Tag: ادب اطفال

  • ایک سچا افسانہ

    ایک سچا افسانہ

    بیگم ہُرمُزی جلیل قدوائی پاکستان کے ادب اطفال میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں جن تحریر کردہ یہ کہانی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے اوصاف و کردار سے متعلق ہے۔ اس کہانی کا مقصد بچوں کی اخلاقی تربیت اور ان میں انسان دوستی کا جذبہ پروان چڑھانا ہے۔

    اب سے کوئی پانچ سو برس پہلے کا ذکر ہے کہ ہند دستان پر پہلا مغل بادشاہ بابر حکومت کرتا تھا۔ بابر کے بہت سے قصے مشہور ہیں۔ جس وقت اس کی عمر بارہ سال کی تھی اُس وقت سے اُسے ایک چھوٹی سی سلطنت فرغنہ کی حکومت سنبھالنی پڑی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس چھوٹی ریاست پر حکومت کرتے کرتے کابل کی حکومت اور بعد میں ہندوستان جیسی بڑی سلطنت کا مالک بن گیا۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کم عمری میں وہ اس لائق کیسے ہو گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی محنت اور دیانت داری کی وجہ سے اتنی ترقی کر گیا کیوں کہ اللہ میاں بھی ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جن میں کسی کام کی سچی لگن ہوتی ہے اور جو محنت سے جی نہیں چراتے۔

    باہر کہنے کو اتنا بڑا شہنشاہ تھا لیکن وہ اور بادشاہوں کی طرح عیش و آرام میں وقت نہیں ضائع کرنا تھا ۔ وہ حکومت کے کاموں سے فرصت پاکر ہمارے تمھارے جیسے کپڑے پہن کر گلی کوچوں اور بازاروں میں گشت کیا کرتا تھا۔ اگر وہ شاہی لباس میں باہر نکلتا تو اپنی رعایا کے اصل حالات سے آگاہ نہیں ہو سکتا تھا۔

    ایک روز بابر سادہ لباس میں اپنے گھوڑے پر گشت کو نکلا۔ ایک دم بازار میں شور اٹھا اور لوگ جیسے اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ دکان داروں نے دکانیں بند کرنا شروع کر دیں۔ ان کے چہرے خوف و دہشت سے پہلے پڑ گئے۔

    بابر نے بھگدڑ دیکھ کر اپنے گھوڑے کو روکا اور لوگوں سے پوچھا کہ اس شور کی کیا وجہ ہے۔ معلوم ہوا کہ شاہی فیل خانے سے ایک ہاتھی زنجیر تڑا کر نکل آیا ہے اور اس کے ڈر سے لوگ بھاگ رہے ہیں۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ سامنے والی سڑک پر ایک بچہ جس نے ابھی بیٹھنا بھی نہیں سیکھا تھا پڑا ہے۔

    بابر نے تیزی سے اپنے گھوڑے کو بچے کی طرف موڑ دیا۔ اُس کے پاس پہنچ کر جھٹ نیچے اترا اور بچے کو اپنی گود میں اٹھا کر وہاں سے گھوڑا دوڑا دیا۔ بابر اور ہاتھی کے درمیان کوئی بیس قدم کا فاصلہ رہ گیا ہوگا۔ تمام لوگ اپنی چھتوں اور کھڑکیوں سے یہ خوفناک مگر دلیرانہ منظر دیکھ رہے تھے اور اس بہادر کی تعریف کر رہے تھے۔ مگر انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ان کا بادشاہ ہے۔ باہر اس بچے کو سینے سے چمٹائے اپنے محل میں پہنچا۔ بچہ میلی کچیلی حالت میں تھا۔ بابر نے اُسے غسل دلوایا۔ اس کے لئے صاف ستھرے کپڑے منگوائے جنھیں پہنا کر اسے دودھ پلوایا اور آرام سے نرم نرم بستر پر سلوا دیا۔ دوسرے دن بابر نے ایک شان دار دربار طلب کیا اور منادی کرا دی کہ خلقت کو آنے کی عام اجازت ہے، یعنی عور تیں مرد، امیر، غریب ، بوڑھے، بالے سب آئیں، اور ہوا بھی یہی کہ وقت مقررہ پر شہر کی تقریباً ساری رعایا دربار میں جمع ہو گئی۔ نقیب چوبدار وغیرہ ہر طرف کھڑے انھیں سنبھال رہے تھے۔ سب لوگ بڑے اشتیاق اور بے چینی سے منتظر تھے کہ کب بادشاہ سلامت تشریف لائیں اور کب وہ سب انھیں دیکھیں۔

    آخر وہ گھڑی بھی آگئی کہ بادشاہ سلامت اپنے سادے لباس میں اس بچے کو سینے سے لپٹا کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ تمام لوگ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرنے لگے کہ یا اللہ یہ کیسا سیدھا سادہ بادشاہ ہے اور یہ بچہ کون ہے۔ کچھ لوگ اس حادثے کے وقت بازار میں موجود تھے جنھوں نے اس شخص کو بچہ اٹھاتے دیکھا تھا، وہ پہچان گئے۔

    اتنے میں بادشاہ کے وزیر خاص نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے اُس بچے کو ہاتھوں میں اٹھا کر سب کو دکھایا اور سارا واقعہ بیان کیا کہ وہ بادشاہ کو کیسے ملا۔ پھر وزیر نے کہا کہ جس کسی کا کبھی بچہ ہو وہ اسے آکر لے جائے۔

    ایک غم زدہ عورت مجمع کو چیرتی پھاڑتی، روتی دھوتی ہزار دقّت سے تختِ شاہی تک آئی اور بادشاہ کے قدموں میں گر پڑی۔ پھر وہ خوشی کے آنسو پوچھتی ہوئی بچہ کی طرف لپکی۔ اُس نے اٹھا کر اس کا منہ چوما ۔ خوب سا پیار کیا اور سینے سے چمٹا کر بادشاہ کو دعائیں دیتی ہوئی اپنی جگہ واپس آگئی۔

    اب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ بچہ اس مہترانی کا تھا جو اس حادثے سے پہلے اسے سڑک کے کنارے لٹا کر صفائی کرنے چلی گئی تھی۔ جب وہ اپنا کام ختم کر کے واپس آئی تو ہاتھی کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی تھی اور وہ بچے تک نہ پہنچ سکی۔ بہت سے لوگ بچے کے نزدیک تھے مگر وہ سب اپنی جان کے خوف سے چھپ گئے تھے۔ کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ کون ایک غریب بھنگن کے بچہ کو بچائے اور یہ کہ وہ اُس کو چھونے سے ناپاک ہو جائیں گے، بچے کو بے بس چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔

    بابر کو یہ معلوم تھا کہ بھنگی کے سوا کسی کا بچہ سڑک پر پڑا نظر نہیں آسکتا لیکن اُس نے امیری غریبی یا پاکی ناپاکی کیا بالکل خیال نہ کیا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بچے کو بچا لیا۔

    اب ہر بڑے چھوٹے امیر غریب کی زبان پر اپنے بادشاہ کی تعریف تھی۔ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ بھئی واہ کتنا نیک دل کیسا مہربان بادشاہ ہے۔ ایسے بادشاہ پر تو رعایا کو اپنی جان قربان کر دینا چاہیے۔ کسی کا اپنے بادشاہ کے دربار سے جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مگر جانا تو تھا ہی… تھوڑی دیر بعد سب اس کی تعریف کرتے ہوئے خوشی خوشی اپنے گھر واپس ہوئے۔

    اور مہترانی کا کچھ حال نہ پوچھو ۔ کتنی خوش ، کتنی باغ باغ تھی وہ ۔ یوں سمجھو کہ اُس کا کھویا ہوا لحل مل گیا ۔ اس کا تو رواں رواں بادشاہ کو ہزاروں دعائیں دے رہا تھا۔

  • کچھوے کی عادت (ادبِ اطفال)

    کچھوے کی عادت (ادبِ اطفال)

    ایک جنگل میں بہت سارے جانور آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ جنگل کا ماحول بہت خوش گوار تھا اور جانوروں میں باہمی اتفاق اور قربت ایسی تھی کہ کسی ایک پر کوئی مصیبت پڑتی تو سب اس کا ساتھ دینے جمع ہو جاتے۔ جنگل میں حشرات الارض کی بھی کمی نہ تھی اور وہاں کچھوے بھی پائے جاتے تھے۔ اسی جنگل میں ایک بچھو اور کچھوا گہرے دوست بن گئے تھے۔ کچھوے کو قدرت نے خوبی دی ہے کہ وہ پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے ہیں، لہٰذا کچھوے کا جب تک دل چاہتا جنگل کی سیر کرتا رہتا اور پھر دریا میں اتر جاتا۔ بچھو اپنے دوست کچھوے کی اس زندگی پر رشک کرتا تھا۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اچھا، کچھوے اور بچھو‌ میں دوستی تو ہوگئی تھی، لیکن فطرت ان کی بہت الگ تھی۔ اکثر بڑے بزرگ کچھوے کو سمجھاتے تھے کہ دوستی اور میل جول برا نہیں اور جنگل کے سب جانور آخر کو آپس میں مل جل کر ہی رہتے ہیں، لیکن سب کی اپنی اپنی قوم اور نسل میں دوست بناتے ہیں۔ دوسرے جانوروں سے تعلق رکھنا الگ بات ہے مگر ان کے ساتھ دن رات گزارے نہیں جاسکتے۔ بزرگ کچھوے اس نوجوان کچھوے کو کہتے تھے کہ ہر جانور اپنی فطرت کے مطابق ہی عمل کرتا ہے۔ وہ اس سے باز نہیں‌ رہ سکتا۔ بچھو کی فطرت میں‌ ڈنک مارنا شامل ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ وہ برا نہیں مگر اپنی فطرت میں‌ ڈھلا ہوا ہے اور مجبور ہے۔ کچھوا اس بات کو سنی ان سنی کردیتا تھا۔

    ادھر بچھو کو دریا بہت پسند تھا اور وہ اس کی سیر کرنے کی خواہش رکھتا تھا لیکن تیرنا نہیں جانتا تھا اور ڈوبنے کے خوف سے پانی میں نہیں اترتا تھا۔ ایک دن اس نے کچھوے سے کہا: یار! ہمیں بھی کسی دن دریا کی سیر کراؤ۔

