Tag: ادب پارے

  • غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    مجھے یاد ہے کہ جب میں عباس صاحب سے پہلی دفعہ استاذی صوفی تبسم صاحب کے ہاں ملا تو انہوں نے مجھے اپنی نیاز مندی کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُلٹا مجھے بتانے لگے کہ ” میں نے آپ کے سب مضامین پڑھے ہیں، آپ سے غائبانہ تعارف تو ہے، بس ملاقات نہیں ہوئی، تاثیر صاحب، فیض صاحب اور محمد حسن عسکری سے آپ کا ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    واقعہ یہ ہے کہ میرے بچپن کے زمانے میں ہر اُردو پڑھنے والے بچے کی سب سے پہلے جس لکھنے والے سے غائبانہ ملاقات ہوتی تھی وہ غلام عباس تھے۔ اس لیے کہ وہ ’’پھول‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور ’پھول‘ ہر گھر میں ہفتہ وار سوغات کی طرح آتا تھا، میری بھی غلام عباس سے غائبانہ ملاقات اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ غلام عباس کو بچوں اور نوجوان پڑھنے والوں کے دلوں میں گھر کرنے کا فن آتا تھا۔

    عباس صاحب لاہور میں بہت خوش تھے۔ یہاں کی گلیوں میں انہوں نے اپنے لڑکپن اور جوانی کے دن گزارے تھے ، ان کی بہت سی یادیں اس شہر سے وابستہ تھیں اور وہ اکثر ان یادوں کو تازہ کرتے رہتے تھے۔

    ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ چلیے آپ کو اس محلے میں کچھ اپنے پرانے دوستوں سے ملا لائیں۔ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا، ہم جب وہاں پہنچے تو عقب میں واقع بادشاہی مسجد کے میناروں سے دھوپ ڈھل چکی تھی اور محلے کی گلیوں میں شام ہو چکی تھی۔ ایک ذرا کشادہ گلی کی نکڑ پر ایک بڑے سے مکان کے سامنے عباس صاحب نے اپنا موٹر سائیکل روک لیا اور بڑی احتیاط سے پارک کیا۔ آس پاس کے دکان داروں سے علیک سلیک کی۔ مکان سے دروازے ہی پر کچھ ملازم پیشہ لوگوں نے عباس صاحب کو پہچان لیا۔ اندر اطلاع دی گئی تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا۔ ہم اوپر کی منزل کے ایک دالان میں پہنچے تو عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں نمودار ہوئیں، بڑی بوڑھیوں نے عباس صاحب کی بلائیں لیں، دو ایک ہم عمروں نے گلے لگایا اور نئی نویلی لڑکیاں آداب سلام بجا لائیں۔ عباس صاحب نے میرا تعارف کرایا تو گورنمنٹ کالج میں میرے لیکچرار ہونے کا ذکر بھی کیا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ان کے عزیزوں میں سے فلاں فلاں وہاں پڑھتے رہے ہیں اور فلاں اب بھی پڑھ رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد ایک تپائی پر چائے کا سامان رکھ دیا گیا۔ چائے کے ساتھ کھانے کے لیے گرم گرم سموسے اور شامی کباب، گاجر کا حلوہ۔ گپ شپ بھی ہوتی رہی اور کام و دہن کی تواضع بھی۔ آخر ایک مناسب موقع تلاش کر کے عباس صاحب نے میری خاطر سے گانے کی فرمائش کی۔ پہلے تو معمول کے عذر پیش کیے گئے۔ گلا خراب ہے، بہت دنوں سے ریاض نہیں کیا، یوں بھی اب تو لڑکیاں ہی گاتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر پھر مجھ سے یہ کہتے ہوئے کہ آپ عباس کے دوست ہیں اور پہلی دفعہ ہمارے گھر آئے ہیں، ہیرا بائی نے ہامی بھر لی۔ ساتھ والے کمرے سے طنبورہ اور طبلہ منگوائے گئے۔ ایک لڑکے نے طبلہ سنبھالا۔ ہیرا بائی نے طنبورہ ہاتھ میں لیا اور غالب کی غزل شروع کی:

    دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی
    دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

    اور اس طرح ڈوب کر گائی کہ سماں باندھ دیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود بھی غالب کے الفاظ اور اپنی آواز کے جذب و اثر میں کھوئی گئی ہیں، غزل ختم ہوئی تو میں نے جیسے ایک وجد کی سی کیفیت میں یہ شعر دہرا دیا:

    دیکھو تو دل فریبیٔ اندازِ نقشِ پا
    موجِ خرام ِ یار بھی کیا گُل کتر گئی

    ہیرا بائی فوراً بولیں۔ ’’پروفیسر صاحب! اب موجِ خرامِ یار کہاں، اب تو یار پھٹ پھٹی پر آتا ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی عباس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا۔

    کچھ دیر اور ٹھہرنے کے بعد ہم نے اجازت چاہی، نیچے آئے تو ڈیوڑھی کے ساتھ والا دالان جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا، سفید چاندنی پر گاؤ تکیے لگا دیے گئے تھے۔ سازندے سازوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے اور لڑکیاں سجی بنی مسند پر بیٹھی تھیں۔

    ہیرا بائی سے اپنی بھرپور جوانی کے عشق کا قصّہ عباس صاحب مجھے سنا چکے تھے، وہ ان کی زندگی میں پہلی عورت تھی جو اُن سے عمر میں کچھ بڑی بھی تھی لہٰذا اس کی محبت میں کچھ شفقت بھی شامل تھی۔

