Tag: ادب پارے

  • انتساب

    انتساب

    ادب میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی نوعیت غیر قانونی نہ سہی، مشتبہ ضرور ہے۔ انھیں میں سے ایک انتساب ہے۔

    انتساب نہ تو کوئی صنفِ ادب ہے نہ ادب کی کوئی شاخ (شاخسانہ ضرور ہے۔) اردو میں انتساب کو آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ یہ دورِ مغلیہ کے بعد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ بہت زیادہ قدیم ہوتی تو اب تک متروک ہو جاتی۔ متروک نہ ہوتی تو مکروہات میں ضرور شمار ہونے لگتی۔ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ جنہوں نے اچھے دن دیکھے تھے۔ ان دنوں انتساب نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ خوشی خوشی کتابیں پڑھا کرتے تھے (اس زمانے میں کتابیں تھیں بھی کم۔) انتساب کی تحریک، پڑھے لکھے لوگوں کی اجازت بلکہ ان کے علم و اطلاع کے بغیر اچانک شروع ہوئی اور جب یہ شروع ہوئی اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ آگے چل کر یہ اتنی خطرناک صورت اختیار کرے گی کہ صرف انتساب کی خاطر کتابیں لکھی جانے لگیں گی اور ان کے شائع کیے جانے کے لیے متعلقہ لوگ جان کی بازی لگا دیں گے۔

    انتساب کو ادب میں اب وہی مقام حاصل ہے جو سترھویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دربار میں بیربل اور راجا ٹوڈر مل کو حاصل تھا۔ بیربل اور ٹوڈر مل کے فرائضِ منصبی ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے اور مزاجاً بھی ان دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اسی لیے ان دونوں کا نام ایک ساتھ لیا گیا۔ انتساب بھی اپنے صفات کے اعتبار سے اتنے ہی مختلف اور متضاد ہوتے ہیں۔

    ادب کے نصاب میں انتساب اگرچہ اختیاری مضمون ہے لیکن بے انتساب کتاب اس موسیقار کی طرح ہوتی ہے جو سُر میں نہ ہو۔ آج بھی اکثر کتابیں یوں ہی چھپ جاتی ہیں۔ یوں ہی سے مراد ایسی جن میں صفحۂ انتساب نہیں ہوتا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ صفحۂ انتساب موجود نہ ہو تو قاری کے ذہن میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ مصنف میں قوتِ فیصلہ کا فقدان ہے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اپنی تصنیفِ لطیف کو کسی کے نام معنون نہ کر کے مصنف نے کسی کا حق غصب کیا ہے لیکن اسے تساہل تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ ایک ادیب میں قوتِ فیصلہ ہونی ہی چاہئے۔ بہت سے ادیب تو اپنے انتسابوں کی وجہ سے پہچانے جاتے اور ترقی کرتے ہیں۔ (انتساب کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلتا ہی ہے) مشکل یہ بھی ہو گئی ہے کہ اگرکتاب میں صفحۂ انتساب نہ ہو تو اسے بداخلاقی بلکہ بدنیتی سمجھا جانے لگا ہے۔ (مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی)

    انتساب ہر کسی کے استعمال کی چیز نہیں ہے۔ اس کے لیے ذرا ترقی کرنی پڑتی ہے۔ مضمون، افسانے، غزل یا رباعی کا انتساب نہیں ہوا کرتا۔ تہنیتی اور تعزیتی قطعات جن کے آخری مصرعے سے کسی واقعے یا سانحے کی تاریخ نکلتی ہو (صحیح یا غلط)، انتساب کی تعریف میں نہیں آتے۔ خود قصیدہ بھی جو کافی طویل اور سوائے ممدوح کے دوسروں کے لیے صبرآزما ہوتا ہے۔

    انتساب تو ایک نازک چیز ہوتی ہے اور اہم بھی۔ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنی پڑتی ہے۔ اس میں ضخامت کی کوئی قید نہیں۔ اگر وہ کتاب نہیں صرف کتابچہ ہے تب بھی اس کا انتساب جائز ہے۔ صندوق اور صندوقچے میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں۔ بلکہ صندوقچہ زیادہ قیمتی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    انتساب اور نذرمیں بڑا فرق ہے۔ نذر بظاہر انتساب سے ملتی جلتی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ انتساب کی طرف پہلا قدم سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ شاعر اپنی ایک مختصر سی غزل جس میں پورے 7 شعر بھی نہیں ہوتے۔ کسی پرچے میں چھپواتے وقت اسے اپنے سے ایک سینئر شاعر کے نام نذر کردیتے ہیں، یہ نجی طور پر تو جائز ہے، لیکن اس کی ادبی حیثیت صفر سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ شاعر تو مشاعروں میں اپنا کلام سنانے کے دوران بھی اپنے اشعار(ظاہر ہے انھیں کے ہوتے ہوں گے) مختلف سامعین (جنھیں وہ اپنی دانست میں معززین سمجھتے ہیں) کی نذر کرتے رہتے ہیں اور کسی دوسرے مشاعرے میں وہی نذر شدہ اشعار بانیانِ مشاعرہ میں سے کسی اور کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اسے انتساب سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اسے نذر کہنا بھی خوش اخلاقی ہے۔ یہ صرف ایک عادت ہے جو مصالحِ انتظامی کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اور یہ رفتہ رفتہ اتنی جڑ پکڑ لیتی ہے کہ شاعر سے صرف اسی وقت چھوٹتی ہے جب اس کا مشاعروں میں آنا جانا موقوف ہوجاتا ہے۔

    اس کے برخلاف انتساب یوں جگہ جگہ استعمال کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی ایک مستقل اور دائم حیثیت ہے، یعنی اگر اتفاق سے (جسے حسنِ اتفاق نہیں کہا جاسکتا) کسی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے چھپنے کی نوبت آئے تو اس ایڈیشن میں بھی، سابقہ انتساب حسبِ حال برقرار رہے گا۔ چاہے ممدوح کی وفات ہی کیوں نہ واقع ہو چکی ہو۔ اپنا بیان مع اندازِ بیان اور اپنا کلام مع زورِ کلام کسی حد تک واپس لیا جاسکتا ہے لیکن ایک مرتبہ کے کیے ہوئے انتساب پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح ہوتا ہے۔

    انتساب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جتنی تصنیفات اتنی ہی قسمیں، لیکن سہولت کی خاطر انھیں چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تقسیم کا عمل ان دنوں بہت ضروری ہے اور اسے مجلسِ اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے۔

    انتساب کی موٹی موٹی قسمیں یہ ہیں۔

    حروف تہجی کے نام
    اس انتساب میں قارئین کو پتا نہیں چلتا کہ اس تصنیف کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ اس کا فیض مصنف اور ممدوح کی حد تک محدود رہتا ہے۔ ان دونوں کے قریبی دوستوں اور چند مخصوص سہیلیوں کو البتہ اس بات کی اطلاع ہوتی ہے کہ اس حروف تہجی کے پردہ نگاری کے پیچھے کون چھپا ہوا ہے۔ یہ بات آہستہ آہستہ کوٹھوں چڑھتی ہے۔ (اب تو لفٹ کی بھی سہولت موجود ہے۔)

    ایسی کوئی کتاب جس کا انتساب حرف الف کے نام کیا گیا ہو ہماری نظر سے نہیں گزری، لیکن کہیں نہ کہیں کوئی ضرور۔ ’ب‘ کا انتساب ہم نے ضرور دیکھا ہے۔ غالباً یہ کوئی مجموعۂ کلام تھا۔ اسی طرح سب تو نہیں لیکن کئی حروف تہجی انتساب میں کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سلام بن رزاق کی کتاب ’ع‘ کے نام ہے۔ اب یہ ’ع‘ ظاہر ہے عبدالسلام یا عبیداللہ نہیں ہوسکتے۔ ان دونوں میں سے کوئی ہوتے تو علی الاعلان سامنے آتے۔ حروف تہجی کے انتساب ہمیں بہرحال پسند ہیں۔ ہندستان میں تھوڑا بہت پردہ ابھی باقی ہے۔

