Tag: ادبی واقعات

  • ذکرِ رفتگاں: جب سالک صاحب نے علّامہ اقبال کو حدیث سنائی

    ذکرِ رفتگاں: جب سالک صاحب نے علّامہ اقبال کو حدیث سنائی

    اردو کے ممتاز ادیب، جیّد صحافی اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کاشمیری کے قلم سے کئی شخصایت کے تذکرے اور خاکے نکلے ہیں جس سے ان کے فن و افکار کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ شورش نے ایک مضمون عبدالمجید سالک جیسے ممتاز شاعر و ادیب اور صحافی پر بھی لکھا تھا۔ وہ اس میں سالک کی زبانی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جو آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    ادبی مضامین اور اقتباسات پڑھنے کے لیے کلک کریں
    شورش لکھتے ہیں: ہر شخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمر ہی سے جن لوگوں کے ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایۂ ناز تھے۔ اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی۔ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔

    سالک صاحب نے علامہ اقبال کے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہر چیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے، حضورؐ کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشکبار رہتے۔ ایک دفعہ میں نے حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلّی نے بچے دے رکھے تھے، صحابہؓ نے بلی کو مار کر بھگانا چاہا، حضورؐ نے منع کیا۔

    صحابہؓ نے عرض کی، مسجد خراب کرتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسے مارو نہیں، یہ ماں ہوگئی ہے۔ حدیث کا سننا تھا کہ علّامہ بے اختیار ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سالک صاحب کیا کہا؟ مارو نہیں ماں ہو گئی ہے، اللہ اللہ امومت کا یہ شرف؟ سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علّامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح روتے رہے، میں پریشان ہو گیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا، ورنہ جب تک وہ اشکبار رہے میں ہلا رہا گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی سرزد ہوگئی ہو۔

  • کبوتر کو بچانے کے لیے بادل خاں خود بندوق کے چھرّے کا ہدف بن گئے!

    کبوتر کو بچانے کے لیے بادل خاں خود بندوق کے چھرّے کا ہدف بن گئے!

    اردو شاعری میں ادا جعفری کو ان کے منفرد لب و لہجے اور شستہ طرزِ کلام کی بدولت امتیازی مقام حاصل ہوا۔ تہذیبی شائستگی اور معیار ان کے کلام کا بنیادی وصف ہے جس کے ساتھ ادا جعفری کی غزلیں اور نظمیں روایت و جدّت کا حسین امتزاج ہیں۔

    فنونِ لطیفہ اور اردو ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ادا جعفری بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ان کے شعری مجموعوں کے علاوہ 1995ء میں ایک خودنوشت بھی بعنوان "جو رہی سو بے خبری رہی” شایع ہوئی تھی جس میں انھوں نے اپنے ننھیال کے ایک پرانے اور وفادار نوکر کا تذکرہ کیا ہے جن کا نام بادل خاں تھا۔ ادا جعفری نے اُنھیں ایک ذمہ دار، اصولوں کا پابند اور بامروّت شخص بتایا ہے۔ خودنوشت سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    بدایوں کے شب و روز کی یاد کے ساتھ بادل خاں کا ہیولا بھی سامنے آ جاتا ہے۔ بادل خاں چھوٹی حویلی اور بڑی حویلی کے باورچی خانوں کے نگران اعلیٰ تھے۔

    جب میں نے انہیں دیکھا بوڑھے ہو پہلے تھے۔ ڈھکتا ہوا رنگ۔ لحیم شحیم۔ اودھ کے رہنے والے تھے۔ بیٹے سے کسی بات پر ناراض ہو کر آئے تھے اور پھر مڑ کر نہیں گئے۔ بیٹا کئی بار منانے کے لیے آیا لیکن وہ اس کا سامنا نہیں کرتے۔ جیسے ہی اطلاع ملتی گھر کے کسی کونے کھدرے میں ایسے روپوش ہوتے کہ ڈھونڈے نہ ملتے۔ تنخواہ البتہ ہر مہینے بڑی پابندی سے پوتی پوتوں کے لیے بھیج دیتے تھے۔

    عجیب و غریب زبان بولتے تھے جسے لکنت بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بعض حروف کی صحیح ادائیگی سے معذور تھے لیکن بولتے فراٹے سے تھے۔ کوئی نیا آدمی ان کی بات نہیں سمجھ سکتا تھا۔ گھر میں اتنے عرصے سے تھے کہ مطلب بہرحال سب کو سمجھا دیتے۔

