Tag: ادب پارہ

  • جب امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے مرعوب نظر آیا!

    جب امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے مرعوب نظر آیا!

    اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ ڈاکٹر اجمل پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور بعد میں‌ صدرِ شعبہ رہے۔ ڈاکٹر صاحب وسیعُ المطالعہ، نہایت قابل اور بڑے نکتہ سنج تھے جن کی گفتگو بھی سحر انگیز ہوتی تھی۔ ڈاکٹر اجمل کے لیکچرز اور ان کے علمی مضامین شاگردوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے تھے۔ ہر کوئی ان سے مرعوب نظر آتا۔ ڈاکٹر صاحب ایسی سحر انگیز اور عالمانہ انداز میں گفتگو کرتے تھے کہ سننے والے کا جی نہیں بھرتا تھا۔

    اردو زبان کے نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ موسیقی ڈاکٹر داؤد رہبر بھی اجمل صاحب کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے متعلق ایک واقعہ نہایت دل چسپ پیرائے میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بوسٹن میں میرے مہربان دوست ڈاکٹر محمد اجمل صاحب اپنے عزیز اشرف جان صاحب کے ہاں آ کر ٹھہرے تو میں نے انہیں اپنے ہاں تناول کی دعوت دی۔”

    "ڈاکٹر جڈ ہوورڈ کو بھی بلایا، یہ نفسیات کے پروفیسر تھے، ڈاکٹر اجمل صاحب بھی پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر رہ چکے ہیں، لندن یونیورسٹی میں انہوں نے تحلیلِ نفسی کی اعلیٰ تعلیم پائی۔ میں ان کو چھیڑ کر کہا کرتا تھا پاکستان میں پاگل کہاں! آپ کی پریکٹس وہاں نہ چلے گی۔”

    "بوسٹن میں انہوں نے ڈاکٹر جڈ ہوورڈ سے تین گھنٹے گفتگو میں ایسی زندہ دلی کا ثبوت دیا کہ کیا کہنے! دوسرے روز ڈاکٹر ہوورڈ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تمہارے دوست کی وسعتِ نظر اور گفتگو کی جولانی میری زندگی کا ایک خاص تجربہ ہے، میں نے امریکا میں نفسیاتی ڈاکٹروں کے حلقوں میں ایسا چومکھی ذہن والا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔”

    "پروفیسر ہوورڈ اور ڈاکٹر اجمل کے آفاقِ ذہنی کے تفاوت کی وجوہ میں سب سے بڑی وجہ ڈاکٹر اجمل کے تجاربِ زندگی کا تنوع ہے جو ڈاکٹر ہوورڈ کو خواب میں بھی نصیب نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کون ہے جس کی گفتگوئیں نانبائیوں، حلوائیوں، نائیوں، کمہاروں، پہلوانوں، کنجڑوں، سقوں، لوہاروں، موچیوں، لکڑہاروں، جولاہوں، بھٹیاروں، کوچوانوں، قلیوں، بھڑبھونجوں، بھانڈوں، میراثیوں، ہیجڑوں، درزیوں، عطاروں، طبیبوں، موذنوں اور مولویوں سے نہ رہ چکی ہوں۔”

    "ہندوستان اور پاکستان کے مسالہ دار کھانے، آم پارٹیاں، نہاری پارٹیاں، پوشاکوں کی رنگا رنگی، پنجابی اور سندھی اور پشتوں اور بلوچی اور مارواڑی اور انگریزی بولیوں کے زمزمے اور سب سے بڑھ کر وہاں کی ٹریفک کی سنسنی خیز اُودھم زندگی کا ایسا بارونق تجربہ، اور اس پر بہترین تعلیم، ڈاکٹر اجمل کا ذہن باغ و بہار کیوں نہ ہو۔”

  • تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کی خبر پڑھتے اور سنتے ہی جانے کیوں یہ مصرع یاد آجاتا ہے

    تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

    اور ساتھ ہی غالب ؔ کے دشمنوں کا خیال بھی آتا ہے کہ پرزے تو غیر ہی اُڑاتے ہیں اپنے تو پردہ رکھ لیتے ہیں اور سچ پوچھیے تو آئے دن اخبارات میں کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا احوال پڑھ کر یقین سا آنے لگتا ہے کہ اس شعر کی تخلیق کے وقت غالبؔ کے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں ”دیوانِ غالبؔ“ کی تقریبِ رونمائی کا خدشہ سر اُٹھا رہا تھا کہ اُن کے دوست احباب قرضِ دوستاں چکانے کے لیے ایسی کسی تقریب کا اہتمام نہ کر ڈالیں اور چونکہ غالبؔ کی نظر بہت دور تک دیکھنے کی عادی تھی اس لیے غالب نے بھی بہت پہلے یہ نکتہ پا لیا تھا کہ تقریب میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے پرزے ضرور اڑیں گے۔

    غالب پر تو اللہ نے بڑ ا کرم کیا ان کے نصیب میں وہ تماشہ لکھا ہی نہیں تھا جو اُن کے بعد آنے والوں کو بے طلب دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ بھلا ہو اس ادبی فیشن کا جو روز بہ روز زور پکڑتا جا رہا ہے، کبھی صاحبِ کتاب خود اور کبھی کوئی اور اس کی محبت اور عقیدت سے سرشار صاحبِ کتاب کے دوستوں اور قارئین کا مجمع لگا کر صاحبِ کتاب کی بے محابہ توصیف اور کتاب پر ایسی رائے دینے پر مجبور کردیتا ہے کہ بیک وقت مصنّف کا حوصلہ اور کتاب کی ترسیل کا اہتمام ہو جائے۔ اس اجتماعی رائے زنی کا اثر کبھی کبھی مضحکہ خیز المیے کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پرزے اُڑانے والے صاحبِ کتاب کے رفیق بھی ہوتے ہیں جو حقِ رفاقت نباہتے ہوئے اس قدر نڈھال ہو جاتے ہیں کہ حاضرینِ محفل سوچتے ہیں کیا واقعی صاحبِ کتاب اتنا صاحبِ اعزاز ہے جتنا کہ اسے سراہا جا رہا ہے اور کیا مقالہ نگار اتنا صائب الرّ ائے ہے جتنا نظر آرہا ہے؟

    یہ تو خیر دوستوں کا احوال تھا مگر بعض انجانے بھی ایسے صاحب کمال اور صاحب کشف و کرامات ہوتے ہیں کہ کتاب اور صاحبِ کتاب کے مطالعے کے بغیر ہی محض ذاتی مفاد کی خاطر سنی سنائی پر اعتبار کر کے کتاب اور صاحبِ کتاب کا اعتبار قائم کرنے کی دھن میں اپنا اعتبار بھی کھو دیتے ہیں مگر وہ سب ضرور پا لیتے ہیں جس کے وہ آرزو مند ہو تے ہیں۔

    اس امر سے تو سب ہی واقف ہیں کہ معاشی اعتبار سے ادب کی منڈی میں کسی مصنّف کی قدر شناسی کا کس قدر کال ہے۔ کچھ تو فطرتاً ایسے بے نیاز ہوتے ہیں کہ صلے اور ستائش سے بے پروا ہو کر اپنا کام کیے جاتے ہیں لیکن حلقۂ ادب میں ایسے حضرات بھی ہیں جو خود کو منوانے کے لیے کوئی ایسا مؤثر طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی ادبی حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا جائے اور وہ تہی دست بھی نہ رہیں اور اس کے لیے وہ کتابوں کی تقریبِ رونمائی کو مفید قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اعترا ض کسی کے مفاد پر نہیں۔ معترض تو ہم اس تقریب میں پڑھے جانے والے بعض مضامین پر ہیں جن میں پڑھنے والے کی ”رضا“ سے بڑھ کر صاحبِ کتاب کی” خوشنودی“ کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس اہم تقریب میں مصنّف اور کتاب کی تشہیر کا خصوصی بلیٹن نشر کیا جاتا ہے، تب کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حاضرین مضامین پڑھنے والوں کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ

    یہ ملکِ سخن کے وہ منافق ہیں جو ہر ”شام“
    رکھ دیتے ہیں ایک تاج سَرِ بے ہنراں پر

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر توصیفی کلمات ادا کیے اور تعریفی مضامین پڑھے جاتے ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کتاب کا گھونگھٹ الٹتے ہی صاحبِ کتاب سے بے بسی اور جی داری کی ملی جلی کیفیت میں سوال کیا ہو کہ