    عباس صاحب کو اس دو گونہ نشے نے دیوانہ کر دیا تھا مگر ظاہر ہے کہ ہیرا بائی کے گھر والے اس تعلق سے خوش نہیں تھے اور نہ عباس صاحب کی والدہ اِس لیے کہ انہیں اپنے ہونہار اکلوتے بیٹے سے بڑی امیدیں تھیں، وہ بیٹا جس کی لکھی ہوئی کہانیاں رسالوں میں چھپتی تھیں، جو مولوی سید ممتاز علی کے زیر سایہ’’پھول‘‘ اخبار میں کام کرتا تھا اور اہل علم لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا تھا۔

    عباس صاحب کے لیے بھی ادب اور ادیبوں کی صحبت گویا ایک نئی دنیا کی سیر تھی، اس کی کشش نے اُن کے دل کو ایسا رِجھایا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے اوّلین عشق سے دامن چھڑا لیا۔

    (اردو کے نام ور ادیب اور کئی مشہور افسانوں کے خالق غلام عباس پر ڈاکٹر آفتاب احمد کے تذکرے سے اقتباسات)

  • "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام پر جو دو وقت کٹھن گزرتے ہیں ان کی صحیح عکاسی کرنے کے لئے مضطر خیرآبادی کے مصرع کی ترتیب میں ذرا سی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

    مصرع اس طرح لکھا جانا چاہیے۔

    اِک ترے جانے سے پہلے

    اِک ترے آنے کے بعد

    اگر آپ مصرع کی الٹی ترتیب کو بغور پڑھیں تو عوام اور عاشق کے کٹھن وقت کے کرب کی مدد سے حکومتوں اور معشوق کی آمدورفت کے صحیح پس منظر سے کماحقہ لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست تھے۔ بے حد جذباتی مگر رکھ رکھاؤ والے۔ اس ملک کے تیسرے عام انتخابات میں پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے جب وہ اپنے گھر سے چلے تو کچھ اس شان سے کہ نئی شیروانی اور نئے جوتے پہن رکھے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ زیر جامہ اور رومال بھی نیا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ اور کان میں عطر کا پھاہا بھی رکھ چھوڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے ہوں۔ یا سہرے کے بغیر خود اپنے ’عقد ثانی‘ میں شرکت کی غرض سے جا رہے ہوں۔ جمہوریت کا نیا نیا تجربہ تھا۔ اور ان دنوں عوام میں جوش و خروش بھی بہت پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض جوشیلے رائے دہندے ایک ہی پولنگ بوتھ پر دس دس بوگس ووٹ ڈال کر آتے تھے۔ آج جب ہم جمہوریت سے اپنے پچاس سالہ شخصی تعلق پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے حقیر اور ادنیٰ سے ووٹ نے جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے علاوہ وی پی سنگھ اور من موہن سنگھ جیسی ہستیوں کو اس ملک کی وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچانے میں مدد کی۔ ان پچاس برسوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ لیکن بعد میں سیاست دانوں کا سماجی اخلاقی اور علمی معیار رفتہ رفتہ گرتا چلا گیا۔

    ہمارے ایک دوست پارلیمنٹ کے رکن ہیں، دہلی میں رہتے ہیں اور انہوں نے ہم پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ ہم کسی محفل میں ان کا تعارف رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے نہ کرائیں۔ کہتے ہیں لاج سی آتی ہے اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے ارکان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ غیر سماجی عناصر اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک اس ملک کی سیاست میں ہماری دل چسپی برقرار رہی۔ لیکن جب پہلی مرتبہ مسز اندرا گاندھی انتخابات میں ہار گئیں تو ہم نے اس بات کا اتنا گہرا اثر قبول کیا کہ دو دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔ بلکہ پریس کلب تک نہیں گئے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنا ووٹ، ووٹ بینک میں رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا ووٹ، ووٹ بینک سے نکالا اور اب اسے حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ یوں بھی بینکنگ سے ہمارا کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ لوگوں نے ہمیں بہت کم کسی بینک میں دیکھا ہو گا۔ جب ہم بینکوں میں اپنا پیسہ تک رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے اکلوتے ووٹ کو کسی ووٹ بینک میں کیوں رکھیں۔

    ہمارے ایک اور دوست ہیں جو مسز اندرا گاندھی کی ہار سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ جمہوریت سے ہی دست بردار ہو گئے۔ اب نہ تو وہ ووٹ دینے جاتے ہیں نہ کسی انتخابی جلسے کو سنتے ہیں۔ ہم شخصی طور پر جمہوری عمل سے اس قدر بد دل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ صبح کبھی نہ کبھی تو آئے گی ہی جب ہمارے ووٹ کی حکمرانی پھر سے قائم ہو جائے گی۔ پچھلی دو دہائیوں کا ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکمرانی قائم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لہذا اب ’مخلوط حکومتوں‘ کا بول بالا ہے۔ مخلوط حکومت بے پیندے کے لوٹوں یا تھالی کی بینگنوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ مخلوط حکومت سرکار چلانے کے کرتب تو دکھا سکتی ہے لیکن کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ پہلے سیاست دان اس ملک کو اور ملک کے شہریوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کرتے تھے۔ مگر اب جوڑ توڑ ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کا چلن عام ہو گیا ہے۔ پہلے کوئی ایک سیاسی پارٹی شہریوں کو لوٹتی تھی مگر اب کئی لٹیرے مل کر پہلے عوام کے ووٹوں کو اور بعد میں ان کے نوٹوں کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس افراتفری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہر کس و نا کس اپنے آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل سمجھنے لگا ہے۔ جس لیڈر کو اس کی تعلیمی لیاقت کی بنیاد پر ایل ڈی سی کو نوکری نہیں مل سکتی اب وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔

    جمہوریت کا یہی تو فائدہ ہے۔ تاہم ہم اپنے طور پر بہ رضا و رغبت یہ اعلان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ اگر کوئی صاحب یا پارٹی ہمیں وزیر اعظم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ ہمارے بھروسے بالکل نہ رہیں۔

