Tag: ادیبوں کے خطوط

  • ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ ان دنوں کمال امروہی کی فلمی کہانی’حویلی‘ ( جو ’محل‘ کے نام سے فلمائی گئی) کی تشکیل و تکمیل ہو رہی تھی۔ اشوک، واچا، حسرت (لکھنوی) اور میں سب ہر روز بحث و تمحیص میں شامل ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں کام کے علاوہ کبھی کبھی خوب زوروں پر گپ بھی چلتی تھی، ایک دوسرے سے مذاق ہوتے۔

    شیام کو جب فلم’مجبور‘ کی شوٹنگ سے فراغت ہوتی تو وہ بھی ہماری محفل میں شریک ہو جاتا۔ کمال امروہی کو عام گفتگو میں بھی ٹھیٹھ قسم کے ادبی الفاظ استعمال کرنے کی عادت ہے۔ میرے لیے یہ ایک مصیبت ہو گئی تھی، اس لیے اگر میں عام فہم انداز میں کہانی کے متعلق اپنا کوئی نیا خیال پیش کرتا تو اس کا اثر کمال پر پوری طرح نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اگر میں زور دار الفاظ میں اپنا عندیہ بیان کرتا تو اشوک اور واچا کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ چناں چہ میں ایک عجیب قسم کی ملی جلی زبان استعمال کرنے لگا۔

    ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے میں نے اخبار کا اسپورٹس کالم کھولا۔ بڑے برن اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہورہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام عجیب و غریب تھا، ’’ہیپ ٹلا۔۔۔‘‘ ایچ، ای، پی، ٹی، یو، ایل، ایل، ایچ، اے۔۔۔ ہیپ ٹلا۔۔۔ میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہو سکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاید ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

    اسٹوڈیو پہنچا تو کمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادیبانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی، ’’کیوں منٹو؟‘‘

    معلوم نہیں کیوں، میرے منہ سے نکلا، ’’ٹھیک ہے، مگر ہیپ ٹلا نہیں!‘‘

    بات کچھ بن ہی گئی، ’’ہیپ ٹلا‘‘ میرا مطلب بیان کر گیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زور دار نہیں ہے۔

    کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کو ایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا، ’’بھئی حسرت بات نہیں بنی۔ کوئی ہیپ ٹلا چیز پیش کرو، ہیپ ٹلا۔‘‘ دوسری مرتبہ ہیپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف رد عمل معلوم کرنے کے لیےدیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیار کر چکا تھا۔

    چناں چہ اس نشست میں بلاتکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹلیٹی نہیں۔ ہپ ٹولائز کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اچانک اس بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    شیام اس وقت موجود تھا۔ جب اشوک نے مجھ سے یہ سوال کیا، اس نے زور کا قہقہہ لگایا، اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب و غریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کے دہرا ہوتے ہوئے اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہیپ ٹلا کو کھینچ کر فلمی دنیا میں لے آیا، مگر کھینچا تانی کے بغیر یہ لفظ بمبے کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔

  • ممتاز ادیب، نقّاد اور معلّم رشید احمد صدیقی کی برسی

    ممتاز ادیب، نقّاد اور معلّم رشید احمد صدیقی کی برسی

    اردو ادب میں باکمال مزاح نگار، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے رشید احمد صدیقی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج اردو کے اس ممتاز ادیب کا یومِ وفات ہے۔ وہ 15 جنوری 1977ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ طنز و مزاح پر مبنی مضامین کے علاوہ رشید احمد صدیقی نے نقد و نظر کے حوالے سے بھی یادگار کتب چھوڑی ہیں۔

    رشید احمد صدیقی 24 دسمبر 1892ء کو جون پور کے قصبہ مڑیاہو میں پیدا ہوئے۔ فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم گھر حاصل کی اور بعد میں جون پور کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد 1915ء میں علی گڑھ چلے گئے جہاں زمانۂ طالب علمی میں مختلف ادبی اور علمی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے رہے۔ وہ علی گڑھ کے میگزین کے ایڈیٹر رہے۔

    1921 میں اردو کے لیکچرار اور 1943ء میں صدرِ شعبۂ اردو ہوئے۔ بعد ازاں مرکزی وزارتِ تعلیمات کی ایک اسکیم کے ڈائریکٹر ہوئے۔

    رشید احمد صدیقی کی زندگی کا بیش تر حصہ علی گڑھ ہی میں گزرا۔ آپ علی گڑھ میں درس و تدریس سے جڑے رہے۔

    ڈاکٹر جعفر احراری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
    رشید صاحب کے طنز میں تلخی اور زہرناکی کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ چھوٹے چھوٹے فقروں سے بہت کام لیتے ہیں۔ ان کے فن میں عامیانہ پن نہیں بلکہ گہرائی اور گیرائی کا بول بالا ہے۔ شعر و ادب سے قطع نظر سیاست، تاریخ اور دیگر علوم و فنون کو بھی اپنے موضوع میں شامل کرلیا ہے جس کے سبب ان کے طنز و مزاح سے لطف اٹھانا آسان کام نہیں بلکہ خاصا باشعور اور بے حد شائستہ مذاق کا حامل ہونا ضروری ہے۔

