھنٹی نہیں بجائی جاتی بلکہ چراغ گُل کر کے لکڑی کے تختے پر دستک دی جاتی ہے۔ اس سے ہیبت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔

    اس بات میں بحث کی گنجائش نہیں کہ درد و کرب یا خوف و دہشت کے مناظر یا افسانوں سے ایک خاص قسم کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ فقرہ بظاہر خود اپنی تردید کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جس کو درد کہا جاتا ہے۔ اس سے خوشی کیسے حاصل ہوگی۔ لیکن یہ ہمارے متداول الفاظ کی کم مائیگی کا نتیجہ ہے۔ اصل خیال کو جو اس فقرے سے ظاہر کیا گیا ہے الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی وجہ سے بعض ماہرین نفسیات دکھ، درد، کرب وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال سے مجتنب رہتے ہیں کیونکہ وہ کب کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت سی ایسی کیفیات جن کو ہم عام زبان میں دکھ درد وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس قدر تسکین بخش ہوتی ہیں کہ لوگ ان کے وصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ اور ان میں اپنی مسرت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یقیناً آپ کے پڑوس میں کئی ایسی عورتیں ہوں گی جو اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی کی موت کی خبر سن پائیں اور بین اور واویلا میں شامل ہو کر آنسو بہا بہا کر اپنی تمنا پوری کرلیں۔ جرائم اور اموات کی گھناؤنی سے گھناؤنی تفصیلات کی اشاعت یورپ اور امریکہ کے کئی اخباروں کی مقبولیت کا باعث ہے۔ لوگوں کو ان کے پڑھنے میں ایک خاص لطف آتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ یا میں بعض دہشت ناک افسانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے محض اس وجہ سے متامل نہ ہونا چاہیے کہ کہیں لوگ اس کو ہماری طینت کے کسی نقص پر محمول نہ کریں۔

    اعصاب میں ایک تھرتھراہٹ! بس یہی ان افسانوں کا مقصد ہے اور جس کامیابی، جس خوبی اور جس فن کے ساتھ اس کتاب کے مصنف نے اس مقصد کی تکمیل چاہی ہے اس کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ امتیاز جیسے ذی مطالعہ اہل قلم کو اس کے ترجمے کی خواہش ہو۔ ان لوگوں کے سامنے جو اردو ادب کے مشاہیر سے واقف ہیں اس سے زیادہ قابل وقعت ضمانت نہیں پیش کی جاسکتی۔ مصنف کی سب سے بڑی خوبی خود مترجم نے کتاب کے دیباچے میں واضح کر دی ہے۔

    مورس لیول بے انتہا، سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں۔ جس کی پختگی اور روانی پڑھنے میں نظم کا سا لطف دیتی ہے۔ ایک فقرہ یا لفظ بھی ضرورت سے زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔ مختلف چیزوں کے بیان میں تناسب کی سمجھ بے حد تیز ہے۔ چنانچہ ان کی ہر مکمل کہانی ایک نفیس اور صاف ستھرے ترشے ترشائے ہیرے کی طرح دل کش معلوم ہوتی ہے۔“

    یہ اختصار دہشت انگیز افسانوں کی ایک ضروری صفت معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر ان میں وہ تندی وہ تیزی نہیں رہتی جس سے سنسنی پیدا کی جا سکے۔ اور پھر یہ اختصار ہر رنگ میں شامل حال رہتا ہے ورنہ افسانے یا ڈرامے کی کامیابی میں نمایاں طور پر فرق پڑ جاتا ہے اس کی وجہ میں کبھی ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکا لیکن اس کی حقیقت کے متعلق میرے دل میں کوئی شبہ نہیں۔ پیرس کے جس تھیٹر کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں اکثر کھیل صرف ایک ایکٹ کے ہوتے ہیں اور خود تھیٹر بھی بہت چھوٹا سا ہے۔ چند دن ہوئے میں نے لندن میں ایک ایسی قسم کا کھیل دیکھا جو ہیو والیول کے ایک ناول سے مرتب کیا گیا ہے۔ دل چسپی کی بات یہ ہے کہ اس کھیل کے لئے بھی لندن کا ایک بہت چھوٹا سا تھیٹر منتخب کیا گیا اس تھیٹر کا نام لٹل تھیٹر یا چھوٹا تھیٹر ہے۔ باقی رہا امتیاز کا ترجمہ، میں حیران ہوں کہ اس مختصر سے تبصرے میں اس موضوع کے متعلق کیا کہوں اور کیا کسی اور وقت پر اٹھا رکھوں۔

