Tag: ادب اطفال

  • طرح دار خان

    طرح دار خان

    نام تو اُن کا کچھ اور تھا، لیکن ہم انہیں میاں طرح دار کہتے تھے۔ بے تکلّفی زیادہ بڑھی تو صرف طرح دار کہنے لگے۔

    شروع میں تو وہ بہت بھنّائے لیکن بعد میں خود بھی اس نام سے مانوس ہو گئے۔ اسکول میں، ہوسٹل میں، بازار میں، دوستوں کی محفل میں، غرض کہ ہر جگہ وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے۔

    سردیوں کے دن تھے۔ ہم چار پانچ ہم جولی ہاسٹل کے لان میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے کہ اچانک گیٹ کھلا۔ ایک حضرت دو قلیوں کے ہمراہ داخل ہوئے۔ بکس، بستر، کتابیں اور بہت سارا الّم غلّم دو قلیوں کے سر پر دھرا تھا۔ قلیوں نے سامان برآمدے میں ڈالا، اور صاحبزادے کو سلام کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ میاں طرح دار تھے۔

    میاں صاحب ذرا نکلتے ہوئے قد کے دھان پان سے آدمی تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لمبی ناک اور بڑے بڑے کان، ان کے لمبوترے چہرے پر کچھ عجیب سے لگتے۔ خیر شکل صورت سے کیا ہوتا ہے، لیکن میاں طرح دار کی جو ادا ہمیں پسند آئی، وہ اُن کی طرح داری تھی۔ خاندانی رئیس ہونے کے سبب سے، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی پائی تھی اور آٹھویں جماعت میں داخل ہو کر پہلی بار شہر تشریف لائے تھے۔

    میاں طرح دار کو اپنے قد کاٹھ پر بڑا ناز تھا۔ اپنی خاندانی بڑائی اور ریاست پر بڑا ناز تھا۔ بہادری کا ذکر ہوتا تو میاں طرح دار فوراً اپنا تذکرہ لے کر بیٹھ جاتے۔ دولت کی بات ہوتی تو اپنی جاگیر کا طول و عرض ناپنے لگتے۔ ذہانت اور چالاکی میں تو اُن کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ لڑکے میاں صاحب کی باتوں سے انکار کو گناہ سمجھتے اور ان کے ہر دعوے پر اس طرح سر ہلاتے جیسے سَر ہلانے میں دیر کی تو آسمان پھٹ پڑے گا۔ اور میاں طرح دار ایسے بھولے کہ ہم جولیوں کی ان باتوں کو بالکل سچ جانتے تھے۔

    چار لڑکے برآمدے میں بیٹھے سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں اور آگ سینک رہے ہیں۔ کسی نے کہا۔ ’’یارو! سخت سردی ہے۔‘‘ اور میاں طرح دار نے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فقرہ سن کر اچکن اتار دی۔ لڑکوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکیم تیّار کر لی اور میاں صاحب کو گھیر کر بٹھا دیا۔ اب میاں طرح دار ہیں کہ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں، لیکن بہادری کے مارے نہ اچکن پہنتے ہیں نہ انگیٹھی کے قریب آتے ہیں۔ بدن میں کپکپی ہے اور زبان میں لکنت، ہونٹوں پر نیلاہٹ اور آنکھوں میں آنسو لیکن میاں صاحب اس حالت میں بھی اپنے کارنامے سنائے جا رہے ہیں۔ ’’یہ کیا سردی ہے۔ سردی تو ہمارے گاؤں میں پڑتی ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوتا ہے۔ برف پڑ رہی ہے۔ آنگن میں برف، دیواروں پر برف، میدانوں اور کھیتوں میں برف، پانی میں برف کھانے میں برف، بستر میں اور بستر کے تکیے میں برف۔ لیٹے لیٹے، تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا، ایک مُٹھّی برف لی اور مزے سے چر چر چبا رہے ہیں۔‘‘

    ہوسٹل کے شریر لڑکے یہ حکایتیں سنتے اور ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں بے حال ہو جاتے۔ اور جوں ہی میاں طرح دار رخصت ہوتے لڑکے ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جاتے بلکہ زخمی پرندے کی طرح برآمدے کے ننگے فرش پر دیر تک تڑپتے رہتے۔

    میاں طرح دار عام لڑکوں سے بالکل الگ تھے۔ کپڑے بڑے ٹھاٹ کے پہنتے۔ کھانے کی اچھی اچھی چیزیں گھر سے منگواتے اور پیسے تو بگڑے ہوئے رئیسوں کی طرح مٹھی بھر بھر کے خرچ کرتے۔ یہی نہیں بلکہ میاں صاحب جب کپڑے پہن کر اصیل مرغ کی طرح اپنے کمرے سے اکڑتے ہوئے نکلتے تو ہم جولیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے اور جتا دیتے کہ خوش پوشی مجھ پر ختم ہے۔ تم لوگ بھلا کیا ہو۔

    لڑکے میاں طرح دار کے چھچھورے پن پر جی ہی جی میں کڑھتے، لیکن میاں صاحب کو بیوقوف بنا کر اور ان کی حرکتوں پر دل کھول کر ہنس لینے کے بعد انہیں معاف بھی کر دیتے تھے۔ ایک کہتا: ’’یار طرح دار! یہ اچکن کا کپڑا کہاں سے خریدا؟‘‘ بس اس سوال پر وہ پھول کر کُپّا ہو جاتے اور کہتے: ’’ولایت کے ایک کارخانے دار نے والد کو تحفے میں بھیجا تھا۔ یہی تین گز کپڑا تھا جو اس کارخانے میں تیّار ہوا پھر مشین ٹوٹ گئی اور کپڑا بُننا بند ہو گیا۔ لاہور کے عجائب گھر والے مہینوں پیچھے پڑے رہے کہ ہمیں دے دیجیے۔ عجائب گھر میں رکھیں گے، لیکن ہم نے انکار کر دیا۔‘‘

    ’’بہت اچھّا کیا۔‘‘ کوئی شریر لڑکا بیچ میں ٹپک پڑتا۔ ’’اور اب تو اسے عجائب گھر میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں بھی وہیں رہنا پڑے گا۔‘‘

    لڑکے کھلکھلا کر ہنس دیتے اور میاں طرح دار کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھولپن سے کہتے: ’’اور نہیں تو کیا۔‘‘

    گرمیوں کا موسم آ گیا تھا۔ امتحانات قریب تھے۔ محفلیں سونی ہو گئیں۔ ہوسٹل کے کھلنڈرے لڑکوں نے بھی کتابیں جھاڑ پونچھ کر سامنے رکھ لیں اور پڑھائی میں جُٹ گئے۔ البتّہ شام کو تھوڑی دیر کے لیے کھیل کے میدان میں رونق نظر آتی اور چاندنی راتوں میں تو اکثر رات گئے گھومنے پھرنے کا پروگرام بن جاتا۔

    میاں طرح دار لکھنے پڑھنے کے کچھ ایسے شوقین نہ تھے۔ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا پھر کتابوں میں کیوں سر کھپاتے۔ اس لیے ان دنوں بیچارے بہت اُداس رہنے لگے تھے۔ لڑکے تو پڑھائی میں مصروف تھے، آخر وہ کہاں جاتے۔ کِس کے پاس بیٹھتے اور بڑائی کے قصّے کسے سُناتے؟ ایک شام کا قصّہ ہے شریر لڑکوں کی ٹولی ہوسٹل کے لان میں بیٹھی تھی۔ میاں طرح دار ٹہلتے ٹہلتے اُن کے درمیان جا پہنچے۔ کوئی لڑکا اپنے گاؤں کے ڈاکوؤں کا قصّہ سُنا رہا تھا۔ طرح دار کو خود پر قابو کہاں۔ جھٹ اپنی بہادری کے قصّے لے بیٹھے۔۔۔ ’’یوں گھوڑی پر سوار ہو کر نکلا۔ یوں دریا پار کیا۔ درخت پر چڑھ کر چھلانگ لگائی۔ ڈاکوؤں کو مار بھگایا۔‘‘ اور اسی طرح کی الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔

    لڑکے سخت بے مزہ ہوئے۔ آخر ان میں سے ایک بولا: ’’یارو! چودھری کے باغ میں آم پکے ہیں اور ہم یہاں آموں کو ترس رہے ہیں۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ کیا کوئی ایسا جواں مرد نہیں جو چودھری کے باغ سے آم توڑ کر لائے؟‘‘

    میاں طرح دار نے سینے پر ہاتھ مارا اور اکڑ کر بولے: ’’میں حاضر ہوں۔ چلو میرے ساتھ۔‘‘

    لو صاحب! ایک پَل میں ساری اسکیم تیّار ہو گئی۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ ہر طرف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ چاند کبھی بادلوں میں چھپ جاتا تو گھپ اندھیرے کا عالم ہو جاتا۔ ہوسٹل کا گیٹ کب کا بند ہو چکا تھا۔ چوکی دار دیوار کے قریب چار پائی پر لیٹا میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔ البتّہ چوکی دار کا کتّا کبھی کبھی سوتے سے چونک کر اُٹھتا اور چاند کی طرف منہ کر کے سائرن کی آواز میں ’’بھو اُو و و و‘‘ کرنے کے بعد بھر اونگھنے لگتا۔

    لڑکوں کی ٹولی دیوار پھلانگ کر ہوسٹل سے باہر نکلی اور آموں کے باغ کی طرف، جو مشکل سے ایک فرلانگ تھا، روانہ ہوئی۔ میاں طرح دار سب سے آگے تھے۔ البتّہ جب چاند بدلیوں میں چھُپ جاتا اور کہیں قریب سے کتّوں کے بھونکنے کی آواز آتی تو میاں صاحب دبک کر پیچھے ہو جاتے اور خوف سے کانپ اُٹھتے۔ اسی طرح یہ لوگ باغ کے اندر جا پہنچے۔

    چاندنی آم کے گھنے باغ میں یوں پھیلی ہوئی تھی جیسے کسی نے شیشے کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھیر دیے ہوں۔ باغ کا چوکی دار اپنی جھونپڑی میں پڑا سو رہا ہو گا۔ لڑکوں نے سرگوشی میں مشورے کیے اور میاں طرح دار نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پاجامے کے پائنچے اوپر کر کے درخت پر چڑھنے لگے۔ لیکن دھان پان سے آدمی درخت پر چڑھنے کی سکت کہاں سے لاتے۔ ذرا سی دیر میں ہانپنے لگے۔ لڑکوں نے جو یہ حال دیکھا تو میاں صاحب کی مدد کو پہنچے اور انہیں کاندھے پر سوار کر کے درخت پر چڑھا ہی دیا۔

