Tag: ادیب

  • نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کا یومِ‌ وفات ہے۔ اس نادرِ‌ روزگار شخصیت نے یکم جولائی 1941ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ وہ برصغیر پاک و ہند کے نام وَر محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے شان دار علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت ہی نہیں بلکہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا اور لکھا جاتا ہے جب کہ نجمی ان کا تخلّص تھا۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

    تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علمی و ادبی کتب کے علاوہ انھوں نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اہمیت دی اور اس حوالے سے اپنی معلومات، تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل میں یکجا کرنا ضروری سمجھا جس سے بعد میں اس پیشے کو اپنانے والوں نے استفادہ کیا۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    ان کی دیگر علمی و تاریخی کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔

  • منٹو کی سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    منٹو کی سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام

    اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 108 ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل نے اپنا ڈوڈل ان کے نام کردیا۔

    گوگل آج اپنے ڈوڈل کے ذریعے منٹو کو خراج عقیدت پیش کررہا ہے، آج منٹو کا 108 واں یوم پیدائش ہے۔ مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیم زر کی لا قانونیت اور تقسیم ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور متنازعہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جس پر کئی بار انہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں، اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اسی پردہ پوش معاشرے کی عکاس ہیں۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    منٹو نے اپنی زندگی کا آخری دور انتہائی افسوسناک حالت میں گزارا، 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح ہند و پاک کے تمام اہل ادب نے یہ خبر سنی کہ اردو ادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

  • قوّت

    قوّت

    مصنف: سجاد حیدر یلدرم

    گلی کے کنارے اس مجمع کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ مزدوروں کے، قلیوں کے، لڑکوں کے غول کے غول دوپہر کو وہاں کھیلتے ہوتے تھے، آپس میں الجھتے تھے، چیختے تھے، چلاتے تھے۔

    ایک دن میں اس راستے سے گزر رہا تھا۔ لڑکوں کا مجمع تو تھا مگر کھیل نہ تھا بلکہ لڑکے حلقہ باندھے کسی چیز کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مزے دار تماشا انہیں بہت لطف دے رہا تھا۔

    سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے دیکھا کہ جسے وہ اس ذوق و شوق سے دیکھ رہے تھے، وہ ایسا تماشا تھا جو غالباً ان کی تفریحِ طبع کے لیے روز ہوتا ہو گا۔

    ایک لڑکا جو سن میں سب سے زیادہ معلوم ہوتا تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قریب قریب جوان ہو چکا تھا، متکبرانہ بیچ میں کھڑا تھا اور ایک چھوٹا لڑکا اس سے دست و گریبان ہو رہا تھا۔ بڑا لڑکا اس کو ہٹا رہا تھا اور غلیظ گالیاں دے دے کر اپنے سے علیحدہ کر رہا تھا۔

    چھوٹا لڑکا گھونسے کھا رہا ہے، بڑے لڑکے کے ہر جھٹکے پر زمین پر گر پڑتا ہے، ہر گھونسے اور ہر تھپڑ پر ہائے کی آواز اس کی جگر گاہ سے نکلتی ہے، مگر گر کے اٹھتا ہے، روتا جاتا ہے، رونے سے اور زمین پر گرنے سے اس کے بال، اس کا چہرہ خاک آلود ہو رہے ہیں، لیکن وہ پھر بڑے لڑکے سے غصے میں چمٹ جاتا ہے۔ ہچکیاں بندھ رہی ہیں، مگر کہے جاتا ہے۔

    میری ہے۔۔۔۔ لاؤ۔ یہ کہہ کر ایک قمچی کو بڑے لڑکے سے چھیننا چاہتا ہے۔

    ہر طلبِ حق کے مقابلے میں اسے ایک گھونسا، ایک لات ملتی ہے جسے کھا کر وہ لڑکھڑا کے پیچھے ہٹتا ہے، مگر پھر آگے آتا ہے۔ رونے اور چیخنے کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئی ہے۔ اس کا عجز و ضعف بڑھتا جا رہا ہے، لیکن اپنی قمچی اس سے واپس لینے کی کوشش کیے جا رہا ہے۔

    آخر کار اس پر ایسا لپّڑ پڑا جس سے وہ بھنّا گیا اور چکر کھا کر زمین پر گر پڑا۔ اب اس میں اٹھنے کی قوت بھی نہ رہی تھی، کم زوری سے زمین پر پڑا رو رہا تھا اور بڑے لڑکے کو گالیاں دے رہا تھا۔ اور وہ جبرو قہر سے حاصل کی ہوئی قمچی کو متفخرانہ انداز سے ہلا ہلا کے اس چھوٹی سی مخلوق کی جو حلقہ باندھے کھڑی تھی (اور جو قوت کے مقابلے میں عاجز کو ہیچ جانتی تھی) قہقہوں، تالیوں میں جھومتا ہوا چلا گیا۔

    عین اس وقت اس منظر کے اوپر سے ایک کوّا جس نے ایک آشیانِ شفقت میں گھس کر ابھی ابھی انڈوں کو پھوڑا تھا، اور انہیں کھا کر شکم سیر ہوا تھا، مصنوعی فرار کے انداز سے گزر رہا تھا، اور فیضِ مادرانہ میں بھری ہوئی ایک مینا، سادہ لوحی سے ٹھونگیں مارنے کی کوشش کر کے قوّت اور حیلے کو اپنے زعم میں مجروح کر رہی تھی۔