    تیری نئی کتاب پر کیا تبصرہ کروں؟
    مضمون منحنی سا ہے، عنواں جسیم ہے

    جی ہاں؛ ایسی کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں جن کے عنوان کا خاصا رعب پڑتا ہے مگر جب ان کے مطالعے کی نوبت آتی ہے تو حیرانی و پریشانی کی یکجائی یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ جس مریض کی ”صحت“ پر شبہ ہو اس کا ”جشنِ صحت“ کیوں منایا گیا؟ لیکن تقریبِ رو نمائی میں‌ مقالات و مضامین میں تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ مقالہ نگار اخلاق اور ذاتی تعلق دونوں کو نباہنے کے ہنر اور اہمیت سے واقف ہوتے ہیں یا مروتاََ ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

    محض ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کتاب کی اس معیار کی تعریف کرنا جس سے کمتر درجے کی وہ کتاب ہو، صاحبِ کتاب کے لیے ”اعزاز“ نہیں ”آزار“ ہے۔ بہت ممکن ہے کتاب کی تقریبِ رونمائی میں مدح سرائی کرنے والے خیال کرتے ہوں کہ رونمائی کے ساتھ کسی بری یا حقیر شے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کتاب پر تبصرہ بھی اعلیٰ درجے کا ہونا چاہیے۔ اندر سے خواہ کتاب کیسی ہی ہو۔ ظاہری حسن تو داد طلب ہے۔ بعض کتابوں کا سرورق متاثر نہیں کرتا مگر مطالعے سے ذوقِ کتب بینی بڑھ جاتا ہے اور ایسی بھی کتابیں ہوتی ہیں کہ سرورق پر نظر ڈالو تو ”واہ“ اور مطالعہ کرو تو ” آہ“ بھر کر رہ جاؤ گویا….

    کتاب چھپ گئی چھ رنگے ٹائٹل کے ساتھ
    کتابت اور طباعت کا بھی جواب نہیں
    مگر کتاب کی تقریبِ رونمائی میں
    کتاب چیخ رہی ہے کہ میں کتاب نہیں

    دلہن اچھی ہو یا بُری رونمائی کا حق تو دونوں کو حاصل ہے، یہی بات کتاب کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ موضوع، اسلوب اور مواد خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو کتاب کی رونمائی کے آرزو مند ہر صاحبِ کتاب کے ارمان تقریبِ رونمائی کے ضمن میں کم و بیش یکساں ہوتے ہیں۔

    کتابوں کی رونمائی کی تقریبات شہر میں لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں ہوتی ہیں جتنی کہ شادی کی تقریبات۔ کیونکہ شادی ہال کی طرح اس تقریبِ سعید میں تواضع کے لیے کبھی کبھار کھانے کو بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

    بعض اوقات تقریبِ رونمائی کا اعزاز ایسی ہستی کے حصّے میں آجاتا ہے جو کتاب شناسی تو بڑی بات ہے، کتاب خوانی کی لذّت سے بھی محروم ہو۔ کیا کوئی صاحبِ کتاب واقعی اتنا بے بس ہوسکتا ہے کہ محض تشہیر اور ذاتی مفاد کی خاطر اپنی بے توقیری بخوشی قبول کر لے؟ کیا یہ مضحکہ خیز المیہ نہیں؟

    بعض کتابیں اپنے موضوع، اسلوب، مواد کے سبب وہ پذیرائی حاصل کر لیتی ہیں اور صاحبِ کتاب کو بھی علمی اور ادبی حلقے ہی سے نہیں بسا اوقات عام قارئین کی جانب سے بھی وہ ”اعتبار“ حاصل ہو جاتا ہے جو اس کتاب اور صاحبِ کتاب کو حاصل نہیں ہوتا جس کی تشہیر کے لیے کسی”پانچ ستارہ“ ہوٹل میں تقریب کا انعقاد کیا گیا ہو یا جس تقریب کی صدارت کسی ”اعلیٰ سرکاری افسر“ یا کسی بڑی تجارتی کمپنی کے مالک کے حصّے میں آئی ہو۔

    (فیچر رائٹر اور مضمون نگار شائستہ زریں‌ کے قلم سے)

  • جب قرۃُ العین حیدر عمرہ کرنے گئیں!

    جب قرۃُ العین حیدر عمرہ کرنے گئیں!

    قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ’’بنات‘‘ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ’’چاکلیٹ کا قلعہ‘‘ ’’بنات‘‘ میں شایع ہوئی تھی۔

    قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ’ماری پور‘ میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں، میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی، آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک ’بی‘ نارتھ ناظم آباد میں ہوئی۔ کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔

    میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے ضخیم ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اور ‘‘سفینۂ غم دل‘‘ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں، مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ’’عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں۔

    اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔‘‘ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ’’عصمت‘‘ اور ’’تہذیب نسواں‘‘ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔

    باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی، کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھاکر ’حجرِ اسود‘ کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔

    ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔

    پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں، ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے چالیس، پچاس ہزار پونڈ لندن کے ایک بینک کے جوائنٹ اکاؤنٹ میں جمع تھے، جو کسی عزیز کے ساتھ کھلوایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نور افشاں نے قبل از وقت ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

    ان کی شادی تحریکِ پاکستان کے لیڈر حسین امام صاحب کے بڑے بیٹے مظہر امام سے ہوئی، انہوں نے نارتھ ناظم آباد میں ’’امام کلینک‘‘ قائم کیا تھا، جو اب ایک بڑے اسپتال میں تبدیل ہو چکا ہے۔

    (جسٹس (ر) حاذقُ الخیری کی خود نوشت ’جاگتے لمحے‘ سے انتخاب)

  • امنِ‌عالم: ایک کائناتی اصول توجہ چاہتا ہے!

    امنِ‌عالم: ایک کائناتی اصول توجہ چاہتا ہے!

    امن ( peace ) کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔

    اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے دنیا کا نظام فطرت کے قانون کے تحت بنایا ہے۔ ہر معاملے کا ایک فطری قانون ہے۔ جو آدمی اس فطری قانون کا اتباع کرے گا، وہ کام یاب ہوگا۔ اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا، وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

    اصل یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے ہر انسان کو آزادی عطا کی ہے۔ ہر انسان پوری طرح آزاد ہے کہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ اس بنا پر ہر سماج میں امکانی طور پر ٹکراؤ کا ماحول قائم ہو جاتا ہے۔ ایک شخص کی آزادی دوسرے شخص کی آزادی سے ٹکراتی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جو ہر سماج میں نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کردیتی ہے۔

    اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ کوئی شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لوگوں سے ان کی آزادی چھین لے۔ ایسی حالت میں کسی سماج میں امن صرف اس وقت قائم ہو سکتا ہے، جب کہ لوگ ایسا فارمولا دریافت کریں جس میں آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، امن قائم ہو جائے۔

    یہ فارمولا صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے اعراض کا اصول ( principle of avoidance )۔ یعنی ٹکراؤسے ہٹ کر اپنا سفر طے کرنا۔

    اعراض کا اصول ایک کائناتی اصول ہے۔ کائنات اسی اصول پر قائم ہے۔ کائنات میں بے شمار ستارے اور سیّارے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر خلا میں حرکت کررہا ہے۔ مگر ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اصول اعراض کے مطابق، اپنے اپنے مدار (orbit) پر گردش کر رہا ہے۔ یہی اصول انسانوں کو بھی اپنی چوائس سے اختیار کرنا ہے۔

    اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جس کے ذریعے انسانی دنیا میں امن قائم ہوسکے۔ امن کا معاملہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ فطرت کا معاملہ ہے۔ امن ہر ایک کی ضرورت ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان۔

    (نام ور عالم، دانش اور مصنّف مولانا وحید الدین خان کے قلم سے)

  • ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    میری عمر چودہ برس۔ صوفی صاحب نئے نئے ریٹائر ہو کر اس علاقے میں بسے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں نئے نئے منتقل ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے والے مکان کی ڈیوڑھی پر پان والا بیٹھتا تھا۔ ہر دو گھنٹے بعد ایک خوش لباس شخص آتا، پان بنواتا، کھاتا، ٹہلتا ٹہلتا چلا جاتا۔ کبھی کُرتا شلوار اور کبھی کرتا اور چوڑی کنی کی خوب صورت دھوتی پہنے۔ کبھی پینٹ بشرٹ اور کبھی قمیص اور پینٹ پہنے۔