    کچھوے نے حیرانی سے کہا: “کیا تم تیرنا جانتے ہو؟“

    بچھو نے جواب دیا: ”اگر تیرنا جانتا ہوتا تو تمھیں کیوں کہتا۔“

    کچھوا بولا: ”پھر تم دریا کی سیر کیسے کر سکتے ہو۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم دریا کا نظارہ کنارے ہی سے کر لو۔“

    بچھو نے کہا: ” میرے پاس ایک ترکیب ہے۔ کیوں نہ تم مجھے اپنی پیٹھ پر سوار کر لو اور اگر تم پانی کی سطح پر تیرتے رہو گے تو مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس طرح سے ہم دونوں ایک ساتھ دریا کی سیر کا لطف اٹھائیں گے۔

    کچھوے نے بچھو کی بات سے اتفاق کیا۔ وہ دونوں دریا کے کنارے پر پہنچے۔ کچھوے نے بچھو کو اپنی پیٹھ پر سوار کیا اور پانی میں اتر گیا۔ بچھو دریا کی سیر سے بہت خوش تھا اور کچھوا اپنے دوست کی خوشی میں خوش تھا۔

    دریا میں کچھ دور جانے کے بعد کچھوے نے اچانک اپنی پیٹھ پر کھٹ کھٹ کی آواز سنی۔ دراصل بچھو اپنے دوست کچھوے کی پیٹھ پر زور زور سے ڈنک مار رہا تھا۔ کچھوے نے جب دوبارہ وہی آواز سنی تو اس نے بچھو سے پوچھا: یہ آواز کیسی ہے؟ بچھو نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کسی شے کو ڈنک مارنا میری عادت ہے۔ اس لیے تمھاری پیٹھ پر ڈنک مار رہا ہوں ۔ کچھوے نے اسے سمجھایا اور باز رہنے کے لیے کہا لیکن وہ اپنی حرکت سے باز نہ آیا۔

    کچھوے کو اپنے بڑوں کی بات یاد آنے لگی۔ کئی بار سمجھانے کے بعد آخرکار تنگ آکر کچھوے نے پانی میں غوطے لگانا شروع کر دیے۔ بچھو جب ایک دو مرتبہ پانی میں‌ ڈوبا تو پریشان ہوگیا اور کچھوے سے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس طرح سے تو میں مر جاؤں گا ۔ کچھوے نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ پانی میں غو طے لگانا میری عادت ہے اور میں اپنی عادت سے باز نہیں رہ سکتا۔“ اگلے ہی لمحے بچھو پانی میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے دریا کی تہ میں جا پہنچا۔ اس طرح بچھو اور ان کی دونوں کی دوستی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • اکیلے نہیں! (ایک فلپائنی کہانی)

    اکیلے نہیں! (ایک فلپائنی کہانی)

    آپ نے کئی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھی ہوں گی جو اچھی تربیت کا ایک ذریعہ ہیں اور ابتدائی عمر میں‌ بچّوں کو بہت کچھ سکھاتی ہیں۔

    یہ کہانیاں عام طور پر بچّوں کی اخلاقی تربیت اور تفریحِ طبع کا سامان کرتی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے بچّوں کو ہنسی مذاق اور کھیل کھیل سیکھنے اور کئی باتوں کو سمجھنے کا موقع دیا ہے۔ یہ کہانی ان بچّوں کے لیے ہے جن کا خاندان ایک نئے ملک میں بسنے جارہا ہو اور اپنا وطن، اپنے عزیزوں اور دوستوں سے دور ہوجانے کا سوچ کر بچّے اداس ہوں۔ یہ درست ہے نئے ماحول اور لوگوں کے درمیان کسی کو بھی گھلنے ملنے میں مشکل پیش آتی ہے، لیکن بچّے عام طور پر شرمیلے ہوتے ہیں اور انھیں عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا تو وہ گھبراہٹ بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنے والدین پر بھروسہ کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا بہت خوب‌ صورت لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ جہاں بھی جائیں گے انھیں بہت مخلص لوگ اور اچھے اچھے دوست مل سکتے ہیں۔

    کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

    ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔‘‘

    نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

    مزید کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہو گا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ’’میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔‘‘

    اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب وہ انگلینڈ میں اسکول شروع کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

    ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا۔‘‘ ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچا جب خاندان نے جانا تھا۔ ’’میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!‘‘

    اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

    سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

    جب یہ خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھر جیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

    پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

    نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

    ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔ اس کی ماں نے کہا، ’’آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہو گا۔‘‘

    لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

    جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

    ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک استانی سے ہوئی۔ استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آ کر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

    صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

    جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

    دوستانہ بنے چاولتھے نے کہا، ’’ڈیلیسے اندر آؤ۔ آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔‘‘

    نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

    ’’یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

    دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

    اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

  • دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    یہ بہت پرانی کہانی ہے جس میں‌ ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے سمندر پار، بہت دور کسی سلطنت کا بادشاہ طبیعتاً زود رنج اور مزاجاً جارح تھا۔ اپنی رائے سے اختلاف اسے ناپسند تھا۔ اگر کسی وزیر، درباری اور خادم سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی تو سخت سزا دینے سے نہ چوکتا۔

    بادشاہ اگرچہ ظالم نہیں تھا، مگر اپنے ریاستی امور اور اپنی ذات سے متعلق کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رعایت اور نرمی برتنے سے درباری اس پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بات پر بگڑتا تو ایسا بگڑتا کہ لوگوں کے سَر ان کے شانوں سے اتروانے میں‌ ذرا دیر نہ کرتا۔ بادشاہ نے دس جنگلی کتّے بھی پال رکھے تھے۔ ان خونخوار کتّوں کو خاص تربیت دی گئی تھی اور وہ بادشاہ کے حکم پر اپنے سامنے پھینکے گئے آدمی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ ظاہر ہے ایک مجبور اور بے بس انسان ان کتّوں کے آگے کیا کرسکتا ہوگا۔ کتّوں کے نوکیلے دانت اور پنجوں سے گھائل ہونے کے بعد موت ایسے آدمی کا مقدر بن جاتی۔ بادشاہ کے خادمین اور نوکروں سب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھیں اور بادشاہ کے روبرو حاضر باش رہیں تاکہ کسی موقع پر غلطی سے بچ سکیں۔ وہ خوب سوچ سمجھ کر کسی بات کا جواب دیتے اور ہمیشہ بادشاہ کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔

    مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے
    ایک روز کسی نوکر کی شامت آئی اور اس نے بادشاہ کا کوئی کام انجام دیتے ہوئے کسی بات پر اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی مگر بادشاہ کو نوکر کے خیالات نے برافروختہ کردیا۔ اس نے کچھ کہے سنے بغیر بیک لحظہ نوکر کو کتّوں کے باڑے میں پھینک دینے کا حکم جاری کردیا۔ بادشاہ کے کمرے کے باہر موجود سپاہی آواز سن کر دوڑے آئے اور نوکر کو پکڑ لیا۔ نوکر کی رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ موت اس کے سَر پر تھی۔ مگر اس نے ہمّت کرکے بادشاہ کو مخاطب کیا اور اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا، ”حضور! میں نے دس سال آپ کی خدمت کی، آپ مجھ پر اتنا رحم ضرور کریں ان خونخوار کتوں کے سامنے پھینکنے سے پہلے دس دن کی مہلت دے دیں! بادشاہ کچھ سوچ کر اس پر رضامند ہوگیا۔ اب نوکر دس دن کے لیے آزاد تھا۔

    نوکر اسی روز کتّوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے پاس پہنچا اور اس سے سارا ماجرا بیان کر کے درخواست کی کہ وہ اگلے دس دنوں تک کتّوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے۔ کتّوں کا رکھوالا اس پر راضی ہو گیا۔ وہ معتوب نوکر روز باڑے میں جاتا اور کتّوں کو کھانا کھلاتا، ان کو نہلاتا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اپنے گھر لوٹ جاتا۔

    جب دس دن پورے ہوئے تو بادشاہ نے اس نوکر کو طلب کیا اور کہا کہ وہ سزا بھگتنے کو تیار ہوجائے۔ نوکر نے گردن جھکا کر تعظیم کی اور سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے۔ اسے کتّوں کے باڑے میں دھکیلا گیا تو وہاں موجود عملہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنگلی کتّے اس کے آگے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے گھوم رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ نوکر ان کے کتّوں کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا۔

    بادشاہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ بھی حیران ہوا اور بولا۔ ’’میرے ان خونخوار کتوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس آدمی کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں؟‘‘

    پہرے دار بادشاہ کو اس بارے میں کیا بتاتے۔ وہ لاعلم تھے کہ نوکر نے دس روزہ مہلت میں ان کتّوں کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ یہ بات صرف کتّوں کا رکھوالا اور چند دوسرے محافظ جانتے تھے۔ بہرحال، بادشاہ نے نوکر کو دربار میں طلب کیا اور اس بابت سوال کرنے پر نوکر نے بتایا، "حضور! جان کی امان پاؤں تو ایک خطا اور کی ہے، جو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے جو دس روز کی مہلت طلب کی تھی، اس میں ان کتوں کی خدمت کرتا رہا، اور آج جب ان کے سامنے مجھے پھینکا گیا تو یہ نتیجہ نکلا، وہ میری دس روزہ خدمت نہیں بھولے۔ میں نے پورے دس سال آپ کی خدمت کی اور ایک معمولی غلطی پر آپ نے مجھے موت کے منہ میں‌ ڈال دیا۔” نوکر کی اس جسارت پر درباری دم بخود رہ گئے اور خیال کیا کہ اب بادشاہ اس کے ساتھ نہایت برا سلوک کرے گا۔ ادھر بادشاہ اپنے اس پرانے خادم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ یک دم اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بادشاہ نوکر کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔

    سبق:‌ جب کسی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارا ہو تو اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر بھی کرنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ ظرفی بھی ہے اور تعلق کا تقاضا بھی۔ اگرغلطی سنگین ہو یا کسی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہو تب بھی ممکن ہو تو ایسا راستہ اختیار کریں جس کی اپنے تو ایک طرف دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔

  • بچوں کا ادب اور گزری ہوئی دہائیاں

    بچوں کا ادب اور گزری ہوئی دہائیاں

    ایک خیال یہ ہے کہ اردو میں بچّوں کے لیے ادب تخلیق نہیں کیا جارہا یا بہت کم لکھا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ سننے کو ملتی ہے کہ یہ تخلیقات کس معیار کی ہیں اور پھر کیا نثر اور نظم کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے ہم جدید دنیا کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں یا نہیں، یہ ایک بحث ہے ہے اور اس پر بات کرتے ہوئے ہمیں کئی دہائیوں کے اوراق الٹنا ہوں گے۔

    ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ بچّہ ہر چیز جاننا، سمجھنا اور سیکھنا چاہتا ہے۔ یہ اس کے سیکھنے کی جبلت کا تقاضا ہے۔ لیکن ابتدائی ادوارِ عمر کے بعد ہمیں اپنے تہذیبی رویے اور اپنی ثقافت کو بھی بچّوں میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کے لیے ہم ادب کا سہارا لیتے ہیں۔

    اگر بات کی جائے تقسیم سے قبل کے برصغیر کی تو نظیراکبرآبادی، سورج نرائن مہر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، حفیظ جالندھری، مولانا عبدالمجید سالک، اخترشیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت نے بچوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور معلومات افزا مضامین دل چسپ انداز میں لکھے تھے۔ ان میں سے کچھ اہلِ‌ قلم نے صرف شاعری جب کہ بعض نے اخلاقی اور دل چسپ کہانیاں، اصلاحی نظمیں اور معلوماتی مضامین بھی تحریر کیے۔

    ہمارے میرزا ادیب لکھتے ہیں کہ 1857ء کے بعد کا دور ایک اصلاحی دور تھا، ہماری تحریک آزادی ناکام ہوچکی تھی اور برصغیر کی تمام قومیں اپنی ساری توجہات اصلاح احوال پرمرکوز کر چکی تھیں۔ مصنفین معاشرے کے ذمے دار افراد ہونے کی حیثیت سے بچوں کی بہتر طور پر تربیت کرنا چاہتے تھے اس مقصد کو عملی صورت دینے کی خاطر وہ ایسی نظمیں لکھنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں پڑھ کر بچے نیک بنیں اور زندگی کی اچھی قدروں کو عزیز گردانیں، چنانچہ حکیم ایسوپ کی حکایتوں کے انداز میں کافی تعداد میں کہانیاں لکھی گئی تھیں، بعض کہانیوں کے آخر میں نتیجہ لکھا جاتا تھا، اس حصے میں مصنف اپنے پڑھنے والے بچوں سے مخاطب ہو کر اس اخلاقی سبق کو اجاگر کرتا تھا جو اس کی کہانی سے ملتا ہے یا باالفاظِ دیگر ملنا چاہیے۔

    جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو بڑوں کے ادب کے ساتھ ساتھ چھوٹوں کے ادب کی بھی ضرورت پیش آنی چاہیے تھی، اور پیش آئی، اس وقت پہلی ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ بچوں کے لیے ایسی کتابیں لکھی جائیں جنہیں پڑھ کر بچوں کو تحریک پاکستان، مقاصد پاکستان اور جدوجہد آزادی سے آشنا ہونے کا موقع ملے چنانچہ اس باب میں معلوماتی کتابیں بھی تصنیف ہوئیں اور ایسی کتابیں بھی جو تحریک پاکستان کے احوال و کوائف میں واضح کرتی ہیں، مثلاً زاہد حسین انجم کی ’’پاکستان‘‘ سید ہاشمی فرید آبادی کی ’’پاکستان کی پہلی کتاب، کلیم احمد کی پاکستانی تہذیب کی کہانی، زینت غلام عباس کی دیس ہمارا پاکستان، سید قاسم محمود کی قائد اعظم کا پیغام وغیرہ۔

    اب ہم آج کے دور میں دیکھیں تو بچّوں کا ادب بہت کم لکھا گیا اور یہ بہت معیاری بھی نہیں ہے۔ معروف ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر اسد اریب صاحب کا کہنا ہے کہ: ’’جو شاعری بچوں کے لئے اس وقت تخلیق کی جار ہی ہے وہ اخلاقی، مذہبی اور ملّی پروپیگنڈے کی شاعری ہے۔ اس میں بچّوں کی بھولی بھالی معصوم فطرت کی خواہشوں کی کوئی لہر وہر نہیں ملتی۔ نہ پرندے ہیں نہ طوطے، کوّے، بلبلیں نہ چوہے، بلیاں، چوزے اور بطخیں، نہ شرارتیں، شوخیاں اور تحیر ہے، نہ چہلیں۔‘‘

    ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بچّوں کا ادب کم تخلیق کیا گیا ہے جب کہ انسانیت کا مستقبل اور دنیا کی ترقی اب سائنس سے وابستہ ہے۔ اس پہلو پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    اب اگر ہم دہائیوں پیچھے چلے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں بچّوں کا اوّلین ماہانہ رسالہ پیسہ اخبار کے مدیر مولوی محبوب عالم نے مئی 1902ء میں شائع کیا تھا۔ جس کا نام تھا ’’بچوں کا اخبار۔‘‘ یہ کثیر الاشاعت ماہنامہ تھا۔ اس کے بعد جو رسالے نکلے ان میں تہذیبِ نسواں کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی (فاضل دیوبند) کا ’’پھول‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اشاعت کا آغاز اکتوبر 1909ء میں لاہور سے ہوا۔ اس رسالے کو معروف ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔ ایک خوبصورت دیدہ زیب رسالہ جس سے حفیظ جالندھری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی وغیرہ کی وابستگی تھی۔ محترمہ بنت نذرالباقر، محمدی بیگم اور حجاب امتیاز علی بھی اس کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں۔ اس رسالہ کے قلم کاروں میں پطرس بخاری، محمد دین تاثیر، شوکت تھانوی اور اختر شیرانی جیسی قد آور شخصیتیں تھیں۔

    تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں بچّوں کے کئی رسالے جاری کیے گئے اور یہ تقریبا ہر گھر میں موجود ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہمارے گھروں سے اخبار و رسائل نکلتے چلے گئے اور آج ہم نہ صرف کتب بینی اور مطالعے کے رجحان کو خطرناک حد تک کم ہوجانے یا نوجوانوں کی کتاب سے دوری کا شکوہ کررہے ہیں بلکہ بچّوں کے قلم کار بھی اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ دوسرا بڑا سوال معیاری ادب کا بھی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بچوں نے اسکرین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے اور وہ ان رسائل کے قاری نہیں رہے جو کسی نہ کسی طور بازار میں اب بھی آ رہے ہیں۔

    اس طرف اہلِ‌ قلم اور قوم اور اپنے مستقبل سے مخلص افراد کو ہی نہیں حکومت کو بھی توجہ دینا چاہیے۔ حکومتی سرپرستی میں بچّوں کے لیے معیاری ادب تخلیق کرکے اسے فروغ دیا جا سکتا ہے جو کہ بہت ضروری ہے۔

  • سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

    سڑک اور پگڈنڈی (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک گاؤں تھا۔ گاؤں کے قریب سے ایک سڑک گزرتی تھی جو گاؤں کو شہر سے جوڑتی تھی۔ سڑک پکی، ڈامر کی تھی۔ باقاعدہ پلان کر کے ماہر انجینئروں نے بنائی تھی۔ چھوٹی موٹریں، بیل گاڑیاں، تانگے، سائیکلیں سب اس پر سے گزرتی تھیں۔ سڑک کو اپنے کارآمد ہونے پر بہت غرور تھا۔

    سڑک کے پاس سے ایک پگڈنڈی بھی گزرتی تھی۔ پگڈنڈی سڑک کی طرح شاندار نہیں تھی۔ بس ایک اوبڑ کھابڑ راستہ تھا جس پر اسے گزر کر گاؤں والے اپنے اپنے گھروں یا کھیتوں میں جاتے، جنگل میں لکڑیاں توڑنے، مہوا چننے جاتے، اسے کسی نے باقاعدہ بنایا نہیں تھا۔ بس لوگ چلنے لگے، پگڈنڈی بنتی گئی۔ کافی آگے جاکر یہ پگڈنڈی چھوٹی چھوٹی اور کئی پگڈنڈیوں میں منقسم ہو جاتی تھی۔

    پگڈنڈی کہیں سڑک کے متوازی چلتی، کہیں اس سے دور چلی جاتی اور پھر گھوم گھام کر سڑک کے بازو سے چلنے لگتی۔ ایک روز مغرور سڑک نے اس سے کہا: ’’تم میرے ساتھ چلتی ہوئی بالکل اچھی نہیں لگتی، میں چوڑی کشادہ، کو لتار سے چمکتی ہوئی، تم پتلی، اوبڑکھابڑ، بے رنگ، بے چمک‘‘

    پگڈنڈی کیا کہتی، بات تو صحیح تھی۔ سڑک نے پھر کہا، ’’نہ جانے لوگ تمہیں کیوں پسند کرتے ہیں؟ منزل تک جانے کے لئے تمہارا سہارا لیتے ہیں۔‘‘

    پگڈنڈی نے خاموشی ہی مناسب سمجھی، کہتی بھی تو آخر کیا کہتی؟ اس کی خاموشی، سڑک کو اکھر گئی، تیز ہوکر بولی۔

    ’’میری بات کیا تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ آخر میرے آزو بازو تم جیسی مریل اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں کے جال کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    پگڈنڈی کو اپنی خاموشی توڑنی پڑی، بولی، ’’میری بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ گاؤں والے مجھے اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ پہلے ایک دو لوگ گزرتے تھے۔ اب تو میں دن رات مصروف رہتی ہوں۔ بغیر کسی منصوبہ کے میں وجود میں آ گئی۔‘‘

