Tag: ادب اطفال

  • نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    نیلم پری (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک تھا درزی، اس کے تھے تین لڑکے۔ درزی بہت ہی غریب تھا۔ درزی کے پاس صرف ایک ہی بکری تھی۔ تینوں لڑکے اسی بکری کا دودھ پیتے اور کسی طرح گزر کرتے، ایک ایک دن ہر لڑکا بکری کو جنگل میں چرانے لے جاتا۔

    جب لڑکے کچھ بڑے ہو گئے تو بکری کادودھ ان کے لئے کم پڑنے لگا۔ مجبورا بڑا لڑکا گھر چھوڑ کر باہر کمانے نکلا، چلتے چلتے راستے میں ایک سوداگر ملا۔ سوداگر نے لڑکے سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ لڑکے نے سارا حال سنا دیا۔ سوداگر کو اس پر ترس آیا اور اپنے پاس نوکر رکھ لیا۔ سوداگر نے خریدنے اور بیچنے کا کام اس کو سکھایا۔ لڑکا اپنا کام بڑی ایمانداری اور محنت سے کرتا۔ سوداگر کے کام کو بہت آگے بڑھا دیا۔ سوداگر بہت امیر ہو گیا۔ سوداگر لڑکے کے کام سے بہت ہی خوش ہوا۔ جب کام کرتے کرتے کئی برس گزر گئے تو لڑکے نے گھر جانے کی چھٹی مانگی۔ سوداگر نے خوشی سے چھٹی دی اور کہا ’’میں تمہارے کام سے بہت خوش ہوں۔ تمہاری ایمانداری کے بدلے میں تم کو یہ عجیب وغریب گدھا دیتا ہوں۔ یہ گدھا اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جب تم اس کے منہ میں تھیلی باندھ کر کہو گے کہ ’’اگل‘‘ تو یہ فورا سونا اگلے گا اور پوری تھیلی بھر دےگا۔ خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔‘‘ لڑکا خوش خوش گھر روانہ ہوگیا۔

    چلتے چلتے رات ہو گئی۔ لڑکا ایک سرائے میں ٹھہر گیا۔ بھٹیارے سے لڑکے نے کہا ’’خوب عمدہ عمدہ کھانا لاؤ۔‘‘ بھٹیارا اچھے اچھے کھانے پکوا کر لایا۔ لڑکے نے سونے کے ٹکڑے بھٹیارے کو دیے۔ بھٹیارا بڑا خوش ہوا اور سوچنے لگا یہ سونے کے ٹکڑ ے لڑکے کے پاس کہاں سے آئے۔ ہو نہ ہو کوئی خوبی اس گدھے میں ضرور ہے۔ یہ سوچ کر بھٹیارا جاگتا رہا۔ جب لڑکا سو گیا تو بھٹیارا گدھا چرا کر لے گیا اور دوسرا گدھا اس کی جگہ باندھ دیا۔ لڑکا اندھیرے منہ اٹھا اور گدھے لے کر روانہ ہو گیا۔ اس کو اپنے اصلی گدھے کی چوری کا کچھ حاصل نہ معلوم ہوا۔ گھر پہنچا تو اس کو دیکھ کر باپ بھائی سب جمع ہو گئے اور خوشی خوشی باتیں کرنے لگے۔

    باپ کہو بٹیا پردیس میں کیا کیا سیکھا۔

    لڑکا:۔ سوداگری۔

    باپ :۔ہمارے لئے کیا لائے ہو۔

    لڑکا یہ گدھا۔

    باپ توبہ کرو۔ گدھا لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں سیکڑوں گدھے مارے مارے پھرتے ہیں۔

    بیٹا:۔نہیں ابا۔ یہ معمولی گدھا نہیں ہے۔ اس میں ایک خاص بات ہے۔

    باپ:۔ وہ کیا خاص بات ہے۔

    بیٹا:۔ اس میں خاص خوبی یہ ہے کہ اس کے منہ میں تھیلی باندھ دیں اور کہیں کہ ’’اگل‘‘ تویہ فورا سونا اگلنے لگتاہے اور تھیلی کو بھر دیتا ہے، خواہ تھیلی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

    بوڑھا درزی بیٹے کی بات کوتعجب سے سنتا رہا اور شک کی نظروں سے دیکھتا رہا۔ آخر لڑکے نے باپ کے شک کو دور کرنے کے لئے کہا آپ اپنے دوستوں کو بلائیے۔ میں ابھی سب کو دولت سے مالامال کیے دیتا ہوں، درزی نے اپنے خاص خاص دوستوں کو لاکر جمع کیا اور دولت حاصل کرنے کی خوشخبری سنائی۔ سب لوگ آ گئے تو لڑکا گدھے لے کر آیا اس کے منہ میں تھیلی باندھی اور کہا کہ ’’اگل‘‘ لیکن گدھا جوں کا توں کھڑا رہا۔ لڑکے نے کئی مرتبہ چلا چلا کر کہا ’’اگل، اگل‘‘ لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ تھیلی جیسی خالی تھی ویسی ہی رہی اور گدھاچپ چاپ کھڑا رہا۔ اب لڑکا سمجھا کہ بھٹیارے نے گدھا چرا لیا۔ درزی اپنے دوستوں کے سامنے بڑا شرمندہ ہوا۔ لڑکے پر خفا ہونے لگا تو مجھے سب کے سامنے ذلیل کیا۔

    لڑکے نے سارا قصہ اپنے منجھلے بھائی کو سنایا۔ اب دوسرا بھائی سفر پر روانہ ہوا۔ کئی دن تک برابر چلتا رہا۔ رات کوپیڑ کے نیچے سو رہتا۔ آخر ایک دن اس کو ایک بڑھیا ملی، بڑھیا جنگل کے کنارے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتی تھی۔ لڑکا بڑھیا کے ساتھ رہنے لگا، بڑھیا جو کام بتلاتی اس کو بڑ ی محنت سے کرتا۔ بڑھیا اس کے کام سے بڑی خوش تھی۔ ایک دن لڑکے نے گھر جانے کو کہا، بڑھیا نے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا اور کہا کہ’’دیکھو بیٹا میرے پاس ایک ’’سینی‘‘ ہے۔ جب کہو گے ’’بھر جا‘‘ تو یہ بہترین کھانوں سے بھر جائے گی اور جتنے آدمی بیٹھے ہوں گے پیٹ بھر کر کھا لیں گے۔ تم یہ سینی لیتے جاؤ۔ ’’لڑکا سینی پاکر بہت خوش ہوا اور گھر کی طرف چلا۔ راستے میں اس کو وہی سرائے ملی جہاں بڑے بھائی کا گدھا چوری ہو گیا تھا۔ رات بسر کرنے کے لئے رک گیا۔ بھٹیارے نے کھانے کے لئے پوچھا۔ لڑکے نے کہا‘‘میں تم کو کھلاؤں گا’’ بھٹیارے نے کہا ‘‘تمہارے پاس تو کچھ ہے نہیں تم کہاں سے کھلاؤ گے؟ ’’لڑکے نے کہا ’’ٹھہرو’’سینی سامنے نکال کر رکھ دی اور کہا ’’بھر جا‘‘ یہ کہتے ہی سینی اچھے اچھے کھانوں سے بھر گئی۔ بھٹیارا اس نرالی سینی کو لالچ بھری نظروں سے تکنے لگا اور اس کے چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ لڑکا کافی تھک چکا تھا۔ کھانا کھاتے ہی سو گیا۔ بھٹیارا تاک میں تو لگا ہی ہوا تھا جب لڑکا سو گیا تو چپکے سے آیا اور سینی اٹھا کر لے گیا اور اس کی جگہ پر دوسری ویسی ہی سینی رکھ دی۔ لڑکا صبح سویرے اٹھا اور سینی لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو باپ اور بھائی سب اس کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور باتیں کرنے لگے۔ لڑکے نے اپنے سفر کا سارا حال بیان اور مزے لے لے کر سینی کی خوبی بیان کی، درزی کو سینی کی اس خوبی کا یقین نہ آیا۔ لڑکے نے کہا ۔’’امتحان لے لیجیے۔ آپ لوگوں کو بلوائیے۔ دیکھئے میں ابھی سب کے لئے اچھے اچھے کھانے چنوائے دیتا ہوں۔‘‘ لڑکے نے جب بہت ہی اصرار سے سینی کی خوبی بیان کی تو باپ نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی۔ سب لوگ گول دائرہ بناکر بیٹھے اور بیچ میں سینی رکھی گئی۔ لڑکے نے کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن سینی خالی کی خالی ہی رہی۔ اس نے پھر کہا ’’بھر جا‘‘ لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ تین چار مرتبہ چلا چلاکر کہا ’’بھرط جا، بھر جا، بھر جا‘‘ لیکن سینی ویسی ہی خالی کی خالی پڑی رہی۔ سب لوگ لڑکے کا منہ تکنے لگے اور اسے جھوٹا بتانے لگے۔ لڑکا بہت شرمندہ ہوا اور باپ تو مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ لڑکے کو ایک تو سب کے سامنے شرمندگی کا افسوس تھا اور دوسرے اصلی سینی کے گم ہو جانے کا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بلایا اور سارا قصہ بتلایا۔ یہ چھوٹا بھائی سمجھ گیا کہ یقیناً بھٹیارے ہی کی شرارت ہے اور اسی نے گدھا اور سینی دونوں چیزیں چرائی ہیں۔