    رشید احمد صدیقی کی زندگی شرافت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا بہترین نمونہ تھی۔ انھوں نے طنز و مزاح، خاکے، علمی و ادبی موضوعات پر مضامین کے علاوہ تنقید نگاری بھی کی، ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔

    مضامینِ رشید، گنج ہائے گراں مایہ، اردو طنز و مزاح کی تنقیدی تاریخ، ہم نفسانِ رفتہ، علی گڑھ ۔ ماضی و حال اور ان کے خطوط بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے جو ادبی دستاویز اور مستند حوالہ ہیں۔

  • پرانے اور خراب قلم سے لکھا گیا ایک خط!

    پرانے اور خراب قلم سے لکھا گیا ایک خط!

    32، جیل روڈ، لاہور

    6 فروری 56ء

    پیاری واجدہ

    آپ کا خط ملا۔ بے حد خوشی ہوئی۔ دراصل جب سے میں نے ‘‘آئینہ’’ میں آپ کا ‘‘میری یادداشت سے’’ پڑھا مجھے شدید دل چسپی محسوس ہوئی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ آپ کو ‘‘آئینہ’’ کی معرفت خط لکھوں اور آپ کی حقیقت پسندانہ جرأت کی داد دوں، مگر مصروفیتوں میں موقع نہ مل سکا۔ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، شاید اسی لیے آپ نے مجھے خط لکھ ڈالا۔ بہت ممنون ہوں۔

    دراصل میرے متأثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم اور آپ جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں اتنی جرأت تو ہے کہ دوسروں کے بارے میں سچ کہہ دیں، مگر اپنے بارے میں یعنی اپنی ذات کے بارے میں سچ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ فاقہ کرنا ہم سفید پوشوں کے لیے ممکن ہے، مگر اسے چھپانا، اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا انتہائی شرافت کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ایک بار بہت برے دنوں میں فاقہ میں نے بھی کیا۔ پورے اڑتالیس گھنٹے کا فاقہ۔ مگر میں ابھی تک اس بات کو نہ لکھ سکی۔ آپ نے یہ بات لکھ دی اور آپ بہت آگے جاکر کھڑی ہوگئیں، میں آپ کی اسی بات سے بہت متأثر ہوئی۔

    میں نے اس کے بعد آپ کے افسانے بہت دل چسپی سے پڑھے۔ ان پر رائے پھر تفصیل سے دوں گی۔

    آپ بے تکلفی سے مجھے خط لکھتی رہیے۔ مجھے بڑا ادیب وغیرہ فی الحال بالکل نہ سمجھیے۔ مجھے اپنے بارے میں ابھی تک ایسی کوئی غلط فہمی نہیں ہوسکی ہے۔ ہم سب کو ابھی بہت لکھنا ہے اور اس کے بعد کسی کو بڑا کہلانے کا حق حاصل ہوسکے گا اور اس کا فیصلہ بھی شاید آئندہ نسلیں کریں گی۔

    میں آپ کو فوراً جواب لکھتی، مگر گزشتہ ہفتے میں بہت مصروف رہی۔ کل ہم سب بہنیں اپنی پانچویں بہن عابدہ کی پہلی برسی منانے ایک جگہ اکھٹا ہوئے تھے۔ کل ہی جب اس کے فاتحہ سے فارغ ہوئے تو اطلاع ملی کہ ندیم بھائی کی والدہ لاہور سے دور اچانک چل بسیں۔ یہ سب باتیں بڑی تکلیف دہ تھیں۔ گزشتہ سال ندیم بھائی کی والدہ ہمارے گھر ہی تھیں۔ جب عابدہ کا انتقال ہوا تھا۔ معاف کیجیے گا یہ سب باتیں میرے دماغ پر چھائی ہوئی ہیں اس لیے ان کا تذکرہ کربیٹھی۔ پھر کسی وقت آپ کو تفصیل سے خط لکھوں گی۔

    ایک بہت پرانے اور خراب قلم سے خط لکھ رہی ہوں، میرا قلم کل گر کر ٹوٹ گیا۔ آپ کو میرا یہ خط ذرا دقت سے پڑھنا پڑے گا۔ گو ٹھیک قلم سے لکھنے کے باوجود میری تحریر لوگوں کو پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ امید ہے آپ بہ عافیت ہوں گی۔

    آپ کی ہاجرہ مسرور

    وضاحت: معروف افسانہ نگار واجدہ تبسم کے نام یہ خط اس دور کی ممتاز ادیب ہاجرہ مسرور نے لکھا تھا جو علم و ادب کے شائقین کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہے۔