    بے نام کے انتساب
    اس قسم کے انتساب بھی مقبول ہیں اور ان میں مصنف ذرا سی محنت کرے تو بڑی نزاکتیں پیدا کر سکتا ہے۔ اکثر مصنفین اس میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ بشر نواز نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’رائیگاں‘ شائع کیا تو اس کا انتساب اس طرح کیا، ’’نام پر اس حسین کے، جس کا نام نیلگوں آسمان کے صفحے پر روشنی کے قلم نے لکھا ہے۔ ’’

    یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتساب رائیگاں نہیں کیا ہوگا۔

    بے نام کے انتساب کا اشارہ کئی لوگوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جن کی شناخت ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جب اپنی کتاب ’نئے افسانہ نگاروں کے نام‘ معنون کی تو کئی افسانہ نگار جو کافی پرانے تھے اس انتساب کی خاطر نئے بن گئے (حالانکہ ادب میں دل بدلی ہوتی نہیں ہے) ایک نوجوان نے تو ہر کسی سے پوچھنا شروع کردیا کہ کیا آپ نے فاروقی صاحب کی وہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں‘ پڑھی ہے جس کا انتساب میرے نام ہے۔ ایک اور نوجوان چار قدم اور آگے نکل گئے اور فرمایا کہ اب جب کہ میرے نام یہ کتاب معنون ہی کردی گئی ہے تو میں بھی افسانے لکھنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کسی دن لکھ ڈالوں گا کیوں کہ پلاٹ کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔

    اسی طرح بلراج کو مل نے اپنی ’نژاد سنگ‘ بچھڑے ہوئے دوستوں کے نام معنون کی ہے اور آج کل بچھڑے ہوئے دوستوں کی تعداد ’جاریہ‘ دوستوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ شناخت دونوں کی مشکل ہے۔ یوں بھی اب دوست ایک ہی جگہ رہتے ہیں لیکن بچھڑے رہتے ہیں۔ یہ خاموش ادبی معرکہ ہوتا ہے۔

    غلام ربانی تاباں نے ’ذوقِ سفر‘ کا انتساب اس طرح کیا ہے، ’’میرے وہ دوست جنھیں میری شاعری پسند ہے اب اس بوجھ کو سنبھالیں۔ انھیں کے نام یہ کتاب معنون کرتا ہوں۔‘‘ اس انتساب میں بھی شناخت مشکل ہے۔ کوئی آگے بڑھ کر نہیں کہتا کہ یہ کتاب میرے نام ہے۔

    انگریزی کی ایک کتاب کا انتساب البتہ کچھ اس طرح کا تھا، ’’اپنی بیوی کے نام جو اس کتاب کی اشاعت میں اگر میرا ہاتھ نہ بٹاتیں تو یہ کتاب آج سے 5 سال پہلے چھپ جاتی۔‘‘

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کے مضمون سے شگفتہ پارے)

  • افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    آلڈس ہکسلے سے کسی نے پوچھا کہ ادیب بننے کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں؟ اس نے بے تامل جواب دیا کہ ایک قلم، ایک دوات اور کچھ کاغذ۔

    ایک رسالے میں اردو کی مشہور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کا انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں انھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ کچھ کاغذ سے کیا مراد ہے۔ فرماتی ہیں کہ جب میرا افسانہ لکھنے کو جی چاہا تو میں نے اپنے والد کے حساب کتاب کے رجسٹر کی جلد توڑ دی اور اس میں لکھنا شروع کر دیا، قیاس ہوتا ہے کہ اگر ان کے والد حساب کتاب نہ رکھا کرتے، جیسا کہ بعض لوگ نہیں رکھتے اور جمیلہ کے ہاتھ نہ پڑتا تو افسانہ نگار نہ بن سکتیں۔ جو حضرات اپنی بہنوں بیٹیوں کو افسانہ نگار بنانا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ فوراً بہی کھاتے خریدیں اور جو اپنی نور نظر کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیں، انھیں لازم ہے کہ اپنے رجسٹروں کو دکان پر تالے کے اندر رکھا کریں۔

    لیکن ہمارا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگار کے طور پر کی تھی اور اس کے لیے نہایت عمدہ چکنے کاغذوں کی ایک کاپی مجلد تیار کرائی تھی۔ ایک روز ہم کاپی کو افسانے کے ایک نازک موڑ پر بستر پر کھلی چھوڑ گئے۔ واپس آکر کھولا تو صورت احوال یوں نظر آئی:

    ’’امجد نے کہا۔ میری رانی بولو تمہیں کیا چاہیے۔ کہو تو آسمان کے تارے توڑ کر تمھارے قدموں میں لا بچھاؤں۔ تمھارا دامن بہار کے رنگین پھولوں اور کلیوں سے بھر دوں۔ بولو بولو کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے کہا،’’امجد مجھے دنیا میں اور کچھ مطلوب نہیں فقط:
    بنولے ڈیڑھ من
    بھوسہ دس من
    نمک ایک ڈلا
    گڑ ڈھائی من
    چارپائی کا بان پانچ گٹھے
    گھی سات سیر

    ہم نے جھنجھلا کر وہ صفحہ پھاڑ کر پھینک دیا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے چچا عینک کو ناک کی پھننگ پر جمائے کچھ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ بولے بیٹا یہاں ایک کاپی میں کچھ حساب لکھا تھا میں نے۔ منڈی جارہا ہوں سودا لانے۔ کہاں گئی وہ کم بخت کاپی؟

    ہمارے نقطۂ نظر سے یہ افسانہ بہترین افسانوں میں سے تھا۔ اس کا کلائمکس یعنی نقطۂ عروج اس کے آخر میں آتا تھا۔ یہ وضاحت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ بعض افسانوں کا کلائمکس بالکل شروع میں آجاتا ہے۔ آخری پیرا لکھتے لکھتے ہمیں ایک ضرورت سے تھوڑی دیر کو باہر جانا ہوا۔ واپس آئے تو افسانہ مکمل تھا۔

    ’’امجد نے آبدیدہ ہوکر کہا۔ میری غلام فاطمہ۔ اب میں گاؤں واپس آگیا ہوں اور زندگی تمھارے قدموں میں گزاروں گا۔ رانی نے مجھ سے دغا کی۔ اب مجھے سچی محبت کی قدر ہوئی۔ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہ جانو۔ مجھے معاف کردو۔ غلام فاطمہ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔ امجد۔ اب میری زندگی میں رہ کیا گیا ہے، چند آنسو، چند آہیں اور…
    قمیضیں بڑی پانچ عدد
    پاجامے چھوٹے چار عدد
    تکیے کے غلاف دس
    تولیے دو
    جھاڑن دو
    کھیس چارخانہ دو عدد
    کل 25