    چھوٹا بھائی بہادر بھی تھا اور عقلمند بھی۔ ہمت باندھ کر روانہ ہوا کہ یہ دونوں چیزیں ضرور واپس لاؤں گا۔ کئی دن چلنے کے بعد اس کا گزر ایک میدان سے ہوا۔ یہ میدان پریوں کا تھا۔ رنگ برنگ کے پھول چاروں طرف کھلے ہوئے تھے۔ ہری ہری گھاس سبز مخمل کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ بیچ بیچ میں پانی کی سفید لہریں بہہ رہی تھیں۔ ہوا خوشبو میں بسی ہوئی تھی۔ لڑکا دم لینے کے لئے (سستانے کے لئے) ٹھہر گیا۔ ہوا کی مست خوشبو نے آنکھوں میں نیند بھر دی اور وہ جلدہی ایک گلاب کے پودے کے پاس پڑھ کر سو رہا۔ لڑکا ابھی سویا ہی تھا کہ نیلم پری جو اس گلاب پر رہتی تھی اتری اور لڑکے کو ہوا میں لے کر اڑ گئی۔ دوسرے دن لڑکے نے اپنے باپ کو ایک بہت ہی گھنے جنگل کے بیچ پایا۔ وہ کہاں ہے، یہاں کیسے آیا؟ ابھی ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ سارا جنگل طرح طرح کی آوازوں سے گونجنے لگا۔ اس کے بعد یک بیک لال رنگ کی روشنی سارے جنگل میں پھیل گئی۔ لڑکا بڑا پریشان ہوا۔ بار بار سوچتا ،کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ اتنے میں بڑے زور کی آواز اس کے کانوں میں آئی اور سارا جنگل نیلے رنگ میں رنگ گیا۔ اس آواز کو سن کر لڑکا کانپ گیا اور گھبرا کر ایک طرف بھاگا۔ اس کے بھاگنے پر جنگل کی سب پریاں ہنس پڑیں۔ بات یہ تھی کہ پریاں لڑکے سے کھیل رہی تھیں۔ جب پریوں نے اپنا کھیل ختم کر لیا تو نیلم پری چھم چھم کرتی ہوئی لڑکے کے پاس آئی اور بولی ’’تم ہمارے میدان میں کیوں آئے؟‘‘

    لڑکا مجھے نہیں معلوم تھا کہ میدان آپ کا ہے۔ یہاں آنا منع ہے۔ اب کبھی نہیں آؤں گا۔

    نیلم پری:۔ (ہنستے ہوئے) کیا میدان پسند نہیں۔

    لڑکا:۔ جی۔ میدان تو پسند ہے لیکن جنگل ۔۔۔

    نیلم پڑیکیا ڈر لگتا ہے۔

    لڑکا:۔ جی ہاں۔

    نیلم پری:۔ اچھا۔ اپنی آنکھیں بند کرو۔ ادھر لڑکے نے آنکھیں بند کیں۔ ادھر پری نے ہوا میں اپنا آنچل ہلایا اور سارا جنگل پھر اسی ہرے بھرے میدان میں بدل گیا۔ لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ میدان دیکھ کر جان میں جان آئی۔ لڑکے کو جب ذرا اطمینان ہوا تو نیلم پری نے پوچھا ’’تم کیسے آئے؟‘‘ لڑکے نے دونوں بھائیوں کا سارا قصہ سنا دیا۔ وہ سینی اور گدھا واپس لینے جا رہا ہے۔ پری نے تالی بجائی اور فورا ایک دیو حاضر ہوئے۔ پری نے حکم دیا کہ ’’جاؤ سرائے والے بھٹیارے سے سینی اور گدھا چھین لاؤ۔‘‘ دیو آناً فاناً سرائے میں پہنچے اور چند منٹ میں سینی اور گدھا لاکر حاضر کر دیا۔ پڑی نے لڑکے کو ایک ڈنڈا دیا اور کہا ’’جو شخص تمہارا دشمن ہو اس کی طرف اس ڈنڈے کو پھینک کر کہنا ’’ناچ‘‘ پھر یہ ڈنڈا اس آدمی کی پیٹھ پر خوب ناچ دکھائے گا۔ اتنا مارے گا کہ وہ آدمی بے ہوش ہو جائے گا۔ ’’لڑکا سینی، گدھا اور ڈنڈا لے کر گھر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ پری نے دیو کو حکم دیا کہ جاؤ لڑکے کو گھر تک پہنچا آؤ ۔ دیو نے حکم پاتے ہی لڑکے کو تمام سامان کے ساتھ ہاتھ پر اٹھا لیا اور ہوا میں اڑتا ہوا آن کی آن میں گھر پہنچا۔

    گھرکے سب لوگ جمع ہو گئے۔ چھوٹے بھائی نے سب کی خوب دعوتیں کیں اور سونے کے ٹکڑے بھی بانٹے۔ اب درزی کی شرمندگی دور ہو گئی اور سب لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (بچوں کی اس کہانی کے مصنف ممتاز صاحب اسلوب ادیب، افسانہ نگار، صحافی اور مترجم اشرف صبوحی ہیں)

  • بھونرے کی کہانی!

    بھونرے کی کہانی!

    آج ننھی کنول کو زکام ہو گیا تھا۔

    بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ گھر میں امی اور نرسری میں آنٹی بہت منع کرتیں، بہت روکتیں، آنٹی نرسری میں سمجھاتیں، مگر ربر کے غباروں میں پانی بھر کر اس کا فوارہ بنانا، اسے دوسروں پر پھینکنا اور پانی کے سارے کھیل اسے بہت اچھے لگتے تھے اور ننگے پاؤں گھومنے میں تو اسے بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بس پھر اسے زکام ہو گیا۔ ناک سے پانی۔ آنکھوں سے پانی۔ آنکھیں لال۔ ’’آچھیں‘‘ کھوں، کھوں اور پھر بخار بھی ہو گیا۔ اب وہ نرسری کیسے جاتی۔ تو اسے چھٹی کرنی پڑی۔

    گھر پر اکیلے لیٹے لیٹے اس کا جی بہت گھبرا رہا تھا۔ امی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں۔ بہن بھائی سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اور ابا اپنے دفتر۔ پڑوس کے بچے بھی سب اپنے اپنے اسکول جا چکے تھے اور باہر گلی میں کھیلنے پر امی بہت خفا ہوتی تھیں۔

    جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تو وہ چپکے سے اٹھی اور گھر کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور آہستہ آہستہ اپنی گیند سے کھیلنے لگی۔ مگر اکیلے کب تک کھیلتی۔ بس اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔ رنگ برنگی تتلیاں، لال پیلی نیلی تتلیاں، پھولوں پر ناچتی پھر رہی تھیں۔ وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھونرے پر پڑ گئی۔

    بھن بھن کرتا کالا کلوٹا بھونرا جلدی جلدی ایک پھول سے دوسرے پھول پر اور دوسرے سے تیسرے پر اڑتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کسی پھول پر بیٹھتا تو پھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔ ننھی کنول تھوڑی دیر بھونرے کو غور سے گھورتی رہی اور پھر جیسے کوئی اپنے آپ سے بولنے لگے، اس نے بولنا شروع کر دیا۔
    ’’میاں بھونرے۔ میاں بھونرے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ سب تتلیاں تو کتنی رنگ برنگی اور سندر ہیں؟‘‘

    ننھی کنول ایک آواز سن کر ایک دم چونک پڑی۔ ’’کیا تم میری کہانی سنو گی؟‘‘ اس نے پھر وہی آواز سنی اور پھر اسے یقین ہو گیا کہ یہ بھونرے کی ہی آواز ہے۔ بھونرا بھن بھن کر رہا تھا اور اسی میں سے یہ آواز آ رہی تھی۔

    ’’کیوں!‘‘ کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں سنو! بھونرے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے چاندی ہیرے موت سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے، ہیرے موتی کے پردے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔ یہ پھول، پتے، ہری ہری گھاس سب سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں اور ہاں مجھے چڑیو ں کی چوں چوں، کبوتروں کی غٹرغوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس میں نے ایک دم حکم دیا۔ یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔ چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں، ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا باندھی جائیں۔‘‘

    ’’بس میرا حکم ہونے کی دیر تھی۔ تمام باغ اجڑ گئے۔ چڑیاں مر گئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘

    ’’کیا ہوا‘‘؟ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میرے دیس کے بچے جو باغوں میں کھیلتے پھرتے تھے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے وہ سب اداس ہو گئے اور پھر بیمار ہو گئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ اس لئے بچوں کے ماں باپ پریشان ہو گئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہو گئے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور ایک دن دیس کے سارے بچوں نے اور ان کے ماں باپ نے میرے محل کو گھیر لیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔ میرے سارے بدن پر کالک مل دی۔ انہوں نے کہا تم نے ہمارے دیس کو اجاڑ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو دکھی کر دیا ہے۔ انہیں بیمار ڈال دیا ہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کا ہے۔ جاؤ۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں، ہری ہری گھاس اور جھومتے پودوں کو لے آؤ ان سب ناچتی گاتی چڑیوں اور رنگ رنگیلی تھرکتی تتلیوں کو لاؤ جنہیں تم نے دیس سے بھگا دیا ہے۔ ان سب کو منا لاؤ تو اس دیس میں آنا۔

