Tag: ادب اطفال

  • سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی ملک پر ایک مغرور بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ ہیرے جواہرات، شان و شوکت اور اپنے جاہ و جلال کے نشے میں بدمست ہوکر رعایا کی طرف سے بالکل غافل ہوچکا تھا اور اسے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ کچھ لوگ اس کے لیے بد دعائیں کرتے تو کچھ اس کے لیے ہدایت اور نیک توفیق کے طلب گار بھی ہوتے۔

    ایک وقت آیا جب خدا نے رعایا کی سن لی۔ ہوا یہ کہ بادشاہ ایک دن نہایت شان و شوکت سے سپاہیوں کے لاؤ لشکر کو ساتھ لے کر شکار پر نکلا۔ جنگل میں اسے ایک ہرن نظر آیا، اس نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن کا تعاقب کرتے ہوئے وہ بہت دور نکل آیا اور راستہ بھٹک گیا۔ وہ اپنے محافظ دستے اور تمام درباریوں سے بچھڑ گیا تھا۔ ادھر انھوں نے بادشاہ کو بہت ڈھونڈا لیکن گھنے جنگل میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اور یوں بھی رعایا کی طرح بادشاہ کے سپاہی اور درباری سبھی اس کی اکڑ اور غرور سے تنگ آچکے تھے۔ انھوں نے اپنے فرماں روا کی تلاش بند کر دی اور واپس لوٹ گئے۔

    بادشاہ سارا وقت راستہ تلاش کرتا رہا، لیکن نہ تو اسے اپنے محل کی طرف جانے کا راستہ ملا اور نہ اس کے درباری۔ اس دوڑ دھوپ میں اسے پیاس لگنے لگی۔ مگر کہیں بھی پانی نہیں ملا۔ میلوں چلنے کے بعد اسے بہت دور ایک جھونپڑی نظر آئی تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے سرپٹ گھوڑا دوڑایا اور جھونپڑی تک جا پہنچا۔ وہاں ایک بزرگ بیٹھے عبادت میں مشغول تھے اور ایک طرف کونے میں پانی کا گھڑا رکھا تھا۔ بادشاہ نے بڑی بیتابی اور خشک زبان کو بمشکل حرکت دے کر بزرگ سے پوچھا، ’’پپ…پانی مل جائے گا ایک گلاس؟‘‘ ’ہاں مل جائے گا مگر ایک شرط پر‘‘ بزرگ کی پُر جلال آواز جھونپڑی میں‌ سنائی دی۔

    ’’مجھے ہر شرط منظور ہے، میں اس سلطنت کا حکم راں ہوں، پپ… پانی… پلا دو! بادشاہ نے بے تابی سے کہا، مگر اس موقع پر بھی اس نے اپنی امارت کا احساس دلانا ضروری سمجھا تھا۔

    ’’پہلے شرط سن لو۔ پانی کے گلاس کے بدلے میں تمہاری پوری سلطنت لوں گا۔‘‘ بزرگ نے درشتی سے کہا۔

    ’’پوری سلطنت؟ ایک گلاس پانی کے بدلے‘‘؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔

    بزرگ نے کرخت لہجے میں کہا۔ ’’ ہاں‘‘، ’’منظور ہے تو ٹھیک ورنہ یہاں سے چلے جاؤ اور مجھے عبادت کرنے دو۔‘‘پیاس کی شدت سے بادشاہ کو اپنا دم نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے نڈھال ہو کر کہا۔ ’’ مجھے منظور ہے، اب مجھے پانی دے دیں۔‘‘

    پانی پی کر بادشاہ کی جان میں جان آئی تو وہ بزرگ سے کہنے لگا۔ ’’وعدے کے مطابق اب میں بادشاہ نہیں رہا، آپ میری جگہ بادشاہ ہوگئے ہیں۔‘‘آپ میرے ساتھ محل چلیں اور تخت سنبھال کر مجھے وہاں سے رخصت کریں۔‘‘

    بادشاہ کی بات سن کر بزرگ نے مسکراتے ہوئے اور ایک بے نیازی کے ساتھ کہا۔ ’’ جس سلطنت کی قیمت ایک گلاس پانی ہو، اس کی حقیر بادشاہت لے کر میں کیا کروں گا؟‘‘ یہ سن کر بادشاہ بہت شرمندہ ہوا۔ اسے اپنی اصلیت کا علم ہو گیا تھا اور وہ جان چکا تھا کہ واقعی انسان کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں یا کوئی بڑی سلطنت لیکن جب وہ مجبور ہو تو اس کی قیمت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔

    باشاہ کے دل سے شان و شوکت اور اپنی امارت کا سارا ذوق و شوق اور ہر آرزو گویا جاتی رہی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آج اسے ہدایت ملی۔ بادشاہ نے ایک اچھے حکم راں کے طور پر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب اس بزرگ نے بادشاہ کو گھنے جنگل سے نکالا اور محل تک پنہچایا۔ اس موقع پر بادشاہ نے بزرگ سے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اور اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا رہے گا۔

    (ماخوذ از بادشاہ کی کہانیاں)

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)

  • چور

    چور

    رات کے دو بج رہے تھے۔ سلو کو نیند نہیں آ رہی تھی۔

    ہُوا یوں تھا کہ اسکول سے واپس آ کر وہ سو گیا تھا۔ پھر رات کے کھانے کے بعد اس نے بھائی جان کے ساتھ کافی کی ایک پیالی پی لی تھی۔ اب بھائی جان تو رات دیر تک پڑھتے رہتے تھے، مگر وہ تو زیادہ سے زیادہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک سو جاتا تھا۔ وہ اپنے بستر پر نیم دراز، باہر تاروں بھری رات کا نظارہ کر رہا تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا اور چاندنی سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ سامنے باغ کے درخت بالکل خاموش تھے۔

    ایک دم سلو کو آہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے نظریں گھما کر دیکھا اور باغ کی دیوار پر اس کی نگاہ ٹھہر گئی۔ ایک شخص دیوار پھاند کر اندر کودا اور بہت احتیاط سے دبے پاؤں گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ سلو صاحب کی تو جان ہی نکل گئی۔ اب وہ کیا کرے؟ اس وقت تو بھائی جان بھی سو گئے ہوں گے۔ وہ بہت احتیاط سے اٹھا اور چور کی طرح ہی دبے پاؤں چلتا ہوا نیچے بھائی جان کے کمرے میں آ گیا۔

    "کیا بات ہے سلو؟” بھائی جان نے پوچھا۔

    "شش بھائی جان!” سلو نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا۔ وہ ان کے بالکل قریب پہنچ گیا اور کان میں سرگوشی کر کے بولا۔

    "گھر میں چور گھس آیا ہے۔ بھائی جان بڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔

    "سلو اگر یہ مذاق ہے تو تمہاری خیر نہیں۔”

    "بھائی جان! میں مذاق نہیں کر رہا۔ میں نے خود ایک آدمی کو اندر کودتے دیکھا ہے۔ وہ باغ سے ہوتا ہوا گھر کی طرف آیا ہے۔”

    بھائی جان بستر سے نکلے اور کمرے سے باہر آ گئے۔ سلو ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ دونوں بغیر آواز بلند کیے گھر کی کھڑکیوں سے باہر جھانک رہے تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ چور اس وقت کہاں ہے۔ آخر سیڑھیوں کی کھڑکی سے وہ نظر آ گیا۔ باہر کچھ خالی ڈبے پڑے ہوئے تھے وہ انہیں ٹٹول رہا تھا۔ بھائی جان اور سلو نے اوپر بچوں کے کمرے میں آ کر چیکو اور نازک کو جگایا۔ پہلے تو انہوں نے بھائی جان کی بات کو مذاق سمجھا مگر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو دونوں خوف زدہ ہو گئے۔