    ’’اور کیا؟ بغیر کسی منصوبے کے بنی ہو اسی لئے نہ خوبصورت ہو نہ چست درست۔ مجھے دیکھو سرکار نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر بڑی رقم خرچ کر کے مجھے بنایا ہے۔ پھر کیڑے مکوڑوں اور تمہاری طرح میں اپنے آپ نہیں بن گئی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئروں کے ہنر کی مثال ہوں میں۔ سیکڑوں کاریگروں کی محنت کا ثمر ہوں میں، ضرورت کے تحت بنی ہوں، سرکار کے خوابوں کی تعبیر ہوں میں۔‘‘

    ’’ضرورت کے تحت تو میں بھی بنی ہوں سڑک بہن۔‘‘ پگڈنڈی نے پہلی مرتبہ سڑک کی مخالفت کی۔ اب تک وہ اس کی لن ترانیاں خاموشی سے سنتی آئی تھی۔ ’’جہاں تم کام نہ آؤ وہاں میں کام آتی ہوں، اور مجھ سے کام لیا بھی جاتا ہے۔ جہاں تلوار کام نہ دے وہاں سوئی کام آتی ہے۔ میری ضرورت تھی اور رہے گی۔‘‘

    ’’کیا کہا تم نے؟‘‘ سڑک چراغ پا ہو کر بولی، ’’جہاں میں کام نہ آؤں وہاں تم کام آتی ہو؟ میری برابری کرنے چلی ہو؟ اپنی شکل تو دیکھو۔‘‘

    اسی وقت ایک بڑی لاری سڑک پر آکر رک گئی۔ دراصل سامنے سڑک پر ایک پل تھا جس کی مرمت کا کام چل رہا تھا اور وزنی ٹرکوں اور بسوں کی اس پل پر سے گزرنے کی ممانعت کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر لاری سے نیچے اترے، ان کے پیچھے تمام مسافر۔ دیکھتے دیکھتے تمام مسافروں نے پگڈنڈی کا رخ کیا۔ پگڈنڈی پل کے نیچے سے گزر کر پکی سڑک سے مل جاتی تھی۔ مسافروں کے نیچے اترتے ہی ڈرائیور لاری کو سنبھال کر پل کے پار لے گیا، مسافر پگڈنڈی سے ہو کر لاری تک پہنچے اور لاری آگے روانہ ہو گئی۔

    سڑک جو کچھ دیر پہلے بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہی تھی، ندامت سے بولی ’’بہن پگڈنڈی! مجھے معاف کر دو۔‘‘

    ’’سڑک بہن!‘‘ پگڈنڈی نے خوش دلی سے کہا۔ ’’اس میں معافی کی کیا بات ہے؟ کبھی کبھی معمولی سی بات سمجھ میں دیر سے آتی ہے۔ اس واقعہ نے یہ تو سمجھا دیا کہ پکی سڑک جہاں کام نہ آئے وہاں کچی اوبڑکھابڑ پگڈنڈی کیسے کام آتی ہے۔ اور وہاں میں اتنا ضرور کہوں گی کہ ہر جگہ ہر وقت بڑی بڑی ہی چیزیں کارآمد ثابت ہوں، یہ ضروری نہیں ہے۔ اپنی بساط بھر ہر کوئی دوسروں کے کام آنا چاہتا ہے۔ یہی زندگی ہے۔‘‘

    (مصنّف:‌ بانو سرتاج)

  • بڑا آدمی!

    بڑا آدمی!

    ایاز بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔ بڑا، بہت بڑا جیسے قائد اعظم جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ لیاقت علی خان، جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ اسی طرح اور بھی بڑے لوگ تھے اور جن کے بڑے بڑے کارنامے تھے، ایاز ان ہی لوگوں کی طرح بننا چاہتا تھا۔

    اپنا نام تاریخ میں درج کرانے کے لئے وہ خوب دل لگا کر پڑھتا۔ بڑی محنت سے اپنا سبق یاد کرتا۔ ہوم ورک بڑی پابندی سے کرتا۔ سوتے جاگتے کوئی نہ کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں دبی ہوتی۔ اس کی امی کہتیں بیٹا کھانا کھا لو۔ وہ جواب دیتا بھوک نہیں ہے، پڑھنے کے بعد کھا لوں گا۔ آپا کہتیں گڈے بھائی بازار سے سودا تو لا دو۔

    ایاز برا سا منہ بنا کر کہتا آپا! آپ دیکھ نہیں رہیں میں پڑھ رہا ہوں۔ کل میرا ٹیسٹ ہے۔ آپ کسی اور سے سودا منگوائیں۔ مجھے تو پڑھنے دیں۔ مجھے بڑا آدمی بننا ہے۔ محلے میں بھی کوئی اس سے کام کا کہتا تو وہ صاف منع کر دیتا۔

    اس کے امی ابو دیکھتے کہ ایاز راتوں کو اٹھ کر پڑھتا رہتا ہے اس کے ابو کبھی اس کو رات رات بھر جاگ کر پڑھنے سے منع کرتے تو وہ اپنے ابو سے کہتا’’ ابو جی بڑا آدمی بننے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم بھی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتے تھے۔ ان کے گھر والے بھی انہیں زیادہ پڑھنے سے ٹوکتے تھے لیکن وہ گھر والوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔ ‘‘

    ایاز کا یہ جواب سن کر اس کے ابو جان خاموش ہو جاتے سوچتے کہ یہ لڑکا تو ہاتھ سے گیا۔

    بڑے بھیا جب شام چار بجے کرکٹ کھیلنے جاتے تو اسے پکارتے، ’’ اے کتابی کیڑے، کچھ وقت کھیل کود کے لئے بھی نکال لیا کرو۔ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود بھی ضروری ہے۔ ‘‘ آپ کا شوق آپ ہی کو مبارک ہو۔ مجھے تو پڑھنے ہی دیں۔ ‘‘

    بڑے بھیا اپنے کاندھے پر بلا رکھ کر ایاز سے کہتے’’ منے میاں کام کے وقت کام پڑھائی کے وقت پڑھائی تازہ ہوا میں سانس لو۔ پڑھ پڑھ کے کیا حالت بنا لی تم نے اپنی؟

    بڑے بھیا کی یہ بات سن کر ایاز کہتا’’ بڑا آدمی بننے کے لئے وقت کی قدر کرنا پڑتی ہے اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، اپنا وقت کھیل کود میں برباد کر دیتے ہیں وہ کبھی بڑے آدمی نہیں بن سکتے۔ ‘‘

    بڑے بھیا بھی بڑے بھیا تھے، چین سے بیٹھنا ان کو آتا ہی نہ تھا، بھلا کس طرح ایاز کی بات مان لیتے، اپنا بلا ایک طرف پھینکتے اور پاؤں پسار کر اس کے پاس جا بیٹھتے اور کہتے دیکھو منے میاں، ہم وقت کی ناقدری نہیں کرتے نہ ہی کھیل کود میں اسے برباد کرتے ہیں۔ ہمارے ہر کام میں اعتدال ہوتا ہے بڑے بھیا ایک لمحے کو خاموش ہوتے پھر دوسرے ہی لمحے کہتے ’’ منے میاں ایک صحت مند جسم ہی میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ جسم تندرست ہو گا تو دماغ توانا ہو گا اور اگر جسم ہی کمزور ہو گا تو دماغ بھلا کس طرح توانا رہ سکے گا؟‘‘

    ’’ بھیا، آپ کو معلوم ہے میں روزانہ پیدل اسکول جاتا ہوں میری اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے، پھر مجھے کھیلنے کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

    ایاز بڑے بھیا کو لاجواب کر دیتا ہے۔ ’’لگتا ہے منے میاں تم نہیں سدھرو گے۔ ‘‘ بڑے بھیا بلا اٹھاتے اور ایاز کے سر کے بال بگاڑ کر کرکٹ کھیلنے چلے جاتے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ایاز کا پڑھائی اور بڑا آدمی بننے کا شوق انتہا کو پہنچتا جا رہا تھا۔ گھر والے اس کی ہر وقت کی پڑھائی سے جھنجھلا گئے تھے۔ پڑھائی کے چکر میں ایاز گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ بازار سے سودا سلف اور سبزی وغیرہ کے لئے بھی گھر والوں کو جانا پڑتا سوئی گیس اور بجلی کا بل بھی گھر والے ہی جمع کراتے، مہمان آ جاتے تو ان کی خاطر تواضع کیلئے سامان وغیرہ بھی گھر والے ہی لاتے۔ غرضیکہ وہ گھر والوں کے کسی کام کا نہیں تھا۔

    امی جان ایاز کے آگے پیچھے کھانا لے کر پھرا کرتیں ’’ چاند، سہ پہر کے تین بج گئے ہیں اب تو کھانا کھا لو۔ ‘‘ ’’ کھا لوں گا امی جان ابھی بھوک نہیں ہے ابھی تو مجھے پڑھنے دیں۔ ‘‘

    وقت پر نہ کھانے اور راتوں کو جاگ کر پڑھنے کی وجہ سے ایاز کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی وہ کمزور ہو گیا۔

    امتحانات قریب آ گئے تھے اور ایاز پڑھائی میں پوری طرح مصروف تھا۔ اپنا کمرہ بند کیے وہ پڑھائی میں مصروف رہتا، اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ چھوٹے ماموں لندن سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں اور انہیں لینے ائیر پورٹ جانا ہے۔ ایاز پڑھائی میں مصروف رہا اور ماموں گھر والوں کے ساتھ ائیر پورٹ سے گھر آ گئے۔ گھر میں سب خوش تھے۔ کئی سالوں بعد چھوٹے ماموں لندن سے واپس آئے تھے۔ ایاز کی امی جان تو بے حد خوش تھیں کئی سالوں کی دوری کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملی تھیں۔

    چھوٹے ماموں گھر والوں کی شفقت و محبت سے بے حد متاثر ہوئے کہنے لگے۔ ’’ لندن میں تو محبت و شفقت کو ترس گیا تھا۔ پھر وطن کی یاد دل کو بے چین رکھتی تھی اور پھر مجھے اپنے بھانجے اور بھانجیوں سے ملاقات کا ہر وقت خیال رہتا تھا سو میں نے اپنا بستر بوریا گول کیا اور سیدھا یہاں چلا آیا۔ آپ لوگوں کے درمیان۔ ‘‘

