Tag: ادب پارے

  • باتوں کے بھوت…

    باتوں کے بھوت…

    نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا ؎

    کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
    جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

    ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔ ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفتگو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

    ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دوران گفتگو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:

    ”اور بھئی ٹھیک ٹھاک“ یا ”خیریت سے ہو۔“ اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

    مغرب میں دو اجنبیوں میں گفتگو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متمول یا نو دلتیے، بھائی اچھن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔

    بھائی اچھن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“

    شبو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“

    بھائی اچھن:”کہاں نوکری کرتے ہیں“

    شبو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“

    بھائی اچھن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہو جاتا ہے؟“

    شبو میاں: ”بڑی مشکل سے“

    بھائی اچھن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کر لیتے؟“

    اس سوال پر شبو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگادیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

    میاں اچھن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب“ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت بے تاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادر و نایاب مشورہ دیا جاسکے۔ بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کر دیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے روبرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہر معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں!

    (شاعر، ناول نگار، سینئر صحافی اور مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے قلم سے)

  • ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    کئی برس ہوئے نئی دہلی میں کلکتہ کے ایک ہندو بنگالی کلرک تھے۔ تنخواہ ڈیڑھ دو سو روپیہ ماہوار کے قریب۔ ان کی بیوی مر چکیں تھیں۔ کوئی لڑکا نہ تھا اور صرف ایک لڑکی تھی جس کا نام شیلا تھا۔

    اس زمانہ میں ہر شے ارزاں تھی اور ان بابو جی کے صرف ایک بچّی تھی۔ اس لیے آپ اس بچّی پر کافی روپیہ صرف کرتے اور آپ نے اس لڑکی کی تعلیم کا انتظام دہلی کے کوئین میری اسکول تیس ہزاری میں کیا تھا جہاں مصارف کی زیادتی کے باعث صرف امراء کی لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ شیلا جب چودہ برس کی تھی تو ان کے والد انتقال کر گئے اور گھر میں (جو سرکاری کوارٹر تھا) کوئی نہ رہ گیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک نوعمر اور ناتجربہ کار لڑکی صرف اکیلی رہ جائے تو اس کے دل اور ذہن کی کیا کیفیت ہوگی۔ میرے پاس ایک خاتون کا پیغام پہنچا کہ لڑکی اکیلی رہ گئی ہے۔ اس کے رشتہ دار کلکتہ میں ہیں اور جب تک اس کے چچا اس کو لینے کے لیے نہ آجائیں۔ اس لڑکی کے رہنے کا انتظام کسی خاتون کے ہاں کر دیا جائے۔ لڑکی جوان تھی اور ذمہ داری کا بھی سوال تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی ایک خاتون کے ہاں بھیجوا دیا جائے۔ یہ خاتون بہادر شاہ ظفر بادشاہ کے خاندان میں سے تھیں اور کوئین میری اسکول ہی کی تعلیم یافتہ تھیں۔ یہ "ریاست” اور اس کے ایڈیٹر کی مداح تھیں اور اس خاتون کا کبھی کبھی خط آیا کرتا تھا۔ میں نے ظفر احمد صاحب ( جو میرے اخبار ریاست کے پرنٹر و پبلشر تھے اور دفتر میں کام کرتے تھے) کو بھیج کر لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں بھجوانے کا انتظام کر دیا اور اس خاتون نے اس لڑکی کے لیے اپنے مکان کی اوپر کی منزل میں ایک کمرہ دے دیا اور چوں کہ یہ لڑکی ہندو تھی، اس کے کھانے کا انتظام اس خاتون نے دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل میں کر دیا۔ جہاں سے ہوٹل کا ملازم دونوں وقت کھانا دے جاتا اور میں نے کلکتہ اس کے چچا کو تار بھجوایا کہ شیلا اکیلی ہے۔ اسے آکر لے جائے۔

    دنیا میں زوال کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ شیلا کے چچا نے جب سنا کہ اس کے بھائی کا انتقال ہو چکا ہے اور شیلا دہلی میں اکیلی ہے تو اس نے بھی کچھ زیادہ پروا نہ کی اور لڑکی کو کلکتہ لا کر رکھنا ایک بوجھ سمجھا اور جب اسے بار بار لکھا گیا تو یہ کئی روز بعد دہلی پہنچا اور شیلا دو ہفتہ کے قریب کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں رہیں۔ اس دو ہفتہ کے قیام میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ صرف ایک واقعہ دل چسپ ہے۔

    میرے پاس اطلاع پہنچی کہ شیلا کو بخار ہے۔ میں نے ظفر صاحب کو بھیجا کہ وہ کسی ڈاکٹر کو دکھا کر دوا کا انتظام کر دیں۔ ظفر صاحب کوچۂ چیلاں گئے ۔ شیلا کو اس وقت بخار نہ تھا۔ ظفر صاحب نے کہا کہ وہ ڈاکٹر کو بُلا کر دکھا دیتے ہیں تو شیلا نے کہا کہ ڈاکٹر کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خود ڈاکٹر کے ہاں جا کر نبض دکھا کر دوا لے آئے گی۔ ظفر صاحب نے ڈولی منگائی (اس زمانہ میں دہلی میں ڈولیوں کا رواج بہت تھا اور عورتیں ڈولیوں میں ہی جایا کرتی تھیں)۔ شیلا جب ڈولی میں سوار ہونے لگی تو کمزوری کے باعث یہ کچھ لڑکھڑا سی گئی۔ ظفر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کمزور ہیں تو چاہا کو سہارا دے کر ڈولی میں بٹھا دیں۔ مگر جب ظفر صاحب سہارا دینے لگے تو اس نے بے اختیاری کے عالم میں کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔”

    شیلا ڈولی میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاں گئیں۔ ظفر صاحب ساتھ تھے۔ ڈاکٹر کو نبض دکھائی گئی اور شیلا دوا لے کر واپس کوچۂ چیلاں پہنچ گئی۔ ظفر صاحب جب دفتر میں واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ جب وہ سہارا دینے والے تھے تو شیلا نے کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔” یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب آج سے چالیس پچاس برس پہلے ہر ہندو عورت کسی غیر مرد کو چھونا بھی پاپ اور گناہ سمجھتی تھی۔ شیلا کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے گھر قیام کیے دو ہفتے ہو گئے تھے کہ اس کے چچا اس کو لینے دہلی پہنچے۔ پہلے اپنے بھائی کے کوارٹر میں گئے۔ وہاں پڑوسیوں نے بتایا کہ شیلا کوچۂ چیلاں فلاں مسلمان خاندان کے گھر رہتی ہے۔ شیلا کے چچا نے جب یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے یہ سمجھ لیا کہ شیلا مسلمان ہوگئی ہے۔ وہ کوچۂ چیلاں میں اس خاتون کے یہاں پہنچا اور دروازہ پر شور پیدا کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ ایک معصوم لڑکی کو اغوا کر کے لائے ہو۔ شیلا اوپر کے کمرے میں تھی۔ جب اس نے یہ شور سنا تو نیچے آئی اور چچا کو دیکھا، کہ وہ غصہ کی حالت میں دشنام طرازی کر رہا ہے۔ شیلا نے جب یہ کیفیت دیکھی تو اس نے اپنے چچا کو تمام اصل حالات بتائے اور کہا کہ دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل سے کھانا آتا ہے، صرف ازراہِ ہمدردی اسے یہاں رکھا گیا ہے۔ شیلا کے چچا کو جب اصل حالات معلوم ہوئے تو بے حد شرمندہ ہوا، اس نے معافی چاہی اور وہ شیلا کو لے کر رات کی گاڑی سے کلکتہ روانہ ہو گیا۔

