Tag: ادب اطفال

  • پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    سَنی نے کئی بار پیسے گنے لیکن ہر بار نتیجہ ایک جیسا رہا۔ اُن پیسوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک پاؤنڈ چونتیس پنس اور بس……!

    ”تمہیں پیسے احتیاط سے خرچ کرنے چاہییں۔“ اُس کے بھائی وکی نے کہا۔ ”پیسے جمع کیا کرو، وہ چیزیں مت خریدا کرو جن کی تمہیں ضرورت نہ ہو۔“ وکی ہمیشہ اچھی نصیحتیں کرتا تھا لیکن سَنی بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتا تھا۔

    ”مجھے دیکھو! میں بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں، روز اسکول جانے سے پہلے لوگوں کے گھروں میں اخبار دینے جاتا ہوں اور جو پیسے ملتے ہیں، اُنہیں جمع کرتا رہتا ہوں تاکہ کوئی ضرورت کی چیز لے سکوں۔“

    سَنی کو رقم جمع کرنا تو اچھا لگتا تھا، لیکن پیسے کمانے کا خیال اُسے پسند نہیں تھا۔ وہ سوچتا کہ کیا ممکن ہے؟ کوڑھ مغز بچّوں کو ٹیوشن پڑھانا یا صبح سویرے گرم بستر سے نکل کر باہر سردی میں اخبار دینے جانا۔ نہیں ہرگز نہیں!

    ”امّی کی سال گرہ آرہی ہے اور انھیں تحفہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ سَنی وکی کی باتیں اَن سنی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔ ”ظاہر ہے! پیسہ کمانے اور محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ محنت تم کرنا نہیں چاہتے۔“ وکی بولا۔

    سَنی نے ٹھنڈی سانس بھری، لیکن پھر اچانک ہی اُس کے دماغ میں ایک زبردست خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر پرانے سامان کی دکان سے وہ اپنی امّی کے لیے کوئی تحفہ لے آئے۔ ”اصل تو انسان کی نیت ہوتی ہے! سستا، مہنگا کیا ہوتا ہے۔“ اُس نے خود سے کہا۔

    پندرہ منٹ بعد وہ پرانے سامان کی دکان پر کھڑا تھا۔ یہاں اُسے پرانی میزیں، کرسیاں، تصاویر اور سامانِ آرائش نظر آیا۔ زیادہ تر چیزیں بہت ردّی حالت میں تھیں، پھر سَنی کو اچانک ایک زنگ آلود چراغ نظر آگیا: ”امّی کو نوادرات سے خاصی دل چسپی ہے اور یہ زنگ آلود چراغ بہت نادر معلوم ہوتا ہے۔“ اُس نے سوچا۔ ”یہ کتنے کا ہے؟“ سَنی نے دکان دار سے پوچھا۔

    ”ایک پاؤنڈ اور چونتیس پنس۔“ دکان دار کا جواب سن کر سَنی خوش ہوگیا۔ ”آپ ایسا کریں، یہ چراغ مجھے دے دیں۔“ اس نے فوراً اپنی کُل جمع پونجی دکان دار کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ دکان سے نکل کر اُس نے چراغ اپنی بائیک کی باسکٹ میں احتیاط سے رکھا اور روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ایک بہت بڑی کار دکان کے باہر آکر رُکی۔ ایک لمبا چوڑا شخص قیمتی سوٹ پہنے کار سے باہر آیا۔ اُس نے سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔

    ”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے امیر لوگ بھی کباڑیے کی دکانوں سے خریداری کرتے ہوں گے۔“ سَنی نے حیران ہو کر سوچا، پھر اُس نے بائیک اسٹارٹ کی، لیکن فوراً ہی اُسے اپنے پیچھے کار کا ہارن سنائی دیا۔ یہ وہی بڑی کار تھی جو اُس نے دکان کے باہر دیکھی تھی۔ کار اُس سے آگے نکل گئی اور پھر اُس کا راستہ روک لیا۔ سَنی نے بڑی مشکل سے بریک لگائے۔ کار کی کھڑکی کھلی اور لمبے چوڑے شخص نے باہر جھانکا۔

    ”اس حرکت کا مطلب؟ ابھی ایکسیڈنٹ ہوتے بچا ہے۔“ سَنی نے غُصّے سے کہا۔

    ”بہت معذرت! میرا ڈرائیور بعض اوقات بہت بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتا ہے۔“ آدمی نے مسکرا کر کہا اور دوبارہ گویا ہوا: ”مجھے اپنا تعارف کرانے دیجیے۔ میرا نام بلڈ ہاؤنڈ ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اُس کی مُسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔

    سَنی جانتا تھا کہ اُسے اجنبیوں سے بات نہیں کرنی چاہیے اسی لیے اُس نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کر دی، لیکن بلڈ ہاؤنڈ نے جلدی سے کہا: ”تم یقیناً حیران ہو رہے ہوگے کہ ہم نے تمہارا راستہ کیوں روکا؟ تو سنو! میں کئی برس سے ایک خاص چیز کی تلاش میں تھا۔ آج مجھے پتا چلا کہ وہ چیز اُس دکان پر مل سکتی ہے، لیکن جب میں دکان پر آیا تو مجھے پتا چلا کہ تم وہ چیز پہلے ہی خرید چکے ہو۔“

    ”اوہ! تو یہ چراغ کا چکّر ہے مگر میں یہ چراغ نہیں دوں گا۔“ سَنی نے کندھے اچکائے۔

    ”میرے خیال میں تم میری بات سمجھے نہیں۔“ بلڈ ہاؤنڈ کی آواز سرد ہو گئی: ”پیسوں کے لحاظ سے اس چراغ کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن مجھے اس چراغ سے ایک ذاتی لگاؤ ہے اسی لیے میں تم سے یہ چراغ خریدنا چاہتا ہوں۔“

    ”بہت معذرت! میں یہ چراغ بیچنا نہیں چاہتا۔“ سَنی نے کہا۔

    ”سو پاؤنڈ میں بھی نہیں؟“ سَنی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

    ”سو پاؤنڈ!“ وہ چراغ باسکٹ سے نکال کر اُس کے حوالے کرنے ہی والا تھا کہ اُس نے بلڈ ہاؤنڈ کی آنکھوں میں لالچ کی چمک دیکھی۔ وہ یک دم ٹھٹک گیا۔

    ”نہیں! ہوسکتا ہے، یہ چراغ سو پاؤنڈ سے زیادہ قیمتی ہو۔“ اُس نے سوچا اور پھر تیزی سے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔

    ”ایک ہزار پاؤنڈ؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے بولی لگانے والے انداز میں کہا۔ سَنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ شاید یہ کوئی انمول چراغ ہے اور پھر اس شخص کا چہرہ کس قدر سفّاک اور مکروہ لگ رہا ہے، چناں چہ اُس نے پھر نفی میں سَر ہلا دیا۔

    بلڈ ہاؤنڈ کی بھنویں تن گئیں، اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھ کر پر چلّایا: ”بہت ہوگیا! اس لڑکے سے چراغ چھین لو!“

    ڈرائیور گاڑی سے اُترا اور اُس کی طرف لپکا۔ وہ سَنی سے بہت طاقت ور تھا لیکن جب سَنی بائیک پر سوار ہو تو اُس کی تیز رفتاری کو شکست نہیں دی جاسکتی، پھر یہی ہوا۔ جلد ہی وہ اُن کی پہنچ سے دور تھا۔ ساتھ ہی سَنی نے گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ یقیناً وہ لوگ کار میں اُس کا تعاقب کررہے تھے۔ اُس نے جلدی سے اپنی بائیک، پتلی تنگ گلیوں میں گھسا دی تاکہ کار والے اُس تک نہ پہنچ سکیں۔ آخر کار وہ کئی گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا۔

    وہ وکی کو یہ سارا واقعہ سُنانے کے لیے بے چین تھا، لیکن گھر آکر پتا چلا کہ اُس کا بھائی ٹیوشن پڑھانے جا چکا ہے۔ اُس نے چراغ میز پر رکھ دیا۔ یہ ایک عام سا چراغ لگ رہا تھا، لیکن سَنی جانتا تھا کہ یہ یقیناً بے حد قیمتی چراغ ہے جب ہی تو بلڈ ہاؤنڈ اسے ہر حالت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سَنی نے دل ہی دل میں منصوبہ بندی کر لی۔ وہ پہلے اپنی امّی کو یہ چراغ بطور تحفہ دے گا، پھر وہ اسے نوادرات کے کسی ماہر کے پاس لے کر جائیں گے تاکہ چراغ کی اصل قیمت کا علم ہوسکے اور پھر…… اُف! وہ کتنے امیر ہو جائیں گے۔“ وہ خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔

    اُس نے جھاڑن اُٹھا کر چراغ کو صاف کرنا شروع کیا، لیکن اچانک کمرے میں جیسے بجلی چمکنے لگی ہو۔ پرانی جرابوں کی تیز بدبو آئی اور پھر کمرے میں دھواں بھر گیا۔ جوں ہی دھواں چَھٹا، اُس نے دیکھا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک عجیب و غریب سا آدمی تھری پیس سُوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لیے میز کے سامنے کھڑا ہے۔ اور اُس کا قد اتنا لمبا ہے کہ سَر چھت سے ٹکرا رہا ہے۔

    ”کیا حکم ہے میرے آقا! میں اس چراغ کا جنّ ہوں اور آج کے دن آپ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں۔“ اُس نے گونج دار آواز میں کہا۔ سَنی کچھ دیر کے لیے حیران و پریشان ہوا، لیکن وہ ڈرنے والا نہیں تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔ اس سے قبل کے وہ کچھ بول پاتا، جن کہنے لگا: ”اب میں ذرا آپ کو خواہشات ظاہر کرنے کے اصول سمجھا دوں۔“

    جی نہیں شکریہ! میں اس بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا ہوں۔ میں کوئی سی بھی تین خواہشات کرسکتا ہوں۔“ سَنی نے اُس کی بات کاٹ دی۔

    ”اوہو! نہیں بھئی! یہ سسٹم آج سے دو سو سال پہلے ہماری ”جن یونین“ نے ختم کردیا تھا۔ اب جونیا سسٹم آیا ہے، اُس کے مطابق چراغ کا مالک دو گھنٹے کے اندر کوئی بھی خواہش کرسکتا ہے۔ دو گھنٹے کے بعد جن دوبارہ چراغ میں واپس چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر اُصول و قوانین کچھ یوں ہیں ……“

    ”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ سَنی نے ایک بار پھر اُس کی بات کاٹ دی۔ ”زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس دو گھنٹے ہیں۔ کیا تم مجھے دس لاکھ پاؤنڈ دے سکتے ہو؟“

    ”ہاں!“ جن نے اکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے سرد آہ بھری اور چٹکی بجائی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

    ”یہ کیا بھئی……؟“ سَنی نے مایوسی سے کہا۔

    ”کیا مطلب؟ تو کیا تمہارے سامنے سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا کوئی صندوق آجاتا ابھی؟ ہم اب ان پرانے طریقوں سے کام نہیں کرتے۔ اپنی جیب میں دیکھو!“ جن نے برا سا منہ بنایا۔

    سَنی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ برآمد ہوا۔ یہ اُس کے بینک اکاؤنٹ کا اسٹیٹمنٹ تھا۔ ”دس لاکھ پاؤنڈ اور تین ین۔“ اُس نے باآواز بلند پڑھا۔

    ”تین ین تمہارے اکاؤنٹ میں پہلے سے موجود تھے۔“ جن نے وضاحت کی۔ سَنی نے خوشی سے ہاتھ مَلے۔ اُس کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا۔

