Tag: ادب اطفال

  • عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    عصرِ‌حاضر اور بچّوں کا ادب

    اگر ہم بچّوں کے ادب کے مدارج دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بچّوں کے ادب کی ترقّی کا سلسلہ انیسویں صدی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی میں تو اس میں ایک زبردست انقلاب آیا۔ اس صدی میں بچّوں کا ادب عروج کی منزلوں پر پہنچ گیا۔

    مشرقی ملکوں میں بچّوں کے ادب میں زندگی کے مادّی پہلوؤں مذہب و اخلاق پر خاص طور سے توجہ دی گئی جیسے سچّے تنتر میں دل چسپ کہانیوں کے ذریعہ اخلاق و حکمت کی تعلیم دی گئی۔ بچّے کا کائنات سے اوّلین رابطہ کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے یعنی طوطے، مینا، پریوں، پرندوں، راجاؤں، پھولوں کی کہانیوں کے ذریعہ ارد گرد کی چیزوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ کہانیوں کے کردار اس کے ارد گرد گھومنے لگتے ہیں۔ اور وہ خود کو ان چیزوں کا ایک حصّہ سمجھنے لگتا ہے۔

    ان کہانیوں کے ذریعہ وہ ان چیزوں کو اپنانے اور رد کرنے کا عمل سیکھتا ہے۔ ڈرامے کی دنیا بچّوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ جہاں پر وہ خود کو وہ کردار ادا کرتے دیکھتا ہے جس کو وہ کتابوں میں پڑھتا ہے۔ اسی لیے بچّے ڈرامے بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچّوں کے ڈرامے بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس کو بڑے شوق سے اپناتے ہیں۔ تصویر بھی بچّے کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ تصویر کا تعلق براہِ راست دل اور نظر سے ہوتا ہے۔ یہ بچّوں کی قوّتِ متخیلہ بڑھاتی ہے۔ تصویر کی مدد سے وہ تمام چیزوں سے واقف ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

    بچّوں کے ادب کی اہم خصوصیت اس کا حیرت اور استعجاب ہے۔ اس کی وجہ سے بچّوں میں کیوں، کیا اور کیسے، کب جیسے سوالا ت اٹھتے ہیں۔چوں کہ بچّہ کی فطرت متجسس ہوتی ہے، اس لیے بچّوں کے ادب میں بھی حیرت اور تجسس کا عنصر ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ جانور کی شکل تو کبھی دیو اور بھوت تو کبھی پری کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اسی لیے پنچ تنتر میں جانوروں کی بولی کی وجہ سے وہ اتنی دل چسپ اور انوکھی چیز بن گئی کہ صدیوں کے بعد بھی اس ادب کا مزہ تر و تازہ ہے۔

    اس کے علاوہ بچّوں کے ادب کی زبان سادہ عام فہم اور مزے دار ہو جو روز مرّہ کے الفاظ پر مشتمل ہو جن کو پڑھ کر بچّے نہ صرف لطف اندوز ہوں بلکہ وہ کہانی کی چاشنی کو محسوس کریں۔

    اس کے بعد بچّوں کی سیرت کی تعمیر ہو، مذہبی عقائد کے قصّے بزرگوں کی کہانیاں، ان کی سیرت، بہادروں کے کارنامے، خدا کا خوف، سیرت سے واقفیت بھی ادبِ اطفال کے ادیبوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ ادبِ اطفال کی سب سے اہم ذمہ داری یکجہتی، بھائی چارگی، حب الوطنی، آپسی میل ملاپ کا بڑھاوا ہو۔ ان کی تربیت میں نفرت، عداوت، جلن جیسی رزیل چیزوں کو ان کی سیرتوں سے پرے رکھنا بھی ادیب کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے موضوعات ایسے ہوں جن میں ہمیشہ نیا پن ہو کیوں کہ وہ ایک جیسی چیزوں سے اکتا جاتے ہیں۔

    ادب کے ذریعہ بچوں کو تنگ نظری تعصب جیسی برائیوں سے دور رہنے کا درس فراہم کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی باتیں بتائی جائیں جن سے ان کے ذہن میں وسیع النّظری کو فروغ ملے اور محبت کی فضا قائم رہ سکے۔

    (ماخوذ از: مضمون برائے سمینار بہ عنوان "اردو ادب: تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل” شمیم سلطانہ، تلنگانہ)

  • پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    پہچانو میں‌ کون! عادل اسیر دہلوی کی دل چسپ منظوم پہیلی

    عادل اسیر دہلوی کا نام ہندوستان کے ان تخلیق کاروں‌ میں‌ اہم اور نمایاں ہے جنھوں نے بچّوں کے ادب کو متنوع موضوعات سے مالا مال کیا اور ان کے لیے سادہ و دل نشین انداز میں نہ صرف کہانیاں لکھیں بلکہ آسان اور عام فہم شاعری بھی کی۔

    1959ء میں‌ پیدا ہونے والے عادل اسیر کا تعلق دہلی سے تھا اور وہ اسی نسبت اپنے نام کے ساتھ دہلوی لگاتے تھے۔ 2014ء میں‌ بچّوں‌ کے اس بڑے ادیب اور شاعر نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ یہاں ہم ان کی ایک پہیلی (نظم) نقل کررہے ہیں جو بچّوں‌ ہی نہیں‌ بڑوں‌ کو بھی بظاہر چھوٹی سی ایک چیز کی اہمیت اور افادیت بتاتی ہے، مگر انسان کی ایجاد کردہ اور سب کے بہت کام آنے والی یہ چیز ہے کیا؟ جانیے۔

    مجھ سے بڑھی ہے علم کی دولت
    دیکھنے میں ہوں میں بے قیمت

    جاہل کو بے زاری مجھ سے
    عالم کی ہے یاری مجھ سے

    مجھ میں شیروں جیسی ہمّت
    سچّائی ہے میری طاقت

    گرچہ لگتا چھوٹا سا ہوں
    کام بڑے پَر میں کرتا ہوں

    دیکھو تو بے کار ہی سمجھو
    لیکن میں انمول ہوں بچّو

    تیر نہیں، تلوار نہیں میں
    دشمن پر بھی بار نہیں میں

    میری طاقت کو کیا جانو
    دانا ہو تو تم پہچانو

    کام عدالت میں بھی آؤں
    پیار محبت میں بھی آؤں

    خط لکھنا، پیغام بھی دینا
    ساتھ میں سب کا نام بھی دینا

    پہچانو تو کون ہوں پیارے
    آتا ہوں میں کام تمہارے

    (جواب: قلم)

  • چاندی کا فرشتہ

    چاندی کا فرشتہ

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔

    اسی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio) تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مال دار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔

    انتونیو بہت ایمان دار اور ہوشیار آدمی تھا، اس لیے اُس کا مالک اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا لیکن اس کے محنتی اور ایمان دار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔

    انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita) سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا (Malaga) کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوب صورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔

    انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی، مگر اب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لیے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برف باری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔

    ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوش نما منظر تھا۔

    ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے، پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ دونوں کے لیے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھا مل جائے گا، اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔

    انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھما جھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے، چاندی کا نیزہ لیے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لیے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

    پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایمان دار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی، لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔

    راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے؟‘‘

    انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔

    راستے میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لیے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔

    لوگوں نے اُسے ان بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اسے جا بجا خوب صورت لڑکیاں اُون اور انڈے لیے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوب صورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔

    بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتش بازی دیکھے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔

    انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاندی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔

    اُس درویش نے انتونیو کے پاس آکر کہا، ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟ میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں، مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیوں کہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘

    درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جس پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔

    جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُتر کر بولا، ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیوں کہ اس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔ بہرحال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا، ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا، مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔

    جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔

    پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگا جیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ’’اِسے مت بھولنا! یہ ساری چاندی تمہارے لیے ہی ہے، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

    جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔

    منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لیے اُس نے گھر آ کر انتونیو سے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایمان دار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔

    منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔

    منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپے دیے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچّوں، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے۔

    (اسپین کے لوک ادب سے انتخاب)

  • پُراسرار دستانے

    پُراسرار دستانے

    مصنّف: مختار احمد

    عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔ خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔

    عظیم کے والد بغرضِ ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔ یہ گاوٴں، دیہات اور ایک بڑے دریا سے ملحق بہت ہی خوب صورت اور پرسکون شہر تھا۔

    عظیم کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس کے اسکول اور محلے کے تو کئی دوست تھے مگرخالہ زاد اور ممانی زاد بہن بھائیوں کی تو بات ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے آنے کی خبر سے وہ بہت خوش ہوا تھا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ پرسوں اس کی چودھویں سال گرہ بھی ہے، سب لوگ ہوں گے اور خوب مزہ آئے گا۔

    چوں کہ ٹرین لیٹ ہو گئی تھی اس لیے وہ سب رات کو دیر سے گھر پہنچے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اور باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ صبح کسی نے اسکول تو جانا نہیں تھا، اس لیے سونے کی کسی کو فکر بھی نہیں تھی۔ عظیم کی امی کو صبح جلدی اٹھنا تھا کیوں کہ اس کے ابّو کو آفس جانا تھا اور انھیں ناشتہ تیار کر کے دینا تھا، اس لیے وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ وہ گئیں تو یہ محفل بھی برخاست ہوگئی۔ آنے والے مہمان کافی تھکے ہوئے تھے، گھوڑے بیچ کر سو گئے۔

    عظیم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور پروگرام بنا رہا تھا کہ خالہ اور ممانی کے بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارے گا۔ نیند تو خیر اس کو آگئی تھی مگر وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ تھکن کی وجہ سے مہمان مزے سے سو رہے تھے۔ عظیم نے ہاتھ منہ دھویا، امی کے ساتھ نماز پڑھی۔ امی تو کچن میں مصروف ہو گئیں اس نے سوچا کہ باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا خوری کرلے۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور کافی اندھیرا تھا۔

    وہ گھر سے قریب ایک پارک میں پہنچ گیا۔ اونچے اونچے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندوں کا شورسنائی دینے لگا تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی، گرم سویٹر پہننے کے باوجود اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر سے چلتے ہوئے اس کی امی نے اسے مفلر بھی تھما دیا تھا جسے اس نے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔

    پارک سنسان پڑا تھا لیکن جب اس نے غور سے دیکھا تو پارک میں نصب آخر والی بینچ پر اسے کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آیا کہ یہ کوئی بچے پکڑنے والا آدمی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس کے پاوٴں من من بھر کے ہوگئے، اس سے اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں گیا۔ وہ مفلر جو اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اچانک اس کے گلے سے نکلا اور اڑتا ہوا اس شخص کی جانب چل دیا جو دور بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’امی۔۔۔۔!‘‘ عظیم کے منہ سے بے اختیار خوف بھری ایک چیخ نکلی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کی جان نکل گئی ہے۔ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ اتنے اندھیرے میں گھر سے نکل کر یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس واقعے نے اسے اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔

    اس کے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ نے اس کے رگ و پے میں خوف کی سنسناہٹ دوڑا دی۔ وہ شخص اٹھ کر اسی کی طرف آنے لگا تھا۔ عظیم کا ڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس سے چیخا بھی نہیں جا رہا تھا، ایسا معلوم دیتا تھا جیسے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

    ’’ماں کے لاڈلے۔ یہ لو پکڑو اپنا مفلر۔‘‘ قریب آنے والے اس شخص نے کہا۔ اب عظیم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔

    ’’بھائی تم کون ہو؟‘‘عظیم نے تھوک نگل کر پوچھا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے تو بھائی بھائی کر رہے ہو۔‘‘ وہ لڑکا بڑی خوش دلی سے ہنسا، مگر پھر فوراً ہی اداس ہوگیا: ’’میں بہت بدنصیب ہوں۔ میرے لیے اب عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا ایک خواب ہی ہے۔‘‘

    اس کے دکھ بھرے لہجے سے عظیم متاثر ہو گیا ۔ کچھ پوچھنے کے لیے اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا ان کے قریب سے اڑتی ہوئی گزری، اس پراسرار لڑکے نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنی مٹھی کھولی، چڑیا آگے جاتے جاتے بجلی کی تیزی سے پلٹی اور اس لڑکے کی مٹھی میں آگئی۔

    یہ دیکھ کر عظیم کے جسم پر کپکی طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور پیٹ میں جیسے کوئی چیز زور زور سے گھومنے لگی۔ اس سے کھڑا رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور خوف بھری نظروں سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑی چڑیا کو فضا میں اچھال کر اسے اڑا دیا اور خود بھی عظیم کے پاس بیٹھ گیا۔

    عظیم اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا:’’میں امی کے پاس جاوٴں گا۔‘‘

    لڑکا ہنس پڑا۔ ’’ہو تو تم میرے ہی جتنے مگر دودھ پیتے بچے بن رہے ہو۔ مجھ سے ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گا۔ دیکھو میں نے تمہارا مفلر بھی واپس کر دیا تھا، اگر میں چاہتا تو اس کو لے کر بھاگ بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم بہت عجیب سے ہو۔ ‘‘ عظیم نے تھوک نگل کر کہا۔ ’’تم کوئی جادوگر ہو، تم نے لڑکے کا روپ دھار رکھا ہے۔‘‘

    ’’اگر میں جادوگر ہوتا تو کسی شہزادی کو اپنے محل میں قید کر کے اس کی خوشامد کررہا ہوتا کہ وہ مجھ سے شادی کرلے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ لڑکا ہنسا پھر اداسی سے بولا۔ ’’میرے سب دوست مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ سب لوگ مجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھومتا پھرتا ہوں، سب سمجھتے ہیں کہ میں کوئی جادوگر ہوں، حالاں کہ میں ہوں نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہو، جادوگر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘۔ عظیم نے کہا۔

    ’’میرا نام انعام ہے۔ ‘‘ اس لڑکے نے کہا۔ ’’کیا تم میری کہانی سننا پسند کرو گے۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘

    انعام کی بات سن کر عظیم کا دل بھر آیا۔ ’’ہاں ہاں، میں ضرور تمہاری کہانی سنوں گا، اچھا ہے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مجھے تو تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو بس تمہاری حرکتیں ٹھیک نہیں لگتیں۔‘‘