    شیلا جب کلکتہ پہنچی تو خاندان میں اس کی شادی کا سوال پیدا ہوا اور لڑکے کی تلاش شروع ہوئی۔ بنگالی ہندوؤں میں بغیر جہیز کے لڑکی کی شادی کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لڑکے والے دس دس پندرہ پندرہ اور بیس تیس ہزار روپیہ طلب کرتے ہیں اور اگر کسی کے پانچ لڑکے ہوں تو اس کا خاندان امیر ہو جاتا ہے۔ شیلا کا باپ معمولی کلرک تھا۔ جو اپنی بیٹی پر فراخ دلی کے ساتھ روپیہ صرف کرتا رہا۔ شیلا کے چچا کے پاس بھی روپیہ نہ تھا اور اگر ہوتا تو شاید وہ پھر بھی شیلا کے جہیز میں ہزار ہا روپیہ نہ دیتا۔ جہیز کے لیے روپیہ نہ ہونے کے باعث شیلا کے چچا نے اس کی سگائی ایک معمر بنگالی کے ساتھ کر دی جو انبالہ چھاؤنی میں گڈس کلرک تھا۔ شیلا کی شادی ہونے کے چھ ماہ بعد شیلا کا شوہر جگر کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ یہ رخصت لے کر علاج کے لیے کلکتہ گیا۔ وہاں اسپتال میں داخل ہوا اور اسپتال میں ایک ماہ زیرِ علاج رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔

    شیلا کے بیوہ ہوتے ہی گھر کے لوگوں نے اس کو مجبور کیا کہ یہ رواج کے مطابق اپنے بال کٹوا دے تا کہ بدصورت نظر آئے۔ شیلا کوئین میری اسکول کی اچھے گھرانے کی لڑکیوں کے ساتھ پڑھی ہوئی تعلیم یافتہ خوب صورت اور نو عمر لڑکی تھی۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ اس کے بال نہ کاٹے جائیں۔ (بنگالی عورتوں کے بال بے حد حسین ہوتے ہیں اور بنگالی عورتیں اپنے بالوں کو لمبے چمکیلے اور خوب صورت بنانے پر کافی محنت کرتی ہیں) مگر گھر والوں نے خاندان کے وقار کے خیال سے شیلا کے بال کاٹ دیے۔ شیلا کو ایک کمرے میں بند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ تا کہ اس کی منحوس صورت شادی شدہ عورتیں نہ دیکھیں اور ان کا سہاگ قائم رہے۔ کیوں کہ بنگالیوں کے خیال کے مطابق سہاگن عورتوں کو صبح ہی صبح بیوہ عورتوں کی صورت نہ دیکھنی چاہیے۔ شیلا کی جب یہ کیفیت ہوئی تو اس نے مجھے انگریزی میں ایک خط لکھا کیوں کہ وہ اُردو نہیں جانتی تھیں اور میں بنگالی زبان سے واقف نہ تھا جس میں اس کے شادی ہونے اور بیوہ ہونے کے تمام حالات تفصیل سے درج تھے اور لکھا تھا کہ ظفر صاحب کو کلکتہ بھیج دو تا کہ وہ دہلی چلی آئے۔ کیوں کہ اس کی موجودہ زندگی ناقابلِ برداشت حد تک اذیت میں ہے۔

    جب یہ خط پہنچا تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ میں نے ظفر صاحب کو کلکتہ بھیجا کہ وہ شیلا کو دہلی لے آئیں اور یہاں اس کا کوئی انتظام کیا جائے ظفر صاحب کلکتہ گئے تو وہاں ان کے پہنچنے سے ایک روز پہلے شیلا زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کر چکی تھی۔ ظفر صاحب نے بتایا کہ اس بے گناہ اور معصوم لڑکی کی شادی معمر اور بیمار شخص کے ساتھ کر کے سوسائٹی نے اس پر بہت بڑا ظلم کیا۔ کیوں کہ جہیز کے لیے روپیہ نہ تھا اور جہیز بغیر کوئی اچھا لڑکا شادی کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے اس ظلم کے مقابلہ پر موت کو ترجیح دی۔ یہ دن رات کمرہ میں پڑی رہتی۔ جب اس کی موت ہوئی تو اس کے پاس کوئی نہ تھا اور صبح گھر والوں نے دیکھا کہ اس کی لاش چارپائی پر پڑی ہوئی ہے۔ ظفر صاحب یہ حالات سن کر واپس آگئے۔ مجھے حالات سن کر بے حد تکلیف ہوئی۔ مگر سوائے اخبار میں غم و غصہ اور اظہار افسوس کے کر ہی کیا سکتا تھا۔ چناں چہ اسی ہفتہ شیلا کی موت پر ریاست میں ایک درد ناک نوٹ لکھا گیا۔ جس میں جہیز کی لعنت پر آنسو بہائے گئے۔

    (از قلم دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر "ریاست” اخبار)

  • ابوالکلام:‌ چار باغ اسٹیشن سے قیصر باغ کی بارہ دری تک

    ابوالکلام:‌ چار باغ اسٹیشن سے قیصر باغ کی بارہ دری تک

    اردو کی پسماندہ صحافت میں الہلال نکال کر ابوالکلام نے ایک نئے شان دار اور یادگار دور کا آغاز کیا، الہلال کے ساتھ ابوالکلام کا طرزِ انشا بھی اتنا انوکھا اور نرالا تھا کہ جو سمجھ گیا اس نے بھی داد دی اور جو نہ سمجھ سکا داد دینے پر وہ بھی مجبور ہو گیا!

    1924ء میں کہ میں ندوہ کی ابتدائی جماعت کا ایک طالب علم تھا، علی برادران کے ساتھ ابوالکلام بھی لکھنؤ آئے۔ رات کو رفاہِ عام کے ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ مسلمانانِ لکھنؤ کا منعقد ہوا، ندوہ سے کئی طالبِ علم جلسہ کی شرکت کے لیے گئے، میں بھی ساتھ ہو لیا، بڑی دیر تک مولانا کی تقریر ہوتی رہی مگر میری سمجھ میں کچھ خاک نہ آیا، گھر میں بچپن سے ابوالکلام کا ذکر عقیدت و عظمت کے ساتھ سنتا چلا آ رہا تھا، میرے بڑے بھائی سید عقیل احمد صاحب جعفری تو ابوالکلام کے پرستاروں میں تھے، اسی "پروپیگنڈہ‘‘ کا اثر تھا میں رفاہِ عام کے جلسہ میں چلا گیا، لیکن جا کر پچھتایا کہ نہ معلوم یہ اتنے مشہور کیوں ہیں؟

    اگست 1928 میں کانگریس کی مشہورِ زمانہ نہرو رپورٹ قیصر باغ کی بارہ دری (لکھنؤ) میں پیش ہوئی، ندوہ کے طلبہ قومی معاملات میں عملی حصہ لینے کے خوگر تھے۔ اور مقامی قومی کارکن قومی تقریبات کے مواقع پر ان کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کے عادی تھے، اس آل پارٹیز کانفرنس کے سلسلہ میں بھی ندوہ سے رضاکاروں کی طلبی ہوتی، ندوی رضا کاروں کے دستہ کا ایک فرد میں بھی تھا۔

    میرے ذمہ ڈیوٹی یہ تھی، کہ چند رضاکاروں کے ساتھ چار باغ اسٹیشن پر موجود رہوں اور جو زعمائے قوم اور راہ نمایانِ ملّت تشریف لائیں انہیں منزلِ مقصود تک پہچانے کے انتظام میں اپنے سردار کا ہاتھ بٹاؤں۔

    ہر ٹرین پر دس پانچ معمولی اور دو چار بڑے "لیڈر” تشریف لاتے رہتے تھے۔ کوئی ٹیلر پیلس میں مہاراجہ صاحب محمود آباد کا ذاتی مہمان ہے، کوئی ٹھاکر نواب علی کے قصر فلک نما کو اپنا نشیمن بنائے ہوئے ہے، آخری ٹرین سے مولانا ابوالکلام آزاد تشریف لائے۔ آپ کی پیشوائی کے لیے ہم معمولی رضاکاروں کے علاوہ چند سربر آوردہ شخصیتیں بھی پلیٹ فارم پر ٹہل رہی تھیں، مہاراجہ محمود آباد کی طرف سے ان کے پرائیوٹ سکریٹری مسٹر سعید الرّحمٰن قدوائی موجود تھے اور ندوہ کے ارباب انتظام کی طرف سے نواب علی حسن خاں ناظم ندوۃُ العلماء نے اپنے بڑے صاحبزادے امیر حسن صاحب کو بھیجا تھا لیکن مولانا نے دونوں دعوتیں بڑی خندہ پیشانی اور وسعتِ قلب کے ساتھ مسترد کر دیں، انہوں نے فرمایا، میرے بھائی یہ سچ ہے آپ مجھے اپنے ہاں ٹھہرانا چاہتے ہیں لیکن مجھے آرام ہوٹل ہی میں ملے گا، قبل اس کے کہ سعید الرّحمٰن صاحب یا امیر حسن صاحب مزید اصرار فرمائیں، مولانا ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر محمد جان کے ہوٹل کی طرف روانہ ہو چکے تھے، ان دونوں میزبانوں کی حالت اس وقت قابلِ دید تھی۔

    خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کر
    گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

    میں نے سوچا یہ کیسا اکل کھرا لیڈر ہے جو مہاراجہ اور نواب جیسے جلیل القدر میزبانوں تک کی دعوت پوری استغنا کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے۔ عجیب شخص ہے۔ پھر یہ دیکھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے ایوانِ زر نگار میں دھواں دھار تقریریں ہورہی ہیں، کبھی بپن چندر گوپال گرج رہے ہیں، کبھی مسٹر اینے بسنٹ کی آواز کانوں کے پردے سے ٹکرارہی ہے، ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا لیڈر اپنی گرمیٔ گفتار کے کمالات دکھا رہا ہے، لیکن ابوالکلام صاحب ابوالسّکوت بنے بیٹھے ہیں، پرائیوٹ مجلسوں میں بلبل ہزار داستان کی طرح چہکتے ہیں، لیکن جلسۂ عام میں مہر بہ لب۔

    بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست

    بعض لوگوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اس اجتماع کو مجلسِ مشاعرہ اور نہرو رپورٹ کو اس کا مصرعہ طرح سمجھ کر مولانا سے بھی طبع آزمائی کی درخواست کی، لیکن مولانا نے انکار فرما دیا، میرے بھائی تقریریں کافی ہو چکیں، کسی مزید تقریر کی کیا ضرورت ہے؟ مہاراجہ محمود آباد پاس بیٹھے تھے، انہوں نے بھی بڑا اصرار کیا، اب مولانا نے زبان کے بجائے صرف گردن سے جواب دینا شروع کیا۔

    یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
    واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں

    میں رضا کار کی حیثیت سے ڈائس کے قریب کھڑا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، حیرت اس پر تھی کہ یہ شخص مہاراجہ کے اصرار کو بھی خاطر میں نہیں لایا، جن کی شاعرانہ تعریف مسز سروجنی نائیڈو تک نے اپنی لچھے دار تقریر میں کر ڈالی۔

    خوب ادائیں ہیں اس لیڈر کی بھی، زمانہ اور آگے نکل گیا۔

    (از قلم: رئیس احمد جعفری)

  • دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    پروفیسر آذر کی دعوت میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ پنجابی لطائف نے بھی بہت دل چسپی پیدا کر دی اور باتوں باتوں میں آذر صاحب نے سب سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ ہر شخص ایمان داری کے ساتھ بتائے کہ دہلی میں آکر اس نے کیا کچھ حاصل کیا یعنی علمی، مالی یا دوسرے اعتبار سے اس نے دہلی میں آکر کیا فوائد حاصل کیے۔

    سب لوگوں نے بتانا شروع کیا، کسی نے کہا کہ اس نے ایک لاکھ روپیہ پیدا کیا، کسی نے بتایا کہ اس نے علمی اعتبار سے یہ مدارج طے کیے۔ کسی نے ظاہر کیا کہ اس نے فلاں فلاں ترقی و پوزیشن حاصل کی۔ جب میری باری آئی تو میں نے کہا چوں کہ آپ لوگ سچ بتا رہے ہیں اور سچ پوچھ رہے ہیں اس لیے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ دہلی میں آنے کے بعد مالی اعتبار سے میرے قرضہ میں تو کئی گنا اضافہ ہوا لیکن جب دہلی میں آیا تھا تو بے حد مخلص اور مہمان نواز تھا۔ مگر اب طبیعت میں کمینہ پن اور خود غرضی پیدا ہو چکی ہے۔ چناں چہ پہلے اگر کوئی دوست ایک دو روز کے لیے بھی آجاتا تو اس کو کئی کئی ہفتے تک جانے نہ دیا جاتا۔ مہمان کی خدمت گزاری میں لطف اور حظ محسوس ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ چھے چھے ماہ اور ایک ایک سال تک دوست مستقل مہمان کی صورت میں مقیم رہے اور ایک دوست مسٹر محسن ایڈیٹر اودھ اخبار لکھنؤ جو بعد میں ایسوسی ایٹڈ پریس میں ملازم ہو کر دہلی تشریف لائے تھے۔ غالباً دو سال تک بطور مہمان رہے اور جب بھی وہ اپنے لیے مکان لے کر رہنا چاہتے تو ان کو روک لیا جاتا۔ مگر اب کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی دوست دہلی میں تشریف لانے کی اطلاع خط یا تار کے ذریعہ دیتا ہے تو میں اسٹیشن نہیں جاتا تاکہ وہ کسی دوسری جگہ قیام کر لے۔ اگر وہ پھر بھی آجائے تو مہمان کی خدمت گزاری طبیعت پر بھاری محسوس ہوتی ہے اور اس فرق کی وجہ دہلی کا پانی اور دہلی کی فضا ہے جس کا اثر طبیعت پر ہوا۔

    گو یہ تمام دوست خود بھی دہلی کی فضا کے اس اثر کو اپنے اندر محسوس کرتے تھے مگر تعجب کا اظہار کر رہے تھے۔ کیوں کہ ان کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ میں اس کمزوری کا اقرار کروں گا۔ چناں چہ میں نے اس کے ثبوت میں تفصیل کے ساتھ ان کو ذیل کے وہ واقعات بتائے جن کا میری ذات کے ساتھ تعلق تھا۔

    میں جب مانسہ( پٹیالہ) میں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا۔ اس زمانہ دہلی میں ایک شاعر منشی عبد الخالق خلیق رہتے تھے۔ ان سے خط کتابت تھی۔ ان کے خط آیا کرتے کہ میں کبھی دہلی آؤں۔ چھ ماہ تک جب ان کے خط آتے رہے اور انہوں نے دہلی آنے کے لیے بار بار لکھا تو میں ان سے ملنے کے لیے مانسہ سے دہلی آیا۔ میں دہلی اور دہلی کے لوگوں کے حالات سے قطعی نا واقف تھا اور یہ خیال بھی نہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوست کے بار بار لکھنے کے بعد ملنے کے لیے جائے تو وہ دعوت دینے والے کے مکان پر نہ ٹھہرے۔

    میں نے دہلی ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد تانگے میں سامان رکھوایا اور بازار لال کنوال میں پہنچا۔ وہاں گلی چابک سواراں کے سرے پر تانگہ والے سے یہ کہہ کر تانگہ کھڑا رکھنے کے لیے کہا کہ میں ابھی آ کر سامان لے جاتا ہوں۔ میں گلی چابک سواراں کے اندر منشی عبد الخالق صاحب خلیق کے مکان پر پہنچا۔ خلیق صاحب کو آواز دی۔ اپنے دہلی آنے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ میری آواز سن کر خلیق صاحب مکان سے باہر نکلے اور بہت اخلاق اور تپاک سے ملے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ میرا قیام کہاں ہے؟۔ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ملنے کے لیے آئے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ قیام کہاں ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کے لیے جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہوٹل یا سرائے میں ٹھہرے۔ میزبان اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور تمام پنجاب میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرا کر لطف، حظ اور اپنی عزت محسوس نہ کرتا ہو۔

    خلیق صاحب کا یہ سوال سن کر کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔ میں کچھ حیران سا ہو گیا اور میں نے کھسیانا سا ہو کر جواب دیا کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ چناں چہ ان سے شام کو پھر ملنے کا وعدہ کر کے میں گلی سے باہر آیا اور تانگہ والے سے کہا کہ کسی ہوٹل میں لے چلو ۔ تانگے والا مجھے مہاراجہ ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں میں نے قیام کیا اور شام کو خلیق صاحب کا نیاز حاصل کرنے کے لیے پھر ان کے مکان پر آیا۔ وہ مجھے حکیم محمود علی خاں ماہر اکبر آبادی جو بعد میں دہلی میں آنریری مجسٹریٹ اور خطاب یافتہ خاں صاحب تھے کے مکان پر لے گئے۔ جہاں ہم کچھ دیر بیٹھے اور علمی موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ میں دو تین دن دہلی میں رہ کر اور دہلی دیکھ کر واپس مانسہ چلا آیا۔