    میاں طرح دار دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتی ہوئی ٹانگوں سے ابھی ذرا ہی اُوپر گئے ہوں گے کہ چوکی دار کے کتّے نے آہٹ پا کر بھونکنا شروع کر دیا۔ لڑکوں کے اوسان خطا ہو گئے اور میاں طرح دار کی تو یہ حالت ہوئی جیسے بدن میں جان ہی نہیں رہی تھی۔ ایک لڑکے نے آہستہ سے کہا ’’طرح دار! جلدی نیچے اُتر آؤ۔۔۔ فوراً کود پڑو۔ ہم تمہیں سنبھال لیں گے لیکن میاں صاحب میں تو ہلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔ لڑکوں نے جو دیکھا کہ میاں طرح دار کے ہاتھوں سبھی پکڑے جائیں گے تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ چوکی دار کے کتّے نے کچھ دور اُن کا پیچھا کیا اور پھر دُم ہلاتا ہوا واپس آ گیا۔

    اُدھر میاں طرح دار درخت کی ٹہنی پر بیٹھے، خوف کے مارے اپنی موت کی دعا مانگ رہے تھے۔ ان کا سارا بدن پسینے میں شرابور تھا اور ہاتھ پاؤں یوں کانپ رہے تھے جیسے آندھی میں درختوں کی ٹہنیاں ہلتی ہیں۔ کتّے کو چور کے بدن کی خوشبو مل گئی تھی، وہ اُسی درخت کے نیچے جس پر میاں طرح دار کا آشیانہ تھا، کھڑا دُم ہلا ہلا کر بھونک رہا تھا۔ چوکی دار ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں لاٹھی لے کر آنکھیں جھپکتا ہُوا آیا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلا گیا۔

    وہ رات میاں طرح دار نے درخت پر گزاری۔ کتّا کتنی ہی بار بھونکتا ہوا آیا اور واپس چلا گیا اور چوکیدار کتنی ہی دفعہ چور کی تلاش میں لاٹھی گھماتا ہوا پاس سے نکل گیا۔ میاں طرح دار نے ایک دو بار کوشش کی کہ چوکی دار کو مدد کے لیے پکاریں، لیکن منہ سے آواز ہی نہ نکلی۔

    پچھلی رات کو چوکی دار پھر اِدھر سے گزرا تو اچانک چاندنی میں اُس کی نظر میاں طرح دار پر پڑ گئی۔ قریب تھا کہ میاں صاحب بے ہوش ہو کر گِر پڑتے لیکن چوکی دار نے جب ڈپٹ کر کہا، ’’نیچے اُترو‘‘ تو وہ درخت کی ٹہنی سے کچھ اور چمٹ گئے اور رو کر بولے: ’’مجھے نیچے اترنا نہیں آتا۔‘‘

    چوکی دار سمجھ گیا کہ چور قابو میں آ گیا ہے اور کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتا۔ وہ چپ چاپ واپس ہوا اور لمبی تان کر سو رہا، صبح جب اُس نے میاں طرح دار کو کاندھا دے کر درخت سے نیچے اتارا تو وہ خوف اور رتجگے کے سبب بخار میں بھن رہے تھے۔ وہ کوئی بھلا آدمی تھا۔ میاں صاحب کو کاندھے پر لاد کر ہوسٹل میں ڈال گیا۔ آخر علاج معالجے کے بعد میاں صاحب کی طبیعت بحال ہوئی اور دوستوں نے ان کی صحت کی خوشی میں دعوت بھی اُڑائی لیکن میاں طرح دار نے اس واقعے کے بعد سے اپنی فرضی بہادری کے سارے کارنامے بھلا دیے تھے۔

    (ادبِ اطفال سے مصنّف حسن عابدی کی منتخب کہانی)

  • بالائی والا فقیر

    بالائی والا فقیر

    یہ ایک بامقصد اور جوہرِ حسنِ تعمیر سے آراستہ کہانی ہے جس کے مصنّف ہندوستان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور نقاد علی عباس حسینی ہیں۔ بچّوں کی تربیت، ان کی راہ نمائی اور اصلاحِ معاشرہ میں ادب اور اہلِ قلم کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کہانی بھی کسی معاشرے میں بہتری کے لیے ننھے ذہنوں کو راستہ دکھانے کی غرض سے لکھی گئی ہے۔

    اللہ رکھے ہمارا لکھنؤ بھی عجیب شہر ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ، انوکھی باتیں، یہاں کے ہر باشندے کی الگ ریت ہے۔

    امیروں رئیسوں کو تو جانے دیجیے روپے کی گرمی ہر جگہ ہر دل و دماغ میں نیا ابال پیدا کرتی ہے۔ اس لیے دولت والوں کو تو چھوڑیے یہاں کے غریبوں بلکہ بھکاریوں کے بھی نئے نئے انداز ہوتے ہیں۔ جھونپڑیوں میں رہنے والے اگر محلوں کے خواب دیکھیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں، مگر اس شہر کے فٹ پاتھ پر پڑے رہنے والے فقیر بھی شیر مال اور پلاؤ سے کم درجے کی چیز کھانے کے لائق نہیں سمجھتے۔ جھوٹ نہیں کہتا، ایک سچی کہانی سنو! ایسی جو کان کی سنی نہیں آنکھ کی دیکھی ہے۔

    لکھنؤ سٹی اسٹیشن اور جوبلی کالج کے درمیان جو ریل کا پل ہے وہ نہ جانے کب سے بھکاریوں کا اڈہ چلا آتا تھا۔ کئی لنگڑے، لولے، اندھے بھکاری اور بھکارنیں، گودڑوں میں لپٹے مٹی اور گندگی میں اٹے ہوئے اس پل کے نیچے بیٹھے اور لیٹے رہتے ہیں۔ ان میں کئی کوڑھی بھی ہوتے ہیں اور چاہے کوئی پیسہ دے یا نہ دے، یہ ہر آنے جانے والے کو اپنا مرض بانٹتے رہے ہیں۔ انگریزی راج کے زمانے میں اس پل کے نیچے کی آبادی اسی قسم کی تھی۔ آج ہمارے راج میں بھی وہاں کا یہی حال ہے۔ گوروں کی حکومت میں وہ انسان نہ تھے، ہندوستانی تھے۔ اپنوں کے دور دورہ میں وہ نہ انسان ہیں نہ ہندوستانی۔

    لو میں تو کہانی کہتے کہتے تمہیں سبق دینے لگا۔ اپنی حکومت کی کمیوں اور برائیاں بیان کرنے لگا مگر کیا کروں، سچی بات منہ سے نکل ہی پڑتی ہے اور پھر تمہیں دھیان کیوں نہ دلاؤں؟ تم ہی تو بڑے ہو کر ایک دن ملک کی حکومت کی باگ سنبھالو گے!

    ہاں، تو خیر سنو۔ اسی ریل کے پل نیچے ایک فقیر رہتا تھا۔ وہ ٹاٹ پر بیٹھا گدڑی سے ٹانگیں چھپائے رکھتا تھا۔ اس کی ٹانگیں ہیں یا نہیں، کم سے کم طالب علموں میں سے کسی نے اسے کھڑایا چلتے پھرتے نہیں دیکھا تھا۔ جب دیکھا بیٹھے ہی دیکھا، مگر کمر کے اوپر کا دھڑ خاصا تھا۔ بڑی ی توند تھی۔ سینہ پر موٹے موٹے ڈھیروں بال تھے۔ گول چہرے پر بڑی سی گول کھچڑی داڑھی تھی، چپٹی موٹی ناک اور آنکھوں کے دھندلے دیدوں کے کونوں میں کیچڑ بھری ہوئی۔ سر کے بال بڑے بڑے الجھے ہوئے، مٹی میں اٹے ہوئے۔ صبح سے شام تک بس ایک رٹ لگاتا تھا۔ ’’ایک پیسہ بابا! ایک پیسہ۔‘‘

    آواز میں گرج سی تھی۔ بالکل جیسی کہ بڑے طبل پر ہاتھ سے چوٹ دینے سے نکلتی ہے مگر اس فقیر کا کمال یہ تھا کہ وہ اس موٹی بھدی، گرج دار آواز کو بالکل روہانسی بنا لیتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جو ایک پیسہ مانگتا ہے، تو اس کا یہ سوال نہ پورا کیا گیا تو وہ مر ہی جائے گا۔ بس اس ایک پیسہ کے نہ ہونے سے اس کا دم ہی نکلنے والا ہے۔ وہ بھوک سے پھڑک کر جان دینے ہی والا ہے اور ہم ایک پیسہ دے کر اسے زندہ کر لیں گے۔ نہیں تو اس کے مرنے کا گناہ اور پاپ اپنے سر ڈھوئیں گے۔

    اس لیے ادھر سے کوئی آنے جانے والا ایسا نہ تھا جو اسے ایک پیسہ دینے پر مجبور نہ ہو۔ کالج میں پڑھنے والے لڑکے، ان کو پڑھانے والے ماسٹر، جن کا بھی پل کے نیچے سے راستہ تھا، اس کے لیے گھر سے چلتے وقت پیسہ، دو پیسہ جیب میں ڈال کر نکلتے تھے۔ یکّے، ٹانگے، رکشہ والے بھی کسی نہ کسی پھیرے میں اس فقیر کو پیسہ، دو پیسہ بھینٹ ضرور چڑھاتے تھے اور اس کا حال یہ تھا کہ آپ پیسہ دیجیے یا نہ دیجیے اس کی یہ رٹ ’’ایک پیسہ بابا‘‘ ایک پیسہ بابا‘‘ برابر جاری رہتی تھی۔ اس طرح جیسے کہ اس کی سانس اسی آواز کے ساتھ ساتھ آتی جاتی ہے۔ اس طرح کہ دَم توڑتا مریض ہر سانس میں کراہتا ہے۔