    اس کی بات سن کر انعام خوش ہوگیا اور اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ بد قسمتی سے اسکول میں میری دوستی چند آوارہ لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے اسکول سے بھاگنا سکھا دیا تھا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں بجائے اسکول جانے کے، دریا کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریا پر جا کر سیر کروں گا اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑوں گا۔ میں دریا پر پہنچا تو مجھے وہاں ایک بوڑھا شخص ملا۔ اس کی شکل عجیب سی اور خوف ناک تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔

    ’’مچھلیاں پکڑنے آئے ہو لڑکے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ دریا کی طرف کیا اور پل بھر میں اس کی ہتھیلی پر تین چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آکر تڑپنے لگیں۔ اس نے قریب پڑی پلاسٹک کی ایک تھیلی اٹھا کر اس میں پانی بھرا اور مچھلیوں کو اس میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں تمہاری طرح خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔ میں ایک بہادر لڑکا ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تھوڑا بے وقوف ہوں۔ میں نے بوڑھے سے پوچھا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ، لیکن اگر تم چاہو تو میں یہ طاقت تمہیں دے سکتا ہوں۔ مجھے تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو۔‘‘

    اس کی چاپلوسی کی باتیں سن کر میں خوش ہوگیا اور حامی بھر لی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی وہ شخص دستانے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے دستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو بولا۔ ’’ان دستانوں کو تم حیرت سے دیکھ رہے ہو۔ جب یہ طاقت تمہیں مل جائے گی تو تمہیں بھی ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ میں نے اس کی بات پر غور نہیں کیا، اسی سوچ میں مگن رہا کہ جب میں بھی ایسا کرنے لگوں گا تو اپنے دوستوں کو تماشا دکھا کر مرعوب کیا کروں گا۔ وہ کتنا حیران ہوں گے جب میں دور پڑی چیزوں کوایک جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے پاس منگوا لیا کروں گا۔ اس نے مجھے قریب بلایا اور بولا۔ ’’آنکھیں بند کرو اور جو الفاظ میں کہوں تم انھیں دہراتے جاوٴ۔‘‘

    میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں اس طاقت کو اپنی مرضی سے لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘میں نے وہ الفاظ بھی دہرا دیے۔ اس نے کہا ۔ ’’اب آنکھیں کھو ل دو۔ تمہیں یہ عجیب و غریب طاقت مل گئی ہے۔‘‘

    میں نے آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرے دونوں ہاتھ کلائیوں تک بالکل سیاہ رنگ کے ہو گئے تھے۔ اس شخص نے اپنی مکروہ آواز میں کہا ۔ ’’تم چاہو تو اس طاقت کو آزما سکتے ہو۔ ‘‘ میں نے دور زمین پر پڑی ایک شیشے کی بوتل کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا، وہ زمین سے بلند ہوئی اور میرے ہاتھ میں آگئی۔

    اس طاقت کو حاصل کرکے مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میرے ہاتھوں کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ اب میں اپنی امی ابّا اور دوستوں کا کیسے سامنے کروں گا، ان سے اپنے کالے ہاتھوں کے بارے میں کیا کہوں گا۔

    اس بوڑھے نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اتار کر میرے حوالے کیے اور خود ایک جانب روانہ ہوگیا۔ اس بات کو تین روز گزر گئے ہیں۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میں ان دستانوں کو پہنے پہنے تنگ آگیا ہوں۔ ان کی وجہ سے میں کوئی کام ٹھیک طریقے سے بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شیطان بوڑھا بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو میں نے تماشے تو بہت دکھائے مگر مرعوب ہونے کے بجائے وہ مجھ سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے ہیں اور بات چیت کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ اور تو اور کل میرے ابّا بھی میری امی سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ اس کو کسی سینٹر چھوڑ کر آجائیں گے، یہ ہمارا والا انعام نہیں ہے کوئی اور ہے۔ پرسوں کی بات ہے انہوں نے باہر جانا تھا، مجھ سے بولے کہ میرے جوتے اٹھا دو۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ان کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آگئے۔ ابّا گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور بولے۔ ’’ان جوتوں کو اب میں کبھی نہیں پہنوں گا، ان میں جادو لگ گیا ہے۔‘‘

    اس کی یہ کہانی سن کر عظیم کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’اس دنیا میں عجیب عجیب لوگ موجود ہیں جیسے وہ بوڑھا۔ اس نے بچہ سمجھ کر اپنی مصیبت تمہارے گلے ڈال دی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ماں باپ ہمیں اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ اجنبیوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان سے کسی قسم کی کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لوگ ہمیں مصیبتوں میں پھنسا دیتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

    انعام نے افسردگی سے کہا۔ ’’میری امی بھی مجھے بہت سمجھاتی تھیں کہ کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی بات چیت نہ کروں۔ وہ کوئی کھانے کی چیز دے تو وہ بھی نہیں کھاوٴں، ان چیزوں میں بے ہوشی کی دوا ہوتی ہے اور اسے کھلا کر وہ لوگ بچوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور اتنی سی چیز کھلا کر ان کے ماں باپ سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔‘‘

    اب چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔ عظیم نے ایک مرتبہ پھر انعام کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور بولا۔ ’’انعام بھائی کیا تم مجھے دریا پر اس جگہ تک لے جا سکتے ہو جہاں وہ خبیث بوڑھا تمہیں ملا تھا؟‘‘

    ’’وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، آؤ۔‘‘ انعام نے کہا اور دونوں چل پڑے۔ عظیم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کو انعام پر بہت ترس آرہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ انعام کو اس مصیبت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کالے ہوگئے تھے۔ وہ دعا کررہا تھا کہ وہ بوڑھا ان کو دوبارہ مل جائے۔ اور پھر اس کی دعا قبول ہو ہی گئی۔ وہ بوڑھا انھیں نظر آگیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا اس کے پانی سے گاجروں کو دھو دھو کر کھا رہا تھا۔ عظیم نے انعام کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔ اس کی بات سن کرانعام کا چہرہ جوش و مسرت سے تمتمانے لگا۔

    اس بوڑھے نے انعام کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نظر آنے لگی، وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میاں خوب مزے آرہے ہیں۔ اب تو تمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا ہوگا۔ بیٹھے بیٹھے ہی سب چیزیں تمہیں مل جاتی ہوں گی۔‘‘

    انعام نے کہا۔ ’’اپنی یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو۔ اس کی وجہ سے میرے دونوں ہاتھ بالکل سیاہ ہوگئے ہیں۔ لوگ مجھ سے ڈرنے لگے ہیں۔ میری امی تو مجھ سے اتنی خوف زدہ ہو گئی ہیں کہ انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ دھمکی بھی نہیں دیتیں کہ آ لینے دے تیرے باپ کو تیری شکایت کروں گی۔ میں کسی کا سامنا بھی نہیں کرسکتا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو دونوں ہاتھ گرم ہوجاتے ہیں۔ میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ان ہی تکلیفوں کی وجہ سے تو میں نے یہ طاقت تمہیں دی تھی۔ میں خود ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔‘‘ اس آدمی نے لاپروائی سے کہا۔ ’’میں اب اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ تم یہاں سے چلے جاوٴ۔ اگر زیادہ تنگ کرو گے تو میں تمہیں دریا میں دھکا دے دوں گا اور تمہارے ساتھ اس کو بھی جسے تم حمایتی بنا کرلائے ہو۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے۔ ‘‘ انعام نے دستانے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور بلند آواز میں بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ طاقت نہیں چاہیے۔‘‘

