Tag: ادب لطیف

  • دسمبر 1971: جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی!

    دسمبر 1971: جب کراچی پر بم باری ہو رہی تھی!

    ایک زمانے میں یہ دستور تھا کہ امرا و رؤسا عمارت تعمیر کراتے تو اس کی ’نیو‘ میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق کوئی قیمتی چیز رکھ دیا کرتے تھے۔

    نواب واجد علی شاہ اپنی ایک منہ چڑھی بیگم، معشوق محل سے آزردہ ہوئے، تو اس کی حویلی ڈھا کر ایک نئی عمارت تعمیر کرائی۔ معشوق محل ذات کی ڈومنی تھی۔ اس نسبت سے اس کی تذلیل و تضحیک کے لیے نیو میں طبلہ سارنگی رکھوا دیے۔ میں نے اس کتاب کی بنیاد اپنی ذات پر رکھی ہے۔ جس سے ایک مدت سے آزردہ خاطر ہوں کہ ”پیشہ سمجھے تھے جسے ہوگئی وہ ذات اپنی“ کم و بیش 20 سال پرانی یادوں اور باتوں کی پہلی قسط 1972ء میں مکمل ہوگئی تھی۔

    یاد پڑتا ہے کہ اس کے دو باب دسمبر 1971ء میں موم بتی کی روشنی میں ان راتوں کو لکھے گئے، جب کراچی پر مسلسل بم باری ہو رہی تھی اور راکٹوں اور اک اک گنز کے گولوں نے آسمان پر آتشیں جال سا بُن رکھا تھا۔ ہماری تاریخ کا ایک خونچکاں باب رقم ہو رہا تھا۔ ہجومِ کار اور طبیعت کی بے لطفی نے تین سال تک نظرِ ثانی کی اجازت نہ دی۔ ستمبر 1975ء میں جب معدے سے خون آنے لگا اور ڈیڑھ مہینے تک نقل و حرکت بستر کے حدود اربعہ تک محدود ہوکر رہ گئی، تو بارے یک سو ہو کر زندگی کی نعمتوں کا شمار و شکر ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

    مسوّدے پر نظرِ ثانی کا مرحلہ بھی لیٹے لیٹے طے ہو گیا۔ اپنی تحریر میں کاٹ چھانٹ کرنے اور حشو و زوائد نکالنے کا مسئلہ بڑھا ٹیڑھا ہوتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی سرجن اپنا اپنڈکس آپ نکالنے کی کوشش کرے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”زر گزشت“ سے ماخوذ)

  • یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    پطرس بخاری نے اردو ادب کو انشائیوں کے ساتھ کئی خوب صورت تحریریں، تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم بھی دیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت مزاح نگاری ہے۔

    پطرس ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فقط انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت اور صدا کاری کے ساتھ انھیں ماہر براڈ کاسٹر بھی کہا جاتا ہے۔ آج اردو زبان و ادب کی اس ممتاز شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو ادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے خالی نہیں رہا اور ادیبوں نے اس میدان میں ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ شائستہ اور عمدہ شگفتہ نگاری کیا ہوتی ہے۔ پطرس انہی میں سے ایک تھے اور وہ ادیبوں کی جس کہکشاں میں شامل تھے، ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی تک کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    پطرس بخاری مشہور ماہرِ تعلیم، اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نقاد تھے جو ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر ان عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا جنھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر ریڈیو سے وابستہ ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بعد میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کردیا تھا۔

    پطرس بخاری جب کیمبرج پہنچے تو انگریزی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کا ادب بھی پڑھا اور اپنے اسی ذوقِ مطالعہ کے سبب جب خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مقیم تھے تو 5 دسمبر کو اچانک بے ہوش ہو گئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ پارے آپ کو ان کے فنِ ظرافت سے واقف کروائیں گے۔ لاہور پر ان کی تحریر سے ایک پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کے لیے بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • امن کانفرنس

    امن کانفرنس

    ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ‌ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں‌ پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں‌ ہے:

    جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”

    سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔

    "ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
    "ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
    "توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”

    تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

    "او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

    "بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔

    "ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”

    پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

    "اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

    راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

    "اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
    "اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”

    ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔

    "یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

    "جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”

    راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”

    پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”

    "مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”

    پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔

    راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”

    راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

    "دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔

    ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

    "کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
    ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

    راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”

    رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”

    "اور کیا ایک کھایا؟”

    "تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”

    "یہ بات۔۔۔۔؟”

    "یہ بات۔۔۔۔!”

    پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

    چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟

    رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”

  • بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا "ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9 بجے سے 12 تک بلا روک ٹوک تشریف لا سکتے ہیں۔”

    ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھے زمین ہے جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں، تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

    اس کی درد ناک بپتا سن کر میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60۔70 میل دور اس گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔

    ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شر انگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے جز دان اٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا۔

    "حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں۔”

    گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔” ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر اٹھا لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی اراضی کا انتقال کر دیا۔

    میں نے بڑھیا سے کہا۔ "لو بی بی تمہارا کام ہو گیا، اب خوش رہو۔” بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا اور پاس کھڑے نمبردار سے کہا۔ "سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟”

    نمبر دار نے تصدیق کی تو بڑھیا کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے، اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیے۔

    اس ادائے معصومانہ اور محجوبانہ پر مجھے بے اختیار رونا آ گیا۔ کئی دوسرے لوگ بھی آب دیدہ ہو گئے۔ یہ سولہ آنے واحد "رشوت” ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظروں میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔

    میں نے ان آنوں کو آج تک خرچ نہیں کیا کیوں کہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے مالا مال کر دیا۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے انتخاب)

  • آتش فشاں پر بنا گھر

    آتش فشاں پر بنا گھر

    اس نے جوں ہی دراز کو ہاتھ لگایا، یکایک دادی کی غصہ بھری آواز نے پیچھے سے جکڑ لیا۔

    ’کیا پریشانی ہے تجھے؟‘ وہ گھبرا کر پلٹی۔ موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے دادی کی آنکھیں انگارے بنی دہک رہی تھیں۔ ’تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ ان درازوں کو ہاتھ مت لگایا کر۔ تجھے سمجھ میں نہیں آتا کیا؟‘

    وہ سہم گئی۔ ماں جیسا نازک بدن کپکپانے لگا۔ وہ دادی کو اکثر غصے میں دیکھتی، مگر اس لمحے یوں لگا کہ جیسے وہ مار ہی ڈالیں گی۔ چند دنوں سے یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ وہ جوں جوں بڑی ہورہی تھی، دادی کی روح میں کسی بت کی طرح سر اٹھائے کھڑا اضطراب اپنا قد بڑھاتا جا رہا تھا۔ وہ جب بھی سامنے آتی، دادی کی آنکھوں میں بے چینی مچلنے لگتی۔ اسے گھر میں ہر طرف آنے جانے کی آزادی تھی۔ وہ اپنے کھلونوں سے کھیلے یا انہیں توڑے۔ اپنی کتابوں میں بنی تصویروں میں رنگ بھرے یا بد رنگ کرے۔ اسے ہر بات کی آزادی تھی۔ مگر جب کبھی دادی کے کمرے میں بنی الماری کی طرف ہاتھ بڑھاتی، چاروں سمت پھرتی شاطر آنکھیں اس کی گردن دبوچ لیتیں اور وہ سہم جاتی۔ ایسے میں نہ جانے کیوں ماں یاد آتی، جو برسوں پہلے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اسے دادی نے یہی بتایا تھا، بلکہ اکثر دادی یہ سبق اسے حفظ کروانے کی حد تک دہراتی رہتی تھیں۔ وہ کہتیں۔

    ’تیری ماں کو تجھ سے محبت نہیں تھی۔ ورنہ مائیں اپنی اولاد کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتیں۔ بہت ظالم تھی تیری ماں اور اس سے ظالم تیرا نانا تھا۔ سور کا بچہ۔۔۔‘

    نانا کا ذکر آتے ہی دادی کے چہرے پر وحشت برسنے لگتی۔ نفرت کی شدید تمازت بوڑھے چہرے پر پھیلی جھریوں کو اور گہرا کر دیتی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو ذہن سوالوں، الجھنوں سے بے نیاز تھا، مگر جوں جوں وہ بڑی ہو رہی تھی، الجھے سوالوں کا ڈھیر بھی اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ ہر گزرتے لمحے سلجھے جوابوں کی خواہش شدید ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں سے اس نے اپنے ذہن کے نہاں خانے میں پوشیدہ شفاف ورق پر سوال لکھنا شروع کر رکھے تھے۔

    ماں کیوں چھوڑ کر چلی گئی؟ نانا اتنے برے آدمی کیوں ہیں؟ دادی میرا چہرہ دیکھ کر چھوٹی اور بڑی تائی امی سے کیا کھسر پھسر کرتی ہیں؟ اس الماری کی درازوں میں کیا ہے جسے دادی مجھ سے چھپارہی ہیں؟ میرے امی بابا، کا رشتہ ناکام ہونے میں غلطی کس کی تھی، یا کس کس کی تھی؟ نانا نے مجھے نہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا میں ان پر بوجھ بن جاتی؟

    اس کا معصوم ذہن کہتا کہ دادی اور گھر کے تمام لوگ سارے جواب جانتے ہیں۔ اسے لگتا کہ سچ وہ نہیں ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔ شاید اصل حقیقت دادی کے چہرے کی دبیز جھریوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ یا تائی امی کے چہرے پر پھیلے تمسخر سے کہیں دور پوشیدہ ہے۔ ممکن ہے بابا کی جھکی ہوئی گردن میں کہیں اٹکا ہوا ہو۔ یا پھر خود ساختہ احساسِ تفاخر کے اونچے مگر کمزور تخت پر بیٹھے ہوے دادا کے ادھورے اور ناکام فیصلوں تلے دھنسا ہوا کراہ رہا ہے۔

    ایک دن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے کانوں سے دادی کی آواز ٹکرائی۔ ’شکل و صورت میں بالکل اپنی ماں جیسی بنتی جا رہی ہے۔‘

    تب وہ دیر تک آئینے میں اپنے چہرے کے خط و خال کو گھورتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ دادی اس کی ماں سے نفرت کرتی ہیں۔ ایسے میں اس کے چہرے میں ماں کی شباہت اتر آنا دادی کو تکلیف دیتا ہے۔ تب اس نے بے دھیانی میں ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچ ڈالا۔ جب وہ اپنی ہی سسکیوں کے بوجھ تلے دبنے لگی تو چیخ نکل گئی۔ آواز سن کر اس کے بابا نے اسے پکڑا اور چیخ کر بولے۔

    ’یہ کیا کر رہی ہو؟‘

    ’میرے چہرے میں دادی کو امی نظر آتی ہیں۔ میں انہیں کھرچ رہی ہوں‘۔ اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

    باب نے پیار سے اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔ باپ کے سپاٹ چہرے پر بے چارگی ابھرنے لگی۔ وہ جان ہی نہ سکی کہ بے چارگی کا یہ بد رنگ احساس اس کی ذہنی سوچ اور صحیح یا غلط کے درمیان فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کو نچلے درجے کی حد تک کمزور سے کمزور تر کیے ہوئے ہے۔

    وہ جب گردن جھکا کے پلٹنے لگا تو اس نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’بابا آپ دادی کو نہیں بتائیں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا۔‘‘

    ’ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گا۔‘ اس کے باپ نے وعدہ کیا۔ مگر جب وہ کچھ دیر بعد لاؤنج میں گئی تو دادی نے تڑاخ سے کہا۔

    ’تیری ماں سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان ہوتا تو میں نہ کھرچ دیتی تیرے چہرے سے۔‘

    یہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔ لمحہ بھر کو اسے بابا پر بہت غصہ آیا۔ اسے یاد آیا کہ پہلے بھی کئی بار اس نے کمرے میں ہونے والی گفتگو دادی کو بتانے سے منع کیا تھا۔ مگر ہر بار اس کے بابا دادی کو جا کر سب بتا دیتے ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ سوچنے لگی۔

    مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ بابا کی ایسی بہت سی حماقتوں کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے دور ہوئی تھی۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال کا اضافہ کر لیا۔ جوں جوں الجھے سوال بڑھ رہے تھے، اس کا اضطراب بھی دو چند ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن وہ ٹیرس میں لٹکے جھولے میں جھولتے ہوئے بے دھیانی میں گیت گنگنا رہی تھی۔

    اماں میرے نانا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔ اچانک اس کے نزدیک اس کا تایا زاد بھائی آیا اور بولا۔

    ’میری مما کہتی ہیں کہ جس دن میری تمہاری شادی ہو گی، تم اپنی ماں اور نانا کو ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ گی۔‘ یہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دادی سے جا لپٹتی۔ وہ بولیں۔