  • ناسخ کا تذکرہ جو شاعری کو بھول گیا تھا!

    ناسخ کا تذکرہ جو شاعری کو بھول گیا تھا!

    ذرا غور کیجیے، شیخ امام بخش ناسخ زندگی اور شاعری دونوں میں یتیم تھے۔ باپ کا نام خدا بخش تھا، وطن لاہور تھا۔ زمانے کی گردش نے با پ سے وطن چھڑوا دیا اور عالمِ غربت میں فیض آباد کا منھ دکھایا، جہاں ناسخ پیدا ہوئے۔

    کہا جاتا ہے کہ ناسخ خدا بخش کے بیٹے بھی نہیں تھے بلکہ متنبی تھے۔ خدا بخش کے مرنے کے بعد بھائیوں نے دعویٰ کیا کہ امام بخش کوئی نہیں ہوتے اور خدا بخش کی کل دولت انھیں ملنی چاہیے۔ مگر ناسخ کی خود اعتماری دیکھیے کہ انھوں نے کہہ دیا مجھے مال و دولت سے کچھ غرض نہیں، جس طرح ان کو باپ سمجھتا تھا آپ کو سمجھتا ہوں، اتنا ہے کہ جس طرح وہ میری ضروریات کی خبر گیری کرتے تھے اسی طرح آپ فرمائیے۔ انھوں نے قبول کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جائیداد کے جھگڑے میں بد نیّت چچا نے بیسنی روٹی اور گھی میں ناسخ کو زہر دیا۔ لیکن یہ زہر کارگر نہ ہوا۔

    کچھ پیش نہیں جاتی قسمت کے دھنی سے

    عمر بھر کسی کی نوکری نہیں کی۔ پہلی دفعہ جب الہ آباد آئے، راجہ چندو لال نے بارہ ہزار روپے بھیج کر بلا بھیجا۔ انھوں نے لکھ بھیجا، اب جاؤں گا تو لکھنؤ ہی جاؤں گا۔ راجہ موصوف نے پھر خط لکھا بلکہ پندرہ ہزار روپے بھیج کر بڑے اصرار سے کہا کہ یہاں تشریف لائیے گا تو ملک الشعراء کا خطاب دلواؤں گا، حاضریٔ دربار کی قید نہ ہو گی، ملاقات آپ کی خوشی پر رہے گی۔ انھوں نے منظور نہ کیا۔

    پھر سنیے کہ غازی الدین حیدر کے عہد میں جب ان کی تعریفوں کا آوازہ بہت بلند ہوا تو انھوں نے کہلوایا کہ اگر شیخ ناسخ ہمارے دربار میں آئیں اور قصیدہ سنائیں تو ہم انہیں ملک الشعراء خطاب دیں۔ جب یہ پیغام ان کے شاگرد نواب معتمد الدّولہ نے پہنچایا تو ناسخ نے بگڑ کر جواب دیا کہ مرزا سلیمان شکوہ بادشاہ ہو جائیں تو وہ خطاب دیں۔ اِن کا خطاب لے کر میں کیا کروں گا۔

    غازی الدّین حیدر ذرا خطرناک آدمی تھے۔ ناسخ کو لکھنؤ چھوڑ کر غربت اختیار کرنی پڑی، لیکن غازی الدّین حیدر کے دربار میں نہ گئے اور ان کے لیے یا کسی کے لیے عمر بھر کوئی قصیدہ نہ کہا — حالانکہ کچھ نقادوں کو اس کی حسرت رہ گئی کہ ناسخ قصیدہ کی طرف مائل ہوتے۔