    ہم نے شور مچایا۔ یہ کیا غضب کر دیا۔ بہن بولیں۔ ارے میاں کچھ نہیں۔ دھوبی کا حساب لکھا ہے۔ اس سے پہلے مرقع چغتائی کے حاشیے پر لکھا کرتی تھی۔ وہاں اب جگہ نہیں رہی۔ یہ کاپی خالی نظر آئی اس میں لکھ دیا۔ ہم نے کہا بہن اب یہ کاپی تم ہی رکھو۔ ہمارے کام کی نہیں رہی، چنانچہ اس روز ہم نے افسانہ نگاری کو خیر باد کہا اور شعر کہنے لگے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعر لکھنے کے لیے کسی کاپی اور رجسٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھیں دروازے کی چوکھٹ پر لکھا جاسکتا ہے قمیص کے کفوں پر لکھا جاسکتا ہے۔ سکتا کیا معنی، ہم لکھتے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر اور مزاح نگار ابن انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    ریل کی نقل و حمل کا آغاز متحدہ ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ 1857ء میں کئی ریلوے کمپنیوں کے انجنیئروں‌ اور بہت سے ہنر مندوں‌ نے یہاں‌ ریلوے ٹریک بچھانے کا کام شروع کیا۔ یہ ریلوے نظام انگریز راج میں یہاں کے عوام کے لیے گویا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ اس نے ہندوستان میں دور دراز مقامات تک لوگوں‌ کی رسائی آسان بنا دی اور مسافروں کے علاوہ مال گاڑیوں کے ذریعے بھاری ساز و سامان بھی آسانی سے دوسرے علاقوں تک پہنچنے لگا۔

    معروف صحافی، مصنف اور محقق رضا علی عابدی کی کتاب ’ریل کہانی‘ سے یہ اقتباس اس دور کی ایک تصویر دکھاتا ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    1857ء کے یہ وہی دن تھے، جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جا رہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جا رہی تھیں۔

    ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے، تاکہ فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔

    وہ جو آزادی کی دھن میں مگن تھے، سندھ سے لے کر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طمنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر قہر کر رہے تھے، لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔

    کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا۔عمارت کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعے کی طرح بنایا گیا۔ اس میں فصیلیں بھی تھیں، برج بھی تھے، رائفلیں داغنے کے لیے فصیلوں روزن بھی تھے، غرض یہ کہ حملہ آور کو پرے رکھنے کے سارے انتظامات تھے۔ اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے تھے، تاکہ حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے۔ شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیے جاتے تھے۔ یہ شاید وہی دن تھے، جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔ لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے۔ اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی، جہاں یہ اسٹیشن ہے، اسے بھی ہٹا کر دور لے جانا پڑا۔

  • جوتے کا ترجمہ…

    جوتے کا ترجمہ…

    لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان ہے۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ایک صاحب نے اس دکان کے شو کیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوب صورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوئے اور اس کے مالک سے پوچھنے لگے، اس جوتے کے کیا دام ہیں؟ دکان دار بولا مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا، یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے۔ وہ صاحب بولے "مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔”

    یہ صاحب ابنِ انشا تھے۔ ایک پر اسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت۔ "جوتے کا ترجمہ” تو محض ان کی "خوش طبعی” کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے۔ اور چینی نظمیں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ صحیفۂ کنفیوشش کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہدِ جدید کے منظومات بھی۔

    شخصیت کی اسی پر اسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا "گرو دیو” کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا اور اس کی کچھ نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے تھے۔ پو کے دوسرے عاشق ابنِ انشا تھے جنہوں نے پو کی پُراسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے "اندھا کنواں” کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ اس کتاب کے دیباچے میں انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پو کی تنقیدیں بھی خاصے کی چیز ہیں اور آیندہ وہ اس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ بھی کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے اس ارادے کی تکمیل نہ ہو سکی۔

    خود ابنِ انشا کی اپنی شاعری میں یہی پُراسراریت اور نرالی فضا ہے۔ ان کی نظمیں اگرچہ عصری آگہی کے اظہار میں اپنے عہد کے کسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں، مگر ان نظموں کی فضا اور ان کا تانا بانا اپنے عہد کے مروجہ اسالیب سے بالکل الگ ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام "چاند نگر” ہے جو ۱۹۵۵ء میں مکتبۂ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔

    ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: "گِرم کی پریوں کی کہانیوں میں ایک ضدی بونا سر ہلا کر کہتا ہے کہ انسانیت کا دھیلا بھر جوہر میرے نزدیک دنیا بھر کی دولت سے زیادہ گراں قدر ہے۔ میری کتنی ہی نظمیں اس دھیلا بھر انسانیت کے متعلق ہیں۔ ان میں بھوک کا جاں گداز درد بھی ہے اور جنگ کا مہیب خوف بھی۔ بھوک اور احتیاج سے رست گاری کی جدوجہد مارکس سے ہزاروں برس پہلے شروع ہوئی تھی اور اب بھی جاری ہے۔”

    واقعہ یہ ہے کہ ابن انشا ایک ترقی پسند شاعر تھے مگر ان کی ترقی پسندی تحریک، منشور اور پارٹی لائن والی ترقی پسندی سے مختلف تھی۔ جنگ اور امن کے موضوع پر اردو میں ترقی پسند شاعروں نے ہنگامی اور صحافتی انداز کی کیا کیا نظمیں نہیں لکھیں لیکن ان میں سے آج ہمارے حافظے میں کون سی نظم محفوظ رہ گئی ہے؟ مگر ابنِ انشا نے اس موضوع کو جو بظاہر وقتی اور ہنگامی ہے اپنے شاعرانہ خلوص اور فن کارانہ ایمان داری کے بدولت جاوداں کر دیا ہے۔ مضافات، امن کا آخری دن، افتاد، شنگھائی، کوریا کی خبریں، کوچے کی لڑائی وغیرہ نظمیں آج بھی شعریت سے بھرپور معلوم ہوتی ہیں۔

    ۱۹۵۵ء میں "چاند نگر” کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ ناصر کاظمی کی "برگ نے” اور راقم الحروف کا "کاغذی پیرہن” بھی اسی سال شائع ہوئے اور اس دور کے کئی نقادوں نے ان تینوں مجموعوں میں کچھ مشترک عناصر کی نشان دہی پر بطور خاص زور دیا۔ میں تو خیر کس شمار قطار میں تھا اور میرا مجموعہ دراصل میری ادھ کچری تخلیقات کا ایک البم تھا، لیکن نئے تنقیدی رویے کی بدولت مجھے بھی اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابنِ انشا)، دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور مزاح نگار ابنِ انشا کے فن و شخصیت پر بحیثیت دوست اور قلم کار یہ مضمون بھارت کے معروف شاعر اور نقّاد خلیل الرحمٰن اعظمی کے مکتوب کی صورت میں موجود ہے، جو ۱۹۷۸ء میں علی گڑھ میں اعظمی صاحب کے قلم سے نکلا تھا)

  • ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    یہ اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کا تذکرہ ہے جنھوں نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی اور اردو ادب کو اپنی تصانیف سے مالا مال کیا۔ ادبیاتِ اردو میں انھیں ایک محقق، نقاد، ادبی مؤرخ، مترجم، لغت نویس اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

    جالبی صاحب کا یہ تذکرہ انتظار حسین کے قلم کی نوک سے نکلا ہے جو اردو کے ایک مشہور ادیب اور نقاد تھے۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی قلم کار تھے جن کا نام مین بکر پرائز کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ آج دونوں‌ ہی شخصیات اس دنیا میں‌ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی تصانیف اور بہت سی ادبی تحریریں ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ انتظار حسین کی کتاب ‘چراغوں کا دھواں’ سے جمیل جالبی کے بارے میں یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    انتظار حسین لکھتے ہیں، "سلیم کو تو 1947ء میں جیسا چھوڑا تھا، اب بھی ویسا ہی پایا، مگر وہ جو اس ٹولی کا دوسرا جوان تھا، جمیل خان اور جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ماشاء اللہ کیا قد نکالا تھا۔ جب میرٹھ میں دیکھا تھا، تو نام خدا ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ چھریرا بدن، گوری رنگت، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس۔ میرٹھ کالج کا نیا دانہ اور اب جو دیکھا، تو نقشہ کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلے میں گلوری، ہونٹوں پر پان کی لالی، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی۔ کتنی جلدی مگر کسی شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔ ”ناصر صاحب پان لیجیے اور یہ قوام چکھیے۔“