    بہت سے لڑکے، بلکہ ماسٹر تک اسے پہونچا ہوا سمجھتے تھے۔ بڑا ہی اللہ والا، لوگ کہتے وہ دنیا کو چھوڑ چکا ہے۔ اسی کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو بھیک اس لیے مانگتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے کو دوسروں کی نظروں میں گراتا ہے۔ اس طرح اپنے کو گرانے سے اس کی روح اور بھی پاک صاف ہوتی ہے۔ ان ہی میں سے حمید بھی تھا۔ وہ بڑا سیدھا سادہ لڑکا تھا۔ جوبلی کی دسویں درجہ میں پڑھتا تھا اور اس کا راستہ اس پل کے نیچے سے تھا۔ وہ برابر ماں سے ضد کر کے فقیر بابا کے لیے پیسہ ہی نہیں طرح طرح کی چیزیں لاتا تھا۔ کبھی مٹھائی، کبھی پھل، کبھی شیرمالیں، کبھی مٹی کی پلیٹ میں پلاؤ، کبھی زردہ۔ آہستہ آہستہ یہ بات درجہ میں پھوٹ نکلی۔ سبھوں نے مسکوٹ کی۔ یہ فقیر حمید کو خوب بے وقوف بنا رہا ہے۔ کچھ علاج ہونا چاہیے۔ طے ہوا کہ اسکول کے آس پاس رہنے والے طلباء ہر وقت اس پر نگاہ رکھیں۔ کب سوتا ہے، کب جاگتا ہے، کب ہاتھ منہ دھوتا ہے۔ کب کھاتا پیتا ہے۔ جتنے پیسے روز کماتا ہے انہیں کیا کرتا ہے۔ اب کیا تھا دو ہی چار دن میں رپورٹیں آنے لگیں، پھر کمیٹی، جلسے میں طے ہوا اس رنگے سیار کا بھانڈا پھوڑنا ہمارا فرض ہے۔

    دوسرے ہی دن حمید سے کہا گیا تمہارا فقیر بابا جھوٹا، مکار بنا ہوا ہے۔ وہ بہت خفا ہوا لڑنے جھگڑنے لگا۔ کہا گیا، ’’اچھا!آج اسکول کے میچ بعد گھر نہ جاؤ، ہمارے ساتھ تماشا دیکھو، آٹھ دس لڑکے ایک ساتھ اس شام کو ریل کے پل کے پاس منڈراتے رہے۔ مغرب کی اذان کے ساتھ فقیر کی رٹ میں کمی ہوئی۔ بس جب کوئی بھولا بھٹکا پل کے نیچے سے گزرتا تو وہ اپنی ہانک لگا دیتا۔ جیسے جیسے اندھیرا بڑھا، آواز لگانے کا فاصلہ بھی بڑھتا رہا۔

    کوئی ساڑھے سات بجے تھے کہ بالائی والا آواز دیتا ہوا پل کے نیچے پہنچا۔ اس نے چار بڑی بڑی شیرمالیں اور پاؤ بھر بالائی فقیر بابا کو دی اور اس سے اس کے دام ہی نہیں لیے بلکہ دن کے جمع کیے ہوئے سارے پیسے نوٹوں میں بدل دیے۔ جب وہ پل سے نکلا تو لڑکوں نے گھیرا۔

    کہا یہ روز اتنی ہی شیرمالیں اور بالائی لیتا ہے۔ حمید نے پوچھا، اس نے جواب دیا ’’میں یہ کچھ نہیں جانتا میاں، صبح دو شیر مالیں اور پاؤ بھر بالائی۔‘‘

    حمید غصہ میں بھرا ہوا فقیر کے پاس پہونچا۔ اس نے پوچھا شرم نہیں آتی تمہیں بابا؟ بھیک مانگتے ہو اور شیر مالیں اور بالائی اڑاتے ہو؟

    فقیر نے جھڑک کر کہا ’’جاؤ جاؤ، میرے دھندے پر منہ نہ آؤ، پاؤ سوا پاؤ بالائی روزانہ نہ کھاؤں تو یہ دن بھر ’’ایک پیسہ! ایک پیسہ!‘‘ کی ضربیں کیسے لگاؤں؟

    حمید اس وقت تو پاؤں پٹختا گھر چلا گیا مگر اس دن سے اس نے اپنے ساتھیوں کا جتھا بنا کر ہر ایک آنے جانے والے سے کہنا شروع کردیا۔

    ’’اس فقیر کو کچھ نہ دینا، یہ دوسرے بھکاریوں کا پیٹ کاٹتا ہے اور روز سوا پاؤ بالائی کھاتا ہے!‘‘

    ادھر چھوٹے بچوں نے نعرہ لگانا شروع کردیا ’’بالائی کھانے والا فقیر! توند والا فقیر!‘‘ لطف یہ کہ جتنا ہی فقیر بابا چڑھتا، خفا ہوتا اتنا ہی لڑکوں کو نعرہ لگانے میں مزہ آتا اور اتنا ہی اس کے بھکاری ساتھی کھی کھی کر کے ہنستے۔ خیرات کے نالے کا منہ اب ان کی طرف مڑ گیا تھا جو بادل صرف فقیر بابا کی گود میں برسا کرتے تھے وہ اب دوسروں کی جھولیوں میں جل تھل بنانے لگے تھے۔

    چند ہی دنوں میں فقیر بابا کا دھندہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ اس نے ریل کا پل چھوڑ کر شاہ مینا کے مزار کے پاس جا کر فٹ پاتھ پر بسیرا کر لیا مگر وہاں درخت کی شاخوں کے سوا دھوپ، اوس یا پانی سے بچانے والی کوئی جھونپڑی نہ تھی۔ ایک رات دسمبر کی سردیوں میں بوندا باندی کے ساتھ جب اولے بھی پڑے تو فقیر بابا کو کہیں پناہ نہ ملی۔ درخت کی شاخیں اسے ٹھنڈی گولیوں کی بوچھار سے نہ بچا سکیں۔ صبح کو وہ اپنی گدڑی میں لپٹا ہوا پایا گیا۔

    پولیس نے جب اس کے چیتھڑوں کی تلاشی لی تو ان میں آٹھ سو کے بڑے نوٹ اور پچاس روپوں کے چھوٹے نوٹ اور پیسے سے بندھے ملے۔ کون کہے کہ اگر ان روپوں سے کوئی جھونپڑی بنا کر وہ اس میں رہتا تو اس کی جان بچ جاتی۔

    جس نے بھی اس کے موت کی ساتھ ساتھ اس کے پاس سے ملنے والی رقم کی بات سنی، اس کی حالت پر افسوس کیا۔

    مگر حمید بار بار یہی سوچتا رہا’’آخر حکومت ہر شہر میں ایسے گھر کیوں نہیں بنا سکتی جس میں سارے بھکاری رکھے جاسکیں اور جنتا ان کے دھوکوں اور ان کی بیماریوں سے محفوظ رہے؟‘‘

    بچّو! تمہیں، جو اس ملک کے ہونے والے حاکم ہو اس سوال کا جواب دینا ہے۔

  • کچھوا اور مینڈک

    کچھوا اور مینڈک

    ایک تھا کچھوا۔ اکثر سمندر سے نکل کر ریت پر بیٹھ جاتا اور سوچنے لگتا دنیا بھر کی باتیں۔

    سمندر کے تمام کچھوے اسے اپنا گرو مانتے تھے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ اچھے اور مناسب مشورے دیا کرتا تھا۔ مثلاً ریت پر انڈے دینے کے لیے کون سی جگہ مناسب ہو گی، عموماً دشمن انڈوں کو توڑ دیا کرتے تھے اس لیے اس بزرگ کچھوے کی رائے لینا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ گرو نے انڈے دینے کے لیے جو جگہ بتائی وہاں کوئی دشمن کبھی نہیں پہنچ سکا۔ پھر گرو جی سمندر کی لہروں کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ سمندری طوفان کب آئے گا، سمندر کی لہریں کتنی تیز ہو سکتی ہیں۔ تمام کچھوے اپنے بال بچّوں کو لے کر ساحل کے قریب کس مقام پر رہیں۔ طوفان کتنی دیر رہے گا، یہ سمجھو بچّو ذہین، دُور اندیش فلسفی قسم کا کچھوا تھا وہ۔

    ایک صبح سمندر سے نکل کر وہ کچھوا ریت پر بیٹھا سوچ رہا تھا، ہم تو سمندر اور ریت پر رہتے ہیں، پاس ہی جو بستی ہے وہاں لوگ کس طرح رہتے ہوں گے۔سوچتے سوچتے اس کی خواہش ہوئی کہ وہ بستی کی طرف جائے اور اپنی آنکھوں سے وہاں کا حال دیکھے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ کچھوے کی چال کیسی ہوتی ہے، بہت ہی آہستہ آہستہ چلتا ہے نا وہ۔ اپنی خاص چال سے آہستہ آہستہ چلا اور پہنچ گیا بستی میں۔

    بستی میں پہنچتے ہی اُسے ایک آواز سنائی دی، ’’چھپ چھپ’’ پھر یہ آواز بند ہو گئی، تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز سنائی دی ’’چھپ چھپ’’ پھر یہ آواز رُک گئی، کچھوے کو یقین آگیا کہ یہ پانی کی آواز ہے، کہیں قریب ہی پانی میں کوئی چیز اُچھل رہی ہے۔ پھر آواز آئی ’’چھپ چھپ’’ کچھوے کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ پانی کی آواز بہت پاس سے آ رہی ہے اور اس میں کوئی جانور اُچھل رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی خاص چال سے اُس جانب چلا کہ جہاں سے آواز آ رہی تھی اور پہنچ گیا ایک کنویں کے پاس۔ اندر جھانک کر دیکھا تو وہاں پانی نظر آیا۔ پانی میں آواز ایک مینڈک کی اُچھل کود سے ہو رہی تھی۔ مینڈک پھر اُچھلا اور آواز آئی ’’چھپ چھپ‘‘ کچھوے نے پوچھا، ’’بھائی مینڈک بڑے خوش نظر آ رہے ہو بات کیا ہے، خوب اچھل رہے ہو کنویں کے پانی میں؟‘‘

    مینڈک نے جواب دیا ’’میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں اور کنویں کے پانی میں اسی طرح اُچھلتا رہتا ہوں۔‘‘کچھوے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’کنواں گہرا تو ہے لیکن تم اندر نہیں جا سکتے۔‘‘