    چیکو بھائی جان کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور نازک نے ذرا اونچی آواز میں کہا: ہائے اللہ! مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں تو ڈر سے مر ہی جاؤں گی۔ چور ہمیں مارے گا تو نہیں؟

    بھائی جان غصے سے بولے: "نازک! آہستہ بولو، ورنہ میں ایک تھپڑ لگاؤں گا۔”

    اس بات پر سلو اور چیکو کی ہنسی چھوٹ گئی۔ "کچھ شرم کرو۔ ہم مصیبت میں پھنسے ہیں اور تم ہنس رہے ہو۔” بھائی جان نے انہیں ڈانٹا مگر پھر خود بھی ہنس پڑے۔ "اب کیا کروں اس چور کا؟” وہ سوچنے لگے۔

    "بندوق ہوتی تو گولی ہی مار دیتے۔” سلو نے کہا۔ پھر چاروں نیچے اتر کر سیڑھیوں کی کھڑکی سے لگ کر چور کو دیکھنے لگے۔ وہ اب دوسری چیزیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی حرکات میں ایک بے چینی تھی۔ جیسے کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔ انہیں حیرت ہوئی کہ وہ کوڑے کی بالٹی بھی ٹٹول رہا تھا۔

    "کوئی ایسا طریقہ نہیں ہو سکتا کہ یہ خود ہی ڈر کے بھاگ جائے۔” چیکو نے کہا۔

    "نہیں ہمیں اس طرح کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔” بھائی جان نے کہا” سلو! وہ جال کہاں ہے جو میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے دریا پر لے جاتا ہوں؟”

    "باورچی خانے میں پڑا ہے۔”

    "بغیر آواز پیدا کیے وہ اٹھا لاؤ۔” سلو جلدی سے جال لے آیا۔ بھائی جان نے جال کی ،مضبوطی کو دیکھا اور پھر بچوں سے کہا: "دیکھو! یوں کرتے ہیں کہ میں چھت پر جاتا ہوں۔ سلو! تم جس طرح چچا حمید کی نقل اتارتے ہو، اسی بھاری آواز میں چور سے کہنا خبردار جو اپنی جگہ سے ہلے ورنہ گولی مار دوں گا۔ اس کی توجہ تمہاری طرف ہو گی تو میں اس پر جال پھینکوں گا اور خود بھی نیچے کود کر اس کو قابو کر لوں گا۔”

    "ٹھیک ہے بھائی جان!”

    "ذرا سی غلطی ہوئی تو ہم مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کے پاس بندوق ہے، پھر بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔”

    اب چور پر قابو پانے کی تیاری ہونے لگی۔ سلو، چیکو اور نازک باورچی خانے کی کھڑکی سے لگ کر کھڑے ہو گئے اور بھائی جان جال اور رسیاں کندھے پر ڈال کر چھت پر چڑھ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ چور اب باورچی خانے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف سلو نے دل کی دھڑکنوں کو قابو کیا اور چچا حمید کی آواز بنا کر کہا:

    "چور کے بچّے! اپنی جگہ سے نہ ہلنا ورنہ گولیوں کی بوچھاڑ سے تمہارا پیٹ اس طرح پھاڑوں گا کہ ڈاکٹر بھی نہیں سی سکے گا۔”

    چور ڈر کر پیچھے ہٹا اور بھائی جان نے اس پر جال پھینک دیا۔ وہ جال میں الجھ کر زمین پر گر گیا، اوپر سے بھائی جان نے کود کر اس کو قابو کر لیا۔ سلو اور چیکو بھی دروازہ کھول کر باہر آ گئے اور چور کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ وہ کراہنے لگا۔ بھائی جان نے جلدی جلدی اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھے اور اسے اٹھا کر کچن میں لے آئے۔ نازک نے بتی جلا دی۔ بھائی جان نے دروازہ بند کیا اور چور کو کرسی پر بٹھا کر رسیوں سے باندھ دیا۔

    "مجھے چھوڑ دو، خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو۔” چور چلّایا۔

    "اگر تم چاہتے ہو کہ میں یہ ڈنڈا مار کر تمہارا سر نہ کچل دوں تو خاموش رہو۔” سلو نے کہا۔

    جب بھائی جان نے اسے باندھ کر اپنا اطمینان کر لیا تو اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے اور اس کے سر پر سے جال اتار دیا۔

    اف اللہ کتنی سخت بو اٹھ رہی ہے پسینے کی۔ چور صاحب! آپ نہاتے نہیں ہیں؟ آپ کو اتنا تو خیال ہونا چاہیے کہ اگر آپ چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے تو آپ کو پکڑنے والوں کا اس بدبو سے کیا حال ہو گا۔” نازک نے اپنے نازک خیالات کا اظہار کیا۔ پھر وہ بھاگ کر اپنے کمرے سے پرفیوم لے آئی اور چور پر بہت سا پرفیوم چھڑک دیا۔ "ہاں اب کچھ بہتر ہے۔”

    "تم لوگ اس کی نگرانی کرو۔ میں پولیس کو فون کر کے آتا ہوں۔” بھائی جان جانے لگے تو چور بولا:

    "خدا کے واسطے پولیس کو فون نہ کرنا، میں تمہاری منت کرتا ہوں۔ میں پہلے ہی برباد ہوں اور برباد ہو جاؤں گا۔ جو جی چاہے سزا دے لو، مگر پولیس کو مت بلانا۔”

    "فضول باتیں نہ کرو۔ سزا دینا میرا کام نہیں ۔ تم نے رات کے وقت چوری کی نیت سے ہمارے گھر میں کود کر جرم کیا ہےجس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی۔” بھائی جان نے غصے سے کہا۔

    "تمہیں ان پیارے بچوں کی قسم، پولیس کو نہ بلانا۔ تم جو کہو گے میں کرنے کو تیار ہوں۔”

    "اچھا اگر ہم تمہیں بجلی کی تاروں کو گیلے کپڑے سے صاف کرنے کو کہیں تو کیا تم یہ کام کرو گے؟” چیکو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے۔

    "چھوڑیں بھائی جان پولیس کو "سلو نے کہا” میں اسے سزا دینے کے لیے کافی ہوں۔ اسے بیس گلاس پانی کے پلاتے ہیں۔”

    "گرم گرم چائے بنا کر اس کے سر پر انڈیل دیں۔” سلو نے ایک تجویز پیش کی۔

    "اس سے دس ہزار دفعہ لکھوائیں کہ میں آئندہ کبھی چوری نہیں کروں گا۔”

    نازک نے اپنا نازک سا مشورہ دیا۔ بھائی جان کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ پھر وہ چور کے سامنے سٹول پر بیٹھ گئے اور اس سے پوچھا:

    "کیوں بھئی! ان بچّوں کے سارے مشورے مان لیں یا پولیس کو فون کر دیں؟”

    یہ سنتے ہی چور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بھائی جان اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔

    "کیا ہوا ہے، کیوں روتے ہو؟”

    "میں تین دن سے بھوکا ہوں۔” اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ کر رہے تھے۔

    "تو پہلے بتاتے ناں اس وقت سے اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو، چلو خیر آج تم ہمارے مہمان ہو۔”

    سلو ٹوکری میں سے سیب نکال لایا اور چھیلنے شروع کیے۔ چیکو سیب کے ٹکڑے چور کے منہ میں ڈالتا جاتا تھا۔ وہ ہر ٹکڑے پر انہیں دعا دیتا تھا "جیتے رہو! اللہ کبھی تمہارا رزق تنگ نہ کرے۔” دوسری طرف نازک بھائی جان کی مدد کر رہی تھی۔

    "لو بھئی چور صاحب!” بھائی جان نے کہا "جتنی دیر ہم آپ کے لیے مرغ پکائیں، اتنی دیر آپ سلو اور چیکو کے ہاتھ سے سیب کھائیں۔ معاف کیجیے گا ابھی آپ کے ہاتھ نہیں کھولے جا سکتے۔”