    یہ کیفیت تو مہمان نوازی کے متعلق دہلی کی فضا کی ہے۔ میں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ میں جب دہلی آیا تو مہمان نوازی کے اعتبار سے خالص طور پر پنجابی تھا اور دو دو چار چار دن کے عارضی مہمانوں کے علاوہ چھ چھ ماہ اور سال سال تک رہنے والے مستقل مہمان بھی ہوا کرتے اور دوپہر کو لنچ پر اور رات کو ڈنر پر آٹھ آٹھ دس دس اصحاب ضرور ہوتے۔ اگر کوئی مہمان جانا چاہتا تو مختلف طریقوں سے یعنی گاڑی جانے کا وقت غلط بتا کر یا گھڑی کو پیچھے کر کے اسے روک لیا جاتا اور گر کوئی مہمان آجاتا تو دل کو مسرت سی محسوس ہوتی۔ لیکن دہلی کے پانی اور یہاں کی فضا کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا گیا۔

    پروفیسر آذر صاحب کے ہاں ڈنر پارٹی والے دوستوں کو میں نے یہ واقعات بیان کرنے کے بعد بتایا کہ اگر دہلی کی فضا مہمان نوازی کے خلاف ہے تو اس میں دہلی والوں کا قصور نہیں، یہ پانی کا اثر ہے۔ ہر دریا کے اندر مختلف اجزا ہوتے ہیں اور ان اجزا کا دل دماغ اور قویٰ پر اثر ہوتا ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مہمان نواز صوبہ سرحد کے لوگ ہیں۔ اس کے بعد پوٹھوہار (راولپنڈی، جہلم) کے علاقہ کے لوگ، ان سے کم گوجرانولہ، لاہور اور امرتسر کے لوگ اور ان سے کم لدھیانہ اور انبالہ کے لوگ۔ اس کے بعد نمایاں فرق شروع ہوتا ہے اور جہاں جہاں جمنا کا پانی سیراب کرتا ہے۔ وہاں مہمان نوازی کے اعتبار سے بالکل ہی صفائی ہے۔ چناں چہ پنجاب کے صوبہ کے لوگوں میں شاید اس بات کا یقین نہ کیا جائے گا کہ دہلی ،لکھنؤ، الہ آباد اور بنارس وغیرہ میں پانی پلانے والے پانی کی قیمت ایک یا دو پیسہ لے لیتے ہیں۔ حالاں کہ پنجاب میں پانی کی قیمت لینا ایک گناہ اور پاپ سمجھا جاتا ہے اور پانی پلانے والا چاہے کتنا بھی غریب ہو پانی کی قیمت قبول نہیں کر سکتا۔

    اگر اپنی کمزوری کا اظہار کرنا اس کمزوری کو رفع اور دل میں طہارت پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے تو میں یہ صاف الفاظ میں اقرار کرتا ہوں کہ جمنا کے پانی کے باعث میں اس خوبی سے محروم ہو چکا ہوں جو اخلاص اور مہمان نوازی کے متعلق مجھ میں چند برس پہلے موجود تھی۔

    (مشہور صحافی اور ادیب دیوان سنگھ مفتون کے قلم سے)

  • ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر 1921ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لا تعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِ اقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبد القادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضامین کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سید امتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہو سکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔ سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔

    بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    1922ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تا دیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔

    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لا تعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    اسی طرح مجھ سے انہوں نے بارہا کہا کہ آپ اخبار میں ایک چوکھٹا مستقل طور پر لگاتے رہیں جس کے اندر جلی حروف میں یہ عبارت مرقوم ہو کہ ’’بائیں ہاتھ چلو۔‘‘ روزانہ یہ چوکھٹا چھپتا رہے گا تو یقین ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو بائیں ہاتھ چلنے کی اہمیت کا احساس ہوتا جائے گا۔

    میں خود ماضی پر نظر بازگشت ڈالتا ہوں۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب، مؤرخ، نقاد اور مترجم غلام رسول مہر کی ایک تحریر)

  • خوش طبعی ایک نعمت!

    خوش طبعی ایک نعمت!

    ڈاکٹر سید عابد حسین ایک مدرس، ادیب اور مضمون نگار ہیں جن کی مختلف موضوعات پر کتب شایع ہوچکی ہیں۔

    ان کے ایک انشائیہ بعنوان حضرتِ‌ انسان سے ماخوذ یہ سطور آپ کو معاملاتِ‌ زمانہ اور میل جول میں غور و فکر پر آمادہ کرتی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’ظرافت یا خوش طبعی جو انسان کو ہنسنے ہنسانے پر اکساتی ہے، قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ دراصل یہ احساسِ تناسب کی صفت ہے اور اسے تہذیب یا کلچر کی بنیاد سمجھا جاتا ہے جس میں احساسِ ظرافت ہوتا ہے۔ اس کی نظر میں ہر قسم کی بے اعتدالی، بے تکا پن، بھونڈا پن فوراً کھٹکتا ہے۔ وہ ان چیزوں پر خود ہنستا ہے اور دوسروں کو ہنساتا ہے۔ اس طرح وہ ایک طرف المِ ہستی کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کو ان کے عیوب کی طرف توجہ دلا کر اصلاح کا موقع دیتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ظرافت کا استعمال بے دردی سے نہیں ہمدردی سے کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ جس پر ہم ہنسیں اسے رلا دیں۔ اس سے تو ضد اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔ ظرافت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ جس کی ہنسی اڑائی جائے وہ خود بھی ہنس پڑے اور جھینپ کر کہے، ’’بھئی بات تو ٹھیک ہے‘‘ یہ ہمدردی کا جذبہ اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب ہم اپنے آپ کو اپنی ظرافت کا نشانہ بناتے ہیں۔ اپنے اوپر ہنسنے میں ہمارا انداز یہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ حرکت تو واقعی بے تکی تھی مگر یوں ہم آدمی اچھے ہیں۔ یہی انداز سب کے ساتھ ہونا چاہیے۔

    صحیح احساسِ ظرافت یا احساسِ تناسب رکھنے والا جانتا ہے کہ دنیا میں سراسر اچھا یا سراسر برا کوئی نہیں ہوتا۔ ‘‘

  • ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    یہ شخصی خاکہ پارو دیوی کا ہے جو سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلا ہے جسے ایک فلم اسٹوڈیو کے شب و روز کے تسلسل میں لکھا گیا ہے۔ منٹو بھی اسی سے وابستہ تھے۔

    اس کے آغاز پر سعادت حسن منٹو نے ایک فلم کمپنی کے مقروض ہوجانے اور مختلف وجوہ کی بنا پر مزید مالی نقصان اٹھانے کی کچھ تفصیل بیان کی ہے جس کے بعد بتایا ہے کہ یہاں اسے ایک پروپیگنڈہ کہانی تیار کرنے کو کہا جاتا ہے اور تب منٹو اور اس کے ساتھیوں کو اسٹوڈیو میں ایک نیا چہرہ نظر آتا ہے۔ پارو نام کی یہ لڑکی اسی پروپیگنڈہ فلم کی سائیڈ ہیروئن کے طور پر خود کو آزمانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ آگے منٹو لکھتا ہے:

    "ایک دن مَیں، واچا، پائی اور اشوک اسٹوڈیو کے باہر کرسیوں پر بیٹھے کمپنی کی ان ہی حماقتوں کا ذکر کر رہے تھے جن کے باعث اتنا وقت، اتنا روپیہ ضائع ہوا کہ اشوک نے یہ انکشاف کیا کہ جو چودہ ہزار روپے رائے بہادر نے ممتاز شانتی کو دیے تھے، وہ انہوں نے اس سے قرض لیے تھے۔ اشوک نے یہ انکشاف اپنی کالی پنڈلی کھجلاتے ہوئے کچھ اس انداز سے کیا کہ ہم سب بے اختیار ہنس پڑے، لیکن فوراً چپ ہو گئے۔”