    بھلا میں اندر کیوں جاؤں، گہرائی میں تو میرا دَم گھٹ جائے گا۔‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔’’

    تم صرف اس کی سطح ہی پر اُچھل کود کر سکتے ہو۔ ‘‘کچھوے نے کہا۔’’

    ’’ہاں اس پانی میں مجھے اسی طرح چھپاک چھپاک کرتے ہوئے اچھا لگتا ہے۔’’

    ’’اور پانی تو اینٹوں کی دیواروں سے گھِرا ہوا ہے، تم اینٹوں کے درمیان بند ہو۔‘‘

    ’’کمال کرتے ہو بھائی اگر کنویں کے گرد دیوار نہ ہو تو پانی بہہ جائے گا اور میں بھی بہہ جاؤں گا پھر کنواں کہاں رہے گا۔‘‘ مینڈک نے کہا۔

    وہی تو میں سوچ رہا ہوں۔ ’’فلسفی کچھوے نے کچھ کہنا چاہا لیکن خاموش رہا۔’’

    ’’کیا سوچ رہے ہو بھائی، اس کنویں میں تم سما نہیں سکتے یہی سوچ رہے ہو نا۔ میری قسمت پر رشک آ رہا ہے تمھیں۔‘‘ مینڈک نے طنزیہ انداز میں کہا۔

    ’’نہیں مینڈک جی، میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ تم کنویں کے مینڈک ہو اور ہمیشہ کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے، تم نے سمندر نہیں دیکھا، سمندر دیکھو گے نا تو علم ہو گا کہ پانی کیا ہوتا ہے۔‘‘ کچھوے نے اپنی بات سمجھائی۔

    ’’سمندر کیا ہوتا ہے؟’’ مینڈک نے پوچھا۔

    ’’سمندر پانی کا ایک بہت بڑا، بہت ہی بڑا اور بہت ہی بڑا کنواں ہوتا ہے جو دیواروں کے درمیان نہیں ہوتا، اس کے گرد کوئی دیوار نہیں ہوتی اینٹوں پتھروں کی کوئی دیوار نہیں ہوتی، جہاں تک دیکھو گے نا پانی ہی پانی نظر آئے گا۔ سمندر نے ساری دنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ہم سمندر ہی میں رہتے ہیں۔ تم وہاں نہیں رہ سکتے۔‘‘

    ’’کیوں نہیں رہ سکتے بھلا؟‘‘ مینڈک نے دریافت کیا۔

    ’’اس لیے کہ تم اس کے بہاؤ میں بہہ جاؤ گے اور تمھاری خبر تاقیامت کسی کو نہیں ملے گی۔ ہاں ایک بات ہو سکتی ہے۔‘‘

    فلسفی کچھوے نے سوچتے ہوئے کہا۔

    ’’کیا؟ کون سی بات؟‘‘ مینڈک نے پوچھا۔

    ’’یہ ہو سکتا ہے کہ تم کنویں سے نکل کر میرے ساتھ سمندر کی طرف چلو، دیکھو سمندر کیا ہے، اس کی لہریں کیسی ہیں، ہم کچھوے وہاں کس طرح رہتے ہیں۔‘‘

    نہیں بھائی، میں تو اسی کنویں میں خوش ہوں۔ میں نہیں جاتا سمندر ومندر دیکھنے، تم ہی کو مبارک ہو سمندر۔‘‘’’

    ’’تو تم زندگی پھر کنویں کے مینڈک ہی بنے رہو گے؟‘‘ کچھوے نے غیرت دِلائی۔

    یہی میری تقدیر ہے تو میں کیا کروں؟‘‘ مینڈک نے جواب دیا۔ اس کے لہجے میں اُداسی تھی۔ ’’

    ’’دیکھو تقدیر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہم اپنی تقدیر خود بناتے ہیں، تم چاہو تو خود اپنی تقدیر بنا سکتے ہو۔‘‘ کچھوے نے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’بھلا کس طرح؟ تم تو کہتے ہو کہ میں سمندر میں جاؤں گا تو پانی میں بہہ جاؤں گا، میرا اَتا پتا بھی نہ ہو گا۔‘‘

    ’’یہ تو سچی بات ہے لیکن تم سمندر کے اندر نہیں، اس کے پاس رہ سکتے ہو جس طرح دوسرے سیکڑوں ہزاروں مینڈک رہتے ہیں۔ وہاں بڑے بڑے مینڈک بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بھی تمھاری طرح، سمندر کے کنارے کئی مقامات پر پانی جمع رہتا ہے کہ جس میں مینڈک رہتے ہیں، وہاں رہ کر سمندر کا نظّارہ بھی کرتے ہیں۔ نکلتے ہوئے خوب صورت سورج کو بھی دیکھتے ہیں، ڈوبتے ہوئے پیارے سورج کا منظر بھی دیکھتے ہیں۔ سورج کی خوب صورت روشنی کو لہروں پر دیکھ کر اُچھلتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں، تم سے زیادہ چھپاک چھپاک چھپ چھپ کرتے ہیں، اُن کے بال بچّے ہیں جو کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ رات میں چاندنی کا مزہ لوٹتے ہیں، اُنھیں ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں ملتی ہیں، وہاں ان کی غذا کا بھی انتظام ہے، تمھیں اس کنویں میں کیا ملتا ہے، باہر نکل کر تو دیکھو دنیا کتنی خوب صورت اور کتنی پیاری ہے، ہواؤں میں درخت کس طرح جھومتے ہیں، سمندر کی لہریں کس طرح اُٹھتی ہیں، کیسی کیسی خوب صورت مچھلیاں ساحل تک آتی ہیں۔ تم تو کنویں کے اندر بند ہو دنیا سے الگ، میرے ساتھ چل کر دیکھ لو اگر سمندری علاقہ تمھیں پسند آئے تو وہیں رہ جانا اور پسند نہ آئے تو واپس آ جانا اور بن جانا کنویں کا مینڈک۔ میں تو تمھیں دنیا اور اس کی خوب صورتی دِکھانا چاہتا ہوں تم نے کنویں کے اندر رہ کر بھلا دیکھا کیا ہے کچھ بھی تو نہیں۔ بولو چلو گے میرے ساتھ سمندر کی طرف یا یہاں رہو گے کنویں کا مینڈک بن کر؟‘‘ کچھوے نے صاف جواب طلب کیا۔

    مینڈک سوچنے لگا یہ تو سچ ہے کہ میں نے دنیا کو نہیں دیکھا ہے، اسی کنویں میں جنم لیا اور اسی میں اُچھل کود کر رہا ہوں، دُنیا اور اس کی خوب صورتی کو دیکھ لینے میں مضائقہ کیا ہے۔

    ’’چلو تمھارے ساتھ چلتا ہوں جگہ پسند نہ آئی تو واپس آ جاؤں گا۔’’ مینڈک نے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے ایسا ہی کرنا لیکن مجھے یقین ہے کہ تمھیں سمندر کی آزاد فضا اور دنیا کی خوب صورتی بہت بھلی لگے گی اور تم وہاں سے واپس آنا پسند نہ کرو گے۔ کنویں کا مینڈک بن کر رہنے والے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ انھیں دنیا کب نظر آتی ہے۔‘‘

    مینڈک باہر آگیا اور دونوں سمندر کی جانب روانہ ہو گئے۔ سمندر کے ساحل پر پہنچتے ہی مینڈک کی باچھیں کھل گئیں۔ بھلا اس نے کب دیکھا تھا یہ ماحول، کب دیکھا تھا سمندر کی لہروں کو، اُبھرتے ہوئے سورج کو، مچھلیوں کے رنگوں کو اور کچھوؤں کی فوج کو اور مینڈکوں کے ہجوم کو۔ کنویں کا مینڈک خوش ہو گیا، پہلی بار اُسے ٹھنڈی ہوا نصیب ہوئی، پہلی بار اُس نے دیکھا دُنیا کتنی بڑی ہے، پہلی بار دیکھا کہ تمام کچھوے، تمام مچھلیاں اور تمام آبی جانور اور تمام چھوٹے بڑے مینڈک کتنے آزاد ہیں۔ سب خوشی سے ناچ رہے ہوں جیسے۔

    یہ سب دیکھ کر مینڈک نے کچھوے سے کہا ’’بھائی تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، کنویں کی زندگی سے باہر نکالا ہے۔ اب تو میں ہرگز ہرگز کنویں کے اندر نہیں جاؤں گا یہیں رہوں گا اپنے نئے دوستوں کے ساتھ۔ دنیا دیکھوں گا، دنیا کی خوب صورتی کا نظّارہ کروں گا، خوب کھاؤں گا، ناچوں گا، گیت گاؤں گا۔‘‘

    کنویں کے مینڈک کے اس فیصلے سے کچھوا بہت خوش ہوا۔ اس نے یہ خوش خبری سب کو سنائی، کچھوؤں کو، مینڈکوں کو، مچھلیوں کو، تمام آبی جانوروں اور آبی پرندوں کو، سب خوشی سے ناچنے لگے گانے لگے۔ کنویں کے مینڈک نے سوچا ’’اگر میں کنویں میں رہتا تو یہ جشن کب دیکھتا‘‘ اس نے ذرا فخر سے سوچا ’’بھلا ایسا استقبال کب کسی مینڈک کا ہوا ہو گا۔‘‘

    گرو کچھوے اور اس مینڈک میں گہری دوستی ہو گئی۔ نئی آزاد خوب صورت سی پیاری دنیا کو پا کر مینڈک بھول گیا کنویں کو۔

    (مصنّف: شکیل الرّحمٰن)

  • مانو کی نو زندگیاں!

    مانو کی نو زندگیاں!

