Tag: ادیب انتقال

  • محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    محمد خالد اختر:‌ صلے اور ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ادیب کا تذکرہ

    آج اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کی برسی ہے۔ محمد خالد اختر ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ساری زندگی شہرت اور ستائش سے بے نیاز اور اپنے کام میں مگن رہے۔ بطور مزاح نگار انھیں قارئین نے بہت پسند کیا اور ان کے اسلوبِ نگارش نے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات کو بھی متاثر کیا۔

    محمد خالد اختر نے افسانہ اور ناول لکھنے کے ساتھ سفرنامے بھی تحریر کیے اور تراجم بھی کیے۔ چاکیواڑہ میں وصال ان کا ایک مشہور ناول ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب کا انتقال 2 فروری 2002ء کو کراچی میں ہوا۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    مشہور انشاء پرداز اور ممتاز عربی داں محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔“

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ان کے ہر قاری کو متأثر کیا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور نثر نگار فیض احمد فیض نے اسے اردو کا اہم ناول کہا تھا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اس ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔

    23 جنوری 1920ء کو محمد خالد اختر نے پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی اور بعد میں صادق ایجرٹن کالج میں داخل ہوئے جہاں سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں محمد خالد اختر پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوگئے اور اسی کالج میں انھیں احمد ندیم قاسمی کا قرب بھی نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء میں محمد خالد اختر انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید تعلیم کے حصول کی خاطر لندن چلے گئے۔ وہاں سے 1948ء میں وطن واپس آئے اور یہاں ان کی ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے ہوا۔ وہ 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور چند نظمیں بھی کہیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    اردو کے اس نام ور ادب کی مزاح پر مبنی پہلی تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے افسانہ و ناول، سفرناموں کے علاوہ کئی علمی و ادبی مضامین اور شخصی بھی رقم ہوئے اور انھیں پسند کیا گیا۔ محمد خالد اختر کا ناول بیس سو گیارہ کے عنوان سے 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا تھا۔ پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں اور بعد میں افسانے کی کتاب کھویا ہوا افق شایع ہوئی جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی وژن نے ان کی شگفتہ کہانیوں کے سلسلے ’چچا عبدالباقی‘ کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی۔ محمد خالد اختر نے اندلس کے معروف سیاح ابنِ جُبیر کے سفرنامہ کی تلخیص اور ترجمہ بھی کیا جو 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے محمد خالد اختر سے متعلق ایک یادگار محفل کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • معروف افسانہ نگار اپندر ناتھ اشکؔ اور پرچون کی دکان

    معروف افسانہ نگار اپندر ناتھ اشکؔ اور پرچون کی دکان

    متحدہ ہندوستان میں‌ ترقی پسند تحریک کا شور تھا اور اردو ادب پر تازہ فکر اور نئے رجحانات کا سایہ۔ اپندر ناتھ اشکؔ اسی دور میں اردو افسانے کا جھنڈا اٹھائے دکھائی دیے۔ زرخیز ذہن کے مالک اپندر ناتھ اشک نے اپنے قلم کے زور پر خود کو معاشرے کا زبردست نباض ثابت کیا۔ انھیں ہندوستانی معاشرے کا ایک ناصح بھی کہا جاسکتا ہے جس کی کہانیوں پر اخلاقی رنگ غالب ہے۔

    آج افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشک کا تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ 1996ء میں آج ہی کے دن اشک چل بسے تھے۔

    اپندر ناتھ اشکؔ نے طویل عرصہ تک ادب کے قارئین کو اصلاحی کہانیاں‌ دیں اور اپنے وطن کی معاشرت میں‌ پنپتی خامیوں، اور لوگوں کی کم زوریوں‌ کی نشان دہی کرتے رہے۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست کو بھی دخل رہا، لیکن یہاں بھی ان کا انداز ناصحانہ نظر آتا ہے اور وہ خرابیوں کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں۔