    ’اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ یہ تو بچپن ہی میں طے ہو گیا تھا۔ تیری اماں کو اس رشتے پر بہت اعتراض تھا، مگر اب تیری اماں تو یہاں نہیں ہے۔ اب فیصلہ تو ہم کریں گے۔‘

    ’مگر بچپن میں رشتہ طے کرنا تو بہت ظلم ہے۔‘ اس نے تجربے کی بھٹی میں پکا اینٹ سا جواب دے مارا۔

    ’چپ کر۔‘ دادی نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’بالکل اپنی ماں کی طرح سوچتی ہے۔‘

    وہ ایک جھٹکے سے دادی سے دور ہوتے ہوئے بولی۔ ’اس میں غلط کیا ہے؟ بچپن میں جوڑے ہوئے رشتوں کا خراب نتیجہ پہلے سے آپ اس گھر میں بھگت تو رہی ہیں۔‘

    اس کے واضح اشارے کو محسوس کرتے ہی دادی کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے۔ انہوں نے غصے میں چیختے ہوئے کہا۔

    ’بہت زبان چل گئی ہے تیری۔ کاٹ کر پھینک دوں گی۔‘

    وہ اپنے بڑے بیٹے، جسے انہوں نے اپنے تصور میں بہت اونچے سنگھاسن پر بٹھا رکھا تھا، کے بارے میں سچ سننے کو تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے لرزتی جھریوں کے ساتھ غراتے ہوئے کہا۔

    ’تو اس گھر کا کھاتی ہے اور اسی کے بارے میں ایسے گھناؤنے انداز سے سوچتی ہے۔‘ وہ ایک لمحے کو رکیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔’ ایک بات کان کھول کر سن لے، اپنے نانا اور اماں کے انداز میں سوچنا بند کر، ورنہ ان چھوٹے لوگوں کی طرح ہی ہو جائے گی۔‘

    اس نے حیرت سے دادی کو دیکھا۔ نانا کے بارے میں یہ لفظ اس نے پہلے بھی دادا دادی سے سنا تھا۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال درج کرنے کے بارے میں سوچا۔ اس اثنا میں اس کی چھوٹی تائی امی کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں۔

    ’کل اس کے لیے تعویذ بنوا کر لاؤں گی، تاکہ اس کا دماغ درست رہے۔‘

    ’میں کوئی تعویذ واویذ نہیں پہنوں گی۔‘ اس نے فوراً کہا۔

    ’چپ رہ! یہ جو تیرے اندر چار کتابیں پڑھ کر اپنے آپ کو طرم خان سمجھنے والا نانا بولنے لگا ہے، اسے چپ کرنا بہت ضروری ہے۔ کمبخت نہ جانے کیسی سخت مٹی کا بنا ہوا ہے۔ اتنے تعویذ جادو گنڈے کیے، کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ سور کا بچہ۔۔۔ نہ اندھا ہوا اور نہ مر کے دیا۔‘

    دادی نے آخری جملہ بہت دھیرے سے کہا تھا، مگر پھر بھی اس نے سن لیا۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ اکثر تائی امی کو کھانوں پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے، دوسروں کو پڑھی ہوئی شکر والی چائے پلاتے، دادی کے پیروں کے درد اور دادا کے فشار خون کو معتدل کرنے والے تعویذ باندھتے ہوے دیکھا کرتی تھی، مگر وہ حیران تھی کہ برسوں سے نہ دادی کے پیروں کا درد دور ہوا اور نہ دادا کا بلڈ پریشر اعتدال پر آیا۔ البتہ دن بہ دن گھر پر چھوٹی تائی امی کا قبضہ مضبوط ہوتے ہوئے وہ ضرور دیکھ رہی تھی۔