    (مجتبیٰ‌ حسین ہندوستان کے ممتاز مزاح نگار، انشا پرداز، خاکہ نویس اور کالم نگار تھے جن کی یہ مزاحیہ تحریر بھارت میں سیاست اور انتخابات سے متعلق ہے)

  • ‘ڈاک’

    ‘ڈاک’

    تعجب ہوگا کہ اس ڈاک کا ہمارے لغت میں پتہ نہیں۔ عربی میں ڈاک کے لئے برید کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں حضرت امیر معاویہ نے سب سے پہلے اس نظام کو قائم کیا اور برید اس کا نام پڑا۔

    ہمارے عجمی اہلِ لغت نے اس کو فارسی بریدن سے لیا اور بتایا کہ چونکہ ڈاک کے لئے دُم بریدہ یعنی دُم کٹے گھوڑے کام میں لائے جاتے تھے اس لئے ڈاک کو برید کہنے لگے۔ حالانکہ اگر یہ اشتقاق درست بھی ہوتا تو زیر کے بجائے ب کو پیش ہونا چاہیے تھا۔ اب نئی تحقیق یہ ہے کہ یہ یونانی اور لاطینی سے عربی میں آیا ہے اور وریڈاس کی اصل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ پہلے یہی لفظ آیا پھر ترکی لفظ اولاغ چلا۔ (برنی ص 447 کلکتہ) مگر فوراً ہی اس کی جگہ ایک ہندوستانی لفظ نے رواج پایا اور وہ لفظ دھاوا ہے۔ چنانچہ تغلقوں کی تاریخ میں یہ لفظ بولا گیا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے سفرنامہ میں بعینہ یہی لفظ لکھا ہے برنی نے فیروز شاہی میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔ (ص 447 کلکتہ) مگراس کو دھاوا کیوں کہتے تھے، اس کا پتہ اپنوں سے نہیں بلکہ ابنِ بطوطہ جیسے بیگانے سے چلتا ہے۔

    وہ کہتا ہے کہ دھاوا کے معنی اہلِ ہند میں تہائی میل کے ہیں۔ چونکہ یہ ہرکارے ہر تہائی میل پر مقرر ہوتے تھے اس لئے اس کو دھاوا کہتے تھے اور استعمال سے راستے کے بجائے خود راستے والے پیادے کو دھاوا کہنے لگے۔ لیکن غریب نا آشنائے زبان کو اس میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھاوا کے معنی سنسکرت میں دوڑنے کے ہیں، چونکہ یہ دوڑ کر چلتے تھے اس لئے ان کی چال کو دھاوا کہنے لگے۔ پھر خود دھاوا ہوگئے اور ہر تہائی میل پر جہاں ٹھہرتے تھے، وہ دھاوا، ہو گیا۔ دھاوے کے ان پیادوں کی چوکیاں ہر تہائی میل پر دلّی سے لے کر دولت آباد تک بنی ہوئی تھیں۔ پیادہ گھنگھرو دار لاٹھی کو کندھے پر رکھ کر تیزی سے دوڑتا ہوا اگلے دھاوے تک پہنچتا تھا وہاں دوسرا پیادہ گھنگھرو کی آواز سن کر تیار رہتا تھا۔ وہ فوراً اس سے ڈاک لے کر آگے کے دھاوے کو دوڑتا تھا۔ اس طرح سندھ سے دلّی 5 دن میں ڈاک پہنچتی تھی۔

    اس دھاوے کی یادگار ہماری زبان میں دھاوا کرنا، دھاوے پر چڑھنا، دھاوا بول دینا آج بھی موجود ہے اور دھاوے کے پیادے کو پایک کہتے تھے جو پیک کی صورت میں محرم کی تقریب میں امام کے نقلی قاصدوں کا ہم نے نام رکھا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آل تیمور نے جب ہندوستان پر دھاوا کیا تو یہ لفظ یہاں سے مٹ چکا تھا۔ چنانچہ اکبر کے زمانہ میں جب بدایونی نے اس لفظ کو استعمال کیا تواس کو ترجمہ کی ضرورت ہوئی۔

    فرشتہ نے جہانگیر کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی تو دھاوا کا لفظ مٹ کر ڈاک چوکی کا لفظ پیدا ہوچکا تھا۔ مگر کہتا ہے کہ اس کو پہلے یام (ی ا م) کہتے تھے۔ سلطان علاؤ الدین کے حال میں لکھتا ہے، ’’از دہلی تا آنجا ڈاک چوکی کہ بزبان سلف یام می گفتند می نشاندہ۔‘‘ یہ یام فارسی استعمال میں ہے، دکن میں مدراس سے لے کر پونا تک اس کے لئے ٹپ ٹپال اور ٹپہ خانہ بولا جاتا ہے۔ ریاست حیدرآباد کا سرکاری لفظ یہی ہے۔

    بہرحال ڈاک کا لفظ جہانگیر کے زمانہ میں یا اس سے پہلے سے بولا جانے لگا۔ اس کی اصلیت پر میں غور کرتا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس کے معنی منزل کے ہوں گے چونکہ یہ منزل بہ منزل جاتے تھے اس لئے اس کو ڈاک کہنے لگے اوراس کے ہر پڑاؤ کو ڈاک چوکی بمعنی پہرہ جس کی ایک یادگار چوکیدار ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی لئے انگریزوں نے اسی اصول سے بنگال سے الہ آباد تک اپنے منزل بہ منزل سفروں کے لئے جو مختصر قیام گاہیں بنائیں ان کو ڈاک بنگلہ کہا اور اب بھی وہ یہی کہے جاتے ہیں اور اگر لغت گڑھنے کا الزام نہ قائم کیا جائے تو جی چاہتا ہے کہ یہ کہوں کہ ہندوستان اور افغانستان کی سرحد پر ڈکہ اور بنگال کی حد پر ڈھاکہ اور دوسری طرف موتی ہاری سے نیپال کے پاس دوسرا ڈھاکہ اسی منزل گاہ کے باقی نشان ہیں۔ بہرحال منزل نے راستے کی اور راستے نے خط و لفافہ اور اشیائے ڈاک کی صورت اختیار کی اور اب وہ ڈاک کے پچھلے معنی کی صورت ڈاک بٹھانا، ڈاک لگانا، یعنی جلدی جلدی منزل بمنزل یا ہاتھوں ہاتھ چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا رہ گیا ہے۔