    اس کی بات کو سن کر بوڑھے نے ایک چیخ ماری اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عظیم اور انعام نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ انعام کے ہاتھوں کا کالا رنگ دھویں میں تبدیل ہو کر بوڑھے کی طرف پرواز کرنے لگا اور اس کے قریب پہنچ کر اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دونوں ہاتھ کالے نظر آنے لگے۔

    ’’لو۔ یہ پکڑو اپنے دستانے۔‘‘ انعام نے دستانوں کو پوری طاقت سے بوڑھے کی طرف پھینک دیا۔ اتنی دیر میں دریا کی ایک تیز لہر آئی اور اس بوڑھے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ انعام کے دونوں ہاتھ پھر پہلے کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے۔ اس نے عظیم کو گلے سے لگا لیا۔

    ’’میرے دوست۔ اگر تم وہ الفاظ مجھے نہ بتاتے جو میں نے اس بوڑھے شیطان سے کہے تھے تو مجھے کبھی بھی اس مصیبت سے نجات نہ ملتی۔‘‘

    اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ عظیم گھر پہنچا تو سارے مہمان ناشتے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’عظیم بیٹے۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ ہم ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    عظیم نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد خواتین تو باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ عظیم بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ وہاں اس نے انہیں یہ عجیب و غریب کہانی سنائی۔ تمام بچے یہ کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    عظیم نے کہا۔ ’’آج سے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اسکول جاتے ہوئے اور نہ ہی اسکول سے آتے ہوئے کسی اجنبی سے کوئی بات کریں گے تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔‘‘

    سب بچوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ وہ سب عظیم کی عقل مندی سے بھی بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے انعام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا تھا۔

  • دو دوست، دو دشمن

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔

    بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا خاندان بھی یہاں سیکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو مَیں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، ’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوّت کا پتا چلے۔‘‘

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

    دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔ دلدل اب بھی موجود ہے۔

    (اس مختصر اور سبق آموز کہانی کے مترجم اردو کے معروف ادیب اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • انسانی کنبہ

    انسانی کنبہ

    جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں، لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پَر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔

    اچھا، اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سَر رکھے آنے جانے والوں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لیے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔

    یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتّھر سے ٹھوکر لگی، اور ٹھوکر لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔

    اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں۔ وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔

    لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا، مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔

    میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھرّوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!

    (حجاب امتیاز علی کا شمار اردو کی اوّلین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوں اور رومانی انداز کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ بچّوں کے لیے لکھی گئی اپنی اس مختصر کہانی کے ذریعے انھوں نے دنیا بھر کے لیے امن اور سلامتی کا درس اور ایک آفاقی پیغام دیا ہے)

  • کیوی کے پَر کیسے گم ہوئے

    کیوی کے پَر کیسے گم ہوئے

    اس کہانی میں صرف نیوزی لینڈ کے ان مقامی پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ ہے جیسے ‘پوکے کو’ جو نیلے رنگ کا لمبی ٹانگوں والا مرغی کی قامت کا پرندہ ہے۔ ‘ٹوئی’ جو مینا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ ‘پیپی وارو۔ روا’ یعنی سنہرے اور سبز پروں والی بلبل جیسا پرندہ اور ‘کیوی’ جس کی لمبی چونچ ہوتی ہے اور یہ وہاں کا قومی پرندہ ہے۔ اس کہانی کا آغاز کرنے سے پہلے انھوں نے بچّوں سے یوں خطاب کیا ہے:

    بچّوں کے لیے یہ کہانی سلمیٰ جیلانی نے تخلیق کی ہے جو کئی سال سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں، وہ افسانہ نگار، شاعرہ اور مترجم ہیں۔

    پیارے بچّو! آج میں آپ کو اپنے موجودہ دیس نیوزی لینڈ کی ایک لوک کہانی سناتی ہوں جو یہاں کے قومی پرندے کیوی سے متعلق ہے۔ آپ نے یا آپ کے امّی ابّو نے وہ اشتہار شاید سنا ہو جس میں سوال کیا جاتا ہے۔

    ’’پیارے بچّو کیوی کیا ہے؟‘‘ اور پھر جواب دیا جاتا ہے کہ ’’کیوی ایک پرندہ ہے جو پالش کی ڈبیا پر رہتا ہے۔‘‘

    نہیں بھئی، کیوی ہے تو پرندہ، مگر پالش کی ڈبیا پر نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے جنگلوں میں رہتا ہے۔ یہ جانوروں کی سب سے قدیم نسل سے تعلق رکھتا ہے اور یہ واحد پرندہ ہے جو اُڑ نہیں سکتا کیوں کہ اس کے پَر ہی نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود پرندہ کہلاتا ہے۔

    اس کے علاوہ اس کی کئی اور باتیں عام پرندوں سے مختلف ہیں یعنی یہ رات کے وقت کھانا پینا تلاش کرنے نکلتا ہے۔ اکثر قومی شاہراہ پر بھی نکل آتا ہے اور تیز رفتار کاروں کا نشانہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل اور بھی تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انڈا اس کے قد کی مناسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے اور اکثر انڈے دیتے ہوئے بھی مادہ کی جان چلی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بھی یہ تعداد میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں اور اگر ان کی دیکھ بھال نہ کی گئی تو اگلی نسل ان کو دیکھ بھی نہیں سکے گی۔

    خیر یہ تو تھا کیوی کا مختصر تعارف اب آتے ہیں، اس لوک کہانی کی طرف جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔

    ایک دن ’تنی مہوٹہ‘ یعنی جنگل کا دیوتا درخت (یہ یہاں کے سب سے قدیم درخت کاوری کو بھی کہتے ہیں جو ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں) جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بچّے یعنی درخت جو آسمانوں کو چھوتے تھے کچھ بیمار لگ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کیڑے انہیں کھا رہے ہوں، اس نے اپنے بھائی ’تنی ہوکا ہوکا‘ یعنی آسمانوں کے بادشاہ سے کہا کہ وہ اپنے بچّوں کو بلائے چناں چہ اس نے فضاؤں کے تمام پرندوں کو ایک جگہ پر جمع کیا۔

    ’تنی مہوٹہ‘ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ” کوئی چیز میرے بچّوں یعنی درختوں کو کھا رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ایک آسمانوں کی چھت سے نیچے اتر آئے اور زمین کے فرش پر اپنا گھر بنائے تاکہ درخت اس تکلیف سے نجات پائیں، اور تمہارا گھر بھی محفوظ رہے۔ ہاں تو بتاؤ تم سے کون ایسا کرنے کو تیار ہے؟‘‘

    ان میں سے کوئی پرندہ بھی نہیں بولا سب کے سب ایک دم خاموش رہے۔

    ’تنی ہوکا ہوکا‘ مینا کی طرح کے پرندے ’ٹوئی‘ کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

    ’’ٹوئی! کیا تم زمین کے فرش پر جا کر رہنا پسند کرو گے؟‘‘

    ٹوئی نے درختوں کے اوپر کی طرف نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتوں سے چھن کر نیچے جا رہی تھی، پھر نیچے جنگل کے فرش کی طرف دیکھا، جو بہت ٹھنڈا اور سیلا معلوم ہو رہا تھا اور وہاں بہت اندھیراتھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین کپکپا رہی ہو۔