    جب وکی ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹا تو حیران و پریشان رہ گیا۔ اُس کے گھر کی جگہ سنگ مَر مَر کا ایک عالی شان محل کھڑا تھا۔ وہ ڈرتے، ڈرتے اندر داخل ہوا تو اُس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کیا وہ راستہ بھٹک کر کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہے! وہ واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اُسے کچن سے سَنی کی آواز سُنائی دی: ”ہیلو! وکی بھائی!“

    ”یہ…… یہ سب کیا ہے سَنی؟“ اُس نے کچن میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔

    ”میرے نئے دوست سے ملو وکی!“ سَنی نے جنّ کی طرف اشارہ کیا تو وکی جنّ کو دیکھتے ہی خوف سے بے ہوش ہوگیا۔

    جب اُسے ہوش آیا تو جنّ بدستور وہاں موجود تھا۔ ”دوبارہ بے ہوش نہ ہونا! میں بتاتا ہوں، یہ کیا معاملہ ہے۔“ سَنی نے جلدی سے کہا اور ساری تفصیل وکی کو سنا دی۔

    ”لیکن کیا ہمارے پڑوسی یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوئے؟“ وکی نے کہا۔

    سَنی مسکرایا۔ ”بہت آسان بات ہے۔ میں نے خواہش کی ہے کہ یہ سب تبدیلیاں ہم گھر والوں کے سوا اور کسی کو نظر نہ آئیں۔“

    ”اوہ! امّی ابّو شام کو آئیں گے تو یہ دیکھ کر کتنا حیران ہوں گے!“ وکی نے کہا۔

    ”ہاں! اور میرے بھائی! آج تمہارا خیال بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔ بعض دفعہ ہم بغیر محنت اور بغیر پیسے کے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔“ سَنی نے فخر سے کہا۔

    یہ سُن کر جن آہستہ سے کھنکھارا: ”کیا کہا؟ بغیر محنت اور پیسے کے؟“

    ”ہاں تو اور کیا؟“ سنی نے کہا۔

    ”تمہارا خیال بالکل غلط ہے۔ میں تمہیں چراغ استعمال کرنے کے سارے اُصول و ضوابط شروع میں ہی سمجھانے جا رہا تھا، لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ جنّ یونین نے قوانین میں بہت ترمیم کی ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ جو بھی کام کریں گے، اُس کا معاوضہ خواہش کرنے والے سے وصول کریں گے۔ ہم کیوں مفت میں دوسروں کے کام کرتے پھریں؟ دو گھنٹے پورے ہوتے ہی ہم خواہش کرنے والے کو اس کا بِل پیش کر دیتے ہیں۔“

    ”بِل؟ یعنی مجھے ان سب چیزوں کی قیمت ادا کرنا ہو گی؟“ سَنی چلّایا۔

    ”بالکل! اور یہ تو تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ محل اتنے سستے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سب چیزیں جو اس وقت یہاں نظر آرہی ہیں۔“ جنّ مسکرایا۔ وکی نے مایوسی سے سر ہلایا۔ اُس کا بھائی ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔

    ”اور بل کہاں ہے؟“ سنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ جن نے اپنی جیب سے بل نکالنا شروع کردیا جو اتنا لمبا تھا کہ کمرے کے دروازے سے باہر تک چلا گیا۔ سَنی کا رنگ زرد پڑ گیا۔

    ”اگر میں یہ خواہش کروں کہ مجھے یہ پورا بل بھرنے کے پیسے مل جائیں تو؟“ اُس نے جلدی سے پوچھا۔

    ”تو اس خواہش کے نتیجے میں جو پیسے ملیں گے، تمہیں وہ بھی لوٹانے ہوں گے۔“ جّن ایک بار پھر مسکرایا۔

    ”اوہ! اب میں کیا کروں؟ کیا اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟“ سَنی نے سر پکڑ لیا۔ ”ایک راستہ یہ ہے کہ تم ہماری اس فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دو جہاں ہم یہ خواہشاتی محل اور دیگر سامان تیار کرتے ہیں۔ ایک منٹ!“

    یہ کہہ کر جنّ نے جیب سے کیلکولیٹر نکالا: ”تم اگر بارہ ہزار آٹھ سو ساٹھ سال اس فیکٹری میں کام کرو تو یہ بِل ادا ہوسکتا ہے۔“ اُس نے حساب لگا کر بتایا۔

    ”لیکن یہ ناممکن ہے۔“ سَنی نے رو کر کہا۔

    ”قانون تو پھر قانون ہے۔ اگر یہ بل ادا نہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔“ جّن نے کندھے اُچکائے۔ سَنی نے بے بسی سے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دو گھنٹے پورے ہونے میں صرف چالیس منٹ باقی تھے۔

    ”کیا تمہارے پاس یہ نئے قوانین کتابی شکل میں موجود ہیں؟“ وکی نے کچھ سوچ کر کہا تو جنّ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پتلی سی کتاب نکالی اور وکی کے ہاتھ میں تھما دی۔ وکی جلدی، جلدی ورق گردانی کرنے لگا۔ بظاہر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر اچانک وکی کو ایک کام کی شِق نظر آہی گئی۔

    ”اگر چراغ کا مالک دوگھنٹے سے قبل چراغ کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دے، لیکن یہ وہ شخص نہیں ہوسکتا جس سے اس نے چراغ خریدا ہے، تو اُس کی تمام خواہشات صِفر ہوجائیں گی اور معاہدہ ختم ہوجائے گا۔“ اُس نے باآوازِ بلند پڑھا۔

    ”اِس کا کیا مطلب ہے؟“ سَنی نے سر کھجایا۔

    ”مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے یہ چراغ دو گھنٹے سے پہلے فروخت کر دیا، تو یہ محل و دیگر سامان غائب ہو جائے گا اور تمہیں اس کا بِل ادا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن تم اب یہ چراغ دوبارہ اس دکان پر نہیں بیچ سکتے جہاں سے خریدا تھا۔

    سوال یہ ہے کہ تم اسے بیچو گے کہاں؟ تمہارے پاس صرف بیس منٹ رہ گئے ہیں۔“ وکی نے پریشان ہو کر کہا۔ سَنی کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا: ”بلڈ ہاؤنڈ! وہ اس چراغ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ چراغ اس کو بیچ سکتا ہوں لیکن مجھے اُس کا گھر معلوم نہیں ہے۔“ اُس نے اپنے بھائی کو جلدی، جلدی بتایا۔

    ”جنّ بھائی! کیا تم مجھے اس کے گھر لے جاسکتے ہو؟“ نہیں! ہمارے قانون کی ایک شِق کہتی ہے کہ ہم چراغ کا نیا گاہک ڈھونڈنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔“ جنّ نے نفی میں سر ہلایا۔

    ”سَنی! کیا تمہیں اس کی گاڑی کا نمبر یاد ہے؟“ وکی نے پوچھا۔

    ”ہاں! بی بی ایکس دو سو چھے۔“ سَنی کی یاد داشت بہت اچھی تھی۔ وکی کی بھی کم نہ تھی۔ وہ یہ نمبر سنتے ہی اچھل پڑا۔

    ”سَنی! اس گاڑی کا مالک یہاں سے چار گلیوں کے فاصلے پر جو مارکیٹ ہے، اُس کے پیچھے واقع ایک بنگلے میں رہتا ہے۔ میں اس کے برابر والے گھر میں ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں، یہ لو ایڈریس!“ وکی نے جلدی سے ایک کاغذ پر پتا لکھتے ہوئے کہا۔

    ”لیکن یہاں سے اس جگہ کا فاصلہ تقریباً پندرہ منٹ ہے اور اب ہمارے پاس صرف پندرہ ہی منٹ بچے ہیں۔“ وہ پریشان ہوکر بولا۔

    ”جنّ بھائی! فوراً چراغ کے اندر جاؤ۔“ سَنی چلّایا۔ جنّ یہ سنتے ہی دھواں بن کر چراغ کے اندر گھس گیا۔ سَنی باہر کی طرف دوڑا۔ اُس نے پوری زندگی میں کبھی اتنی تیز بائیک نہیں چلائی ہوگی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، لیکن اُس نے ہمّت نہیں ہاری۔ آخر کار وہ بلڈ ہاؤنڈ کے گھر کے دروازے پر پہنچ ہی گیا۔ آخری پانچ منٹ!! اُس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور بیل پر اُنگلی رکھ دی۔ جب تک دروازہ کھل نہ گیا، اُس نے اپنی انگلی بٹن سے نہیں ہٹائی۔

    ”کون بدتمیز ہے؟“ دروازہ کھولنے والا دہاڑا، یہ بلڈ ہاؤنڈ تھا۔ اُس نے جب سَنی کو چراغ کے ساتھ دروازے پر کھڑا پاپا تو اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اب صرف دومنٹ باقی تھے۔ ”میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ آپ یہ چراغ لے سکتے ہیں۔“ سَنی نے جلدی، جلدی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ لالچی تھا مگر بے وقوف نہیں۔

    ”تم نے اپنا ارادہ کیوں بدل لیا؟“ اُس نے شک بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ”کیوں کہ…… کیوں کہ……“ سَنی کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا ”کیوں کہ اس میں ایک طرف خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی خراب ہوگیا ہے۔ میرے گھر میں یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا۔“ وہ دل ہی دل میں کہتا جارہا تھا، ”پلیز! میری بات کا یقین کر لو! میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے۔“

    ”اور تمہیں اس چراغ میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے پوچھا۔ ”جی نہیں۔“ سَنی نے فوراً کہا: ”اس چراغ میں خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی اُترا ہوا ہے، تو اس لیے اب میں تمہیں اس کے صرف پانچ پاؤنڈ دے سکتا ہوں۔“

    ”منظور ہے۔“ سنی نے اُس کا جملہ پورا ہوتے ہی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ نے جیب سے پانچ پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر سَنی کے ہاتھ پر رکھا اور چراغ چھین کر دروازہ بند کر لیا۔ سنی نے پانچ پاؤنڈ کے نوٹ کو خوشی سے لہرایا۔

    ”چراغ تمہیں مبارک ہو مسٹر بلڈ ہاؤنڈ! امّی کی سال گرہ کے تحفے کے لیے مجھے کافی پیسے مل گئے ہیں۔ اُمید ہے تم جنّ سے اتنی ہی فرمائشیں کرو گے جتنا کہ تم بِل بھر سکو۔“

    (بچّوں کے ادیب پال شپٹن کی اس کہانی کا اردو ترجمہ گل رعنا صدیقی نے کیا ہے)

  • بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ ہاتھی پر سوار کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جو درختوں کی کاٹ چھانٹ میں‌ مصروف تھا۔

    وہ پھل دار درخت تھے، لیکن ابھی ان پر پھل آنے کا موسم نہ تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص خاصا سن رسیدہ ہے اور اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا اور شاہی سواری کو فیل بان نے اس مقام پر ٹھہرا لیا۔ اب بادشاہ نے سپاہیوں‌ کو کہا کہ اس بوڑھے کو میرے سامنے حاضر کرو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    بوڑھا بادشاہ کے روبرو آیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاصا کمزور ہے اور اس کی جلد جھریوں سے بھری ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا، اے بوڑھے! تُو جن درختوں کا خیال رکھ رہا ہے، کیا تجھے ان درختوں کا پھل کھانے کی اُمید بھی ہے؟