  • ایک خط سے جھلکتی فراق گورکھ پوری کی انکساری اور عاجزی

    ایک خط سے جھلکتی فراق گورکھ پوری کی انکساری اور عاجزی

    اردو ادب میں‌ مرزا غالب کے خطوط تو بہت مشہور ہیں، مگر ہندوستان کے دیگر مشہور و معروف تخلیق کاروں‌ کے خطوط بھی اپنے متن اور اسلوب کی وجہ سے نہایت اہم اور علمی و ادبی سرمایہ ہیں۔

    ہم یہاں‌ معروف ادیب، خاکہ نگار اور ’نقوش‘ کے مدیر محمد طفیل کے نام مشہور شاعر اور نقاد فراق گورکھ پوری کا ایک خط پیش کر رہے ہیں۔

    اس خط میں‌ جہاں‌ آپ ایک ہم عصر سے دوستانہ تعلق، شائستہ اور پُرلطف طرزِ تخاطب کا رنگ دیکھیں‌ گے، وہیں فراق کی انکساری اور عاجزی بھی قابلِ توجہ ہے۔

    محمد طفیل،
    4/8 بینک روڈ، الٰہ آباد
    12جون 1954

    برادرم تسلیم

    آپ نے یہ خط بڑے دنوں کے بعد لکھا اور عذر یہ کیا کہ مصروف رہا۔ مصروف کون نہیں ہوتا، مصروف تو وہ بھی ہوتا ہے جسے دنیا کا کوئی کام نہیں ہوتا۔

    میں نے جو آپ کے خطوں کے جواب میں اتنے اتنے لمبے خط لکھے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں بالکل ہی بیکار تھا۔

    پہلے تو آپ کا خیال یہ تھا کہ میرے جوابات کی روشنی میں مجھ پر لکھیں گے۔ اب آپ کا یہ کہنا ہے کہ اگر اجازت ہو تو ان خطوط کو ہوبہو چھاپ دوں۔ میری طرف سے تو ان کی اشاعت کی اجازت ہے، اس دریافت کا بھی شکریہ کہ ان خطوں میں تاریخی مواد ہے اور انھیں حرف بہ حرف چھپنا چاہیے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دو ایک بار آپ نے لکھا تھا کہ میں نے بعض جگہوں پر بڑی رواداری میں لکھا ہے، بس ان با توں کا خیال رکھ لیجیے، لیکن یہ مت کیجیے گا کہ آپ مجھے انسان بھی نہ بننے دیں۔ میری کم زوریوں کا بھی اظہار ہونا ہی چاہیے۔

    اگر مجھے پہلے علم ہوتا کہ آپ میرے ہی خط چھاپیں گے، تو میں صرف اپنی کم زوریاں ہی کم زوریاں بیان کرتا۔ اس لیے کہ لوگ صرف اپنی خوبیاں ہی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ اگر آپ انڈیا آ رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو گی، لیکن الٰہ آباد کا نام انڈیا نہیں ہے، اور یہ آپ نے لکھا نہیں کہ الٰہ آباد بھی آؤں گا۔ مجھے اپنے پروگرام سے مطلع کیجیے گا۔

    آپ کا
    فراق

  • بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    آج اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش ہے۔ اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ 3 سال قبل خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔

    بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جبکہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہرلا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    بانو قدسیہ نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ایک مختلف بانو

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائنگ روم میں چلی گئیں‘۔

    ’پھر ڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی‘۔

    ’میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘۔

    بانو قدسیہ سنہ 2017 میں 4 فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں جس کے بعد اردو ادب کا ایک تابندہ باب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کی آج 35 ویں برسی منائی جارہی ہے، ان کی نظمیں آج بھی پسے ہوئے لیکن باغی و خود سر طبقے کی آواز ہیں۔

    13 فروری سنہ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فیض نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے جبکہ اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے۔ سنہ 1930 میں انہوں نے لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض اور ان کی اہلیہ میں ذہنی ہم آہنگی، محبت اور دوستی کا بے حد مضبوط رشتہ تھا۔ حمید اختر نے لکھا ہے کہ ایک بار ہم نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے میاں کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار تو ضرور ہوتی ہوں گی؟‘

    مگر ایلس کا کہنا تھا، ’حمید! شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا؟‘

    سنہ 1942 میں فیض فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    وہ مختلف رسالوں اور روزناموں کے مدیر بھی رہے جن میں ادب لطیف، روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شامل ہیں۔

    انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سر وادی سینا، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    9 مارچ سنہ 1951 میں فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ قید میں لكھی گئیں۔

    فیض احمد فیض واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    ان کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ ملکہ ترنم نور جہاں نے اس قدر چاہت، رچاؤ اور لگن کے ساتھ سروں میں ڈوب کر گائی تھی کہ فیض کہا کرتے تھے، یہ نظم اب میری کہاں رہی ہے یہ تو نور جہاں کی ہوگئی ہے۔

    خوبصورت لب و لہجے کی شاعری سے لاکھوں دلوں کو اسیر کرنے والے فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں ہے۔

  • اردو مستقبل کی زبان ہے، مگر افسوس، یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی: محمد حمید شاہد

    اردو مستقبل کی زبان ہے، مگر افسوس، یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی: محمد حمید شاہد

    گو ادب کو فی زمانہ گھاٹے کا سودا اور کتاب کو بے وقعت گردانا جاتا ہے، البتہ بے قیمتی اور گرانی کے اس زمانے میں‌ بھی میدان ادب میں چند ایسی دل پذیر شخصیات سرگرم ہیں، جو ممتاز فرانسیسی ادیب والٹیر کے کردار "کاندید” کی طرح بلاچون و چرا کام میں‌ مصروف رہتی ہیں کہ ان کے نزدیک حالات کو قابل برداشت بنانے کا یہی اکلوتا طریقہ ہے.

