Tag: ادب اطفال

  • بولتا درخت

    بولتا درخت

    ٹن۔ٹن۔ٹن۔ٹن….ٹن ٹن۔ اسکول میں چھٹّی کا گھنٹہ بجا۔ استادوں نے اپنی اپنی جماعت کے بچّوں کو قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ بچّوں نے گھنٹے کی آواز کے ساتھ ساتھ استادوں کے حکم کو انتہائی خوشی سے سنا اور جھٹ پٹ مُنّے منّے ہاتھوں اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکا کر لائنوں میں جا لگے۔ قومی ترانہ گایا گیا اور بچّے پرنسپل کو خدا حافظ کہہ کر قطار در قطار اسکول سے باہر نکلنے لگے۔

    پھاٹک سے باہر کچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ، دہی بڑے، مونگ پھلی، امرود کے کچالو۔ فالسے۔‘‘ کی آوازیں لگا رہے ہیں۔ بچّے ان کے ٹھیلوں پر ٹوٹ پڑے۔ ننّھا بختیار بھی ایک ہاتھ سے اپنا بستہ، دوسرے سے نیکر سنبھالے ایک ٹھیلے کے پاس رک گیا۔ جیب سے اِکَنّی نکالی اور ٹھیلے والے سے انگلی کے اشارے سے کہا۔

    ’ایک آنہ کے فالسے دے دو۔‘ فالسے والے نے جو لہک لہک کر آواز لگانے میں مگن تھا بختیار کے ہاتھ سے اِکَنّی لے اپنی گلک میں ڈالی اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیا میں فالسے ڈالے۔ ان پر نمک چھڑکا۔ دو چار دفعہ پڑیا کو اچھالا اور بختیار کو’’لو مُنّے‘‘ کہہ کر پکڑا دی اور پھر گانے میں مصروف ہو گیا۔ وہ گا رہا تھا:۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔‘‘

    بختیار کو اس کی امّی اسکول کے لیے ایک آنہ روز دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے تو کوئی صاف ستھری چیز گھر پر لا کر کھا لے، ورنہ پیسے جمع کر کے اپنے لیے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خرید لے۔

    ننّھا بختیار اسی اِکَنّی کے فالسے کی پڑیا مٹھی میں دبا گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جا کر کتابوں کا بستہ مقررہ جگہ پر رکھا اور فالسوں کی پڑیا ماں کو دی، اپنی یونیفارم اور جوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے ماں سے کہا۔

    ’’امّی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنی مزے دار ہیں نا؟

    امّی نے کہا۔’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھر سے نمک چھڑکا۔ بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے۔ نہ جانے صاف تھے یا نہیں۔ کھانا کھا کر میں بھی دو چار کھالوں گی، باقی تم کھانا۔ فالسے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں صحّت کے لیے، مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہارا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیر دینا۔ تمہارے گھر میں فالسے ہی فالسے ہو جائیں گے۔‘‘

    بختیار کھانا ختم کر کے فالسے کھاتا جائے اور گٹھلیاں جمع کرتا جائے اور پھر اس نے وہ گٹھلیاں اپنی کیاری میں ڈال دیں۔

    کچھ دنوں بعدایک ننّھا سا پودا زمین سے نکلا۔ ننّھا بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑ کر امّی کو پکڑ لایا۔’’امی، دیکھیے میرے فالسے کا پودا نکلا۔‘‘ اسے دھیان سے پانی دیا کرو۔ کبھی کبھی زمین کی گڑائی کرتے رہا کرو۔ میں کھاد اور میٹھی مٹّی منگا کر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھر تمہارا یہ ننّھا پودا جلدی سے بڑا اور پھل دار درخت بن جائے گا۔‘‘

    ننّھا بختیار ہر روز اسکول سے آ کر دوپہر کو آرام کرنے کے بعد اپنے باغ میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرتا اور فالسے کی پتیوں کو محبت سے چومتا اور اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔

    ایک روز بختیار نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان پھولوں کا ذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔ دوستوں کا بھی دیکھنے کو جی چاہا۔ وہ بختیار کے ساتھ اس کے گھر آئے اور پھول دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ پھول توڑ کر گھر لے جائیں اور خوش ہوں مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آواز آئی جیسے کوئی درد بھری آواز سے کہہ رہا ہو’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    بچّوں نے ڈر کے مارے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہا ہو، مگر جب انہیں کوئی نظر نہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھر وہی آواز آئی۔ ’’ہائے ظالم ، مارڈالا‘‘

    اب تو سب بچّے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کو بھاگے۔ بیچارا بختیار اپنے گھر کے اندر بھاگا اور جا کر اپنی امّی کو سب حال بتا دیا۔

    امّی باہر آئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جو بچّوں کو ڈرا رہا ہے۔ امّی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کو اپنے پھولوں کے توڑے جانے کا درد ہے۔ انہوں نے بختیار کو سمجھایا ’’بیٹا یہ بھوت کی آواز نہیں ہے بلکہ درخت کہہ رہا ہے کہ میرے پھول نہ توڑو۔ ان کے توڑنے سے مجھے دکھ ہوگا، کیوں کہ پھولوں سے فالسے بنیں گے اور اگر انہیں توڑ لو گے تو میں پھول دار کیسے بنوں گا۔‘‘

    بختیار کو فالسے کے درخت سے بہت سے محبت تھی۔ فوراً ایک اچھے بچّے کی طرح اپنی ماں کی بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے ان پھولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔

    تھوڑے دنوں بعد اس درخت میں ہری ہری گٹھلیاں سی لگی ہوئی دیکھنے میں آئیں تو بختیار سمجھا کہ یہی فالسے ہیں۔ اس نے اسکول میں اپنے دوستوں کو بتایا کہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آرہے ہیں۔ اس کے دوستوں کو وہ پچھلا بھوت کا واقعہ کچھ یاد تو تھا مگر فالسے کھانے کے شوق میں اسکول سے واپسی پر وہ پھر بختیار کے ساتھ اس کے گھر پر آ ہی دھمکے۔ ہاتھ بڑھا کر فالسے توڑنا ہی چاہتے تھے کہ پھر وہی دردناک آواز سنائی دی۔

    ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘ اوہو! بچوں کو اب پوری طرح یقین ہوگیا کہ بختیار کے فالسے کا درخت بھوتوں کا اڈّا ہے۔ بھاگے سب کے سب اور اپنے اپنے گھر جا کر ہی دم لیا۔

    ننھا بختیار یہ تماشا دیکھ کر باہر آیا۔ ’’امی سچ کہہ رہا ہوں، فالسے کے درخت کے اندر بھوت رہتا ہے۔ ابھی پھر اس میں سے آواز آئی تھی۔‘‘

    امی اپنی ہنسی روکتی جائیں اور پتّوں کو ہٹا کر دیکھنا چاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔ امّی کا ہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آگئیں۔ پھر اس میں سے آواز آئی ’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘

    امّی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں۔’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کا کچّا پھل توڑا جائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اس لیے یہ بچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘ ننھا بختیار کچھ سمجھا، کچھ نہ سمجھا، مگر چپ ضرور ہو گیا۔

    کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے بختیار نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آ رہا ہے۔ ہری ہری پتّیوں کی آڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اور پھلوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ بس اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اور خود بھی کھاؤں گا۔

    اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لایا۔ بچّے کہنے لگے۔’’بھئی تمہارا درخت تو بھوتوں کا اڈّا ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے؟‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھا کے فالسے توڑنے لگے، مگر اس بار درخت میں سے بڑی پیار بھری دھیمی دھیمی آواز آرہی تھی۔