    "کب سے چوریاں کر رہے ہو؟” سلو نے پوچھا۔

    "میں چور نہیں ہوں، مجبوری میں پہلی بار چوری کرنے نکلا تھا اور پہلی بار ہی پکڑا گیا۔”

    "اناڑی جو ہوئے "چیکو نے اس کے منہ میں سیب کا ٹکڑا ڈالتے ہوئے کہا۔ "ہمیں دیکھو! خانساماں مشکل سے مشکل جگہ بسکٹ چھپا کر رکھتا ہے پھر بھی ہم ڈھونڈ نکالتے ہیں۔” سب ہنسنے لگے۔ چور بھی ہنس پڑا۔

    "تمہیں کیا مجبوری ہے؟” بھائی جان نے کہا "اچھے خاصے جوان آدمی ہو۔ محنت کیوں نہیں کرتے؟”

    "بابو جی! اگر کوئی دن رات دل لگا کر محنت کرے اور پھر بھی اسے فاقے کرنے پڑیں تو آدمی کہاں جائے؟ میں تو اب خدا سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے بچّوں کو موت ہی دے دے۔”

    "اللہ رحم کرے، ایسا کیا ہو گیا تھا؟”

    "میں ایک کوٹھی میں خانساماں تھا۔ بہت بڑا گھر تھا۔ اس میں ایک ہی خاندان کے تیس افراد رہتے تھے۔ ہفتے کے سات دن میں ان سب کا تین وقت کا کھانا پکاتا تھا۔ سخت گرمی میں چولہے کے آگے کھڑے گھنٹوں گزر جاتے تھے۔ ان کے مرد چار چار روٹیاں کھاتے تھے۔ بچے وقت بے وقت کھانے کی فرمائشیں کرتے تھے۔ سب کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے مجھے روزانہ کئی طرح کے کھانے پکانے پڑتے تھے اور تنخواہ بہت کم تھی۔ میں مجبور تھا۔ مشقت کرتا رہا۔

    پھر ایک دن انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا۔ بڑے صاحب نے مار مار کر مجھے ادھ موا کر دیا۔ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس شرط پر پولیس کو خبر نہیں کریں گے کہ میں نقصان پورا کر دوں۔ وہ لوگ طاقت ور تھے اور میں کم زور۔ کیا کرتا؟ اپنا سب کچھ بیچ کر میں نے ان کے پیسے پورے کیے۔ تین دن سے میرے گھر میں فاقہ ہے۔ میرے بچّے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ مجھ سے ان کا رونا نہیں دیکھا جاتا۔” اس کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے۔ سبھی اس کی درد بھری داستان سن کر متاثر ہو گئے۔ نازک کی آنکھوں میں تو آنسو آ گئے۔

    "فکر نہ کرو۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔” بھائی جان نے اسے تسلی دی۔

    سلو اور چیکو اٹھ کر اپنے کمرے میں گئے۔ اپنی پرانی کتابیں اور اپنی الماری سے فالتو کپڑے اور جوتے ایک تھیلے میں ڈال کر لے آئے۔ بھائی جان نے پہلے ہی اپنے کچھ کپڑے اور جوتے خیرات کرنے کے لیے الگ کر کے رکھے تھے۔ وہ بھی لا کر رکھ دیے گئے۔ انہوں نے فریج میں سے تقریباً سارا سامان پنیر، ڈبل روٹیاں، انڈے، سبزیاں، دودھ اور گوشت وغیرہ نکال کر اس کے لیے باندھ دیا۔

    مرغ تیار ہو گیا تو بھائی جان نے سلو اور چیکو کو دے دیا۔ وہ نوالے توڑ توڑ کر چور کو کھلانے لگے۔ دو تین نوالے کھانے کے بعد چور بڑی عاجزی سے بولا:

    "بابو جی! جب تک میرے بچّے فاقہ کر رہے ہیں۔ میں بے چین رہوں گا۔ آپ کی بڑی مہربانی مجھے جانے دیں تاکہ میں جلدی سے بچّوں تک کھانا پہنچا سکوں۔”

    بھائی جان نے اس کی رسیاں کھول دیں پھر وہ سامان اٹھا کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ بچّے اور بھائی جان اسے باہر جاتے دیکھ رہے تھے۔ وہ مسلسل آنسو بہا رہا تھا اور انہیں دعائیں دیتا جا رہا تھا۔

    "ویسے میری بڑی خواہش تھی کہ کبھی چور سے مقابلہ ہو اور میں کرکٹ کے بیٹ سے اس کی مرمت کروں۔ مگر یہ چور تو بےچارہ شریف نکلا۔” سلو کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے اور اپنے بستروں پر سونے چلے گئے۔

    (مؤلفہ سیّدہ شگفتہ)

  • سرائے والی بڑھیا

    سرائے والی بڑھیا

    شیشم کے درختوں کے گھنے جنگل کے کنارے سندیل پور نامی ایک سرسبز قصبہ واقع ہے۔ شہری لوگ یہاں سے عمارتی لکڑی خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہاں تین چار مال دار آڑھتی رہتے ہیں۔

    اس قصبے کی طرف ایک پکّی سڑک بھی جاتی ہے، جس پر کاریں اور بسیں چلتی ہیں۔ کچھ فاصلے پر کچی سڑک ہے، جس سے فاصلہ دس بارہ میل کم ہو جاتا ہے، لیکن اس کچی سڑک پر جیپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ہی چل سکتی ہیں۔

    دو برس پہلے جب دو صحافی کسی دوست کی شادی میں سندیل پور گئے تھے تو انھوں نے یہی کچا راستہ اختیار کیا تھا۔ وہ دونوں موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ اس کچی سڑک پر صرف ایک جھگی نما سرائے تھی۔ ان دونوں صحافی دوستوں نے وہاں ٹھہر کر چائے پی تھی۔

    اس جھگی سرائے کی مالکہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ اب دوسری بار وہ دونوں اسی راستے سے سندیل پور جا رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ جھگی سرائے کی جگہ ایک پکی عمارت کھڑی ہے، جس پر "سندیل پور سرائے” لکھا تھا۔

    دونوں دوست موٹر سائیکلوں کو سائے میں کھڑی کر کے سرائے کے اندر گئے۔ اندر وہی بڑی بی موجود تھیں۔ صاف ستھری چینی کی پیالیوں میں چائے لائی گئی۔ ایک صحافی سے رہا نہ گیا اور اس نے پوچھ ہی لیا: "اماں جی! یہ تو بتائیں کہ یہ کایا کیسے پلٹی، کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا کیا؟”

    بڑی بی بولیں: "اللہ جب دینے پر آتا ہے تو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے۔”

    دوسرے صحافی نے کہا: "تو پھر اپنی کہانی سنا ڈالیں۔ اگر مزے دار ہوئی تو میں اپنے اخبار میں چھپوا دوں گا۔ لوگ پڑھیں گے، سندیل پور سرائے کی شہرت ہوگی اور بیٹھے بٹھائے آپ کی آمدنی بڑھ جائے گی۔ تو پھر شروع کریں اپنی کہانی۔”

    بڑی بی کی سمجھ میں بات آ گئی اور وہ بولیں: "بیٹا! میرا میاں بہت بوڑھا ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ اور جوڑوں میں درد رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں اپاہج ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پانچ بکریاں تھیں۔

    ایک دن وہ انھیں چرانے لے گیا تو جنگل میں اسے ایک چھوٹی سی شیشی ملی، جس میں سفید پوڈر سا تھا۔ میرا میاں وہ شیشی اٹھا لایا کہ شاید یہ کوئی دوا ہے۔ دوسرے دن جنگل میں ایک مردہ آدمی ملا۔ پولیس نے بتایا کہ اس آدمی نے زہر کھا کر خود کشی کی ہے۔ میرے میاں نے وہ شیشی طاق کے کونے میں رکھ دی۔ جب اس کے جوڑوں میں بہت درد ہوتا تو زہر کھا کر مر جانے کی بات کرتا۔ میں نے وہ شیشی چھپّر کے کونے میں چھپا دی۔ کچھ دن بعد وہاں فاختہ کے جوڑے نے گھونسلا بنا لیا۔”