    ’’ ایاز نظر نہیں آ رہا ہے، کیا کہیں گیا ہوا ہے؟‘‘ چھوٹے ماموں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ گھر میں ہی ہے۔ اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھائی کر رہا ہے۔ ‘‘ امی جان نے اطلاع دی۔ ’’پڑھائی کر رہا ہے کیا اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ؟‘‘ ماموں نے پوچھا۔

    ’’ جب وہ پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ آپ کو بھلا وہ کس طرح یاد رکھے گا۔ ‘‘ بڑی آپا نے کہا’’ اوہ تو مسٹر پڑھا کو ہو گئے ہیں !‘‘

    ’’ موا ہر وقت پڑھتا رہتا ہے، کہتا ہے بڑا آدمی بنوں گا۔‘‘ دادی جان نے جل کر کہا۔

    ’’ میاں تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ۔ ہماری تو کوئی بات مانتا ہی نہیں !!‘‘ ابا جان نے ماموں جان سے کہا۔

    ’’ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ بڑا آدمی بننے کے چکر میں وہ اپنے ماموں جان کو بھی بھول گئے ہیں !‘‘ ماموں جان مسکرا کر بولے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی۔ عین اسی وقت ایاز کمرے میں داخل ہوا اور دوڑ کر ماموں کے گلے لگ گیا’’ میں اپنے ماموں جان کو کیسے بھول سکتا ہوں‘‘ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے لہجے میں ہلکا سا جوش تھا۔

    چھوٹے ماموں اپنے بھانجے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ ’’ منے میاں، ماشاء اللہ تم نے اچھا خاصا قد نکال لیا ہے۔ مجھ سے بھی بڑے لگ رہے ہو۔ ‘‘

    ’’ بڑا آدمی جو بننے چلے ہیں !!‘‘ باجی نے جل کر کہا’’ ہاں بھئی، یہ بڑا آدمی بننے کا کیا چکر ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ تم ہر وقت پڑھتے رہتے ہو۔ گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتے اور کسی کھیل کود میں بھی حصہ نہیں لیتے؟‘‘

    ایاز نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا’’ سب لوگ میری پڑھائی سے جلتے ہیں۔ ‘‘

    ’’ یہ سب لوگ تمہاری پڑھائی سے نہیں جلتے بلکہ اس بات سے نالاں ہیں کہ تمہارے اندر اعتدال ختم ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے تمہاری گھر والے تم سے بیزار ہو گئے ہیں اور آج تو مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سب ائیر پورٹ پر مجھے لینے آئے لیکن تم نہیں آئے۔ ‘‘

    چھوٹے ماموں جان کی یہ بات سن کر شرمندگی کے احساس سے ایاز کا سر جھک گیا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ ماموں جان نے اس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔

    ماموں جان نے دیکھا کہ ایاز شرمندہ ہے تو انہوں نے اس سے کہا’’ یہ بتاؤ جب ہم کہیں چلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟‘‘

    ’’ چلتے ہیں !‘‘

    ’’ ٹھیک ہے، چلتے ہیں، لیکن کس طرح!‘‘

    ’’ پہلے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور پھر دوسرا۔ ‘‘

    ’’ بالکل ٹھیک، منزل تک پہنچنے کے لئے دونوں قدموں کا اٹھانا ضروری ہے اور یہ بھی کہ ہم صرف ایک قدم اٹھا لیں اور دوسرا قدم نہ اٹھائیں تو پھر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے، تو منے میاں، بڑا آدمی بننے کے لئے آپ نے صرف اپنا ایک قدم اٹھایا ہے۔ یعنی صرف پڑھائی، دوسرا قدم آپ نے آگے نہیں بڑھایا اور آپ کو معلوم ہے دوسرا قدم کیا ہے!‘‘

    ’’ نہیں معلوم؟‘‘ ایاز ماموں جان کی باتوں سے الجھ سا گیا۔

    ’’ وہ دوسرا قدم ہے لوگوں کی دعائیں لینا، ان کے کام آنا، بندوں کی خدمت کرنا‘‘ چھوٹے ماموں ایک لمحے کو خاموش ہوئے پھر دوسرے ہی لمحے انہوں نے ایاز سے کہا’’ کیا آپ نے لوگوں کی دعائیں لیں ہیں ؟ گھر محلے سے باہر کبھی کسی کی کوئی خدمت کی ہے؟ کیا کبھی کسی نابینا شخص کو سڑک پار کروائی ہے؟ کیا کبھی کسی غریب شخص کی اخلاقی یا مالی مدد کی ہے؟ چلیں ان باتوں کو بھی چھوڑ دیں۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کبھی کسی کے لئے مسکرائے ہیں ؟‘‘

    ماموں کی اتنی ساری باتیں سن کر ایاز سوچوں میں پڑ گیا، ’’ میں نے تو واقعی کبھی کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی۔ نہ گھر والوں کے کسی کام آیا اور نہ ہی محلے والوں کے اور نہ ہی کبھی کسی سے مسکرا کر بات کی۔ ‘‘

    گھر کے تمام افراد کی نگاہیں ایاز پر لگی ہوئی تھیں ماموں جان نے اسے خاموش پایا تو بولے ’’ہاں منے میاں، کچھ یاد آیا، کوئی ایسا چھوٹا موٹا کام جسے کر کے آپ نے لوگوں سے دعائیں لی ہوں۔ ‘‘

    ایاز اب بھی خاموش رہا تو ماموں جان بولے’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کبھی کسی کے کام نہیں آئے۔ آپ نے کبھی کسی کی کوئی خدمت نہیں کی اور ظاہر ہے جب آپ نے کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی تو پھر دعائیں آپ کو کس طرح مل سکی ہوں گی۔ ‘‘

    کچھ لمحوں تک ماموں جان خاموش رہے پھر انہوں نے ایاز سے پوچھا’’ آپ نے مشہور بادشاہ محمود غزنوی کا نام سنا ہے؟‘‘

    ’’ جی جی‘‘ وہی محمود غزنوی جس نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے تھے۔ سومنات کا مندر توڑا تھا اور تاریخ میں اپنا نام ’’ بت شکن‘‘ کی حیثیت سے درج کرایا تھا۔ ایاز نے بڑے جوش سے بتایا

    ’’ کیا آپ ان کے والد کا نام جانتے ہیں ؟‘‘

    ’’ سبکتگین‘‘ بڑے جوش سے ایاز نے بتایا

    ’’ آپ کی معلومات تو بہت اچھی ہے اچھا یہ بتائیے کہ جب سبکتگین ایک معمولی سپہ سالار تھے تو ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہرنی والا واقعہ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ یاد آیا؟‘‘

    ’’ جی جی ماموں جان، وہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے سناؤں میں آپ کو؟‘‘

    ’’ ہاں ہاں بالکل‘‘ محمود غزنوی کے والد سبکتگین کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کرنے نکلے۔ جنگل میں پہنچے تو انہیں ہرنی اور اس کا بچہ نظر آیا۔ انہوں نے اپنا گھوڑا ہرنی کے پیچھے ڈال دیا۔ شکاری کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہرنی ایک طرف بھاگ گئی۔ بچے سے بھاگا نہ گیا اور بچے کو سبکتگین نے گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا لیا۔ وہ بچے کو لے کر کچھ ہی دور چلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہرنی اپنے بچے کی محبت میں بے تاب ہو کر گھوڑے کے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ اس کو اپنی جان کا بھی کوئی خوف نہیں تھا۔

    سبکتگین ماں کی محبت دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے فوراً ہرنی کے بچے کو چھوڑ دیا۔ ہرنی کا بچہ رہائی پاتے ہی قلانچیں بھرتا ہوا ماں کے قریب جا پہنچا۔

    سبکتگین نے دیکھا کہ ہرنی نے محبت میں آ کر اپنے بچے کو چومنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بچے کو زبان سے چاٹتی جاتی اور سبکتگین کی طرف تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھتی جاتی جیسے شکریہ ادا کر رہی ہو اور دعا دے رہی ہو۔

    ہرنی کی دعا کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد سبکتگین معمولی سپہ سالار کے عہدے سے ترقی پا کر غزنی کے حکمران بن گئے۔

    ’’ بہت اچھے بھئی، آپ کو تو یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے!‘‘ ماموں جان نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’ جی ماموں جان، مجھے تو ابراہم لنکن والا واقعہ بھی اچھی طرح یاد ہے! جب انہوں نے اسکول کے زمانے میں پتھروں کے ڈھیر میں پھنسی ہوئی ایک ننھی گلہری کو آزاد کرایا اور اس کی دعا لی تھی اور ننھی گلہری کی دعا کا اثر ہی تھا کہ وہ ایک دن امریکا کے صدر بنے‘‘ واہ بھئی واہ، آپ کی معلومات تو بے حد شاندار ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ ان واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟’’ یہی کہ بڑا آدمی بننے کے لئے دعاؤں کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے‘‘ سر جھکا کر بڑے شرمندہ لہجے میں ایاز نے کہا۔

    ’’ اور آپ کو معلوم ہے دعائیں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں ؟‘‘ ماموں جان نے پوچھا۔ ایاز سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ شرمندگی کے احساس نے اس کی زبان پر چپ کی مہر لگا دی تھی۔ چھوٹے ماموں نے اسے خاموش اور شرمندہ دیکھا تو اس کے دونوں شانے تھام کر کہا’’ بیٹا اعتدال کی راہ پر چل کر ہی دعائیں حاصل کی جاتی ہیں۔ در حقیقت بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو مسکرا کر لوگوں سے ملتا ہو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتاہو اور ان کی خدمت کر کے ان کی دعائیں لیتا ہو۔ ‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوئی تھی کہ ایاز بول اٹھا’’ ماموں جان، آپ کی باتوں نے آج میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ بڑا آدمی بننے کے لئے میں اپنی زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناؤں گا۔ لوگوں کی خدمت کروں گا۔ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں گا اور ان کی دعائیں لوں گا۔ ‘‘