    ’’آؤ بچّو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔ آؤ بچو…….‘‘ اور ڈالیاں تھیں کہ بچوں کے آگے محبت سے بڑھی آتی تھیں، جھکی جاتی تھیں۔

    اس روز سب بچّوں اور ننّھے بختیار نے خوب مزے لے لے کر اپنے درخت سے فالسے توڑ توڑ کر کھائے اور تھوڑے تھوڑے فالسے جیبوں میں بھر کر اپنے اپنے گھر لے گئے۔

    راستہ بھر ایک دوسرے سے کہتے تھے۔ ’’بختیار کا درخت بولتا درخت ہے، مگر ہے بڑے کام کا، ہم بھی اس کے فالسے کے بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔‘‘

  • ایک حماقت ایک شرارت

    ایک حماقت ایک شرارت

    معلوم نہیں کہ بچپن کا دور ایسا ہی سہانا، حسین، دل فریب اور سنہرا ہوتا ہے یا وقت کی دبیز چادر کے جھروکے سے ایسا لگتا ہے۔

    اب میرے سامنے میرے خاندان کی تیسری نسل کے شگوفے پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج کل کے بچوں کا بچپن اتنا پُر رونق، رنگین اور پُر جوش نہیں جیسا ہمارا بچپن تھا۔ دو تین گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر کارٹون دیکھنا، ویڈیو گیم، موبائل فون اور انٹرنیٹ میں غرق بچوں کی دنیا ایک کمرہ تک محدود ہوتی ہے جب کہ ہمارے کھیلوں اور شرارتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

    اکثر ہمارے کھیلوں کے شور اور ہنگاموں سے گھر والے اور کبھی کبھی اہلِ محلّہ بھی عاجز رہتے تھے۔

    ہمارے بچپن کے محبوب کھیل آنکھ مچولی، چور سپاہی، اندھا بھینسا، اونچ نیچ اور کوڑا جمال شاہی ہوتے تھے۔ جب کچھ اور بڑے ہوئے تو گلی ڈنڈا، کبڈی، گیند تڑی، گیند بلا، فٹ بال اور پتنگ بازی کی طرف راغب ہوئے۔ لُو کے گرم تھپیڑوں اور دانت کٹکٹانے والی سردی میں بھی ہم اسی طرح ان کھیلوں میں محو رہتے۔

    بچپن کی یادوں کی کہکشاں سے ایک شرارت کا احوال بھی سن لیں۔

    ہمارے جگری دوستوں میں ایک یونس کپاڈیا تھے جن کو ہم پیار سے کباڑیا کہتے تھے کیوں کہ حلیہ سے وہ لگتے بھی ایسے ہی تھے۔ کباڑیا کا شمار محلّے کے شریر ترین لڑکوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہر روز کسی نئی شرارت کا پروگرام لے کر آتے اور کبھی کبھی ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتے۔ اکثر وہ تو اپنی چالاکی کی وجہ سے بچ کر نکل جاتے اور ہم پھنس جاتے۔

    ایک بار ہمارا دل پلاؤ کھانے کے لیے بہت مچل رہا تھا۔ دبی دبی زبان سے اماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے خوب صورتی سے ٹال دیا۔ ایک دن دوپہر کو گلی ڈنڈا کھیلنے کے بعد ہم اور کباڑیا نیم کے نیچے بیٹھے سستا رہے تھے۔ جب ہم نے ان سے پلاؤکھانے کی خواہش کا ذکر کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں کچھ دیر ہونٹ سکوڑ کر سوچتے رہے پھر بولے۔

    ’’یار ایک ترکیب ہے۔ تم کہہ رہے تھے کہ جب تمہارے ماموں موتی میاں حسن پور سے آتے ہیں تو تمہاری اماں پلاؤ ضرور بناتی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں وہ تو ہے لیکن فی الحال تو ماموں کے آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔

    ’’یار سنو تو۔ تم تو گاؤں کے گاؤدی ہو۔ ایسا کرو کہ ماموں کی طرف سے اپنے گھر کے پتے پر ایک خط لکھو جس میں یہ اطلاع ہو کہ تمہارے ماموں فلاں فلاں تاریخ کو تمہارے گھر پہنچ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی آمد کی خبر سن کر تمہاری امی ان کی پسند کے کھانے پکائیں گی۔ ماموں نے تو آنا نہیں ہے۔ کچھ دیر انتظار کر کے گھر کے لوگ ہی وہ کھانا کھائیں گے۔‘‘

    ’’یار کباڑیا! بات تو پتے کی ہے لیکن اگر پول کھل گیا تو شامت آجائے گی۔‘‘ ہم نے خدشہ ظاہر کیا۔

    ’’اماں کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ دن بعد یہ بات پرانی ہوجائے گی۔ تمہارے ماموں کون سے روز روز آتے ہیں لیکن دوست! ہمیں بھی اس موقع پر یاد رکھنا۔‘‘ کباڑیا مسکرائے۔

    قصہ مختصر کہ دو پیسے کا پوسٹ کارڈ خریدا گیا۔ کباڑیا کی بیٹھک میں کواڑ بند کر کے ہم نے کانپتی انگلیوں سے قلم پکڑا۔ کباڑیا نے ڈانٹتے ہوئے قلم لے لیا۔

    ’’یار تم بالکل عقل سے پیدل ہو۔ ایک تو تمہارا خط اتنا خراب ہے کہ تم خود نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے علاوہ گھر میں ہر کوئی تمہاری تحریر پہچانتا ہے۔ فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ یوں خط لکھنے کے فرائض کباڑیا نے انجام دیے۔

    خط ماموں کی طرف سے ہماری اماں کے نام تھا جس میں یہ اطلاع تھی کہ ماموں ہفتہ کی شام تشریف لارہے ہیں۔ جب ہم وہ خط چوکی چوراہے کے لیٹر بکس میں پوسٹ کرنے جارہے تھے تو ڈر کے مارے پیر کانپ رہے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ پورا شہر ہمیں گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ بہت انتظار کے بعد جمعرات کے دن وہ تاریخی خط پہنچ گیا۔

    ہم نے دیکھا کہ دوسری ڈاک کے ساتھ وہ پوسٹ کارڈ ہمارے والد صاحب کے سرہانے رکھا تھا۔ خط پڑھنے کے بعد ہمارے والد صاحب نے ہماری اماں سے کہا:’’ارے بھئی سنتی نہیں ہو (قبلہ والد صاحب ہماری والدہ کو ’’سنتی نہیں ہو‘‘ یا ’’کہاں گئیں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے) ہفتہ کی شام کو موتی میاں آرہے ہیں۔‘‘

    امّاں بہت خوش ہوئیں۔ ابھی تک ہماری اسکیم کام یاب جارہی تھی۔ ہفتہ کے دن تیسرے پہر پلاؤ کی یخنی چولھے پر چڑھ گئی۔ شامی کباب کے لیے چنے کی دال اور قیمہ سل پر پسنا شروع ہوا۔ کھانے کی خوش بُو سے شام ہی سے پیٹ میں چوہے دوڑنا شروع ہوگئے۔

    شام چار بجے ایک ایسا بم گرا کہ ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہم سائیکل پر دہی لے کر آرہے تھے۔ دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک سائیکل رکشے سے ہمارے موتی ماموں اپنا مخصوص خاکی رنگ کا تھیلا لیے اتر رہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے گلے سے لگایا۔ ہماری ایسی سٹی گم تھی کہ ہمیں ان کو سلام کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ ماموں کے خط کا ذکر ضرور آئے گا اور ہماری شرافت کا سارا پھول کھل جائے گا۔

    ماموں کے گھر میں آتے ہی ہم ان سے چپک گئے کہ جیسے ہی خط کا ذکر آئے ہم بچاؤ کی کچھ ترکیب کریں۔ دو تین گھنٹے خیریت سے گزر گئے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہم سب لوگ آنگن میں بیٹھے تھے۔ ماموں محفل سجائے شکار کے فرضی قصے سنا رہے تھے۔ ہماری امّاں ادھر سے گزریں اور کہنے لگیں۔

    ’’ارے بھیا! تُو نے تو لکھا۔۔۔‘‘ اتنا سنتے ہی ہم پیٹ دبا کر ایسے کراہے کہ سب گھبرا کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ ہم پیٹ پکڑ کرپلنگ پر لیٹ گئے۔ اماں کام چھوڑ کر ہماری طرف لپکیں۔ ہمیں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اور ڈاکٹر صاحب نے وہی مخصوص کڑوا لال شربت دے کر چکنی غذا سے پرہیز کی تاکید کردی۔

    رات کو سب لوگ دسترخوان کے گرد بیٹھے پلاؤ اور شامی کباب کے مزے لے رہے تھے اور ہم چمچے سے دلیا کھاتے ہوئے حسرت سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ گلی میں سے کباڑیا کی مخصوص سیٹی کی آواز آرہی تھی۔ شاید وہ بھی بھوک سے تلملا رہے تھے۔

  • بارہ بہنیں

    بارہ بہنیں

    ایک تھا بادشاہ، جس کی تھیں بارہ لڑکیاں، سب کی سب بڑی خوب صورت تھیں۔ سب ایک ہی ساتھ رہتیں اور ایک ہی کمرے میں سوتیں۔ جب لڑکیاں سو جاتیں تو بادشاہ آکر باہر سے کمرے کا دروازہ بند کر دیتا۔ بادشاہ ڈرتا تھا کہ لڑکیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اس لیے وہ ہر رات کو دروازہ بند کر دیتا تھا اور صبح سویرے ہی کھول جاتا۔

    ایک دن صبح کو جب بادشاہ دروازہ کھولنے آیا تو یہ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا کہ بارھوں لڑکیوں کے جوتے ایک قطار میں رکھے ہوئے ہیں، ہر جوتے کی ایڑی گھسی ہوئی ہے۔ جوتے گرد میں اٹے ہوئے ہیں۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ لڑکیاں ضرور رات کو کہیں گئی تھیں مگر لڑکیاں کیوں کر باہر گئیں، یہ اس کی سمجھ میں نہ آیا اور لڑکیوں سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔

    آخر اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی معلوم کرے گا کہ شہزادیاں رات کو کہاں جاتی ہیں، اس کی شادی اس شہزادی سے کی جائے گی جسے وہ پسند کرے گا۔ راج پاٹ بھی اسی کو دے دیا جائے گا، مگر شرط یہ ہے کہ تین دن کے اندر معلوم کر کے بتلائے، ورنہ پھانسی دے دی جائے گی۔

    بچوں کی مزید کہانیاں

    کچھ دنوں کے بعد ایک شہزادہ آیا اور اپنے آپ کو اس کام کے لیے پیش کیا۔ بادشاہ نے اس کا استقبال بڑی دھوم دھام سے کیا۔ شہزادیوں کا کمرہ دکھلایا۔ کمرے کے پاس ہی شہزادے کے سونے اور رہنے کا انتظام کیا تاکہ نزدیک سے شہزادیوں کی نگرانی اچھی طرح کرسکے۔

    رات کو شہزادیوں کے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا تاکہ شہزادہ ان کے سونے جاگنے کو اچھی طرح دیکھ سکے، لیکن ابھی تھوڑی ہی رات گئی تھی کہ شہزادے کی آنکھوں میں نیند بھر آئی اور وہ بے خبر ہوکر سو رہا۔

    شہزادیاں ہر رات کی طرح اس رات بھی گھومنے گئیں۔ جب صبح سویرے بادشاہ آیا تو اس نے دیکھا کہ لڑکیوں کے جوتوں پر گرد پڑی ہوئی ہے اور ایڑیاں گھسی ہوئی ہیں۔