    غلّہ کی کوٹھری کے انچارج تھے۔ ہر صبح چاول، دالیں، آٹا، گھی، ترازو میں تول کر پکانے کے لیے دیتے۔ روٹی پکانے والی سے خاص طور پر لڑائی رہتی۔ کیا مجال کہ وہ مقررہ وزن سے چٹکی بھر زیادہ آٹا ترازو کے پلڑے میں ڈال سکے۔ کھانا تیار ہو جاتا تو ہانڈیوں کے ڈھکن اتار کر معائنہ کرنا بھی ضروری سمجھتے۔ روٹی کا کٹور دان بھی کھول کر ضرور دیکھتے۔

    گھٹنوں کے نیچے کمر بند سے بندھا ہوا چابیوں کا وزنی گچھا لٹکا رہتا تھا۔ غلّہ کی کوٹھڑی میں ایک تالا پڑتا جس کی ظاہر ہے کہ ایک ہی چابی ہو گی لیکن نہ جانے کہاں کہاں سے ان گنت چابیاں جمع کر رکھی تھیں جو اُن کی پوشاک کا حصہ بن چکی تھیں۔

    دیگلچیوں کے معائنے کے دوران میں خاموش رہنا گوارا نہیں تھا۔ گھر کے سب ملازم پرانے تھے۔ وفادار بھی اور ایمان دار بھی۔ لیکن ان کی کسی نہ کسی حرکت سے بادل خاں کو ہمیشہ چوری کا ثبوت ملتا رہتا تھا۔ کبھی خود ہی کہہ سن کر خاموش ہو جاتے، کبھی مالکوں تک رپورٹ پہنچانا ضروری سمجھتے۔ مجرم کو قرار واقعی سزا نہ ملتی تو لاکھ کے گھر کو خاک کرنے کے ملال کا اظہار برملا کرتے۔ انہیں گھر کی خواتین کے احساسِ ذمہ داری سے بڑے شکوے تھے۔

    ظاہر ہے کہ جس لہجے اور جن الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے اس کا نتیجہ اور جواب ہمیشہ زیرِ لب تبسم ہوتا تھا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ بیبیوں کا احترام بھی لازم تھا۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے کبھی کوئی ملازمہ یا ملازم بد دل نہیں ہوا نہ کسی نے کبھی اس کی شکایت کی۔ جس کی بڑی وجہ ان کی غرابتِ گفتار تھی۔

    نماز کے سخت پابند تھے اور ہمیشہ بلند آواز سے پڑھتے۔ عربی الفاظ کی قرأت ایسی کہ سننے والے کو روزِ قیامت بھی یاد آتا اور ہنسی روکنا بھی دشوار ہوتا۔

    حویلیوں میں زندگی رواں دواں تھی اور بادل خان کی موجودگی سے خاصی بشاش بھی کہ ایک غیر معمولی واقعہ ظہور پذیر ہوا۔

    ان دنوں نانا نے صدقی کو چھرّے والی چھوٹی سی بندوق خرید کر دی تھی اور اب ننھّا شکاری تھا اور اس کا اشتیاق۔ سارا سارا دن نشانہ لگانے کی مشق جاری رہتی اور شکار کی تلاش بھی۔ مگر کسی چڑیا یا کوّے نے اس شوقِ بے پایاں کی پذیرائی معقول اور معروف طریقے سے نہیں کی۔ ادھر صدقی نشانہ باندھتے ادھر پرندہ مائلِ پرواز ہو جاتا۔ ایک دن سامنے کبوتر تھا۔ بادل خاں ادھر سے گزرے اور ٹھٹک گئے۔ اپنی زبان میں جو ہم لوگ سمجھ لیتے تھے، کہنے لگے۔ کبوتر کو مارنا جائز نہیں ہے، کیونکہ کبوتر روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ انہیں کسی حاجی نے بتایا تھا۔