    ’’بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھر رہا ہوں، میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھر رہا ہوں۔ ننھی کنول! کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کے لئے کہہ دو گی۔ اب مجھے پھولوں، پتوں، کلیوں، تتلیوں، چڑیوں سب سے بہت پیار ہو گیا ہے۔‘‘

    ننھی کنول کی امی کو جب اپنے کام سے ذرا چھٹی ہوئی تو وہ اسے دیکھنے اس کے بستر کے پاس آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی اک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سو رہی ہے اور ایک بھونرا اس کے پھول جسے لال لال کلے کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اڑ رہا ہے۔

    (بچّوں کے لیے یہ کہانی بھارتی شاعرہ اور ادیب سیدہ فرحت نے تحریر کی ہے)

  • ادبِ‌ اطفال اور اسماعیل میرٹھی

    ادبِ‌ اطفال اور اسماعیل میرٹھی

    مولوی اسماعیل میرٹھی ایسے محسنِ اردو ہیں جنھوں نے اپنے زمانے میں بچّوں‌ اور نوجوانوں کی فکری سطح پر راہ نمائی، اور تعلیم کے ساتھ اُن کی تربیت کے لیے اردو زبان میں خوب تخلیقی کام کیا۔ مشہور نظم ‘ہماری گائے’ کا یہ شعر آپ کو بھی یاد ہوگا ؎

    ربّ کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    یہ مشہور نظم اسماعیل میرٹھی نے لکھی تھی جسے آج بھی بچّے نہایت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کا زمانہ تقسیمِ‌ ہند سے بہت پہلے کا ہے۔ بچّوں کے لیے دل چسپ، معلومات افزا اور سبق آموز کہانیاں اور نظمیں لکھنے والے میرٹھی صاحب کو دنیا سے گئے ایک صدی بیت چکی ہے۔ وہ یکم نومبر 1917ء میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ان کے علمی و ادبی کاموں کی وجہ سے بہت عزّت اور بڑا مقام حاصل ہوا۔ اسماعیل میرٹھی نے بالخصوص بچّوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ مسلمان قوم کی کردار سازی کو بہت اہمیت دی۔

    میرٹھی صاحب کے فن کا یہی ایک پہلو کچھ اس قدر نمایاں ہوا کہ وہ بچّوں ہی کے ادیب مشہور ہوگئے جب کہ دیگر اصنافِ‌ ادب میں بھی انھوں نے بڑا کام کیا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ ’’اسماعیل کو صرف بچّوں کا شاعر سمجھنا ایسی ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔‘‘

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ایک شاعر، ادیب اور مضمون نگار تھے۔ اردو کے نصاب اور تدریس کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

    12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں آنکھ کھولنے والے اسماعیل میرٹھی نے غدر کا زمانہ دیکھا اور مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پستی اور ان میں رائج غلط رسم و رواج اور توہّمات ان کے سامنے تھے، جن سے نجات دلانے کے لیے مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ کی حیثیت سے سرسیّد اور ان کے رفقا کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اسماعیل میرٹھی نے بھی ان کا اثر قبول کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران انھوں‌ نے تخلیقی سفر کا آغاز کردیا اور بالخصوص اس دور کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور میں آگاہی اور شعور پھیلانے کی غرض سے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی۔ فارسی کی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے اسکول میں‌ داخل ہوگئے اور 20 برس کے بھی نہیں تھے کہ محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ بعد میں مختلف شہروں میں تدریس سے وابستہ رہے اور 1899ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد میرٹھ میں مقیم رہے۔

    اسماعیل میرٹھی نے کئی درسی کتب تحریر کیں۔ اس کے علاوہ کئی مضامین، نظمیں، حکایات اور کئی طبع زاد کہانیاں جب کہ فارسی اور انگریزی سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ قصّے بھی ان کی اہم کاوش ہیں۔ ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آبیاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز میں بچّوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور اس حوالے سے تدریسی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ مولوی صاحب نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا تھا۔

    پروفیسرحامد حسین قادری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو اسماعیل میرٹھی کو جدید نظم اور اس صنف میں ہیئت کے تجربات کے لیے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل غدر کی ناکامی کے بعد سر سیّد کی تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت سے ادیب اور شاعر سامنے آئے لیکن بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ادب تخلیق کرنے والے گنے چنے نام تھے اور اس طرف توجہ نہیں دی جارہی تھی۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اور ابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالکِ متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کیے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔

    ان کی شخصیت اور شاعری کثیر جہتی تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصنافِ سخن اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ ” ریزۂ جواہر” کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی ادب سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لیے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد خوابیدہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے باخبر رکھنا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ بچّے علم سیکھیں اور ساتھ ہی اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات کو بھی سمجھیں۔

    مولوی صاحب کو اس وقت کی حکومت نے "خان صاحب” کا خطاب دیا تھا۔

  • ملا نصر الدین ہندوستان آئے!

    ملا نصر الدین ہندوستان آئے!

    پیارے بچو! اگر آپ کو کہیں تیز چالاک آنکھیں اور سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی لیے کوئی شخص نظر آ جائے تو رک جائیے اور غور سے دیکھئے، اگر اس کی قبا پرانی اور پھٹی ہوئی ہو، سر پر ٹوپی میلی اور دھبوں سے بھری ہوئی ہو اور اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے اور خستہ حال ہوں تو یقین کر لیجیے کہ وہی خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا ہیں۔

    وہی خواجہ نصر الدّین جو ملا نصر الدّین کے نام سے معروف ہیں اور جن کی کہانیاں آج بھی عراق، ایران، ترکی، روس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہیں، ازبکستان، آذربائیجان، ترکمانیہ اور تاجکستان وغیرہ میں اُن کا ذکر اس طرح رہتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کے ہوں!

    خواجہ بخارا کا گدھا بھی گھر ہی کا کوئی فرد نظر آتا ہے جہاں خواجہ کا ذکر وہاں ان کے گدھے کا ذکر۔

    تو بچو، خواجہ نصر الدّین عرف خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین اپنے گدھے پر سوار ہندوستان کے سفر پر آئے ہوئے ہیں، ہوشیار چمکتی ہوئی آنکھوں، سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی اگائے، پھٹی پرانی قبا اور سر پر میلی کچیلی ٹوپی کے ساتھ کوئی شخص گدھے پر سوار یا اپنے گدھے کو تھامے کہیں نظر آ جائے تو بلا تکلف اسے روک لیجیے ورنہ آپ ایک بہت بڑی شخصیت کے حقیقی دیدار سے محروم ہو جائیں گے۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے خواجہ کو ایک شام پرتکلف کھانا ضرور کھلائیے، ہاں جب بھی خواجہ کو مدعو کیجیے تو یہ ہرگز نہ بھولیے کہ ان کے گدھے کے لیے ہری ہری گھاس کی بھی ضرورت ہو گی۔ ایسا نہ ہوگا تو گدھا بدک جائے گا، خدانخواستہ گدھا بدکا تو یہ سمجھئے کہ خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین بدکے۔

    ایک شام انڈیا گیٹ سے سرپٹ جو اپنا گدھا دوڑایا تو خواجہ بخارا عرف ملا نصر الدین نے بوٹ کلب کے میدان کے پاس ہی آ کر دم لیا۔

    بوٹ کلب پر اتنی بھیڑ تھی کہ اللہ توبہ کوئی جلسہ ہو رہا تھا اور نیتا لوگ تابڑ توڑ اپنا بھاشن داغ رہے تھے۔ ملا جی اپنے گدھے کو لیے ایک طرف بیٹھ گئے، گدھا بھوکا تھا اور خواجہ بخارا کو بھی بھوک لگ رہی تھی۔ گدھا اطمینان سے پیٹ بھر نے لگا اس لیے کہ لان میں ہری ہری گھاس موجود تھی، ملا نصر الدّین کی نظر سامنے کھڑے خوانچے والے کے اوپر تھی کہ جس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا، انھیں معلوم نہ تھا کہ خوانچے والا کیا فروخت کر رہا ہے۔ سوچ رہے تھے بھیڑ چھٹ جائے تو دیکھیں اس کے پاس کیا ہے۔