    ایسا ہی ایک نام محمد حمید شاہد کا ہے. ان کا شمار پاکستان کے نمایاں فکشن نگار اور ناقدین میں‌ ہوتا ہے. 23 مارچ 1957 کو پنڈی میں‌ پیدا ہونے والے اس تخلیق کار نے بینکاری کا شعبہ اپنایا۔ ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں، جنھیں ناقدین اور قارئین نے یکساں سراہا. 23 مارچ 2017 کو انھیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا.

    محمد حمید شاہد کے نزدیک ادب ہمیشہ احساس کی سطح سے معاملہ کرتا ہے، فکریا ت سے کم کم، بلکہ صرف وہاں، جہاں مجموعی طور پر انسانیت کے حق میں اُسے برتا جاسکتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ ادب ہمیشہ طاقت ور کا ہتھیار بننے سے مجتنب رہا ہے۔ یہ بہ جا کہ کہانی ہو یا شعر وہ فرد کے جذبات کی تہذیب اور تشکیل میں یقینی کام کرتا ہے ۔ ادب اگرمختلف علاقوں، لسانی و نسلی گروہوں اور مختلف نظریات اور مذاہب سے متعلق لوگوں میں یکساں طور پر قابل قبول ہو جاتا ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دعوے کی زمین سے بنیادیں نہیں اٹھاتا، احساس کی سطح سے معاملہ کرتا ہے.

    البتہ قوت کے مراکز نے ادب اور ادیب کو سماج کے حاشیے پردھکیل دیا ہے۔ ادیب اس صورت حال سے مطمئن کیوں کر ہو سکتا ہے، وہ اس صورت حال سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کا نمائندہ نہیں، اس اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہے۔ ایسے میں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے والی قوتیں، ادیب کی اس رائے کو کیسے اہمیت دے سکتی ہیں جو اسٹیٹس کو پر ضرب لگانے والی ہے۔

    اس باصلاحیت قلم کار سے ہونے والا مکالمہ پیش خدمت ہے:


    سوال: کیا ادب پڑھنے والے کم ہوئے ہیں؟ کتاب کلچر متاثر ہوا ہے؟ موجودہ حالات میں ادب کیا گھاٹے کا سودا ہے؟

    محمد حمید شاہد: ادب پڑھنے والے ہر دور میں کم رہے ہیں، اس دور میں بھی کم ہیں۔ ادب اور شاعری کی کتاب کبھی فرنٹ شیلف پر نہیں رہی، تاہم تناسب کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ محض ایک تاثر ہے کہ ادب پڑھنے والے، پہلے کے مقابلے میں کم ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب کو پیچھے دھکیل کر ای کتاب نے بھی اپنی جگہ بنالی ہے، مگر پھر بھی سروے کرکے دیکھ لیں، کتاب چھاپنے کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ پہلے کے مقابلے تعداد میں زیادہ چھپ رہی ہے۔

    یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ شہروں میں قدیم بک اسٹورز بند ہوئے ہیں، مگر اس کاروبار میں نئے لوگ بھی آئے ہیں اور کتاب کی پسپائی کے تاثر کو زائل کیا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے ہاں سماجی پر سطح اس سے بڑی تبدیلی آگئی ہے، جو تبدیلی پہیے کی ایجاد سے آئی تھی، جس نے تبدیلی کے منظر نامے کو لائق توجہ بنائے رکھا ہے۔

    وہ نسل جسے جنریشن ایکس کہا جاتا ہے، اس نے دنیا کی سب سے بڑی اور بہت تیز رفتار تبدیلی کو بہ چشم سر دیکھا ہے۔ہماری آنکھوں کے سامنے ٹیلی وژن آیا اور اس کی صورت بدل گئی، بلیک اینڈ وہایٹ ٹی غائب ہو گیا۔ وی سی آر آیا اور غائب ہوا۔ ٹیپ ریکارڈر اور آڈیو کیسٹ کا چلن ہوا اور انجام کو پہنچا۔

    [bs-quote quote=”قوت کے مراکز نے ادب اور ادیب کو سماج کے حاشیے پردھکیل دیا ہے۔ ادیب اس صورت حال سے مطمئن کیوں کر ہو سکتا ہے، وہ اس صورت حال سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کا نمائندہ نہیں، اس اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہے۔ ” style=”style-2″ align=”left” author_name=”محمد حمید شاہد” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/05/60×60.jpg”][/bs-quote]

    ڈائل گھمانے والے ٹیلی فون سے سیل فون تک کا سفر، ڈرون ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ایچ ڈی امیجز، فاصلے سمٹ گئے، آواز کے ساتھ تصویر سفر کرنے لگی، اخبارات اور جرائد انٹرنیٹ پر منتقل ہونا شروع ہو گئے، ای بینکنگ، ای آفس غرض اس ایکس جزیشن نے وہ کچھ بنتے اور مٹتے دیکھا ہے، جو نسل انسانی کی پوری تاریخ میں کسی نے نہ دیکھا تھا۔