    بڑی نے تھوڑا رک کر کہا: "اب آگے کی سنو کہ کس طرح کہانی کے تانے بانے بنتے چلے گئے۔ ڈیڑھ دو سال گزرے تھے کہ سرائے کے آگے ایک سبز رنگ کی جیپ آ کر رکی۔ دو مسٹنڈے جوان اتر کر سرائے میں آ گھسے۔ تیسرے آدمی نے جیپ درختوں کے پیچھے چھپا کر کھڑی کر دی اور خود بھی سرائے میں آ گیا۔

    ایک آدمی نے ساتھ لائے ہوئے تھیلے میں سے دو ذبح کیے ہوئے مرغے نکالے اور مجھے حکم دیا کہ جا بڑھیا! جلدی سے یہ مرغے بھون لا۔ پھر وہ تینوں آدمی ایک چار پائی پر بیٹھ کر بھنے ہوئے مرغوں کا انتظار کرنے لگے۔ میں کھانا پکانے لگی۔ اتنے میں ایک آدمی نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور تینوں اس پر جھک کر کانا پھوسی کرنے لگے۔ مجھے وہ لوگ اٹھائی گیر لگ رہے تھے۔ میں مرغے بھون کر لائی تو وہ منٹوں میں چٹ کر گئے اور مجھے حکم دیا کہ اے بڑھیا! کھڑی کیا دیکھ رہی ہے۔ تھوڑی سی کھیر بنا کر لا۔ ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ تھوڑی دیر میں کھیر تیار ہو گئی۔ وہ بھی انھوں نے چٹ کر ڈالی۔

    ایک آدمی بولا: "بکری کے دودھ کی بہت مزے دار تھی۔ جا! پوری دیگچی اٹھا لا۔ "میں دیگچی لا رہی تھی تو وہ خود دیگچی کی طرف لپکا۔ چھپرے کے گھونسلے سے ایک فاختہ پھڑ پھڑا کر اڑی اور وہ چھوٹی سی سفید پوڈر والی شیشی کھیر کی دیگچی میں آ پڑی۔ اس آدمی نے دیگچی چھین لی۔ میں اسے روکتی رہ گئی۔ ان تینوں نے ساری دیگچی صاف کر ڈالی تب میں کیا دیکھتی ہوں کہ وہ تینوں فرش پر ذبح کیے مرغوں کی طرح لوٹ رہے ہیں۔ اتنے میں چار جیپ گاڑیاں سرائے کے سامنے رکیں اور دس بارہ پولیس والے سرائے میں گھس آئے۔ انھوں نے اب تینوں اٹھائی گیروں کو ہتھکڑیاں لگا دیں۔ ایک پولیس والے نے ان کی سبز جیپ بھی ڈھونڈ نکالی۔ تینوں اٹھائی گیروں کی حالتیں بہت بری تھیں، لہٰذا انھیں ایک جیپ میں فوراً اسپتال کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

    تھانے دار صاحب نے کہاَ: "بڑی بی تم نے وہ کام کر دکھایا۔ جو ہم نہیں کر سکے۔ ان تینوں نے ہم پولیس والوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ یہ تینوں اشتہاری ڈاکو ہیں۔ ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر دس دس ہزار روپے کا سرکاری انعام ہے۔” اس واقعہ کے ہفتہ بھر بعد چند پولیس افسر آئے اور مجھے تیس ہزار روپے دے گئے۔ میں اتنی بڑی رقم چھپا کر کہاں رکھتی۔ یہ روپے سندیل پور کے ایک ایمان دار آڑھتی کے پاس رکھوا دیے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے تو اپنے شوہر کا شہر لے جا کر علاج کراؤ۔ باقی روپوں سے پکی سرائے بنواؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گا۔ رقم محفوظ کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔

    بیٹا! تمہیں یہ کہانی لگتی ہو گئی، مگر یہ سچّی کہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کام بھی نرالے ہوتے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملتی جاتی ہے۔ مجھے تو گمان بھی نہیں تھا کہ میرا میاں صحت مند ہو جائے گا اور میری جھگی سرائے پکی سندیل پور سرائے بن جائے گی۔ یہ سب مرے اللہ کا کرم ہے۔ دن رات میں اللہ تعالیٰ کے گن گاتی رہتی ہوں۔

    (مصنّف: فتح علی انوری)

  • ایک گیند پر پندرہ رن!

    ایک گیند پر پندرہ رن!

    میں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ یہ کہانی کرکٹ کی نہیں، کتّے کی ہے۔

    ہمارے بھائی جان نے ایک کتّا پال رکھا تھا۔ لاکھوں کتّوں کی طرح اس کا نام بھی موتی تھا۔ لیکن بھائی جان کا خیال تھا کہ وہ لاکھوں میں ایک تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ بھائی جان کا ذرا زیادہ ہی لاڈلا تھا۔ اسے نہلاتے، دھلاتے، ٹہلانے لے جاتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے۔

    موتی بھی ان کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا۔ ان کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا، ان کے جوتے اٹھا کر لاتا، ان کے سودے کی ٹوکری اٹھا کر چلتا، اور ان کے اشاروں پر طرح طرح کے کرتب بھی دکھاتا۔ بھائی جان بھی ہروقت اسے سدھارنے کی فکر میں رہتے۔ ان کا بس چلتا تو موتی کو پڑھنا لکھنا بھی سکھا دیتے۔

    میرے خیال میں موتی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بھائی جان کی کرکٹ ٹیم کا اہم کھلاڑی تھا۔ گیند تو وہ بڑی خوب صورتی سے سنبھالتا۔ بس ہاتھ میں بلّا پکڑنے کی کسر تھی۔ موتی بھائی جان کے بہت سے کام کرنے لگا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ گیند کو ہٹ لگا کر وہ خود تو کھڑے رہیں اور ان کی جگہ موتی دوڑ دوڑ کر رن بنائے۔

    ایک دن بھائی جان کسی ٹیم کے خلاف دوستانہ میچ کھیل رہے تھے۔ بیٹنگ کرتے ہوئے، انھوں نے اپنے دوست کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی۔ موتی سمجھا کہ اسے بلایا گیا ہے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جھٹ میدان میں کود پڑا۔ اسی دوران بھائی جان نے ایک چوکا مارنے کی کوشش کی۔ گیند ابھی باؤنڈری لائن تک نہیں گئی تھی کہ موتی نے اسے اپنے منہ میں دبوچ لیا اور رن بناتے بھیا کے ساتھ خود بھی دوڑنا شروع کردیا۔

    اب عالم یہ تھا کہ میدان میں ایک کتّا اور دو کھلاڑی سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور سارے تماشائی پیٹ پکڑ کر ہنس رہے ہیں اور ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جارہے ہیں۔ تو اس طرح موتی نے ایک گیند پر پندرہ رن بنانے میں مدد کی۔

    بھائی جان بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

    (از: عبدالحمید بھکر)

  • حقّا تُو مولٰی تُو…

    حقّا تُو مولٰی تُو…

    کہتے ہیں بعض پرندوں کی بولیاں اور جو مختلف آوازیں وہ اکثر نکالتے ہیں، وہ بے مقصد، مہمل اور لایعنی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثنا اور ایسے کلمات ادا کرتے ہیں جو غور سے سننے پر ہماری سمجھ میں بھی آسکتے ہیں۔

    ایسی کئی کہانیاں اور حکایات مشہور ہیں جنھیں ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ یہ لیلیٰ خواجہ بانو کی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس کے کردار فاختہ اور کوّا ہیں۔