    بچو، تم سب جانتے ہو کہ اپنے دیش کے نیتا لوگ کیا پسند کرتے ہیں۔ ایک عدد مائیکرو فون اور ایک اسٹیج۔ سننے والے دو چار ہی کیوں نہ ہوں، یہاں اسٹیج بھی تھا، مائیکرو فون بھی اور جنتا بھی، بھلا کس بات کی کمی تھی، نیتا لوگوں کی پھٹی پھٹی آوازوں سے کان کے پردے پھٹ رہے تھے۔ درمیان میں نعرے بھی بلند ہو رہے تھے، زندہ باد، مردہ باد۔ ملا نصرالدین کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا، سوچنے لگے یہ لوگ دیوانے ہیں یا خون کے پیاسے۔ یہ بات بخوبی سمجھ رہے تھے کہ جو نیتا لوگ بھاشن دے رہے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ اپنے لفظوں سے نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملا جی سوچنے لگے عجیب بات ہے۔ کہنے کو یہ لوگ رہنما ہیں اور باتیں نفرت کی کرتے ہیں۔ اس سے تو نقصان ان کے اپنے لوگوں کا ہی ہوگا۔ اپنے ملک کا ہوگا۔ جب خواجہ صاحب دہلی پہنچے تھے تو انھوں نے ایک شخص سے پوچھا تھا ’’میاں دلی کا کیا حال ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا تھا ’’کیا پوچھتے ہو صاحب، ہر جانب صرف دھما چوکڑی ہے۔‘‘ اب ملا جی کی سمجھ میں دھما چوکڑی کا کیا مطلب سمجھ میں آیا۔ اچانک جلسہ ختم ہوا اور ملا جی نے دیکھا ایک بھگدڑ مچ گئی ہے۔ لوگ ہیں کہ بس ایک دوسرے پر لڑھکتے جا رہے ہیں، کچھ لوگ پستے جا رہے ہیں لیکن نیچے گر کر بھی اپنی بتیسی نکالے ہوئے ہیں جیسے ان کے جوڑوں کا درد ٹھیک ہو رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام خوانچے والوں کی چلتی پھرتی دُکانیں لٹنے لگیں۔ خوانچہ والے آئس کریم والے سب اس طرح بھاگ رہے تھے جیسے دم دبا کر بھاگ رہے ہوں۔ خواجہ بخارا کو بصرہ کا وہ ساربان یاد آ گیا بچو، جسے آہن گر نے قرض وصول کرنے کے لیے صرف ایک طمانچہ رسید کیا تھا اور وہ اپنی اُونٹنی چھوڑ سرپٹ دوڑا تھا جیسے اس کے پیچھے بوتل کا جن نکل آیا ہو۔

    خواجہ نصر الدّین سوچ رہے تھے لوگ اطمینان سے کیوں نہیں نکل رہے ہیں، یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو نیتا لوگوں کا بھاشن سن رہے تھے آپس میں لڑنے لگے، دھول اڑنے لگی، چیخ پکار، نعرے بازی، مُلّا جی کا گدھا بھی گھاس چھوڑ کر اس جانب دیکھنے لگا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو لگا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے۔ ملا جی نے اسے ڈانٹا، کہا: ’’اے عقلمند گدھے تجھے کیا ہو گیا ہے، یہ لوگ تو تقریریں سن کر باؤلے ہو رہے ہیں۔ نفرت اپنی جھولی میں بھر بھر کر لیے جا رہے ہیں، لڑتے بھی جا رہے ہیں اور نفرت سے جھولی بھرتے بھی جا رہے ہیں، ذرا اُن کی آوازیں تھم جائیں پھر اپنا راگ سنانے کی کوشش کر۔’’ گدھا اپنے مالک کی بات فوراً سمجھ گیا اور خاموش ہو گیا۔

    ملا جی نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’میرے پیارے گدھے تو نیتاؤں سے بہت اچھا ہے تو مدد کرنے والا جانور ہے اور وہ — وہ نفرت پھیلانے والے لوگ! میرے پیارے گدھے، میں نے بخارا میں سنا تھا کہ اس ملک میں بھوک ہے، بیکاری اور بیروزگاری ہے۔ غریبی اور مہنگائی ہے۔ سیلاب اور خشک سالی ہے، اتنی ساری بیماریاں ہیں، پھر یہ نئی بیماری نفرت کی کہاں سے ٹپک پڑی۔’’ گدھے نے ان کی باتیں سنتے ہوئے ایک بار ’ڈھینچو’ کہا یعنی مالک آپ ٹھیک فرما رہے ہیں اور خاموش ہو گیا۔

    جب اندھیرا ہونے لگا تو ملا نصر الدّین اپنے گدھے پر سوار ہوئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ ایک شخص دوسری جانب سے دوڑا آ رہا تھا۔ اس نے ملا جی کو گدھے پر سوار دیکھا تو ہانپتے ہوئے بولا: ’’حضرت آپ جو بھی ہوں یہاں سے چلے جائیے، اس طرف پولیس کی گولیاں چل رہی ہیں۔ آپ خواہ مخواہ شہید ہونا کیوں چاہتے ہیں۔‘‘

    ملا نصر الدین نے اس شخص کو روک کر کہا: ’’السلام علیکم۔‘‘

    اس شخص نے کہا: ’’وعلیکم السلام۔ کہنے کا میرے پاس وقت نہیں ہے، میں تو بھاگ رہا ہوں، سنا ہے کہ بھاگنے والے سلام کا جواب دیتے ہیں تو پیچھے سے شیطان اسے دبوچ لیتا ہے۔‘‘ وہ شخص بری طرح ہانپ رہا تھا۔

    ملا نصر الدین مسکراتے ہوئے بولے ’’میاں جو ہو رہا ہے ہونے دو، میں تو کبیر داس کی تلاش کر رہا ہوں۔ وہ مجھے مل جائیں تو ہم دونوں حالات پر قابو پالیں گے۔‘‘

    ’’کبیر داس؟ وہ برسے کمبل بھیگے پانی والے کبیر داس؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

    ہاں وہی کہاں ملیں گے؟’’ ملا نصر الدین نے پوچھا۔ ’’

    ’’وہ تو ہمارے حال پر ماتم کرتے ہوئے جانے کہاں گم ہو گئے، انھوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن کسی نے ان کی بات نہیں مانی، پھر وہ چلے گئے، مجھے معاف کیجیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ وہ شخص پھر دوڑنے لگا۔

    ملا نصرالدین نے کہا ’’آپ شوق سے دوڑیے، صرف ایک پیغام ہے میرا اسے اس ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دیجیے، یہ پیغام دراصل داس کبیر کا ہے اور اب میرا بھی سمجھئے، لوگوں سے کہیے اس پیغام کو پانی میں گھول کر پی جائیں، اللہ شفا دے گا۔‘‘

    جلدی بتائیے پیغام کیا ہے، میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

    ’’میرا پیغام یہ ہے، اِسے پڑھ لیجیے، یاد کر لیجیے اور اس ملک کے تمام لوگوں سے کہیے یہ بابا کبیر داس کا پیغام ایک بار پھر سن لو۔ ملا نصرالدّین یہی پیغام سن کر بخارا سے ہندوستان آئے ہیں‘‘۔

    آپ جلدی سے پہلے پیغام تو پڑھیے میں دوڑ رہا ہوں۔’’ اس شخص نے کہا۔’’

    ملا نصرالدین نے داس کبیر کا یہ شعر پڑھا:

    چھینہ بڑھے چھن اوترے سو تو پریم نہ ہوئے
    اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے

    اس کا مطلب جلدی سے بتائیے میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے گزارش کی۔’’

    ملا نصرالدّین نے کہا ’’میاں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایک لمحے میں چڑھے اور دوسرے لمحے میں اتر جائے وہ محبت نہیں ہوتی جب ایسی محبت انسان میں پیدا ہو جو کم ہونے والی نہ ہو وہی محبت کہلاتی ہے۔‘‘

    اس شخص نے کہا ’’بہت خوب بہت خوب۔ بابا کبیر داس کا جو پیغام آپ لائے ہیں میں اسے ملک کے تمام لوگوں تک پہنچا دوں گا۔ میں دوڑ رہا ہوں، دوڑتے دوڑتے ہر گھر میں یہ بات پہنچا دوں گا۔ اب چلا اس لیے کہ میں دوڑ رہا ہوں۔‘‘

    ملا نصرالدین مسکرائے اور گدھے پر سوار جامع مسجد علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کی زبان پر یہ مصرع تھا۔

    اگھٹ پریم پنجر بسے پریم کہاوے سوئے۔

    (کہانی کے مصنّف شکیل الرحمٰن کا تعلق بھارت سے ہے)

  • اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    اپنی مدد آپ (ایک پُراثر کہانی)

    ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔

    وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریو، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘

    یہ سن کر ایک پری آئی اور بولی، ’’آؤ میں تمہاری مدد کروں۔ ذرا تم پہیوں کے آس پاس سے کیچڑ تو ہٹاؤ۔‘‘ گاڑی والے نے فوراً کیچڑ ہٹا دی۔

    پری بولی، ’’اب ذرا راستے سے کنکر پتھر بھی ہٹا دو۔‘‘ گاڑی بان نے کنکر پتھر بھی ہٹا دیے اور بولا، ’’پیاری پری، اب تو میری مدد کرو۔‘‘

    پری ہنستے ہوئے بولی، ’اب تمہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنا کام آپ کر لیا ہے۔ گھوڑے کو ہانکو۔ راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘

    (معروف پاکستانی شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • قصہ لکھن لال جی کا…

    قصہ لکھن لال جی کا…

    مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹا تھا۔

    وہ اچانک ہماری حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہرہ، کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اچھلتی لچکتی بڑی سی دُم، میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اچھل اچھل کر کہنے لگے،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    میں ڈر سے تھر تھر کانپنے لگا۔ میرے ماموں کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے مجھے پکڑ کر ان کے اور بھی قریب کر دیا اور انھوں نے مجھے گود میں لے لیا۔ پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال ہو گیا، تم نہیں جانتے بچو میرا کیا حال ہو گیا۔ جب انھوں نے مجھے چھوڑا تو میں نڈھال ہو چکا تھا تھر تھر کانپ رہا تھا— پھر مجھے فوراً ہی تیز بخار آ گیا۔ شب میں بھی میرے کانوں میں ان کی آواز گونجی،