    ناصر کاظمی کو جمیل خاں کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فوراً ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر دیا۔ ”یہ تمہارے جمیل صاحب آدمی شستہ ہیں۔“ پانوں کی اس ڈبیا اور قوام کی اس ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔ ”ارے میاں تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔“

  • ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف روس کا عظیم ڈراما نویس، ناول اور افسانہ نگار تھا جس کی تحریروں سے اپنے وقت کے بڑے بڑے دانش ور اور اہلِ قلم متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ ایسا ادیب تھا جسے اس کی تخلیقات ہی نہیں انسان دوستی اور افکار کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

    ترگنیف کا یہ تذکرہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں، احمد عقیل روبی کے قلم کی نوک سے نکلا ہے۔ وہ ایک باکمال ادیب، شاعر اور بہترین مترجم تھے جن کا غیرملکی ادب کا مطالعہ حیرت انگیز تھا۔ ایوان ترگنیف کی زندگی اور اس کے تخلیقی سفر کے بارے میں احمد عقیل روبی کی یہ تحریر پُرلطف اور دل چسپ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ماں کی ممتا پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بچے کو زندگی دیتی ہے، اسے بولنا، چلنا، زندگی کو ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی ماں بچے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ بچے کو اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتی۔ من مانی پر اتر آتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور آخر کار بچہ بغاوت کر دیتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی ہے۔ ماں غصیلی تھی، چڑ چڑاپن اپنے عروج پر تھا۔ اس پر جب غصے کا بھوت سوار ہوتا تو وہ لارڈ بائرن کے بال نوچتی، اسے بری طرح مارتی، بائرن اس سے ہر پل خائف رہتا تھا۔ جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھی اس سے اکثر پوچھتے تھے:’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن کو اس بات کا بڑا افسوس تھا۔ اسے بچپن میں ماں کا پیار نہ ملا۔ وہ ساری عمر اپنی محبوباؤں میں ماں کا پیار تلاش کرتا رہا۔ فرانسیسی ناول نگار گستاؤ فلابیئر کے ساتھ الٹا حساب ہوا۔ فلابیئر کی ماں نے اسے اتنا پیار دیا، اتنی توجہ دی کہ فلابیئر کی زندگی برباد کر دی اور ساری عمر ماں کی بغل میں سمٹ کر بیٹھا رہا۔ نہ کسی عورت سے شادی کر سکا، نہ کھل کے محبت کر سکا۔ اگر کبھی شادی کے لئے دل نے رضا مندی ظاہر بھی کی تو محبوبہ کو چھوڑ کر ماں کے پاس چلا آیا۔ ماں اس کی کمزوری بن گئی۔ کھانا، پینا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، سب کچھ ماں کے اشارے پر کرتا تھا۔ گاؤں سے کبھی پیرس گیا، اپنی محبوبہ سے ملا۔ ماں یاد آ گئی تو پیرس سے بھاگ کر گاؤں چلا آیا۔ ایک بار اس کی شاعر محبوبہ نے اس سے کہا:’’تمہاری ماں تمہاری ایسے دیکھ بھال کرتی ہے جیسے تم کوئی کنواری لڑکی ہو۔‘‘ یہی حال ترگنیف کا تھا لیکن اس نے اپنی ماں سے کھل کر اختلاف کیا۔

    اس کی ماں بہت بڑی جاگیر کی وارث تھی۔ اس کی جاگیر میں 5000 غلام (Serfs) تھے۔ ان پر وہ دل کھول کر ظلم کرتی تھی۔ ہلکی سی غلطی پر انہیں کوڑوں سے مارتی۔ ترگنیف کو ماں کی اس عادت سے نفرت تھی۔ یہ نفرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔ وہ ماں سے اختلاف کرتا رہا۔ وہ اپنے غلاموں کو انسانی حقوق دینا چاہتا تھا۔ ماں اس پر رضامند نہ تھی۔ وہ اذیت پسند تھی۔ ترگنیف اس کی اس عادت سے بیزار رہتا تھا۔ 1834ء میں ترگنیف کا باپ مر گیا جو روسی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔ ترگنیف کی ماں کے لیے اب کھلا میدان تھا‘ اس نے جی بھر کے غلاموں پر تشدد کیا۔ ترگنیف نے کبھی دبے الفاظ میں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو ماں نے اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ترگنیف کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا‘ وہ خاموشی سے ماں کی بات مانتا رہا مگر ترگنیف نے ماں کے ظالمانہ سلوک کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔

    18ء اکتوبر 1818ء کو (Oral) شہر میں ایک امیر خاندان کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماں Varvara Petr شاعرانہ اور ادبی ذوق رکھنے والی ایک رئیس اور اذیت پسند خاتون تھی۔ترگنیف یورپ اور فرانس کے ادیبوں میں بہت مقبول تھا۔ فلابیئر کے ساتھ اس کے بہت گہرے مراسم تھے۔ ترگنیف اپنا زیادہ وقت فرانس ہی میں گزارتا تھا۔ روس کے ادیب، جن میں ٹالسٹائی بھی شامل تھا، اس کی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ روس کے ادیبوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ ترگنیف کو روس سے کوئی دل چسپی نہیں، وہ ذہنی طور پر ’’یورپ زدہ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ترگنیف کی تحریروں سے واضح ہے کہ اسے روس سے بہت محبت تھی۔ روس کے کسانوں اور دیہات میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار پر اس کا دل لہو روتا۔ روس کے ادیب صرف حسد میں یہ باتیں کرتے تھے کیونکہ یورپ اور دیگر ممالک میں ترگنیف اپنے تمام ہمعصر لکھنے والوں سے زیادہ مقبول تھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ (Fathers and Sons) ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے۔ یہ ناول 1862ء میں چھپا۔ اس ناول کا ہیرو بازووف 1860ء کی نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نوجوان Nihilist تحریک سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب سمیت تمام پرانے عقائد اور اداروں کو رَد کرتی ہے۔ مغربی یورپ میں اسے پہلے روسی ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔

    ترگنیف بحیثیت شاعر تو نا کام رہا لیکن بحیثیت ناول نگار اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اسے ’’ناول نگاروں کا ناول نگار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بازووف ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو مر کر بھی زندہ رہی جس نے اپنے آپ کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا، جس نسل کے خیالات ان کی بزرگ نسل نہ سمجھ سکی۔

    ترگنیف بلاشبہ ایک ایسا ناول نگار تھا جس نے ہمیں بتلایا کہ زندگی کیا ہے۔ انسان کی مختلف پرتیں کیا ہیں۔ وہ کیا ہے جو تاریخ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ بھید کیا ہے جو انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ قاری اگر ترگنیف کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کا ان تمام چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔

    (ادبی اقتباسات)

  • غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ عملاً کسی مخصوص گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عملی زندگی، پنشن اور روزی کے لئے جدوجہد کرنے اور ادبی کاموں میں لگے رہنے تک محدود تھی۔