    اردو شعراء پر جو سہل پسندی سے یہ حکم لگا دیا جاتا ہے کہ وہ لالچی، خوشامدی دربار پرست اور ثروت پرست ہوتے ہیں یا ہوتے تھے۔ وہ تصویر کا محض ایک رخ ہے اور وہ بھی سب سے زیادہ نظر فریب اور دلکش رخ نہیں ہے۔ مجھے تو اُردو شاعروں کی دنیا پرستی میں بھی ایک لطیف عنصر ملتا ہے۔

    ناسخ کا دل کتنا بڑا تھا، اس کی ایک جھلک تو ہم آپ نے دیکھ لی۔ اب دیکھیے کہ شاعری میں بھی کس انداز سے بے یار و مددگار شخص اپنی دھاک بٹھا کر رہا اور دہلی سے لکھنؤ تک بلکہ براعظم ہند کے اس تمام حصے پر چھا گیا جہاں ہندوستانی زبان بولی یا سمجھی جاتی ہے۔ ناسخ کی شاعری کس طرح شروع ہوئی اس کا حال مصنفِ آبِ حیات (آزاد) سے سنیے:

    شاعری میں کسی کے شاگرد نہ تھے۔ روایت ہے کہ ایک بار ناسخ نے آغازِ شاعری کا حال یوں بیان فرمایا کہ میر تقی میر مرحوم ابھی زندہ تھے، جو مجھے ذوقِ سخن نے بے اختیار کیا۔ ایک دن نظر بچا کر کئی غزلیں خدمت میں لے گیا۔ انھوں نے اصلاح نہ دی میں دل شکستہ ہو کر چلا آیا اور کہا کہ میر صاحب بھی آخر آدمی ہیں فرشتہ تو نہیں۔ اپنے کام کو آپ ہی اصلاح دوں گا، چنانچہ عرصے کے بعد پھر فرصت میں نظرِ ثانی کرتا اور بناتا۔ غرض مشق کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ لیکن کسی کو سناتا نہ تھا۔ جب تک خوب اطمینان نہ ہوا مشاعرے میں غزل نہ پڑھی نہ کسی کو سنائی۔

    مرزا حاجی صاحب کے مکان پر مشاعرہ ہونا تھا۔ سید انشاء، مرزا قتیل، جرأت، مصحفی وغیرہ سب شعراء جمع ہوتے تھے۔ سب کو سنتا تھا مگر وہاں کچھ نہ کہتا تھا۔ غرض سید انشاء اور مصحفی کے معرکے بھی ہو چکے۔جرأت اور ظہور اللہ خاں نوا کے ہنگامے بھی طے ہوگئے۔ جب زمانہ سارے ورق الٹ چکا اور میدان صاف ہو گیا تو میں نے غزل پڑھنی شروع کی۔’

    اس میں شک نہیں کہ ناسخ پیدائشی لیڈر اور ڈکٹیٹر تھا۔ اس نے سختی سے تکمیل کے ساتھ اور جز رسی کے ساتھ اردو زبان کو منضبط اور منظم کیا اور ہمیشہ کے لیے زبان اور بیان کی بدنظمیوں کو مٹا دیا اور اس معنی میں کہ جتنا بڑا کلیسکس دیوانِ ناسخ ہے آج تک اردو کا کوئی اور دیوان نہیں ہو سکا، جس طرح آگسٹس نے روم کو اینٹ کا پایا اور اسے سنگ مرمر کا بنا کر چھوڑا، اسی طرح جہاں تک زبان و بیان اور شاعری کے خارجی اصولوں اور میونسپل قانونوں کا تعلق ہے، ناسخ نے اقلیمِ غزل کو ایک خودر و جنگل پایا اور اسے کم از کم ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے ایک وسیع البسيط باغ بنا کر چھوڑا۔ شاعرانہ حیثیت سے نہ سہی، لیکن تاریخی حیثیت سے یہ معمولی کارنامہ نہیں۔