    آخر بچوں کی ضد کے آگے کبوتر کو بچانے کے لیے وہ خود ہدف بننے پر تیار ہو گئے۔ دیوار کی طرف منھ کر کے کھڑے ہوئے اور اپنی پیٹھ برہنہ کر دی۔ اب یہ سوچ تھی کہ پیٹھ کے کس حصے پر نشانہ آزمایا جائے۔ عین اس وقت جب اس کا فیصلہ ہو گیا بادل خاں نے مڑ کر تاخیر کا سبب جاننا چاہا۔ چھرّا بندوق کی نالی سے آزاد ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھ کے نیچے پیوست ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ہم سب تماشائیوں کا بھی خون خشک ہو گیا کہ اب نانا کو علم ہو گا اور خیر نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ نانا نے ان کے چہرے پر پٹی بندھی دیکھی اور سبب پوچھا تو انہوں نے اپنا پیر پھسلنے اور کسی گستاخ اینٹ پتّھر کے بارے میں اتنی طویل تقریر کی کہ گھبرا کر نانا نے کچھ سمجھنے یا ہمدردی کرنے کی کوشش ہی ترک کر دی۔ بندوق کا چھرّا ان کے چہرے کو زخمی کر گیا تھا۔

    زخم کے معالج وہ خود ہی تھے۔ چنانچہ بخار آگیا اور ایسا کہ کئی دن پلنگ پر پڑے رہے۔ گھر والوں نے ان کا علاج تو کروایا لیکن ایک فروگزاشت ایسی ہوئی جو بادل خاں کی شان کے خلاف تھی۔ ان کے آرام کے خیال سے گھر کی کسی بی بی نے غلّہ کی کوٹھڑی کی دوسری چابی چند دن کے لیے ایک پرانی ملازمہ کو دے دی۔ اس سانحہ کا انکشاف جس دن ان پر ہوا اسی رات وہ بغیر اطلاع ہمارے گھر سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔

  • عینی آپا کا پرس

    قرۃُ العین حیدر اردو ادب میں اپنے فکشن اور افسانہ نگاری کے سبب ممتاز اور بالخصوص ایک ادیبہ کی حیثیت سے انھیں ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ کی وجہ سے پاک و ہند میں‌ پذیرائی ملی۔ ان کے تخلیقی جوہر نے تاریخ اور تہذیب کو شاہکار بنا دیا ہے

    یہاں ہم اس نام وَر ادیبہ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ان کی تعلیم لکھنؤ سے لے کر کیمرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سارا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے مزاج میں خود سری (DOGMATISM) تھی۔

    ’’بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہو جاتی تھیں۔ انٹرویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘(دہلی) کے دفتر میں وہ محوِ گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خوش کلامی کو بریک سا لگ گیا اور سخت ناراضی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔

    کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں، جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رخِ زیبا سنوارنے لگیں۔ تھوڑی سی لپ اسٹک بھی لگائی، تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا، اب تصویر کھینچیے۔‘‘

    (رؤف خیر، ماہ نامہ ایوانِ اردو 2008ء)

  • جب محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی!

    جب محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی!

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔ انھوں نے اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے کوششوں میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بہت ساتھ دیا اور ان کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

    وہ بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    کیفی دہلوی ایک بار لکھنو گئے تو ان کی اعزاز میں محفل شعر و سخن سجائی گئی۔ حامد علی خان بیرسٹر ایٹ لاء شعر و سخن کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ وہ بھی محفل میں موجود تھے۔ ان سے کلام پیش کرنے کی فرمائش کی گئی تو کیفی دہلوی کے کان کے پاس جا کر یہ شعر کہا:

    اکہتر، بہتّر، تہتر، چوہتر
    پچھتر، چھہتر، ستتّر، اٹھتّر

    اس مذاق پر کیفی دہلوی نے خوش دلی سے داد دی۔ آخر میں جب کیفی صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو وہ بیرسٹر حامد علی خان کے قریب گئے اور یہ شعر سنایا :

    اکیاسی، بیاسی، تراسی، چوراسی
    پچاسی، چھیاسی، ستاسی، اٹھاسی

    شعرا اور سامعین نے یہ سنا تو خوب ہنسے۔ محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی اور اردو ادبی تذکروں میں‌ یہ لطیفہ زندہ رہ گیا۔

  • شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شیخ علی حزیں اور رفیع سودا کی ملاقات