    ایک دفعہ کا ذکر ہے…. اووہو! اب یہ مت کہنا کہ یہ جملہ بہت پرانا ہے۔ پرانی چیزیں تو ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری مانو بلّی کی زندگی۔

    مانو بلّی کی نو زندگیوں کی کہانی بھی بڑی دل چسپ ہے۔ وہ گرمیوں کا ایک دن تھا۔ مانو بلّی کی امی نے اسے نصیحت کی۔ ’’مانو! ہر بلّی کے پاس نو زندگیاں ہوتی ہیں۔ اس لیے تم اپنی ہر زندگی کی قدر کرنا۔‘‘

    ’’نو زندگیاں!‘‘ مانو بلّی نے حیرت سے پوچھا۔ اس نے نو زندگیوں کا تذکرہ پہلی بار سنا تھا۔

    ’’مطلب تم اسے موقع (چانس) کہہ سکتی ہو۔ یعنی تم آٹھ خطرات سے بچ جاؤ گی لیکن نواں خطرہ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘

    مانو بلّی کی امی یہ بات کہہ کر چلی گئیں لیکن مانو کو شاید یہ باتیں سمجھ نہیں آئی تھیں۔ امی کے جانے کے بعد مانو نے کمرے میں شور شرابا کر کے برتن الٹ پلٹ دیے۔ برتنوں کی آواز سن کر گھر کا مالک مانو کی خبر لینے اٹھا۔ مانو نے مالک کے تیور دیکھے تو کھلی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ خوش قسمتی سے وہ درخت کی ایک شاخ میں الجھ گئی اور پھر اس نے آرام سے زمین پر قدم رکھ لیے۔ اس کی زندگی بال بال بچ گئی تھی۔ اس کے پاس آٹھ موقع رہ گئے تھے۔

    مانو کی نظر اچانک ایک مینڈک پر پڑی۔ اس نےمینڈک پر چھلاگ لگائی لیکن مینڈک اس سے کہیں زیادہ پھرتیلا نکلا۔ مانو بلّی مینڈک کو کھانے کے چکر میں پانی کے اندر گر کر ڈوبنے لگی۔ اس نے ایک پتھر کا سہارا لے کر اپنی جان بچالی۔ اب اس کے پاس سات موقع رہ گئے تھے۔

    اسے دودھ کا ایک جگ دکھائی دیا۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلّی کو دودھ کتنا پسند ہے۔ دودھ پینے کے چکر میں اس کا سر جگ میں پھنس گیا۔ وہ زور زور سے چلانے لگی۔ اب اس کی زندگی اس کی ایک سہیلی بلّی نے جگ کو توڑ کر بچائی۔ چھ زندگیاں ابھی باقی تھیں لیکن مانو بلّی کو اب بھی احتیاط کا خیال نہ آیا اور اس نے ایک بڑی مچھلی کے سر کو کھانے کی ناکام کوشش کی۔ مچھلی کا کانٹا اس کے حلق میں اس بری طرح پھنسا کہ وہ تڑپنے لگی۔ بڑی مشکل سے قےکر کے اس نے کانٹا تھوک دیا۔ اس کے پاس پانچ مواقع رہ گئے تھے۔

    مانو بلّی احتیاط کے تمام اصولوں کو نظرانداز کر کے درخت کے نیچے اور سڑک کے کنارے بے فکری سے لیٹ گئی۔ اف یہ کیا۔ ڈبل روٹی لے جانے والی ایک گاڑی نے بڑی مشکل سے بریک لگا کر مانو کی جان بچائی۔ اب صرف چار زندگیاں باقی تھیں۔ مانو اب ایک باغ میں گئی جہاں اس نے غصے میں آکر توڑپھوڑ شروع کردی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ باغ کا رکھوالا کتا اسے دیکھ رہا ہے۔ کتّے نے مانو کی طرف چھلانگ لائی۔ مانو بھاگ کر درخت پر چڑھ گئی۔ اب اس کے پاس تین مواقع رہ گئے تھے۔

    درخت پر اس نے پرندوں کے گھونسلوں میں موجود انڈوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ پرندوں نے جب اپنے انڈوں کا یہ حشر دیکھا تو طیش میں آکر مانو پر حملہ کر دیا۔ مانو نے جان بچانے کے لیے نیچے چھلانگ لگا دی۔ اس کی زندگی کے دو مواقع رہ گئے لیکن مانو اس دفعہ ایک کچرا دان میں گر گئی تھی۔ اس نے کچرا دان سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کام یابی نہیں ملی۔ ساری رات اسے آلو کے چھلکے اور خراب انڈوں کی بدبو میں گزارنی پڑی۔

    اب مانو کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    ’’کاش! میں اپنی امی کی بات مان لیتی اور اپنی زندگی اچھے انداز سے گزارتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مانو کے آنسوؤں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو رحم آیا اور اس نے مانو کی جان بچانے کے لیے خاکروب (کچرا اٹھانے والا) کو بھیج دیا۔ خاکروب نے کچرا دان دریا کے کنارے خالی کر دیا۔ سورج کی روشنی جب مانو بلّی کی آنکھوں سے ٹکرائی تو اسے ہوش آیا۔ اب اس کے پاس ایک موقع رہ گیا تھا۔ لیکن اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی احمقانہ حرکتوں کی وجہ سے نہیں گنوائے گی۔

    (مصنّف: ابنِ بہروز)

  • باغ میں‌ تتلی

    باغ میں‌ تتلی

    نہال خوش تھا۔ بہار آئی ہوئی تھی۔ باغیچے میں پھول ہی پھول کِھلے تھے۔

    اُسے رات جلدی سونے کی عادت تھی کیوں کہ اس سے نیند برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اِدھر کھانا کھاتا اور اُدھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونا شروع ہوجاتیں۔ پاپا بڑی مشکل سے اسے تھوڑی سی واک کراتے اور پھر وہ دوڑ کر بستر پر گر جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح سویرے ابھی ممی پاپا اور گڑیا سو رہے ہوتے اور نہال جاگ جاتا۔ پھر وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر پھرتا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگ جاتا یا پھر باہر اپنے گھر کے باغیچے میں نکل جاتا۔

    اُس دن جب وہ سویرے سویرے باغیچے میں گیا تو بہت حیران ہوا۔ پودوں پر بہار ایسی اُتری تھی کہ پھول ہی پھول کِھل گئے تھے۔ باغیچے میں ہلکی سی سفید دھند پھیلی تھی۔ اُفق پر سورج نے ابھی سَر نہیں اٹھایا تھا۔ فضا بے حد خوش گوار تھی اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ اسے بڑا مزا آیا۔ رنگ برنگے پھول دیکھ کر وہ خوش ہوا اور دوڑ کر ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگا۔ سارا باغیچہ خوش بو سے مہکا ہوا تھا۔ وہ گہری سانسیں لے کر خوش بو اپنے پھیپھڑوں میں اُتارنے لگا۔

    اسے یاد آیا کہ انگلش بُک کے ایک سبق میں پارک، بہار اور پھولوں کا ذکر اس نے پڑھا تھا۔ اس نے پودوں، درختوں اور پھولوں پر نگاہ دوڑائی تو اسے یہ منظر بالکل اُسی تصویر جیسا لگا جو کتاب میں شامل تھی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی شوق سے ڈرائنگ کرتا تھا۔

    کیاری سے گزرتے گزرتے وہ سفید اور ملائم پتیوں والے پھولوں کے پاس رک گیا۔ یہ چنبیلی تھی۔ اس نے زور سے سانس کھینچی۔ یہ خوش بو اسے بہت پسند تھی۔ یکایک وہ چونکا۔

    ارے تتلی… نارنجی، سیاہ اور سفید رنگ کے پروں والی تتلی چنبیلی سے اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

    ”ارے رُکو کہاں جارہی ہو۔“ نہال بولا اور سبز گیلی گھاس پر تتلی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ ٹھنڈی گھاس اس کے تلوؤں پر گدگدی کرتی تھی۔ تتلی تھی کہ پھولوں پر سے ہوا کی طرح سرسراتی اڑتی جارہی تھی۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ نہال اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔ تتلی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ اس نے نہال کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیا۔ آخر کار وہ بے حال ہوکر رُک گیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    رنگین پروں والی بڑی تتلی بھی قریبی گلاب پر بیٹھ گئی اور نہال کو دیکھنے لگی۔ ”ٹھیک ہے‘ میں اب تمھیں نہیں پکڑوں گا۔“ نہال نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

    ”تم بھی اب مت اُڑنا۔ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کتنے پیارے، رنگین پر ہیں تمھارے۔ یہ پیلا رنگ کتنا پیارا ہے۔“ نہال نے سَر آگے کر کے اُسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ”میرے قریب مت آؤ۔“ تتلی نے اچانک اسے ٹوکا اور وہ یہ باریک آواز سن کر اچھل پڑا۔
    ”ارے تم بول سکتی ہو۔“ نہال حیران ہوا۔

    ”ہاں‘ لیکن مجھے تم پر غصہ آرہا ہے‘ تم اچھے نہیں ہو۔“ تتلی پیاری سی باریک آواز میں بولی۔

    نہال نے کہا‘ تتلی کو بھی غصّہ آتا ہے۔ تتلی تو اتنی نازک ہوتی ہے۔ غصّہ کیسے سہتی ہے؟

    تتلی بولی کہ اس کے پَروں کا رنگ پیلا نہیں نارنجی ہے۔ اچھے بچّے تتلی کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اور وہ تتلی کے نارنجی پروں کو پیلا بھی نہیں کہتے۔

    ”اچھا میں سوری کرتا ہوں بس۔“ نہال نے جلدی سے غلطی مان لی۔

    تتلی خوش ہوئی اور بولی۔ ”میرا نام مونارک ہے۔ تمھارا نام مجھے معلوم ہے۔ پاپا نے تمھارا نام نہال رکھا تھا۔“

    ”تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا؟“ نہال مزید حیران ہوا۔

    ”بس ہوگیا معلوم، یہ تمھیں نہیں بتا سکتی۔“ مونارک اِترا کر بولی۔

    ”میں نے تمھیں پہلے یہاں نہیں دیکھا۔“ نہال کہنے لگا۔ ”تم کتنی بڑی ہو، تتلی تو چھوٹی ہوتی ہے۔“

    وہ بتانے لگی کہ مونارک بڑی تتلی ہوتی ہے اور یہاں بس کبھی کبھی آجاتی ہے، وہ بھی سویرے سویرے، اور پھر چلی جاتی ہے۔

    ”تو کیا تم ابھی چلی جاؤ گی۔“ نہال اُداس ہوگیا۔

    ”ہاں۔“ مونارک نے اپنے سَر پر موجود دو انٹینا لہرا کر کہا۔ ”میں جتنی خوب صورت ہوں، اُتنی زہریلی بھی ہوں۔ مجھے کوئی جانور پکڑ کر کھاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پتا ہے میں آج بہت اداس ہوں۔“