    "سامنے بجری بچھی ہوئی روش پر ایک اجنبی عورت ہمارے بھاری بھر کم ہیئر ڈریسر کے ساتھ میک اپ روم کی طرف جا رہی تھی۔”

    "دتاّ رام پائی نے اپنے کالے موٹے اور بدشکل ہونٹ کھولے اور خوفناک طور پر آگے بڑھے ہوئے اوندھے سیدھے میلے دانتوں کی نمائش کی اور واچا کو کہنی کا ٹہوکا دے کر اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ۔۔۔ یہ کون ہے؟‘‘”

    "واچا نے پائی کے سر پر ایک دھول جمائی۔ ’’سالے تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا؟‘‘ پائی بدلہ لینے کے لیے اُٹھا تو واچا نے اس کی کلائی پکڑ لی۔ ’’بیٹھ جا سالے۔ مت جا اِدھر۔ تیری شکل دیکھتے ہی بھاگ جائے گی۔‘‘”

    "پائی اپنے اوندھے سیدھے دانت پیستا رہ گیا۔ اشوک جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا، بولا۔ ’’گڈ لکنگ ہے!‘‘ میں نے ایک لحظے کے لیے غور سے اس عورت کو دیکھا اور کہا
    ’’ہاں نظروں پر گراں نہیں گزرتی۔‘‘”

    "اشوک میرا مطلب نہ سمجھا ’’کہاں سے نہیں گزر تی…؟‘‘ میں ہنسا۔ ’’میرا مطلب یہ تھا کہ جو عورت یہاں سے گزر کر گئی ہے۔ اسے دیکھ کر آنکھوں پر بوجھ نہیں پڑتا۔ بڑی صاف ستھری۔۔۔ لیکن قد کی ذرا چھوٹی ہے۔‘‘ پائی نے پھر اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی، ’’ارے، چلے گی۔۔۔ کیوں واچا؟‘‘

    "واچا، پائی کے بجائے اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’دادا منی! تم جانتے ہو، یہ کون ہے؟‘‘ اشوک نے جواب دیا۔ ’’زیادہ نہیں جانتا۔ مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘ کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ کیا گیا، جسے ہم نے پردے پر دیکھا اور سنا اور اپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی، اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا۔ مسکراہٹ بھی غیر دل کش تھی، لیکن پائی اس پر لٹو ہو گیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکر جی سے کہا ’’ونڈر فل اسکرین فیس ہے۔‘‘

    "دَتّا رام پائی فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر۔ فلمستان چونکہ ایسا ادارہ ہے جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی، اس لیے دِتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دوچار ہوتا تھا۔
    ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن ایس مکر جی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پراپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔”

    "اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گھلّو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب ہر رنگین مزاج رئیس کی منظورِ نظر تھی۔ اس کو یہ لوگ میرٹھ کی قینچی کہتے تھے، اس لیے کہ وہ کاٹتی تھی اور بڑا مہین کاٹتی تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی۔ پَر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا جو اسے فلمستان لے آیا۔”

    "جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور مسٹر ساغرؔ نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔ اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔ چھوٹی آستینوں والے پھنسے پھنسے بلاؤز میں اس کی ننگی ننگی باہیں ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھائی دیتیں۔ سفید، سڈول، متناسب اور خوبصورت۔ جلد میں ایسی چکنی چمک تھی جو ’’ولو‘‘ لکڑی پر رندہ پھرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ صبح اسٹوڈیو آئی۔ نہائی دھوئی، صاف ستھری، اُجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، کسی صابن کا اشتہار معلوم ہوئی۔ شام کو جب گھر روانہ ہوتی تو دن گزرنے کے باوجود گرد و غبار کا ایک ذرّہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تر و تازہ ہوتی جیسی صبح کو ہوتی۔”

    "دتاّ رام پائی اس پر اور زیادہ لٹو ہو گیا۔ شوٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی۔ چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے اور اس کے اوندھے سیدھے، میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخن کو کیسے برداشت کرتی تھی۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی کا ڈھانچہ میرے حوالے کیا گیا کہ بڑے غور سے اس کا مطالعہ کروں اور جو ترمیم و تنسیخ میری سمجھ میں آئے، بیان کر دوں۔”

    "نیا ڈھانچہ جب فلمستان کی ’’فل بنچ‘‘ کے سامنے پیش ہوا تو میری وہ حالت تھی جو کسی مجرم کی ہو سکتی ہے۔ ایس مکرجی نے اپنا فیصلہ ان چند الفاظ میں دیا۔ ’’ٹھیک ہے، مگر اس میں ابھی کافی اصلاح کی گنجائش ہے۔‘‘”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے لیے یہ تھی کہ مجھے پارو کو، اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیشِ نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہرحال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہو گئے۔ کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی فضا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔”

    "کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتا رام پائی، اب اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی یہ چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا ’’سالے تو کیوں جلتا ہے۔‘‘”

    "جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کے لیے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہو گئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارو دیوی لکھا گیا۔”

    "دتاّ رام پائی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ یہاں جا دھمکنا شروع کر دیا۔”

    "پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا مرد رہتا تھا۔ قد و قامت میں اس سے دو گنا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور ’’تھامو‘‘ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔”

    "پائی ایسے فخر و ابتہاج سے کینٹین میں پارو سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر نیم عاشقانہ انداز میں کرتا کہ ہنسی آجاتی۔ میں اور ساوک واچا اس کا خوب مذاق اُڑاتے، مگر وہ کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی پارو بھی موجود ہوتی۔ میں اس کی موجودگی میں بھی پائی کے خام اور بھونڈے عشق کا مذاق اُڑاتا۔ پارو بُرا نہ مانتی اور مسکراتی رہتی۔ اس مسکراہٹ سے اس نے میرٹھ میں جانے کتنے دلوں کو اپنی قینچی سے کترا ہو گا۔”

    "پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگو کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقہ سے تھا جو ناشائستگی کی طرف محض تفریح کی خاطر مائل ہوتا ہے۔”

    "پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بڑی اچھی خاصی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی ایکٹرس بنتی ہے، تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے۔ جیسے کہ وہ گیند ہے جسے بلے کے ساتھ کسی نے ہٹ لگائی ہے اور فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی اس تاک میں ہیں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں چلی آئے۔ لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی جلدی نہیں تھی۔”

    "پائی کی حالت اب بہت زیادہ مضحکہ خیز ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ پارو نے ایک روز اسے گھر مدعو کیا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اسے دو پیگ جونی واکر وسکی کے پلائے تھے۔ جب اس کو بہت زیادہ نشہ ہو گیا تھا تو پارو نے اس کو بڑے پیار سے اپنے صوفے پر لٹا دیا تھا۔ اب اس کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس پر مرتی ہے اور ہم لوگ چونکہ ناکام رہے ہیں، اس لیے حسد کی آگ میں جلتے ہیں۔ اس بارے میں پارو کا ردِعمل کیا تھا، یہ مجھے معلوم نہیں۔”

    "شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو نے ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر فلمائے جانے کا وقت آتا گیا، میرے اندیشے بڑھتے گئے۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ امتحان میں پوری نہیں اُترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہو گی۔”

    "ہم سب نے بڑی کوشش کی کہ اس کا تصنع اور ’’چوبی پن‘‘ کسی نہ کسی طریقے سے دور ہو جائے، مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کو کیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا، مگر سیٹ پر وہ حسبِ منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔ بہرحال اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔”

    "چونکہ مجھے اُس کی طرف سے بہت مایوسی ہوئی تھی اس لیے میں نے اُس کے ’’رول‘‘ میں کتربیونت شروع کر دی تھی۔ میری اِس چالاکی کا علم اُس کو پائی کے ذریعے سے ہو گیا۔ چنانچہ اس نے خالی اوقات میں میرے پاس آنا شروع کر دیا۔ گھنٹوں بیٹھی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہتی۔ بڑے شائستہ انداز میں، مناسب و موزوں الفاظ میں جن میں چاپلوسی کا رنگ بظاہر نہ ہوتا، میری تعریف کرتی۔”