    یہ دل چسپ اور سبق آموز والدین اپنے بچّوں کو سنا سکتے ہیں۔

    بچاری فاختہ جہاں دیکھو دیوار پر حقّا تو حقّا تو کہا کرتی ہے۔ اصل میں یہ اللہ میاں سے فریاد کرتی ہے۔ کیوں کہ کوّے نے اس پر بڑاظلم کیا ہے۔

    سنا نہیں؟ لوگ کہا کرتے ہیں محنت کریں بی فاختہ، کوّا میوہ کھائے۔ اس کی کہانی اس طرح ہے کہ ایک دفعہ کوّے اور فاختہ نے مل کر باغ لگایا تھا اور دونوں محنت اور نفع میں ساجھے تھے۔

    پہلے دن جب باغ میں پودے لگانے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس گئی اور اس سے کہا چل کوّے چل کر باغ میں درختوں کے پودے لگائیں۔ کوّے نے جواب دیا۔

    تُو چل میں آتا ہوں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو کو پیتا ہوں، پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے کوّے کی بہت راہ دیکھی۔ جب وہ نہ آیا تو اس نے خود اکیلے ہی محنت کر کے پودے لگا دیے۔ اس کے بعد باغ میں پانی دینے کا وقت آیا تو فاختہ کوّے کے پاس پھر گئی کہ چلو چل کر پانی دے آئیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا کہ:

    تو چل میں آتا ہوں، ٹھنڈی ٹھنڈی چھائیاں بیٹھا ہوں
    چلم تمباکو پیتا ہوں پئیاں پئیاں آتا ہوں

    فاختہ نے پھر بہت راہ دیکھی مگر کوّا نہ آیا تو بچاری نے خود ہی پانی بھی دے لیا۔ اس کے بعد باغ کی رکھوالی کا وقت آیا۔ تب بھی کوّے نے یہی جواب دیا۔ جب میوہ پک گیا تو فاختہ پھر گئی کہ چلو چل کر میوہ توڑ لائیں۔ کوّے نے پھر وہی جواب دیا۔

    فاختہ نے میوہ توڑنے کی محنت اٹھائی اور میوہ باغ میں ایک جگہ جمع کردیا۔ دوسرے دن کوّے کے پاس گئی کہ چلو چل کر میوہ لائیں تو کیا دیکھتی ہے کہ کوّا گھر سے غائب ہے۔ وہ فوراً باغ میں گئی تو دیکھا سارا میوہ کوئی لے گیا۔ یعنی کوّا اس کے آنے سے پہلے آیا اور سب میوہ اٹھا کر کسی اور گھر میں لے گیا۔

    فاختہ بے چاری بہت روئی پیٹی۔ مگر کیا کر سکتی تھی۔ خدا کے سوا کوّے سے بدلہ کون لے سکتا تھا۔ اس واسطے وہ اس دن سے جب بولتی ہے یہی بولتی ہے، حقّا تُو، حقّا تُو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ الہٰی تُو حق ہے، میرا حق کوّے سے دلوا۔

  • بھونرا

    بھونرا

    آج ننّھی کنول کو زکام ہو گیا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔

    گھر میں امّی اور نرسری میں آنٹی بہت منع کرتیں، بہت روکتیں، آنٹی نرسری میں سمجھاتیں، مگر ربر کے غباروں میں پانی بھر کر اس کا فوّارہ بنانا، اسے دوسروں پر پھینکنا اور پانی کے سارے کھیل اسے بہت اچھے لگتے تھے اور ننگے پاؤں گھومنے میں تو اسے بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بس پھر اسے زکام ہو گیا۔ ناک سے پانی، آنکھوں سے پانی، آنکھیں لال۔

    ’’آچھیں‘‘ کھوں، کھوں اور پھر بخار بھی ہوگیا۔ اب وہ نرسری کیسے جاتی۔ تو اسے چھٹی کرنی پڑی۔

    گھر پر اکیلے لیٹے لیٹے اس کا جی بہت گھبرا رہا تھا۔ امّی گھر کے کام میں لگ گئی تھیں۔ بہن بھائی سب اپنے اپنے اسکول چلے گئے تھے اور ابّا اپنے دفتر۔ پڑوس کے بچّے بھی سب اپنے اپنے اسکول جاچکے تھے اور باہر گلی میں کھیلنے پر امّی بہت خفا ہوتی تھیں۔

    جب لیٹے لیٹے اس کا جی گھبرایا تو وہ چپکے سے اٹھی اور گھر کے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں چلی گئی اور آہستہ آہستہ اپنی گیند سے کھیلنے لگی۔ مگر اکیلے کب تک کھیلتی۔ بس اس کا دھیان پھولوں پر ادھر سے ادھر اڑتی تتلیوں کی طرف چلا گیا۔

    رنگ برنگی تتلیاں ،لال پیلی نیلی تتلیاں، پھولوں پر ناچتی پھررہی تھیں۔ وہ ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ اس کی نظر ایک بھونرے پر پڑ گئی۔

    بھن بھن کرتا کالا کلوٹا بھونرا جلدی جلدی ایک پھول سے دوسرے پھول پر اور دوسرے سے تیسرے پر اڑتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کسی پھول پر بیٹھتا تو پھول کی پتلی سی ڈنڈی جھولنے لگتی۔ ننّھی کنول تھوڑی دیر بھونرے کوغور سے گھورتی رہی اور پھر جیسے کوئی اپنے آپ سے بولنے لگے، اس نے بولنا شروع کردیا۔

    ’’میاں بھونرے۔ میاں بھونرے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اور تم اتنے کالے کلوٹے کیوں ہو؟ یہ سب تتلیاں تو کتنی رنگ برنگی اور سندر ہیں؟‘‘

    ننّھی کنول ایک آواز سن کر ایک دم چونک پڑی۔

    ’’کیا تم میری کہانی سنو گی؟‘‘ اس نے پھر وہی آواز سنی اور پھر اسے یقین ہوگیا کہ یہ بھونرے کی ہی آواز ہے۔ بھونرا بھن بھن کررہا تھا۔ اور اسی میں سے یہ آواز آرہی تھی۔

    ’’کیوں!‘‘ کیا تمہاری کوئی کہانی ہے؟‘‘ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ہاں سنو! بھونرے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے، چاندی، ہیرے سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے، ہیرے موتی کے پردے تھے۔ میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔ یہ پھول، پتّے، ہری ہری گھاس سب سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اور ہاں مجھے چڑیو ں کی چوں چوں، کبوتروں کی غٹرغوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔

    بس میں نے ایک دم حکم دیا۔ یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتّے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔ چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں کے پودے لگائے جائیں، ان میں سونے چاندی کی گھنٹیا‌ں باندھی جائیں۔‘‘

    ’’بس میراحکم ہونے کی دیر تھی۔ تمام باغ اجڑ گئے۔ چڑیاں مرگئیں۔ تتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگا دی گئیں۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ یہ مت پوچھو!‘‘

    ’’کیا ہوا‘‘؟ کنول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’میرے دیس کے بچے جو باغوں میں کھیلتے پھرتے تھے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے پھرتے تھے، چڑیوں کے میٹھے گیت سنتے تھے وہ سب اداس ہوگئے۔ اور پھر بیمارہوگئے۔ اب پڑھنے لکھنے میں ان کا دل نہ لگتا تھا۔ اس لیے بچّوں کے ماں باپ پریشان ہوگئے۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ انہیں بہت غصہ آیا اور ایک دن دیس کے سارے بچوں نے اور ان کے ماں باپ نے میرے محل کو گھیر لیا۔ مجھے محل سے نکال دیا۔ میرے سارے بدن پر کالک مل دی۔