    بوڑھے نے کہا، بادشادہ سلامت! ہمارے پہلے لوگوں نے زراعت کی، اپنے جیتے جی اناج پایا اور اسے پکا کر کھایا، پھر باغات کی زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ بیج کو اپنے اندر دبا کر اللہ کے حکم سے اس کے بطن سے پودا نکالے جو توانا درخت بنے اور اس کی شاخیں پھلوں سے بھر جائیں۔ وہ زندہ رہ سکے تو پھل بھی کھایا اور جب وہ نہیں رہے تو ان کے بچّوں اور ان بچّوں‌ کی اولادوں‌ نے وہ پھل کھائے۔ ان کی محنت سے ہم سب لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے حضور لیکن اب میں اپنے بعد آنے والوں کے لیے یہ محنت کر رہا ہوں تاکہ وہ نفع حاصل کریں۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بامذاق اور مفید بات بہت ہی پسند آئی۔ خوش ہو کر بادشاہ نے بوڑھے کو ایک ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دیں۔ اس پر بوڑھا ہنس پڑا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟ بوڑھے نے کہا مجھے اپنی محنت کا اس قدر جلد پھل مل جانے سے تعجب ہوا۔ اس بات پر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا۔ بوڑھا یقیناً ذہین بھی تھا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اور دیں۔ باغ بان بوڑھا پھر ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیوں ہنسے؟ وہ بولا کہ کاشت کار پورا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے میری باغ بانی نے تھوڑی سے دیر میں دو مرتبہ اپنی محنت کا ثمر دے دیا۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار اشرفیاں مزید دیں اور سپاہیوں‌ کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔

    سبق: زندگی میں‌ کوئی کام صرف اپنے مفاد اور نفع کی غرض‌ سے نہیں‌ کرنا چاہیے، بلکہ نیک نیّتی کے ساتھ دوسروں‌ کی بھلائی کے لیے بھی اگر کچھ وقت نکال کر کوئی کام کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور اکثر ہماری توقع سے بڑھ کر اور آن کی آن میں قدرت ہم پر مہربان ہوسکتی ہے۔

  • اُلٹا نگر (ایک دل چسپ کہانی)

    اُلٹا نگر (ایک دل چسپ کہانی)

    ایک تھا الٹا نگر۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے رہنے والوں کی ہر بات اُلٹی تھی۔

    وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے، بائیں طرف چلتے اور ہمیشہ بائیں کروٹ سوتے تھے۔ وہ لیٹ کر کھانا کھاتے اور بیٹھ کر سوتے تھے۔ لحاف بچھاتے اور گدّے اوڑھے تھے۔ منہ پہلے دھوتے اور ہاتھ بعد میں، روٹی پہلے کھاتے اور سالن بعد میں۔

    درزی الٹے کپڑے سیتے تھے۔ ہر شخص جوتے خریدنا ضروری سمجھتا تھا مگر جب چلتا تو جوتوں کو سَر پر رکھ لیتا۔ حکیم زکام کے مریض کو قبض کی دوا دیتے اور قبض کے مریض کو ایسی دوا دیتے کہ اُسے زکام ہو جاتا۔ اگر انہیں کہیں جلدی جانا ہوتا تو بہت آہستہ چلتے اور جہاں جلدی نہ پہنچنا ہوتا وہاں اتنی تیزی سے جاتے جیسے کہیں آگ لگی ہو۔ کسی کا بیاہ ہوتا تو سب مل کر اِس طرح روتے کہ دل سہم جاتا اور جب کوئی مر جاتا تو اتنا ہنستے اتنا ہنستے کہ پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ بچّے سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے اور بوڑھے پڑھنے کے لیے بلا ناغہ اسکول جاتے تھے۔

    غرض کہ اس شہر کا باوا آدم ہی نرالا تھا۔ لیکن اپنی الٹی پلٹی باتوں کے باوجود بھی اُلٹے نگر کے لوگ بڑے سکھ چین سے رہتے تھے۔ ان کے ہاں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا تھا۔ کوتوالی کے سپاہی سارا دن لمبی تان کر سوئے رہتے۔

    الٹے نگر میں کوئی اجنبی آتا تو ہر شخص اسے اپنے ہاں ٹھہرانے کی کوشش کرتا۔ اگر وہ شخص کسی کے ہاں مہمان ٹھہرنا پسند نہ کرتا تو وہ اُسے غلط راستہ بتا دیتے اور وہ اجنبی سارے شہر میں پاگلوں کی طرح گھومتا پھرتا۔

    اس شہر کی اُلٹی پُلٹی باتوں کی خبر بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اُسے بڑا غصّہ آیا۔ اس نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ فوراً الٹا نگر جاؤ اور وہاں کے لوگوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔ وزیر دوسرے ہی دن اُلٹا نگر جا پہنچا۔

    ’’خُدا ہی بہتر جانے یہ کس قسم کا شہر ہے۔ مجھے تو ان لوگوں سے خوف آتا ہے۔‘‘ وزیر نے اسٹیشن سے باہر نکل کر چاروں طرف نگاہ دوڑا کر کہا۔

    ایک سڑک پر بورڈ لگا تھا۔ ’’یہ سڑک جنوب کی طرف جاتی ہے۔‘‘

    وزیر بولا۔ ’’لا حول ولا قوة! ارے یہ حماقت تو دیکھو ذرا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس طرف مغرب ہے۔ مگر ان احمقوں نے الٹا بورڈ لگا رکھا ہے۔‘‘

    ’’جناب! یہ الٹا نگر یوں ہی تو مشہور نہیں ہو گیا۔‘‘ ایک افسر نے کہا۔ وہ آگے بڑھے تو ایک آدمی ملا۔ وزیر نے اُس سے کہا۔ ’’بھئی! ہمیں کوتوالی جانا ہے۔ کون سا راستہ جاتا ہے اُدھر؟‘‘

    ’’کوتوالی جانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ میرے گھر مہمان کیوں نہیں رہ جاتے؟‘‘ اُس نے جواب دیا۔

    اِتنے میں اور بھی بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور ہر شخص اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس کے ہاں ٹھہریں مگر جب وہ نہیں مانے تو انہوں نے کہا۔ ’’اچھا! آپ کی مرضی! ایسا کیجیے کہ ناک کی سیدھ میں چلے جائیے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر کوتوالی ہے۔‘‘

    وہ ان کا شکریہ ادا کر کے اُن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے لگے۔ جب وہ سڑک کے آخر میں پہنچے تو اُنہیں بھنگیوں کے گھر نظر آئے۔

    ’’لا حول و لا قوّۃ! بھئی یہ لوگ تو اوّل درجے کے شیطان ہیں۔ لو ہمیں بھنگیوں کے گھر بھیج دیا ہے۔ حد ہو گئی۔‘‘ وزیر نے غصّے سے کہا۔

    وہ لوگ سارا دن شہر میں مارے مارے پھرے اور کہیں شام کے وقت بڑی مشکلوں سے کوتوالی پہنچے۔ یہ لوگ کئی دن تک وہاں بیٹھے سر پٹختے رہے مگر الٹے نگر کے لوگوں نے اُن کی ایک نہ سنی۔ ان کی ہر بات کا مذاق اُڑایا۔ ان کے بنائے ہوئے کسی قانون کو نہیں مانا۔ ان کی تدبیریں سب اکارت گئیں۔

    ’’ہم کس پاگل خانے میں آ گئے ہیں۔ اِن لوگوں کو تو گولی مار دینی چاہیے۔ ان کی کوئی بھی تو کل سیدھی نہیں ہے۔‘‘ ایک افسر نے تنگ آ کر کہا۔

    ’’چند دن اور کوشش کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ سیدھی راہ پر آ جائیں۔‘‘ وزیر بولا۔
    ایک دن دو ڈاکو سرکاری خزانہ لوٹ کر اُلٹا نگر چلے آئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس شہر کے لوگ بے وقوف ہیں اِس لیے وہ یہاں آرام سے بیٹھ کر موج اڑائیں گے۔ جونہی یہ شامت کے مارے الٹے نگر میں داخل ہوئے، لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر شخص انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانے کے لیے اصرار کرنے لگا۔

    ’’اجی صاحب! آپ میرے غریب خانے پر چلیے۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔ چُپ رہو تم اتنے بڑے آدمیوں کی میزبانی کے اہل نہیں ہو۔ حضور! آپ بندے کے گھر چلیے۔ وہاں آپ کو ہر طرح کا آرام ملے گا۔‘‘ دوسرے نے کہا۔

    ’’تم کیا کرایہ لو گے؟‘‘ ایک ڈاکو نے پوچھا۔

    ’’آپ ہماری توہین کر رہے ہیں صاحب۔ ہم مہمانوں سے کرایہ نہیں لیا کرتے۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔

    ’’پھر تو بہت اچھّی بات ہے۔ ہم تمہارے ہی گھر چلیں گے۔‘‘ ڈاکوؤں نے کہا۔

    ’’نہیں نہیں۔ میں اتنی دور سے آپ کے پیچھے آیا ہوں۔ آپ کو میرے گھر چلنا ہو گا۔‘‘ ایک اور آدمی نے کہا۔

    ’’بکواس بند کرو۔ یہ میرے مہمان ہیں۔ میں ان کے لیے درجنوں مرغے ذبح کروا سکتا ہوں۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے کہا اور دونوں ڈاکوؤں کو پکڑ کر اپنے گھر کی طرف گھسیٹنے لگا۔

    جب دوسروں نے دیکھا کہ یہ تو اُنہیں ہانک لے چلا ہے تو اُنہوں نے دوسروں کو بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اپنے اپنے گھر کی طرف گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اس کھینچا تانی میں ڈاکوؤں کے کپڑے تار تار ہو گئے۔

    اتّفاق سے کوتوال کا اس طرف سے گزر ہوا۔ اس نے مجمع لگا دیکھا تو آگے آیا اور بڑی مُشکل سے ڈاکوؤں کو لوگوں کے پنجے سے چھڑایا۔

    ’’کیا بات ہے۔ تم انہیں کیوں مار رہے ہو؟‘‘ کوتوال نے پُوچھا۔

    ’’مار کون رہا ہے جناب! ہم تو انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہرانا چاہتے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

    ’’اوہو! تو یہ جھگڑا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ اِن دونوں کو میں اپنے ہاں مہمان رکھوں گا۔ تم سب اپنی اپنی راہ لگو۔‘‘ کوتوال نے بڑے رُعب سے انہیں حُکم دیا اور خود اُن دونوں کو اپنے گھر لے آیا۔

    لوگوں سے جب کچھ اور نہ بن پڑا تو اُنہوں نے ڈاکوؤں کی موٹر کو خوب صاف کیا اور اُس کا پٹرول نکال کر اس میں دودھ بھر دیا۔

    دوسرے دن صبح کو ریڈیو پر سرکاری خزانہ لوٹے جانے کی خبر سُنائی گئی اور ڈاکوؤں کا حلیہ بھی بتایا گیا۔ الٹے نگر کے لوگوں نے چوروں کے حلیے پر غور کیا تو انہیں یقین ہو گیا کہ کوتوال کے مہمان ہی وہ ڈاکو ہیں۔ وہ غصّے سے لال پیلے ہو کر کوتوال کے گھر کی طرف چلے۔

    ’’میرے دروازے کے سامنے کیوں بھیڑ لگا رکھی ہے تم نے؟‘‘ کوتوال نے دروازہ کھول کر پوچھا۔

    ’’جناب! آپ کے دونوں مہمان ڈاکو ہیں۔ سرکاری خزانہ لوٹ کر یہاں لائے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا۔

    ’’ایں! واقعی؟‘‘ کوتوال نے حیران ہو کر کہا اور چوروں کو پکڑنے کے لیے اندر بھاگا مگر چور پہلے ہی پچھلے دروازے سے رفو چکر ہو چکے تھے۔