    ”ارے تمھیں کیا ہوا، تم کیوں اداس ہو؟“ نہال نے پریشان ہوکر پوچھا۔

    ”میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ تم زہریلی ہو، ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔“ مونارک بولی۔

    نہال نے یہ سن کر جلدی سے کہا کہ آج سے میں تمھارا دوست ہوں، ہم دونوں کھیلیں گے اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ٹھیک ہے اب۔ لیکن تتلی نے اسے بتایا کہ اسے ابھی ضرور جانا ہے۔ وہ ہر سال ہزاروں میل کا سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ آج جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی تو اس کو ایک تتلی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئے تھے۔ سبھی مونارکوں کے ماں باپ اسی طرح مرتے ہیں۔ اسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مونارک رونے لگی۔ ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ نہال بھی اُداس ہوا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    مونارک کہنے لگی۔ ”نہال‘ میرے دوست، تم کتنے اچھے ہو۔ تم میرے لیے دکھی ہوگئے ہو۔“

    ”ہاں‘ میں تمھیں کبھی بھی زہریلی نہیں کہوں گا، پکّا وعدہ۔“ نہال نے کہا۔

    مونارک اپنی چھے ٹانگوں میں سے دو چھوٹی ٹانگوں سے اپنا پیٹ کھجانے لگی۔

    نہال کو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔ اور پھر کہا۔ ”مونارک‘ تم نے سچ مچ اپنے ممی پاپا کو نہیں دیکھا۔“

    ”ہاں۔“ اس نے اداسی سے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا۔ ”مونارک اپنے ماں باپ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ انڈوں سے مونارک کے نکلنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

    نہال نے بوجھل دل سے کہا۔ ”اچھی تتلی، اب تو میں تمھارا دوست ہوں۔ اب تم مت روؤ۔“

    ”ٹھیک ہے میرے دوست۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا۔“ تتلی بولی اور اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی۔ وہ اُڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ”مجھے بہت دور، دوسرے ملک جانا ہے۔ اب تمھارے ممی پاپا بھی جاگنے والے ہیں۔ وہ تمھیں تلاش کرنے ادھر آئیں گے۔“

    نہال نے پوچھا کہ کیا وہ پھر آئے گی اس باغیچے میں۔ تتلی نے کہا کہ تتلیاں بس ایک بار سفر کرتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔ پھر شاید اس کے بچّے یہاں چکر لگائیں۔

    نہال پریشان ہوگیا۔ ”تو کیا تم اپنے ننھے بچّوں کے ساتھ نہیں ہوگی‘ وہ اکیلے ہوں گے؟“

    ”ہاں۔“ وہ بولی۔ ”مونارک کے بچے یتیم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ گھبراتے نہیں ہیں۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے رنگین پَروں سے دنیا کو خوب صورت بناتے ہیں۔“ یہ کہہ کر مونارک اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

  • ’’وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی؟‘‘

    ’’وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی؟‘‘

    جب کوثرؔ پہلے پہلے ہمارے گھر آئی تو دروازے میں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ میں بیٹھا لکھ رہا تھا۔ رضیہ امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن، شمو کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

    کوثر نے ایک بار اندر جھانک کر دیکھا، پردے کی سرسراہٹ پر میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔ میں پھر لکھنے لگا۔

    اس نے پھر جھانکا۔ رضیہ اب بھی امی کے پاس بیٹھی تھی۔ منو اور چمن آپس میں لڑ رہے تھے اور شمی کھڑی منہ بسور رہی تھی۔ پردہ پھر ہلا۔ میں نے لکھتے لکھتے پھر نگاہ اٹھائی، کوثر پھر ہٹ گئی۔ اس بار میں تیزی سے اٹھ کر پردے کی آڑ میں جاکر کھڑا ہوگیا اور اس بار جونہی اس نے اندر جھانکا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا۔

    ’’رضیہ‘‘ کوثر کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ ’’ارے کوثرؔ تم ‘‘ رضیہ اٹھ کر آئی۔ کوثر اجنبیوں کی طرح چھپی چھپی سی کھڑی تھی۔

    ’’ہوں تو تم رضیہ کے پاس آئی ہو، چوروں کی طرح کیوں جھانک رہی تھیں؟‘‘

    ’’میں نے اس سے کہا اور اس نے جھینپ کر رضیہ کی پیٹھ کے پیچھے منہ چھپا لیا۔ اس طرح وہ پہلے روز ہمارے یہاں آئی۔ وہ رضیہ کے ساتھ پڑھتی تھی۔ پھر وہ ہر روز گھر آنے لگی اور پھر گھر کے دوسرے بچوں کی طرح حرکتیں بھی کرنے لگی۔

    ’’بھائی صاحب! یہ قلم مجھے دے دیجیے نا؟ اور یہ پھول جو گلدان میں لگا ہے مجھے بہت پسند ہے۔ ’’ایک روز سیدھی میرے پاس چلی آئی۔ ’’بھائی صاحب! آپ نے برتن بنانے کا کارخانہ دیکھا ہے؟

    اس نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’ہاں ہاں اپنے زاہد خالو کا جو کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’تو پھر آپ نے ان کارخانوں کے منشی بھی ضرور دیکھے ہوں گے؟‘‘ ارے ہاں بھئی یہ اپنے برابر میں منشی مجیب صاحب رہتے ہیں۔‘‘

    ’’بس تو پھر میری بات مانیے اور یہ کہانیاں وہانیاں لکھنی چھوڑ کر کسی کارخانہ کی منشی گیری شروع کر دیجیے۔

    میں نے اسے گھورا۔

    ’’آپ کی کتنی ہی کہانیاں پڑھی ہیں سب ایک ہی جیسی ہیں۔ کسی میں شرارتیں، کسی میں حلوہ کی چوری، کسی میں بھائی بہن کی لڑائی آخر آپ لکھتے کیا ہیں؟

    ’’کوثر‘‘ میں نے اسے آہستہ سے ڈانٹا۔

    ’’نہیں نہیں بھائی صاحب، ایک بات… ’’کوثر نے کچھ اس انداز سے کہا کہ باوجود غصے کہ ہنسی آگئی۔‘‘

    ’’دیکھیے نا کہانیوں سے تو ہمیں تعلیم ملتی ہے۔ ہمارے کورس کی کتابوں میں بھی کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ کسی سے سبق ملتا ہے چوری مت کرو۔ کسی سے ہم سیکھتے ہیں دوسروں کو مت ستاؤ مگر آپ ہیں کہ چوری کی ترغیب دیتے ہیں۔ شرارتوں کی ترکیب بتاتے ہیں، میرے اچھے بھائی صاحب۔ ایسی کہانیاں مت لکھیے۔ آپ تو بہت اچھا لکھتے ہیں، کتنے ڈھیر سارے خط آتے ہیں، آپ کی کہانیوں کی تعریف میں، بڑے بڑے رسالوں میں آپ کی کہانیاں چھپتی ہیں، مگر آپ کی بچوں کی کوئی بھی کہانی ایسی ہے جس پر کسی نے آپ کو خط لکھا ہو۔ آخر ہم بچوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ الٹی سیدھی کہانیاں ہمارے لیے لکھتے ہیں۔‘‘

    میں کوثر کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ بولے چلی جارہی تھی۔ گیارہ بارہ برس کی آٹھویں جماعت میں پڑھنے والی لڑکی کس قدر تیز اور کسی لیڈر کی طرح تقریر کیے جارہی تھی۔

    ’’کوثر…‘‘ میں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’پگلی! آج کل کے بچے بھی تو ایسی ہی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ ورنہ پھر ان رسالوں کے مدیران کو کیا پڑی ہے کہ وہ کہانیاں شائع کریں۔‘‘

    ’’بھائی صاحب! ان ایڈیٹروں کی بھی ایک ہی کہی….. دینا دلانا تو کچھ ہوتا نہیں۔ ایک دو کہانیاں یوں ہی بھرتی کی چھاپ دیں۔ اس سے ان حضرات کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ’’وہ بولی۔

    ’’اچھا بڑی بی! آپ کی نصیحت سر آنکھوں پر، ایسی ہی کہانیاں لکھوں گا جن کو پڑھ کر بچے اچھی باتیں سیکھ سکیں۔ اب تو خوش۔‘‘

    ’’ویسے آپ کہانیاں بہت اچھی لکھتے ہیں۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’خوشامدی کہیں کی، لو چلو بھاگو، میں نے ایک رسالہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا اور وہ رضیہ کے پاس چلی گئی۔

    اس کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ انتہائی ذہین بچی ہے۔ کتنی سمجھداری کی باتیں کرتی ہے، ضروراپنے درجہ میں اوّل آتی ہوگی اور پھر میں نے طے کر لیا کہ اب بچوں کے لیے جو بھی کہانی لکھوں گا وہ سبق آموز ہوگی۔ صرف تفریح ہی تو مقصد نہیں ہے۔

    اچانک کوثر کئی دن ہمارے یہاں نہیں آتی۔ مصروفیت کے سبب میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ آج خیال آیا تو میں نے رضیہ سے معلوم کیا۔ ’’ارے بھئی رضوؔ ! یہ تمہاری کوثر بی آج کل کہاں غائب ہیں؟‘‘

    ’’بھائی صاحب! ایک روز رات میں اسٹول سے گر پڑی، کافی چوٹ آئی ہے، اسکول بھی نہیں آرہی ہے، آج اسے دیکھنے جاؤں گی۔‘‘

    ’’ارے ہمیں تو خبر ہی نہیں بڑی اچھی لڑکی ہے۔‘‘

    شام کو رضیہ کے ساتھ میں بھی اسے دیکھنے چلا گیا۔ کوثر کی والدہ کو ہم خالہ جان کہتے ہیں۔ وہ کوثر کو دوا دے رہی تھیں۔ اس کے ایک ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔

    ’’کیوں بھئی بڑی بی! تمہیں کافی چوٹ آئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’حرکتیں ہی ایسی کرتی ہے۔‘‘ خالہ جان کوثر کو گھور کر بولیں۔

    ’’جی۔‘‘ میں نے ایک بار کوثر کو اور پھر خالہ جان کو دیکھا۔ ’’کیا بتاؤں شوکی بیٹے! یہ لڑکی اتنی شریر ہے کہ ناک میں دم کردیا ہے۔