    لوگ یہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ دیوانِ ناسخ سے پہلے جو اردو دیوان مرتب ہوتے تھے۔ ان میں سب سے مشہور دیوانِ میر، دیوانِ سودا اور جرأت و مصحفی اور انشاء کے دیوان ہیں۔ ان دواوین کے مرتب ہونے کے پچاس برس کے اندر اندر دیوانِ ناسخ مرتب ہوا۔ لیکن مقابلہ کر کے دیکھیے تو دیوانِ ناسخ کی زبان اور ان کے بزرگ ہم عصروں کی زبان میں ایک صدی کیا شاید کئی صدیوں کا فرق نظر آئے گا۔

    کہا جاتا ہے کہ جب پہلے پہل دیوان ناسخ کی کچھ جلدیں دہلی پہنچیں تو غالب، مومن ذوق اور دوسرے استادوں نے کہا کہ اب تک جو اندازِ بیان رائج تھا، اس کی آخری گھڑی آگئی۔ ہم سب کو اب اسی نئے رنگ میں کہنا ہے۔ شیفتہ ایسا اہلِ نظر ایسا مرعوب ہوا کہ بمقابلہ آتش کے ناسخ کے یہاں اسے زیادہ نشتر نظر آئے۔

    بحیثیت ادبی ڈکٹیٹر کے تو ناسخ کا ثانی کوئی ہوا ہی نہیں۔ اور اب سو برس پہلے کے مغرور ہندوستان سے کسی کو خاطر میں نہ لانے والے لکھنؤ سے کمزور ہستیوں کی گت بنا دینے والے لکھنؤ سے اپنا لوہا منوا لینا، جیسا میں کہہ چکا ہوں کہ بڑی ٹھوس شخصیت کا کام تھا۔ اب بحیثیت شاعر کے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے— کہ وہ نہایت ثقیل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

    خیر یہ تو صحیح ہے کہ ناسخ نے غزل کو نہ غزل رکھا نہ قصیدہ رکھا بلکہ ایک معجون مرکب بنا دیا۔ لیکن اس کے اشعار کی بلند آہنگی انداز بیان کی تکمیل، بندش کی چستی، مصرعوں کا کس بل اور زور وہ چیزیں ہیں جو اس پہلوانِ سخن کے 1297 ڈنڈ کا اثر اس کی شاعری میں بھی نمایاں کر رہے ہیں۔ اس کے معنی اور مفہوم کو آپ سراسر تصنع کہیں، لیکن جہاں تک منضبط اسلوب بیان کا تعلق ہے، ناسخ کے احسان سے اور تو اور غالب، ذوق، مومن آتش اور ناسخ کے بعد کے اردو زبان کے تمام شعراء گراں بار ہیں۔

    یہ بات ہمیشہ صیغہ راز میں رہے گی کہ غالب نے جو ایک بہت بڑا حصہ اپنے اردو دیوان کا منسوخ کر دیا—اس نظم و نسخ میں دیوانِ ناسخ کا بھی فیصلہ کن اثر پڑا تھا یا نہیں؟ لیکن مصحفی، انشاء، جرأت کی زبان تو دور رہی، کیا زبان کا جو اسلوب آج ہمارا جزوِ دماغ ہو چکا ہے وہ اسلوب، وہ اندازِ زبان غالب مومن اور ذوق کے مروجہ دواوین سے مرتب ہو سکتا ہے؟ غالباً نہیں۔ یہ تو ہوا زبان پر ناسخ کا عالمگیر اور مستقل اثر، اب رہی ناسخ کی شاعری سوا اس کے محاسن و معائب کچھ تو عرض کیے ہی جا چکے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی کہہ دوں کے باوجود تضع اور مبالغہ کے اور باوجود آج سے سو برس پہلے کا لکھنوی شاعر ہوتے ہوئے بھی ابتذال سے جتنا ناسخ کا کلام پاک ہے اُتنا آتش کا بھی نہیں۔ تصنع اور خارجیت اس میں شک نہیں ناسخ کے یہاں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں، لیکن ناسخ کے اندازِ بیان میں جو صفات ہیں وہ کامیاب داخلی شاعری کے لیے کہاں تک کارآمد ہو سکتے ہیں یا وہ داخلی شاعری کی جھلک کہاں تک دکھا سکتے ہیں۔ اس پر شاید بہت کم غور ہمارے نقادوں نے کیا ہے۔