    ’’پکڑو پکڑو۔ جانے نہ پائیں۔ ابھی یہیں کہیں ہوں گے۔‘‘ کوتوال نے کہا۔

    لوگ بھاگتے ہوئے چوک میں پہنچے۔ یہاں ڈاکوؤں کی کار کھڑی تھی اور وُہ کار میں بیٹھے انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر کار میں پٹرول کی جگہ دودھ بھرا ہوا تھا۔ وہ چلتی کیسے۔ ڈاکو لوگوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر موٹر چھوڑ چھاڑ سرپٹ بھاگے مگر چند ہی منٹوں میں گرفتار کر لیے گئے۔

    جب لوگ ڈاکوؤں کو لے کر کوتوالی پہنچے تو وزیر اپنے بنائے ہوئے قانون کوتوال کو سمجھا رہا تھا۔

    ’’جناب! ہمیں آپ کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے چوروں کو خود پکڑ سکتے ہیں۔‘‘ ایک شخص نے کہا۔

    ’’بھئی! تُم اپنی الٹی پُلٹی حرکتوں سے اپنا کام نکال ہی لیتے ہو۔‘‘ وزیر نے ہنس کر کہا۔

    ’’میرا خیال ہے کہ اِنہیں اِن کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ ایک افسر بولا۔ ’’یہ جانیں اور ان کا کام۔ اگر ہم کچھ دن اور یہاں رہے تو ہم بھی ان کی طرح الٹے پلٹے ہو جائیں گے۔‘‘ اور وہ سب اسی دن الٹے نگر سے چلے گئے۔

    (مصنّف:‌ جبّار توقیر)

  • جسے اللہ رکھے، اسے  کون چکھے (کہانی)

    جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے (کہانی)

    بہت پرانی بات ہے کہ ایک گاؤں میں مراد نامی نوجوان اپنے بال بچّوں سمیت رہتا تھا۔ اس کا گھر کچّا بھی تھا اور چھوٹا بھی، لیکن مراد مطمئن تھا۔ وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا تھا۔

    اس نوجوان کے زیادہ تر رشتہ دار اور عزیز و اقارب قریبی دیہات اور شہر کے مضافاتی علاقوں‌ میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اکثر ان سے ملنے گاؤں سے باہر جاتا رہتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ماموں کی مزاج پرسی کے کے ارادے گھر سے نکلا جو خاصی دور ایک مقام پر رہتے تھے۔ مراد صبح سویرے گھر سے چل پڑا تاکہ شام ہونے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا اور گزر گاہ خطرناک تھی۔ اس راستے پر جنگلی جانوروں کا بھی خطرہ رہتا تھا۔ مراد گھر سے دوپہر کا کھانا اور ضروری سامان ساتھ لیے منزل کی طرف چل پڑا۔

    جب وہ جنگل کے قریب تھا تو اچانک مشرق کی طرف سے اس نے گرد کا طوفان اور آندھی آتی دیکھی۔ مراد نے پناہ گاہ کی تلاش میں‌ نظر دوڑائی۔ خوش قسمتی سے قریب ہی اسے ایک جھونپڑی نظر آگئی۔ اس نے جھونپڑی کی طرف قدم بڑھائے اور تقریباً دوڑتا ہوا جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا۔ اس اثناء میں آندھی جو بڑی زور آور تھی، کئی درختوں کو ہلاتی اور مختلف ہلکی اشیاء کو اڑاتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ اسی کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش بھی شروع ہو گئی۔

    مراد کو جھونپڑی میں داخل ہونے سے کسی نے نہ روکا۔ وہ اندر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے چھے نوجوان پناہ لیے ہوئے تھے۔ دعا سلام کے بعد وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی کی گرج چمک میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ جب بجلی چمکتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اسی جھونپڑی کی چھت پر پڑی ہے۔ اندر جتنے لوگ تھے وہ بجلی کی کڑک سن کر خوف ذدہ ہو جاتے۔ وہ آفت ٹلنے کے لیے دعائیں‌ کرنے لگے اور اپنی اپنی جان کی امان اللہ سے طلب کرنے لگے۔

    جب بجلی بار بار جھونپڑی کی طرف آنے لگی تو سب کو یقین ہو گیا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور اس ایک کی وجہ سے سب کے سب موت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ جھونپڑی میں پہلے سے موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب مرنے کے بجائے یہ کریں‌ کہ ہر ایک باری باری سامنے کچھ فاصلے پر موجود درخت کو ہاتھ لگا کر آئے۔ ان کو نجانے کیوں یہ یقین ہوچلا تھا کہ جس کی موت آنی ہو گی، باہر نکلنے پر بجلی اس پر ضرور گرے گی۔

    جھونپڑی میں موجود ایک شخص پہلے نکلا اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گیا۔ بجلی کڑکی مگر وہ شخص زندہ سلامت جھونپڑی میں واپس آ گیا۔ پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا شخص حتّیٰ کہ وہ چھے کے چھے اشخاص درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ گئے اور بجلی کڑکتی رہی، مگر ان میں‌ کوئی نشانہ نہیں‌ بنا تھا۔

    اب آخری شخص مراد تھا جسے ان سب نے جاکر درخت کو ہاتھ لگانے کے لیے کہا۔ مراد نجانے کیوں گھبرا گیا۔ اس نے پناہ لیے ہوئے تمام لوگوں کی منت سماجت کرنی شروع کر دی اور کہا کہ شاید وہ ان سب کی وجہ سے بچا ہوا ہے، لہٰذا اسے باہر نہ جانے کو کہا جائے۔ مگر سب بضد تھے اور ان کا کہنا تھا کہ بجلی جس زور سے کڑک رہی ہے، وہ یقیناً‌ کسی ایک کو نوالہ بنانا چاہتی ہے، ہم سب نے اپنی باری پوری کی ہے، ہم مرنا نہیں چاہتے۔ اب تمہاری باری ہے جاؤ اور درخت کو ہاتھ لگا کر واپس آ جاؤ۔ اگر تمھاری زندگی ہوگی تو تم لوٹ آؤ گے۔ انہوں نے اسے پکڑا اور باہر دھکیل دیا۔

    مراد طوفانی بارش اور گرج چمک میں‌ درخت کی طرف بھاگا تاکہ جلدی سے اسے ہاتھ لگا کر واپس آ جائے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ جونہی وہ جھونپڑی سے کچھ فاصلے پر پہنچا، اچانک بجلی چمکی ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ مراد کے اوسان اس آواز کو سنتے ہی خطا ہوگئے، لیکن لمحوں میں‌ جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو جھونپڑی جل گئی تھی۔ بجلی اس جھونپڑی پر گری تھی جہاں وہ چھے افراد موجود تھے جنھوں‌ نے اسے باہر نکال دیا تھا۔ وہ سب کے سب لقمۂ اجل بن چکے تھے۔

  • امن کانفرنس

    امن کانفرنس

    ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ‌ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں‌ پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں‌ ہے:

    جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”

    سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔

    "ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
    "ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
    "توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”

    تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

    "او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

    "بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔

    "ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”

    پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

    "اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

    راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

    "اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
    "اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”

    ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔

    "یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

    "جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”

    راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”

    پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”

    "مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”

    پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔

    راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”

    راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

    "دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔

    ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

    "کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
    ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

    راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”

    رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”

    "اور کیا ایک کھایا؟”

    "تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”

    "یہ بات۔۔۔۔؟”

    "یہ بات۔۔۔۔!”

    پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

    چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟

    رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”

  • رڈولف عجیب و غریب ریاست میں

    رڈولف عجیب و غریب ریاست میں

    میرا نام رڈولف ہے۔ میں "اسکندریہ” نامی ایک جہاز راں کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ بحری سفر کے دوران میرے ساتھ کئی حیرت انگیز، دل چسپ اور خوف ناک واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں۔

    ہمارا جہاز اسکندریہ- 680، 24 دسمبر کو "فیڈریہ” نامی بندر گاہ سے مال لے کر "کوسٹریہ” کے لیے روانہ ہوا۔ یہ 28 دن کا سفر تھا۔ چوتھے دن کا ذکر ہے۔ شام کا وقت تھا۔ میں جہاز کی اوپری منزل پر کھڑا غروب ِآفتاب کے منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک ایمرجنسی گھنٹی کی زور دار آواز گونج اٹھی۔

    میں بھی دوسرے ساتھیوں کی طرح کپتان کے کیبن کی طرف لپکا۔ وہاں معلوم ہوا کہ آدھے گھنٹے بعد ایک بہت خوف ناک طوفان آنے والا ہے۔ ہم سب طوفان سے بچاؤ کی تدبیریں کرنے میں مصروف ہو گئے، لیکن طوفان نے ہمیں اس کی مہلت نہیں دی۔ ہمارا جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ سب کچھ بہہ گیا۔ سب اپنی اپنی جانیں بچانے میں مصروف تھے۔ میں بھی ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا۔ پھر کیا ہوا مجھے یاد نہیں۔

    جب میری آنکھ کھلی تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے جسم کا انگ انگ ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ میں لکڑی کے ایک کمرے میں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک بطخوں کے ڈربے میں ہوں۔ اچانک کمرے کا دروازہ خلا۔ ایک بڑی سی بطخ اندر داخل ہوئی۔ میں نے کبھی اتنی بڑی بطخ نہیں دیکھی تھی۔ وہ تقریباً چار ساڑھے چار فٹ لمبی تھی۔ میں اسے دیکھ کر سہم سا گیا۔ بطخ نے میری طرف دیکھ کر کہا، "ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ تم اس وقت ریاستِ بطخیہ میں ہو۔ میرا نام سڈرا ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟”

    "رڈ۔۔۔۔۔ رڈولف” میں نے ڈرتے ہوئے کہا۔ "اچھا! کچھ دیر میں بادشاہ کے سپاہی آنے والے ہیں۔ وہ تمہیں بادشاہ کے پاس لے جائیں گے۔” سڈرا نے کہا۔

    سس۔۔۔۔۔ سس۔۔۔۔۔ سپاہی! کک۔۔ کیوں؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔” میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔

    سڈرا نے کہا، "اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں تو تم مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دو۔ تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ تم سے پہلے بھی یہاں تمھارے جیسے انسان آئے تھے۔ وہ ہمیں قید کر کے لے جانا چاہتے تھے، لیکن ہماری فوج نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا تم بھی اسی مقصد کے لیے آئے ہو؟”

    "جی نہیں! میں تو یہاں لایا گیا ہوں۔” میں نے جواب دیا۔ "وہ تو ٹھیک ہے۔ میں تمہیں خود کنارے سے اٹھا کر لائی ہوں، لیکن تم ہماری ریاست میں کیوں داخل ہوئے؟” سڈرا نے پوچھا۔

    پھر میں نے اس کو اپنی پوری کہانی سچ سچ بتا دی۔ "ہوں میں تو تمہاری بات کا یقین کر لیتی ہوں، لیکن بادشاہ سلامت کو یقین دلانا بہت مشکل ہے۔ میں تمہیں اپنی مدد کا یقین۔۔۔۔۔”

    ابھی سڈرا نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ سڈرا نے دروازہ کھولا۔ دروازے پر نیزوں اور ڈھالوں سے لیس چار سپاہی کھڑے تھے۔ ان کے ہتھیار دیکھ کر مجھے اپنا پستول یاد آ گیا، جو ہر وقت میرے پاس رہتا تھا۔ میں نے فوراً اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ قمیض کے اندر پیٹی موجود تھی۔ اس کی موجودگی سے میں کچھ مطمئن ہو گیا۔ میں سپاہیوں اور سڈرا کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے سیکڑوں سوالات کیے۔ میں نے سب کے جوابات سچ سچ دیے۔ سڈرا نے میری بہت حمایت کی۔

    آخر بادشاہ نے کہا، "ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم ان انسانوں میں سے نہیں ہو اور آزاد ہونے کے بعد تم اپنی فوج کے ساتھ ہم پر حملہ نہیں کرو گے؟”