    روزی کے لئے جدوجہد ان کی طبقاتی زندگی کا مظہر تھی۔ ان کی محنت دماغی تھی جس کے خریدار اور قدر داں امراء اور کھاتے پیتے لوگ ہو سکتے تھے۔ ان کی نگاہ میں عرب اور ایران کے قدر داں بادشاہ اور امراء تھے، خود ہندوستان میں مغل سلاطین، امرائے گولکنڈہ اور بیجا پور کے دربار تھے، جہاں عرفیؔ، نظیریؔ، قدسیؔ، صائبؔ، کلیمؔ اور ظہوریؔ وغیرہ اپنی اسی خصوصیت کی قیمت پا چکے تھے اور عزت کی زندگی بسر کر چکے تھے۔ اس لئے وہ بھی اچھے سے اچھے قصائد لکھ کر، اچھی سے اچھی غزلیں کہہ کر، علمی کام کر کے باوقار زندگی بسر کرنے کا حق اور اطمینان چاہتے تھے۔ ان کے سپاہ پیشہ بزرگوں نے تلوار سے عزت حاصل کی تھی، وہ قلم سے وہی کام لینا چاہتے تھے۔

    اس طرح ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اور ذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچہ میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انھوں نے اس طور پر عمارت کھڑی کی جو انھیں ذہنی طور پر ورثہ میں ملا تھا۔ بس انھوں نے یہ کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چند ایسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ تو ممکن تھے نہ جن کے نقشہ ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالبؔ کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لئے غذا فراہم کرتا تھا اور علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انھیں ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے نقادوں نے جدت، تازگی اور طرفگیٔ مضامین سے تعبیر کیا ہے۔

    اسلام اور دوسرے مذاہب کا مطالعہ، تاریخ، اخلاقیات، ہیئت، طب، منطق، تصوف، یہی وہ علوم ہیں جو رائج تھے اور انہی سے غالبؔ نے زندگی کے سمجھنے میں مدد لی تھی۔ اسلامی علوم اور تصوف جو غالبؔ تک پہنچے تھے، ایران ہو کر پہنچے تھے، اور جب ہم ایران میں لکھی ہوئی مذہب، تاریخ اور اخلاقیات کی کتابوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی تقاضوں سے ان میں کئی عناصر جذب ہو گئے تھے۔ بعض عناصر تو مقامی تھے۔ بعض تجارتی راہوں سے وہاں آئے تھے۔ چنانچہ ایران میں جو علمی آثار عباسیوں کے زمانے میں نمایاں ہوئے ان میں عربی، یونانی، زردشتی اور ہندی اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

    عباسیوں کے زمانے میں ایران کا قومی احیاء بھی ہوا جسے تاتاریوں کی یورش سے دب جانا پڑا۔ ایران نے تاجر اور سپاہی پیدا کئے لیکن تاجر منظم نہ ہو سکے اور سپاہیوں نے انفرادی طور پر سلطنتیں قائم کرکے شاہی نظام کو مضبوط بنا دیا۔ یہیں سے غالبؔ کو وہ فلسفۂ مذہب و اخلاق ملا جس کو آج تک اسلامی نظام فلسفہ میں اونچی جگہ حاصل ہے اور غالبؔ کے زمانہ میں تو دوسرے خیالات کی طرف ہندوستانیوں کا ذہن جا ہی نہیں رہا تھا۔ یہیں سے انھوں نے تصوف کے وہ خیالات لئے جو ایران میں تو افلاطونیت سے مخلوط ہوکر اسلامی عقائد کی سخت گیری کے خلاف پیدا ہوئے تھے، اور جنھیں رسمی مذہب پرستی سے اختلاف رکھنے والے شاعروں نے ہر دل عزیز بنایا۔ یہاں پھر یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ غالبؔ صوفی مشرب ہونے اور وحدت میں عقیدہ رکھنے کے باوجود تصوف کے سارے اصول کو عملی صوفیوں کی طرح نہیں مانتے تھے۔ وحدت الوجود کی طرف ان کا میلان کچھ تو مسائل کائنات کے سمجھنے کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا اور مذہب کی ان ظاہر داریوں سے بچ نکلنے کا ایک بہانہ تھا جو ان کی آزاد پسند طیعت پر بار تھیں۔

    غالبؔ جس سماج کے فرد تھے اس میں باغیانہ میلان اور آزادی کا جذبہ داخلی طور پر تصوف ہی میں نمایاں ہو سکتا تھا کیونکہ غالبؔ کو کوئی خارجی سہارا آزادی کے لئے حاصل نہ تھا۔ کوئی علمی یا ادبی تحریک جس سے وابستہ ہوکر وہ اپنے طبقہ کے ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود آگے بڑھ جاتے، موجود نہیں تھی۔ وہ زمانہ کچھ دن بعد آیا۔ جب سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور زندگی کے نئے مطالبات کی روشنی میں ایک ادبی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ غالبؔ کی ذہنی ترقی کا دور غدر تک ختم ہو چکا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی بارہ سال تک زندہ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ غدر کے بعد غالبؔ کی شاعری تقریباً ختم ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ان کے خطوں میں جس طرح نمایاں ہیں، ان کے اشعار میں نمایاں نہ ہو سکے۔ انھوں نے غدر کے پہلے ہی فضا کی ساری اداسی اور افسردگی کو داخلی بنا کر سینہ میں بھر لیا تھا، اس لئے جذبہ کا وہ تسلسل قائم رہا اور خارجی تغیرات نے نئی داخلی سمتیں نہیں اختیار کیں۔
    ذرائع پیداوار اور انسانی شعور کے عمل اور رد عمل سے زندگی آگے بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک مختلف سماجی اور معاشی منزل پر ہوتے ہیں اور ان کے فلسفۂ زندگی اور تمدنی شعور کی منزلیں بھی کم وبیش اس سے مناسبت رکھتی ہیں۔

    انیسویں صدی کے وسط میں جب ہندوستان اقتصادی پستی کی اس منزل میں تھا، یورپ میں مشینی انقلاب ہو چکا تھا اور سماجی شعور ڈارونؔ، مارکس اور اینگلزؔ کو پیدا کر چکا تھا۔ ہندوستان کا ذہین سے ذہین مفکر اس تخلیقی گرمی سے خالی تھا جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور اپنے اندر اجتماعی روح کی پرورش کرتی ہے۔ غالبؔ نے بھی عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے اندر انسان اور کائنات، فنا اور بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلام روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسرت، آرزوئے زیست اور تمنائے مرگ، کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت و ریا کاری غرضیکہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔

    غالبؔ کے مطالعہ کے دوران میں ایک دل کش حقیقت کی طرف ذہن ضرور منتقل ہوتا ہے کہ گو وہ ہندوستانی سماج کے دورِ انحطاط سے تعلق رکھتے تھے یعنی ایسے انحطاط سے تعلق رکھتے تھے جو ہر طبقہ کو بے جان بنائے ہوئے تھا لیکن ان کی فکر میں توانائی اور تازگی، ان کے خیالوں میں بلندی اور بیباکی کی غیرمعمولی طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس توانائی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس طبقہ میں اور اس کے نصب العین میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس سے غالبؔ کا تعلق تھا۔ پھر اس کی جستجو کہاں کی جائے؟ کیا یہ سب کچھ تخیل محض کا نتیجہ ہے؟ ان کی شاعری کا سارا حسن ان کے انفرادی بانکپن کا عکس ہے یا غالبؔ انسان سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور گو ان کی نگاہوں کے سامنے ان کو جنم دینے والی تہذیب نزع کی ہچکیاں لے رہی تھی، جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن وہ پھر بھی نئے آدم کے منتظر تھے جو زندگی کو پھر سے سنوار کر محبت کرنے کے قابل بنادے۔

    (سیّد احتشام حسین کے مضمون ‘غالب کا تفکر’ سے اقتباسات، آج مرزا غالب کا یومِ پیدائش ہے)