    ’’امی!‘‘ کوثر کمزور آواز میں مچل کر بولی۔

    ’’کیا بتاؤں نہیں؟ ارے بیٹے ہوا یہ کہ راشد کے تایا میاں نے دہلی سے سوہن حلوہ بھجوایا تھا دونوں کو برابر برابر دے دیا۔

    راشد میاں مچل گئے اور لگے رونے، ضد کرنے کہ ان کا حصہ کم ہے۔‘‘

    ’’کم تھا تو آپ نے بجیا کو زیادہ دیا تھا۔ ’’ قریب کھڑا ہوا راشد بولا۔

    ’’تھا زیادہ تمہارا سر، کہیں اچھے بچے ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ خالہ جان نے راشد میاں کو جھڑک دیا۔

    ’’ہاں تو پھر یہ ہوا کہ جب خوب روئے تو ہم نے کوثر سے کہا تم بڑی ہو اپنے حصے میں سے تھوڑا انہیں اور دے دو۔‘‘

    ’’تھوڑا سا، سب تو لے لیا تھا اوں۔‘‘ لیٹے لیٹے کوثر بی۔

    ’’بڑا احسان کیا تھا شرم نہیں آتی۔‘‘ خالہ نے اسے بھی جھڑک دیا۔ ’’جی پھر‘‘ میں نے مسکرا کر کوثر کی طرف دیکھا۔ خالہ جان آگے سنانے لگیں، ’’کوثر نے اپنا حلوہ کھا کر برابر کردیا۔ راشد میاں ذرا کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ایک ایک دانہ سنبھال کر رکھا۔ رات کو میز پر ڈبّہ لے کر سو گئے۔ ہم نے اٹھا کر کارنس پر رکھ دیا۔ خدا جانے یہ جاگ رہی تھی، ہم تو سمجھے کہ سوگئی ہے، جب بتی وغیرہ بند کر دی تو یہ بی اٹھ کر اسٹول پر چڑھیں۔ دیکھو نا یہ کارنس بہت اونچا ہے اسٹول پر کرسی رکھی، بس گر پڑیں۔‘‘

    ’’چوری کر رہی تھیں، ماشاء اللہ۔‘‘ میں مسکرایا۔

    ’’اب تم ہی دیکھو۔‘‘ ’’خالہ جان کمرے سے ہم لوگوں کے لیے چائے بنانے چلی گئیں۔ اب تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کوثر کا کیا حال تھا۔ لاکھ کہنے پر بھی اس نے اپنا منہ چادر سے باہر نہیں نکالا۔

    اور اب یہ کہانی لکھ چکنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اس کہانی سے کیا سبق لے گی حالانکہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے اور بالکل سچی ہے۔

    (مصنّف: شکیل انور صدیقی)

  • واہ ری بی لومڑی!

    واہ ری بی لومڑی!

    ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آ رہی تھیں۔

    تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک کے کنارے رکھا ہے اور اس پنجرے میں ایک شیر بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس آ گیا۔

    اندر بند شیر نے جب اس کو دیکھا تو رونی صورت بنا کر بولا۔

    ’’بھیا تم بہت اچھّے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ دیکھو مجھے کسی نے اس پنجرے میں بند کر دیا ہے اگر تم کھول دو گے تو بہت مہربانی ہوگی۔‘‘

    دیہاتی آدمی ڈر رہا تھا، مگر اپنی تعریف سن کر اور قریب آ گیا۔ تب شیر نے اس کی اور تعریف کرنا شروع کر دی۔

    ’’بھیّا تم تو بہت ہی اچھے اور خوبصورت آدمی ہو، یہاں بہت سے لوگ گزرے مگر کوئی مجھے اتنا اچھا نہیں لگا۔ تم قریب آؤ اور پنجرے پر لگی زنجیر کھول دو۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ دو دن سے یہیں بند ہوں۔‘‘

    اس آدمی کو بہت ترس آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ شیر دھاڑ مار کر باہر آ گیا اور دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا، ’’ارے میں نے ہی تم کو کھولا اور مجھ ہی کو کھا نے جا رہے ہو؟

    شیر ہنس کر بولا’’ اس دنیا میں یہی ہوتا ہے اگر یقین نہیں آتا تو پاس لگے ہوئے پیڑ سے پوچھ لو۔‘‘

    دیہاتی نے پیڑ سے کہا۔ ’’بھیّا پیڑ! میں راستے پر جا رہا تھا شیر پنجرے میں بند تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کھول دو اور میں نے کھول دیا۔ اب یہ مجھ ہی کو کھا نا چاہتا ہے۔‘‘

    پیڑ نے جواب دیا۔ ’’اسِ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ میرے پھل کھاتے ہیں اور میرے سائے میں اپنی تھکن مٹاتے ہیں۔ مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو مجھے کاٹ کر جلا بھی دیتے ہیں۔ مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔‘‘

    شیر یہ سن کر پھر دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا، ’’رکو ابھی کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ اس نے راستے سے پوچھا۔

    ’’بھائی راستے! دیکھو کتنی غلط بات ہے کہ شیر کو پنجرے سے میں نے نکالا اور وہ مجھ ہی کو کھانا چاہتا ہے۔‘‘

    راستے نے کہا۔ ’’ہاں بھائی! کیا کریں دنیا ایسی ہی ہے۔ مجھ پر چل کر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں، میں ان کو تھکن میں آرام دینے کے لیے اپنے اوپر سلا لیتا ہوں۔ مگر جب ان کو مٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو میرے سینے پر زخم ڈال کر مجھے کھود ڈالتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں نے کبھی آرام دیا تھا۔‘‘

    شیر یہ بات سن کر پھر جھپٹا۔ دیہاتی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ تب وہاں ایک لومڑی گھومتی نظر آئی۔ دیہاتی اس کی طرف لپکا اور بولا۔ ’’دیکھو یہاں کیا غضب ہو رہا ہے۔‘‘ لومڑی اطمینان سے ٹہلتی ہوئی قریب آئی اور پوچھا۔

    ’’کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو‘‘

    ’’دیہاتی نے کہا کہ میں راستے سے جا رہا تھا۔ شیر پنجرے میں تھا اور پنجرہ بند تھا۔ اس نے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ پیاسا ہوں کھول دو اور جب میں نے اسے کھولا تو یہ مجھ پر جھپٹ پڑا۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں۔ اور جب ہم نے پیڑ سے پوچھا تو وہ کہہ رہا ہے کہ یہی صحیح ہے اور جب راستے سے پوچھا تو وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ شیر کی بات ٹھیک ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘

    شیر کھڑا یہ سب باتیں سن کر یہی سوچ رہا تھا کہ دیہاتی کی بات ختم ہو تو اس کو کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں۔

    لومڑی بولی۔ ’’اچھّا میں سمجھ گئی تم پنجرے میں بند تھے اور پیڑ آیا اور اس نے تم کو….‘‘

    ’’ارے نہیں۔۔۔ میں نہیں شیر بند تھا۔‘‘ دیہاتی نے سمجھایا۔

    ’’اچھا۔‘‘ لومڑی بولی

    ’’شیر بند تھا اور راستے نے شیر کو کھول دیا تو تم کیوں پریشان ہو؟‘‘

    ’’اففف۔۔ راستے نے نہیں، میں نے اس کو پنجرے سے…‘‘دیہاتی الجھ کر بولا۔

    ’’بھئی میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کون بند تھا۔ کس نے کھولا، کیا ہوا پھر سے بتاؤ۔‘‘ لومڑی نے کہا۔

    شیر نے سوچا بہت وقت بر باد ہو رہا ہے، وہ بولا۔ ’’ میں پنجرے میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پنجرے کی طرف گیا اور اندر جا کر بولا۔ یوں بند تھا تو…‘‘

    اتنے میں لومڑی تیزی سے آگے بڑھی اور پنجرے کا دروازہ بند کر دیا اور زنجیر چڑھا دی۔

    پھر مڑ کر دیہاتی سے بولی، اب تم اپنے راستے جاؤ۔ ہر کوئی مدد کے لائق نہیں ہوتا۔ دیہاتی نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا راستے سے گزر گیا۔

    (ایک لوک کہانی)

  • انگوٹھی اور بانسری

    انگوٹھی اور بانسری

    پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی۔ عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا۔ عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا جب کہ مانی فنِ سپاہ گری سیکھ رہا تھا تاکہ شاہی فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔

    یوں تو عدنان تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ ہی سفر پر روانہ ہوتا تھا مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس کا باپ بیمار پڑ گیا۔ وہ کافی کم زور بھی ہوگیا تھا اس لیے اسے آرام کی ضرورت تھی۔ عدنان نے سوچا کہ اس مرتبہ وہ اکیلا ہی تجارت کا مال لے کر نکل جائے۔

    اس کے ارادے کی خبر مانی کو ملی تو وہ بھی گھومنے پھرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہو لیا۔ ان کے سفر پر جانے کی وجہ سے ان کے گھر والے فکر مند ہوگئے تھے کیوں کہ ان دنوں بہت ہی خطرناک اور ظالم ڈاکوؤں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ وہ سنسان جگہوں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تھا تو اسے قتل بھی کر دیتے تھے۔ دونوں دوستوں نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی اور بیٹھ کر یہ منصوبہ بنانے لگے کہ خدانخواستہ اگر کبھی انھیں ڈاکوؤں نے گھیر لیا تو وہ کیا کریں گے۔

    سفر کے دوران انھیں کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بڑے آرام سے اس ملک میں پہنچ گئے جہاں عدنان کو اپنا تجارتی مال فروخت کرنا تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا سارا سامان فروخت ہوگیا۔ اس تجارت میں اسے بہت فائدہ ہوا تھا۔ وہ دونوں جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ پورا ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کی واپسی کی تیاری شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بہت سے تحفے تحائف بھی خریدے تھے۔

    سفر کے لیے ان کے پاس ان کے گھوڑے تھے۔ عدنان کے گھوڑے پر دو چمڑے کے تھیلے لٹکے ہوئے تھے جو سونے کی اشرفیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ اشرفیاں اسے اپنا مال بیچ کر حاصل ہوئی تھیں۔ مانی کے پاس بھی چند سو اشرفیاں تھیں جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلا تھا تاکہ سفر میں اس کے کام آسکیں۔ اس کی اشرفیاں اور تحفے تحائف کے تھیلے بھی اس کے گھوڑے پر لدے ہوئے تھے۔