    بادشاہ نے شہزادہ سے پوچھا کہ’’بتلاؤ لڑکیاں کہاں گئی تھیں؟‘‘ وی کوئی جواب نہ دے سکا۔ دوسری اور تیسری رات کو بھی شہزادیاں گھومنے گئیں اور شہزادہ ہر رات سوتا رہا۔ آخر چوتھے دن شہزادے کو پھانسی دے دی گئی۔

    اس کے بعد بہت سے شہزادے آئے، مگر کوئی بھی یہ نہ معلوم کرسکا کہ شہزادیاں کب اور کہاں گھومنے جاتی ہیں۔

    ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب سپاہی سڑک سے گزر رہا تھا۔ اس نے بھی بادشاہ کا اعلان دیکھا۔ جی میں آیا کہ کسی طرح یہ بھید معلوم ہوجاتا تو زندگی بڑے آرام سے گزرتی، لیکن یہ بھید کیسے معلوم ہو یہ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اسی سوچ میں چلا جا رہا تھا کہ ایک بڑھیا ملی، بڑھیا نے پوچھا۔ ’’سپاہی سپاہی کہاں جارہے ہو؟‘‘

    سپاہی نے کہا۔ ’’یہ تو مجھ کو بھی نہیں معلوم، مگر دل یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح شہزادیوں کے گھومنے کا بھید معلوم ہو جاتا تو بڑا اچھا ہوتا۔‘ بڑھیا نے کہا یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ بس تم ہمّت کر لو تو بیڑا پار ہے۔

    دیکھو رات کو کھانے کے بعد لڑکیاں شراب بھجوائیں گی، وہ نہ پینا، اس کے پینے سے بڑی گہری نیند آتی ہے۔ تم ہرگز ہرگز شراب مت پینا۔ بستر پر لیٹتے ہی سوتا ہوا بن جانا اور یہ ظاہر کرناکہ تم گہری نیند میں سو رہے ہو تاکہ شہزادیاں نڈر ہو کر گھومنے جاسکیں۔ یہ لبادہ بھی اپنے ساتھ لے جاؤ، اس میں خاص بات یہ ہے کہ جب تم اس کو اوڑھ لو گے تو تمہیں کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا اور تم سب کودیکھ سکتے ہو۔‘‘

    جب بڑھیا سب کچھ سمجھا چکی تو سپاہی کی ہمّت اور بڑھ گئی۔ وہ بادشاہ کے پاس خوش خوش گیا اور کہنے لگا میں معلوم کروں گا کہ شہزادیاں رات کو کہاں گھومنے جاتی ہیں۔ بادشاہ نے سپاہی کو عمدہ کپڑے پہنائے اور شہزادیوں کے کمرے کے پاس لے جا کراس کے سونے کا کمرہ بتلا دیا۔

    شام ہوتے ہی ایک شہزادی شراب کا پیالہ لیے ہوئے سپاہی کے پاس آئی اور ہنس کر پینے کو کہا۔ سپاہی نے اپنے حلق کے پاس ایک تھیلی باندھ رکھی تھی۔ سپاہی نے بڑی ہوشیاری سے شراب تھیلی میں انڈیل لی۔ چارپائی پر لیٹتے ہی گہری نیند میں سوتا ہوا بن گیا۔ شہزادیاں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔

    آدھی رات کے قریب شہزادیاں اٹھیں، کپڑے پہنے، بال سنوارے اور گھومنے جانے کے لیے تیار ہوگئیں۔ سپاہی اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شہزادیاں ہنستی ہوئیں کمرے سے باہر نکلیں اور گھومنے کے لیے جانے لگیں۔ سپاہی چپکے سے اٹھا۔ لبادہ اوڑھ کر شہزادیوں کے پیچھے ہولیا۔

    تھوڑی دور چلنے کے بعد سب سے چھوٹی شہزادی بولی،’’مجھے ڈر لگ رہا ہے، نہ جانے آج کیا بات ہے دل خوش نہیں۔‘‘

    بڑی شہزادی نے کہا۔ ’’تم بس یوں ہی ڈر رہی ہو۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر تمام شہزادیاں ہنستی ہوئی ایک باغ میں پہنچیں۔ باغ کے تمام درحت نہایت خوب صورتی سے برابر لگے ہوئے تھے۔ پتیاں چاندی کی طرح سفید تھیں۔ سپاہی نے ایک درخت سے چھوٹی سی شاخ توڑ لی۔ شاخ توڑنے سے آواز پیدا ہوئی۔ چھوٹی شہزادی سہم گئی اور دوسری بہنوں سے کہنے لگی ’’کیا تم لوگ یہ آواز نہیں سن رہی ہو۔ آج ضرور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ مجھے تو بڑا ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

    بڑی شہزادی نے پھر ہنس کر اس کی بات کو ٹالا اور کہا کہ کچھ نہیں بس تمہیں کچھ وہم ہوگیا ہے۔ چلتے چلتے شہزادیاں دوسرے باغ میں پہنچیں جہاں درختوں کی پتیاں سنہرے رنگ کی تھیں، باغ کے بیچ میں ایک خوب صورت چبوترا بنا ہوا تھا۔ سب شہزادیاں اس پر بیٹھ گئیں۔

    یہاں بارہ پیالے شربت کے بھرے ہوئے رکھے تھے۔ ہر ایک شہزادی نے ایک پیالہ پیا اور پھر آگے کی طرف چلیں۔ سپاہی نے یہاں بھی ایک ٹہنی توڑی اور ایک پیالہ اٹھاکر لبادہ میں رکھ لیا۔ چھوٹی شہزادی شاخ ٹوٹنے کی آواز پر پھر ڈری اور بڑی شہزادی نے پھر دلاسہ دیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد شہزادیاں ایک دریا کے کنارے پہنچیں۔ جہاں بارہ کشتیاں کنارے پر لگی ہوئی تھیں اور ہر ایک کشی میں ایک شہزادہ بیٹھا ہوا تھا۔ شہزادیاں ایک ایک کشتی میں بیٹھ گئیں اور دریا کے بیچ میں جاکر موجوں کا تماشا دیکھنے لگیں۔

    صبح ہوتے ہوتے شہزادیاں واپس آکر سو گئیں۔ بادشاہ نے صبح کو شہزادیوں کے گھومنے کا حال سپاہی سے پوچھا۔ سپاہی نے تفصیل سے تمام جگہیں بتلا دیں اور ثبوت کے طور پر درختوں کی شاخیں اور پیالہ پیش کردیا۔ بادشاہ نے لڑکیوں کوبلاکر پوچھا کہ ’’سپاہی جو کچھ کہہ رہا ہے ٹھیک ہے۔‘‘ لڑکیوں نے کہا ۔’’ہاں سچ ہے۔‘‘

    بادشاہ نے اپنا مقرر کیا ہوا انعام دینے کا اعلان کر دیا۔ سپاہی نے بڑی شہزادی کو پسند کیا۔ اس سے شادی کر دی گئی اور سپاہی کو سلطنت کا ولی عہد بنا دیا گیا۔

  • اردو ادب کے میرزا ادیب کی برسی

    اردو ادب کے میرزا ادیب کی برسی

    میرزا ادیب کا شمار اردو کے ان ادیبوں میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے نثری ادب کی متعدد اہم اور قابلِ ذکر و مقبول اصناف میں‌ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انھوں نے ناول، افسانے، ڈراما اور خاکہ نگاری کے علاوہ سفر نامے، سوانح، تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے، کئی کہانیوں اور مضامین کا ترجمہ کیا اور بچوں کے لیے کہانیاں‌ بھی لکھیں۔

    آج میرزا ادیب کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ لاہور میں 31 جولائی 1999 کو انتقال کر گئے تھے۔

    میرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا۔ 4 اپریل 1914 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے گریجویشن کیا، ادبی سفر کی ابتدا شاعری سے کی مگر جلد ہی نثر کی طرف مائل ہو گئے۔

    میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط کو بہت شہرت ملی جب کہ صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، متاعِ دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض اور ان کی خودنوشت سوانح بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1981 میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ انھوں نے رائٹرز گلڈ اور گریجویٹ فلم ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔

  • دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    کہتے ہیں کسی شہر سے نزدیک ایک گائوں میں دھوبی رہتا تھا جو قریبی ندی کے کنارے گھاٹ پر کپڑے دھوتا تھا۔ اس کے پاس کہیں سے ایک اچھی نسل کا کتا آگیا جو اسی کے ساتھ رہنے لگا۔ دھوبی صبح سویرے گھاٹ کا رخ کرتا اور کام ختم کر کے ہی لوٹتا۔ یہ اس کا برسوں سے معمول چلا آرہا تھا۔

    وہ کتا بڑا وفادار تھا اور دن رات اس کے گھر کی رکھوالی کرتا۔ جب صبح سویرے دھوبی گھاٹ پر چلا جاتا تو وہ اپنے مالک کی دہلیز پر جیسے اس کی واپسی کی راہ تکتے بیٹھا رہتا۔

    دھوبی کی بیوی روز گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا لیتی اور گھاٹ پر جانے لگتی تب کتا بھی اس کے ساتھ چل پڑتا، بیوی تو کھانا دے کر لوٹ آتی مگر کتا وہیں رک جاتا اور اپنے مالک کے ساتھ لوٹتا۔ یہ اس کی عادت بن گئی تھی۔

    دھوبی کی بیوی کھانا باندھتی تو ایک روٹی کتے کے لیے بھی ساتھ ہی باندھ دیا کرتی تھی کہ گھاٹ پر اس کا شوہر کتے کے آگے ڈال دے گا۔ اسے یقین تھا کہ جب وہ کھانا کھائے گا تو اس وقت کتا بھی تقاضا کرے گا۔

    دھوبی کی بیوی کھانا چھوڑ کر واپس آجاتی اور ادھر وہ بے زبان جانور گھاٹ پر اس انتظار میں رہتا کہ کب مالک روٹی نکالے اور اسے بھی دے۔ دھوبی کام سے فارغ ہو کر کھانا کھاتا، لیکن یہ سوچ کر کتے کو روٹی نہ ڈالتا کہ گھر پر دے دی گئی ہو گی۔

    دھوبی کتے کی بے چینی کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کتا کم زور ہونا شروع ہو گیا اور ایک روز مر گیا۔ گائوں والوں نے بڑا افسوس کیا۔ سب اس کی موت کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔

    ایک روز چند گاؤں والے جمع تھے کہ کتے کا ذکر نکلا کسی نے کچھ پوچھا، کسی نے کچھ، مگر ایک سیانے نے سوال کیا کہ اسے روٹی کتنی ڈالی جاتی تھی؟

    دھوبی نے بیوی کو بلایا کہ بتائو کتے کے آگے روٹی کتنی ڈالتی تھی؟ تب یہ راز کھلا کہ انجانے میں دھوبی سمجھتا رہا کہ گھر اور اس کی بیوی سمجھتی رہی کہ گھاٹ پر کتے کو روٹی مل رہی ہے۔ مگر ماجرا اس کے برعکس تھا۔

    یوں سب اس نتیجے پر پہنچے کہ کتے کی موت کا اصل سبب "بھوک اور فاقہ” ہے۔ تب کسی سیانے نے کہا:

    "یک در گیر و محکم گیر” (ایک در پکڑو اور مضبوط پکڑو) اور یوں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ "دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا”

    ARY News Urdu- انٹرٹینمنٹ، انفوٹینمنٹ میگزین