  • ذکر اُس پری وَش کا

    ذکر اُس پری وَش کا

    پیدائش پٹیالہ کے ایک دیوان خاندان میں ہوئی۔ تاریخِ پیدائش مت پوچھیے کہ صنفِ نازک کی حد تک اس سوال کا پوچھنا خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس موضوع پر کوئی احمق سوال کر ہی بیٹھے تو بزرگوں کے قول کے مطابق یہ صنف تاریخ تو یاد رکھتی ہے مگر سنہ بھول جاتی ہے۔
    کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر انسان کا حافظہ خراب ہو تو وہ زیادہ دیر تک جوان رہ سکتا ہے۔
    اس بات کا ثبوت کہ پری وَش کی ولادت واقعی دیوانوں (یعنی وزیروں) کے خاندان میں ہوئی۔ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ بات کرتے ہوئے موصوفہ خود کو صیغہ واحد کے بجائے صیغہ جمع سے تعبیر کرتی ہیں، مثلاً ہم نے ایسا کیا، ہم یہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارا فیصلہ ہے کہ یہی ہوگا۔ اس کے علاوہ کسی اور کو کسی معاملے میں برتری حاصل نہ ہونے دینے کی خُو، گو ایسا کرنے سے کوئی خوبی ثابت نہ ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ان کے سامنے یہ دعویٰ کرے کہ اس کے لڑکے ایسے سرپھرے ہیں کہ دن میں دس روپے کی پتنگیں اڑادیتے ہیں، تو پری وَش فوراً بے پر کی اڑانے لگتی ہیں کہ ان کی لڑکیاں اپنے اس شوق کو پورا کرنے میں ایک دن میں بیس بیس روپے صرف کر دیتی ہیں۔
    تاجپوشی اور تخت نشینی ان کی 44ء میں ہوئی۔ جب راوی زرّین شیروانی اور آہنی تلوار کرایہ کی لے کر اس تقریب میں شریک ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارے سسر صاحب مرحوم ہوکر ہم کو محروم کرگئے تھے، ان حقوق سے جو فرزندی میں لینے کے بعد خاکسار کو حاصل ہوسکتے تھے۔ بہرحال پَری وَش کی تخت نشینی کے بعد ان کا راج شروع ہوا، جو اب تک جاری و ساری ہے۔ عنانِ حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد انہوں نے ایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے جس میں ایک صاحب، ایک بی بی اور ایک غلام ہونے کے باوجود غلاموں کی تعداد دو ہے۔
    ممکن ہے اب آپ یہ سمجھنے لگیں کہ رانی جی کے تعلق سے خاکسار غیرجانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرسکتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ موصوفہ کا شمار حسینانِ جہاں میں ہونا چاہیے۔ سرو قد، متناسب جسم، سرخ و سپید رنگت، تابناک چہرہ، آہو چشم، ایک ماہِ کامل۔ زندگی میں جب پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو ایک لڑکی تھی۔ قیس کی لیلیٰ سے زیادہ خوبصورت اور فرہاد کی شیریں سے بڑھ کر شیریں۔ لڑکی جو عورت پھر ماں بنی، گھر کی مالک، گھرانے کی رانی، جس کی حکمرانی میں سرکشی اور بغاوت شرم سے پانی پانی۔ جس کا حکم نادرشاہی، جس کے فرامین اَٹل، جس کا غصہ گھر بھر کو لرزہ براندام کردے، جس کے رعب سے سر اور کمر جھکے رہیں۔ جس کی حشم ناکیوں سے گھر کا کتا بھونکنا بند کرکے اور دم دبا کر پلنگ کے نیچے پناہ ڈھونڈے اور خاندان کے افراد تتر بتر ہو کر سراسیمگی کی حالت میں گھر کے کونوں اور گوشوں میں سہم کر سمٹ جائیں۔ غرض شان اس پَری وَش کی شاہانہ، انداز تحکمانہ، لہجہ بیباکانہ، جب لب ہائے شیریں متحرک ہوں، یعنی یہ کھولیں اپنا دہانہ، تو اپنے الفاظ کی روانی کے سامنے تھم جائے۔ ٹینی سن کی پہاڑی ندی کا پانی اور چون و چرا کرنے کاجذبہ بھسم ہوجائے مانند پروانہ!
    جب اس رنگین قیامت کا عتاب شباب پر ہو تو آواز ایسی بلند کہ ٹیلیفون کا توسط غیر ضروری محسوس ہو۔ کانوں کے پردے ہل جائیں اور اڑوس پڑوس کی پردہ والیاں بھی پردے پرے کرکے اپنے اپنے آشیانوں سے باہر نکل پڑیں۔
    جب سے رانی جی نے چابیوں کا گچھا کمر میں لٹکانا شروع کیا ہے گھر میں سخت قسم کا کنٹرول عائد ہوگیا ہے۔ جہاں ہر چیز کسی مقفل الماری، صندوق، کمرہ یا میز کی دراز میں ہو تو ان کی اجازت یا ایما کے بغیر تنکا بھی اِدھر سے ادھر نہیں ہوسکتا اور خادم کو سگریٹ ماچس وغیرہ کے لیے گھر کے کتے کی طرح دم ہلانی پڑتی ہے۔
    ان کے دورِ حکومت میں خاندان کے اراکین میں دو کا اضافہ ہوا اور مالک یعنی اس اوپر والے کی مرضی سے دونوں چاند کی ٹکڑیاں ثابت ہوئیں۔ اس طرح ملکہ صاحبہ اولادِ نرینہ سے محروم ہیں اور ہمیشہ خاکسار کو اس کمی کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ جب صاحبزادیاں امتحانوں میں اونچے درجے حاصل کرکے پاس ہوتی ہیں یا کوئی اور قابل ستائش کام انجام دیتی ہیں تو بتلایا جاتا ہے کہ آخر ان کی رگوں میں ان کا ہی خون ہے اور اگر شاذ و نادر وہ کبھی ضد کرتی ہیں یا کسی بات پر اڑ جاتی ہیں تو ان بچیوں کی رگوں میں خالص میرا خون دورہ کرنے لگتا ہے۔
    رانی صاحبہ کو اپنی رعایا سے جو کم و بیش خاکسار پر مشتمل ہے، یہ شکایت ہے کہ ان کو انتظامِ خانہ داری کی ہر ذمہ داری سے نپٹنا پڑتا ہے جب کہ راوی دفتر میں ٹانگیں پھیلائے گلچھڑے اڑاتا رہتا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق دفتر کا کام محض غپ شپ لڑانے، چائے پینے، اناپ شناپ بکنے، نیچے والوں کو دھمکانے اور اوپر والوں کے سامنے بھیگی بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرنے، اور فائلوں پر کچھ الٹے سیدھے دستخط کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جب کبھی مجھے دفتر سے آنے میں دیر ہوجاتی ہے تو ملکہ صاحبہ میرے انتظار میں بیزار، برسرپیکار، مرنے مارنے پر تیار۔ جب مجھ پر بڑھاپے میں آوارہ گردی کا الزام دھرتے ہوئے، دفتر کے کام کے متعلق اپنے نظریے کو باآوازِ بلند بیان فرمانے لگتی ہیں تو میں نہایت ادب سے ان کے حضور میں یہ عرض کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہوں کہ اگر بیگم صاحبہ کے ان خیالات کی بھنک محکمہ فنانس کے کسی عہدہ دار کے کانوں میں پڑگئی تو خادم کی جگہ تخفیف میں آجائے گی اور وہ بے روزگار ہو جائے گا اور سرکار کے دربار میں جو خراج مہینے کی پہلی تاریخ کو پیش کیا جاتا ہے اس سے حضور کو ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اس پر ملکہ صاحبہ کچھ دیر کے لیے رک تو ضرور جاتی ہیں مگر روایتی رخصتی ٹھوکر کے طور پر یہ فرماتی ہیں کہ اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لیے خاکسار نے اچھی منطق تراشی ہے۔
    ان کو خادم سے یہ بھی شکایت ہے کہ جب وہ ان الٹی سمجھ والے نوکروں کو سیدھی طرح کام کرنے کے لیے تنبیہ کر رہی ہوتی ہیں تو اس نازک موقع پر خاکسار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شکایت درست اور بجا ہے مگر خاکسار کو اس فروگزاشت کی صفائی میں یہ عرض کرنا ہے کہ جب ملکہ صاحبہ نوکروں سے عالمِ غیض و غضب میں مخاطب ہوتی ہیں تو ایسے موقع پر میرا کچھ کہنا سننا نقار خانے میں طوطی کی آواز سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں جس نوکر کو بڑی سفارشوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور بڑی ناز برداری سے رکھا جاتا ہے اس کو ملازمت چھوڑ دینے کے لیے اکسانے میں بھلا میں کیونکر شریک ہوسکتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ رانی جی کے راج میں بہت سے نوکر ہماری ملازمت چھوڑ کر چلے گئے۔ ان میں سے ایک پچھلی جنگ کے موقع پر فوج میں بھرتی ہوگیا، تنگ آمد بجنگ رفت!