    ٹوئی نے ڈرتے ہوئے کہا’’محترم تنی ہوکا ہوکا، نیچے تو بہت اندھیرا ہے اور مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس لیے میں نیچے نہیں جا سکتا۔‘‘

    پھر ’تنی ہوکا ہوکا‘ نیلے رنگ کے لمبی ٹانگوں والے پرندے ’پوکے کو‘ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور اپنا سوال دہرایا۔

    ’’پوکے کو! کیا تم نیچے جا کر رہنا چاہو گے؟‘‘

    ’پوکے کو‘ نے نیچے کی طرف دیکھا۔ اسے بھی زمین نم آلود اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوئی۔ اس نے ادب سے جواب دیا، ’’جناب ’تنی ہوکا ہوکا۔‘ زمین کا فرش تو بہت ہی گیلا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرے خوب صورت پاؤں گیلے ہو جائیں۔

    اس کے بعد تنی ہوکا ہوکا ’پیپی وارو۔ روا‘ یعنی سنہری بلبل کی طرح کے پرندے سے مخاطب ہوا۔

    ’’تو’پیپی وارو۔ روا‘! تمہارا کیا جواب ہے، کیا تم درختوں کی جان بچانے کے لیے جنگل کی چھت سے نیچے اترو گے؟‘‘

    سنہری پرندے نے جنگل کی چھت سے چھنتی ہوئی سورج کی روشنی کی طرف دیکھا، پھر دوسرے پرندوں کی طرف نظر دوڑائی اور لا پروائی سے بولا۔

    ’’جناب محترم فی الحال تو میں اپنا گھونسلا بنانے میں بے حد مصروف ہوں، میں نیچے جا کر نہیں رہ سکتا۔‘‘

    باقی سب پرندے خاموشی سے ان کی باتیں سن رہے تھے، اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔

    ایک گہری اداسی’ تنی ہوکا ہوکا‘ کے دل میں اتر گئی، جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے بچّوں میں سے کوئی بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنے کو تیار نہیں، اس طرح نہ صرف اس کا بھائی اپنے بچّوں یعنی درختوں کو کھو دے گا بلکہ کسی پرندے کا گھر بھی باقی نہیں بچے گا۔ ’تنی ہوکا ہوکا‘ اس مرتبہ کیوی کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا۔

    ’’اے کیوی! کیا تم جنگل کی چھت سے نیچے اترنا پسند کرو گے؟‘‘

    کیوی نے درختوں پر نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتّوں سے چھن چھن کر ایک خوب صورت منظر پیش کر رہی تھی، اس نے اپنے اطراف دیکھا جہاں اسے اپنا خاندان دکھائی دیا، پھر اس نے زمین کے فرش کی جانب نظر کی، ٹھنڈی اور نم آلود زمین، اس کے بعد اپنے اطراف دیکھتے ہوئے’تنی ہوکا ہوکا‘ کی طرف گھوما اور بولا:

    ’’ہاں میں نیچے جاؤں گا۔‘‘ یہ سن کر ’تنی مہوٹا‘ اور تنی ہوکا ہوکا کے دل خوشی سے اچھل پڑے۔ اس ننھے پرندے کی بات انہیں امید کی کرن دکھا رہی تھی، لیکن تنی مہوٹا نے سوچا۔ کیوی کو ان خطرات سے آگاہ کر دیا جائے جن کا سامنا زمین پر جا کر رہنے سے اسے ہونے والا تھا۔

    ’’اے کیوی! جب تم زمین پر جا کر رہو گے تو تم موٹے ہو جاؤ گے، لیکن تمہاری ٹانگیں اتنی مضبوط ہو جائیں گی جو ایک جھٹکے سے لکڑی کو توڑ ڈالیں گی، تم اپنے خوب صورت چمکیلے پر کھو دو گے یہاں تک کہ اڑ کر دوبارہ جنگل کی چھت تک بھی نہیں پہنچ سکو گے اور تم دن کی روشنی بھی دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکو گے، کیا تمہیں یہ سب منظور ہے؟ کیا تم پھر بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنا چاہو گے؟‘‘

    تمام پرندے خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے، کیوی نے اداسی سے درختوں کی شاخوں سے چھن کر آتی ہوئی، سورج کی روشنی کی طرف ایک الوداعی نظر ڈالی، پھر دوسرے پرندوں کی جانب دیکھا، ان کے خوب صورت اور رنگین پَروں اور اڑان بھرنے والے بازوؤں کو خاموش الوداع کہی، ایک بار پھر اپنے اطراف دیکھا اور’ تنی ہوکا ہوکا‘ سے مخاطب ہوا۔

    ’’ہاں، میں پھر بھی جاؤں گا۔‘‘ تنی ہوکا ہوکا نے اس کی بات سنی اور پھر دوسرے پرندوں کی طرف متوجہ ہوا۔

    ’’اے ٹوئی! چوں کہ تم جنگل کی چھت سے اترنے سے بہت خوف زدہ ہو، اس لیے آج سے تمہیں دو سفید پر دیے جاتے ہیں، جو تمہارے بزدل ہونے کی نشانی کے طور پرتمہاری گردن پہ ہمیشہ ثبت رہیں گے۔

    اور ہاں’ پوکے کو‘! تم نیچے جا کر اس لیے رہنا نہیں چاہتے کہ تمہارے پاؤں گیلے نہ ہو جائیں تو آج سے تم ہمیشہ دلدلوں اور گندے پانی کے جوہڑوں میں رہا کرو گے اور تمہارے خوب صورت پاؤں کیچڑ میں لتھڑے رہیں گے۔

    ’پیپی وارو۔ روا‘! چوں کہ تم اپنا گھونسلا بنانے میں اتنے مصروف ہو کہ نیچے اتر کر رہنا تو کیا میری بات تک سننے کے لیے تمہارے پاس وقت نہیں تو آج سے تمہاری سزا یہ ہے کہ تم کبھی اپنا گھونسلا نہیں بنا سکو گے بلکہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں انڈے دیا کرو گے۔

    لیکن پیارے کیوی! اپنی اس بے مثال قربانی کی وجہ سے تم تمام پرندوں میں سب سے زیادہ مشہور پرندے ہو گے اور تمہیں لوگ سب سے زیادہ پیار کریں گے۔‘‘

    بچّو، اس دن سے آج تک کیوی ایک مختلف پرندہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے نیوزی لینڈ کا قومی پرندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

  • ستارہ پری

    ستارہ پری

    ننّھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لیے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے، لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچّوں کو گود میں لیے کھڑی ہے۔ اس عورت کے بازؤوں کے ساتھ سات رنگ کے خوب صورت پَر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا جیسے تتلی کے پروں کا بنا ہو۔

    شیلا اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی۔ ’’خوب صورت عورت تم کون ہو؟‘‘

    عورت بولی۔ ’’میں ہوں ستارہ پری۔‘‘

    شیلا نے پوچھا:’’تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’ذرا مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دو۔‘‘

    شیلا کہنے لگی۔ ’’گھر میں گھس کر کیا کرو گی؟‘‘

    ستارہ پری بولی۔ ’’اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔‘‘

    شیلا نے جواب دیا۔ ’’اچھا نہلالو۔‘‘

    اب پری اپنے بال بچّوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور شیلا اپنی خوب صورت مہمان کی تواضع کے لیے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوب صورت مہمان غائب ہے، لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔

    شیلا نے حیرت سے غسل خانے میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوب صورت دستانہ الگنی پر بھول گئی ہے، دستانہ پیارا تھا۔ اسے دیکھتے ہی شیلا کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔ اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔ دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔

    اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کو بہہ رہی ہیں۔ پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔ شیلا نے ایک چمچ اٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزے دار چوٹیاں کھانے لگی۔ بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اتر آئی۔ دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے۔ ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔

    ہر طرف باغ ہی باغ نظر آرہے تھے۔ جن میں رنگ برنگ شربت کے فوّارے ناچ رہے تھے۔ فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرّد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔ اس نے ایک فوّارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔ پھر دوسرے فوّارے سے پھر تیسرے فوّارے سے ،کیوں کہ ہر فوّارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔

    اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ ایک کوئل اور ایک بلبل شیلا نے پکڑ کر کھائی اور پھر آگے بڑھی۔ آگے ایک بڑا خوب صورت بازار آگیا۔ جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آتی تھیں۔ شیلا ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔

    دکانوں پر بڑی بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔ رنگ برنگ پھول، تتلیاں، ستارے، موتی، کل سے اڑنے والے پنچھی، گل دان مربّے، جام، چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔

    یکایک شیلا کو ستارہ پری اپنے بچّوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔ وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لیے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔

    شیلا چلّا کر بولی۔ ’’ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چُرا رہی ہو۔‘‘

    ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی۔ ’’شیلا میرے قریب آؤ۔‘‘

    جب شیلا اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیے اور بولی۔ ’’شیلا جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔ جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔ جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔‘‘

    اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوب صورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ شیلا کی آنکھوں سے ہٹا لیے۔ شیلا ڈر گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔ اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔

    اس کے بھیّا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔ آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔

    (اس کہانی کے مصنّف راجہ مہدی علی خاں اپنے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے لیے مشہور ہیں، صحافت اور شاعری میں بھی انھوں‌ نے خوب نام کمایا)

  • ہم راجا ہیں راجا…

    ہم راجا ہیں راجا…

    ایک بہت ہی خوب صورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی موگرا، موتیا وغیرہ سبھی اپنی اپنی خوب صورتی اور خوش بُو سے باغ کو دل رُبا بنائے ہوئے تھے۔ شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔

    بچّے اچھل کود مچاتے تھے۔ پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔

    مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گزارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔

    باغ کے ایک چھوٹے سے حصّے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔

    اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ "میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کون سی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔

    حالاں کہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہیں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے، لیکن ہم تو راجا ہیں راجا، بغیر گھی مسالا کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا۔”

    ترکاریوں نے کٹہل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ "دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم۔”

    کریلا: میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔

    بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔

    بھنڈی:۔ سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔

    لوکی:۔ میں اپنی تعریف کیا سناؤں ، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کر تی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لیے کہتے ہیں۔

    پَلوَل: میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔

    ترئی: میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔

    شلغم: مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔

    گوبھی: بخار کو دور کرتی ہوں اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔

    آلو: میں بے حد طاقت ور اور روغن دار ہوں۔

    گاجر: میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔

    مولی: میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔

    جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے۔ پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتّوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔

    پالک: میں خون بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لیے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔

    میتھی: بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔

    بتھوا: تھکاوٹ دور کرتا ہوں، مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہیے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔

    مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔

    جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا ہے۔ نامعلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے، بچّے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوش نما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟

    (مصنف: نامعلوم)

  • جادو کا پتھر….

    جادو کا پتھر….

    بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی جس کا ایک بیٹا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر اس سے کہا: "بیٹے! ذرا جا کر بازار سے روٹی لے آؤ۔” لڑکا پیسے لے کر بازار جا رہا تھا کہ ایک چوراہے پر اس نے کچھ بچّوں کو بلّی کے ایک مریل سے بچّے کو ستاتے ہوئے دیکھا۔

    اسے رحم آ گیا۔ اور اس نے بچّوں سے پوچھا: "اس بلّی کے بچّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” بچوں نے جواب دیا۔ "کیا لو گے؟” لڑکے نے پوچھا۔

    "جو جی چاہے دے دو۔” بچوں نے کہا۔ لڑکے کے پاس جتنے پیسے تھے سب دے کر اس نے بلّی کے بچّے کو لے لیا اور اس کو گود میں اٹھائے واپس گھر آیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے روٹی؟”

    "روٹی تو نہیں لایا۔ بلّی کا بچّہ لایا ہوں۔” لڑکے نے جواب دیا۔ "ارے کیا کہہ رہے ہو، بیٹے! یہ تم نے کیا کیا؟” ماں نے حیران اور اداس ہو کر کہا۔

    لڑکے نے سارا حال اپنی ماں کو سنانے کے بعد کہا: "ماں! کوئی بات نہیں۔ ایک دن روٹی کھائے بغیر ہی رہ لیں گے۔” دوسرے دن ماں نے لڑکے کو پھر کچھ پیسے دے کر قصائی کی دکان پر بھیجا۔ راستے میں سڑک پر لڑکے نے دیکھا کہ کچھ لڑکے ایک پلّے کو پتھروں سے مار رہے ہیں۔ لڑکے کو اس پلّے پر رحم آ گیا اور اس نے لڑکوں سے پوچھا: "اے لڑکو! اس پلّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” لڑکوں نے جواب دیا۔ لڑکے نے اپنے ہاتھ کے سارے پیسے ان کو دے دیے اور پلّے کو لے کر گھر واپس آ گیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے گوشت؟”

    لڑکے نے کہا: "ماں! آپ ناراض نہ ہوں۔ آپ نے جو پیسے دیے تھے، ان کو دے کر میں یہ پلّا لایا ہوں۔”

    "ارے بیٹے!” ماں نے اداس ہو کر کہا۔ "ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ میں نے جانے کتنی مشکلوں سے وہ پیسے کمائے تھے۔ تم ان سے پلّا خرید لائے۔ بھلا یہ ہمارے کس کام کا؟ اور پھر اس کو کھلانے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں۔”

    لڑکے نے جواب دیا: "ماں کوئی بات نہیں۔ ہم ایک دن گوشت کے بغیر جی لیں گے۔”

    تیسرے دن پھر ماں نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دیے اور اسے تیل لانے کے لیے بازار بھیجا۔ وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ لڑکے چوہے کے ایک بچّے کو جو چوہے دان میں پھنس گیا تھا، ستا رہے تھے۔ اس کو چوہے کے بچّے پر رحم آ گیا۔ اس نے اپنے سارے پیسے دے کر اس کو لے لیا اور لیے ہوئے گھر واپس آیا۔

    ماں نے پوچھا: بیٹے! تیل لے آئے؟” تو اس نے بتایا کہ کس طرح اسے تیل کے بجائے چوہے کے بچّے کو لینا پڑا۔ ماں بیٹے سے بہت پیار کرتی تھی۔ اس لیے اس بار بھی اس نے بیٹے کو برا بھلا نہ کہا۔ بس ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔

    بہت دن گزر گئے۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ پلّا کتّا بن گیا، بلّی کا بچہ بڑا ہو کر بلّی بن گیا اور چوہے کا بچّہ بھی ایک اچھا خاصا چوہا بن گیا۔

    ایک دن نوجوان نے دریا میں مچھلی پکڑ لی۔ اس نے مچھلی کو کاٹا اور اس کی آنتیں نکال کر کتّے کے آگے پھینک دیں۔ کتّا آنتوں کو کھانے لگا تو اچانک ان میں سے ایک چھوٹا سا پتّھر مل گیا جو سورج کی مانند چمک رہا تھا۔

    نوجوان نے اس پتّھر کو دیکھا تو خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ کیوں کہ وہ ایک جادو کا پتھر تھا جس کے متعلق نوجوان نے لوگوں سے سن رکھا تھا۔ اس نے پتّھر کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھا: "اے جادو کے پتھر! مجھے کھانا کھلا!”