    ہماری امّاں کہ جن کا پان دان ہمیشہ شاداب رہتا، اس شخص سے بہت نالاں تھیں۔ اگر پان کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ شخص گھر میں پان دان کیوں نہیں رکھتا! امّاں کی بھی ہر دفعہ نظر صوفی صاحب پر ہی پڑتی اور وہ بھی پان وہیں کھڑے ہو کر کھاتے۔

    غائبانہ لڑائی کا یہ سلسلہ امّاں کی طرف سے باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔ اس پر سونے پر سہاگا ہو گیا۔

    ایک دِن صوفی صاحب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے۔ ہاتھ میں کٹورا تھا۔ پوچھا کیا کیا پکا ہے؟ امّاں نے کہا، ”ثابت مسور۔“

    بولے، ”اس پیالے میں ڈال دو۔“ امّاں نے ڈال دی۔ وہ راستے میں چاٹتے ہوئے کھاتے چلے۔ امّاں کو سڑک پر یُوں چاٹنے والی بات اور بھی بُری لگی۔

    مگر صوفی صاحب کو سیڑھیوں تک کون لایا؟ یہ میں تھی…. میری صوفی صاحب سے ملاقات اسلامیہ کالج کے شمعِ تاثیر کے مشاعرے میں ہوئی (یادش بخیر، کہ اب تو اس نام کا مشاعرہ ہوتا ہی نہیں، بلکہ اسلامیہ کالج میں سرے سے کوئی مشاعرہ ہی نہیں ہوتا)۔ میں نے جب ان کے بے تکلّف پان کھانے کی شکایت امّاں کی طرف سے کی تو انہوں نے فوراً کہا کہ تمہارے گھر کھا لیا کروں گا، اور یوں میرے اور اپنے خاندان کے درمیان راہ و رسم کی پہلی سیڑھی خود صوفی صاحب نے چڑھی۔

    پہل کرنا صوفی صاحب کی عادت تھی۔ صلح میں، دعوت میں، بے تکلّفی میں، ادا دِکھانے میں، ناراضگی میں، شعر سنانے، سمجھانے اور بتانے میں۔ آپ ہی روٹھ کر آپ ہی مان جانا، ان کی ادا تھی۔

    نازک بدنی ان پر ختم تھی۔ صبح کی سیر ان کی جان تھی۔ دہی کھانا ان کی ضرورت تھی۔ صاف دسترخوان ان کی بھوک تھی، مگر جسم و جان کی تازگی صرف اور صرف شعر میں تلاش کرتے تھے۔

    حقّے کی گُڑگڑاہٹ، کلچے کی مہک، کشمیری چائے کی چُسکی، ٹوپی اُتار کر سر کھجانا اور پھر قلم پکڑ کر کاغذ پر اتنا خوب صورت لکھنا کہ کتابت کرانے کو جی نہ چاہے۔ سید بابر علی نے ان کی خوش تحریری کو دیکھ کر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ایک ہزار ایک اشعار شائع کیے تھے۔

    امرتسر ان کے حافظے میں زندہ تھا، ذیلدار روڈ تہذیبی لاہور کا آئینہ۔ گورنمنٹ کالج ان کے فخر کا سرنوشت اور سمن آباد اپنے گھر میں ملنے والے سکون سے لے کر اس بے سکونی کا آئینہ تھا کہ جہاں گھروں کی دیواروں پر یہ لکھنا عام ہو گیا تھا ”فحاشی بند کرو۔“

    جب عمل مفقود اور نعرے حاوی ہو جائیں، وہ کھوکھلا پن صوفی صاحب کی زندگی کا حصّہ نہ تھا۔ وہ ایسے ظاہری پن سے نالاں ہو گئے تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شعری سفر میں بھی بہت سے پڑاؤ ان کے دھیان میں تھے، مگر جسمانی سفر میں وہ احساس کے دوغلے پن سے نالاں تھے۔

    ہم جھوٹے ہیں۔ ہم مسلسل دوغلے پن کے عمل کو مسکراہٹوں کی کریز میں لپٹائے ہوئے رکھتے ہیں۔ وہ سچّے تھے، رہائی پا گئے۔

    ایک مجموعہ بعنوان ”انجمن“ اور دوسری وہ انجمن کہ جس کے دھوئیں کی شکل میں ہم لوگ ہیں، چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ مجموعہ ”انجمن“ 1954ء ہی سے مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ اور میری شادی کے بعد شائع ہوا۔ اس لیے میں 1954ء سے لے کر اب تک صوفی صاحب کی رفاقت کی داستان کے صرف چند لمحوں میں آپ کو شریک بنا سکی ہوں۔