    یہ سب کچھ سرمائے کی بڑھوتری کا سبب بھی بنا تو سامراج کیسے چپکے سے بیٹھ سکتا تھا، اس کے ہاں بھی نئے نئے حیلے آئے، پہلے جہاد پھر دہشت، یہ جنگ کے روپ تھے. اسلحے کے ڈھیر لگ گئے تھے، اس کے استعمال کے مواقع بنائے گئے ۔ پہلے یہ اکنامکس کا اصول ہوا کرتا تھا کہ طلب کے مطابق رسد ہو گئی، مگر اب یہ اصول بدل گیا۔ مصنوعی طلب پیدا کرنے کے طریقے ایجاد ہوئے۔اشیاء کی عمریں گھٹ گئیں۔ ڈسپوز ایبل کلچر وجود میں آگیا، وغیرہ وغیرہ۔

    اس سب کے مقابلے میں ادب تھا اور ادب ہے، اپنی دھج سے چلتا ہوا اور اپنے تخلیقی وقار سے آگے بڑھتا ہوا، کہہ لیجئے یہ گھاٹے کا سودا ہے مگر اس کا وقار اور اس کا سواد، اسی میں ہے۔

    سوال: آج کے نوجوانوں کو کن شعرا اور ادیبوں کو پڑھنا چاہیے؟

    محمد حمید شاہد: نوجوانوں کے پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔ ہمارے ہاں شعر و ادب کی ایک پوری روایت موجود ہے۔ اتنا کچھ پڑھنے کو ہے کہ وہ اپنے اپنے مزاج کے مطابق اس میں سے انتخاب کر سکتے ہیں۔ میر و غالب سے لے کر اقبال تک اور راشد میرا جی، مجید امجد فیض و فراز سے لے کر آج کے شاعروں تک پھر فکشن کی ایک دنیا ہے پریم چند سے شروع ہو جائیں، بیدی، منٹو۔ عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، غلام عباس، اشفاق احمد، انتظارحسین، منشایاد، اسد محمد خان سے آج کے فکشن لکھنے والوں تک، کہیں کسی کمی کا یا تشنگی کا احساس نہیں ہوگا۔

    ادب ہی سے آج کے نوجوان کی مزاج سازی ممکن ہوگی۔ ہماری یونیورسٹیوں میں سوشل سائنسز کے ڈسپلنز کچھ عرصے سے نظرانداز ہو رہے ہیں، ادھر توجہ دینا ہوگی۔ اردو زبان و ادب کی طرف یونیورسٹیوں کو آنا ہوگا اور یہیں سے ہم جان سکیں گے کہ ہمارے نوجوان کو کیا پڑھنا چاہیے اور کس طرح پڑھنا چاہیے۔

    سوال: اردو کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں، کیا رسم الخط کو خطرات لاحق ہیں؟

    محمد حمید شاہد: میں اردو زبان کے مستقبل کے حوالے سے بہت پرُامید ہوں۔ اچھا اس امید کے معاملے میں میں اکیلا نہیں ہوں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان بھی بن چکی ہے۔ میں نے کاتبوں کو لیتھو پرنٹنگ کے لیے پیلے کاغذ پر کتابت کرتے دیکھا، پھر وہ بٹر پیپر پر لکھتے نظر آئے، کمپیوٹر آیا تو ان پیج کا چرچا ہوا، اب یونی کوڈ میں اردو لکھی جا رہی ہے تو ظاہر ہے اس باب میں خوب خوب سرمایہ کاری ہوئی ہے، تب ہی تو یہ منازل طے ہوئی ہیں۔

    یاد رہے، سرمایہ دار کسی ایسے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا جہاں اس کے سرمائے کے ڈوبنے کا اندیشہ ہو۔ سو یوں ہے کہ اردو اپنے رسم الخط کے ساتھ آپ کے کمپیوٹر سے لے کر آپ کے سیل فون تک فراہم کر دی گئی ہے کہ یہ زبان مستقبل کی زبان ہے اور اس پر لگایا جانے والا سرمایہ بھی محفوظ ہے۔

    بس اگر خرابی ہے تو یہ ہے کہ یہ خبر ہماری حکومتوں تک نہیں پہنچی۔ اس باب میں حکمرانوں کی چال، جو پہلے بے ڈھنگی تھی، اب بھی بے ڈھنگی ہے۔ اسے اگر دفتری زبان بنالیا جاتا ہے، تو اس باب کے وہ خدشات بھی دور ہو جاتے ہیں، جن کا ذکر بالعموم ہوتا ہے، مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ اس ملک کی اعلی ترین عدالتیں اس باب میں فیصلہ سنا کر خود اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کی بجائے انگریزی میں فیصلے لکھنا مناسب سمجھتی ہیں۔

    خیر ایسا کب تک ہوگا؟ یہ روش انہیں بدلنا ہی ہو گی۔ اب رہا مسئلہ رسم الحظ کا تو صاحب اسے کیوں بدلیں؟ رسم الحظ بدلنے کا مطالبہ کرنے والوں کو جاننا چاہیے کہ اس حرکت سے اردو کا حلقہ وسیع ہو گا نہ اسے لکھنا سہل ہو جائے گا۔

    میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے سے زبان سمجھنے والے سکٹر سمٹ جائیں گے، زبان کا معیار متاثر ہوگا اور بگڑی ہوئی زبان سے بھلا کون چمٹے رہنا پسند کرے گا؟ رسم الحظ کی تبدیلی زبان کے تحریری حسن اور تلفظ کو برباد کر کے رکھ دے گا۔ اس باب کی اگر کچھ مشکلات ہیں تو اس جانب توجہ دی جانی چاہیے ۔ انٹر نیٹ کی زبان بننے کے بعد بہت سے مسائل حل ہوگئے ہیں۔

    انٹرنیٹ پر ہی ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے پر کام ہو رہا ہے، یوں اس رسم الخط میں لکھنے اور اسے سمجھنے کے باب میں مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صورتیں نکل رہی ہیں، اس جانب اداروں کو کام کرنا چاہیے۔ یونیورسٹیوں اور علمی، ادبی اداروں کوعلمی ادبی کتب کا سرمایہ اردو یونی کوڈ میں انٹر نیٹ پر فراہم کرنا چاہیے۔ رسم الخط بدلنے کی بابت سوچنے کی بہ جائے ہمارے کرنے کا یہی کام ہے، اسی سے ہماری زبان، اسے بولنے والے اور اس سے محبت کرنے والے ترقی کریں گے۔

    سوال: کیا ادیب کا کام فقط ادب تخلیق کرنا ہے یا ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر اسے اپنی ذمے داری کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا؟

    محمد حمید شاہد: جب جب مجھ سے یہ سوال کیا گیا، مجھے فیض احمد فیض کاوہ جملہ یاد آیا جو انہوں نے "شاعر کی قدر” مشمولہ "میزان” میں لکھا تھا۔ یہی کہ "آرٹ کی قطعی اور واحد قدر محض جمالیاتی قدر ہے”. فیض صاحب نے یہ بھی لکھا تھا کہ "شاعر خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو اور اس کی قدریں کچھ ہی کیوں نہ ہوں، اگر اس کا کلام جمالیاتی نقطہ نظر سے کامیاب ہے، تو ہمیں اس پر حرف گیری کا حق حاصل نہیں۔”

    اب میں آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں، "ذمے داری کا دائرہ وسیع کرنے” کے مطالبے کو پڑھتا ہوں، تو مجھے یوں لگتا ہے، جیسے یہ تاثر بن گیا ہے کہ ادیب سماج کا ذمہ دار فرد نہیں ہوتا، بس اسے لکھنے سے کام ہوتا ہے، نہیں صاحب ایسا نہیں ہے۔ ادیب کا لین دین سماج سے ہے اور اس باب میں وہ پوری طرح چوکس ہے اور یہیں سے وہ ادب کی جمالیات اخذ کرتا ہے، تاہم ادب محض سماج کا آئینہ نہیں ہے۔ یہ اسٹیٹس کو پر ضرب لگاتا ہے، مگر ایسا کسی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داری کے سبب نہیں کرتا، ادب اپنی ترکیب میں ہوتا ہی ایسا ہے۔ وہ جو بیان نہیں کیا جاسکتا اسے بیانیے میں لے آنے والا ، موجود پر سوالات قائم کرنے والا اور آئندہ کی جانب احساس کی سمت موڑ دینے والا۔

    ادب اس باب میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ سماج سدھار نے کا علم لے کر نکلا ہے کہ تخلیقی عمل کا منصب اپنے کام سے غافل ہو کر یوں ہانکا لگانا، نعرہ مارنا یا جلوس نکالنا نہیں ہے۔ اچھا یہ بھی جاننا چاہیے کہ معاشرے کی سطح پر اٹھنے والی ہنگامی لہریں ادب کا فوری مسئلہ نہیں ہوتیں۔ یہ بہت گہرائی میں بن چکے اس مزاج سے عبارت ہے، جو زمین، زبان، روایات اور عقائد سب مل کرمرتب کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے یہ ایسا منصب ہے جو طاقت ور کی ڈکٹیٹ کرائی گئی تاریخ، سیاست دان کی چلائی ہوئی مہم، تنقید کی ترتیب دی گئی لسانی تراکیب اور میڈیا کے تشکیل دیے گئے ہنگامی بیانیہ، اخبار کے لیے لکھی گئی خبر اور کالم سے الگ دائرہ عمل ہے، اپنی تہذیب اور اپنے سماج سے بہت گہرائی میں اور بہت ذمہ داری سے جڑا ہوا۔

    [bs-quote quote=”ادب محض سماج کا آئینہ نہیں ہے۔ یہ اسٹیٹس کو پر ضرب لگاتا ہے، مگر ایسا کسی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داری کے سبب نہیں کرتا، ادب اپنی ترکیب میں ہوتا ہی ایسا ہے۔ وہ جو بیان نہیں کیا جاسکتا اسے بیانیے میں لے آنے والا ، موجود پر سوالات قائم کرنے والا اور آئندہ کی جانب احساس کی سمت موڑ دینے والا” style=”style-2″ align=”right” author_name=”محمد حمید شاہد” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/05/60×60.jpg”][/bs-quote]