    انہوں نے کہا تم نے ہمارے دیس کو اجاڑ دیا ہے۔ ہمارے بچوں کو دکھی کر دیا ہے۔ انہیں بیمار ڈال دیا ہے۔ تمہارا سارا سونا چاندی ہمارے کس کام کا ہے۔ جاؤ، یہاں سے چلے جاؤ۔ باغ کی روٹھی ہوئی بہاروں، پھولوں، کلیوں، ہری ہری گھاس اور جھومتے پودوں کو لے آؤ، ان سب ناچتی گاتی چڑیوں اور رنگ رنگیلی تھرکتی تتلیوں کو لاؤ جنہیں تم نے دیس سے بھگا دیا ہے۔ ان سب کو منا لاؤ تو اس دیس میں آنا۔

    ’’بس اسی دن سے میں روٹھے پھولوں، کلیوں اور تتلیوں کو مناتا پھر رہا ہوں، میں تمہارے اس ہرے بھرے دیس میں پھولوں، پتّوں اور ہری ہری گھاس کی خوشامد کرتا پھررہا ہوں۔ ننھی کنول! کیا تم ان سے میرے دیس چلنے کے لیے کہہ دوگی۔ اب مجھے پھولوں ،پتّوں، کلیوں، تتلیوں، چڑیوں سب سے بہت پیار ہو گیا ہے۔‘‘

    ننھی کنول کی امی کو جب اپنے کام سے ذراچھٹی ہوئی تو وہ اسے دیکھنے اس کے بستر کے پاس آئیں اور جب وہ وہاں نہ ملی تو وہ سیدھی باغ میں پہنچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ کنول پھولوں کی اک کیاری کے پاس دھوپ میں لیٹی سورہی ہے اور ایک بھونرا اس کے پھول جسے لال لال کلے کے پاس بھن بھن کرتا ہوا اُڑ رہا ہے۔

    (مصنّف: سیدہ فرحت)

  • ایک غریب بادشاہ کی کہانی!

    ایک غریب بادشاہ کی کہانی!

    ابا جان بھی بچوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ وہ چپ نہ رہ سکے۔ بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں!

    ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا۔‘‘ ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی:

    کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
    مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
    نہ آتا تھا کوئی بھی اس کے قریب

    بادشاہ اور غریب۔ سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں۔ ابا سنا رہے تھے:

    کیے ایک دن جمع اس نے فقیر
    کھلائی انہیں سونے چاندی کی کھیر
    فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
    امیروں وزیروں سے کہنے لگا
    کہ آؤ چلو آج کھیلیں شکار
    قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
    مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
    کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
    تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
    کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
    مگرمچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
    سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں

    ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہو کر ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا ۔ کہنے لگے ’’یہ تو عجیب بے معنی کہانی ہے، جس کا سر نہ پیر۔‘‘

    ابا جان بولے ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

    منجھلے بھائی نے کہا ’’سمجھ میں تو آتی ہے مگر پتہ نہیں چلتا۔‘‘ یہ سن کر سب ہنس پڑے ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے اور پتہ نہیں چلتا۔‘‘ آپا نے کہا۔

    ’’ابا جان بادشاہ غریب تھا۔ تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں کیسے رکھ لیا۔ مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا مطلب کیا ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھر سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڑے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگرمچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘

    ننھی بولی’’توبہ توبہ۔ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا جان نے کہا’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔ ہوا یہ کہ:

    سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
    وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
    مرے پاس دال اور آٹا نہیں
    تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
    یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
    کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
    وہیں ایک مکھی کا پر کٹ گیا
    جلاہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا

    یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا’’یہ کہانی تو کچھ اول جلول سی ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا تھا۔‘‘

    ننھی نے کہا ’’خاک مزا آتا ہے۔ تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہوں۔ ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا۔ تو پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا نے کہا ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ:

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور

    ’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے—تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’بھئی مجھے کیا معلوم۔ کہانی بنانے والے نے یہی لکھا ہے۔‘‘

    ’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے؟‘‘

    ’’حفیظؔ صاحب نے۔‘‘

    ’’ابا اب میں سمجھا۔ اب میں سمجھا۔ آگے سنائیے ابا جان جی۔‘‘ ابا جان آگے بڑھے۔

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
    لگا ناچنے سانپ کی دُم پہ مور
    کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
    بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
    کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
    لیے شیر سے بیر چہیا نے چھین

    چوہیا نے شیر سے بیر چھین لیے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری ذہانت آزمانے کے لیے کہانی کہہ رہے ہیں۔ اماں جان بھی ہنستی ہوئی بولیں ’’اور تو خیر، یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی۔ سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہئے کہئے آگے کہئے۔ ابا جان نے کہا ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے۔ ہاں میں کیا کہہ رہا تھا۔

    لیے شیر سے بیر چہیانے چھین
    یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
    اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
    وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
    ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے

    بھائی جان نے قہقہہ مارا۔ ’’ہہ ہہ ہا ہا۔ لیجیے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا بھی آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی۔‘‘ منجھلے بولے، ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘ ابا جان نے کہا۔ ’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔ کمند ہوا چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘

    آپا نے پوچھا۔’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں؟‘‘ مگر ننھی اب بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور بسورنے لگی، ’’اوں اوں اوں۔ کہانی ختم کیجیے۔ واہ ساری کہانی خراب کر دی۔‘‘ ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی:

    غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
    چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
    مگر راہ میں چیونٹیاں آ گئیں
    چنے جس قدر تھے، وہ سب کھا گئیں
    بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
    لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی

    اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

    (اس کہانی کے خالق مشہور شاعر، ادیب اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری ہیں)

  • پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    پوری جو کڑھائی سے نکل بھاگی

    آج جب کہ ہر بچّے کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے جس پر مختلف گیمز اور اسی نوع کی تفریحات ان کا مشغلہ ہیں تو والدین کو یہ بھی فکر ہے کہ ان کی ذہنی و فکری تربیت، کردار سازی کیسے ممکن ہو۔

    وہ اپنے زمانے کی طرف دیکھتے ہیں جب انھیں ان کے دادا دادی، والدین وغیرہ کہانیاں سناتے تھے اور ان کی ذہانت اور فکر و نظر کو تحریک دینے کے ساتھ اخلاقی تربیت کرتے تھے۔ زمانہ تو بدل گیا ہے، مگر سبق آموز کہانیوں اور ایسے قصّوں کی اہمیت آج بھی برقرار ہے جو بچّوں کے لیے باعثِ کشش ہوں۔

    یہاں ہم ایک نہایت دل چسپ کہانی نقل کررہے ہیں جسے والدین اپنے بچّوں کو سنا کر ان کی تفریحِ طبع کا سامان کرسکتے ہیں۔

    کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ کسان کا نام تھا منسا اور اس کی بیوی کا گریا۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ اچھا خاصا تھا مگر گھر میں کام کرنے والے آدمی کم تھے۔ اس لیے ہمیشہ دوسروں سے یا تو مزدوری پر کام لینا پڑتا تھا یا میٹھی بات کر کے کام نکلوانا پڑتا تھا۔

    بیساکھ کا مہینہ تھا۔ منسا کے کھیتوں میں گیہوں کی فصل خوب ہوئی تھی۔ اور کھیت کٹ بھی چکے تھے۔ اب بالیوں پر دائیں چلا کر دانے نکالنا باقی تھا۔ دوسرے سب کسان بھی اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔ تم جانو ان دنوں جب فصل کٹتی ہے تو سب ہی کو تھوڑا بہت کام ہوتا ہے۔

    اس نے بہتیرا چاہا کہ کوئی مزدور ملے مگر نہ ملا۔ ادھر آسمان پر دو ایک دن سے بادل آنے لگے اور ڈر تھا کہ کہیں پانی پڑ گیا تو سب دانے خراب ہوجائیں گے۔