    اس پر سڈرا نے کہا، "بادشاہ سلامت! میں ایک تجویز پیش کرتی ہوں، اگر آپ کو پسند آ جائے۔ تجویز یہ ہے کہ اس شخص کو ہم ایک دو مہینے اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس سے کوئی کام لیتے ہیں۔ اگر آپ اس سے مطمئن ہو جائیں تو اسے آزاد کر دیا جائے۔”

    دربار میں موجود تمام بطخوں نے اس کی تائید کی۔ بادشاہ کو بھی یہ تجویز پسند آئی۔ بادشاہ نے کہا، "اے شخص! تمہیں ہمارے محل میں مالی کا کام کرنا ہوگا۔ اگر تم ہمارا اعتماد حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے تو تمہیں باعزت بری کر دیا جائے گا اور اگر تم نے کوئی غلط قسم کی حرکت کی اور فرار ہونے کی کوشش کی تو تمہیں سزائے موت دے دی جائے گی۔”

    میں نے سر جھکا کر اقرار کیا کہ میں کوئی گڑبڑ نہیں کروں گا۔ میرےذمّے ایک بہت بڑا شاہی باغ تھا۔ اس باغ کے ایک کونے میں میرے رہنے کے لیے لکڑی کی بنی ہوئی ایک کوٹھری تھی۔ میں نے اپنے پلنگ کے نیچے اپنا پستول چھپا کر رکھ دیا۔ مجھے باغ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن سڈرا روز مجھ سے ملنے آتی تھی۔

    مجھے اپنا کام کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، کیوں کہ مجھے بچپن ہی سے باغبانی کا شوق تھا۔ میں نے تھوڑے ہی عرصے میں باغ کو ہرا بھرا اور بہت خوب صورت بنا دیا۔ بادشاہ اور اس کے رشتے دار سب مجھ سے خوش تھے۔ میں روز خوبصورت گل دستہ بنا کر ملکہ کو بھیجتا تھا۔ اس طرح میں بادشاہ کو کسی حد تک اعتماد میں لینے میں کام یاب ہو گیا۔

    ایک دن کا ذکر ہے۔ صبح کا وقت تھا۔ میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ ہر طرف سے شور و غل، چیخنے چلّانے اور دوڑنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ میں نے دوڑتی ہوئی ایک بطخ سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو اس نے مجھے بتایا، "مینڈکوں نے ریاست پر حملہ کر دیا ہے۔ ان کی فوج ہماری فوج سے کہیں زیادہ ہے۔”

    میرے ذہن میں فوراً پستول کا خیال آیا۔ میں جلدی سے اپنے کمرے میں گیا اور پستول اٹھا کر باہر کی طرف دوڑا۔ باہر میری ملاقات بادشاہ سے ہو گئی۔ وہ بھی بہت پریشان تھا۔ میں نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے فوراً میدانِ جنگ کی طرف بھیج دے۔ بادشاہ نے دو سپاہیوں کے ساتھ مجھے میدانِ جنگ کی طرف روانہ کر دیا۔
    پہلے تو اتنے بڑے مینڈکوں کو دیکھ کر میں بھی خوف زدہ ہو گیا، لیکن پھر میں نے ایک سپاہی سے ڈھال لی، پستول ہاتھ میں پکڑا اور مینڈکوں کے سامنے جا پہنچا۔ مینڈک بھی مجھے دیکھ کر ڈر گئے۔ پھر وہ پیچھے ہٹ کر میرے اوپر نیزے پھینکنے لگے۔ میں نے ڈھال کی مدد سے اپنے آپ کو نیزوں سے بچایا اور پھر ہوائی فائر کر دیا۔ فائر کی آواز ان لوگوں کے لیے بالکل نئی تھی۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میں نے دو فائر کر کے دو مینڈکوں کو مار ڈالا۔ یہ سب دیکھ کر مینڈک بہت خوف زدہ ہوئے اور واپس بھاگ نکلے۔ اسی بھاگ دوڑ میں کئی مینڈک کچلے گئے۔ کئی سمندر میں ڈوب گئے اور کئی گرفتار ہو گئے۔ اس طرح بطخوں کو کام یابی ہوئی۔ اب اس پستول کی وجہ سے بادشاہ بھی مجھ سے ڈر رہا تھا، لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ میں ان کا دوست ہوں۔ بادشاہ نے میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور اپنے رویّے کی معافی مانگی اور میری آزادی کا بھی اعلان کر دیا۔

    بادشاہ نے مجھے چند دن شاہی مہمان بن کر رہنے کی دعوت دی۔ میں چند روز شاہی محل میں رہا۔ پھر میں نے بادشاہ سے ایک کشتی مانگی جس کے ذریعے سے میں اپنے وطن واپس پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے کبھی کشتی نہیں بنائی تھی۔ لہٰذا وہ کشتی مجھے خود ہی بنانی پڑی۔ جب کشتی بن کر تیار ہو گئی تو میں نے جانے کی اجازت چاہی۔ اس رات بادشاہ نے میرے اعزاز میں ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا۔ صبح مجھے رخصت کرنے کے لیے بہت ساری بطخیں کنارے پر موجود تھیں۔ ان میں بادشاہ، اس کے ساتھی اور سڈرا شامل تھی۔ ان سب نے مجھے پھول پیش کیے۔ میں نے جانے سے پہلے بادشاہ کو اپنا پستول تحفے میں دے دیا۔ اسے پا کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔

    مجھے وہاں سے چلے ہوئے چار روز گزر چکے تھے اور میں کسی منزل تک پہنچنے میں کام یاب نہیں ہو سکا تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بطخوں نے میری کشتی میں کھانے پینے کا کافی سامان بھر دیا تھا۔ سورج ڈھلنے والا تھا۔ مجھے اندھیرے میں دور ایک ٹمٹماتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ میں جلدی جلدی کشتی کھیتا ہوا روشنی کی طرف بڑھا۔ قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک چھوٹا مکان تھا۔ میں نے کشتی کو کنارے سے لگایا اور اتر کر مکان کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی والا تھا کہ ایک خوفناک بڑھیا نے خود ہی دروازہ کھولا اور بولی، "آؤ بیٹا آؤ۔۔۔۔۔ راستہ بھول گئے ہو نا؟”
    میں بڑھیا کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا۔

    "یہ مکان میں نے تم جیسے لوگوں کے لیے بنایا ہے جو اپنا راستہ بھول جاتے ہیں۔ آؤ اندر آؤ۔” بڑھیا نے کہا۔

    "جی ہاں! مجھے رات بسر کرنے کی اجازت دے دیں، صبح ہوتے ہی چلا جاؤں گا۔”

    پھر میں اندر داخل ہو گیا۔ بڑھیا نے مجھ سے کھانے کو پوچھا اور پھر مجھے ایک کمرے میں لے گئی۔ وہاں اس نے مجھ سے کہا، "تم اس کمرے میں سو جاؤ، صبح میں تمہیں راستہ بتا دوں گی۔ تم چلے جانا۔”

    یہ کہہ کر بڑھیا کمرے سے باہر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک پرانا پلنگ تھا۔ ایک میز تھی جس پر لالٹین، پھل اور ایک بڑا چھرا پڑے ہوئے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں بڑھیا پراسرار لگ رہی تھی۔ مجھے کمرے میں خون کی بُو بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے میز سے چھرا اٹھایا اور اپنے سرہانے رکھ کر لیٹ گیا۔ مجھے ڈر کے مارے نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔ تقریباً آدھی رات کے وقت کمرے کا دروازہ کھلا۔ میں خاموشی سے لیٹا رہا اور دیکھتا رہا۔ بڑھیا کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ میرے سرہانے تک آئی۔ میں پہلے ہی چھرا اپنے ہاتھ میں تھام چکا تھا۔ میں ادھ کھلی آنکھوں سے بڑھیا کو دیکھا۔ وہ بڑے خوف ناک انداز میں مسکرا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اس کے ناخن بہت بڑے بڑے تھے۔ اس نے اپنے ناخنوں سے میری گردن دبانی چاہی۔ جیسے ہی وہ میرے اوپر جھکی میں نے پھرتی سے چھرے سے اس کی گردن پر وار کر دیا۔ اس کی گردن کٹ کر دور جا گری۔ یکایک بڑھیا کا جسم دھویں میں تبدیل و کر غائب ہو گیا۔

    میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو گیا۔ صبح ہونے میں ابھی کافی دیر تھی۔ میں نے سوچا کہ اس مکان کا جائزہ لوں۔ میز پر لالٹین اٹھا کر میں کمرے سے نکلا اور اندر والے کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہاں انسانی کھوپڑیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں نے کمرے کی ایک ایک چیز کو اچھی طرح دیکھا اور پھر کمرے سے باہر نکلا۔ برآمدے میں ایک اور دروازہ تھا۔ میں نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ راستہ تہ خانے کی طرف جاتا ہے۔ میں نیچے پہنچا۔ ایک کونے میں ایک بہت بڑا صندوق پڑا ہوا تھا۔ میں نے قریب جا کر اسے کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ پورا صندوق سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا تھا۔

    میں نے ایک بہت بڑی تھیلی سکّوں سے بھری اور اوپر آ گیا۔ اب صبح ہونے والی تھی۔ سورج کی ہلکی ہلکی روشنی چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ میں نے سکّوں بھرا تھیلا اٹھایا اور کشتی میں سوار ہو گیا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سارا مکان دھویں میں تبدیل ہو رہا تھا۔ میں نے جلدی سے سکّوں بھری تھیلی کو کھولا۔ تھیلی کھولتے ہی سکّے بھی دھواں بننے لگے۔ میں نے فوراً تھیلی کا منہ بند کر دیا۔ اب اس میں تھوڑے سے سکّے باقی تھے۔ میں نے اسے اچھی طرح باندھ کر ایک کونے میں رکھ دیا اور کشتی کھینے لگا۔

    دوپہر کا وقت تھا کہ اچانک میری نظر دور سے آتے ہوئے ایک جہاز پر پڑی۔ میں خوشی سے پاگل ہو گیا اور زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔ جہاز والوں نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ میری طرف آنے لگے۔ قریب پہنچ کر میں یہ دیکھ کر اور بھی خوش ہوا کہ یہ "اسکندریہ” کمپنی کا جہاز تھا۔ جہاز پر سوار میرے کئی دوست مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے جہاز کے حادثے میں تمام لوگ مارے گئے تھے اور وہ سب میری موت کا بھی یقین کر چکے تھے۔ میں نے انہیں اپنا پورا قصّہ سنایا، لیکن انہیں یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر میں نے انہیں ثبوت کے طور پر بچے ہوئے سکّے دکھائے تو انہیں یقین آیا۔

    دو دن بعد ہم فیڈریہ پہنچے۔ مجھے معلوم ہوا کہ میں پورے ایک مہینے تک غائب رہا۔ اس واقعے کی وجہ سے مجھے کافی شہرت و ترقّی ملی اور ان سکّوں کی مدد سے میری مالی حالت بہتر ہو گئی۔

    (غیر ملکی ادب سے اردو میں ترجمہ کی گئی یہ کہانی 1990ء میں‌ بچّوں کے مقبول ماہ نامہ ہمدرد نونہال میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • رانی کی الجھن

    رانی کی الجھن

    رانی نواب صاحب کی لاڈلی بیٹی تھی۔ ویسے تو سبھی لوگ رانی کو چاہتے تھے لیکن رانی کو انسانوں سے زیادہ جانوروں سے لگاؤ تھا۔ جانوروں میں بھی اسے جنگلی جانوروں سے بڑی دل چسپی تھی۔