    ملکہ صاحبہ کے نوکروں کا کچھ حال آپ نے سنا۔ ان میں اور مجھ میں صرف یہ فرق ہے کہ خاکسار راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ زندگی میں بعض ایسے موقعے بھی آئے۔ جب خاکسار نے جھگڑنے کی کوشش کی مگر رانی جی نے فوراً یہ کہہ کر منہ بند کردیا کہ اگر وہ مجھ سے شکایت نہ کریں تو اور کس سے کریں۔ کوئی اور ان کی کیوں سنے گا۔ اور یہ کہ گائے اسی کھونٹے کے زور پر جس سے وہ بندھی ہوتی ہے، بدکتی ہے۔

    پچھلے 23 سال گزارنے کے بعد یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ زندگی کی الجھنیں کم مگر زندہ رہنے کی بہت بڑھ گئی ہیں۔ خاکسار کو اب پوری طرح یقین ہوگیا ہے کہ یہ دنیا عورتوں کی ہی ہے۔ جب آدمی پیدا ہوتا ہے تو پہلا سوال جو پوچھا جاتا ہے یہ ہوتا ہے کہ بچہ کی ماں کی طبیعت کیسی ہے؟ جب وہ شادی کرتا ہے تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا خوبصورت دلہن ہے۔ اور جب وہ مرجاتا ہے تو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مرنے والے نے بیوہ کے لیے کیا چھوڑا؟
    اس دنیا کی بس یہی ریت ہے۔ خادم اس دنیا میں اب تک جو حاصل کرچکا ہے وہ محض تجربہ ہے جس کے حصول میں اس دھات کی عمر میں پہنچ گیا ہے جس میں پیروں میں سکہ، منہ میں سونا اور بالوں میں چاندی بھر جاتی ہے۔ خود پری وَش میں اب پختگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ مگر ان کا رخِ روشن اب بھی تابناک ہے۔ جلالِ شاہانہ برقرار ہے۔ مگر ان کے خیالات، ان کی حرکات اور ان کی پالیسی جس جذبہ کے تحت تشکیل پاتی ہے وہ ماں کی محبت کا جذبہ ہے۔ ان کے دل میں اس بے لوث محبت کے انمول خزانے پنہاں ہیں اور آنکھوں میں اس محبت کے دریا لہریں مارتے ہیں۔ گرانی اور ملاوٹ کے جس دور سے ہماری زندگی گزر رہی ہے اس میں بھی ان کی بے پناہ نگرانی کے باعث صاف ستھرا رزق ہم کو میسر آرہا ہے۔ رانی جی کو جب میں ماں کی محبت کے روپ میں دیکھتا ہوں تو اس چھتری والے کے حضور میں یہ دعا مانگتا ہوں کہ ان کی حکومت ہم پر قائم و دائم رہے۔
    آپ شاید مسکرا رہے ہیں کہ آمرانہ حکمرانی کی اس لمبی چوڑی داستان کے بعد یہ کیا؟ اس کے جواب میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ،
    اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
    تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے
    (معروف مزاح نگار بھارت چند کھنہ کی شگفتہ تحریر) 
  • جب منٹو کی مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے!

    جب منٹو کی مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے!

    سعادت حسن منٹو نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات اور فلمی دنیا سے وابستہ فن کاروں کے بارے میں‌ کئی دل چسپ واقعات اور شخصی خاکے لکھے ہیں جن میں‌ ایک نام سندر شیام چڈا کا بھی ہے۔ شیام ایک ہندوستانی اداکار تھے۔ ان کی فلمی زندگی آغاز 1942ء میں ہوا اور وہ 1951ء میں اپنی وفات تک فلموں میں اداکاری کرتے رہے۔ ان کا انتقال بھی ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ہوا تھا۔ شیام، سعادت حسن منٹو کے قریبی اور اچھے دوست تھے۔

    یہاں‌ ہم اداکار شیام پر منٹو کے ایک خاکے سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی اور توجہ کا باعث بنیں‌ گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    شیام صرف بوتل اور عورت ہی کا رسیا نہیں تھا۔ زندگی میں جتنی نعمتیں موجود ہیں، وہ ان سب کا عاشق تھا۔ اچھی کتاب سے بھی وہ اسی طرح پیار کرتا تھا جس طرح ایک اچھی عورت سے کرتا تھا۔ اس کی ماں اس کے بچپن ہی میں مر گئی تھی مگر اس کو اپنی سوتیلی ماں سے بھی ویسی ہی محبت تھی، جو حقیقی ماں سے ہوسکتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سوتیلے بہن بھائی تھے۔ ان سب کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صرف اس کی اکیلی جان تھی۔ جو اتنے بڑے کنبے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

    ایک عرصے تک وہ انتہائی خلوص کے ساتھ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ اس دوران میں تقدیر نے اسے کئی غچے دیے مگر وہ ہنستا رہا، ’’جانِ من ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تو میری بغل میں ہوگی۔‘‘ اور وہ کئی برسوں کے بعد آخر وہ دن آہی گیا کہ دولت اور شہرت دونوں اس کی جیب میں تھیں۔

    موت سے پہلے اس کی آمدنی ہزاروں روپے ماہوار تھی۔ بمبے کے مضافات میں ایک خوبصورت بنگلہ اس کی ملکیت تھا اور کبھی وہ دن تھے کہ اس کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تھی، مگر مفلسی کے ان ایام میں بھی وہی ہنستا ہوا شیام تھا۔ دولت و شہرت آئی تو اس نے ان کا یوں استقبال نہ کیا جس طرح لوگ ڈپٹی کمشنر کا کرتے ہیں۔ یہ دونوں محترمائیں اس کے پاس آئیں تو اس نے ان کو اپنی لوہے کی چارپائی پر بٹھا لیا اور پٹاخ پٹاخ بوسے داغ دیے۔

    میں اور وہ جب ایک چھت کے نیچے رہتے تھے تو دونوں کی حالت پتلی تھی۔ فلم انڈسٹری ملک کی سیاسیات کی طرح ایک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہی تھی۔ میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ اس کا وہاں ایک پکچر کا کنٹریکٹ تھا دس ہزار روپے میں۔ عرصے کی بیکاری کے بعد اس کو یہ کام ملا تھا۔ مگر وقت پر پیسے نہیں ملتے تھے۔ بہرحال ہم دونوں کا گزر کسی نہ کسی طور ہو جاتا تھا۔ میاں بیوی ہوتے تو ان میں روپے پیسے کے معاملے میں ضرور چخ چخ ہوتی، مگر شیام اور مجھے کبھی محسوس تک نہ ہوا۔ ہم میں سے کون خرچ کررہا ہے اور کتنا کررہا ہے۔