    یہ کہہ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ پلک جھپکتے میں اس کے سامنے ایک بیش قیمت دستر خوان پر ایسے انوکھے اور لذیذ کھانے چنے ہوئے تھے جن کو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ پھر وہ دوڑ کر گھر آیا اور وہ جادو کا پتھر اپنی ماں کو دکھایا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ اسی دن سے ماں اور بیٹا دونوں بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    ایک دن نوجوان شہر گیا۔ وہاں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک نہایت حسین جوان لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی نوجوان کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اس نے اس سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنا یہ ارادہ ماں کو بتایا۔

    "واہ ! تم بھی کیا باتیں کرتے ہو!” ماں نے حیرت سے کہا۔ "تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ لڑکی خود بادشاہ سلامت کی بیٹی ہے۔ نہ بابا! میں پیغام لے کر بادشاہ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔”

    لیکن نوجوان اصرار کرتا رہا اور آخرکار ماں مجبوراً راضی ہو گئی۔ اس نے کہا: "اچھی بات ہے۔ کہتے ہو تو چلی جاؤں گی، لیکن اتنا یاد رکھنا کہ بادشاہ کے محل سے آج تک کبھی کسی کو سکھ نہیں ملا۔”

    رات کے وقت ماں شاہی محل تک پہنچ گئی اور محل کے دروازے کے سامنے کی سڑک پر جھاڑو دے کر اس کی صفائی کر دی۔

    صبح کو بادشاہ محل سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ دروازے کے سامنے کی ساری زمیں صاف ستھری ہو گئی ہے۔ اگلے دن صبح پھر اس نے دیکھا تو یہی حال تھا۔ اس نے زیادہ تعجّب ہوا اور اس نے رات کو دروازے کے سامنے پہرے دار کھڑے کر دیے۔

    تیسرے دن صبح سویرے پہرے دار ایک عورت کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ بادشاہ نے عورت سے پوچھا: "بتاؤ تم روز رات کو میرے محل کے دروازے کے سامنے جھاڑو کیوں دیتی ہو؟”

    عورت نے کہا: "میں ایک غریب بیوہ ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے۔ میں آپ کی بیٹی سے اس کی شادی کی خواہش لے کر آئی تھی، لیکن آپ کے پاس یوں چلے آنے کی مجھے جرات نہیں ہوئی۔ اور پھر آپ کے پہرے دار بھی تو آنے نہ دیتے۔”

    کسی غریب عورت کی یہ گستاخی بھلا بادشاہ کیسے برداشت کرتا۔ اس نے غصّے میں آ کر حکم دیا کہ عورت کو قتل کر دیا جائے، لیکن اس کے دائیں والے وزیر نے کہا: "بادشاہ عالم! اس بیچاری عورت کو قتل کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اس کو کوئی ایسا کام بتائیے جس کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ ہو۔ بس پھر یہ خود ہی محل میں آنا بند کر دے گی۔”

    وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے عورت سے کہا: "جاؤ جا کر اپنے بیٹے سے کہنا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کے لیے چالیس اونٹوں پر سونا لاد کر لائے۔”

    "ہم بیچارے اتنا سونا کہاں سے لائیں گے؟” عورت نے اداس ہو کر سوچا اور محل سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر لوٹ کر اس نے بادشاہ کی شرط اپنے بیٹے کو بتائی تو اس نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔”

    اس نے جادو کے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس سے کچھ کہا۔ بس پھر کیا تھا، صبح ہوتے ہیں غریب بیوہ کی جھونپڑی کے سامنے سونے سے لدے ہوئے چالیس اونٹ کہیں سے آ کر کھڑے ہو گئے۔

    نوجوان نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ ان چالیس اونٹوں کو بادشاہ کے پاس لے جائیں۔” ماں کو بڑا تعجب ہوا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر ان چالیس اونٹوں کو ہانکتی ہوئی بادشاہ کے پاس لے گئی۔

    بادشاہ کو بھی بہت تعجّب ہوا، لیکن اس نے فوراً ہی ایک اور حکم صادر کر دیا۔ اس نے عورت سے کہا: "اپنے بیٹے سے جا کر کہنا کہ وہ اپنی دلہن کے لیے ایک محل بنوائے جو سارے کا سارا خالص سونے کا ہو۔ تب ہی شادی بیاہ کی بات ہو سکتی ہے۔”

    ماں اور زیادہ اداس ہو گئی اور گھر جا کر بادشاہ کی نئی فرمائش اپنے بیٹے کو سنائی۔ نوجوان نے ماں کی باتیں چپ چاپ سن لیں اور پھر اس سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔ خالص سونے کا محل بھی بن جائے گا۔”

    صبح سویرے دریا کے کنارے ایک عالی شان محل کھڑا ہوگیا جو سارے کا سارا خالص سونے کا تھا۔ ایسا محل اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

    ماں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا: "بادشاہ عالم لیجیے محل تیار ہے۔ ذرا باہر چل کر اس کو دیکھیے تو۔”

    بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ باہر آیا اور محل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اب تو اس کو ٹال مٹول کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے غریب نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔

    بادشاہ کے محل میں ایک چڑیل رہتی تھی۔ اس نے راز معلوم کرنے کا عہد کیا کہ ایک غریب نے راتوں رات ایسا عالی شان محل کیسے بنوا لیا، وہ بھی سونے کا۔ یہ عہد کر کے وہ مزاج پرسی کے بہانے شہزادی کے پاس آئی اور اس کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ اپنے شوہر سے کسی طرح یہ راز معلوم کرے۔ چناں چہ اپنی بیوی کے اصرار پر نوجوان نے بتایا!