    شعر و سخن کی دنیا میں مرزا رفیع سودا کو ان کے قصائد اور شہر آشوب کی وجہ سے خوب شہرت ملی۔ انھوں‌ نے اردو شاعری کی محبوب صنف غزل میں‌ بھی زور مارا، لیکن بعض ناقدین کہتے ہیں کہ پیچیدہ اور مشکل زمینوں کے ساتھ ان کی غزل پر جو رنگ غالب تھا، اس نے ہم عصروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت و مرتبہ گھٹایا ہے، لیکن ان کی کچھ غزلوں کے اشعار مشہور بھی ہیں۔ اس ضمن میں‌ یہ واقعہ باذوق قارئین کی دل چسپی کا باعث ہو گا۔

    فخرِ شعرائے ایران، شیخ علی حزیں ہندوستان آئے اور پوچھا! شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحبِ کمال ہے؟ لوگوں نے سودا کا نام لیا۔ سودا نے سنا تو خود ملاقات کو پہنچ گئے۔ شیخ صاحب کی نازک مزاجی اور عالی دماغی مشہور تھی۔ سودا سے کلام سنانے کو کہا تو انھوں‌ نے اپنا یہ شعر سنایا۔

    ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
    تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں

    شیخ نے شعر سنا اور پوچھا کہ تڑپے کا معنیٰ کیا ہے۔ سودا نے جواب میں‌ کہا کہ ہند میں ’طپیدن‘ کو تڑپنا کہتے ہیں۔ شیخ نے ان سے دوبارہ شعر سنا اور زانو پر ہاتھ مارکر کہا! مرزا رفیع سودا، تم نے قیامت کردی۔ ایک مرغ قبلۂ نماز باقی تھا، تم نے تو اسے بھی نہ چھوڑا۔ یہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور بغل گیر ہوکر ساتھ بٹھا لیا۔

    1713 کو مغل دور میں‌ پیدا ہونے والے مرزا رفیع‌ سود 1781 میں‌ راہی ملکِ عدم ہوئے تھے۔

  • طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    میاں مصطفیٰ باقر کے مرنے کے بعد ان کے اسکول کا رزلٹ آیا۔

    آٹھویں کلاس میں فرسٹ پاس ہوئے تھے۔ ہیضے کی وبا میں ابھی کمی نہیں آئی تھی۔

    بھتیجے ممتاز حیدر تو اللہ کے فضل سے اچھے ہوگئے، لیکن اب بھانجے عثمان حیدر کو کالرا ہوگیا۔ ماموں ممانی نے متوحش ہوکر بار بار اُن کے ناخن دیکھنا شروع کیے۔ فوراً گاڑی بھیج کر جھوائی ٹولے کے نامی طبیب حکیم عبدالوالی کو بلوایا۔

    حکیم صاحب نے کہا حالت تشویش ناک نہیں۔ ان کا نسخہ بندھوایا گیا۔ دوا ماموں ممانی وقت پر خود کھلاتے رہے۔

    اسی ہفتے علامہ اقبال مصطفیٰ باقر کی تعزیت کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ رات کو اس ہوا دار برآمدے میں ان کا پلنگ بچھتا جہاں عثمان حیدر سوتے تھے۔ دن میں دو چار بار عثمان حیدر کے کمرے میں جاکر علامہ ان کی مزاج پرسی کرتے۔

    ڈاکٹر اقبال کو لکھنؤ آئے دو تین روز ہوئے تھے کہ علی محمد خاں راجا محمود آباد نے اُن کی زبردست دعوت کی۔

    وہاں خوب ڈٹ کر شاعرِ مشرق نے لکھنؤ کا مرغّن نوابی ماحضر تناول فرمایا۔ رات کے گیارہ بجے ہلٹن لین واپس آئے۔ کپڑے تبدیل کیے۔ برآمدے میں جاکر اپنے پلنگ پر سو رہے۔

    رات کے ڈھائی بجے جو اُن کے نالہ ہائے نیم شبی کا وقت تھا، افلاک سے جواب آنے کے بجائے پیٹ میں اٹھا زور کا درد۔ شدت کی مروڑ۔ سوئیٹ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا۔

    سارا گھر سورہا تھا۔ میزبانوں کو زحمت نہ دینے کے خیال سے چپکے لیٹے رہے۔ نزدیک پلنگ پر نو عمر عثمان حیدر بے خبر سورہے تھے۔ اقبال نے آہستہ سے اٹھ کر غسل خانے کا رخ کیا، وہاں سے تیسری بار لوٹ کر آئے۔