    "ایک دو مرتبہ اس نے مجھے اپنے گھر پر مدعو بھی کیا۔ میں شاید چلا جاتا، لیکن اُن دنوں بہت مصروف تھا۔ ہر وقت میرے اعصاب پر پراپیگنڈہ فلم کا منظرنامہ سوار رہتا تھا۔”

  • دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    ایک زمانہ تھا کہ اہلِ وطن فرش پر دستر خوان بچھاتے، آلتی پالتی مار کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھانا کھاتے۔ پھر جو زمانہ بدلا تو ان کے نیچے کرسیاں اور سامنے میز بچھ گئی جس پر کھانا چُن دیا جاتا۔ پہلے وہ سَر جوڑ کر کھاتے تھے اب سَروں کے درمیان فاصلہ نمودار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا شخص مدّ مقابل نظر آنے لگا۔

    مگر زمانہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ لی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر اور سرو قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جب کہ جنگلی مخلوق چراگاہوں میں چرتی پھرتی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختۂ مشق بناتے تھے، اب باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے آ ملے۔

    اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا ہماری تہذیب کا گراف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے، کیونکہ ہم نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت کو ترک کر کے کھڑے ہو کر اور پھر چل کر کھانا کھانے کے وطیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے یا دانہ دنکا چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھیے کہ اس کے قبضۂ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے۔ فقط یہ دیکھیے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا!

    بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھانوں کی ایک ٹولی وارو ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر اُدھار پر کپڑا بیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر ماحضر تناول فرماتے۔ وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شوربے سے بھری ہوئی پرات بحرُ الکاہل کا منظر دکھاتی، جس میں بڑے گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح ابھری ہوئی دکھائی دیتیں۔ وہ ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شرکائے طعام پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللّٰہ کا پاک نام لے کر کھانے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رُک رُک کر، ٹھہر ٹھہر کر کھاتے، مگر پشتو بغیر رُکے بے تکان بولتے۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ چنانچہ میں ہر شام حجرے کے دروازے میں آکھڑا ہوتا، انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کبھی کبھی برادرانہ اخوّت میں لتھڑا ہوا ایک آدھ لقمہ یا گوشت کا ٹکڑا میری طرف بھی بڑھا دیتے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ان پٹھانوں کی پیش کش کو اگر کوئی مسترد کر دے تو اس کی جان کی خیر نہیں۔ اس لیے میں بادلِ نخواستہ ان کے عطا کردہ لقمۂ تر کو کلّے میں دبا کر آہستہ آہستہ جگالی کرتا اور تا دیر انھیں کھانا کھاتے دیکھتا رہتا۔ عجیب منظر ہوتا۔ وہ کھانے کے دوران میں کمال سیر چشمی کا مظاہرہ کرتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جزاکَ اللّٰہ کے الفاظ وصول کرنے کے بعد اسے اپنے منہ میں ڈالتا۔ اخوّت، محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرزِ عمل سے موازانہ کرتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی، کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی خالہ کے گردا گرد بچّوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے جب بڑی خالہ کھانا تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں ہانڈی میں ڈوئی کے غوطہ لگانے اور پھر وہاں سے برآمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اترنے کے عمل کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتاً بڑی بوٹی چلی جاتی تو بس قیامت ہی آ جاتی۔ ایسی صورت میں خالہ کی گرج دار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے کی تکا بوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی تھی۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیزانِ مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوش گوار فضا از خود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار رہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدّ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔

    دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریکِ طعام حد درجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجیے تو آپ کو نفسا نفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہو گا اور ڈارون کا جہدُ البقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔

    دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حقِ میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر پوری دل جمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوش بُو اور بد بُو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سو گز کی دوڑ میں ہے!

    (ممتاز اردو نقّاد، انشائیہ نگار، اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے بعنوان دستر خوان سے اقتباسات)

  • بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    بیس سو ستّر (2070) کا بھارت اور اس کی سیاسی جماعتیں!

    "بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔”

    یہ سطور کنہیا لال کپور کی ایک شگفتہ تحریر سے لی گئی ہیں جس کا عنوان ہے بیس سو ستّر(2070)۔

    مزاح نگار، شاعر اور ادیب کنہیا لال کپور نے اپنے شگفتہ مضامین اور نظموں میں سماجی ناہم واریوں، طبقاتی کشمکش اور انسانی رویّوں پر چوٹ کی۔ وہ ادب کو معاشرے کی تعمیر اور لوگوں کی اصلاح کا بڑا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔ پیشِ‌ نظر تحریر میں کنہیا لال کپور نے ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی شخصیات اور اِن کی جماعتوں کا خیالی نقشہ کھینچا ہے اور ہندوستان کے مٹ جانے کی پیش گوئی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ہندوستان کی تاریخ میں 2070ء بڑا عجیب اور اہم سال تھا۔ اس سال پوری ایک صدی کے بعد خاندانی منصوبہ بندی رنگ لائی۔ ملک کی آبادی پچپن کروڑ سے گھٹ کر پچپن لاکھ رہ گئی۔ لیکن ادھر آبادی کم ہوئی ادھر سیاسی جماعتوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ چنانچہ ان کی تعداد پانچ سو پچپن تھی۔ حالانکہ 1970ء میں صرف پچپن پارٹیاں تھیں۔”

    "ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشہور سیاسی جماعتوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد پارٹیوں کو جنم دیا ہے۔ مثال کے طور پر “تلوار پارٹی” کو ہی لیجیے۔ اس کی چودہ اولادین ہوئیں جن میں سے ‘تیز تلوار پارٹی’، ‘کند تلوار پارٹی’، ‘ زنگ خوردہ تلوار پارٹی’ قابلِ ذکر ہیں۔ “پاگل پارٹی” کے بچّوں کی تعداد اکیس تھی جن میں سے چند کے نام تھے ‘نیم پاگل پارٹی،’ تین بٹہ چار پاگل پارٹی’، ‘پانچ بٹہ چھ پاگل پارٹی’، ‘ننانوے فیصد پاگل پارٹی’۔ جہاں تک “لچر پارٹی” کا تعلق ہے، اسے بتیس پارٹیوں کا خالق ہونے کا فخر حاصل تھا، جن میں سے ‘لچر لچر پارٹی’، ‘لچر تر پارٹی’، ‘لچر ترین پارٹی’ نے دیارِ ہند میں اپنا مقام پیدا کیا۔ ایک مختصر سے مضمون میں ان تمام پارٹیوں کا تعارف ناممکن ہے، اس لیے صرف چند پارٹیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔”

    پستول پارٹی: (الیکشن نشان کارتوس) یہ 1980ء کی مشہور پارٹی کی (جس کا نام ریوالور تھا) پڑپوتی تھی۔ اس کا نعرہ تھا….اُٹھ ساقی اٹھ، پستول چلا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ جس شخص کو دلائل سے قائل نہیں کیا جاسکتا اسے پستول سے کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ موت کے بعد کوئی شخص بحث نہیں کرسکتا۔ یہ پارٹی سمجھتی تھی کہ ہندوستان کے تمام مسائل کا علاج پستول ہے۔ اگر ہر شخص کے ہاتھ میں پستول تھما دیا جائے تو وہ اپنی روزی کا بندوبست خود کر لے گا اور اس طرح خوراک اور بے روزگاری کے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

    بندوق پارٹی: (الیکشن نشان تھری ناٹ تھری) اس پارٹی کے اراکین پہلے پستول پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے پارٹی کے خلاف بغاوت کر کے ایک نئی پارٹی قائم کی۔ اس پارٹی کی رائے میں ہندوستان کو پستول کی نہیں بندوق کی ضرورت تھی۔ اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ جتنے اشخاص پستول پارٹی نے ایک سال میں ہلاک کیے، ان سے زیادہ اس نے ایک ہفتہ میں کیے۔ اس کا پارٹی کا نعرہ تھا “بندوقا پر مودھرما۔”

    دھماکا پارٹی: (الیکشن نشان ‘بارود’) اس پارٹی کے اراکین کا صرف ایک شغل تھا۔ یعنی ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکا ہونا چاہیے۔ کسی بلڈنگ، کسی چھت، کسی دیوار کو ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑنا چاہیے۔ اس پارٹی سے ریلوے اسٹیشن، ڈاک خانے، تار گھر خاص طور پر پناہ مانگتے تھے۔ کیونکہ اسے اس قسم کی عمارتوں سے “الرجی” تھی۔ اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ “ہم اپنی تخریب کر رہے ہیں ہماری وحشت کا کیا ٹھکانا؟!”