    دو دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے ملک میں داخل ہوگئے۔ اب ان کا تھوڑا ہی سا سفر باقی تھا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے۔ اچانک انہوں نے سامنے سے دھول اڑتی دیکھی۔ ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ اس دھول کو دیکھ کر اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سن کر دونوں دوست گھوڑوں سے اتر گئے اور تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے گھڑ سوار ان کے نزدیک پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ وہ لوگ شکل و صورت سے ڈاکو لگتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلواریں تھیں۔

    سب سے آگے خوفناک شکل اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لحیم شحیم شخص تھا۔ وہ ان کا سردار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ایک خوفناک قہقہ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا ۔ “شکل سے یہ لوگ امیر زادے لگتے ہیں۔ سارا مال ان سے چھین لو۔ مزاحمت کریں تو قتل کر دو۔ ”

    عدنان اور مانی ماہر تلوار باز تھے اور بہادر بھی بہت تھے۔ لیکن اتنے بہت سے ڈاکوؤں سے وہ لوگ ہرگز نہیں جیت سکتے تھے۔ عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “ہم دو ہیں اور تم لوگ بہت سارے۔ عقل کا تقاضہ ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ نہ کریں۔ تم ہمارا مال لے لو اور ہمیں جانے دو۔ ”

    ڈاکوؤں کا سردار ایک مرتبہ پھر بلند آواز میں ہنسا۔ پھر اس کا اشارہ پا کر اس کے دو ساتھی گھوڑوں سے اترے اور ان کے گھوڑوں کی طرف بڑھے تاکہ ان پر لدے سامان پر قبضہ کر سکیں۔

    مانی کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی۔ عدنان کے ہاتھ میں ایک بانسری تھی۔ ڈاکوؤں کو آتا دیکھ کر اس نے یہ بانسری اپنی جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ جب ڈاکو ان کے تھیلے گھوڑوں سے اتار کر اپنے قبضے میں لے رہے تھے تو مانی نے اپنی انگوٹھی انگلی سے اتاری اور اسے زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ عدنان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بانسری جلدی سے اپنے لباس کی جیب میں چھپا لی۔

    دونوں ڈاکو تو اپنے کام میں مصروف تھے مگر ڈاکوؤں کے سردار نے دونوں کی یہ حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا۔ اس نے مانی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زمین سے انگوٹھی اٹھالی۔ پھر اس نے عدنان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی بانسری بھی نکال لی اور بولا۔ “بے ایمان لڑکو۔ یہ بتاو کہ تم لوگ یہ انگوٹھی اور بانسری کیوں چھپا رہے تھے؟”

    مانی نے گڑ گڑا کر کہا۔ “اے ڈاکوؤں کے سردار۔ ہم سے ہمارا سارا مال لے لو مگر یہ انگوٹھی اور بانسری ہمیں واپس کر دو۔ ”

    ڈاکوؤں کے سردار نے غور سے انگوٹھی اور بانسری کو دیکھا اور بولا۔ “نہ تو یہ انگوٹھی سونے کی ہے اور نہ ہی بانسری پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ پھر تم لوگ ان معمولی چیزوں کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو؟”

    مانی نے بے بسی سے عدنان کو دیکھا اور بولا۔ “انگوٹھی اور بانسری کا ایک راز ہے۔ ادھر سامنے پہاڑوں کے پاس والے جنگل میں ہزاروں سال پرانا ایک درخت ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگل کا سب سے بڑا درخت ہے اور جھیل کے نزدیک ہے۔ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس انگوٹھی کو انگلی میں پہن کر اس بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔”

    مانی کی باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں طرح طرح کی جادو کی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ مانی کی باتوں سے اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ انگوٹھی اور بانسری جادو کی ہیں۔ اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ وہ جنگل میں جا کراس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی پہن کر بانسری بجائے گا اور پھر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے۔

    دونوں ڈاکو عدنان اور مانی سے لوٹا ہوا سامان اپنے گھوڑوں پر لاد چکے تھے۔ سردار نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ ہونے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے اپنے گھوڑے موڑے اور انھیں تیزی سے بھگاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ شکر یہ ہوا کہ انہوں نے عدنان اور مانی کے گھوڑے اپنے قبضے میں نہیں لیے تھے ورنہ انھیں گھر پہنچنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔

    ڈاکوؤں کے چلے جانے کے بعد عدنان نے کہا۔ “خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ ”

    “فکر کیوں کرتے ہو۔ الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا”۔ مانی نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے اسے تسلی دی۔ پھر دونوں دوست اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔

    دونوں نے اپنے گھر والوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کی کہانی سنائی۔ ان کی کہانی سن کر سب نے اظہار افسوس کیا مگر وہ اس بات پر خوش بھی ہوئے اور الله تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ ڈاکوؤں نے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

    یہ اگلے روز دوپہر کی بات ہے۔ ڈاکوؤں کا سردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں آیا۔ وہ سب جھیل کے نزدیک اس پرانے درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بہت خوش تھا کہ اب اس انگوٹھی اور بانسری کے راز سے پردہ اٹھ جائے گا۔ اس نے انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنا اور پھر بانسری بجانے لگا۔

    بانسری کی لے اتنی تیز تھی کہ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے شور مچاتے ہوئے اڑ گئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بانسری بجانے میں مصروف تھا۔ اس کے تمام ساتھی اسے بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھ رہے تھے۔

    اچانک قریبی درختوں سے بے شمار سپاہی کود کود کر زمین پر اترے اور بے خبر ڈاکوؤں کے سروں پر پہنچ گئے۔ بہت سے سپاہی بڑی بڑی جھاڑیوں میں بھی چھپے ہوئے تھے۔ وہ بھی باہر آگئے۔ ان سپاہیوں کے ساتھ مانی کا کوتوال باپ بھی تھا۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ انہوں نے تمام ڈاکوؤں کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک تو ڈاکو بے خبر تھے۔

    دوسرے سپاہی اتنے زیادہ تھے کہ ڈاکو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے وہ بڑی آسانی سے قابو میں آگئے۔ سپاہیوں نے ان کی تلواریں اور خنجر اپنے قبضے میں لے کر ان کو گرفتار کر لیا۔

    اسی وقت جھاڑیوں کے پیچھے سے عدنان اور مانی بھی نکل آئے۔ انھیں دیکھ کر تمام ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ دونوں تو وہ ہی نوجوان تھے جنہیں کل ان لوگوں نے لوٹا تھا اور جن سے ان کے سردار نے انگوٹھی اور بانسری چھینی تھیں۔

    مانی نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہن کر بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔ اب بتاؤ کہ یہ سب کچھ دیکھ کر تمہیں حیرت ہوئی یا نہیں؟ “

    اس کی بات سن کر عدنان مسکرانے لگا۔ مانی نے پھر کہا۔ “ہمیں پتہ تھا کہ ہماری باتیں سن کر تم ضرور اس جگہ پہنچو گے تاکہ انگوٹھی اور بانسری کے راز سے واقف ہو سکو۔ میں نے اپنے ابّا جان سے کہہ کر ان سارے سپاہیوں کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا تاکہ یہ تمہیں گرفتار کر سکیں۔ ”

    عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “جب ہم لوگ تجارت کا مال لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوئے تھے تو ہم نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ گیا تو ہم انھیں انگوٹھی اور بانسری کی کہانی سنائیں گے تاکہ جب وہ اس درخت کے پاس آئیں تو سپاہی انھیں گرفتار کرلیں۔ تم لوگوں نے بڑے عرصے سے اس علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اب تمہیں اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ اگر تم لوگ لوٹ مار کے بجائے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوتے تو اس ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑتا۔”

    ڈاکوؤں کا سردار اس بات پر سخت شرمندہ تھا کہ عدنان اور مانی نے اسے بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

    بعد میں ڈاکوؤں پر مقدمہ چلا اور انھیں سزائیں ہو گئیں۔ عدنان اور مانی کو بھی ان کی اشرفیاں اور دوسرا سامان واپس مل گیا تھا۔ یوں ان دونوں کی ذہانت کی وجہ سے یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

    (مصنّف: مختار احمد)

  • چاند کی بیٹی….

    چاند کی بیٹی….

    ایک چھوٹی سی بچّی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔

    ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچّوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا کودنا تو کیا دو گھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ آدمی بہت چالاک اور بے رحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو قدم آگے تھی۔

    ایک رات چاند آسمان پر چمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔ امیر آدمی کی بیوی نے اس بچّی سے پانی لانے کے لیے کہا۔ بچّی پانی بھرنے باہر گئی۔ جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر ہو چکے تھے۔ تالاب کا پانی بھی اوپر سے جما ہوا تھا۔ بچّی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا۔ بچی گھبرا گئی۔ وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔ وہ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔

    بچّی نے چاند سے کہا، ’’چندا ماموں، دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں۔ میری مدد کرو۔ مجھے ان ظالموں سے بچاؤ۔ یہ تو مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘

    چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔ وہ ایک خوب صورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچّی کی فریاد سن لی تھی۔ وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اتر آیا۔

    سورج نے چاند سے کہا، ’’میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔ کیوں کہ میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘

    چاند نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی، لیکن اس وقت رات ہے، اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔ اس بچّی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

    چاند بچّی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ جب سے وہ ننھی بچّی چاند میں رہتی ہے۔ جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھو گے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئے گی۔

    (پاکستان کی نام وَر شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کے قلم سے)

  • قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔

    دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، ’’اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔‘‘

    کتّا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، ‘’اے دوست! اگر تُو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تُو بھی میری طرح خوش رہے گا۔‘‘

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟‘‘

    کتّے نے جواب دیا، ’’تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”

    بھیڑیے نے کہا ’’بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔‘‘

    کتّے نے کہا، ’’یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔‘‘ یہ سن کر بھیڑیا کتّے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔

    ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتّے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹّے سے پڑ گیا تھا۔

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟

    کتّے نے کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بھیڑیے نے پھر کہا، ’’اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟‘‘

    کتّے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا ’’اگر تُو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹّا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹّا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہو گا۔‘‘

    یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتّے نے کہا، ’’چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔‘‘

    بھیڑیے نے کہا، ’’اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تُو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