    برآمدے کی لائٹ جلائی۔ عثمان حیدر کے سرہانے میز پر حکیم عبدالوالی کی دوا کا قدّح رکھا تھا۔ آپ اس کی چوگنی خوراک پی گئے۔ پھر لیٹ رہے۔ پھر غسل خانے گئے۔ واپس آکر مزید دو خوراکیں نوشِ جان کیں۔

    کھٹر پٹر سے عثمان حیدر کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بستر کے کنارے بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری اور اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔

    مصطفیٰ باقر مرحوم کے ناخن نیلے پڑنے کا قصہ انھیں بتایا جا چکا تھا۔

    عثمان حیدر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ادب سے دریافت کیا۔ ”ڈاکٹر صاحب خیریت؟“
    بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ”مجھے بھی کالرا ہوگیا۔ جاکر سجّاد کو جگا دو۔“

    اس وقت پو پھٹ رہی تھی۔ باغ میں چڑیوں نے گنجارنا شروع کردیا تھا۔ بڑی خوش گوار ہوا چل رہی تھی اور بارش کی آمد آمد تھی۔ عثمان حیدر نے تیر کی طرح جاکر دوسرے برآمدے میں ماموں جان کو جگایا۔ اس وقت ڈاکٹر اقبال نیم جاں سے اپنے پلنگ پر لیٹ چکے تھے۔

    ماموں نے فوراً آکر منفردِ روزگار مہمان کی یہ حالت دیکھی۔ حواس باختہ سرپٹ پھاٹک کی طرف بھاگے۔

    لکھنؤ کا انگریز کرنل سول سرجن نزدیک ہی ایبٹ روڈ پر رہتا تھا۔ اس کو جاکر جگایا۔ کرنل بھاگم بھاگ ہلٹن لین پہنچا۔ انجکشن لگایا۔ مریض کی تسلی تشفی کی۔

    آدھ گھنٹے بعد علاّمہ پر غنودگی طاری ہوئی۔ کرنل نے نسخہ لکھا۔ مشتاق بیرہ حضرت گنج سے دوا بنوا کر لایا۔ دو گھنٹے بعد علامہ کو پھر اسہال شروع ہوگیا۔ اس وقت تک ڈرائیور آچکا تھا۔ وہ حکیم عبدالوالی کو لینے جھوائی ٹولہ گیا۔

    حکیم صاحب بوکھلائے ہوئے ہلٹن لین پہنچے۔ کرنل کی شیشی دیکھی۔ پھر نسخہ لکھنے بیٹھے۔

    علامہ نے تکیہ سے سَر اٹھا کر نسخہ ملاحظہ فرمایا۔ بولے، ”حکیم صاحب یہ دوائی تو میں پہلے ہی آدھی بوتل پی چکا ہوں۔“

    حکیم صاحب ہکّا بکّا اقبال کو دیکھنے لگے۔ عثمان حیدر والی بوتل اٹھائی۔ اس میں پوری چھے خوراکیں کم تھیں۔

    شاعر مشرق نے بھولپن سے فرمایا، ”حکیم صاحب بات یہ ہوئی کہ میں نے سوچا یہ لڑکا کم عمر ہے۔ اس کی خوراک سے چار گنا زیادہ مجھے کھانی چاہیے، جبھی فائدہ ہوگا۔“

    حکیم عبدالوالی نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ”ڈاکٹر صاحب آپ واقعی فلسفی ہیں۔ خدا نے بڑی خیریت کی۔ اگر دو ایک خوراکیں اور پی ہوتیں، لینے کے دینے پڑجاتے۔“

    شام تک علّامہ کی حالت سنبھل گئی، لیکن ان کی علالت کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ہلٹن لین میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ راجہ صاحب محمود آباد، مشیر حسین قدوائی، جسٹس سمیع اللہ بیگ، سید وزیر حسن صبح شام آکر مزاج پرسی کرتے۔ حکیم عبدالوالی اور کرنل روزانہ آیا کرتے۔

    پانچویں دن راجہ محمود آباد نے فرسٹ کلاس کا درجہ ریزور کروا کے دو ملازموں کے ساتھ علامہ اقبال کو لاہور روانہ کیا۔

    (قرۃ العین حیدر کی کتاب ”کارِ جہاں دراز ہے“ سے انتخاب)