    پراچین سنسکرت پارٹی: (الیکشن نشان’جنگل’) اس پارٹی کا نعرہ تھا۔ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو! یہ پارٹی پتھر اور دھات کے زمانے کو از سرِنو زندہ کرنا چاہتی تھی۔ اسے ہوائی جہاز، ٹیلی ویژن اور لپ اسٹک سے سخت نفرت تھی۔ یہ چھکڑے، رتھ اور پان کی دلدادہ تھی۔ اس کے خیال میں وقت کو ماضی، حالت اور مستقبل کے خانوں میں بانٹنا سراسر غلط تھا۔ صحیح تقسیم یہ تھی۔ ماضی، ماضی، ماضی۔

    خونخوار پارٹی: (الیکشن نشان’بھیڑیا’) یہ پارٹی طاؤس و رباب کی بجائے شمشیر و سناں کی سرپرستی کرتی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا، عوام بھیڑیں ہیں، پہلے ان سے ووٹ حاصل کرو پھر ان پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑو۔ اگر وہ شکایت کریں تو انھیں طعنہ دو کہ بھیڑیوں کو ووٹ دو گے تو تمہارا یہی حشر ہوگا۔

    مکار پارٹی: (الیکشن نشان ‘لومڑی’) اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ کامیاب سیاست داں وہ ہوتا ہے جو لومڑی اور لگڑ بگڑ کا مرکب ہو جو غریبوں کے ساتھ ہمدردی جتائے، لیکن ساتھ ہی ان کا خون چوسے۔ جو عوام کی خدمت کرنے کا حلف اٹھائے لیکن دراصل اپنے کنبے کی خدمت کرے جو پلیٹ فارم پر جنتا کی محبت کا دم بھرے لیکن درپردہ انھیں لوٹنے کے منصوبے بنائے۔ جو عوام کو دس بار دھوکا دینے کے بعد گیارھویں بار دھوکا دینے کے لیے تیار رہے اور جو دن رات اقبال کا یہ مصرع گنگنائے…

    کائر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

    غدار پارٹی: (الیکشن نشان’مار آستین’) ملک اور قوم سے غداری کرنا اس پارٹی کا شیوہ تھا۔ یہ پارٹی جس تھالی میں کھاتی تھی اسی میں چھید کرتی تھی۔ اس پارٹی کے اراکین کا شجرۂ نسب جعفر اور صادق سے ملتا تھا جن کے متعلق اقبالؔ نے کہا تھا؎

    جعفر از بنگال و صادق از دکن
    ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن

    ضمیر فروش پارٹی: (الیکشن نشان ‘ابلیس’) یہ پارٹی اپنے ضمیر کوننگا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔ اس کی دانست میں جو شخص اپنے ضمیر کو فروخت نہیں کرتا تھا وہ ہمیشہ تنگ دست اور بدحال رہتا تھا۔ اس پارٹی کے اراکین کھلے بندوں خریداروں کو بولی دینے کے لیے کہتے تھے اور سب سے بڑی بولی پر اپنا ضمیر فروخت کر کے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ جب ان سے پوچھا جاتا خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے تو کہتے تھے منہ پر نقاب ڈال لیں گے۔

    بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘چکنا گھڑا’) یہ پارٹی ہر بار الیکشن میں ناکارہ رہتی تھی، لیکن الیکشن لڑنے سے باز نہیں آتی تھی۔ اس پارٹی کے ہر رکن کی ضمانت ضبط ہو جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود اسے یقین رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گا اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالوں گا۔

    نہایت بے غیرت پارٹی: (الیکشن نشان ‘گنجی چاند’) اس پارٹی کا صرف ایک رکن تھا جو خود ہی پریذیڈینٹ، جنرل سکریٹری اور خزانچی تھا اور جس کو الیکشن میں صرف ایک ووٹ ملتا تھا۔ یعنی اپنا ہی ووٹ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے اس پارٹی کے دو اراکین تھے۔ بعد ان میں جھگڑا ہو گیا اور دوسرے رکن نے اپنی علیحدہ پارٹی بنا لی جس کا نام غایت درجہ بے غیرت پارٹی۔

    گرگٹ پارٹی: (الیکشن نشان ‘گرگٹ’) اس پارٹی کا نعرہ تھا….. بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے! اس پارٹی کے اراکین صبح کو مکار، دوپہر کو خونخوار، شام کو غدار اور رات کو بدکار کہلاتے تھے۔ انھیں اس بات پر ناز تھا کہ جس سرعت کے ساتھ ہم پارٹی بدلتے ہیں، لوگ قمیص بھی نہیں بدلتے۔ معمولی سے معمولی لالچ کی خاطر یہ اپنے احباب کو آنکھیں دکھا کر اغیار کی جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ عموماً اپنی صفائی میں علامہ اقبال کا مصرع پیش کیا کرتے تھے

    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

    خود غرض پارٹی: (الیکشن نشان ‘جنگلی سور’) اس پارٹی کے اراکین ملک اور قوم کے مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان میں سے ہر شخص وزیرِ اعلیٰ بننے کی کوشش کرتا اور جب اپنی کوشش میں ناکام رہتا تو وزارت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرتا۔ اور عموماً کامیاب ہوجاتا۔ اس کے بعد داغ دہلوی کا یہ مصرع زبان پر لاتا:

    ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

    (نوٹ) بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں۔ ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا۔ یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔ چنانچہ ان کی مشترکہ امیدیں 2075ء میں بَر آئیں اور ہندوستان کا نام لوحِ جہاں سے حرفِ مکرر کی طرح مٹا دیا گیا اور اس کے ساتھ پارٹیوں کا مادی اور سیاسی وجود بھی ختم ہوگیا!

    (یہ مضمون کپور صاحب کی کتاب نازک خیالیاں میں شامل ہے)

  • کتابوں کے عاشق کا احساسِ ملکیت

    کتابوں کے عاشق کا احساسِ ملکیت

    محبّت کرنے والے دوسرے افراد کی طرح کتابوں کے عاشق بھی احساسِ ملکیت کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں بھی یہ اعتراف کرتا چلوں کہ میری کتابوں کی الماری سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرنے لگے تو میرا جذبۂ رقابت جاگ اٹھتا ہے۔

    مجھے جس منظر کا خوف ہے، وہ تقریباً کلاسیکی ہے اور بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔ کتابیں جمع کرنے کے شوقین فوراً یہ لمحہ پہچان جائیں گے۔ کوئی مہمان ٹہلتا ہوا آپ کی کتابوں والی الماری کے پاس آتا ہے اور اُس پر سرسری نظر دوڑانے لگتا ہے۔ آپ اسی اُمید میں ہیں کہ وہ اُکتا کر جلد ہی اپنی کرسی پر واپس آجائے گا۔ مگر نہیں…

    کتابیں کھینچ کھینچ کر باہر نکالنے لگا ہے اور اب ان کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ بلکہ وہ اُن کو چھو رہا ہے، سہلا رہا ہے۔ وہ اب آپ، میں اور اس شام میں اپنی باقی ماندہ توجہ گم کر چکا ہے۔ جب وہ آخر کار اپنی نشست تک واپس آتا ہے، تو آپ کی الماری سے کتابوں کی ڈھیری اس کے ساتھ ساتھ چلی آتی ہے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے مگر آپ اس کے لیے تیار ہیں۔ وہ آپ سے پوچھے گا اور آپ کہہ دیں گے۔ ممکن ہی نہیں!