    اردو زبان کے معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشکؔ نے پنجابی زبان میں‌ شاعری بھی کی۔ وہ ہندوستان میں اردو زبان و ادب سے وابستہ ایسے اہلِ‌ قلم تھے جسے اپنی قوم، اپنی تہذیب اور روایات کا بڑا درد تھا اور جو اپنے لوگوں کی اصلاح اور ان کی خرابیوں کو دور کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ اشک 14 دسمبر 1910ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ 1930ء تک وہ لاہور میں مقیم رہے اور پھر ہندوستان چلے گئے۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز تو پنجابی شاعری سے ہوا تھا لیکن پھر اشک نے نثر کا سہارا لیا اور مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے لگے۔ اپندر ناتھ اشکؔ کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ایک عرصہ گزارا اور جب بمبئی گئے تھے تو وہاں فلم نگری سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے اشک کئی ریڈیائی ڈرامے اور اسکرپٹ لکھ چکے تھے اور فلموں میں ان کا یہ تجربہ کام آیا۔ انھوں‌ نے فلمی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کیے۔

    اپندر ناتھ اشکؔ اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔

    اپندر ناتھ اشک نے 85 سال کی عمر میں الٰہ آباد میں وفات پائی۔ معروف براڈ کاسٹر، محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ان پر ایک مضمون میں لکھا:

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • ایڈگر ایلن پو: مختصر کہانیوں کو انفرادیت عطا کرنے والا ادیب

    ایڈگر ایلن پو: مختصر کہانیوں کو انفرادیت عطا کرنے والا ادیب

    ایڈگر ایلن پو نے انگریزی زبان و ادب میں جو شہرت اور نام و مقام پایا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس باکمال افسانہ نگار، شاعر اور نقّاد کی زندگی کا انجام بڑا درد ناک ہوا۔ ایک روز وہ گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

    امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کو مختصر افسانہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ اس کی کہانیاں فنی تراش کا شاہکار اور کاملیت کا نمونہ ہیں۔ پو ایک عمدہ شاعر اور نقاد بھی تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ڈراؤنی اور دہشت انگیز کہانیاں‌ تھیں‌۔ اس نے جرم و سزا اور سنسنی خیز واقعات کو بھی کہانیوں میں سمویا جو بہت مقبول ہوئیں۔ وہ مختصر نویسی میں‌ کمال رکھتا تھا۔ 7 اکتوبر 1849ء کو اس امریکی ادیب کا انتقال ہوگیا۔ ایڈگر ایلن پو نے جو کہانیاں لکھیں ان سے کئی بڑے تخلیق کار متاثر ہوئے۔