    بیچ میں ایک دن کوئی تہوار آگیا۔ سب کسانوں نے اپنے یہاں کام بند رکھا۔ اس گاؤں میں بہت سے آدمیوں کی چھٹی ہوگئی۔ منسا ان کے پاس گیا اور مشکل سے پانچ آدمیوں کو پھسلا کر لایا کہ بھائی ہماری دائیں چلا دو۔ گھر میں بیوی سے کہا کہ تہوار کا دن ہے۔ یہ لوگ آج کام کو آئے ہیں، انھیں پوریاں کھلانا ہے۔ کوئی گیارہ بجے بیوی نے چولھے پر کڑھائی چڑھائی۔ کئی پلی کڑوا تیل کڑھائی میں ڈالا، آٹے کی چھوٹی سی ٹکیا بنا کر پہلے تیل میں ڈالی اور تیل گرم ہو کر کڑکڑانے لگا تو یہ ٹکیہ نکال لی۔ اس سے کڑوے تیل کی ہیک کم ہوجاتی ہے۔

    اب بیلن سے بیل بیل کر کڑھائی میں پوریاں ڈالنی شروع کیں۔ کچھ پوریاں پک گئیں تو باورچی خانے میں کسان کا بیٹا بدھو جانے کہاں سے آیا اور ادھر ادھر چیزیں کھکورنے لگا اور ناک سے برابر سڑ سڑ سڑ سڑ کرتا جاتا تھا۔ ناک بہہ رہی تھی۔ ماں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور پلّو سے اس زور سے ناک پونچھی کہ بدھو کن کن کرتا ہوا باورچی خانے سے چل دیا۔

    کڑھائی میں جو پوری پڑی تھی وہ اتنی دیر میں جلنے لگی اور اسے برا لگا کہ بدھو کی ماں نے اس کا ذرا خیال نہ کیا اور اتنی دیر جلتے ہوئے تیل میں اسے رکھ کر تکلیف دی۔ بدھو کی ماں نے جلدی سے جو اسے پلٹنا چاہا تو یہ اور چڑ گئی اور جھٹ سے کڑھائی میں کود کر بھاگ کھڑی ہوئی کہ تم بدھو کی ناک پونچھو میں تو جاتی ہوں۔

    بدھو کی ماں نے بہت چاہا کہ اسے پکڑے مگر وہ کہاں ہاتھ آتی۔ جھٹ گھر میں سے نکل کھیت کی طرف بھاگی۔ راستے میں منسا اور اس کے پانچوں دوست دانوں پر دائیں چلا رہے تھے۔ یہ پوری ان کے پاس سے گزری اور کہا کہ میں بدھو کی ماں سے بچ کر کڑھائی سے نکل کر آئی ہوں تم سے بھی بچ کر نکلوں گی۔ لو مجھے کوئی پکڑو تو۔‘‘

    ان آدمیوں نے جب دیکھا کہ اچھی پکی پکائی پوری یوں پاس سے بھاگی جارہی ہے تو کام چھوڑ کر اس کے پیچھے ہو لیے مگر وہ بھلا کہاں ہاتھ آتی۔ یہ سب دوڑتے دوڑتے ہانپ گئے اور لوٹ آئے۔

    کھیت سے نکل کر پوری کو بنجر میں ایک خرگوش ملا۔ اسے دیکھ کر پوری بولی۔ ’’میں تو کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، اور چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر آئی ہوں۔ میاں چھٹ دُمے خرگوش تم سے بھی نکل بھاگوں گی۔‘‘

    خرگوش کو یہ سن کر اور ضد ہوئی اور اس نے بڑی تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور سچی بات تو یہ ہے کہ بی پوری ایک بھٹ میں نہ گھس گئی ہوتیں تو اس چھٹ دُمے نے پکڑ ہی لیا تھا۔ مگر بھٹ میں یہ لومڑی کے ڈر سے نہ گیا۔

    پوری جو بھٹ میں گھسی تو واقعی اس میں لومڑی بیٹھی تھی۔ اس نے جو دیکھا کہ یہ ایک پوری گھسی چلی آتی ہے تو جھٹ اٹھ کھڑی ہوئی کہ اب آئی ہے تو جائے گی کہاں۔ مگر پوری الٹے پاؤں لوٹی اور یہ کہتی ہوئی بھاگی’’ میں تو کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، چھ جوان جوان آدمیوں کو ہرا کر، اور میاں چھٹ دُمے خرگوش کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ بی مٹ دُمی لومڑی میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔‘‘

    لومڑی نے کہا، ’’کہاں جاتی ہے ٹھہر تو۔ تیری شیخی کا مزہ تجھے بتاتی ہوں۔‘‘ اور پیچھے لپکی۔ مگر پوری تھی بڑی چالاک۔ اس نے جھٹ سے ایک کسان کے مکان کا رخ کیا اور لومڑی بھلا کتّوں کے ڈر کے مارے ادھر کیسے جاتی۔ ناچار رک گئی۔

    کسان کے مکان کے قریب ایک دبلی سی بھوکی کتیا اور اس کے پانچ بجے ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ انھوں نے بھی ارادہ کیا کہ اس پوری کو چٹ کریں۔ پوری نے کہا ’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی اماں سے بچ کر چھ جوان جوان مردوں کو ہرا کر میاں چھٹ دمے خرگوش کو الّو بنا کر اور مٹ دمی لومڑی کو چونا لگا کرآئی ہوں۔ اجی بی بی لپ لپ، میں تمہارے بس کی بھی نہیں۔ ‘‘

    کتیا بڑی ہوشیار تھی۔ آگے کو منہ بڑھا کر جیسے بہرے لوگ کرتے ہیں، کہنے لگی، ’’بی پوری کیا کہتی ہو۔ میں ذرا اونچا سنتی ہوں۔ ‘‘ پوری ذرا قریب کو آئی اور کتیا نے بھی بہروں کی طرح اپنا منہ اس کی طرف اور بڑھایا۔

    پوری پھر وہی کہنے لگی۔’’میں کڑھائی میں سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر چھ چھ جوان جوان مسٹنڈوں کو تھکا کر، میاں چھٹ دمے خرگوش اور بی مٹ دمی لومڑی کو الّو بنا کر آئی ہوں۔ اجی بی لپ لپ ۔۔۔‘‘ اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ کتیا نے منہ مارا’ ’حپ‘‘ اور آدھی پوری اس کے منہ میں آگئی۔ اب جو آدھی پوری بچی تھی وہ ایسی تیزی سے بھاگی اور آگے جاکر نہ معلوم کس طرح زمین کے اندر گھس گئی کہ کتیا ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھک گئی مگر کہیں پتہ نہ چلا۔

    کتیا نے اپنے پانچوں بچّوں کو بلایا کہ ذرا ڈھونڈو تو لیکن بی پوری کا کہاں پتہ لگتا ہے۔ اس کتیا نے اور اس کے بچّوں نے ساری عمر اس آدھی پوری کو ڈھونڈا مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملی۔ ابھی تک سارے کتّے اسی آدھی پوری کی تلاش میں ہروقت زمین سونگھتے پھرتے ہیں کہ کہیں سے اس کا پتہ چلے تو نکالیں۔ اس نے ہماری دادی امّاں کو دھوکہ دیا تھا، مگر اس آدھی پوری کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔

  • ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ’’تم میرا نام بوجھ لو!‘‘

    ایک بہت ہی پیارا سا بونا جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا رہتی تھی، جو روز صبح ہونے کے لیے گانا گاتی تھی، گانے سے خوش ہو کر بونا چڑیا کو روٹی کے ٹکڑے ڈالتا تھا۔

    بونے کا نام منگو تھا وہ چڑیا سے روز گانا سنتا تھا۔ ایک دن بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا۔

    ہوا یوں کہ منگو خریداری کر کے گھر واپس جارہا تھا تو ایک کالے بونے نے اسے پکڑ کر بوری میں بند کردیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔ جب اسے بوری سے باہر نکالا گیا تو وہ ایک قلعے نما گھر میں تھا۔