    سوال: آیندہ انتخابات کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں؟

    محمد حمید شاہد: جب تک جمہوری عمل اپنی روح کے ساتھ بحال نہیں ہوتا، جمہوریت کے نام پر کٹھ پتلیوں کا یہ تماشایوں ہی چلتا رہے گا۔ اور یہ جمہوری عمل اس وقت صاف شفاف نہیں ہوسکتا، جب تک سیاست سے پریشر گروپس ختم نہیں ہو جاتے، جو ایسے ہی طاقت کا منبع سمجھے جانے والے اداروں کی ڈکٹیشن کو لے کر غیر جمہوری اقدامات کے حق میں فضا سازی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

    یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان بننے میں مذہب کا بہت اہم کردار ہے۔ تسلیم کہ تحریک پاکستان کے پیچھے دو قومی نظریہ کام کر رہا تھا مگر یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تحریک جس کے پیچھے دوقومی نظر یہ کام کر رہا تھا، اس کا 14 اگست 1947 کو خوشگوار اور کامیاب انجام مسلمانوں کو ایک آزاد وطن پاکستان مل گیا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی قوم کو اس فضا سے نکل جانا چاہیے تھا۔

    اب پاکستانی ایک قوم اسی صورت میں بن سکتے ہیں کہ یہاں وطن ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرے گا۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان ہی کی مرضی چلنی ہے کہ جمہوریت کا یہی تقاضا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہ تھی، جو مذہبی بنیادوں پر تعصبات کو ہوا دیتی ہیں، نہ ہی ایسی جماعتوں کی گنجائش ہے جو پاکستان کی مذہبی شناخت کو ہی ختم کرنا چاہتی ہیں۔

    موجودہ صورت حال میں جو شدت پسندی اور عدم رواداری ہے اس کی وجہ ایسی جماعتیں ہیں اور ان کے عسکری ونگز ہیں، جو خود اپنی مرضی سے مذہب اور تصور پاکستان کی تشریح کرتے اور زور زبردستی لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں فکری انتشاراور آپا دھاپی کی یہی وجوہات ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے مسئلے کی بنیادوں کو سمجھنا ہوگا۔ مجھے یہاں آصف فرخی کا ایک افسانہ یاد آتا ہے "بن کے رہےگا!” جی یہ وہ نعرہ تھا، جو تحریک پاکستان میں لگایا گیا تھا۔ بن کے رہے گا پاکستان، اور افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ابھی تک ہم اس نعرے کی باز گشت سن رہے ہیں، پاکستان بن گیا مگر بن ہی نہیں چکتا۔ تو صاحب، اس فضا سے نکلیں حقیقی جمہوری عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔

    ہر ادارے کو اپنے دائرہ عمل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لانا ہو گی۔ فرقے، علاقے اور زبان کے تعصب کی بنیاد پر قائم جماعتوں کو سیاسی عمل سے الگ کرنا ہوگا، تب ہی کوئی تبدیلی ممکن ہوگی اور سیاسی استحکام آئے گا۔ موجودہ صورت حال میں ایک مخلوط اور غیر مستحکم حکومت بنے گی، جو اپنے فیصلے آزادی سے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی.


    ایلف شفق، عشق اور چالیس اصول 


    دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے دس ناول


  • سال 2017 کی ممکنہ مقبول کتابیں: پاکستانی مصنف بھی فہرست میں شامل

    سال 2017 کی ممکنہ مقبول کتابیں: پاکستانی مصنف بھی فہرست میں شامل

    پاکستانی فن و ادب صرف ملکی سرحدوں تک محدود نہیں رہا۔ اب دنیا بھر میں پاکستان فن و ثقافت اور ادب کی اپنی حیثیت ہے۔ اس میں جہاں گلوبلائزیشن کا کردار ہے، وہیں پاکستانی ادب اور فن کا معیاری ہونا بھی دنیا بھر میں اس کو مقبول بنانے کا سبب بنا۔

    چند روز قبل امریکی اخبار ہفنگٹن پوسٹ نے ایسی کتابوں کی فہرست جاری کی ہے جنہیں متوقع طور پر سال 2017 میں سب سے زیادہ پڑھا جائے گا، اور آپ کو جان کر خوشگوار حیرت ہوگی کہ اس فہرست میں 3 پاکستانی مصنفوں کی کتابیں بھی شامل ہیں۔

    آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سے مصنفین ہیں۔

    :صنم مہر

    sanam-maher

    کراچی کی رہائشی صنم مہر ایک معروف ادیبہ اور صحافی ہیں اور وہ مختلف بین الاقوامی اخبارات و ویب سائٹس کے لیے لکھتی ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے مضامین نہایت پر اثر ہوتے ہیں۔

    صنم مہر کی بہت جلد ایک کتاب منظر عام پر آنے والی ہے جو خود ساختہ غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی ماڈل قندیل بلوچ پر لکھی گئی ہے۔

    ہفنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ کتاب ایک بہادر نوجوان لڑکی کی کہانی کو ایک نئے انداز سے پیش کرے گی۔

    :محسن حمید

    mohsin-hameed

    محسن حمید پاکستانی نژاد برطانوی مصنف ہیں جو اس سے قبل ’دا ریلکٹنٹ فنڈامینٹلسٹ‘ نامی ناول لکھ چکے ہیں۔ ان کا ایک اور ناول رواں سال منظر عام پر آنے والا ہے۔ ’ایگزٹ ویسٹ‘ نامی اس ناول میں جلاوطنی کو موضوع بنایا گیا ہے۔