    ظاہر ہے کہ یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچتا ہے۔ وہ بے چارہ بھی اس قدر گھبرایا ہوا ہے جتنے کہ آپ، اور وہ بڑی ہمت کر کے سوال پوچھ ہی لیتا ہے۔ ارے وہ غائب دماغی کے سے انداز میں کہتا ہے جس وقت وہ رخصت ہونے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے،

    ” کیا میں یہ کتابیں مستعار لے سکتا ہوں؟ ”

    ” بالکل، کوئی بات نہیں۔۔”

    ” میں ہفتے بھر میں واپس کر دوں گا۔۔”

    ” جتنا مرضی چاہے وقت لگا لیں۔۔”

    ” آپ نے بُرا تو نہیں مانا؟ ”

    ” برا؟ آخر برا ماننے کی کیا بات ہے؟”

    معروف نقاد اناطول برو یارد نے احساس ملکیت کے مارے ہوئے کتابوں کے تمام عشاق کی ترجمانی کر دی تھی، جب اُس نے مانگے پر کتابیں دینے کے بارے میں مضمون لکھا: "جوں ہی کتاب کسی کو مانگے پر دے دی جاتی ہے، میں فوراً اُس کی کمی محسوس کرنے لگتا ہوں۔ ہر غائب کتاب ان باقی سب کتابوں کو بدل دیتی ہے جو میری الماری میں رہ گئی ہیں۔ میرے کتب خانے کا مزاج وہ نازک گیسٹالٹ، برہم ہو جاتا ہے۔ جب تک کہ کتاب واپس نہیں کر دی جاتی، میں اپنے آپ کو اُس والد یا والدہ کی طرح محسوس کرتا ہوں جو رات گئے اپنی بیٹی یا بیٹے کے دوستوں کی مشکوک پارٹی سے گھر واپس آنے کا انتظار کر رہا ہے۔ کتابیں مانگے پر دینے میں سب سے مشکل مرحلہ واپسی کے وقت ہوتا ہے۔ ایسے لمحوں میں، دوستی محض ایک تار تک سمٹ کر رہ جاتی ہیں۔ میں اُن کی طرف دیکھتا ہوں کہ اذیت یا نشاط، یا آنسو تبدیلی لرزتے ہاتھ کپکپاتی ہوئی آواز۔ مگر کتاب مانگنے والا عام طور پر بس یہی کہتا ہے، ” بڑا مزہ آیا۔”…. ” بڑا مزہ آیا۔” جیسے کہ کتابیں اسی کام کے لیے ہوتی ہیں۔۔”

    "اصولی طور پر مجھے کتابیں عاریتاً دینا اچھا لگتا ہے، یہ ادشا شیام کا کہنا ہے جو پڑھنے کے معاملے میں عقیدت کی حد تک شوق رکھتی ہیں، مگر حقیقت میں، اب میں بہت محتاط ہوگئی ہوں کہ کتابیں کس کو دوں۔ پہلے میں ان کا امتحان لینے کے لیے ” ریڈرز ڈائیجسٹ ” کے پرانے شمارے پڑھنے کے لیے دیتی ہوں اور یہ اگر وقت پر واپس مل جائیں اور خراب نہ ہوئے ہوں تو پھر میں کتابیں دینے کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔ ورنہ پھر میں بڑی سہولت کے ساتھ ان کتابوں کی تلاش کو ملتوی کرتی رہوں گی جو مانگی گئی ہیں۔ ارے، مگر خود مانگنا!!! مجھے کتابیں مانگ کر پڑھنا بہت پسند ہے اور میں ایسا کرتی بھی ہوں۔ مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے معلوم ہے میں کتابوں کی احتیاط کروں گی اور میں ان کو واپس کرنے کے معاملے میں بھی دھیان رکھتی ہوں۔”

    کتابیں جمع کرنے والے کئی افراد سے میں نے پوچھا کہ کتابیں مستعار دینے کا معاملہ اِس قدر صدمے کا سبب کیوں ہے۔ کثرت سے ملنے والے تین جواب یہ تھے: "زیادہ تر لوگ اُس وقت کتاب واپس نہیں کرتے جس کا وعدہ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بھلا بھول کیسے سکتے ہیں؟ میں تو اُس وقت سے اِس بات کو بھول نہیں پایا جب سے کتاب میں نے پڑھنے کے لیے دی ہے۔۔”

    ” یہ صرف دیر سے واپس کرنے کی بات نہیں۔ وہ جتنا وقت چاہے لے لیں، بات یہ ہے کہ وہ کتاب خراب کر دیتے ہیں۔ کتاب واپس آئے گی تو صفحے کتّے کے کان کی طرح مڑے ہوئے ہوں گے یا داغ دار یا پھر پشتہ مڑا ہوا۔”

    "مجھے اس کی پروا نہیں کہ کب واپس ملے گی اور کس حالت میں۔ سب سے زیادہ مایوسی اِس بات سے ہوتی ہے، اور یہ بات میرا دل توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اتنے مہینوں کے بعد بھی کتاب انہوں نے پڑھی ہی نہیں۔”

    مگر ہم شروع سے ہی احساسِ ملکیت کے مارے ہوئے تو نہیں تھے۔ بچپن اور لڑکپن کے پُر لطف مشغلوں میں یہ بھی شامل تھا کہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے دوستوں، سہیلیوں سے کتابوں اور کامک کا تبادلہ کیا کرتے۔ بڑے ہو کر ہم نے یہ مسرت کم کر دی ہے۔ بچپن میں ہم بہت تن دہی کے ساتھ کامک بکس کا تبادلہ کرتے اور کالج کے دنوں میں بڑی آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کو کتابیں دیا کرتے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی پسندیدہ ادیب یا کتاب ایسی ہوتی جس کے پڑھنے کے لیے ہم اپنے ہم جماعتوں سے پُر زور سفارش کر رہے ہوتے۔

    ” تمہارا مطلب ہے کہ تم نے ابھی تک وڈ ہاؤس کی کوئی کتاب نہیں پڑھی؟ میں کل ہی ایک پرا ڈھیر لے آؤں گا۔

    ” میں ایک بہت ہی حیرت انگیز کتاب پڑھ رہا ہوں۔ اس کا نام ہے ” زین اینڈی دی آرٹ آف موٹر سائیکل مین ٹیننس” تم میری کاپی لے لینا، جوں ہی میں ختم کرلوں۔”

    مجھے یاد ہے کہ میرا ایک ہم جماعت پوری کلاس کو "کیچ 22 ” کی کاپی باری باری دے رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اتنی مزاحیہ کتاب سے ناواقف رہنا کوئی برداشت نہیں کر سکے گا۔ خود میں نے بھی بالکل ہی اجنبی لوگوں کو ” دی چوزین ” اور ” مائی نیم از ایشرلیف ” کے نسخے سرمنڈھ دیے۔

    اور یہ سب اس عہد کی بات ہے جب ہم خراب ہونے یا برباد ہونے کی صورت میں اپنی پسند کی کتاب کے نئے نسخے خریدنے کی ہمّت بھی نہیں کر سکتے۔ مگر بے کھٹکے کتابیں مانگتے بھی تھے اور مانگے دیتے بھی تھے۔

    اہم بات یہ تھی کہ کوئی اور بھی وہ کتاب پڑھے جو ہمارے لیے وقیع ہے۔ یہ عمل آپ کو ایک کلیسائی عزم سے بھر دیتا تھا اور یہ دوستی کے رشتے استوار کرتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے پسندیدہ ادیب کو پڑھنا بڑی قربت کی بات تھی بلکہ ہے۔ کوئی بھی اور بات دوستی کو اس طرح مستحکم نہیں کرتی اور تعلق میں گہرائی نہیں لاتی جتنا کہ کتابوں کا تبادلہ۔

    میں نے اس طرح کا سب سے پسندیدہ اور سخاوت سے بھر پور عمل دیکھا ہے، وہ میری دوست پرسنا کا اپنے دوستوں کو کتابوں کی الماری کی طرف بلا کر اپنی پسند کی کتاب مستعار لینے کی دعوت دینا ہے: ” میں دوسروں کو کتابیں مستعار دینے کی جبریہ عادت رکھتی ہوں۔” اس نے اعتراف کیا۔ ” یہ بات جس قدر بھی غیر عملی لگے، آخر کار یہ بہت تسکین بخش عمل ہے۔ مجھے یہ تصور ہی اچھا لگتا ہے کہ جس کتاب کی میں قائل ہوں وہ میرے کسی دوست کے ہاتھوں میں ہو۔”

    (مضمون "کتابیں مانگنا” از پردیپ سبیچین، ماخوذ ادبی رسالہ دنیا زاد)