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھر رہے کھاں’’

    ابھی تک مجھے وہ بے معنی آواز یاد ہے۔ بچپن کی یادوں کے ساتھ یہ آواز بھی آ جاتی ہے۔ کل اس آواز کا خوف طاری ہو جاتا تھا تو تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔

    وہ ہر جمعہ کو آ جاتے، اسی طرح چیختے ہوئے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں۔’’ اور میں سہم جاتا۔ دالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن میرے ابو میرے ہاتھ سے محتاجوں کو پیسے کپڑے تقسیم کراتے۔ اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اس دن آ جاتے ہیں، جو مل جاتا لے کر چلے جاتے۔ اُنھیں دیکھ کر میری روح فنا ہو جاتی۔

    وہ۔۔۔ اور ان کے بے معنی لفظوں کی بھیانک آواز مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھی۔ حویلی کے کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا نا بچو، تو وہ کہتے ’’دیکھو وہ آ گیا بندر کی دُم والا۔‘‘

    ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘

    اور میری حالت غیر ہو جاتی، کبھی پلنگ کے نیچے کبھی لحاف کمبل میں دبک جاتا۔

    بہت دن بیت گئے۔ جب کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا ان کا نام لکھن لال ہے اور وہ ایک بہروپیا ہیں، مختلف قسم کے بھیس بدلتے اور گھر گھر جاکر پیسے مانگتے ہیں۔

    یاد ہے ایک روز وہ ڈاکیہ بن کر آئے اور حویلی کے چبوترے پر بیٹھے کچھ لوگ دھوکہ کھا گئے۔ پھر وہ بیٹھے رہے چبوترے پر اور اپنی کہانی سناتے رہے۔ میں بھی پاس ہی بیٹھا ان کی کہانی سننے لگا۔ مجھے یاد نہیں ان کی کہانی کیا تھی البتہ یہ تاثر اب تک ہے کہ وہ جو کہانی سنا رہے تھے اس میں کچھ دُکھ بھری باتیں تھیں، اپنی کہانی سناتے سناتے رو پڑے تھے۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا اس لیے کہ میں کسی کو روتا دیکھ نہیں سکتا۔

    اتنا یاد ہے ان کا نام لکھن لال تھا، موتی ہاری شہر سے کچھ دور ’’بلوا ٹال’’ میں رہتے تھے ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں۔ آہستہ آہستہ ان سے دوستی ہونے لگی۔ مجھے بتاتے کس کس طرح بہروپ بھر کر لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالتے رہے ہیں۔ اُن کی ہر بات بڑی دلچسپی سے سنتا، وہ کبھی عورت بن جاتے، کبھی پوسٹ مین، کبھی ہنومان، کبھی کرشن کنہیا۔ جب وہ اپنی بات پوری کر لیتے تو میں فرمائش کرتا ایک بار بولیے نا ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر…’’ اور وہ میری خواہش پوری کرتے ہوئے اپنے خاص انداز سے کہتے ’’ناک دھودھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں‘‘ ان سے اس طرح سنتے ہوئے اچھا لگتا۔

    پھر وہ کہاں اور میں کہاں، میں اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست سے بہت دور اور وہ میرے اور اپنے پرانے شہر میں جانے کتنا زمانہ بیت گیا۔ ان کی یاد آئی تو اپنے پہلے خوف سے ان سے دوستی تک ہر بات یاد آ گئی۔ کشمیر میں اپنے بچّوں کو ان کے بارے میں بتایا اور میرے بچّوں کو بھی ان بے معنی لفظوں سے پیار سا ہو گیا۔ ’’ناک دھودھڑکی ناک نجر کھررے کھاں۔‘‘

    بہت دن بیت گئے۔ موتی ہاری گیا تو لکھن لال کی یاد آئی، پرانے لوگوں میں ان سے بھی ملنے کی بڑی خواہش ہوئی، اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا ’’میرے ساتھ بلوا ٹال چلو، لکھن جی کا مکان ڈھونڈیں شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔‘‘

    بڑی مشکل سے ان کی جھونپڑی ملی، ہم اندر گئے، دیکھا ایک کھٹولہ ہے، اسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ پڑا ہوا ہے، لکھن لال بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے اور سکڑ گئے تھے۔ اندر دھنسی ہوئی آنکھیں، بال ابرو غائب، دانت ندارد، حد درجہ سوکھا جسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھریاں کہ بس انھیں ہٹاکر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ منہ کھولے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا، اچھا ہوا جو مل لیے، اچھا ہوتا جو نہ ملتے۔ وہ اس رُوپ میں ملیں گے، سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو، ہنومان، لنگور کا مکسچر یاد آ گیا کہ جس نے اُچھل اُچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں۔

    کیا یہ وہی شخص ہے؟ کیا یہ وہی لکھن لال ہیں؟ انھوں نے مجھے پہچانا نہیں۔ ممتاز نے انھیں میری یاد دلائی۔ انھیں یاد آ گیا، پرانا وقت، میرا نام سنتے ہی کھٹولے پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والے کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ان کے پیار کی خوشبو مجھ تک پہنچ گئی۔ دھنسی ہوئی آنکھوں سے کئی قطرے ٹپک پڑے، میری آنکھوں میں بھی اپنے پرانے بزرگ دوست کو دیکھ کر آنسو آ گئے۔ اُنھوں نے آہستہ آہستہ ایک ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا۔ اسی وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔ ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے۔ نیم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رشتوں کو پڑھ رہے تھے۔ کوئی آواز نہ تھی۔ بچّو! میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے ، سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ اے- ون ہے۔ سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اسی کی ہنسی پر دنیا قائم ہے۔ ذرا اب تو ہنس کر دیکھے یہ بہروپ دیکھ کر رو پڑے گا۔

    جب رخصت ہونے لگا تو انھوں نے روکا، آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک۔۔۔ دھو۔۔۔ دھڑ۔۔۔ کی ناک۔۔۔ نجر۔۔۔ کھررے۔۔۔ کھاں۔’’ پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی۔

    پھر میری طرف دیکھتے ہی دیکھتے آنکھیں بند کر لی۔ پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سو جاتے ہیں۔ اور ایک دن لکھن اچانک ابدی نیند سو گئے۔

    بہروپیا اپنے نئے روپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا۔

    (اردو میں جمالیاتی تنقید کے ممتاز نقاد شکیل الرّحمٰن کی بچّوں کے لیے ایک کہانی)

  • گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    گھیراؤ (ادبِ اطفال سے انتخاب)

    پچھلے پچاس منٹ سے تینوں بچے سَر جوڑے غور و فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لیکن ابھی تک کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تینوں کی خواہش تھی کہ کل اتوار کو انٹرنیشنل سرکس دیکھا جائے۔ اس سرکس کی بے حد تعریف ہو رہی تھی اور آج یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ اسی ہفتے میں اس شہر سے سرکس والوں کا ڈیرا اٹھنے والا ہے۔

    تینوں میں سب سے بڑا شہیر تھا۔ وہی ممی کے پاس اجازت لینے کے لیے پہنچا، لیکن ابھی اس کے منہ سے سرکس کی بات نکلی ہی تھی کہ ممی کا سنسناتا ہوا طمانچہ اس کے گال پر پڑا۔ شہیر کی آنکھوں کے سامنے رنگ برنگے تارے ناچ گئے۔ ہما اور ڈولی دروازے کے قریب ہی کھڑے اندر جھانک رہے تھے۔ چٹاخ کی آواز سنتے ہی ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی اور دونوں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آ گئیں۔

    ممی چلا رہی تھیں: "جمعرات سے امتحان شروع ہو رہا ہے اور تمھیں سرکس کی سوجھ رہی ہے۔”

    ممی کے اس سخت برتاؤ پر غور کرنے کے لیے ہی وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ "ہمارے سرکس دیکھنے جانے پر ممی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” ہما نے کہا۔

    "امتحان تو صرف بہانہ ہے۔ امتحان جمعرات سے شروع ہو گا اور ہم کل سرکس دیکھنے جانا چاہتے ہیں۔” ڈولی بولی۔

    شہیر اپنا گال سہلاتے ہوئے بولا: "سرکس دیکھنے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔”

    ڈولی بولی: "بھیا! آپ ایک غلطی کر رہے ہیں۔”

    شہیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا: "کیا؟”

    "ممی کا طمانچہ آپ کے بائیں گال پر پڑا ہے، مگر غلطی سے دایاں گال سہلا رہے ہیں۔”

    "ڈولی! اس مسئلے کو یوں مذاق میں نہ ٹالو۔” ہما نے چھوٹی بہن کو ڈانٹا۔

    "آئی ایم سوری۔” ڈولی غلطی مان گئی۔

    ہما اصل موضوع پر آتے ہوئے بولی: "ممی کے سلسلے میں ہمیں کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔ آج بھیا کے طمانچہ لگا ہے، کل ہمارے بھی لگ سکتا ہے۔”