    شب فرقت میں شمع کا کیا ذکر
    زندگی کا چراغ بھی گل ہے

    رو ٹھے ہوئے تھے آپ کئی دن سے من گئے
    بگڑے ہوئے تمام مرے کام بن گئے

    شبِ فراق گئی، روزِ وصل آ پہنچا
    طلوعِ صبح ہے عالم تمام روشن ہے

    جنوں پسند مجھے چھاؤں ہے ببولوں کی
    عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی

    ایسے اشعار کہنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ اشعار ہیں جنھیں میر، غالب اور اقبال بھی اپنے مجموعے میں شامل کرنا فخر سمجھتے۔ ناسخ اگر چاہتا تو ایسے اشعار کی ایک بہت بڑی تعداد کہہ ڈالتا، لیکن وہ آیا تھا زبان کو سنوارنے، صرف زبان کا ہو کر رہ گیا اور شاعری کو بھول گیا۔

    (شاعر اور نقاد فراق گورکھپوری کے مضمون سے اقتباسات)

  • ایم ڈی تاثیر کے کمرے کا نقشہ

    ایم ڈی تاثیر کے کمرے کا نقشہ

    بچپن کے بعد میں تاثیر سے دوبارہ ملا تو 1930ء کے دن تھے۔ یہ وہ دن تھے جب تاثیر صاحب بارود خانے والے کمرے میں براجتے تھے۔

    اس کمرے کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی میز اور اس کے پیھے ایک کرسی خود ان کے لیے مخصوص تھی۔ کمرے میں اِدھر اُدھر، زیادہ تر کتابوں اور تصویروں کے لیے اور کم تَر ملاقاتیوں کے لیے، نشست کا انتظام تھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تاثیر صاحب ملاقاتیوں کی آمد سے خوش نہ ہوتے تھے۔ لیکن کمرے کا مجموعی نقشہ ایسا ضرور تھا کہ کتابیں اور تصویریں اس پر چھائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

    یہاں تاثیر سے میری ملاقاتیں میرے دوست ممتاز حسن کی رفاقت کے سہارے شروع ہوئیں۔ بالعموم ہم دونوں مل کر تاثیر کے پاس جاتے اور گھنٹوں بیٹھتے تھے۔ ہمارے لیے یہاں سب سے بڑی کشش یقیناً تاثیر صاحب کی بذلہ سنجی اور ذہانت تھی، لیکن کچھ اور چیزیں بھی ہمیں بار بار اور کشاں کشاں یہاں لاتی تھیں۔ اس کمرے میں چغتائی کی تصویریں کثرت سے ملتی تھیں۔ یہاں مغربی موسیقی کے لاجواب ریکارڈ سننے میں آتے تھے۔ لاہور کے ادیبوں سے ملاقات ہوتی تھی۔ کبھی کبھی کوئی ”لذیذ“ کتاب، مثلاً فرینک ہیرس کی خود نوشت سوانح عمری، پڑھنے کو مل جاتی تھی۔

    اس ہنگامے کے درمیان تاثیر صاحب فراست و ظرافت اور فراغت و عیش کا دیوتا بنے بیٹھے رہتے تھے۔ یہیں وہ چونے منڈی کے چٹپٹے کباب اور بیٹہوون کے آسمانی سرود سے بیک وقت لذّت اندوز ہوتے تھے۔ ”نیرنگِ خیال“ کے اختراعات نے یہیں جنم لیا، ”کارواں“ یہیں سے جاری ہوا، دورِ شباب کی نظمیں اور تنقیدیں یہیں قلم بند ہوئیں، بے شمار کتابیں یہیں پڑھی گئیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقبل کے متعلق منصوبے یہیں باندھے گئے۔

    (تذکرہ از قلم پروفیسر حمید احمد خاں)