    اس کی حویلی سے لگ کر ایک ندی بہتی تھی۔ ندی کے اس پار جنگل تھا جس میں بہت سے جانور رہتے تھے۔ رانی گھر والوں سے نظر بچا کر اکثر اس جنگل میں چلی جاتی۔ وہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی اور ان کی آواز کی نقل کرتی۔

    ایک دن اس نے ندی کے پُل پر سے کیا دیکھا کہ کچھ جنگلی کتّے ہیں جنہوں نے ایک چیل کو پکڑ رکھا ہے اور آپس میں چھینا جھپٹی مچا رکھی ہے۔ اس کھینچا تانی میں چیل ان کے چنگل سے چھوٹ گئی۔ وہ اوپر اڑی اور چاہتی تھی کہ ندی پار کر کے بستی کی طرف نکل جائے۔ لیکن وہ اڑتے اڑتے پل پر آکر گری۔ رانی چیل کی طرف دوڑ پڑی اور اسے گود میں اٹھا لیا۔ رانی نے چیل کے پروں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ رانی نے دیکھا کہ اس کے پَر کچھ نئی قسم کے رنگ برنگے اور پٹے دار ہیں۔ اس نے سوچا، جنگل کی چیل شاید ایسی ہوتی ہوگی، بڑی خوب صورت ہے، میں اسے پال لوں گی۔

    پھر رانی نے اپنے خاندانی حکیم کے ذریعے چیل کے زخموں کا علاج کروایا۔ علاج میں کافی دن نکل گئے۔ رانی اور چیل اتنے دنوں میں ایک دوسرے سے خوب ہل مل گئے۔ رانی نے چیل کا نام چبری رکھ دیا تھا۔ چبری اڑ تو پاتی نہیں تھی، ہاں رانی جب اسے چبری کہہ کر پکارتی تو چیل پیروں سے چل کر رانی کے پاس چلی آتی اور آکر اس کی گود میں بیٹھ جاتی۔ رانی چبری کو اپنی سہیلیوں سے بڑھ کر سمجھنے لگی تھی۔

    کچھ دنوں میں چبری پوری طرح ٹھیک ہوگئی۔ اب رانی چاہتی تھی کہ چبری اڑنے بھی لگ جائے۔ وہ اسے ہش ہش کر کے دوڑاتی، جواب میں چبری اپنے پروں کو پھڑ پھڑا کر اڑتی لیکن تھوڑی دور جاکر پھر زمین پر اتر آتی۔

    ایک دن کی بات ہے۔ رانی کے بڑے بھائی کی شادی کا موقع تھا نواب صاحب کے باغیچے میں مہمانوں کا ہجوم تھا۔ بہت سے لوگ چیل اور رانی کا کھیل دیکھ رہے تھے۔ رانی چیل کو دوڑا رہی تھی۔ چیل کبھی اڑ کر دور چلی جاتی اور کبھی واپس آکر رانی کے کندھے پر بیٹھ جاتی، پھر ایک مرتبہ جب رانی نے دوڑ کر چبری کو ہشکارا تو وہ اڑ کر باغیچے کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ رانی کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ وہ اچھل اچھل کر تالیاں بجانے لگی۔ رانی کے ساتھ مہمان بچوں نے بھی خوشی سے تالیاں پیٹیں۔

    چبری نے درخت پر سے آسمان کی طرف نظر دوڑائی۔ دیکھا کہ کوّے اور بگلے اس کے سر پر سے اڑ کر چلے جا رہے ہیں۔ چبری نے اپنے پر پھیلائے وہ بھی اڑی اور کوؤں کے پیچھے پیچھے اڑ کر چلی۔ اڑتے اڑتے وہ دور نکل گئی اور نظر سے اوجھل ہوگئی۔

    رانی کو امید تھی کہ چبری واپس پلٹ کر آئے گی لیکن وہ پھر واپس نہیں آئی۔ اس بات کا رانی کے دل کو بڑا دھچکا لگا۔ وہ اس رات سوئی نہیں اور روتی رہی۔ اس دن اسے اپنی نئی بھابھی کے آنے کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنا چبری کے چلے جانے کا غم تھا۔

    جنگلی جانوروں پر سے رانی کا بھروسہ اٹھ گیا۔ اب یا تو وہ اپنے باڑے کے جانوروں کے ساتھ کھیلتی یا اپنی سہیلیوں کے ساتھ۔ مگر جب بھی وہ آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھتی، اسے چبری کی یاد آجاتی اور وہ کچھ دیر کے لیے اداس ہو جاتی۔

    ایک مرتبہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ جنگل میں پہنچی۔ صندلیں رنگ کا ایک خرگوش اس کے اگے سے پھدکتا ہوا بھاگا۔ دونوں سہیلیاں اس خرگوش کے پیچھے دوڑنے لگیں۔ ایسا خوش رنگ اور خوب صورت خرگوش رانی کے باڑے میں نہ تھا۔ دونوں سہیلیاں خرگوش پکڑنے کی دھن میں دوڑتی رہیں لیکن انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ایک کالی ناگن ان دونوں کے پیچھے دوڑتی ہوئی چلی آرہی ہے۔

    دوڑتے دوڑتے رانی نے دیکھا کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا بجلی کی سی رفتار سے ان دونوں کی طرف اتر رہا ہے۔ رانی نے غور کیا کہ یہ تو اپنی چبری ہے جو شاید اسی کے پاس آرہی ہے۔ رانی الجھن میں پڑ گئی کہ وہ ہنسے یا روئے، چبری رانی کے پیچھے کی طرف آکر اتری۔ قریب تھا کہ ناگن ان دونوں میں سے کسی کو ڈس لیتی۔ چبری نے ایک جھپٹا مارا اور اس ناگن کو اپنے پنجوں میں اٹھا لیا۔ اپنے پیچھے ناگن کو دیکھ کر دونوں سہیلیاں سکتے میں آگئی تھیں۔ چبری ناگن کو اٹھا کر اڑتی ہوئی آگے چلی۔ وہ ناگن کو لے کر دور ہوتی گئی اس کے ساتھ ہی چبری پر رانی کا غصہ کافور ہوتا گیا۔ جانوروں کے بارے میں اس کی الجھن دور ہوگئی اب وہ ہر حال میں خوش رہنے لگی تھی۔

    (مصنّف: م ن انصاری)

  • شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا جو بہت بوڑھا ہوگیا تھا۔

    وہ بہت کم شکار کے لیے اپنے ٹھکانے سے نکل پاتا تھا۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو وہ چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہو گیا۔ اس حالت میں بھوک سے جب برا حال ہوا تو اس نے اپنے غار کے آگے سے گزرنے والی ایک لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔” فکر نہ کرو، میں پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوبست کردوں گی۔”

    یہ کہہ کر لومڑی چلی گئی اور اپنے وعدے کے مطابق اس نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ لومڑی تو ایک چالاک جانور مشہور ہی ہے۔ وہ جنگل کے کسی بھی جانور سے خوش کہا‌ں تھی۔ اسے سبھی برے لگتے تھے۔ اس لیے اس نے ایسا کیا تھا۔

    یہ خبر سن کر جنگل کے جانور اس بوڑھے اور معذور کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا تھا، لیکن لومڑی کے کہنے پر روزانہ ایک ایک کرکے عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کو کسی طرح شکار کرکے اپنی بھوک مٹانے لگا تھا۔

    ایک دن لومڑی نے خود بھی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے غار کے دہانے پر کھڑے ہو کر اسے آواز دی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔” باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔”

    لومڑی جو بہت چالاک تھی، اس سے نے جواب دیا۔” نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔”

    اس حکایت سے سبق یہ ملا کہ انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • سوسن بیل کی کہانی

    سوسن بیل کی کہانی

    سچ ہے یا جھوٹ، یہ تو معلوم نہیں، لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں کسی ملک میں ایک گدھا اور ایک بیل رہتے تھے۔

    بیل دن بھر میں اتنی زمین پر ہَل چلا لیتا تھا جتنی زمین پر کوئی دوسرا بیل ہفتے بھر میں بھی نہیں چلا سکتا تھا، لیکن شام کو وہ تھکا ہارا لوٹ کر گھر آتا تو اسے سوکھی پھیکی گھاس کا ایک گٹھا کھانے کو ملتا تھا۔

    جہاں تک گدھے کا تعلق تھا وہ کوئی کام کاج نہ کرتا، دن بھر پڑے پڑے دھوپ کھاتا، لیکن اس کو پانی کی جگہ دودھ پلایا جاتا اور سوکھی پھیکی نہیں بلکہ ہری ہری رَس بھری گھاس سے تواضع کی جاتی تھی۔

    ایک روز بیل شام کو حسبِ معمول تھکا ہوا اپنے تھان پر لوٹا اور خشک بے ذائقہ گھاس کو بے دلی سے چبانے لگا، لیکن سوکھی گھاس اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ اس نے گدھے سے مخاطب ہو کر کہا:

    "بھائی گدھے! اپنے رسیلے چارے میں سے تھوڑا سا مجھے بھی دے دو نا۔ یہ خشک بے ذائقہ گھاس تو اب مجھ سے بالکل نہیں کھائی جاتی۔”

    گدھے کو بیل پر رحم آ گیا اور اس نے اپنے چارے میں سے تھوڑا سا اس کو دے دیا۔ مالک تھان پر آیا تو یہ دیکھ کر کہ گدھا اپنا چارا سارا کھا چکا ہے، بہت خوش ہوا اور کہا: "ہا۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔! خوب کھاتے ہو تم! شاباش میرے گدھے!”

    مالک نے گدھے کے آگے کولی بھر اور گھاس دال دی۔ پھر اس نے بیل کے ناند میں دیکھا تو پتا چلا کہ تمام خشک گھاس جوں کی توں پڑی ہے۔ وہ طیش میں آ کر بیل پر چیخنے چلانے لگا:

    "مردود! نکما کہیں کا! تو چارا کیوں نہیں کھاتا؟ کل کھیت پر جا کے لیٹ جائے گا تو کون ہَل چلائے گا؟” یہ کہتے ہوئے وہ بیل کو ڈنڈے سے مارنے لگا۔ اتنا مارا، اتنا مارا کہ بیچارے بیل کی کھال کی ساری گرد جھڑ گئی۔ اس دن سے گدھا روز اپنے شام کے کھانے کا کچھ حصّہ بیل کو دینے لگا۔

    ایک دن مالک تھان پر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ بیل گدھے کا چارا ڈٹ کر کھا رہا ہے اور گدھا پاس کھڑا اس سے کہہ رہا ہے:

    "کھاؤ بھائی، کھاؤ۔” بس پھر کیا تھا، مالک کے تن بدن میں آگ سی لگ گئی، ڈنڈا لے کر گدھے پر ٹوٹ پڑا اور یہ کہتے ہوئے اس کی مرمت کرنے لگا:

    "اچھا! یہ بات ہے! تیرا پیٹ بھر گیا ہے؟ تجھ پر حد سے زیادہ چربی چڑھ گئی ہے، تو اب اپنا سارا چارا اس نکمے بیل کو دے دیتا ہے؟ ٹھہر تو جا، میں تجھے اس کا مزہ چکھائے دیتا ہوں۔”

    مالک جب گدھے کا گرد و غبار خوب جھاڑ چکا تو اسی ڈنڈے سے بیل کی خبر لینے لگا۔ اگلے دن مالک نے تھان پر آ کر کہا:

    "اچھا گدھے میاں! اب ہَل چلانے کی آپ کی باری ہے۔ چلیے تو سہی۔” وہ گدھے کو کھیت میں لے آیا اور اس کی گردن میں طوق ڈال لگا کر ہانکنا شروع کر دیا۔ گدھا سارا دن پسینے سے شرابور ہل چلاتا رہا اور بیل مزے سے پڑا دھوپ کھاتا رہا۔ شام کو مالک گدھے کو واپس تھان پر لے آیا اور اس کو بیل کی جگہ پر باندھ کر سوکھے پھیکے پھوس کا ایک گٹھا اس کے آگے ڈال دیا۔ بیل کو ہری ہری نرم و ملائم گھاس کھانے کو ملی۔ چار ڈال کر مالک چلا گیا تو گدھے نے بیل سے گڑگڑاتے ہوئے کہا:

    "یار! جب تم بھوکے تھے تو میں نے تم پر رحم کیا تھا۔ اب تم بھی میرے حال پر رحم کرو۔ اپنے رسیلے چارے میں سے کچھ مجھے دے دو۔”

    بیل پر لالچ غالب آ گیا اور اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا: "دیکھتے نہیں ہو، میرا چارہ تھوڑا سا تو ہے۔ خود میرے لیے بھی کافی نہیں ہے۔”

    بیچارے گدھے کو اپنی قسمت کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ وہ دن بھر کھیت میں ہل چلاتا اور شام کو تھکا ہارا تھان پر لوٹ آتا تو روز وہی روکھی سوکھی گھاس اس کو کھانے کو ملتی اور بیل تھا کہ مزے اڑائے جا رہا تھا۔ پہلے وہ بالکل دبلا پتلا سا تھا۔ اس کی پسلیاں نکلی رہتی تھیں۔ لیکن اب کچھ ہی دنوں میں کھا پی کر خوب موٹا تازہ ہو گیا اور بیچارہ گدھا اتنا دبلا پتلا ہو گیا کہ کسی سوکھے ہوئے درخت کا ٹھنٹھ معلوم ہونے لگا۔ آخرکار اس کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا اور اس نے ایک دن بیل سے کہا:

    "یار! تم ہی بتاؤ۔ اب میں کیا کروں؟ روز روز کی مار پیٹ اور ان اذیتوں سے کیسے چھٹکارا پاؤں؟ مالک کی مسلسل مار پیٹ سے میرا بدن چھلنی ہو گیا ہے۔”

    بیل نے مشورہ دیا: "کل جب مالک تمھاری گردن میں طوق لگا کر ہانکنے لگے تو تم ٹانگیں اڑائے کھڑے رہنا۔ اپنی جگہ سے ہلنا تک نہیں۔ مالک کو تم پر رحم آ جائے گا۔ وہ سوچے گا کہ بیچارہ گدھا بالکل تھک گیا ہے اور تمھیں آرام کرنے دے گا۔”

    اگلے دن صبح مالک نے روز کی طرح گدھے کو کھیت پر لا کر گردن میں طوق لگا دیا اور ہانکنے لگا تو گدھا اس طرح اڑ گیا کہ چلنے کا نام ہی نہ لیا۔ مالک کو غصہ آ گیا اور وہ گدھے کو ڈنڈے سے بے دردی سے مارنے لگا۔ گدھا مار پیٹ کی تاب نہ لا سکا اور چل پڑا۔ شام کو مالک نے اس کو تھان پر لا کر باندھ دیا تو وہ تھکا ماندہ پڑے پڑے سوچنے لگا:

    "نہیں۔ اب ایسے کام نہیں چلے گا۔ میں اب یہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا۔ کہیں بھاگ جاؤں گا۔” یہ طے کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا، ایک جھٹکے سے رسی تڑا لی اور باہر آ کر ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔

    گدھا بھاگتا گیا اور اب آپ آئیے، ذرا مرغ کی بات سنیے۔

    ایک چکی والے نے ایک مرغا اور کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، لیکن وہ ان کو کھانے کو کچھ نہیں دیتا تھا۔ مرغا اور مرغیاں بیچارے دن دن بھر خوراک کی تلاش میں آنگن میں مارے مارے پھرتے، ادھر ادھر اکا دکا دانے مل جاتے جنہیں کھا کر وہ اپنی بھوک کی آگ ٹھنڈی کر لیا کرتے۔

    ایک بار مرغا چکی کے اندر چلا گیا اور گیہوں کے دانے چگنے لگا۔ "در! در! مردود!” کہہ کر مالک اس کو بھگانے لگا اور ایک لکڑی اٹھا کر اس پر پھینکی۔ وہ لکڑی مرغ کے اس زور سے لگی کہ بیچارہ قلابازیاں کھا گیا اور درد سے "ککڑوں کوں” کر کے کراہ اٹھا۔ وہ بھاگ کر آنگن میں نکل گیا اور آنگن کی دیوار پھاند کر ایک طرف کو چل دیا۔ وہ چلا جا رہا تھا کہ راستے میں گدھا مل گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا پھر گدھے نے مرغ سے پوچھا:

    "بھائی مرغ! تم کہاں جا رہے ہو؟”

    مرغا بولا: "میں سوسن بیل جا رہا ہوں۔”

    گدھے نے پوچھا: "وہ کیسی جگہ ہے؟”

    مرغا بولا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا۔”

    گدھا کہنے لگا: "تب تو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو گے؟”

    مرغا بولا: "ہاں، ضرور لے چلوں گا چلو چلتے ہیں۔”

    دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ چلتے چلتے وہ ایک میدان میں آگئے۔ آگے بڑھتے جارہے تھے کہ اچانک شہد کی ایک مکھی نے نہ جانے کہاں سے آ کر گدھے کی گردن میں ڈنک مار دیا۔

    "اری کمبخت!” گدھے نے طیش میں آ کر کہا۔ "تجھے آ کر مجھ ہی کو ڈنک مارنا تھا؟ مجھ میں کیا رکھا ہے تمھارے لیے، میری تو ساری چربی پگھل کے بہہ چکی ہے۔ رس نام کو نہیں ہے۔ میری گردن کوئی گردن نہیں، کوئی سوکھی لکڑی سمجھو۔ چاہے جتنے ڈنک مارو تم کو کچھ نہیں ملے گا۔ معلوم ہوتا ہے ہماری ہی طرح تم بھی قسمت کی ماری ہو۔ اچھا تو آؤ، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

    شہد کی مکھی نے پوچھا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    گدھا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    شہد کی مکھی نے پوچھا:”یہ وہی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا؟”

    مرغا بولا: "ہاں۔”

    شہد کی مکھی بولی: "تب تو میں ضرور تم لوگوں کے ساتھ چلوں گی، لیکن میں اکیلی نہیں جاؤں گی ۔ میری بہت سی ساتھی مکھیاں ہیں، کیا میں ان کو بھی بلا لاؤں؟”

    گدھا بولا: "ہاں، شوق سے بلا لو سب کو۔” کچھ ہی دیر کے بعد مرغے اور گدھے کو کچھ شور سنائی دیا۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو شہد کی مکھیوں کا ایک برا سا غول اڑتا چلا آ رہا ہے۔

    ان سب کو سوسن بیل کی طرف جانے دیجیے اور آئیے اب ذرا کچھ دوسروں کا حال سنیے۔

    ایک جگہ میدان میں صحرائی خرگوش کا جوڑا رہتا تھا۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ روز میاں بیوی دونوں غذا کی تلاش میں دور دور تک چلے جاتے، زمین کو جگہ جگہ کھودتے، لیکن کچھ نہ ملتا تھا۔ دونوں بہت تھک گئے اور فاقوں سے تنگ آ گئے۔ بالآخر ایک دن خرگوش نے خرگوشنی سے کہا:

    "آؤ آج دوسرے راستے پر چلیں۔ شاید ہماری قسمت جاگ اٹھے اور کوئی راہ گیر نظر آ جائے تو ہم اس سے کچھ کھانے کو مانگ لیں۔”

    وہ دوسرے راستے پر نکل گئے۔ اچانک انھوں نے گدھے اور مرغے کو آتے دیکھا جن کے اوپر شہد کی مکھیوں کا ایک غول بادل کی طرح اڑتا چلا آ رہا تھا۔ وہ نزدیک آئے تو میاں بیوی نے ان سے کہا:

    "بھائیو! ہم نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ از راہِ کرم ہم کو کچھ کھانے کو دے دو۔”

    "ارے دوستو!” مرغے نے رک کر ان سے کہا۔ "تم بھی ہماری ہی طرح بھوکے ہو؟ تم بھی ہماری طرح پیٹ پالنے کی فکر میں مارے مارے پھرتے ہو؟ کھانا چاہتے ہو تو تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔”

    خرگوش بولا: "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    مرغا بولا: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    خرگوش نے پوچھا: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

    مرغا کہنے لگا: "وہ ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کسی کا کسی سے کوئی سروکار نہیں۔”

    خرگوش بولا: تب تو ہم بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتے ہیں۔” وہ سب ایک ساتھ چلنے لگے۔

    تھوڑی دور گئے تھے کہ اچانک کسی کے پکارنے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر کوئی اسی طرف دوڑتا ہوا نظر آیا۔ تھوڑی دیر میں وہ قریب آ گیا تو گدھا اس کو پہچان گیا۔ یہ اس کا ساتھی بیل تھا۔ بیل نے نزدیک آکر سب کو جھک کر سلام کیا اور پوچھا:

    "تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟”

    جانور: "ہم سوسن بیل جا رہے ہیں۔”

    بیل: "وہ کون سی جگہ ہے؟”

    جانور: ” وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہری بھری چراگاہ ہے، صاف و شفاف پانی ہے اور کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا۔”

    بیل: یہ بات ہے تو تم لوگ مجھ کو ساتھ لے چلو۔”

    بیل کو لے کر سب آگے چلے۔ چلتے چلتے گدھے نے بیل سے پوچھا: "جناب! آپ کو کیا ہوا؟ جس وقت ہم دونوں جدا ہوئے اس وقت تو آپ بڑے مزے میں تھے؟”

    "ارے بھائی! کچھ نہ پوچھو۔” بیل نے کہنا شروع کیا۔ "تم چلے گئے تو مالک نے مجھے لے جا کر ایک سانڈ کے سامنے کھڑا کر دیا۔ ہم لڑنے لگے۔ میں نے اس کے چھکے چھڑا دیے اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد مالک نے مجھ کو ایک اور سانڈ سے لڑایا۔ میں نے اس کو بھی ہرا دیا، لیکن بڑی مشکل سے۔ اس کے بعد میں سوچنے لگا کہ اب میری خیر نہیں۔ یہ مجھ کو سانڈوں سے لڑاتا رہے گا اور کسی نہ کسی دن ان میں سے کوئی میری جان لے کر چھوڑے گا۔

    ایک رات میں پڑا سو رہا تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ایک بڑے سانڈ نے میرے پاس آ کر بڑے رعب سے کہا: "آہ! ہاتھ آ گئے! اب میں تمھیں سبق سکھاتا ہوں! یہ کہہ کر وہ مجھ پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ میں نے ذرا سا پیچھے ہٹ کر اس کے وار سے پہلے ہی اس کو زور سے سینگ مارا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ میرا مالک میرے سامنے زمین ہر اوندھے منھ بےہوش پڑا ہے۔

    معلوم ہوا کہ مالک مجھ کو چارا دینے آیا تھا اور میں سوتے میں اس کو سینگ مار بیٹھا۔ وہ ہوش میں آیا تو اٹھا اور ڈنڈا لے کر مجھے دنادن مارنے لگا۔ مار مار کر مجھ کو لہولہان کر دیا۔ مجھے اتنا دکھ ہوا کہ جب مالک مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا تو میں کسی طرح اپنی رسی تڑا کر باہر آیا اور جہاں سینگ سمائے چل دیا۔”