    نقّاد کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کی روشنی مغرب کے معاشرہ میں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئی، وہاں ادب میں حقیقت پسندی کے رجحانات بھی پنپنے لگے۔ اسی دور میں لکھاریوں‌ نے متوسط اور محنت کش طبقہ کی زندگی اور ان کے مسائل کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا اور قارئین کی دل چسپی اور ادبی ذوق کی تسکین نے قلم کاروں کو مختصر کہانیاں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک قسم کی صحافتی صنف تھی، لیکن جب اسے پو جیسے ادیبوں نے اپنایا تو اس پر دل کشی، جمالیات اور اثر انگیزی غالب آگئی اور ایڈگر ایلن پو وہ ادیب تھا جس نے اس حوالے سے پہل کی۔ اکثر اور نام ور مغربی نقاد اس کا سہرا امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کے سَر ہی باندھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس نے مختصر کہانیوں کا ادبی اور فنی روپ نکھارا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 1809ء میں بوسٹن، امریکا میں آنکھ کھولی۔ اس کے والدین تھیٹر سے وابستہ تھے اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی پو اپنے پیروں‌ پر چلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ والد نے اس کنبے کو چھوڑ دیا اور اس کے اگلے ہی برس ایک بیماری نے اس کی ماں کو بھی ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ تب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر رہنے لگا اور حصولِ تعلیم‌ کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، لاطینی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس نے جامعہ میں‌ یونیورسٹی آف ورجینیا میں‌ داخلہ لیا تاہم یہاں‌ تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ گھریلو ناچاقیوں اور بدمزگیوں کے علاوہ پو اپنے غصّے، عجیب و غریب عادات، بدمزاجی اور شراب نوشی کی عادت کی وجہ ہمیشہ پریشان اور دوسروں کے لیے ناقابل قبول رہا۔ پو نے جوانی میں مفلسی اور تنگ دستی کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کی موت کا صدمہ بھی اٹھایا اور ان سب باتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کے تخلیقی سفر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن 1827ء میں اس کی نظموں کا مجموعہ شایع ہوا تھا جس پر ‘اے بوسٹونین‘ (A Bostonian) کا نام درج تھا۔ یہ نظمیں مشہور شاعر لارڈ بائرن کے افکار اور اس کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں اور ان کا موضوع محبّت، عزّتِ نفس اور موت تھا۔ اسی سال پو نے ایک اور فرضی نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی قسمت آزمانے فوج میں بھرتی ہو گیا، لیکن اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    اس ناکامی کے بعد اس نے مستقل لکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فن کو ذریعۂ معاش بنانے کا فیصلہ کرکے نیویارک چلا آیا۔ اسے یہاں ایک اخبار میں نوکری مل گئی اور 1845ء تک اس نے بہت سی کہانیاں، نظمیں اور مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ایڈگر ایلن پو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی نے ادیبوں کو سائنس فکشن کی راہ سجھائی تھی۔ ’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔ پھر ایک رات قاتل نے، جو اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس فعل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔

    اپنے ایسے ہی افسانوں اور مختصر کہانیوں کی بدولت ایڈگر ایلن پو مشہور بھی ہوا اور اپنے موضوعات میں تخلیقی قوّت اور خاص تکنیک کے سبب ناقدین سے داد بھی پائی۔

    شہرت تو اس تخلیق کار کو بہت ملی، لیکن زندگی کے بعض صدمات ایسے ہیں جن کا ایڈگر ایلن پو کے دماغ پر شدید اثر پڑا اور اس کی ذہنی حالت بگڑتی چلی گئی، اس میں بیوی کی اچانک موت کے علاوہ کئی دوسرے مسائل نے اضافہ کیا اور پھر بچپن کی وہ تلخیاں اور محرومیاں بھی اس کے اعصاب پر توانا ہو کر سوار ہوگئیں، جن میں والدین سے دوری بھی شامل تھی جسے وہ فراموش کرچکا تھا۔ اس کے دماغ پر ان سب باتوں کے گہرے اور منفی اثرات پڑے اور کہتے ہیں کہ پو ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔ شراب نوشی وہ مسئلہ تھا جس نے اسے دنیا سے الگ تھلگ اور لوگوں سے دور کر دیا تھا۔ وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوگیا اور موت کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ ایک روز ایڈگر ایلن پو کو گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 70 سے زائد نظمیں، 60 سے زائد کہانیاں، ایک ناول، اور کئی مضامین یادگار چھوڑے۔ اس ادیب کے بعد آنے والوں‌ نے مختصر کہانیوں اور فکشن کے سفر کو آگے بڑھایا اور پو کی پیروی کی۔

  • ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو دنیا کے ان ناول نگاروں‌ میں سے ایک ہیں جن کا ذکر کیے بغیر پچھلی دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں‌ ہوسکتا۔ دی گاڈ فادر اس امریکی ادیب کا ایک مشہور ناول ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔

    ماریو پوزو(Mario puzo) کے حالاتِ زندگی اور ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ہم اس فلم کی کہانی بھی بیان کریں‌ گے جو ان کے مشہور ناول پر مبنی ہے۔