    :سبین جویری

    sabyn-javeri

    سبین جویری کا ناول ’نو باڈی کلڈ ہر‘ ایک تخیلاتی ناول ہے تاہم یہ بینظیر بھٹو کے قتل کے واقعات سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔ ناول میں سیاست اور عدالتی نظام کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

    مصنفہ سبین کا کہنا ہے کہ صرف ایک بینظیر بھٹو ہی نہیں بلکہ برصغیر میں کئی خواتین سیاستدانوں کو قتل کیا گیا اور ان کا یہ ناول ان سب سے متاثر ہے۔

  • دنیا کی خوبصورت ترین آخری آرام گاہیں

    دنیا کی خوبصورت ترین آخری آرام گاہیں

    موت اور شہر خموشاں (قبرستان) دو ایسے الفاظ ہیں جن کی تشریح ہر شخص اپنے انداز سے کرتا ہے۔

    کوئی موت کو زندگی کا خاتمہ سمجھتا ہے، کسی کو موت ایک نئی زندگی کا دروازہ لگتی ہے، کسی کو موت ایک پرسکون شے معلوم ہوتی ہے جس میں نہ کوئی غم ہوگا، نہ کوئی مصیبت، اور نہ ہی دنیا کے جھمیلے، بقول شاعر۔۔

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    لیکن ایک بات طے ہے، دنیا کی اکثریت مرنا نہیں چاہتی اور زندگی کی رنگینیوں سے سدا لطف اندوز ہونا چاہتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں۔

    یہی تصور قبرستان کا ہے۔ ادب میں شہر خموشاں کو اداسی اور دکھ کے سائے میں لپٹا ایسا مقام دکھایا جاتا ہے جہاں کسی نہ کسی صورت رومانویت بہر حال محسوس ہوتی ہے۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں موجود زیادہ تر قبرستان خوف و دہشت کا مقام اور دگرگوں حالت میں نظر آتے ہیں۔ ملک میں سرگرم کفن چور، مردے چور، جادو ٹونے والے افراد، نشیئوں اور لواحقین کی غفلت اور بے حسی نے قبرستانوں کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ وہاں جا کر رومانویت تو خاک محسوس ہوگی، البتہ رات کے وقت خوف سے موت ضرور واقع ہوسکتی ہے۔

    لیکن مغربی ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے پیاروں کو یاد رکھتے ہیں اور باقاعدگی سے ان کی قبر پر جاتے ہیں۔ وہاں قبرستانوں کی دیکھ بھال بھی حکومتوں کی ایسی ہی ترجیح ہے جیسے زندہ انسانوں کی دیکھ بھال۔

    دنیا میں بعض آخری آرام گاہیں ایسی ہیں جو فن تعمیر اور آرٹ کا نمونہ ہیں۔ یہ یا تو تاریخی لحاظ سے نہایت اہم اور قدیم ہیں یا پھر انہیں نہایت خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ قبرستان کم اور سیاحتی مقام زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔

    آج ہم نے دنیا بھر سے ایسے ہی کچھ قبرستانوں کی تصاویر جمع کی ہیں جنہیں دیکھ کر آپ بے اختیار وہاں جانا چاہیں گے۔

    :زینٹرل فریڈ ہوف قبرستان ۔ آسٹریا

    4

    آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں واقع اس قبرستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ویانا آئے اور اس قبرستان کو نہ دیکھا تو آپ کے ویانا آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

    3

    یہاں پر معروف موسیقار بیتھووین ابدی نیند سو رہا ہے جس کی سمفنی (موسیقی کی ایک قسم) دنیا بھر میں محبت کرنے والوں کے دل کے تاروں کو چھیڑ دیتی ہے۔

    :لا ریکولیٹا قبرستان ۔ ارجنٹائن

    1

    سنہ 1822 میں تعمیر کیے گئے اس قبرستان کو سیاحتی اہمیت حاصل ہے اور اپنے پیاروں کی قبروں پر آنے والوں کے علاوہ یہاں سیاح بھی خاصی تعداد میں آتے ہیں۔

    2

    اس قبرستان میں ارجنٹائن کی مختلف معروف شخصیات دفن ہیں۔ قبرستان کے اندر خوبصورت پگڈنڈیاں، مجسمے اور ترتیب سے قبریں موجود ہیں۔

    :سمٹرل ویسل ۔ رومانیہ

    10

    رومانیہ کے اس قبرستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تمام قبروں کے کتبے نیلے رنگ کے ہیں۔

    11

    ہر کتبے پر ایک نظم لکھی گئی ہے جو اس کے اندر دفن شخصیت کو بیان کرتی ہے۔

    :کی ویسٹ قبرستان ۔ فلوریڈا

    7

    امریکی ساحلی ریاست فلوریڈا میں ویسے تو صرف 30 ہزار افراد آباد ہیں مگر یہاں واقع خوبصورت قبرستان میں 1 لاکھ سے زائد افراد دفن ہیں۔

    21

    اس قبرستان میں معروف ادیب و شاعر اور دیگر شخصیات دفن ہیں جن کے کتبوں پر ان کے اپنے ہی آخری الفاظ لکھے گئے ہیں۔ جیسے ایک کتبے پر لکھا ہے، ’میں نے تم سے کہا تھا کہ میں بیمار ہوں‘۔ ایک کتبے پر رقم ہے، ’میں اپنی آنکھوں کو آرام دے رہا ہوں‘۔