    گھر میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے تجسّس کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔ اکثر اس کا دھیان دادا دادی کے کمرے میں موجود الماری کی درازوں کی طرف چلا جاتا، جنہیں کھولنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ یقیناً وہاں کچھ ایسا ہے جو میری زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ اکثر سوچتی۔ کچھ دنوں سے وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے دادی کے کمرے کی طرف زیادہ جانے لگی تھی، مگر وہاں اکثر دادا ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے یا پھر قوی الجثہ ریسلرز کے طے شدہ اور ڈیزائن کردہ اسکرپٹ والے مقابلے دیکھتے ہوئے پاتی۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان میں ماورائیت سے دلچسپی اور سپر ہیومن نیچر سے لگاؤ کمزور ارادوں کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دادا منصوبے تو بڑے بڑے بناتے ہیں اور اکثر دوسروں کو سناتے بھی بہت ہیں، مگر عملاً کچھ نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہوا آج کے کاموں کو کل پر ٹالنے والا ریٹائر سرکاری افسر کاغذوں پر منصوبے بنا کر اور تصور میں ایورسٹ کی چوٹی سر کرتا رہتا ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے دادا اس سے آنکھیں ملاتے ہوے جھجھکتے ہیں۔ ایک دن اس نے دادی کی غیر موجودگی میں ڈرتے ڈرتے دادا سے سوال کر ڈالا۔

    ’دادا! ایک بات پوچھوں؟‘ ’ہوں۔۔۔انہوں نے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔

    ’اس الماری میں کیا ہے؟ اس نے الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’دادی سے پوچھو۔‘ وہ بولے۔

    ’وہ نہیں بتاتیں۔۔۔‘ اس نے مایوس لہجے میں جواب دیا۔

    ’انہی سے پوچھو۔‘ دادا نے پھر دہرایا۔ ’ویسے تم اس قدر کھوج میں کیوں رہتی ہو؟‘

    ’اگر آپ مجھے ڈانٹیں نہیں تو میں ایک بات کہوں؟‘ اس نے سہمے ہوے لہجے میں کہا۔

    ’کہو‘۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ٹی وی کا ریموٹ بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

    ’دادا مجھے اپنے حوالے سے گھر کی فضا میں جھوٹ تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘ اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہمت کو یکجا کرتے ہوئے کہا۔

    ’تم ابھی بہت چھوٹی ہو‘۔ داد نے اپنے مخصوص انداز میں گردن ہلائی اور ماتھے پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے مزید کہا۔ ’تمہیں معلوم نہیں کہ یہ گھر کتنی محنت سے بنا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بات لڑکیوں کو بتائی جائے۔‘

    وہ مایوس ہو گئی۔ دبیز کارپٹ میں پیر کا انگوٹھا رگڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پلٹ کر جانے لگی۔ یکایک دادا پیچھے سے بولے۔ ان کے لہجے میں حقارت نمایاں تھی۔

    ’سنو۔۔۔اس الماری میں تمہاری ماں کے ہاتھ کا لکھا ہوا خلع نامہ ہے اور اس سے بڑھ کر تمہارے نانا کا وہ خط ہے جس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔‘ وہ چند ساعتوں کے لیے خاموش ہوئے اور پھر بولے۔ ’ہم اس سے بڑے تھے، اسے ہمارا احترام کرنا چاہیے تھا۔‘

    ’جہاں تک مجھے معلوم ہے انہوں نے آپ اور دادی کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی۔ دادا یہ ضروری تو نہیں کہ جو آپ کی عزت کرتے ہیں وہ آپ کی نالائق اولاد کو بھی سر پر بٹھائیں۔‘ اس نے دادا کی طرف دیکھتے ہوئے ایک سچ اگل دیا۔ دادا کے بوڑھے چہرے پر نخوت بھری دبیز جھریاں لرزنے لگیں۔ وہ بولے۔

    ’وہ میرا بیٹا ہے۔ آنے والے کل میں وہ اس خاندان کا سربراہ بنے گا۔ کوئی اس سے آگے نکلے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔

    ’دادا آپ کے اس غرور اور گھمنڈ نے مجھے تنہا کر دیا۔‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ کپکپاتے ہونٹوں پر فریاد لیے پلٹ کر جانے لگی۔ اس کی پشت پر پتھر جیسے لفظ ٹکرائے۔

    ’خلع نامے اور خط میں کیا لکھا ہوا، اس کے مندرجات پر جانے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔ آئندہ اس حوالے سے کوئی بات نہ کرنا۔‘

    وہ گردن جھکائے دروازے کی طرف بڑھی، مگر جوں ہی ادھ کھلے دروازے کی دہلیز پار کرنے کی کوشش کی تو کاٹن کا کُرتا ہینڈل میں اٹک کر چِرتا چلا گیا۔ اس نے بے بسی سے پھٹے ہوئے کُرتے کو دیکھا۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو چھلک پڑے کہ اس گھر کی دہلیز پار کرنا کتنا مشکل ہے۔

    (محمد امین الدّین کا ایک افسانہ)ٰ