    فیضِ ساقی نے مرے ڈاک لگا رکھی ہے
    (راسخؔ)

    روح ہے ہرجسم میں مشتاقِ اخبارِ اجل
    اس لئے یہ آمد و رفتِ نفس کی ڈاک ہے
    (ناسخؔ)

    اسی سے ڈاک بولنا بھی ایک محاورہ ہے یعنی نیلام میں منزل بمنزل کسی چیز کی قیمت بڑھانا۔

    کچھ دن ہوئے ایک قلمی ہندوستانی فارسی لغت برادرم پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی (اسماعیل کالج بمبئی) کے پاس نظر سے گزرا۔ یہ لغت کسی ایرانی یا پارسی نے لکھا ہے۔ تالیف کا سنہ نہیں معلوم۔ اس میں ایک لفظ ڈانکیہ دیکھا جس کے معنی نقیب کے لکھے ہیں۔ نقیب شاہی درباروں میں درباریوں کو با ادب رہنے کے لئے زور سے آواز لگایا کرتے تھے۔ ڈانکنا کے معنی زور سے آواز لگانے کے ہیں۔ اس سے دوسرا خیال یہ ہوتا ہے کہ ڈاک کی اصل ڈانک اور ڈاکیہ کی ڈانکیہ ہے، چونکہ ڈاک کا چوب دار آواز دیتا ہوا چلتا تھا، اس لئے اس کو ڈانکیہ اور اس کے کام کو ڈانک کہا گیا اور ڈانک نے ڈاک کی صورت بدل کر منزل بمنزل رفتار کے معنی اختیار کر لیے۔

    (ہندوستان کے نام وَر سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور کئی کتابوں کے مصنّف سید سلیمان ندوی کے الفاظ اور ان کے معنی سے متعلق مضمون سے اقتباس)

  • افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    ہندوستان میں‌ برطانوی راج میں سول سرونٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والوں میں ایک نام جی ای سی ویکفیلڈ کا تھا۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنّف تھے۔ ”پچاس برس کی یادداشتیں“ ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔

    پہلے مسٹر ویکفیلڈ کا مختصر تعارف پیش ہے۔ جی ای سی ویکفیلڈ کا پورا نام جارج ایڈورڈ کیمبیل (George Edward Campbell Wakefield) تھا۔ وہ مسٹر ویکفیلڈ مشہور تھے۔ ان کا تعلق ملتان سے تھا جہاں انھوں نے ایک برطانوی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ ویکفیلڈ کا سنہ پیدائش 1873 اور وفات کا سال 1944 ہے۔ ویکفیلڈ کی دادی ہندوستانی تھیں جنھوں نے عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔

    مسٹر ویکفیلڈ برصغیر میں نصف صدی تک مختلف محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جن میں مالیات، زراعت شامل ہیں، انھوں نے نظامِ دکن کے لیے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اس دوران ویکفیلڈ کو کئی دل چسپ تجربے ہوئے اور انھوں نے بعض ناقابلِ یقین اور حیرت انگیز واقعات بھی دیکھے اور ان کو ویکفیلڈ نے خاص طور پر قلم بند کیا۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ شہزادوں اور مہاراجوں کے حالات اور واقعات شامل ہیں۔

    مسٹر ویکفیلڈ نے اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں‌ درج کیا ہے۔ ”افغان امیر شیر علی خان ہندوستان کے دورے پر آئے تو ابّا جان نے ایک مقام پر اُن کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ رخصت ہوتے وقت امیر نے اُنہیں بُلا بھیجا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرے آرام کی خاطر اچھے انتظامات کیے۔ ابّا جان نے معروف فارسی محاورے کے مطابق کہہ دیا کہ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ اس پر امیر نے خیمے کے اندر موجود ہر چیز باندھنے کا حکم دیا اور وہ ساری اشیا واقعی افغانستان لے گیا جن میں ایک پیانو بھی شامل تھا۔ بعد میں مالیات کے حکام برسوں ابّا جان کے پیچھے پڑے رہے کہ آپ نے اتنی قیمتی اشیا امیر کو مفت پیش کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔“

  • مرزا غالب کا دستر خوان

    مرزا غالب کا دستر خوان

    اگر اردو نثر و ںظم میں خواجہ الطاف حسین حالی کو ایک مجدّد اور تنقید کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا تو ‘یادگارِ غالب’ بھی وہ سوانح ہے جو حالی کی شناخت اور پہچان کبھی ماند نہیں پڑنے دے گی۔ الطاف حسین حالی، مرزا غالب کے ایک ایسے معتقد تھے جن کی غالب سے دوستی بھی تھی، اور ان کے وہ شاگرد بھی تھے۔