    شہیر نے مشورہ دیا: "کیوں نہ ہم ممی کا گھیراؤ کریں۔”

    "گھیراؤ!” ڈولی نے پوچھا: "یہ کیا چیز ہوتی ہے؟”

    "ٹھیک طرح تو مجھے بھی نہیں معلوم ہے، ویسے ریڈیو پر اکثر سنتا ہوں کہ فلاں جگہ مزدوروں نے مینجر کا گھیراؤ کیا اور اپنی باتیں منوا لیں۔”

    ہما نے کہا: "ہاں ٹھیک ہے۔ جس کا گھیراؤ کرنا ہو اس چاروں طرف سے گھیر لو۔”

    ڈولی بیچ میں بول پڑی: "پھر اسے نہ کام کرنے دو اور نہ کھانا پکانے دو، مزہ آ جاتا ہو گا۔”

    "بالکل۔” شہیر نے کہا۔

    ڈولی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: "لیکن ہم تو صرف تین ہیں۔ ممی کو تین طرف سے ہی گھیر سکتے ہیں۔ چوتھی طرف سے وہ نکل جائیں گی۔”

    "اس بات کی تو اتنی فکر نہیں ہے، لیکن مجھے ڈولی پر بھروسا نہیں ہے۔ ابھی پرسوں یہ ایک چھوٹی سی چوہیا سے ڈر کر ممی سے لپٹ گئی تھی۔” ہما نے ڈولی کا مذاق اڑایا۔

    ڈولی تلملا کر بولی: "چوہیا، چوہیا ہوتی ہے۔ میں گھیراؤ کرنے سے بالکل نہیں ڈرتی۔”

    ہما نے اسے چڑایا: ” رہنے بھی دو، میں نہیں مان سکتی۔ گھیراؤ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔”

    "اچھی طرح سوچ لو، ممی کا گھیراؤ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہم طمانچوں اور جھڑکیوں کی بارش ہو جائے۔ اس وقت ہمیں گھبرا کر میدان نہیں چھوڑنا ہو گا۔”

    اتنے میں باورچی خانے سے ممی کی آواز سنائی دی: "شہیر! جلدی سے یہاں آؤ۔”

    "مت جاؤ بھیا۔” ڈولی نے کہا۔

    "نہیں مجھے ضرور جانا چاہیے۔” شہیر کانپتے ہوئے بولا۔

    ڈولی ہنس کر بولی: "لو، مجھے کہتے ہیں اور اب خود ہی ڈرنے لگے۔”

    "تم سمجھتی کیوں نہیں ڈولی! ہو سکتا ہے طمانچہ مار کر ممی پچھتا رہی ہوں اور آئس کریم کھانے کے لیے پیسے دینا چاہتی ہوں۔” یہ کہہ کر شہیر چلا گیا۔

    ایک منٹ بعد شہیر پچاس روپے کا نوٹ ہاتھ میں لیے لوٹا۔

    "ممی نے یہ نوٹ نکڑ والی دکان سے مسور کی دال لانے کے لیے دیا ہے۔” اس نے بتایا۔

    ہما نے پاؤں پٹک کر کہا: "آپ کو دال کبھی نہیں لانی چاہیے۔”

    ڈولی بولی: "یہ دال لانے کا نہیں، آپ کی ناک کا سوال ہے۔”

    شہیر کا ہاتھ اپنی ناک پر چلا گیا اور اسے اچھی طرح ٹٹول کر بولا: "کیوں؟ کیا ہوا میری ناک کو؟”

    "بھیا! میرا مطلب آپ کی عزت اور بے عزتی سے ہے۔ دال آگئی تو گھراؤ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” ڈولی بولی۔

    شہیر چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا: "ٹھیک ہے، میں دال نہیں لاؤں گا، اور ۔۔۔ ۔۔”

    اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ شہیر گھبرا کر بولا: "ممی ادھر ہی آ رہی ہیں، میں دال نہیں لایا تو۔۔۔ ۔” گھبرا کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔

    ممی کے قدموں کی آہٹ ہر لمحہ نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔ سوچنے کا قطعی وقت نہیں تھا۔ سامنے ہی چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ شہیر اسی کے نیچے گھس گیا۔

    ممی ریل گاڑی کے انجن کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ آتے ہی بولیں: "ذرا نکڑ تک دیکھ کر آؤ، شہیر دال لینے گیا ہے۔ ابھی تک نہیں لوٹا۔ چولہا بےکار جل رہا ہے۔”

    ہما نے کہا: "آ جائیں گے۔”

    ممی نے دھم سے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا: "کیا بات ہے، تم دونوں اداس نظر آ رہی ہو؟”

    ممی کے بیٹھتے ہی شہیر کا برا حال ہو گیا۔ چارپائی اونچائی میں بہت کم تھی۔ یوں بھی اس کی بنائی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ ممی کا وزن جب شہیر کی پیٹھ پر پڑا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔”

    اسی وقت باہر سے ڈیڈی کی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔ وہ بھی کمرے میں آ گئے اور اسی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شہیر کے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کسی نے پانچ من کا وزن لاد دیا ہو۔ دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑے بھی آدھی سانس لے پا رہے تھے۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے گھیراؤ کرنے کی اسکیم بنائی اور خود چارپائی کے نیچے آ پھنسا۔

    ڈولی ہما کے کان میں بولی: "گھیراؤ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ دیکھو پیچھے دیوار ہے، ایک طرف سے ہم ممی اور ڈیڈی دونوں کو ہی گھیر سکتے ہیں۔”

    "لیکن بھیا کا تو اپنا ہی گھیراؤ ہو گیا ہے۔” ہما بولی۔ "کسی طرح بھیا تک اسکیم پہنچائی جائے۔” ڈولی منمنائی ڈیڈی بوٹوں کے تسمے کھولتے ہوئے بولے: "بھئی آج تو کمال ہو گیا۔ ہماری کنجوس کمپنی نے اس بار تین مہینے کا بونس دے ڈالا۔ تیس ہزار ہاتھ آ گئے۔”

    "تیس ہزار!” ممی کھل اٹھیں۔

    "ہاں، اسی خوشی میں کل ہم سرکس دیکھنے چلیں گے۔ اس کی بڑی تعریف سن رہا ہوں۔”

    ہما اور ڈولی اچھل پڑے۔ دونوں چلائے: "ہپ ہپ۔”

    چارپائی کے نیچے سے دبی دبی آواز آئی: "ہرا!”

    ممی اور ڈیڈی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دیکھا تو نیچے سے شہیر اپنی کمر پکڑے نکل رہا تھا۔

    "ارے تم دال لینے نہیں گئے؟” ممی نے پوچھا۔

    "ذرا جھپکی آ گئی تھی۔ بس اب میں یوں گیا اور یوں آیا۔” شہیر نے کہا اور دال لانے کے لیے دوڑ گیا۔

    (مصنّف: پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)

  • چار دوست اور پانچ جھوٹ

    چار دوست اور پانچ جھوٹ

    ایک گاؤں میں چار دوست رہتے تھے۔ وہ چاروں بے حد نکمّے اور کام چور تھے۔

    وہ چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی کام بھی نہ کرنا پڑے اور کھانے، پینے اور رہنے کی ہر چیز بھی میسر آتی رہے۔ ان چاروں میں جو سب سے بڑا تھا، وہ بہت چالاک اور ذہین کا تھا۔ اس نے انہیں لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسے بٹورنے کا ایک عجیب طریقہ بتایا۔ اس نے کہا ہم کسی دوسرے گاؤں چلے جاتے ہیں، وہاں کے لوگ ہمارے لئے اجنبی ہوں گے اور ہم ان کے لئے اجنبی ہوں گے، ہم گاؤں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر جھوٹ موٹ کی کہانیاں سنائیں گے اور اپنی مظلومیت بیان کریں گے یوں ہمیں کچھ نہ کچھ پیسے مل ہی جائیں گے۔ تینوں دوستوں نے اس طریقہ سے اتفاق کیا۔ چنانچہ اگلے ہی دن چاروں دوستوں نے رخت سفر باندھا اور ایک گاؤں میں پہنچے۔ وہاں کے امیر لوگوں کے پاس جاکر عجیب و غریب جھوٹی کہانیاں گھڑتے اور بعض دفعہ اپنی مظلومیت بیان کرتے تو لوگ ان کو پیسے دے دیتے۔ جب یہ چاروں گاؤں کے امیر لوگوں کو اچھی طرح لوٹ لیتے اور گاؤں کے لوگ ان کی چالاکی اور مکاری کو سمجھنے لگتے تو یہ اس گاؤں سے بھاگ کر کسی دوسرے گاؤں میں پہنچ جاتے اور وہاں کے لوگوں کو بے وقوف بنانے لگتے۔ اس طرح انہوں نے اچھا خاصا مال جمع کرلیا تھا۔ اور جھوٹ بولنے میں مہارت ہوگئی تھی۔