    ’’ شاباش!‘‘ ماموں جان خوشی سے نہا ل ہو گئے۔ ا سی وقت ایاز کو کچھ یاد آیا۔ وہ سائیکل لے کر باہر جانے لگا۔ ماموں جان نے پوچھا تو کہنے لگا۔ ’’ فاطمہ خالہ کا سوئی گیس اور بجلی کا بل جمع کرانا ہے۔ وہ کل سے کہہ رہی ہیں کل تو میں نے انہیں منع کر دیا تھا لیکن اب میں انہیں کبھی منع نہیں کروں گا۔ ‘‘

    ایاز باہر جانے لگا تو آپا نے پچاس کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا، ’’ منے میاں، بازار سے واپسی پر دو درجن گرم گرم سموسے لے آنا۔ ‘‘

    ’’ بہت بہتر آپا جانی، میں یوں گیا اور یوں آیا‘‘ بڑی خوش دلی سے ایاز نے کہا۔ جب وہ سائیکل پر باہر جانے لگا تو ماموں جان نے آواز لگائی’’ میاں، جلدی آ جانا، ہم سب تمہارے ساتھ مل کر چائے پئیں گے۔ ‘‘

    ماموں جان کے ہاتھوں ایاز کی کایا پلٹ جانے پر گھر کے تمام افراد بے حد خوش نظر آ رہے تھے۔ ماموں جان نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ ایاز نے بڑا آدمی بننے کے لئے پہلا قدم اٹھا لیا تھا، دوسرا نہیں اٹھایا تھا۔ آج اس کا دوسرا قدم بھی اس سمت میں اٹھ چکا ہے۔ دعا کریں کہ ایک دن واقعی وہ بڑا آدمی بن جائے‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوتے ہی سب نے بڑے زور سے کہا’’ آمین‘‘

    (مصنّف: محمد طہٰ خان)

  • سونے کی چڑیا (سبق آموز کہانی)

    سونے کی چڑیا (سبق آموز کہانی)

    کسی جنگل میں ایک مینا اور ایک چڑیا رہتی تھیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ وہ مل کر کھیلتیں اور مل کر کام کرتیں۔

    ایک دن کیا ہوا کہ چڑیا اڑتے اڑتے دور جا نکلی۔ اسے پیاس محسوس ہونے لگی تو وہ ایک پہاڑ میں سے بہتے ہوئے چشمے پر اتر گئی اور اس کا ٹھنڈا پانی پینے لگی۔ دفعتاً پہاڑ کی بلندی سے چند قطرے اس کی چونچ پر آن پڑے۔ اسے اپنی چونچ بھاری بھاری محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر اپنے سَر جھٹکا کہ جو بھی چیز ہے وہ الگ ہوجائے، مگر اسے احساس ہوا کہ چونچ پر جو وزن ہے وہ کم نہیں ہو رہا۔ اس نے پہاڑ سے سوال کیا۔ اے پہاڑ میری چونچ پر آخر اتنا وزن کیوں؟ پہاڑ بولا، ننھی چڑیا۔ میں سال میں ایک دفعہ روتا ہوں۔ میرے آنسو سونے کے ہوتے ہیں۔ جب تم نے پانی پیا۔ اتفاق سے میرے آنسوؤں کے چند قطرے تمہاری چونچ پر پڑگئے اور تمہاری چونچ کے اوپر سونے کا خول چڑھ گیا ہے۔ چڑیا گھر واپس لوٹ آئی۔

    اگلے دن سب پرندے چڑیا کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سونے کی چونچ کی چمک دمک ہی نرالی تھی۔ چڑیا سے سب سونے کی اس چونچ کا راز پوچھتے۔ بھولی بھالی چڑیا ان کو ساری کہانی سنا دیتی۔ جنگل میں چڑیا سونے کی چونچ والی مشہور ہو گئی۔ سب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے۔ باقی تمام چھوٹے پرندے بھی چڑیا سے دوستی کے خواہش مند ہو گئے۔

    اس کی دوست یعنی مینا یہ سب دیکھ کر حسد میں‌ مبتلا ہوگئی۔ اس کو یہ بات پسند نہ آئی کہ ہر پرندہ اور پرندے ہی کیا چھوٹے بڑے جانور تک چڑیا کی تعریف کرنے لگے ہیں اور اسے دیکھنے کو آتے ہیں۔ اسے چڑیا کی چونچ دیکھ دیکھ کر اپنی کالی چونچ سخت بری لگنے لگی تھی۔ وہ چپکے چپکے کئی بار اس پہاڑ پر گئی اور چشمے پر اچھلتی کودتی پھرتی رہی۔ وہ سارا دن گزار مایوس لوٹ آتی تھی، مگر اب تک نہ پہاڑ کو رونا آیا اور نہ ہی اس کے آنسو سے مینا کی چونچ سونے کی بنی۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتی کہ یا تو میری چونچ سونے کی ہو جائے یا چڑیا کی سونے کی چونچ کھو جائے۔ ادھر وہ بھولی بھالی اور نیک سیرت چڑیا اپنی دوست مینا کے دل میں اپنے لیے پلنے والی نفرت اور حسد کی اس آگ سے بے خبر تھی۔

    ایک دن مینا چڑیا کے گھر آئی اور بولی۔ چڑیا بہن کسی زمانے میں ہم دونوں میں کس قدر پیار تھا۔ مگر جب سے تمہاری چونچ سونے کی بنی ہے تم نے مجھے بھلا ہی ڈالا۔ چڑیا بولی۔ مینا کیسی باتیں کرتی ہو میری چونچ ضرور سونے کی بن گئی ہے مگر میں نہیں بدلی ہوں۔ تم دل برا مت کرو۔ مینا بولی اگر یہ بات ہے تو کل رات کا کھانا تم میرے ساتھ کھاؤ۔ مل کر خوب باتیں کریں گے، کھیلیں گے اور پیڑ کی شاخوں پر جھولا جھولیں گے چڑیا نے کہا ضرور کل میں شام کو ہی تمہارے ہاں آ جاؤں گی۔ رات کو واپسی پر جگنو خالو مجھے میرے گھونسلے تک چھوڑ دیں گے۔ مینا چڑیا سے وعدہ لے کر پھر سے اڑ گئی اور سیدھی ڈاکٹر لومڑی کے پاس جا پہنچی۔ ڈاکٹر لومڑی نے مینا کو دیکھ کر کہا آؤ مینا کیسے آنا ہوا؟ کہیں بیمار تو نہیں ہو۔ مینا بولی ڈاکٹر صاحبہ کئی دنوں سے سو نہیں سکی نجانے میری نیند کہاں کھو گئی ہے۔ مہربانی فرما کر مجھے نیند کی دوا دے دیں تاکہ ایک دو دن خوب سو سکوں۔ مینا ڈاکٹر لومڑی سے نیند کی دوا لے کر گھر پہنچی۔ دوائی کو گھونسلے کے ایک کونے میں رکھا اور خود گہری نیند سو گئی۔

    اگلے دن چڑیا کے آنے سے پہلے ہی مینا نے دو تین قسم کے اچھے کھانے چڑیا کے لیے تیار کیے۔ انہیں شیشے کی پلیٹوں میں سجایا۔ کھانے میں ڈاکٹر لومڑی کی دی ہوئی نیند کی دوائی شامل کر دی اور کام ختم کر کے چڑیا کا انتظار کرنے لگی۔ بیچاری چڑیا ندی پر جا کر خوب نہائی، پروں میں کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور اپنی سونے کی چمکتی ہوئی چونچ کو خوب چمکایا ا ور مینا کی طرف چل پڑی۔

    راستے میں بی بکری سے پھول لئے تو بی بکری بولی واہ چڑیا آج تو پوری ہی سونے کی لگ رہی ہو۔ کیا کسی شادی میں جا رہی ہو۔ چڑیا نے مینا کی دعوت کے بارے میں بتایا اور پھول لے کر چل دی۔ راستے میں ایک درخت پر جگنو خالو نیند کے مزے لے رہے تھے چڑیا نے ان کے کان کے پاس جا کر زور سے چوں چوں کی۔ تو وہ ایک دم سے ڈر کر جاگ گئے۔ چڑیا ہنس دی اور جگنو خالو کو تاکید کرنے لگی کہ رات کو واپسی پر مینا کے گھر سے مجھے میرے گھر تک پہنچا دینا۔ کیونکہ راستے میں اندھیرا ہو جائے گا۔ جگنو خالو نے چڑیا سے وعدہ کر لیا اور چڑیا خوشی خوشی مینا کے گھر جا پہنچی۔

    دونوں سہیلیاں بہت پیار سے ملیں۔ کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔ پھر مینا نے چڑیا کو کھانا پیش کیا۔ چڑیا کو چاول کے دانوں کی کھیر بہت پسند آئی اور اس نے خوب جی بھر کر کھایا۔ مینا پاس بیٹھی چڑیا کو اصرار کر کر کے اور کھلاتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد چڑیا کو اپنا سر بھاری محسوس ہونے لگا۔ آنکھیں نیند سے بھرنے لگیں۔ چڑیا نے پر ہلا کر اڑنا چاہا مگر نیند کی دوائی اثر کر چکی تھی اور چڑیا بے ہوش ہو گئی۔ چڑیا کے بے ہوش ہوتے ہی مینا نے جلدی سے چڑیا کی سونے کی چونچ والا خول اتارا۔ اپنی کالی چونچ کاٹی اور اپنے منہ پر سونے کی چونچ سجا لی اور جلدی سے جنگل کی سمت اڑ گئی۔ خالو جگنو مینا کے گھونسلے کے باہر کافی دیر تک چڑیا کا انتظار کرتے رہے۔ مگر چڑیا گھونسلے سے باہر نہ آئی۔ چونکہ جگنو چڑیا سے گھر چھوڑنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ اور اب وہ اس کا انتظار کررہا تھا اور اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