    یہاں ہم اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کی زندگی کے آخری ایّام، اُن کی خوراک اور انھیں‌ مرغوب غذا کے بارے میں حالی کی تحریر سے یہ پارے نقل کررہے ہیں‌ جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرزا کی نہایت مرغوب غذا گوشت کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔ ایک وقت بھی بغیر گوشت کے نہیں رہ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ مسہل کے دن بھی انہوں نے کھچڑی یا شوربہ نہیں کھایا۔ اخیر میں ان کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی۔ صبح کو وہ اکثر شیرہ بادام پیتے تھے۔ دن کو جو کھانا ان کے لئے گھر میں سے آتا تھا اس میں صرف پاؤ سیر گوشت کا قورمہ ہوتا تھا۔ ایک پیالہ میں بوٹیاں اور دوسرے میں لعاب یا شوربہ، ایک پیالی میں ایک پھلکے کا چھلکا شوربے میں ڈوبا ہوا۔ ایک پیالی میں کبھی کبھی ایک انڈے کی زردی، ایک اور پیالی میں دو تین پیسہ بھر دہی اور شام کو کسی قدر شامی کباب یا سیخ کے کباب۔ بس اس سے زیادہ ان کی خوراک اور کچھ نہ تھی۔

    ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر کہا، ’’اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجے تو میرا دسترخوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا۔‘‘

    ایک دن قبل غروب آفتاب کے مرزا صاحب شام کو کھانا کھا رہے تھے اور کھانے میں صرف شامی کباب تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا اور ان کے سامنے بیٹھا رومال سے مکھیاں جھل رہا تھا، مرزا نے کہا آپ ناحق تکلیف فرماتے ہیں، میں ان کبابوں میں سے آپ کو کچھ نہ دوں گا۔ پھر آپ ہی یہ حکایت بیان کی۔ نواب عبدالاحد خاں کے دسترخوان پر ان کے مصاحبوں اور عزیزوں اور دوستوں کے لئے ہر قسم کے کھانے چنے جاتے تھے، مگر خاص ان کے لئے ہمیشہ ایک چیز تیار ہوتی تھی۔ وہ اس کے سوا کچھ نہ کھاتے تھے۔ ایک روز ان کے لئے مز عفر پکا تھا وہی ان کے سامنے لگایا گیا۔ مصاحبوں میں ایک ڈوم بہت منہ لگا ہوا تھا جو اس وقت دسترخوان پر موجود تھا۔ نواب نے اس کو کھانا دینے کے لئے خالی رکابی طلب کی۔ اس کے آنے میں دیر ہوئی۔ نواب کھانا کھاتے جاتے تھے اور خالی رکابی بار بار مانگتے تھے۔ وہ مصاحب نواب کے آگے رومال ہلانے لگا اور کہا، ’’حضور رکابی کیا کیجیے گا اب یہی خالی ہوئی جاتی ہے۔‘‘ نواب یہ فقرہ سن کر پھڑک گئے اور وہی رکابی اس کی طرف سرکا دی۔ "

  • دفتر میں نوکری

    دفتر میں نوکری

    ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے!

    ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘

    ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘

    ’’بھئی، حرام خوری کی بھی حد ہوتی ہے!‘‘

    ’’آخر کب تک گھر بیٹھے ماں باپ کی روٹی توڑو گے۔‘‘

    ’’لو اور سنو، کہتے ہیں، غلامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’میاں صاحبزادے! برسوں جوتیاں گھسنی پڑیں گی، تب بھی کوئی ضروری نہیں کہ۔۔۔‘‘ غرض کہ صاحب گھر والوں، عزیز رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے دن رات کے تقاضوں سے تنگ آکر ہم نے ایک عدد نوکری کر لی۔ نوکری تو کیا کی، گھر بیٹھے بٹھائے اپنی شامت مول لے لی۔ وہی بزرگ جو اٹھتے بیٹھتے بے روزگاری کے طعنوں سے سینہ چھلنی کیے دیتے تھے، اب ایک بالکل نئے انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے؟‘‘

    ’’اماں، نوکری کر لی؟ لاحول ولا قوۃ!‘‘

    ’’ارے، تم اور نوکری؟‘‘

    ’’ہائے، اچھے بھلے آدمی کو کولہو کے بیل کی طرح دفتر کی کرسی میں جوت دیا گیا۔‘‘

    ’’اگر کچھ کام وام نہیں کرنا تھا تو کوئی کاروبار کرتے اس نوکری میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    لیکن ملازمت کا پرُسہ اور نوکری پر جانا دونوں کام جاری تھے۔ ایسے حضرات اور خواتین کی بھی کمی نہ تھی جن کی نظروں میں خیر سے ہم اب تک بالکل بے روزگار تھے۔ لہٰذا ان سب کی طرف سے نوکری کی کنویسنگ بھی جاری تھی۔ روزگار کرنے اور روزگار نہ کرنے کا بالکل مفت مشورہ دینے والوں سے نبٹ کر ہم روزانہ دفتر کا ایک چکر لگا آتے۔

    یہاں چکر لگانے، کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ اب تک ہم کو نوکری مل جانے کے باوجود کام نہیں ملا تھا۔ بڑے صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی پر یہ طے ہونا تھا کہ ہم کس شعبے میں رکھے جائیں گے۔ دفتر ہم صرف حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرنے کی حد تک جاتے تھے۔ فکر اس لیے نہ تھی کہ ہماری تنخواہ جڑ رہی تھی، یعنی پیسے دودھ پی رہے تھے۔ پریشانی اس بات کی تھی کہ اس ’باکار‘ ’بے کاری‘ کے نتیجے میں ہم کہیں ’حرام خور‘ نہ ہو جائیں۔ بے روزگاری کے تقاضوں سے ہم اس قدر تنگ آچکے تھے کہ اب کسی پر یہ ظاہر کرنا نہ چاہتے تھے کہ باوجود روزگار سے لگے ہونے کے ہم بالکل بے روزگار ہیں اور بے روز گا ر بھی ایسے کہ جس سے کار تو کار، بے گار تک نہیں لیا جارہا ہے۔