    ایک دن اسے بڑی کوششوں کے بعد موٹی سی رقم ملی (غالباً پانچ سو روپے تھے) میری جیب خالی تھی۔ ہم ملاڈ سے گھر آرہے تھے۔ راستے میں شیام کا یہ پروگرام بن گیا کہ وہ چرچ گیٹ کسی دوست سے ملنے جائے گا۔ میرا اسٹیشن آیا تو اس نے جیب سے دس دس روپے کے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ آنکھیں بند کر کے اس کے دو حصے کیے اور مجھ سے کہا، ’’جلدی کرو منٹو۔۔۔ ان میں سے ایک لے لو۔‘‘

    میں نے گڈی کا ایک حصہ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا۔ اور پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ شیام نے مجھے’’ٹاٹا‘‘ کہا اور کچھ نوٹ جیب سے نکال کر لہرائے، ’’تم بھی کیا یاد رکھو گے سیفٹی کی خاطر میں نے یہ نوٹ علیحدہ رکھ لیے تھے۔۔۔ ہیپ ٹلا!‘‘ شام کو جب وہ اپنے دوست سے مل آیا تو کباب ہورہا تھا۔ مشہور فلم اسٹار’’کے کے‘‘ نے اس کو بلایا تھا کہ وہ اس سے ایک پرائیویٹ بات کرنا چاہتی ہے۔ شیام نے برانڈی کی بوتلیں بغل میں سے نکال کر اور گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈال کر مجھ سے کہا، ’’پرائیویٹ بات یہ تھی۔ میں نے لاہور میں ایک دفعہ کسی سے کہا تھا کہ ’’کے کے‘‘ مجھ پر مرتی ہے۔ خدا کی قسم بہت بری طرح مرتی تھی۔ لیکن ان دنوں میرے دل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اس نے مجھے اپنے گھر بلا کر کہا کہ تم نے بکواس کی تھی۔ میں تم پر کبھی نہیں مری۔ میں نے کہا تو آج مر جاؤ۔ مگر اس نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور مجھے غصے میں آکر اس کے ایک گھونسہ مارنا پڑا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا، ’’تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا؟‘‘ شیام نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا جو زخمی ہو رہا تھا، ’’کم بخت آگے سے ہٹ گئی۔ نشانہ چوکا اور میرا گھونسہ دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خوب ہنسا، ’’سالی بیکار تنگ کررہی ہے۔‘‘

    میں نے اوپر روپے پیسے کا ذکر کیا ہے۔ غالباً دو برس پیچھے کی بات ہے۔ میں یہاں لاہور میں فلمی صنعت کی زبوں حالی اور اپنے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے مقدمے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ عدالتِ ماتحت نے مجھے مجرم قرار دے کر تین مہینے قیدِ بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ میرا دل اس قدر کھٹا ہوگیا تھا کہ جی چاہتا تھا، اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کردوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ چنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں، کسی پر نکتہ چینی کروں نہ کسی معاملے میں اپنی رائے دوں۔
    ایک عجیب و غریب دور سے میرا دل و دماغ گزر رہا تھا۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ افسانے لکھ کر ان پر مقدمے چلوانا میرا پیشہ ہے۔ بعض کہتے تھے کہ میں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ سستی شہرت کا دلدادہ ہوں اور لوگوں کے سفلی جذبات مشتعل کر کے اپنا الو سیدھا کرتا ہوں۔ مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں۔ ان چار الوؤں کو سیدھا کرنے میں جو خم میری کمر میں پیدا ہوا، اس کو کچھ میں ہی جانتا ہوں۔

    مالی حالت کچھ پہلے ہی کمزور تھی۔ آس پاس کے ماحول نے جب نکما کردیا تو آمدنی کے محدود ذرائع اور بھی سکڑ گئے۔ ایک صرف مکتبہ جدید، لاہور کے چودھری برادران تھے جو مقدور بھر میری امداد کررہے تھے۔ غم غلط کرنے کے لیے جب میں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کی تو انہوں نے چاہا کہ اپنا ہاتھ روک لیں۔ مگر وہ اتنے مخلص تھے کہ مجھے ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔

    اس زمانے میں میری کسی سے خط کتابت نہیں تھی۔ دراصل میرا دل بالکل اچاٹ ہو چکا تھا۔ اکثر گھر سے باہر رہتا اور اپنے شرابی دوستوں کے گھر پڑا رہتا، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی صحبت میں رہ کر جسمانی و روحانی خود کشی کی کوشش میں مصروف تھا۔ ایک دن مجھے کسی اور کے گھر کے پتے سے ایک خط ملا۔ تحسین پکچرز کے مالک کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا کہ میں فوراً ملوں۔ بمبے سے انہیں میرے بارے میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہے۔ صرف یہ معلوم کرنے کے لیے یہ ہدایت بھیجنے والا کون ہے۔ میں تحسین پکچرز والوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ بمبے سے شیام کے پے در پے انہیں کئی تار ملے ہیں کہ مجھے ڈھونڈ کر 500 روپے دے دیے جائیں۔ میں جب دفتر میں پہنچا تو وہ شیام کے تازہ تاکیدی تار کا جواب دے رہے تھے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود انہیں منٹو نہیں مل سکا۔ میں نے 500 روپے لے لیے اور میری مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    میں نے بہت کوشش کی کہ شیام کو خط لکھ کر اس کا شکریہ ادا کروں اور پوچھوں کہ اس نے مجھے یہ 500 روپے کیوں بھیجے تھے، کیا اس کو علم تھا کہ میری مالی حالت کمزور ہے۔ اس غرض سے میں نے کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ میرے لکھے ہوئے الفاظ شیام کے اس جذبے کا منہ چڑا رہے ہیں جس کے زیرِ اثر اس نے مجھے یہ روپے روانہ کیے تھے۔

  • موسموں کا شہر

    موسموں کا شہر

    انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔

    میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان میں کوئی گالی نہ ہوتی۔ کم و بیش یہی حال ہم اہلیانِ کراچی کا ہے۔ میں اپنے شہر کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ (INDOOR PASTIME) رہا ہے۔ ہر آن بدلتے ہوئے موسم سے جس درجہ شغف ہمیں ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں بہت سے نجومی ہاتھ دیکھ کر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کی پیش گوئی کرتے ہیں اور الغاروں کماتے ہیں۔

    اب سے چند مہینے پہلے تک بعض گرم و سرد چشیدہ سیاست دان خرابیِ موسم کو آئے دن وزارتی رد و بدل کا ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی کا موسم بھی انگریز ہی کی ایک چال ہے۔ لیکن موسم گزیدہ عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ در حقیقت وزارتی رد و بدل کے سبب یہاں کا موسم خراب ہو گیا ہے۔ نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔

    اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو یا پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بت ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھیرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب و ہوا ہی کو اپنے تین دوالوں کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنےمیں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بناپر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں۔ سیلن سے جنس اور دالوں کا وزن دگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو ۱/۴سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘

    ایک اور ایک کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی 32 ویں سالگرہ پر 23 موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ دس سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
    لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔

    یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیل آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہلِ کراچی اس واللہ اعلم بالصواب قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔

    ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چولوں کے کھٹمل گن لیجیے۔ اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کے تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھول بل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم!

    کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیر و سیاحت پر اکسانے میں آب و ہوا کو بڑا دخل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہرگز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بدظن ہو جائیں۔ لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے، کچھ دن یہاں کی بہارِ جاں فزا دیکھ کر میونسپل کارپوریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں، ان کا تعلق اس مخلوق سے ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مثلاً مگرمچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ!

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کی ایک تحریر سے چند پارے)