    بھلا انسان بارش کے قطروں کو کبھی گِن سکا ہے؟ صوفی صاحب بھی بارش تھے: علم کی، محبّت کی اور شفقت کی بارش۔ میں کیسے حساب دوں اُن لمحوں کا جو مجھ پر ساون کی جھڑی کی طرح مسلسل 25 برس کرم فرما رہے۔

    (نام وَر شاعر، مدیر اور مترجم صوفی تبسّم کے بارے میں شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کی ایک تحریر)

  • دوپلی ٹوپی اور کرارا جواب

    دوپلی ٹوپی اور کرارا جواب

    یہ پارہ دو اشخاص کی گفتگو پر مبنی ہے۔ ان میں‌ سے ایک لکھنؤ کا باسی ہے جب کہ دوسرا کسی اور شہر سے آیا ہے۔ ان کے درمیان علاقے کی سیر اور میل جول کی غرض سے گھر سے باہر جانا طے ہوتا ہے اور وہ ایک تانگے میں‌ سوار ہوجاتے ہیں۔ اس پارے میں آپ کو لکھنؤ کے عام لوگوں کی عادت اور ان کے اطوار کی ایک دل چسپ جھلک نظر آئے گی۔

    یہ گفتگو اس طرح شروع ہوتی ہے:

    آئیے گومتی کی ٹھنڈی سڑک سے ہوتے ہوئے رفاہِ عام اور گولہ گنج کے محلّوں کی سیر کرلیں۔

    تانگہ مل نہیں رہا، اکّا لے لیں۔ یہ دوپلی ٹوپی اب تک یہاں پہنی جاتی ہے؟ ہماری اور آپ کی طرح موٹی انگریزی ہیٹ نہیں‌ پہنتے۔

    ارے یہ دوپلی ٹوپی تو اکّے والے کی، تیز ہوا سے اڑی جاتی ہے۔ ہر دفعہ ہاتھ سے روکتا ہے۔ کہیں سچ مچ ہوا سے اڑ نہ جائے۔

    آپ سے کیا، آپ خاموش رہیے، نہیں‌ تو یہ اکّے والا ایسا جملہ چپکا دے گا کہ جنم جنم یاد رہے گا۔ یہ لکھنؤ ہے۔

    اجی چھوڑیے…..

    تو شوق فرمائیے، دل میں‌ حسرت کیوں رہ جائے۔

    بھیا اکّے والے، ایسی ٹوپی کیوں پہنتے ہو جو تیز ہوا سے اڑ جائے؟

    حضور، یہ غیرت دار ٹوپی ہے، ہوا کے اشارے سے اڑ جاتی ہے، آپ کی بے غیرت موٹی ہیٹ تھوڑی ہے کہ سو جوتے مارو پھر بھی وہیں وہیں جمی رہتی ہے……..

    ابے کمہار کے لونڈے، ذرا بچ کے، ابے ہٹ کے چل نہیں‌ تو چپاتی بن جائے گا۔

    سن لیا جواب آپ نے؟ منع کیا تھا کہ یہ لکھنؤ ہے۔ سمجھ بوچھ کے جملے بازی فرمائیے گا۔

    ایک بہت موٹے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے اکّا رکوایا۔ کیوں کہ اکّے میں دو آدمی تھے۔ اور حکومت کی طرف سے تین آدمیوں کے بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ذرا ہم کو بھی امین آباد چھوڑ دینا۔ بہت موٹے آدمی نے اکّے والے سے کہا۔

    اکّے والے نے معصوم بن کر جواب دیا: صرف تین آدمیوں کو بٹھانے کی اجازت ہے، چار کو نہیں۔

    موٹے صاحب ہنس کر کہنے لگے: دو بیٹھے ہیں، تیسرا میں ہوں، یہ چار کہاں سے ہوگئے؟ بھنگ پیے ہے کیا؟
    اکّے والے نے تیور بدل کر کہا: غلط فہمی میں‌ نہ پڑیے گا، آج ہی کسی لکڑی کی ٹھیکی پر اپنا وزن کرا لیجیے، ڈھائی گدھوں کے برابر نکلے گا آپ کا وزن حضور۔

    (معروف لکھاری آغا جانی کشمیری کی کتاب سے دل چسپ اقتباس)