    روزانہ ہم گھر سے دفتر کے لیے تیار ہو کر نکلتے اور راستے میں سائیکل آہستہ کر کے دفتر کے پھاٹک پر کھڑے چپراسی سے پوچھتے، ’’اماں آیا؟‘‘

    جواب ملتا، ’’ابھی نہیں آیا۔‘‘

    اس کے بعد ہم دفتر میں جا کر حاضری لگا الٹے قدموں باہر آتے، سائیکل اٹھاتے اور شہر کے باہر دیہات، باغوں اور کھیتوں کے چکر لگا لگا کر دل بہلاتے اور وقت کاٹتے۔

    لیکن دو چار دن میں، جب دیہات کی سیر سے دل بھر گیا، تو شہر کے نکڑ پر ایک چائے خانے میں اڈا جمایا۔ پھر ایک آدھ ہفتے میں اس سے بھی طبیعت گھبرا گئی۔ اب سوال یہ کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک ترکیب سوجھ گئی۔ گھر میں کہہ دیا، چھٹی لے لی ہے۔ دو چار دن بڑے ٹھاٹھ رہے آخر جھک مار کر وہی دفتری آوارہ گردی شروع کر دی۔

    اس کے بعد دو ایک دن دفتر میں سوانگ رچایا۔ ایک دن دفتر میں چھٹی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے افسر ایک مختصر علالت کے بعد آج وفات پاگئے۔ مگر یہ خوش آگیں لمحات بھی مدتِ وصل کی طرح جلد ختم ہوگئے۔ اب کیا کریں۔ اسکول کے زمانے میں ہم نے چھٹی حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کر کے تقریباً اپنے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    غیر حاضری کا یہ عذر پیش کرتے۔ ’’دادا جان پر اچانک ڈبل نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ ایک ہی دن میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘

    نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ماسٹر صاحب نے بید کھڑکاتے ہوئے کڑک کر پوچھا، ’’کل کہاں تھے؟‘‘

    رونی صورت بنا کر عرض کیا، ’’والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔ ہم والد مرحوم کی وفاتِ حسرت آیات کی تفصیل میں جانے کے لیے مصائب پر آنے ہی والے تھے کہ ماسٹر صاحب گرجے، ’’تمہارے والد کا تو پچھلے مہینے انتقال ہو چکا ہے۔‘‘

    جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا، ’’ابّا سے مراد بڑے ابّا۔ جنہیں ہم ابّا کہتے تھے۔ ہمارے بڑے ابّا!‘‘

    ماسٹر صاحب ہماری اس تازہ ترین یتیمی سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر تو خیر ہم بالکل بال بال بچ گئے۔ لیکن جب ہم نے اپنی بھاوج کے تیسری بار انتقال کی خبر سنائی تو ماسٹر صاحب کھٹک گئے۔ ہم سے بہ ظاہر رسمی ہمدردی کی مگر شام کو بید لے کر تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئے، جہاں ہمارے خاندان کے ہر مرحوم سے انہوں نے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کے بعد ہم کو ہمارے گھر نما قبرستان میں بید سے مارتے مارتے زندہ درگور کر دیا۔

    چنانچہ اب جو دفتر سے بچنے کے سلسلے میں زمانۂ طالب علمی میں چھٹی کے ہتھکنڈوں پر نظر دوڑائی اور طبیعت گدگدائی تو بجائے دفتر جانے کے گھر میں اعلان کر دیا۔

    ’’ڈائریکٹر صاحب کا آج انتقال ہو گیا۔‘‘ رفتہ رفتہ وقت گزاری سے اتنے عاجز آگئے کہ ایک دن یہ سوچ کر کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، استعفیٰ جیب میں رکھ کر دفتر پہنچے لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ قبل اس کے کہ ہم استعفیٰ پیش کرتے ہمیں یہ خوش خبری سنادی گئی کہ فلاں شعبے سے ہم کو وابستہ کر دیا گیا ہے، جہاں ہم کو فلاں فلاں کام کرنے ہوں گے۔

    اب ہم روزانہ بڑی پابندی سے پورا وقت دفتر میں گزارنے لگے۔ دن دن بھر دفتر کی میز پر جمے ناول پڑھتے، چائے پیتے اور اونگھتے رہتے۔

    جب ہم اپنے انچارج سے کام کی فرمائش کرتے تو وہ بڑی شفقت سے کہتے ایسی جلدی کیا ہے، عزیزم زندگی بھر کام کرنا ہے۔

    ایک دن ہم جیسے ہی دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جن ڈائریکٹر صاحب کو ہم اپنے گھر میں مرحوم قرار دے چکے تھے، وہ ہم کو طلب فرما رہے ہیں۔ فوراً پہنچے۔بڑے اخلاق سے ملے۔ دیر تک اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بولے، ’’اچھا!‘‘

    ’’آپ نے شاید مجھے کسی کام سے یاد فرمایا تھا۔‘‘

    ’’اوہ! ٹھیک ہے۔ سیکریٹری صاحب سے مل لیجیے۔ وہ آپ کو سمجھا دیں گے۔‘‘

    سیکریٹری صاحب سے ایک ہفتے بعد کہیں ملاقات ہوسکی۔ انہوں نے اگلے دن بلایا اور بجائے کام بتانے کے ڈپٹی سیکریٹری کا پتہ بتا دیا۔ موصوف دورے پر تھے۔ دو ہفتے بعد ملے۔ بہت دیر تک دفتری نشیب و فراز سمجھانے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ اس موضوع پر اس اس قسم کا ایک مختصر سا مقالہ لکھ لائیے، آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔

    خوشی کے مارے ہم پھولے نہ سمائے کہ ہم بھی دنیا میں کسی کام آسکتے ہیں۔ دو صفحے کا مقالہ تیار کرنا تھا جو ہم نے بڑی محنت کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔ موصوف نے مقالہ بہت پسند کیا۔