    سب جانور ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ان کے اوپر شہد کی مکھیاں بھی اڑتی رہیں۔ انہوں نے بہت لمبا راستہ طے کیا اور بالآخر سوسن بیل کے کنارے پہنچ گئے۔

    انھوں نے دیکھا کہ ایک سر سبز و شاداب وادی ہے۔ صاف و شفاف ہوا ہے۔ ہری بھری گھاس کے میدان ہیں۔ باغیچوں میں خربوزے تربوز پک رہے ہیں۔ بیلوں میں انگور کے گچھے لٹک رہے ہیں۔ درختوں پر خوبانیاں، سیب ، ناشپاتیاں اور انواع و اقسام کے دیگر پھل پک گئے ہیں اور ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ کھیتوں میں گیہوں، جو وغیرہ کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔ ہر چیز کی فراوانی ہے۔

    یہ سب سوسن بیل میں رہنے لگے۔ یہاں ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے والا، مارنے پیٹنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ سب اپنی خوشی سے محنت کرتے، جو چاہتے کھاتے اور جتنا چاہتے کھیلتے کودتے، آرام اور تفریح کرتے۔ بیل اور مرغا گیہوں جمع کرتے جاتے اور مکھیاں پھولوں کا رس جمع کر کے شہد بناتیں۔ سب بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اور یہ بھول چکے تھے کہ فکر و پریشانی کس چڑیا کا نام ہے۔

    سوسن بیل کے گرد و نواح میں برف سے ڈھکے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ تھے اور ان پہاڑوں پر بہت سارے بھیڑیے رہتے تھے۔ ایک دن بھیڑیوں کے سردار ایک اونچے پہاڑ پر اپنے بادشاہ کے گرد جمع ہوئے اور وہاں بیٹھے آپس میں رونا رونے لگے کہ کیسے برا زمانہ آ گیا ہے، پہاڑوں پر جنگلی بکریوں کا نام و نشان تک نہیں رہا ۔آئے دن فاقے کرنے پڑتے ہیں، پریشان رہتے ہیں۔ اتنے میں اچانک ان کے بادشاہ نے نیچے سوسن بیل کی وادی میں بیل، گدھے اور مرغ وغیرہ کو گیہوں کی فصل کاٹتے ہوئے دیکھ لیا۔ خوشی سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے اپنے سرداروں سے مخاطب ہو کر کہا:

    "وہ دیکھو نیچے وادی میں کباب پھر رہا ہے۔”

    سب بھیڑیے ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے دانت کِٹکٹاتے ہوئے نیچے وادی کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے منھ سے رال ٹپکنے لگی۔ ان کے بادشاہ نے حکم دیا:

    "دس بہادر ابھی چلے جائیں اور اس چلتے پھرتے کباب کو اٹھا لائیں۔” ایک بھیڑیا جو بڑا شیخی خور تھا آگے بڑھا اور اپنی دم ہلاتے ہوئے بولا:

    "شاہِ اعظم! بیل، گدھے اور مرغ کو پکڑ لانے کے لیے دس بھیڑیوں کے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اجازت ہو تو میں اکیلا جا کر ان کو آپ کے حضور میں ہانک لاؤں؟”

    "ارے تم کیا کر لو گے؟” ایک دوسرا بھیڑیا کہنے لگا۔ "تمھاری جگہ میں جاؤں تو زیادہ اچھا رہے گا۔” بس پھر کیا تھا یہ دونوں آپس میں لڑ پڑے۔

    "بند کرو لڑائی!” بادشاہ غصے میں آ کر غرایا۔ "جاؤ! تم دونوں ہی چلے جاؤ۔ باقی بھیڑیے کباب پکانے کے لیے سیخیں تیار کر لیں اور آگ جلا دیں۔”

    دونوں بھیڑیے خوشی کے نعرے بلند کرتے ہوئے وادی کی طرف دوڑ پڑے۔ گدھے نے ان کو آتے دیکھ لیا اور ہانک مار کر اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا۔”

    "ایں آں، ایں آں! بھیڑیے آ رہے ہیں۔ بھاگو!” یہ کہہ کر گدھا بھاگنے ہی کو تھا کہ مرغا کہہ اٹھا۔”

    "ککڑوں کوں! رک جاؤ بزدل کہیں کے، کیا تمہیں اپنی مضبوط ٹانگوں پر بھروسا نہیں؟” یہ کہتے ہوئے وہ اچھل کر گدھے کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور اس کو روکنے کی کوشش کرنے لگا۔

    "ارے اب کیا کیا جائے؟ بھیڑیے بہت سے ہیں اور ان کے دانت لوہے کے ہیں۔” گدھے نے گھبرا کر کہا۔

    "میری بات سنو!” مرغے نے کہا۔ "بیل کے سینگ بڑے مضبوط ہیں۔ وہ بھیڑیوں کو ان سے مارے گا۔ تمھارے سم مضبوط ہیں۔ تم ان کو دو لتیاں مارنا۔ شہد کی مکھیاں تیز تیز ڈنک ماریں گی۔ خرگوش جگہ جگہ گڑھے کھودیں گے تاکہ بھیڑیے ٹھوکریں کھائیں۔”

    "اور تم خود کیا کرو گے؟ بس چیختے چلاّتے رہو گے؟” گدھے نے ڈر کے مارے تھر تھر کانپتے ہوئے طنز سے کہا:

    "اور میں تم لوگوں کی راہ نمائی کروں گا۔ تمھیں ہدایت دیا کروں گا۔” مرغ نے جواب دیا۔

    اتنے میں بھیڑیے نزدیک آ گئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: "تم اس گدھے کو پکڑو اور میں اس بیل کو پکڑوں گا۔”

    اور وہ دونوں بھیڑیے اپنے اپنے شکار کی طرف لپکے۔ بیل تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور دوڑتے ہوئے آ کر بھیڑیے کے جو سینگ مارا تو بھیڑیا قلابازیاں کھا کر پرے جا گرا۔ ادھر شہد کی مکھیاں آندھی کی طرح امڈ آئیں اور بھیڑیوں کو ڈنک مارنے لگیں۔ بھیڑیوں کی ناکیں، آنکھیں، زبانیں، مختصر یہ کہ ان کے بدن کا کوئی بھی حصہ مکھیوں کے ڈنکوں سے نہ بچا۔ آخر بھیڑیوں نے دیکھا کہ ان کی خیر نہیں تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ بھاگتے ہوئے کتنی بار خرگوشوں کے کھودے ہوئے گڑھوں میں گر گئے اور ان کی ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔

    ادھر پہاڑ کے اوپر بھیڑیے اس امید میں کہ ان کے ساتھی ابھی جانوروں کو ہانک لائیں گے، کباب کھانے کی تیاریاں کر کے بیٹھے تھے۔ انھوں نے بہت سی سیخیں بنا لی تھیں۔ الاؤ جلا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ پیاز کو باریک باریک کاٹ کے اس پر نمک مرچ چھڑک دیا تھا۔ اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے بہادر ساتھی ہانپتے کانپتے بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے سارے بدن خون میں لت پت ہیں اور سانس پھول رہی ہے۔

    "کیا بات ہے؟” بادشاہ نے اپنے بہادروں سے پوچھا۔

    "شاہِ اعظم!” وہ دونوں ہانپتے کانپتے کہنے لگے۔ ” وہاں کباب نہیں پھر رہا تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا۔ وہاں تو بھیڑیوں کی موت ناچتی پھر رہی تھی۔”

    اور انھوں نے نیچے وادی میں جو کچھ دیکھا اور جھیلا وہ سب اپنے بادشاہ کو بتا دیا۔ دونوں بہادروں میں سے ایک نے کہا:

    "وہاں نیچے خود موت کا فرشتہ گھومتا پھرتا ہے۔ اس نے ہاتھوں میں لوہے کا ایک بڑا بھاری ڈنڈا پکڑ رکھا ہے اور جس کو بھی اس ڈنڈے سے مارتا ہے وہ سات قلابازیاں کھا کر زمین پر گرتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے۔”

    "ارے معلوم ہوتا ہے تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔” دوسرے بہادر نے کہا۔ "ان کے ساتھ ایک پہلوان ہے جس کی آواز بالکل بگل کی طرح ہے اور ہاتھ لوہے کے ہیں۔ وہ جس کے مکا مار دیتا ہے وہ سات قلابازیاں کھائے بغیر سنبھل نہیں پاتا۔”

    "ارے معلوم ہوتا ہے تم نے ان جیالے سپاہیوں کو نہیں دیکھا جو اپنی تیز نوک دار برچھیاں بدن میں یوں گاڑتے ہیں کہ خارش اور درد سے تڑپتے رہ جاؤ۔”

    "وہ تو اپنے گورکن بھی ساتھ لائے ہیں۔ ان گورکنوں نے ہمارے لیے دس دس قبریں کھود ڈالی تھیں۔ ہم ان میں گر گر جاتے تھے۔ ہماری ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں۔”

    "ان کے ساتھ ایک بگل بجانے والا بھی تھا۔ وہ ایک درخت پر چڑھا بیٹھا تھا اور اس زور سے بگل بجا رہا تھا کہ ہمارے کانوں کے پردے پھٹتے پھٹتے رہ گئے۔” یہ ساری باتیں سن کر بھیڑیے خوف سے تھر تھر کانپنے لگے۔ ان کا بادشاہ بھی گھبرا گیا۔

    "اب ہم کیا کریں؟” بادشاہ نے اپنے سرداروں سے پوچھا۔ "کیوں نہ ہم سب ان پر ہلہ بول دیں!”

    "شاہ اعظم! ایسا کرنا مناسب نہیں۔” بھیڑیے تھر تھر کانپتے ہوئے کہنے لگے۔ "معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی بلائے ناگہانی ہیں کہ دنیا بھر کے بھیڑیے بھی جمع ہو جائیں تو وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”

    "اب تو خیر اسی میں ہے کہ ہم جلد ہی یہاں سے کھسک جائیں۔” بھیڑیوں کے بادشاہ نے کہا۔ باقی سب بھیڑیے بھی کباب پکانے اور کھانے کے تمام سازو سامان کو چھوڑ چھاڑ کے اپنے بادشاہ کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    سوسن بیل میں بھیڑیوں کا نام و نشان نہ رہا۔ ہمارے سب جانور پھر بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    (اس خوب صورت کہانی کے مصنّف کا نام اور اس کا ماخذ نامعلوم ہے)

  • دو چوہے…

    دو چوہے…

    دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔

    ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’بھائی! ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔‘‘

    شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کر لی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔ گاؤں کا چوہا بہت عزّت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کھانے میں مٹر، گوشت کے ٹکڑے، آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے، وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آہستہ چباتا رہا۔

    جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا، ’’ارے یار جانی! اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں؟‘‘

    گاؤں کے چوہے نے کہا، ’’کہو بھائی! ایسی کیا بات ہے؟‘‘

    شہری چوہے نے کہا، ’’تم ایسے خراب اور گندے بِل میں کیوں رہتے ہو؟ اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔ چاروں طرف پہاڑ، ندی اور نالے ہیں۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ سرکار دربار ہیں۔ صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔ کھانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔ آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔ جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے۔ بس اب تم میرے ساتھ چلو۔ دونو ں پاس رہیں گے۔ باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔‘‘

    گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔ شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بِل تھا۔ حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر، تاجر، زمین دار، وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔

    وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔ شہری چوہے نے اپنے دوست، گاؤں کے چوہے کو ریشمی ایرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا، ‘’واہ یار! کیا مزیدار کھانے ہیں۔ ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔”

    ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکایک کسی نے دروازہ کھولا۔ دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں دو کتّے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔ یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔

    ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’اے بھائی! اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔ میں تو باز آیا۔ ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں، اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔‘‘

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، از قلم جمیل جالبی)