    بہترین ناول نگار ہی نہیں ماریو پوزو مختصر کہانی نویسی اور اسکرین رائٹنگ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ان کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ماریو پوزو جس گھرانے کے فرد تھے، وہ امریکہ آن بسا تھا۔ نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو نے 15 اکتوبر 1920ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک معمولی آمدنی والے کنبے کے فرد تھے۔ ماریو پوزو نے نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کرلی، لیکن نظر کمزور تھی، اس لیے ماریو پوزو کا تعلقاتِ عامّہ کے شعبے میں تبادلہ کردیا گیا۔ وہ مطالعہ اور لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے۔ دورانِ ملازمت ان کے افسانے اور کہانیاں‌ شایع ہونے لگیں اور ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    ماریو پوزو کا پہلا افسانہ 1950ء میں شایع ہوا تھا۔ اس ناول نگار کی وجہِ شہرت مافیا پر لکھی گئی کہانیاں‌ بنیں۔ ماریو پوزو نے 11 ناول تحریر کیے، جن میں سب سے زیادہ مقبولیت گاڈ فادر کو ملی اور یہی عالمی ادب میں ماریو پوزو کی پہچان بنا۔ اس ناول پر بننے والی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بعد میں‌ بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور کہانیاں‌ لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری بھی کی۔ پوزو کے افسانوں اور ناولوں کا امریکی معاشرے میں ذہنوں‌ پر گہرا اثر ہوا۔ وہ جن مافیاز کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، اس میں مصنّف کی قوّتِ مشاہدہ کے ساتھ ان کی محنت، مہارت اور ذہانت کا بڑا دخل نظر آتا ہے۔

    ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو چل بسے تھے مگر آج بھی ان کا نام عالمی ادب میں بہترین ناول نگار کے طور پر زندہ ہے۔

    امریکہ میں‌ مافیا کے کرداروں پر ان کے مشہور ناول دی گاڈ فادر پر بننے والی فلم کی بات کریں‌ تو یہ ایسی کہانی ہے جس کا سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) نامی ایک جہاں دیدہ شخص ہے۔ یہ ناول نیویارک شہر میں مافیا کے مختلف خاندانوں‌ کی علاقے اور کاروبار کی دنیا میں ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے لڑائیوں کو بیان کرتا ہے۔ اس دوران کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف نے اپنے ناول میں بڑی تفصیل کے ساتھ کرداروں کی ذہنی کشمکش اور رویے کو‌ بیان کیا ہے جس نے اس کہانی کو مؤثر بنا دیا۔ اس ناول کی ایک خوبی دنیاوی فہم و فراست، ذہانت کے وہ باریک نکات ہیں‌ جس میں‌ ماریو پوزو نے اپنے کرداروں کو فلسفہ جھاڑے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ فلمی پردے پر شائقین کو یہ سسپنس سے بھرپور اور نت نئے موڑ لیتی کہانی معلوم ہوتی ہے اور یہ سب اس کا اشتیاق بڑھاتا ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس کا ایک کردار عظیم فن کار مارلن برانڈو نے ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے اور فلم کو بھی زبردست پذیرائی ملی۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنّف مالی آسودگی کا آرزو مند تھا اور جب وہ اپنی ابتدائی تخلیقات پر اس معاملے میں زیادہ کام یاب نہ ہوئے تو انھوں نے گاڈ فادر لکھا جس کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ناول شاہکار ثابت ہوا۔

    مصنّف کے اس ناول کی ایک اشاعت میں اُن کے بیٹے کا مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس تصنیف کے پیچھے ماریو پوزو کا مقصد کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے والد کے لکھے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں سرسٹھ ہفتے تک شامل رکھا۔

  • بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک شاید دنیا کا وہ واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا نام اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے۔ اس کی یہ خواہش پوری ہوئی اور اُسے فرانسیسی ادب کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔

    اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے بالزاک کے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور بالزاک نے ایک حقیقت نگار کے طور پر قلم تھام لیا۔ وہ اُن اہلِ قلم میں سے ایک تھا جنھوں‌ نے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دیا اور اسی وصف کی بناء پر بالزاک کو فرانس میں بہت پسند کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں جب کہ فرانس کے عظیم فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور اس کی بدولت ادب اور فلم کی دنیا میں بالزاک کے پیش رو بھی اس سے بہت متأثر نظر آئے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس اور مضطرب ہوگیا اور اپنے انہی مسائل کے ساتھ وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں قارئین نے بے حد سراہا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کی ایک انفرادیت اس کے لمبے فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک نے 18 اگست 1850ء کو پیرس میں وفات پائی، اسے دنیا سے گزرے ایک صدی اور کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن ایک حقیقت نگار کے طور پر آج بھی اس کا نام زندہ ہے۔

  • ہانز کرسچن اینڈرسن کا تذکرہ جس کے قلم نے ایک حیرت کدہ آباد کیا

    ہانز کرسچن اینڈرسن کا تذکرہ جس کے قلم نے ایک حیرت کدہ آباد کیا

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو یہ دنیا چھوڑے ہوئے ڈیڑھ سو سال بیت چکے ہیں اور یہ مدّت کچھ کم نہیں، لیکن ہانز، اپنے تخیّل سے آباد کردہ جہانِ ادب میں اپنے افسانوی کرداروں کی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ بچّوں ہی نہیں‌ بڑوں‌ کی بھی دل چسپی اور حیرت کا سامان کرتی کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں‌ اُس کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں‌ گی۔

    آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ آج ان پُرلطف اور سبق آموز کہانیوں کے خالق ہانز کرسچن اینڈرسن کا یومِ‌ وفات ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ہانز کو بچّوں کا مقبول ترین ادیب مانا جاتا ہے، جس کی کہانیوں کا دنیا بھر کی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور بچّے ہی نہیں یہ کہانیاں بڑے بھی نہایت دل چسپی اور شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہ قلم کار 4 اگست 1875ء کو وفات پاگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہانز کرسچن اینڈرسن (Hans Christian Andersen) نے بچپن اور نوعمری میں کئی مسائل اور مشکلات دیکھیں، محنت مشقت کی اور پھر بڑا ادیب بنا، ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں ہانز کا ایک مجسمہ بھی نصب ہے جہاں‌ مقامی لوگوں کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے ضرور تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی تخلیق کردہ کہانیوں پر کئی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ہانز کی کہانیوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بچّوں‌ کو سچّائی کا درس دیتی ہیں‌ اور ہمّت و حوصلے سے کام لینا سکھاتی ہیں۔

    ہانز کا باپ ایک موچی تھا اور لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتا تھا۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں اچانک والد کا سایہ بھی اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ وہ دس برس کا تھا جب روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ابتدا میں ہانز نے چھوٹی موٹی مزدوری کی، اور ہر قسم کا کام کرتا رہا، پھر ایک اوپیرا میں اسے کام مل گیا، لیکن قسمت نے اس موقع پر بھی مایوسی کے پتّھر اس کے دامن میں بھر دیے۔ کام بن کے نہیں‌ دے رہا تھا۔ وہ کسی طرح‌ دو وقت کی روٹی کے لیے کوئی کام حاصل کر ہی لیتا تھا، مگر اس کے اندر ایک تخلیق کار چھپا ہوا تھا۔ وہ اسے لکھنے پر آمادہ کرتا رہا اور وہ وقت آیا جب ہانز شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ یہاں ہانز کی قسمت اچھی تھی کہ ایک بڑے ادیب سے قریب ہونے کا موقع ملا جس نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے ہانز کو کہا کہ وہ بچّوں کا ادب تخلیق کرے۔ یوں یہ سلسلہ شروع ہوا اور اس کی شہرت اپنے وطن اور قرب و جوار میں‌ بھی پہنچ گئی۔ ہانز کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں شایع ہوا تھا۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن کا زمانۂ طالبِ علمی اتنا ہی تھا کہ وہ اسکول میں چند جماعتیں پڑھ سکا، لیکن اس عرصہ میں اسے مطالعے کا شوق ہوگیا تھا۔ جب وہ گھر سے کمانے کے لیے نکلنے پر مجبور ہوا تو کوشش کرتا کہ کام کے دوران جب بھی وقت ملے اور کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگ جائے تو بہت توجہ سے پڑھ سکے اور اسے اپنے اندر گویا جذب کرلے۔ اسی ذوق و شوق اور پڑھنے لکھنے کی لگن نے ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بھر میں نام و مرتبہ، عزّت اور بہت پیار بھی دیا۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کے لیے بھی افسانوی ادب تخلیق کیا۔ اس نے پریوں، بھوت پریت کی کہانیوں، انجانی دنیا کے حیرت ناک واقعات کو دل چسپ انداز میں اپنی کہانیوں‌ میں پیش کیا جو بہت مقبول ہوئیں۔

