Tag: ادب میں طنزومزاح

  • افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    آلڈس ہکسلے سے کسی نے پوچھا کہ ادیب بننے کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں؟ اس نے بے تامل جواب دیا کہ ایک قلم، ایک دوات اور کچھ کاغذ۔

    ایک رسالے میں اردو کی مشہور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کا انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں انھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ کچھ کاغذ سے کیا مراد ہے۔ فرماتی ہیں کہ جب میرا افسانہ لکھنے کو جی چاہا تو میں نے اپنے والد کے حساب کتاب کے رجسٹر کی جلد توڑ دی اور اس میں لکھنا شروع کر دیا، قیاس ہوتا ہے کہ اگر ان کے والد حساب کتاب نہ رکھا کرتے، جیسا کہ بعض لوگ نہیں رکھتے اور جمیلہ کے ہاتھ نہ پڑتا تو افسانہ نگار نہ بن سکتیں۔ جو حضرات اپنی بہنوں بیٹیوں کو افسانہ نگار بنانا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ فوراً بہی کھاتے خریدیں اور جو اپنی نور نظر کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیں، انھیں لازم ہے کہ اپنے رجسٹروں کو دکان پر تالے کے اندر رکھا کریں۔

    لیکن ہمارا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگار کے طور پر کی تھی اور اس کے لیے نہایت عمدہ چکنے کاغذوں کی ایک کاپی مجلد تیار کرائی تھی۔ ایک روز ہم کاپی کو افسانے کے ایک نازک موڑ پر بستر پر کھلی چھوڑ گئے۔ واپس آکر کھولا تو صورت احوال یوں نظر آئی:

    ’’امجد نے کہا۔ میری رانی بولو تمہیں کیا چاہیے۔ کہو تو آسمان کے تارے توڑ کر تمھارے قدموں میں لا بچھاؤں۔ تمھارا دامن بہار کے رنگین پھولوں اور کلیوں سے بھر دوں۔ بولو بولو کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے کہا،’’امجد مجھے دنیا میں اور کچھ مطلوب نہیں فقط:
    بنولے ڈیڑھ من
    بھوسہ دس من
    نمک ایک ڈلا
    گڑ ڈھائی من
    چارپائی کا بان پانچ گٹھے
    گھی سات سیر

    ہم نے جھنجھلا کر وہ صفحہ پھاڑ کر پھینک دیا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے چچا عینک کو ناک کی پھننگ پر جمائے کچھ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ بولے بیٹا یہاں ایک کاپی میں کچھ حساب لکھا تھا میں نے۔ منڈی جارہا ہوں سودا لانے۔ کہاں گئی وہ کم بخت کاپی؟

    ہمارے نقطۂ نظر سے یہ افسانہ بہترین افسانوں میں سے تھا۔ اس کا کلائمکس یعنی نقطۂ عروج اس کے آخر میں آتا تھا۔ یہ وضاحت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ بعض افسانوں کا کلائمکس بالکل شروع میں آجاتا ہے۔ آخری پیرا لکھتے لکھتے ہمیں ایک ضرورت سے تھوڑی دیر کو باہر جانا ہوا۔ واپس آئے تو افسانہ مکمل تھا۔

    ’’امجد نے آبدیدہ ہوکر کہا۔ میری غلام فاطمہ۔ اب میں گاؤں واپس آگیا ہوں اور زندگی تمھارے قدموں میں گزاروں گا۔ رانی نے مجھ سے دغا کی۔ اب مجھے سچی محبت کی قدر ہوئی۔ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہ جانو۔ مجھے معاف کردو۔ غلام فاطمہ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔ امجد۔ اب میری زندگی میں رہ کیا گیا ہے، چند آنسو، چند آہیں اور…
    قمیضیں بڑی پانچ عدد
    پاجامے چھوٹے چار عدد
    تکیے کے غلاف دس
    تولیے دو
    جھاڑن دو
    کھیس چارخانہ دو عدد
    کل 25