    "میرے پاس جادو کا ایک پتھر ہے۔ اس کی مدد سے میں جو کچھ چاہوں حاصل کر سکتا ہوں۔”
    "تم اس جادو کے پتھر کو کہاں رکھتے ہو؟” بیوی نے پوچھا۔
    "میں اس کو اپنے منھ میں زبان کے نیچے رکھتا ہوں۔” نوجوان نے جواب دیا۔

    اگلے ہی دن شہزادی نے یہ سب باتیں چڑیل کو بتا دیں۔ اس روز رات کو نوجوان گہری نیند سو گیا تو چڑیل نے آ کر آہستہ سے اس کے منھ سے جادو کا پتھر نکال لیا اور فوراً اس کو حکم دیا۔ "اے جادو کے پتھر! سونے کے محل کو شہزادی کے ساتھ ہی بادشاہ کے باغ میں منتقل کر دو اور غریب نوجوان پہلے جہاں تھا اسے وہی پہنچا دو۔”

    ایک ہی لمحہ بعد سونے کا محل بادشاہ کے باغ میں کھڑا تھا۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ نہ محل ہے، نہ شہزادی اور وہ خود اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے اندر پڑا ہوا ہے۔ پاس ہی اس کی ماں بیٹھی رو رہی ہے اور ایک کونے میں کتّا، بلّی اور چوہا اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

    "ہائے میری بدقسمتی!” نوجوان مایوس ہو کر کہہ اٹھا۔ "جادو کا پتھر گم ہو گیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کتّے، بلّی اور چوہے کو نوجوان پر رحم آ گیا۔

    ان میں سے ہر ایک اپنے دل میں سوچنے لگا کہ اب آخر کیا کیا جائے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کتّا بھونک اٹھا، بلی میاؤں میاؤں کر اٹھی، چوہا چیں چیں کرنے لگا۔ وہ تینوں دوڑتے ہوئے جھونپڑی سے باہر نکلے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

    وہ تینوں تمام دن برابر دوڑتے رہے اور شام ہوتے ہوتے بادشاہ کے باغ تک پہنچے۔ انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دیوار کے اس طرف نوجوان کا سنہرا محل چمک رہا تھا۔ "اب ہم کو کسی طرح باغ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔” کتّے، بلّی اور چوہے تینوں نے آپس میں طے کیا۔

    لیکن باغ کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ ان کو پھاند کر اندر جانا ناممکن تھا۔ سب دروازوں پر اندر سے مضبوط تالے لگے تھے۔

    تینوں دیوار میں کوئی سوراخ تلاش کرنے لگے۔ سوراخ نہ ملا تو وہ تینوں مل کر دیوار کے نیچے زمیں میں ایک سوراخ بنانے لگے۔ سب سے پہلے چوہے نے اپنے پنجے کام میں لگا لیے۔ پھر بلّی، اور آخر میں کتّا اس کی جگہ کام میں لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرنگ تیار ہو گئی۔

    پہلے چوہا سوراخ سے ہو کر اندر گیا۔ پھر بلّی بھی اندر چلی گئی۔ کتّا باہر پہرہ دینے لگا۔

    بلّی اور چوہا دونوں سارے محل میں دوڑتے پھرے اور بالآخر اس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں شہزادی سوئی ہوئی تھی اور پاس ہی چڑیل پڑی سو رہی تھی، جس نے اپنے ہونٹ زور سے بھینچ رکھے تھے۔ عقل مند چوہا فوراً سمجھ گیا کہ جادو کے پتھر کو اس نے اپنے منھ میں زبان تلے دبا رکھا ہے۔

    چوہا دبے پاؤں جا کر چڑیل کی چھاتی پر چڑھ گیا اور اپنی دُم کی نوک سے اس کی ناک میں گدگدی کرنے لگا۔ چڑیل نے اپنا منھ کھول کر ایک چھینک ماری اور جادو کا پتھر اچھل کر فرش پر گر پڑا۔ بلّی نے فوراً اس کو منھ میں اٹھا لیا اور جب تک چڑیل ہوش سنبھالتی بلّی اور چوہا دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہوئے سوراخ کے راستے باہر سڑک پر آ گئے جہاں کتّا ان کا انتظار کر رہا تھا، کتّے نے فوراً جادو کا پتھر بلّی سے لے کر اپنے منھ میں دبا لیا اور تینوں آگے دوڑ پڑے۔

    ادھر محل میں کھلبلی مچ گئی۔ سب "پکڑو! پکڑو!” کر کے چیخنے لگے۔ چور کی تلاش ہونے لگی، لیکن انھیں یہ کیا معلوم تھا کہ جادو کا پتّھر کسی کتّے کے منھ میں پڑا ہوا ہے۔

    کتا، بلّی اور چوہا تینوں دوڑتے ہوئے تھوڑی دیر میں دریا کے کنارے پہنچے اور آپس میں اس بات پر بحث کرنے لگے کہ جادو کے پتّھر کو اس پار کون لے جائے؟

    بلّی کہتی تھی: "پتھر کو اس پار میں لے جاؤں گی۔”

    کتا کہتا تھا: "نہیں، تمھیں تو تیرنا بھی نہیں آتا، کہیں اس کو لیے ڈوب ہی نہ جاؤ۔

    چوہے کی بھی یہی خواہش تھی کہ جادو کے پتّھر کو اُس پار میں لے جاؤں۔ تینوں بہت دیر تک بحث کرتے رہے۔ کتّا اپنی بات پر اڑا رہا اور پتّھر اسی کے پاس رہ گیا۔ تینوں تیرتے ہوئے دریا پار کرنے لگے۔ اچانک کتّے نے پانی میں اپنا عکس دیکھ لیا اور کوئی دوسرا کتّا خیال کر کے زور سے جو بھونکا تو جادو کا پتھر اس کے منھ سے نکل کر پانی میں گر گیا۔ اسی وقت اچانک کہیں سے ایک بڑی سی مچھلی نکلی اور وہ پتھر کو نگل گئی۔

    "میں نے کہا تھا نا کہ پتھر کو تم ہر گز نہ لے جانا۔” بلّی نے مایوس ہو کر کتّے سے کہا۔ اب وہ تینوں پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ اپنے مالک کے پاس خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتے تھے۔ نزدیک میں ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ وہ تینوں حیران و پریشان چلتے ہوئے اس بستی میں گئے۔ تینوں کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔

    خوش قسمتی سے ایک مچھیرے نے ایک بڑی مچھلی پکڑ لی تھی۔ اس نے مچھلی کو کاٹ کر اس کی آنتیں پھینک دیں۔ کتا بلّی اور چوہا تینوں آنتوں کو کھانے لگے۔

    اچانک بلّی خوشی سے میاؤں کر اٹھی۔ معلوم ہوا کہ مچھلی کی آنتوں میں اس کو اچانک کوئی چمکیلا پتّھر مل گیا ہے۔ تینوں نے اس کو ذرا غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ انھیں کا جادو کا پتھر ہے، تینوں خوشی سے اچھلنے لگے۔

    بلّی نے پتھر کو اپنے منھ میں لے لیا اور تینوں اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ گھر پہنچتے ہی بلّی نے جادو کے پتھر کو نوجوان کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ نوجوان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اس نے کتّے، بلّی اور چوہے تینوں سے کہا:

    "تم لوگوں کا احسان میں جیتے جی نہیں بھولوں گا۔”

    "اور ہم جیتے جی تمھاری خدمت کرنے کو تیار ہیں، کیوں کہ کبھی تم ہی نے ہماری جانیں بچائی تھیں۔” کتّے، بلّی اور چوہے نے ایک آواز میں اس کو جواب دیا۔

    نوجوان نے جوش میں آ کر کہا: "ابھی میں پتّھر کو حکم دیتا ہوں، وہ سونے کا محل پھر سے آ جائے گا۔”

    ماں نے بیٹے کو روکتے ہوئے کہا: "رہنے دو بیٹے۔ سونے کے محل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔” تب نوجوان نے جادو کے پتھر سے کہا:

    "محل کو مٹا دو۔” تو بس پھر کیا تھا، نہ محل رہا، نہ چڑیل رہی اور نہ ہی بادشاہ اور اس کی بیٹی رہی۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔

    لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بعد نوجوان نے ایک مالی کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہ لوگ بڑے سکھ اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    (مصنّف: نامعلوم)