    ہانز کی کہانیاں‌ جادوئی اثر رکھتی ہیں اور اس کی اسی خوبی کے پیشِ نظر دنیا اس کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتابوں کا عالمی دن مناتی ہے۔

  • فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    روس کے افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی فنی کی عظمت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس کی شاہ کار تخلیقات کے تراجم دیس دیس میں‌ پڑھے جاتے ہیں۔ آج چیخوف کا یومِ وفات ہے۔ روس کے اس عظیم قلم کار نے 1904ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    29 جنوری 1860ء میں چیخوف نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں‌‌ اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے پالا پوسا۔ چیخوف کی ماں اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ اسے تھیٹر کا شوق پیدا ہوا۔ انتون چیخوف نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنے تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا، اور اس کے افسانے شاہ کار قرار پائے۔ اپنے وقت کے کئی ادیبوں اور ماہر مترجمین نے چیخوف کی کہانیوں‌ کو اردو زبان میں‌ ڈھالا اور وہ قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    چیخوف ابھی بچپن کی دہلیز پر تھا کہ مالی مسائل نے اس گھرانے کو جکڑ لیا اور اسے غربت اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے لگا جن میں‌ پرندے پکڑ کر انھیں‌ فروخت کرنا بھی شامل تھا۔ اسی زمانہ میں چیخوف نے اسکیچ بنانا سیکھا اور پھر ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔

    وہ کہانیاں تو بچپن سے سنتا آرہا تھا، لیکن اب اس نے خود بھی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چیخوف کا یہ مشکل دور کسی طرح کٹ ہی گیا جس میں وہ ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے خود لکھنے کے قابل ہوچکا تھا، اسے پڑھنے کا شوق تھا اور 1879ء میں چیخوف کو میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا، لیکن اس کے لیے تعلیمی اخراجات پورا کرنا آسان نہ تھا، وہ زیادہ محنت کرنے لگا اور ہر وہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدن ہوسکتی تھی تاکہ گھر کے اخراجات بھی پورے کرسکے۔

    تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چیخوف نے فن و ادب سے متعلق اپنی سرگرمیاں‌ جاری رکھیں اور ایسے اسکیچز بناتا رہا، جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے اور اس معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف قارئین کو متوجہ کرتے۔ چیخوف کو ان اسکیچز کی بدولت پہچان ملنے لگی اور وہ قارئین میں‌ مقبول ہونے لگے جس پر اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کردی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے بھی لگا تھا۔ چیخوف نے تھیٹر کے لیے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اس میدان میں‌ بھی کام یابی اس کا مقدر بنی۔ اس کا تحریر کردہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا جس کے بعد چیخوف نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کر دی۔

    ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف کی تعلیم مکمل ہوئی اور 1884ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔ چیخوف ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کردیا۔ لیکن بعد کے برسوں میں اس نے یہ پیشہ ترک کردیا تھا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ اس نے اپنی جگہ نہ صرف علمی و ادبی حلقوں‌ میں بنا لی تھی بلکہ اس کی بڑی کام یابی عام لوگوں میں اس کی تخلیقات کی پذیرائی تھی۔ سو، چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروا دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ روس کے مقبول ترین ادیبوں میں شمار کیا جانے لگا۔

    چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ اس کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔ انتون چیخوف کی تاریخِ وفات 15 جولائی ہے۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ محض 44 برس تک زندہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کا تذکرہ

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا جاتا ہے۔ ڈکنز اُن ناول نگاروں میں‌ شامل ہیں جنھوں نے اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر سماجی برائیوں، اپنے عہد میں نظام کی خامیوں اور مسائل کو اجاگر کیا اور فرسودہ نظام کو بدلنے میں‌ اپنا کردار ادا کیا۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کو برطانوی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

    9 جون 1870ء میں چارلس ڈکنز نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ چارلس ڈکنز ایک ناول نگار، مدیر، صحافی اور مصنّف ہونے کے ساتھ ایک صاحبِ بصیرت شخص تھا۔ ڈکنز نے اپنی نگارشات میں وکٹورین عہد کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

    7 فروری 1812ء کو چارلس ڈکنز نے انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز کا خاندان لندن کے ایک نچلے طبقہ کے رہائشیوں کے محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس گھرانے کے مالی حالات وقت کے ساتھ خراب ہوچکے تھے۔ اس کے والد مقروض تھے اور انھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں انھیں جیل جانا پڑا۔ بدحالی، تنگ دستی اور والد کی قید دیکھتے ہوئے چارلس ڈکنز بڑے ہوئے۔ ان حالات نے انھیں غور و فکر کے عادی بنا دیا تھا۔

    والد کو جیل ہوئی تو اس وقت چارلس ڈکنز کی عمر12 سال تھی۔ اپنے والد کے جیل جانے کے بعد چارلس کو دریائے ٹیمز کے ساتھ قائم جوتے رنگنے والی فیکٹری میں نوکری کرنا پڑی اور اس کے لیے اسکول چھوڑنا پڑ گیا۔فیکٹری میں کام کرتے ہوئے چارلس ڈکنز نے جبر اور استحصال کی کئی شکلیں دیکھیں اور ان کا شکار بھی ہوئے۔ ان کی زندگی کے یہ ادوار اور ان کے تجربے ان کی تخلیق ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور مزدور بچّوں کے جذبات ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ ‘‘ میں اور امارت و غربت کی کشمکش ’’اے کرسمن کیرول‘‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں‌ چارلس کے والد نے خاندانی جائیداد بیچ کر اپنے سارے قرض ادا کر دیے اور چارلس کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ لیکن 15 سال کے ہوئے تو حالات کی ستم ظریفی نے ایک بار پھر اسکول سے نکال کر ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے کام پر مجبور کردیا۔ لیکن یہی ملازمت ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی اور یہیں سے چارلس کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    ادبی دنیا میں چارلس ڈکنز کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہوچکا ہے اور انھیں ادب کی پہلی عالمی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ چارلس ڈکنز نے 170 برس پہلے جن کرداروں سے ہمیں متعارف کروایا تھا وہ آج بھی معاشروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس ادیب کی سوانح عمری تحریر کرنے والے کلیئر ٹامالین کے مطابق چارلس ڈکنز کی معاشرتی تصویر کشی آج بھی ان کی سوچ کے عین مطابق ہے، وہی امیر غریب میں پایا جانے والا فرق، بدعنوان سرکاری ملازم، سیاسی ریشہ دوانیاں، اور اسی نوع کی دیگر سماجی برائیاں آج کے دور میں بھی عام ہیں۔ چارلس ڈکنز نے اسی کی نشان دہی کی اور اپنی تحریروں میں اچھے بُرے لوگوں اور ان کے سچ جھوٹ کے ساتھ اُس تضاد کو نمایاں کیا جو معاشرے کو برباد کررہا تھا۔

  • مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ کو اصلاً مزاح نگار کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ان کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں موقع کی مناسبت سے اور حسبِ ضرورت چوٹ کر کے بڑھ گئے ہیں اور شدّت نہیں کی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے مقبول نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی وفات 1947ء میں آج ہی کے روز ہوئی تھی۔ وہ ایک انشاء پرداز اور ایسے ادیب تھے جس نے مضامینِ شگفتہ کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے اور واقعات نگاری بھی کی۔ ان کا تخلیقی سفر متعدد اصنافِ ادب پر محیط ہے۔

    بیسویں صدی کے اس ممتاز انشا پرداز کو اردو داں طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ انہوں نے ادب کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ، تحقیق، سوانح وغیرہ میں بھی خامہ فرسائی کی مگر سب میں مزاح کا رنگ غالب رہا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے ان تین مضامین کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے۔

    مرزا صاحب کے بارے میں تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انہوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت کا مدار ظرافت نگاری پر ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی ہے اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ انقلابِ 1857ء کے 26 سال بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1905 میں بی۔ اے کا امتحان پاس کر کے 1907 تک دہلی میں رہے۔ 1908 میں حیدرآباد (دکن) میں وارد ہوئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا، پھر ہائیکورٹ کے مترجم کی خدمات پر مامور ہوئے، اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    دورانِ تعلیم مرزا فرحت اللہ بیگ کے روابط ڈپٹی نذیر احمد سے قائم ہوئے۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، حقِ شاگردی ادا کیا بلکہ انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن کو بے نظیر اور نذیر احمد کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

    تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کر دیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف و لذّت حاصل ہوتی ہے۔

    ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • مشفق خواجہ: ایک کھرا ادیب اور جری محقّق

    مشفق خواجہ: ایک کھرا ادیب اور جری محقّق

    مشفق خواجہ نہ صرف فکاہیہ کالم نگاری میں بلکہ اردو طنز و مزاح کی تاریخ میں ایک نہایت اہم اور بڑا نام ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور اسلوب ہر سطح پر ندرت کی مثالیں اور انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ اردو صحافت کے ایک البیلے قلم کار تھے۔

    موضو ع کی سطح پر ان کا سب سے اہم اضافہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں سمویا اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔

    کون تھا جسے انھوں نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں‌ کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔ 21 فروری 2005ء کو وہ کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ مشفق خواجہ کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ایک قصّہ پڑھتے چلیے: مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘

    خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘

    آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘

    اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔

    مشفق خواجہ کو اردو ادب میں‌ ایک شاعر، ادیب، نقّاد اور بلند پایہ محقّق کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ان کی وجہِ شہرت خامہ بگوش کے عنوان سے ان کے فکاہیہ کالم بنے۔ اس قلمی نام سے انھوں نے طنز و مزاح اور فکاہیہ نگاری میں اپنے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا خوب اظہار کیا۔

    ادبی موضوعات، سیاسی اور سماجی مسائل پر مشفق خواجہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ اپنے قارئین میں مقبول تھے۔ وہ ایک طرف طبقاتِ‌ عوام کی زندگی کے مسائل کو اجاگر کرتے تھے تو دوسری طرف مخصوص اور مفاد پرست ادبی ٹولے کی درگت بناتے تھے۔

    ان کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ اور تخلص مشفق تھا۔ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    مشفق خواجہ کا شمار ان اہلِ قلم اور تخلیق کاروں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے تصنیف و تالیف کے میدان میں نہایت معیاری کام کیا۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے مختلف موضوعات پر فیچر بھی پسند کیے گئے۔

    مشفق خواجہ نے عمر بھر قلم سے اپنا رشتہ استوار رکھا، اُنھیں بلاشبہ اُردو کا کھرا ادیب، اور میدان تحقیق کا جری قرار دیا جاسکتا ہے۔