    کالے بونے نے اسے بتایا کہ وہ آج سے بونے کا باورچی ہے۔ مجھے جام سے بھرے ہوئے کیک اور بادام پستے والی چاکلیٹس پسند ہیں۔ میرے لیے یہ چیزیں ابھی بناؤ۔ بے چارہ منگو سارا دن کیک اور چاکلیٹس بناتا رہتا، کیوں کہ کالے بونے کو اس کے علاوہ کچھ بھی پسند نہ تھا۔ وہ سارا دن مصروف رہتا۔ وہ اکثر سوچتا کہ یہ کالا بونا کون ہے؟

    ’’آپ کون ہیں ماسٹر؟‘‘ ایک دن منگو نے اس سے پوچھا۔ کالے بونے نے کہا’’اگر تم میرا نام بوجھ لو تو میں تمہیں جانے دوں گا، لیکن تم کبھی یہ جان نہیں پاؤگے!‘‘

    منگو نے ایک آہ بھری، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ کالے بونے کا اصل نام کبھی نہیں جان پائے گا، کیوں کہ اسے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی کہ وہ دوسرے بونوں ہی سے کچھ معلوم کرسکتا۔ اس نے کچھ تکے لگائے۔

    ایک دن کالا بونا باہر گیا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا اور وہ تالا لگا کر چلا گیا۔ منگو جانتا تھا کہ وہ باہر نہیں جاسکتا، کیوں کہ وہ پہلے بھی کوشش کر چکا ہے، مگر ناکام رہا تھا۔ وہ ایک قیدی بن چکا تھا۔ اس نے ایک آہ بھری اور پھر جلدی جلدی کام کرنے لگا۔

    اسے کام کرتے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس نے اپنی چڑیا کے گانے کی آواز سنی۔ وہ وہی گانا گا رہی تھی، جو منگو کو پسند تھا۔ منگو نے کھڑکی سے باہر دیکھا، چڑیا ایک درخت پر بیٹھی تھی۔

    ’’پیاری چڑیا! وہ چلّایا، میں یہاں ہوں۔ اوہ کیا تم مجھے تلاش کر رہی تھیں؟ کیا تم نے اپنی روٹی کے ٹکڑے یاد کیے؟ میں یہاں قید ہوں۔ میں یہاں سے اس وقت ہی نکل سکتا ہوں، جب میں کالے بونے کا نام معلوم کرلوں، جس نے مجھے یہاں قید کیا ہوا ہے۔‘‘ اسی وقت کالا بونا واپس آگیا۔ منگو بھاگ کر تندور کے پاس چلا گیا۔ چڑیا کچھ منٹ تک وہاں بیٹھی گانا گاتی رہی اور پھر اڑ گئی۔

    چڑیا نا خوش تھی۔ وہ پیارے منگو سے بہت مانوس تھی، کیوں کہ وہ اس سے پیار کرتا تھا اور گانا بھی شوق سے سنتا تھا۔ اب صرف چڑیا ہی تھی جو منگو کو باہر نکالنے کی کوشش کرسکتی تھی مگر کیسے؟

    چڑیا نے سوچا کہ وہ کالے بونے کا پیچھا کرے گی اور دیکھے گی کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ اگلے دن جب کالا بونا باہر نکلا تو وہ اس کے پپیچھے ہو لی۔ آخر کار بونا ایک گھر پر رکا، چڑیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گھر کا دروازہ ایک بلّی نے کھولا، جس کا رنگ کالا اور آنکھیں سبز تھیں۔ چڑیا سوچنے لگی کہ دیکھوں کہ یہ کالی بلّی کب بونے کو پکارے گی۔ کالا بونا کچھ دیر وہاں رکا اور پھر چلا گیا۔ چڑیا بھی جانے والی تھی کہ اس نے بلّی کو گاتے سنا۔ وہ اون بُن رہی تھی اور گاتی بھی جارہی تھی۔ وہ گانا بہت عجیب تھا۔

    پہلا انگور کا دوسرا سیب کا
    دوسرا انار کا تیسرا ٹماٹر کا
    تیسرا جامن کا چوتھا لیچی کا
    چوتھا نارنگی کا چوتھا خوبانی کا
    پہلا میرا، دوسرا ان کا، تیسرا ہمارا
    دوسرا آم کا اور تیسرا آڑو کا
    کھیلو گے تو بن جائے گا کام
    ہوسکتا ہے مل جائے اس کا نام

    کالی بلّی یہ گانا گاتی جارہی تھی اور چڑیا سنتی رہی۔ یہاں تک کہ اسے بھی یہ گانا یاد ہوگیا۔ چڑیا اڑ کر قلعے کے پاس جا پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ منگو کالے بونے کے لیے کھانا سجا رہا ہے اور اس سے باتیں بھی کر رہا ہے۔

    اگلے دن چڑیا کالے بونے کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور جب وہ چلا گیا تو اس نے گانا شروع کیا، منگو اس کی آواز سن کر کھڑکی کے پاس آیا اور جب اس نے یہ عجیب گانا سنا تو حیران رہ گیا کہ آج چڑیا دوسرا گانا کیوں گا رہی ہے۔ منگو سمجھ گیا کہ چڑیا گانا گا کر اس کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

    منگو جلدی سے ایک پینسل اور کاغذ لے آیا اور گانا سن کر لکھنے لگا اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اس گانے میں کیا نام چھپا ہے۔ الفاظ کچھ یوں تھے۔

    پہلا انگور کا۔ الف، دوسرا سیب کا، ی، دوسرا انار کا۔ ن، تیسرا ٹماٹر کا۔ الف، تیسرا جامن کا۔ م، چوتھا لیچی کا۔ ی، چوتھا نارنگی کا۔ ن، چوتھا ہی خوبانی کا۔ الف، پہلا میرا یعنی۔ م، دوسرا ان کا۔ ن، تیسرا ہمارا۔ الف، دوسرا آم کا۔ م اور تیسرا آڑو کا و!‘‘

    اس نے حروف کو لفظ کی شکل میں لکھا اور پھر اسے پڑھنے کی کوشش کی۔

    اینا، مینا، منا مو!

    ’’تو یہ ہے کالے بونے کا نام! وہ خوشی سے چلایا’’میں نے کبھی یہ نام سوچا بھی نہیں تھا۔ چڑیا جلدی سے اڑ گئی، کیوں کہ اس نے کالے بونے کی آواز سن لی تھی۔ وہ اندر داخل ہوا اور یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگیا کہ منگو کیک بنانے کی بجائے میز پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے۔

    ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ دھاڑا۔

    ’’کیا تمہارا نام بھوری بلّی ہے؟‘‘ منگو نے جان بوجھ کر پوچھا۔ ’’نہیں نہیں‘‘ کالا بونا بولا، ’’جا کر کام کرو۔‘‘ کالا بونا پوری قوّت سے چیخا اور کہا، ’’میرے کیک کہاں ہیں؟‘‘

    ’’کیا تمہارا نام ’’اینا، مینا، منا، مو‘‘ ہوسکتا ہے؟‘‘ منگو خوشی سے چیخا۔

    کالے بونے نے منگو کو گھورا اور ڈر سے پیلا ہوگیا، تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔ تمہیں میرا راز معلوم ہوگیا ہے تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ منگو خوشی سے باہر بھاگا۔

    وہ سارے راستے کودتا پھلانگتا، اپنے گھر پہنچا۔ اس نے اپنے باغ کے دروازے پر چڑیا کو اپنا منتظر پایا۔ منگو نے چڑیا کا بہت شکریہ ادا کیا کہ یہ رہائی صرف اس کی وجہ سے ملی ہے۔ اب منگو کی دوستی چڑیا سے مزید گہری ہوگئی اور وہ روز اس کا گانا سنتا اور اسے روٹیاں بھی کھلاتا۔

    (مصنّف: نامعلوم)