    مزید کام کے لیے ہم ان کے کمرے کا رخ کرنے ہی والے تھے کہ اس دفتر کے ایک گھاگ افسر نے ہمارا راستہ روکتے ہوئے ہمیں سمجھایا، بھیّا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو یا ہم لوگوں کی نوکریاں ختم کرانا چاہتے ہو؟ آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟ جو کام تم کو دیا گیا تھا، اسے کرتے رہو، ہم لوگ دفتر میں کام کرنے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی۔ ناشتہ کرتے وقت اخبار کے میگزین سیکشن پر جو نظر دوڑائی تو وہی مقالہ ہمارے ایک صاحب کے صاحب کے صاحب کے صاحب کے نام نامی اور اسم گرامی کے دم چھلّے کے ساتھ بڑے نمایاں طور پر چھپا ہوا نظر آ گیا۔

    ہمارے حساب سے اب اگلا آدھ گھنٹے کا کام دو تین مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد دفتر میں مل سکتا تھا، جس پر لعنت بھیجتے ہوئے بجائے دفتر جانے کے ہم نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا، جس کو منظور ہونے میں اتنے دن لگے جتنے دن ہم نے دفتر میں کام بھی نہیں کیا تھا۔

    شاید آپ پوچھیں کہ ملازمت کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ تو میں عرض کروں گا کہ نوکری کھوئی اور دن میں اونگھنے، سونے اور ناول پڑھنے اور وقت گزاری کی عادت پائی۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف مزاح نگار اور صحافی احمد جمال پاشا کی کتاب ستم ایجاد سے ایک شگفتہ تحریر)

  • ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    وطن عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جان و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومتِ وقت اور برسرِ اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحتِ قلب اور روحتِ روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا، ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔

    مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔

    شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔“

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔ حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ایئر کنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی شدید سردی کی خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئس کریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ غالباً کیا یقیناً ایسے ہی کم نیم گرم، کنکنے کراچوی جاڑے سے اکتا کر نظیر اکبرآبادی نے تمنا کی تھی،

    ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
    اور تن میں نیمہ شبنم کا، ہو جس میں خس کا عطر لگا
    چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا، اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
    ہاتھوں میں پیالہ شربت کا، ہو آگے اک فراش کھڑا
    فراش بھی پنکھا جلتا ہوا، تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن کے ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔ کراچی کی سردی بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے۔ ہرایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔

    ادھر کوئٹہ میں جب دستانے، کمبل، مفلر اور سمور کے انبار میں سے صرف چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوجائے کہ ان کے جنوب میں مونچھ ہے یا پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے، تو کوئٹہ والے اس گھپلے کا ذمہ دار قندھاری ہوا کو ٹھیراتے ہیں اور جب قندھار میں سائبیریا کی زمہریری ہواؤں سے درختوں پر اناروں کی بجائے برف کے لڈو لٹکتے ہیں، گوالے گائے کے تھنوں سے آئس کریم دوہتے ہیں، اور سردی سے تھر تھر کانپتے ہوئے انسان کے دل میں خود کو واصل جہنم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تو اہالیانِ قندھار کمبل سے چمٹ کر ہمسایہ ملک کی طرف غضب ناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

    چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں ہوتے۔ ہوائیں اور طوفان بھی دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔

    (اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون "سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا” سے اقتباسات)

  • کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں؟ جانیے

    کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں؟ جانیے

    ’’روایت ہے کہ ایک بار تین چار انگریز ڈاکٹروں کے جی میں آیا کہ کسی دور افتادہ افریقی گاؤں چلتے ہیں، جا کر دیکھیں تو سہی کہ اہلِ قریہ بیماروں کا علاج کس طرح کرتے ہیں اور تیمار داری کا کیا انداز اپناتے ہیں۔

    وہاں پہنچے تو یہ جان کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ علاج معالجے کو صرف دو افراد کا آپس کا معاملہ کوئی نہیں سمجھتا۔ یہ نہیں کہ ایک طرف طبیب اور دوسری طرف مریض۔ اور باقی لوگوں کو اس مسئلے سے یا تو کوئی سروکار نہیں یا اگر ہے بھی تو برائے نام۔ اس کے برعکس پورے کا پورا قبیلہ گا بجا کر، ناچ کر، کہانیاں سنا کر، دعوتیں اڑا کر علاج میں حصّہ لیتا ہے۔ اپنے درمیان سے بیماری دور کرنے کا یہ طریقہ نہ صرف انوکھا تھا بلکہ بڑی حد تک اجتماعی عمل تھا۔ گویا اہلِ قبیلہ کو اس مشترکہ کارروائی سے یہ جتانا مقصود تھا کہ اگر ہم میں سے ایک شخص بیمار ہے تو ہم سب بیمار ہیں اور اگر ہم میں کوئی آدمی طبیب ہے تو ہم سب طبیب ہیں اور جب مریض ہی معالج ہے اور معالج مریض تو ہم سب مل جل کر اپنا علاج آپ کریں گے۔

    کیا مذکورہ بالا ماجرے کو قصہ گوئی کے فن یا فنونِ لطیفہ کی معالجانہ توظیف کی اتفاقی مثال سمجھا جائے؟ ایسی بات بالکل نہیں۔ برونو بیٹل ہائیم نے اپنی کتاب The Uses of Enchantment میں لکھا ہے کہ پری کہانیاں باطنی کیفیتوں، الجھنوں اور انتشار کو، ان کی کایا بدل کر، ظاہر کا لباس پہنا دیتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ داخلی کیفیات کہانی کے افراد اور واقعات کا روپ دھار کر سامنے آتی ہیں تو ان کی تفہیم ممکن ہو جاتی ہے۔