    ایک دفعہ یہ چاروں یوں سفر کرتے کرتے ایک دور دراز کے گاؤں میں پہنچے، وہاں ایک ہوٹل میں انہوں نے دیکھا کہ ایک کونے میں امیر کبیر تاجر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے آس پاس اس کا قیمتی سامان بھی پڑا ہوا تھا اور اس تاجر نے قیمتی لباس پہنا ہوا تھا۔ تاجر کو دیکھ کر ان چاروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور سب سوچنے لگے کہ کسی طرح اس تاجر کا سب مال ہمیں مل جائے۔ ان چاروں میں سب سے بڑے کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے یہ ترکیب تینوں کو بتائی تو تینوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔

    چنانچہ یہ چاروں دوست تاجر کے پاس گئے، سلام دعا کے بعد ان میں سے ایک دوست نے تاجر سے کہا: اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے ساتھ ایک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم سب ایک دوسرے کو جھوٹی کہانیاں سنائیں گے اور شرط یہ ہوگی کہ ان جھوٹی کہانیوں کو سچ کہنا پڑے گا، اگر ان کہانیوں پر کسی نے جھوٹا ہونے کا الزام لگایا تو وہ ہار جائے گا اور اس ہارنے والے کا سارا مال لے لیا جائے گا۔

    تاجر نے کہا واہ! یہ کھیل تو بہت مزیدار ہوگا۔ میں تیار ہوں اگر میں ہار گیا تو یہ سارا مال تمہارا ہو جائے گا۔ چاروں دوست یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ ہم ایسی ایسی جھوٹی کہانیاں اس کو سنائیں گے کہ یہ فوراً پکار اٹھے گا، یہ جھوٹ ہے ایسا نہیں ہوسکتا اور ہم جیت جائیں گے اور اس تاجر کا سارا مال قبضہ میں کرلیں گے۔

    ضروری ہے کہ ہمارے اس کھیل میں گاؤں یا ہوٹل کا بڑا بھی موجود ہو تاکہ وہ ہار، جیت کا فیصلہ کرسکے۔ تاجر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ چاروں دوستوں نے اس بات سے اتفاق کیا چنانچہ گاؤں کے چوہدری کو بلایا گیا اور وہ ان پانچوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔

    پہلے دوست نے کہانی شروع کی، کہنے لگا: میں ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا یعنی پیدا نہیں ہوا تھا کہ میری ماں اور باپ سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں آم کا ایک درخت نظر آیا، میری ماں نے وہاں رک کر میرے باپ سے کہا، مجھے آم کھانے ہیں، آپ درخت پر چڑھ کر آم توڑ کر لا دیں۔ میرے باپ نے کہا یہ درخت کسی اور کا ہے اور آم بھی بہت اوپر لگے ہوئے ہیں، میں نہیں چڑھ پاؤں گا۔ لہٰذا میرے باپ نے انکار کر دیا۔ مجھے جوش آیا میں چپکے سے ماں کے پیٹ سے نکلا اور درخت پر چڑھ کر آم توڑے اور لاکر ماں کے سامنے رکھ دیے اور واپس پیٹ میں چلا گیا۔ میری ماں اپنے سامنے آم دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور مزے لے لے کر کھانے لگی۔

    پہلے دوست نے کہانی سنا کر تاجر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ تاجر نے کہا: واہ! کیا زبردست کہانی ہے ماں کے کام آئے، یہ کہانی کیسے جھوٹی ہوسکتی ہے، نہیں یہ بالکل سچی کہانی ہے۔

    پہلے دوست نے جب یہ سنا تو منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ اب دوسرے دوست کی باری تھی وہ کہنے لگا: میری عمر ابھی صرف سات سال تھی، مجھے شکار کھیلنے کا بے حد شوق تھا، ایک دفعہ میں جنگل میں گیا وہاں اچانک مجھے دور ایک خرگوش نظر آیا، میں اس کے پیچھے دوڑ پڑا یہاں تک کہ میں اس کے قریب پہنچ گیا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ خرگوش نہیں بلکہ شیر ہے۔ شیر نے مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھنا شروع کیا اب تو میں بہت گھبرا گیا اور شیر سے کہا: دیکھو شیر بھائی میں تو تمہارے پیچھے صرف اس لئے آیا تھا کہ مجھے لگا جیسے آپ خرگوش ہو، خدا کے لئے مجھے جانے دو، لیکن شیر نے میری بات نہیں مانی اور دہاڑنے لگا، مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے ایک زور دار تھپڑ شیر کو مارا، شیر وہیں دو ٹکڑے ہوکر مرگیا۔

    واہ واہ! کیا بہادری ہے۔ بندہ کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہیے۔ یہ کہانی بالکل جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ تاجر نے دوسرے دوست کی کہانی سن کر اسے داد دیتے ہوئے کہا۔ اب وہ دونوں دوست جنہوں نے کہانی سنائی تھی انہوں نے ﴿اپنے تیسرے ساتھی کو﴾ چپکے سے آنکھ ماری کہ تو کوئی ایسی غضب کی جھوٹی کہانی سنا، جسے تاجر فوراً جھوٹ مان لے۔

    چنانچہ تیسرے دوست نے کہنا شروع کیا: مجھے مچھلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس وقت میری عمر صرف ایک سال تھی، ایک دن میں دریا کے کنارے گیا اور وہاں پانی میں جال ڈال کر بیٹھ گیا، کئی گھنٹوں جال لگانے کے باوجود ایک مچھلی بھی جال میں نہ آئی، میں نے پاس کھڑے مچھیروں سے پوچھا کہ آج دریا میں مچھلی نہیں ہے کیا؟ انہوں نے بتایا کہ تین چار دنوں سے ایک بھی مچھلی ہمیں نظر نہیں آئی۔ میں یہ سن حیران ہوا اور دریا میں غوطہ لگا دیا۔ دریا کی تہہ میں پہنچ کر میں نے دیکھا، ایک بہت بڑی مچھلی بیٹھی ہوئی ہے اور آس پاس کی تمام چھوٹی بڑی مچھلیوں کو کھائے جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے اس بڑی مچھلی پر بہت غصہ آیا۔ میں نے اس مچھلی کو ایک زبردست مکا رسید کیا اور اسے وہیں ڈھیر کردیا، پھر میں نے وہیں دریا کی تہہ میں بیٹھ کر آگ جلائی اور وہیں مچھلی پکائی اور کھا کر واپس دریا سے باہر آگیا اور اپنا سامان لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔
    تیسرے نے کہانی سنا کر امید بھری نظروں سے تاجر کی طرف دیکھا، تاجر نے کہا بہت اچھی کہانی ہے، دریا کی سب چھوٹی مچھلیوں کو آزادی دلائی، کتنا نیکی کا کام ہے بالکل سچی کہانی ہے۔

    اب چوتھے دوست کی باری تھی اس نے کہنا شروع کیا: میری عمر صرف دو سال تھی، ایک دن میں جنگل میں گیا، وہاں کھجوروں کے بڑے بڑے درخت تھے اور ان پر کھجوریں بہت لگی ہوئی تھیں۔ میرا بہت دل چاہا کہ میں کھجوریں کھاؤں، چنانچہ میں درخت پر چڑھا اور پیٹ بھر کر کھجوریں کھائیں۔ جب میں نے درخت سے نیچے اترنے کا ارادہ کیا تو مجھے لگا میں نیچے اترتے اترتے گر جاؤں گا۔ میں بھول گیا تھا کہ درخت سے نیچے کیسے اترتے ہیں۔ میں درخت پر بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ میں گاؤں سے سیڑھی لاکر اس کے ذریعے سے نیچے اتروں۔ چنانچہ میں گاؤں گیا، وہاں سے سیڑھی اٹھا کر درخت کے ساتھ لگائی اور اس کے ذریعے سے نیچے اترگیا۔

    اب چاروں دوستوں نے امید بھری نظروں سے تاجر کو دیکھا کہ اب ضرور کہہ دے گا نہیں یہ کہانی جھوٹی ہے۔ لیکن تاجر نے آگے بڑھ کر چوتھے سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا کیا زبردست دماغ پایا ہے۔ ایسی ترکیب تو بہت ذہین آدمی کے ذہن میں آسکتی ہے۔ بالکل سچی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

    اب تو چاروں بہت گھبرائے کہ کہیں ہم ہار نہ جائیں اور ہمارا سارا مال یہ تاجر لے اڑے۔ کہانی سنانے کی باری اب تاجر کی تھی۔ تاجر کہنے لگا: میں نے بہت سال پہلے ایک خوبصورت باغ لگایا تھا۔ اس باغ میں ایک سنہرے رنگ کا بہت نایاب درخت تھا۔ میں اس کی خوب حفاظت کرتا تھا، اور اس کو روز پانی دیتا تھا، یہاں تک کہ ایک سال بعد اس درخت پر چار سنہرے رنگ کے سیب نمودار ہوئے، وہ سیب بہت خوبصورت تھے اسی لئے میں نے ان کو نہیں توڑا اور درخت پر لگا رہنے دیا۔ ایک دن میں اپنے باغ میں کام کررہا تھا کہ اچانک ان چاروں سیبوں سے ایک ایک آدمی نکلا، چونکہ یہ چاروں آدمی میرے باغ کے ایک درخت سے نکلے تھے اس لئے میں نے ان کو اپنا غلام بنا لیا اور چاروں کو کام پر لگا دیا، لیکن یہ چاروں بہت نکمے اور کام چور تھے، ایک دن یہ چاروں بھاگ گئے اور خدا کا شکر ہے آج وہ چاروں غلام میرے سامنے بیٹھے ہیں۔