    ہم نے شور مچایا۔ یہ کیا غضب کر دیا۔ بہن بولیں۔ ارے میاں کچھ نہیں۔ دھوبی کا حساب لکھا ہے۔ اس سے پہلے مرقع چغتائی کے حاشیے پر لکھا کرتی تھی۔ وہاں اب جگہ نہیں رہی۔ یہ کاپی خالی نظر آئی اس میں لکھ دیا۔ ہم نے کہا بہن اب یہ کاپی تم ہی رکھو۔ ہمارے کام کی نہیں رہی، چنانچہ اس روز ہم نے افسانہ نگاری کو خیر باد کہا اور شعر کہنے لگے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعر لکھنے کے لیے کسی کاپی اور رجسٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھیں دروازے کی چوکھٹ پر لکھا جاسکتا ہے قمیص کے کفوں پر لکھا جاسکتا ہے۔ سکتا کیا معنی، ہم لکھتے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر اور مزاح نگار ابن انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • اردو ادب میں طنز و مزاح اور اس کی مختلف قسمیں

    اردو ادب میں طنز و مزاح اور اس کی مختلف قسمیں

    عام طور پر طنز و مزاح کو ادب کی ایک صنف قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ صنف نہیں بلکہ اسلوب یا تکنیک ہے جس کی اپنی کوئی ہیئت نہیں، یہ نظم و نثر کی تمام اصناف میں استعمال کی جاتی ہے۔

    یہ دونوں الفاظ عموماً ایک ساتھ برتے جاتے ہیں لیکن ان کے معنیٰ و مقصد اور طرزِ بیان میں لطیف سا فرق ہوتا ہے۔ جس طرح طنز فرد اور سماج کی کم زوریوں، تضاد، توہّم، جبر، فرسودہ خیالی اور بدصورتیوں کی گرفت کرتا ہے اور فرد و سماج کی اخلاقی و سماجی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے، اسی طرح مزاح بھی صرف ہنسانے تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتا۔ مزاح فرد کی ناہمواریوں کو اس طرح بے نقاب کرتا ہے کہ قارئین کھلکھلا کر ہنس پڑتے ہیں۔

    لیکن ہنسنے والے صرف ایک لمحے کے لیے ہنس دینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے۔ درپردہ ان خامیوں کی اصلاح کی طرف بھی رجوع ہوتے چلے جاتے ہیں، جن کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہوتا ہے اور سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    طنز و مزاح کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ یہ ادب میں سماج کا ترجمان ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کا کام انجام دیتا ہے۔

    طنز و مزاح کی مختلف قسمیں ہیں جیسے ہزل، تمسخر، استہزا، تضحیک، نوک جھونک، ہجو، پھبتی پھکڑ، لعن طعن، سب و شتم، ملیح مذمت، مضحکات، تعریض، تنقیص، جگت، فقرہ بازی، لطائف، پیروڈی اور آئرنی وغیرہ۔ واضح رہے کہ جب ہم اردو ادب میں طنز و مزاح کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصد ادبی طنزومزاح ہوتا ہے۔ پھکڑ پن، چٹکلے بازی، یاوہ گوئی، لطیفہ سازی جس میں ابتذال اور رکاکت ہو، ادبی طنز و مزاح کے زمرے میں نہیں آتے۔

    اردو نثر میں طنز و مزاح کی باضابطہ روایت کا آغاز اگرچہ ’’اودھ پنچ‘‘ (1877ء) سے ہوتا ہے، لیکن اس کے ابتدائی نقوش بہت پہلے سے ہی نظر آتے ہیں۔

    اردو نثر میں طنز و مزاح کے اوّلین نقوش قدیم داستانوں میں ملتے ہیں۔ لیکن ان داستانوں میں ظرافت کی سطح بہت پست ہے۔

    اس کے برعکس مرزا غالب کے خطوط میں معیاری طنز و ظرافت کی مثالیں ملتی ہیں۔ ظرافت غالب کی فطری خوش مزاجی کا جزو تھی جو ان کے کلام، لطائف، گفتگو اور بالخصوص ان کے خطوط میں زیادہ نکھر کر آتی ہے۔ اس لیے غالبؔ کو الطاف حسین حالیؔ نے ’’حیوانِ ظریف‘‘ کہا ہے۔

    (ڈاکٹر رئیس فاطمہ کے مضمون سے منتخب پارے)