    بیٹل ہائیم کے بقول یہی وجہ ہے کہ روایتی ہندو طریقِ علاج میں نفسیاتی اختلال کے شکار آدمی کو نسخے کے طور پر کوئی ایسی پری کہانی تجویز کی جاتی تھی جس میں اس کی مخصوص الجھن کو افسانوی شکل دی گئی ہو، اس توقع پر کہ کہانی کو پڑھنے اور اس کے بارے میں سوچتے رہنے سے ذہنی اختلال میں مبتلا شخص کی الجھن واضح شکل اختیار کرنے لگے گی۔

    کہانی پڑھنے سے پہلے وہ یہ محسوس کرتا رہا تھا کہ کسی ایسی جگہ آ پھنسا ہے جہاں سے باہر جانے کا راستہ کوئی نہیں۔ لیکن کہانی سمجھ میں آتے ہی اسے پتا چلے گا کہ یہ احساس کیوں طاری ہوا تھا اور در پیش مشکل سے نمٹنے کے لیے عمل کی کیا کیا راہیں اس کے سامنے ہیں۔ بھول بھلیاں میں ٹکراتے پھرتے آدمی کے حق میں کہانی ایسی ستلی بن جاتی ہے جس کے سہارے چل کر وہ بھٹکتے رہنے کی اذیت سے آزاد ہو سکتا ہے۔

    اگر ہم دیکھنا چاہیں کہ کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں تو اس کی ایک عمدہ مثال الف لیلہ و لیلہ کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ کہانیوں کے اس سلسلے کا آغاز ہوتے ہی پتا چلتا ہے کہ بیوی کی بے محابا بدکاری کے باعث شہریار نامی بادشاہ صنفِ نازک سے متنفر ہو چکا ہے۔ جب اس پر انکشاف ہوا کہ بھائی کی بیوی بھی کچھ کم بد چلن نہیں تو اس کے تعقل کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں اور اسے ذہنی مریض بنتے دیر نہ لگی۔ ہر رات وہ کسی باکرہ لڑکی سے ہم بستر ہوتا اور صبح اٹھ کر اسے قتل کرا دیتا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطنت میں ایسی باکرہ لڑکی کوئی نہ بچی جو شاہی سیج کے لائق ہو۔ جب بحران نے اپنی انتہا کو چھو لیا تو وزیرِ مملکت کی بیٹی شہر زاد سامنے آئی۔ وہ اس بے مقصد خوں ریزی کو ختم کر کے بادشاہ کا ذہنی توازن بحال کرنے کا عزم کر چکی تھی۔

    اس کا طریقِ علاج جتنا سادہ تھا، اتنا ہی پُر لطف بھی۔ وہ ہر رات، مسلسل ایک ہزار اور ایک رات، یکے بعد دیگرے کہانیاں سناتی گئی۔ رات ختم ہونے پر کہانی ادھوری رہ جاتی اور بادشاہ کو اشتیاق ہوتا کہ باقی کہانی بھی سنے۔

    کہانیوں کے طلسم کا اسیر ہو کر وہ شہر زاد کی جان لینے سے باز رہتا۔ شہر زاد کی ترکیب کام کر گئی۔

    آخرش ہوش مندی کا بول بالا ہوا اور بادشاہ کے مزاج میں جو وحشت سما گئی تھی وہ جاتی رہی، لیکن خیال رہے کہ بادشاہ نے تقریباً تین برس تک کہانیوں کو بغور سنا۔ کہیں جا کر اس کی شکستہ و ریختہ شخصیت کی از سر نو شیرازہ بندی ممکن ہو سکی۔ گویا کہانیاں سنا کر آئی کو ٹالا جا سکتا ہے۔

    اس موضوع کو الف الیلہ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بغداد کے حمال اور تین لڑکیوں کی طویل افسانہ در افسانہ داستان میں حمال، تین کانے درویشوں، خلیفہ اور اس کے وزیر اور جلاد کی جان بخشی اس امر سے مشروط ہے کہ پہلے وہ اپنی اپنی سرگزشت سنائیں گے اور اگر ان کی آپ بیتیاں سچ مچ بہت ہوش ربا ثابت ہوئیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کانے درویشوں کی کہانیاں اتنی حیرت انگیز تھیں کہ ان سب کی جان بچ گئی۔‘‘

    (ممتاز ادیب، شاعر، مترجم اور مضمون نگار سلیم الرّحمٰن کی تحریر سے اقتباسات)

  • بِچھڑا اور پَچھڑا ہوا طبقہ!

    بِچھڑا اور پَچھڑا ہوا طبقہ!

    ’’کسی ملک کی معیشت کے استحکام، پھیلاؤ اور توانائی کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کے امیر کتنے امیر ہیں، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ غریب کتنے غریب ہیں۔

    کسی معاشرے کے مہذب اور فلاح یافتہ ہونے کو پرکھنے کی محک اور کسوٹی یہ ہے کہ وہ اپنے کم زور، پیچھے رہ جانے والے، دکھی اور خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتا ہے۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تک ہماری قوم کا یہ بچھڑا اور پچھڑا ہوا طبقہ آگے نہیں بڑھتا، ہمارا معاشرہ آنکھوں پر بے حسی کے کھوپے چڑھائے خود ساختہ اندھیرے میں بھٹکتا اور دوسروں کو بھٹکاتا پھرے گا۔

    ایک افریقی مثل ہے کہ جنگل میں ہاتھیوں کے جھنڈ کی رفتار کا تعین سب سے تیز دوڑنے والا ہاتھی نہیں کرتا، بلکہ سب سے سست قدم اور لدھڑ ہاتھی کرتا ہے!‘‘

    (اردو عظیم مزاح نگار اور ادیب مشتاق احمد یوسفی کی فکر سے ایک پارہ)