    :آکلینڈ قبرستان ۔ جارجیا

    5

    6

    سنہ 1850 میں قائم کیے جانے والے اس قبرستان میں وکٹورین، یونانی، اور مصری طرز کا فن تعمیر استعمال کیا گیا ہے۔

    :میلان یادگاری قبرستان ۔ اٹلی

    19

    چوٹی کے اطالوی ماہر تعمیرات کی جانب سے تعمیر کردہ اس قبرستان میں صرف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہی دفن ہیں۔

    18

    مرنے والوں کے پیاروں نے ان کی یاد میں روتے ہوئے فرشتے، گلے ملتی روحوں اور مذہبی مناظر کو سنگ تراشی کی صورت میں نصب کروایا ہے جس نے اس قبرستان کو ایک میوزیم کی شکل دے دی ہے۔

    :اوکونوئن قبرستان ۔ جاپان

    17

    ایک مقامی بدھ رہنما کے نام سے منسوب کیے جانے والے اس قبرستان میں 2 لاکھ سے زائد افراد دفن ہیں۔

    16

    یہاں دفن افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے، کہ ’یہ موت سے ہمکنار نہیں ہوئے بلکہ یہ ابدیت کا انتظار کرنے والی روحیں ہیں‘۔

    :سمٹری ڈی پیری لیشز ۔ پیرس

    13

    دنیا کے خوبصورت ترین شہر پیرس کا یہ قبرستان خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے اور یہ یہاں آنے والوں پر ایک خوف بھرا سحر طاری کردیتا ہے۔

    12

    پیرس کو ویسے بھی فن و ثقافت کا شہر کہا جاتا ہے جہاں سے دنیا بھر کے فن و ادب کو عروج ملا۔ کئی شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے اسی شہر بے مثال میں مرنا پسند کیا۔ ان میں سے اکثر معروف افراد اسی قبرستان میں دفن ہیں۔

    :ساؤتھ پارک اسٹریٹ قبرستان ۔ کلکتہ

    15

    سنہ 1767 میں بھارتی شہر کلکتہ میں قائم کیے گئے اس قبرستان کو اگر باغ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ یہاں دفن بھارت کی نمایاں عیسائی شخصیات کی قبروں کو مندر کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے جس کے لیے مرنے والوں کے لواحقین نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ دراصل بھارتیوں کا ان غیر ہندو شخصیات سے اظہار عقیدت ہے۔

    14

    اٹھارویں صدی کے وسط میں اس قبرستان کو بند کر کے اسے قومی ثقافتی ورثے کی حیثیت دے دی گئی۔

    :ہائی گیٹ قبرستان ۔ لندن

    8

    لندن کے اس قبرستان کو ایک تاریخی و ثقافتی مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں مشہور فلاسفی کارل مارکس بھی دفن ہے۔

    9

    قبرستان میں قبروں پر خوبصورت لکڑی سے آرائش کی گئی ہے جبکہ پورا قبرستان ایک نباتاتی گارڈن معلوم ہوتا ہے۔

  • معروف شاعر، ادیب امجداسلام امجد کی آج 72 ویں سالگرہ

    معروف شاعر، ادیب امجداسلام امجد کی آج 72 ویں سالگرہ

    کراچی : ممتاز پاکستانی شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد آج اپنی 72 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔

    ممتاز شاعرامجد اسلام امجد چار اگست 1944ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ ابتدائی تعلیمی مراحل لاہور میں طے کیے، امجد اسلام نے گریجویشن گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کیا۔

    نجانے کب تھا! کہاں تھا! مگر یہ لگتا ہے
    یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

    پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز لاہور ہی کے ایم اے او کالج سے کیا۔ 1975ء سے لے کر 1979ء تک وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ وہ ’اردو سائنس بورڈ‘ اور ’چلڈرن لائبریری کمپلیکس‘ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔

    ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
    خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو

    55790ac000f1c

    ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی کے لیے کئی سیریلز لکھیں جن میں چند نام یہ ہیں:’برزخ‘، ’عکس‘، ’ساتواں در‘، ’فشار‘، ’ذراپھر سے کہنا‘(شعری مجموعے)، ’وارث‘، ’دہلیز‘(ڈرامے)، ’آنکھوں میں تیرے سپنے‘(گیت) ، ’شہردرشہر‘(سفرنامہ)، ’پھریوں ہوا‘ ،’سمندر‘، ’رات‘، ’وقت‘،’اپنے لوگ‘،’یہیں کہیں‘۔

    جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
    جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

    amjad-islam-amjad

    علاوہ ازیں تنقیدی مضامین کی ایک کتاب ’تاثرات‘ بھی ان کی تصنیف کردہ ہے۔

    ہُوا ہے وہ اگر مُنصف تو امجد احتیاطًا ہم
    سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے

    نظم و نثر میں اُن کی 40 سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں ’صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی‘ اور ’ستارہ امتیاز‘ کے علاوہ کئی مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، گریجویٹ ایوارڈ اور دیگر متعدد ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔

     

    اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
    اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں

    دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
    اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں

    مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
    جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں

    اِس طرح پھیر پھیر کہ باتیں نہ کیجیئے
    لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں

    مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
    دُنیا تیرے مزاج کا بَندہ نہیں ہوں میں

    امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ چلتے چلے گئے
    گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں