Tag: ادب کی خبریں

  • ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    لاہور: اردو کے ممتاز فکشن نگار، ڈراما نویس، مصور اور دانش ور ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ آج لاہور میں ادا کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف ادیب انور سجاد گزشتہ روز جمعرات کو لاہور میں 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے، انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنی رہایش گاہ میں لیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کی نمازِ جنازہ میں اہل خانہ اور معروف شخصیات سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

    انور سجاد طویل عرصے سے علیل تھے، پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے تاہم لوگوں میں ان کی شہرت ان کے لکھے گئے ڈراموں، اداکاری اور فکشن نگاری کی وجہ سے تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  “خوشیوں کا باغ” کا مصنف ایک یاد ہوا، ممتاز فکشن نگار انور سجاد انتقال کر گئے

    دریں اثنا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اردو ادب کا اثاثہ تھے، ادب و فن کے لیے ان کی گراں قدر خدمات بھلائی نہیں جا سکتیں۔

    خیال رہے کہ ڈاکٹر انور سجاد 1935 میں لاہور میں پیدا ہوئے، ان کے سوگواران میں ایک بیوہ اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

  • ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    سویڈن: ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی جسے سویڈش اکیڈمی کہا جاتا ہے، نے ادب کے ایک پروفیسر کو اپنا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی نوبیل کمیٹی نے جنسی ہراسگی اسکینڈل کے بعد ادب کا نوبیل انعام معطل کر دیا تھا، جس کے بعد آخر کار کمیٹی نے نیا سربراہ کا انتخاب کر لیا ہے۔

    گوٹن برگ یونی ورسٹی میں ادبی نظریات کے پروفیسر ماٹس مالم کو نوبیل انعام برائے ادب کے حقدار کا انتخاب کرنے والی سویڈش اکیڈمی کے سربراہ بنا دیا گیا ہے۔

    54 سالہ پروفیسر مالم نے اپنی نام‍زدگی پر مسرت کا اظہار کیا، انھیں چار ماہ قبل سویڈش اکیڈمی میں شامل کیا گیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  جنسی ہراسگی‘ ادب کا نوبل انعام رواں برس نہیں دیا جائے گا

    اکیڈمی نے کہا ہے کہ اس سال 2019 کے ادب کے نوبیل انعام کے علاوہ 2018 کے لیے اس انعام کے حقدار کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ 2017 میں اس کمیٹی کو در پیش ایک بڑے جنسی اسکینڈل کے بعد سے ہر سال ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کا سلسلہ ابھی تک معطل ہے۔

    ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کی خاتون ممبر کے شوہر اور کمیٹی سے وابستہ فوٹو گرافر جین ارنالٹ پر پہلی خاتون سیکریٹری سارا ڈینئس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام تھا۔

    سارا ڈینئس کے استعفے کے بعد کمیٹی کی 6 مزید خواتین بھی مستعفی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے کمیٹی کی 18 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں خالی ہو گئی تھیں۔

  • اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    اردو ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر سلیم اختر انتقال کر گئے

    لاہور: اردو ادب کی ممتاز شخصیت، استاد، افسانہ نگار، نقاد اور 100 سے زائد کتب کے مصنف ڈاکٹر سلیم اختر لاہور میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے نامور نقاد، افسانہ نگار، ماہرِ لسانیات، ماہرِ اقبالیات، ادبی مؤرخ، معلم اور محقق ڈاکٹر سلیم اختر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    [bs-quote quote=”سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ڈاکٹر سلیم اختر کی نمازِ جنازہ بہ روز پیر 10 بجے صبح نرسری گراؤنڈ، جہاں زیب بلاک اقبال ٹاؤن میں ادا کی جائے گی-

    سلیم اختر اپنی کتاب اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، انھیں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 2008 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکاردگی سے نوازا گیا۔

    ڈاکٹر سلیم اختر 11 مارچ 1934 کو لاہور میں پیدا ہوئے، جامعہ پنجاب سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم ہی سے بہ طور اردو لیکچرار وابستہ ہوگئے اور مختلف ادبی رسالوں کے ساتھ بھی منسلک رہے۔

    ڈاکٹر سلیم اختر کی کتاب ’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ اردو ادب میں اب تک لکھی گئی تاریخ میں اہم ترین حوالے کے طور پر یاد کی جاتی ہے، انھوں نے ’اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ‘ بھی مرتب کی۔


    یہ بھی پڑھیں:  شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے


    سلیم اختر نے فکرِ اقبال کے نفسیاتی پہلوؤں کو بھی آشکار کیا، اور شرح ارمغان حجاز لکھی، اقبالیات پر انھوں نے 9 اہم ترین کتابیں تصنیف کیں۔

    ڈاکٹر سلیم اختر اپنے افسانوں کے سبب بھی الگ پہچان رکھتے ہیں، ان کے افسانوی مجموعوں میں آدھی رات کی مخلوق، مٹھی بھر سانپ، کڑوے بادام، کاٹھ کی عورتیں، چالیس منٹ کی عورت، ضبط کی دیوار شامل ہیں، افسانوں کی کلیات بھی نرگس اور کیکٹس کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

    ان کی دیگر کتب میں اک جہاں سب سے الگ (سفرنامہ)، نشان جگر سوختہ (آپ بیتی)، انشائیہ کی بنیاد، ادب اور کلچر، ادب اور لاشعور، شادی جنس اور جذبات وغیرہ شامل ہیں۔

  • معروف مصنف اشفاق احمد کو گزرے 14 برس بیت گئے

    معروف مصنف اشفاق احمد کو گزرے 14 برس بیت گئے

    لاہور: آج اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانشور، براڈ کاسٹر اور صوفی جناب اشفاق احمد 14ویں برسی ہے، آپ 7 ستمبر 2004کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

    معروف مصنف اشفاق احمد22 اگست 1925ءکومکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔

    وہ انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا ًبعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے، انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔

    آپ داستان گو اور لیل و نہار نامی رسالوں کے مدیر بھی رہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے،اجلے پھول، سفر مینا، پھلکاری اور سبحان افسانے کے نام سے شائع ہوئے۔

    ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور 41 سال تک چلتا رہا۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے۔ صوفی مزاج کے حامل اشفاق احمد 7ستمبر 2004ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اشفاق احمد کی تحاریر سے اقتباسات


    ایک سوال

    اشفاق احمد لکھتے ہیں ایک سوال نے مجھے بہت پریشان کیا

    سوال تھا:مومن اور مسلم میں کیا فرق ہے؟
    بہت سے لوگوں سے پوچھا مگرکسی کے جواب سے تسلی نہ ہوئی
    ایک دفعہ گاؤں سے گزر رہا تھا،دیکھا ک ایک بابا گنے کاٹ رہا ہے
    نہ جانے کیوں دل میں خیال آیاکہ اِن سے یہ سوال پوچھ لوں۔
    میں نے بابا کو سلام کیااور اجازت لے کر سوال پوچھ لیا۔
    بابا جی تھوڑی دیر میری طرف دیکھتےرہے اور جواب دیا۔۔
    مسلمان وہ ہے جو اللہ کو مانتا ہے۔
    مومن وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے۔

    عشق

    مجھے بہت جستجو تھی کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی میں فرق جان سکوں،ایک دن ابا جی نے بتایاکہ۔۔۔۔
    اشفاق،اپنی انا کو کسی ایک شخص کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے، اور اپنی انا کو سب کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔

    عورت

    آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی بات کریں، کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں اگر اِس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اِس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔
    اِس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اِس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہےاور وہ اِسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔
    اس لیے وہ کسی عقل و دانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی۔
    اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے۔

    محبت

    میرا پہلا بچہ میری گود میں تھا۔
    میں ایک باغ میں بیٹھا تھا۔
    اور مالی کام کر رہے تھے۔
    ایک مالی میرے پاس آیا اور کہنے لگا” ماشا اللہ بہت پیارا بچہ ہے۔اللہ اِس کی عمر دراز کرے”۔
    میں نے اُس سے پوچھا ،” تمھارے کتنے بچے ہیں؟” ۔
    وہ کہنے لگا،” میرے آٹھ بچے ہیں”۔
    جب اُس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا ،تو میں نے کہا کہ ” اللہ اُن کو سلامت رکھے ۔لیکن میں اپنی محبت کو آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں”۔
    یہ سُن کر مالی مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا۔
    صاحب جی! ” محبت تقسیم نہیں کیا کرتے ۔۔۔۔۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں “۔

    خوشی

    خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو دو چار آنے دے دئیے۔
    خوشی تب ملتی ہے جب آپ اپنے خوشیوں کے وقت سے وقت نکال کر انہیں دیتے ہیں جو دُکھی ہوتے ہیں،کوئی چیز آپ کو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو خوشی آپ کو روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے ۔

  • افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    گھروں میں کُتب بینی کو رواج دینا اور مطالعے کا ماحول بنانا کتنا اہم، ضروری اور خواب ناک ہے، اس کا اندازہ ڈاکٹر افشاں ملک کی مختصر کتھا پڑھنے سے ہوتا ہے۔کس طرح ایک گھر کے جیتے جاگتے انسان اپنے پرکھوں سے مِل آتے ہیں، اپنی ثقافت کی خوش بو گھر کی مٹی میں سونگھ لیتے ہیں اور کئی زمانے آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔

    افشاں ملک کا تعلق علی گڑھ سے ہے، گھرانے میں کئی پُشتوں میں کوئی ادیب، شاعر نہیں گزرا، لیکن دادا، پَر دادا کا ذوقِ مطالعہ عروج پر رہا۔ افشاں کے گھرانے کی زندگی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ایک وراثت ہے جو بہترین ہے، افضل ہے، جسے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا جانا چاہیے، یہ وراثت کتابیں اور مطالعہ ہے۔

    ڈاکٹر صاحبہ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی اور ایک دن چھپکے سے افسانوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ وہ بیس سال سے انسان اور اس کے فلاحی رشتوں کو مدِ نظر رکھ کر افسانے لکھ رہی ہیں۔ لیکن کیا ’انسان‘ کہہ کر بات ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، یہ ’انسان‘ تو خود بے پناہ خانوں میں منقسم ہے، طرح طرح کے تعصبات میں جکڑا ہوا ہے۔


    افشاں ملک کا افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘ پڑھیں


    [bs-quote quote=”افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/08/afshan-Malik-2.jpg”][/bs-quote]

    اردو افسانہ اس وقت بھارت اور پاکستان میں بہت مقبول صنف بن چکی ہے۔ بے شمار نئے اور جوان خون کے حامل افسانہ نویس سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ کیا وہ ’انسان‘ کے گوناں گوں تعصبات کو درست طور پر سمجھ کر، اسے اس کے نظریات سمیت افسانوں کی زینت بنا رہے ہیں یا مصنف خود اپنے تعصبات اور نظریات کے پرچار کے لیے کردار تخلیق کر رہے ہیں۔

    افشاں کا خیال ہے کہ موجودہ عہد کا انسان روزی روٹی کی فکر سے زیادہ فرقہ پرستی، دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا اسیر ہے۔ خاتون افسانہ نویس کہتی ہیں کہ وہ اس انسان کو اس تشویش ناک صورتِ حال سے باہر نکالنے کے لیے افسانے لکھتی ہیں۔

    نعیم بیگ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بینکار اور اردو انگریزی ناول نگار ہیں۔ مقامی اور خطے کی سیاست اور جنگی صورتِ حال پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی ثقافتی یلغار، ہندوستان کی تقسیم، عالمی جنگوں کے اثرات اور انگریز کے چھوڑے ہوئے جاگیر داری نظام نے ہماری ثقافت کے خال و خد کو داغ دار اور دھندلا کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں افشاں ملک اپنے افسانوں کے ذریعے اپنی مٹی کی خوش بو محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    [bs-quote quote=”مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ’اضطراب‘ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو افشاں ملک کے قلم سے ترتیب پایا ہے۔ اس مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں۔ آپ اکثر ڈائجسٹوں میں کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں، یہ کہانیاں ایک ہی موضوع ’محبت‘ کے گرد گھومتی ہیں، محبت بھی مرد اور عورت والی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں قاری کو زندگی کے کسی گہرے اور سنجیدہ تجربے سے روشناس نہیں کراتیں۔


    انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول


    افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مرد عورت، میاں بیوی، مرد مرد، اور عورت عورت کے تعلقات کی مختلف پرتوں کے ساتھ ساتھ سماجی سیاسی شعور بھی مل جاتا ہے۔ ان کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک عورت ہوتے ہوئے افسانے میں عورت کے کردار کو پیش کرتے ہوئے تانیثی (عورت سے متعلق) تعصبات کا شکار نہیں ہوتیں۔

    اضطراب کے افسانے پڑھتے ہوئے آپ کو لطف بھی آئے گا اور دماغ کے کینوس پر کچھ سنجیدہ نقوش بھی مرتب ہوں گے۔ ان افسانوں میں چند کے نام یہ ہیں: گورِ غریباں، افتادہ اراضی، گود لی ہوئی ماں، پینٹنگ، اور آسیب زدہ۔