    اسی لئے وہ مینا کے گھونسلے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ گھونسلے کے اندر کی خاموشی سے جگنو کو کسی خطرے کی بو محسوس ہونے لگی۔ جگنو خالو گھونسلے کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا چڑیا بے ہوش پڑی ہے۔ انہوں نے جلدی سے چڑیا کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ چڑیا نے تھوڑی سی حرکت کی اور آنکھیں کھول دیں۔ خالو جگنو نے پوچھا چڑیا تم کون ہو؟ چڑیا بولی۔ خالو جان آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں سونے کی چونچ والی آپ کی بھانجی چڑیا ہوں۔ جگنو خالو بولے۔ مگر تمہاری چونچ تو سونے کی نہیں ہے۔ چڑیا نے گھبرا کر چونچ پر پنجہ مارا تو اسے اپنے ناک کے پاس باریک سی چونچ محسوس ہوئی۔ وہ بھاری بھر کم سونے کا خول غائب تھا۔ اسے ساری بات یاد آ گئی کہ کس طرح مینا نے اسے دھوکہ دیا۔ اس نے مینا کو ادھر ادھر ڈھونڈا۔ مینا وہاں ہوتی تو نظر آتی۔ مینا کو نہ پا کر چڑیا رونے لگی۔

    رات کی تاریکی میں چڑیا کے شور نے جنگل میں سوئے تمام پرندوں کو جگانا شروع کر دیا۔ سب چڑیا کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ چڑیا زار و قطار رو رہی تھی اور خالو جگنو سب کو بار بار مینا کے دھوکے اور چڑیا کی سونے کی چونچ کا قصہ سنانے میں مصروف تھے۔ سب پرندوں کو مینا پر شدید غصہ تھا کہ آخر مینا نے اپنی دوست چڑیا کے ساتھ ایسا دھوکہ کیوں کیا۔ مینا کو جنگل میں ہر طرف تلاش کیا گیا مگر مینا نہ ملی ہر پرندہ اور جنگل کا جانور چڑیا کو انصاف اور مینا کو سزا دلوانا چاہتا تھا۔ اسی لئے زور شور سے مینا کی تلاش جاری تھی۔

    کافی دنوں کے بعد جنگل کے آخری حصے سے مسٹر بندر کے کچھ دوست اسے ملنے آئے۔ رات کو بیٹھے تمام بندر گپ شپ لگا رہے تھے۔ طرح طرح کے قصے سنا کر ایک دوسرے کو حیران کرنے کی کوشش میں تھے ایک مہمان چھوٹے بندر نے کہا۔ میں نے جنگل میں ایک عجیب سی مینا دیکھی ہے، ہے تو وہ عام مینا ہی جیسی مگر اس کی چونچ سونے کی ہے۔ اس قدر چمکتی ہے کہ اندھیرے میں بھی روشنی ہو جاتی ہے۔ اسی درخت کی شاخ پر جگنو خالو بھی بیٹھے سوتے جاگتے بندروں کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب جگنو خالو کے کان میں سونے کی چونچ والی مینا کی بات پڑی تو وہ چونک اٹھے اور غور سے بندر کی بات سننے لگے۔ صبح ہوتے ہی وہ چڑیا کے گھر جا پہنچے اور چڑیا کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ چڑیا نے اپنے تمام خاندان کو اکٹھا کیا اور ماموں الو اور پھوپھو گلہری کو ساتھ لیا اور بندروں کے پاس جا پہنچے۔ بندر بے چارے سوئے پڑے تھے۔ پرندوں کی شور کی آواز نے انہیں جگا دیا۔

    ان سے سونے کی چونچ والی مینا کا قصہ پوچھا۔ اس درخت کے بارے میں معلوم کیا جہاں اس نے اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ اب پرندوں اور چھوٹے جانوروں کی دو فوجیں تیار کی گئیں۔ مہمان بندروں کی رہنمائی میں رات کی تاریکی میں جنگل کے آخری حصے میں سب پہنچے۔ خالو جگنو اپنے سارے خاندان کے ساتھ روشنی کی سہولت پہنچاتے رہے۔ رات کو ہی اچانک حملہ کر کے سوئی ہوئی مینا کو گرفتار کر لیا گیا۔

    اگلی صبح جنگل میں بہت رونق تھی، جنگل کا بادشاہ شیر بڑی شان سے دربار سجائے بیٹھا تھا۔ الو، بندر، ریچھ، ہاتھی، زرافہ، مینا، طوطے، مور اور رنگ برنگی چڑیاں سب جمع تھے۔ تتلیاں اور جگنو بھی ادھر ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ شیر کے سامنے دھوکے باز مینا کو پیش کیا گیا۔ الّو نے تمام قصہ سنایا۔ ڈاکٹر لومڑی نے گواہی دی کہ مینا نے اس دن اس کے کلینک سے نیند کی دوائی لی تھی اور جگنو خالو نے گواہی دی کہ مینا کے گھونسلے میں اس نے چڑیا کو بے ہوش پڑے دیکھا اور سب سے بڑا ثبوت تو مینا کی سونے کی چونچ تھی جو چمک رہی تھی۔ مینا شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی تھی۔ تمام پرندے شیر بادشاہ سے چڑیا کو انصاف دلانے کی درخواست کر رہے تھے۔

    شیر نے تمام گواہیاں سن کر چیتے اور ہاتھی سے مشورہ کیا اور ڈاکٹر لومڑی سے کہا کہ مینا کی سونے کی چونچ اتار کر ابھی چڑیا کو واپس لگا دو۔ ڈاکٹر لومڑی نے حکم کی تعمیل کی اور مینا کی چونچ اتار کر چڑیا کو واپس لگا دی اور مینا کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی سزا کا بندوبست خود ہی تو کر لیا تھا جب اس نے اپنی کالی چونچ کاٹ کر سونے کی یہ چونچ لگائی تھی اب مینا پورے جنگل میں شرمندہ شرمندہ سی بغیر چونچ کے پھرتی ہے۔ نہ ٹھیک طرح سے دانہ چگ سکتی ہے اور نہ کیڑے مکوڑوں کا شکار۔ اب اسے اپنی حرکت پر بہت افسوس ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    تبّت کی ہر وادی برف سے ڈھک گئی تھی۔ راتیں سیاہ تھیں اور لمبی لیکن سفید برف اس سیاہی میں عجیب سا منظر بنا دیتی۔ دور ایک وادی میں، جو کہ چار پہاڑوں کے عقب میں تھی، بانس کی ایک کٹیا کھڑی تھی۔ یہ بوڑھے بانگو کا کاشانہ ہے۔

    جھونپڑی کے دروازے پر لکڑی کا ایک تختہ بطور آڑ رکھا ہوا تھا اور اس کی چھت کی اطراف ترچھی تھیں تا کہ برف کے گولے گرتے ہی پھسل جائیں اور وزن سے بانس نہ ٹوٹیں۔ جھونپڑی کوئی بیس۔۔۔۔پچیس فٹ لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھی۔اندر دو چارپائیاں تھیں اور ایک اپلوں کی انگیٹھی جس کی حرارت اس جان لیوا سردی میں بانس کی اس کٹیا کو ایک اگلو سا بنا دیتی اور مکین جاڑے کی شدت سے محفوظ رہتے۔ ایک طرف کھونٹی سے پرانی لالٹین لٹک رہی تھی جس کی لَو سے اندر بمشکل ہی روشن ہوتا تھا۔ جھونپڑی کے دروازے پر قبائلی زبان میں خوش آمدید اور مہمان نوازی کی دعوت کے بارے کچھ الفاظ لکھے تھے اور دائیں جانب ہی گھاس کے ایک ڈھیر کے پاس تین دنبیاں اور ایک یاک کھڑا تھا۔

    جب موسم خوش گوار ہوتا تھا تو بانگو اپنے مویشی باہر لے جاتا اور رات خوبانی کے درختوں کے ساتھ باندھ دیتا لیکن آج کل موسم اتنا سرد تھا کہ وہ بے زبان روحیں کھلی فضا میں اس کی شدت کی تاب نہ لا سکتی تھیں۔ بانگو کی بیوی اون کی پوشاک بنتی رہتی اور ہر ڈورے کے ختم ہوتے ہی دوسرا نکال کر دھاگے جوڑ دیتی۔ اس سنسان اور سرد وادی کے مکین جوڑے کے دو بچّے تھے۔ ان میں لوگیس بڑی تھی نو سال کی اور لوشی پانچ برس کا تھا۔ بانگو شادی سے پہلے دو میل دور اپنے گاؤں میں رہتا تھا لیکن شادی کے بعد اس نے خوبانی کا ایک باغ اگایا اور بانس کی یہ رہائش تیار کر کے اپنے گھر والوں کو یہاں لے آیا۔ بانگو خود تو بوڑھا ہو رہا تھا لیکن اس کی بیوی نوجوان تھی۔ وہ دو بچّوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی جب کبھی سردی سے ٹھٹھرتی اور اپنی ہتھیلیاں انگیٹھی پر گھماتی تو ایک نوجوان لڑکی ہی لگتی۔ لمبی اندھیری راتوں میں لالٹین کا شعلہ بھی سردی سے مدھم پڑجاتا اور اس کے گول شیشے پر جمنے والی نمی اس منظر کو اور دھندلا دیتی۔

    بانگو ہر دو ہفتے بعد گاؤں جا کر تیل لے کر آتا۔ لیکن اس بار لگتا تھا کہ وہ برف باری میں جانے سے کترا رہا ہے۔ لالٹین کا شعلہ ہر گزرتی شب اور مدھم ہوتا جا رہا تھا۔

    لوشی ہر وقت سرمئی دنبی کے پاس ہی بیٹھا رہتا بلکہ اپنا کھانا اور دودھ بھی اس کے پاس ہی لے جاتا۔ بانگو نے جب سے اسے بتایا تھا کہ یہ دنبی کچھ دنوں میں بچہ جننے والی ہے تب سے اس کے دماغ میں صرف ایک ہی منظر سمایا تھا، دنبی کا معصوم بچّہ جس کے بال موم کی طرح ملائم اور نرم ہوں گے اور، وہ اپنی ماں سے چمٹ کر دودھ پیے گا۔ لوشی اس دنبی کا منہ پکڑ کر سہلاتا اور اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتا:”اس بار سب سے پہلے تمہارا بچّہ میں دیکھوں گا، اچھی دنبی! اگر میں سو گیا تو تم بچّہ نہ جننا، جب میں جاگا تم تب ہی اپنا بچّہ پیدا کرنا۔ نہیں تو میں تم سے کبھی نہیں بولوں گا۔” دنبی کی آنکھیں حیرت سے لوشی کو تکتی رہتیں۔ بانگو کی بیوی نے دنبی کے پیٹ پر دولائی باندھ دی تھی۔ بانگو کو امید تھی کہ دو، تین دن میں دنبی بچّہ جنے گی لیکن اسے یہ اندیشہ تھا کہ لالٹین بجھ جائے گی اور اندھیری رات میں روشنی کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔لوشی اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اور برف باری سے پہلے وہ دونوں باہر وادی میں کھیلتے، تتلیاں، جگنو اور چڑیاں پکڑتے اور انہیں گھر لے آتے۔ لوشی نے اپنے ڈبّے میں مینا کا بچّہ ڈال رکھا تھا، جس کو وہ دن میں کئی بار دیکھتا اور پھر ڈبّے میں ڈال دیتا۔

    اس رات لالٹین کا ٹمٹماتا شعلہ مکمل طور پر بجھ گیا اور جھونپڑی میں پوری طرح اندھیرا چھا گیا۔ بستروں کے پاس انگیٹھی کی آگ سے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ لوشی اس رات سونے کی کوشش میں نہ تھا۔ اس کے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اگر وہ سو گیا تو پھر صبح، دن چڑھے ہی اٹھے گا، اور اگر تب تک دنبی نے بچّہ دے دیا تو وہ اسے سب سے پہلے کیسے دیکھے گا، اس کے ماں باپ تو صبح سویرے ہی جاگ جاتے ہیں۔ آدھی رات کو اس نے لوگیس کی رضائی ہلا کر اسے اپنا اندیشہ بتایا۔

    بانگو کل سے گاؤں گیا ہوا تھا کیونکہ وہ مکھن اور اونی چغے بیچ کر کچھ چیزیں خرید کر لانا چاہتا تھا اور لالٹین کے لیے تیل بھی۔ لوشی دنبی کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن اندھیرے میں وہ اپنے بستر سے نہ اٹھا۔ اندھیری جھونپڑی میں حاملہ دنبی دوسرے مویشیوں سے الگ بیٹھی تھی۔ اچانک اس کی آنکھوں میں چمک کی ایک لہر دوڑی، اس نے اپنا پیٹ اٹھایا اور پھر اس کا موٹا وجود چند لمحوں میں ہلکا ہو گیا۔ ننھا اونی ریشم کا گولا ماں کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا تھا۔ دنبی زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے جگر کے ٹکڑے کا لمس لینے لگی۔

    لوگیس نے لوشی کو کچھ کہے بغیر اپنی چارپائی کے نیچے ہاتھ ڈال کر ایک تھیلی نکالی، جس میں اس نے تین ، چار دن پہلے کافی جگنو بند کر دیے تھے۔ لوشی حیرت سے اپنی بہن کی تھیلی کو دیکھ رہا تھا۔ لوگیس چپکے سے اٹھی اور لالٹین اتار کر انگیٹھی کے پاس لے آئی۔ اس نے لوشی کو اشارہ کیا، وہ دونوں بہن بھائی لالٹین کو کھولنے لگے۔ لوگیس نے جگنوؤں سے بھری تھیلی لوشی کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی وہ لالٹین کا شیشہ سرکائے، وہ تھیلی شیشے میں پلٹ دے۔ باہر کہر بھری ہوا چل رہی ہے۔ ان کی ماں لحاف اوڑھے نیند کی وادیوں میں گم ہے۔ لوگیس نے شیشہ اٹھاتے ہی لوشی کو بلایا تو اس نے فوراً تھیلی کا منہ پھیلا کر شیشے میں پلٹ دی۔لوگیس نے فورا ہی شیشے کو گھما کر بند کیا اور دامن سے نمی کی تہہ کو صاف کر دیا۔ ایک لمحے میں لالٹین کا شیشہ ہلکا سا روشن ہوا۔دسیوں جگنوؤں نے اتنی روشنی ضرور کر دی تھی کہ وہ جانوروں کے پاس چلے جاتے۔

    لوشی لالٹین اٹھا کر دنبی کے پاس آیا تو خوشی سے لوگیس کو آوازیں دینے لگا۔ اس نے ننھے میمنے کو چوما، وہ سفید اور ملائم تھا، نازک اور کوسا کوسا۔ لوشی سوچ رہا تھا کہ میمنا بھی برف کی طرح سفید ہے لیکن برف تو بڑی ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ میمنا بڑا گرم ہے۔ لوشی بار بار میمنے کو چومتا اور اس کے گرم وجود پر ہاتھ پھیرتا۔ اس نے دنبی کے سَر کے پاس جا کر کہا: "اچھی دنبی! تمہارا شکریہ”۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں لوشی دنبی کے پاس بیٹھا خوشی منا رہا تھا جب کہ شیشے میں کئی ننھے شعلے دَم توڑ رہے تھے۔

  • سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    سمندری پریاں (دل چسپ کہانی)

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔ سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چنانچہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی جب پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی ” جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ اپنی درباری پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟ اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا: "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔” اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟ وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ یہ ہرے بھرے جنگل، پھلوں پھولوں سے لدے ہوئے باغات، ان میں بولتی چڑیاں اور کلیلیں کرتے ہوئے جانور چھوڑ کر کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔ بادشاہ نے اسی طرح باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور سب نے سمندر میں جانے سے کھلم کھلا انکار کر دیا۔ اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان کی طرف مخاطب ہوا اور یہ دیکھ کر ہر ایک کو حیرت ہوئی کہ وہ بلاجھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں”ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔ گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔ اب جہاں جہاں ہم رہتے ہیں، ان میں چند مچھلیوں اور چھوٹے چھوٹے جھینگا جیسے جانوروں کے سوا کیا رکھا ہے؟ بڑے سے بڑا دریا بھی ہمارے لیے کافی نہیں، جب کہ ندی نالوں کو ہم قید خانے سے کم نہیں سمجھتے۔ حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ ان باتوں کا ذرا خیال نہ کرو۔ جب تمھارا دل چاہے، روزانہ رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے، البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ۔”

    بادشاہ کی یہ تقریر سن کر سمندر کا ایلچی بھی خوش ہو گیا کہ ان کی عرض بھی قبول ہو گئی اور سمندر کی نئی پریاں بھی خوش تھیں کہ انھیں سمندر کی نئی حکومت ملی۔ چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کےتصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے پاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں کرنے کے لیے بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگاتار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو آخرکار بادشاہ کو فکر ہوئی کہ کہیں کوئی مصیبت تو نہیں آ گئی؟ کیا بات ہے کہ پریاں سمندر سے باہر نہیں آئیں۔ اس نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا۔ ان کا حال پوچھا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: "بادشاہ سلامت کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر دینا کہ ہمیں بھی اپنی سہیلیوں سے اتنے دن تک نہ ملنے کا بہت افسوس ہے۔ ہم کو یہاں آ کر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا ہے، وہ سنائیں گے۔”

    رات ہوئی تو پریاں سمندر کے کنارے پانی سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے کے لیے جمع ہو گیا اور جب انھوں نے سمندر کی تہہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور تمام درباری پریاں حیران رہ گئیں اور بڑی دلچسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔ چوں کہ تمھاری مصروفیت بہت زیادہ ہے اور تمھارا رہنا بھی ٹھہرا دور دراز، اس لیے مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ بھی الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں۔ انھوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھیں اپنا علیحدہ بادشاہ ملا اور اپنی الگ سلطنت حاصل ہوئی۔ وہ اپنے نئے بادشاہ کے محل کی تعمیر کرنے کے لیے سمندر میں چلی گئیں۔

    سمندر کی تہ میں پہنچتے ہی پریوں نے محل کا ڈول ڈال دیا۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔ محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔ دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف سمندر کے پھولوں کے درختوں سے آراستہ باغات تھے۔ جگہ جگہ فوارے، جو رات دن چلا کرتے۔ رات کی روشنی کے لیے چمکتی ہوئی مچھلیاں تھیں، جو ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں ان شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں، کیوں کہ سونے کے علاوہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کیے ہی جاتے اور ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہ بیٹھتے۔

    کیکڑوں کی نہایت خوب صورت اور نرالی وردیاں بنائی گئی تھیں، ان کی پشتوں پر خوش نما رنگوں کا سمندری سبزہ اگا دیا گیا تھا۔ انہیں اپنی تمام عمر میں کبھی ایسا اچھا زمانہ نہیں ملا تھا۔ ان کی پرانی زندگی بدل گئی تھی۔ وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ اول اول پریاں بہت گھبرائیں، لیکن ایک بوڑھے دریائی بچھڑے نے، جو کئی برس سے ایک عجائب خانے میں رہتا تھا، پریوں کو بتایا کہ سمندر میں دعوت کا سامان کیا ہوتا ہے اور کس طرح کرنا چاہیے۔ چناں چہ اس کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئیں اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    دعوت کی رونق کے لیے پانی کے کم از کم دس لاکھ بچے بلائے گئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک خوب گانے والا تھا۔ کھانا کھاتے وقت گانا لازمی تھا، اس لیے گانے والوں اور بجانے والوں کی ایک بہت بڑی ٹولی جلوس کے کمرے میں ایک طرف کھڑی کر دی گئی اور دروازے کے پاس دو نقارچی بڑے بڑے سنکھ لیے کھڑے تھے کہ جب بادشاہ سلامت اندر آئیں تو اس کا اعلان کریں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائیں ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھ دار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوبصورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔ بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔ سمندر کے اژدہے اپنے آپے سے تو باہر نہیں ہوتے، گنڈلی ٹنڈلی مار کر دوسروں کا راستہ تو نہیں روک لیتے۔ ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے۔ اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟ شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ رات کو اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت ہر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا کودنا، چٹانوں پر بیٹھنا، اپنے بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔ بدذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔ سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی وحشت ناک طوفان آتے اور پانی کی موجیں شور کے ساتھ سمندری مملکت پر حملہ آور ہوتیں تو پریاں پانی کی بلند سے بلند سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے سن لیا کہ خشکی کی پریوں کی طرح سمندر میں پریاں کس طرح پیدا ہوئیں اور کیوں کر وہاں آ گئیں؟

    (مصنّف نامعلوم)