    یہ کہانی سن کر چاروں دوستوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ گاؤں کے چوہدری نے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی؟ چاروں دوستوں کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ تاجر کی اس کہانی کو جھوٹ کہیں تو ان کا سارا مال تاجر کا ہوجاتا ہے اور اگر سچ کہیں تو تاجر کے غلام قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ چاروں خاموش ہوگئے نہ ہاں میں جواب دیا اور نہ ہی ناں میں۔ گاؤں کے چوہدری نے ان کو چپ دیکھ کر تاجر کے حق میں فیصلہ کر دیا کہ یہ چاروں تمہارے غلام ہیں۔ یہ سن کر وہ چاروں تاجر کے قدموں میں گر پڑے اور لگے معافیاں مانگنے۔ تاجر نے چوہدری سے کہا: یہ چاروں بھاگتے ہوئے میرا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے بھاگے تھے، چلو میں ان کو آزاد کرتا ہوں لیکن ان کے پاس جو مال ہے وہ میرا ہے۔ چنانچہ گاؤں کے چوہدری نے ان چاروں دوستوں کے پاس جتنا مال تھا وہ سارا تاجر کو دے دیا۔

    وہ تاجر سارا سامان اور مال و دولت لے کر چلا گیا، یہ چارون بہت سخت پشیمان ہوئے انہیں جھوٹ کی نہایت بری سزا ملی تھی۔ چاروں دوستوں نے تہیہ کیا کہ وہ کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے اور محنت کر کے روزی کمائیں گے۔ چاروں واپس اپنے گاؤں چلے گئے اور جھوٹ سے توبہ کر لی۔

  • بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    حالات بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی علی کی خواہش پوری نہیں‌ ہوسکے گی اور اسے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس سال بھی نہ وہ روزہ رکھ سکے گا اور نہ ہی عید پر نئے کپڑے بنیں گے۔

    گزشتہ چند برسوں سے یہی ہورہا تھا کہ علی کی روزہ کشائی کی تقریب کسی نہ کسی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس مرتبہ کچھ آس بندھی تھی مگر اس کے ابو کی ملازمت اچانک ختم ہوجانے سے علی کی آس دم توڑ گئی تھی۔ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کبھی بھی اُس کی روزہ کشائی نہیں ہوگی، نہ وہ عید پر نئے کپڑے پہنے گا اور نہ ہی دوستوں کو عید پر تحفے دے سکے گا۔ روزے کا کیا ہے، وہ تو علی پچھلے رمضان میں بھی رکھ سکتا تھا، لیکن محرومیوں کی گود میں پروان چڑھنے کے سبب وہ ضدی ہو گیا تھا۔ اُس نے ضد پکڑ لی تھی کہ روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ نہیں رکھے گا۔ تیرہ سال کا ہوگیا تھا مگر اس کے اندر کا ضدی بچّہ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے ہمکتا رہتا۔

    خواب دیکھنے پر تو رقم خرچ نہیں ہوتی نا، چھوٹی چھوٹی آرزوئیں علی کو ستاتیں تو وہ نت نئے خواب بننے لگتا مگر جلد ہی اس کے خواب بکھر جاتے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر علی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ واضح نظر آنے والا چاند دھندلا سا گیا۔ یکایک علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے فرمانِ الٰہی یاد آگیا تھا ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا“ اور اسی پل علی نے اللہ کی رضا کے لیے دل میں پورے روزے رکھنے کا عہد کیا۔

    چاند دیکھ کر علی نے امی ابّو کو سلام کر کے اُنھیں خوش خبری سنائی کہ کل وہ پہلا روزہ رکھے گا اور انشاء اللہ پورے روزے رکھے گا۔ علی نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ علی جو روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ رکھنے پر آمادہ نہ تھا نہ صرف پابندی سے روزے رکھ رہا تھا بلکہ بلاناغہ تراویح بھی پڑھ رہا تھا۔ اور پہلی مرتبہ رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے رمضان کا سارا مہینہ اس نے اللہ سے گلے شکوے کرتے گزارا لیکن اس بار روزے رکھ کر علی کواحساس ہو رہا تھا کہ رمضان شکوے کا نہیں شکر کا مہینہ ہے۔ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ علی بہت خوش تھا کہ روزے کی برکت سے اُس نے اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ شکوے کی جگہ شکر اور بے صبری کی جگہ صبر نے لے لی۔ اب ضد بھی برائے نام رہ گئی تھی۔ اور پھر یوں ہُوا کہ افطار کے وقت پابندی سے مانگی جانے والی علی کی دعا قبول ہو گئی۔

    اس کے ابّو کو بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ معقول تھی۔ عید سے دو روز پہلے کمپنی نے عید کی خوشی میں ایڈانس تنخواہ دے دی۔ علی کی یوں کایا پلٹ ہوتے دیکھ کر اُس کے ابو نے عید کی خریداری کے لیے دو ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس عید پر وہ بھی نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا، دوستوں کے لیے تحائف لے گا۔ ابھی وہ منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اُس کے عزیز دوست حمزہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی۔ حمزہ نہایت غریب ذہین اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ اُس کے والد سرکاری دفتر میں کلرک تھے۔ اُن کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی، اُس پر یہ ناگہانی پریشانی، عید بالکل سر پر آگئی تھی۔ ایسے وقت میں اپنوں نے بھی اُن کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ علی کو جب ان حالات کا علم ہُوا تو اُس نے اپنی عید کی خریداری کی ساری رقم حمزہ کے ابو کو دے دی۔ علی کے والدین خوش تھے کہ اپنے دوست کی خاطر علی نے اپنی خوشیوں کی قربانی دی۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی احساس تھا کہ اب علی کو عید کے لیے نیا سوٹ نہیں دلوا سکتے۔ جب علی کی امی نے یہ بات اس سے کہی تو اُس نے کہا، ”کوئی بات نہیں مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں کہ میں معمولی کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھوں گا۔ میرے دوست کی صحت اور زندگی میرے کپڑوں، جوتوں، تحائف سے زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم اس کے بہت کام آگئی، اگر بروقت میں یہ رقم حمزہ کو نہ دیتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا اور میں عمر بھر عید کی خوشی نہیں منا پاتا۔“ یہ سُن کر علی کی امی نے بے اختیار اُسے گلے سے لگالیا۔

    عید کی صبح علی نے پرانے کپڑے پہنے لیکن اُس کے اندر آج کوئی محرومی نہیں تھی۔ وہ دل میں عجب قسم کا اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا تھا۔ عید گاہ سے واپسی پر جب حمزہ سے ملنے علی اُس کے گھر گیا تو اُسے اپنا منتظر پایا۔ حمزہ جانتا تھا کہ عید پر قیمتی کپڑے پہننا علی کا خواب تھا جو اس کی وجہ سے اس سال بھی پورا نہ ہو سکا۔ علی کو پرانے کپڑوں میں دیکھ کر حمزہ کی آنکھیں بھر آئیں۔؎

    علی! تم نے اپنے دل کو مار کر مجھے نئی زندگی دی، اگر تم بَروقت میرے علاج کے لیے پیسے نہ دیتے تو آج۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر حمزہ بری طرح رو دیا۔

    حمزہ! آگے کچھ نہ کہو، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور مجھے بھی۔

    کیا مطلب؟ تمہیں نئی زندگی دی؟ مگر کیسے؟ حمزہ نے حیرت سے سوال کیا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا۔ یقین کرو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں، میں خود کو بہت نیا نیا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو روزوں کا انعام بھی پا لیا۔ عید کی ایسی سچی خوشی مجھے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔“

    تم نے میرے لیے بہت کیا ہے علی! پَر میں تمہیں یہ سستا سا عید کارڈ ہی دے سکتا ہوں جو تمہارے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

    نہایت مسرت اور حیرت سے علی وہ کارڈ دیکھ رہا تھا، جس میں حمزہ کی محنت اور محبت دونوں ہی شامل تھی۔ کارڈ پر اشعار درج تھے۔

    چلو ختم روزے ہوئے عید آئی
    خوشی کا مسرت کا پیغام لائی
    مبارک ہو سب کو قمر عید کا دن
    کہ سب نے خوشی ہی خوشی آج پائی

    میرے دوست! جسے تم سستا عید کارڈ کہہ رہے ہو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھ کرمیں نے جان لیا کہ تشکر کتنی انمول نعمت ہے، صبر اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے اور یہ کہ سچی خوشی اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اوروں کے کام آنے میں ہے۔بیشک میں نے روزوں کا انعام پا لیا ہے، بیش قیمت انعام۔

    (مصنّف:‌ شائستہ زریں‌)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہو سکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی: ’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پَروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑ سکتے ہو، میں بھی آسمان پر اُڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کر سکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کر سکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کر سکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔‘‘

    میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لوگے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دوگے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرّم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیارے محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہراتی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچّو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کر سکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلّا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کر دیتا۔

    یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔سارے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔

    اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہو گئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہو سکتا ہے؟

    (بچّوں کی اس کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور مترجم ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)