Tag: ادیب انتقال

  • سّید عابد علی عابد: ایک نادرِ روزگار شخصیت

    دمِ رخصت وہ چپ رہے عابد
    آنکھ میں‌ پھیلتا گیا کاجل

    اس شعرِ‌ بے بدل کے خالق سیّد عابد علی عابد ہیں۔ یہ نابغۂ روزگار شخصیت دنیائے علم و ادب پر اپنا نقش جما کر 20 جنوری 1971ء کو راہیٔ ملکِ عدم ہوا۔ آج عابد علی عابد کی برسی ہے۔

    سیّد عابد علی عابد کو ہمہ جہت قلم کار کہا جاسکتا ہے۔ انھیں قدرت نے متنوع صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ وہ بیک وقت شاعر، نقّاد، ڈراما نگار، ناول نویس اور مترجم تھے جنھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں‌۔ اس کے ساتھ انھوں‌ نے کئی کتابوں کی جمع و تدوین کا کام بھی خوبی سے انجام دیا۔

    وہ ایک خوب صورت شاعر تو تھے ہی، لیکن اردو ادب میں جن شخصیات نے وسیع تر ادبی، سماجی اور تہذیبی آگہی کے ساتھ تنقید لکھی ہے ان میں عابد علی عابد کا نام سرِفہرست ہے۔ وہ اردو ہی نہیں فارسی اور انگریزی زبان و ادبیات کے شناسا بھی تھے۔ تدریس ان کا پیشہ تھا اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی ممتاز ہوئے۔

    17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہونے والے عابد علی عابد نے لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور وکالت کا آغاز کیا لیکن ان کا علمی اور ادبی ذوق انھیں پنجاب یونیورسٹی تک لے آیا جہاں سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں اسی زبان کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔ حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ دیال سنگھ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجلسِ ترقیٔ ادب سے وابستہ ہوئے اور اس کے سہ ماہی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت بھی کی۔

    اُن کی کتب کی اشاعت کا سلسلہ باقاعدہ طور پر 1923ء سے شروع ہوا جب ان کی پہلی نثری کتاب ’’حجاب زندگی اور دوسرے افسانے‘‘ کے عنوان سے چھپی۔ پھر افسانوں ہی کی دوسری کتاب ’’قسمت اور دوسرے افسانے‘‘ شائع ہوئی، ناولٹ ’’شمع ‘‘ 1947ء میں چھپا۔ بعد ازاں دکھ سکھ اور سہاگ اور ڈراموں کا ایک مجموعہ ’’ یَدِ بیضا‘‘ کے نام سے چھپا۔ اس کے علاوہ ’’روپ متی، بازبہادر، بھی شہور ڈراما ہے‘‘ یہ سب نثری کتب افسانوں اور ڈراموں پر مشتمل تھیں جو پہلے چھپ گئیں، بنیادی شناخت شاعری تھی مگر شعری مجموعہ 1955ء میں شایع ہو سکا اور اس مجموعے کی اشاعت نے بطور شاعر عابد علی عابد کو زبردست پذیرائی اور پہچان دی۔

    عابد علی عابد کی تصانیف اصولِ انتقاد، ادب کے اسلوب، شمع، یدِ بیضا، سہاگ، تلمیحاتِ اقبال، طلسمات، میں کبھی غزل نہ کہتا کے نام سے بڑا ادبی خزانہ ہیں۔ انھوں نے ادب کی مختلف اصناف میں‌ اپنا زورِ قلم آزمایا اور خود کو ایک ہمہ جہت، ہمہ پہلو شخصیت کے طور پر منوایا۔

  • پرچون کی دکان والے اپندر ناتھ اشکؔ کا تذکرہ

    اپندر ناتھ اشکؔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اردو افسانے کا جھنڈا بلند کیے آگے بڑھتے رہے اور ان کے زرخیز ذہن نے خود کو معاشرے کا زبردست نباض ثابت کیا۔ انھوں نے ہندوستانی معاشرے میں خود کو ایک ناصح کے طور پر پیش کیا جس کی کہانیوں پر اخلاقی رنگ غالب رہا۔ افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشک 1996ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اشک نے طویل عرصہ تک اصلاحی کہانیاں‌ لکھیں اور ان کا قلم اپنے وطن کی معاشرت میں‌ خامیوں، اور لوگوں کی کم زوریوں‌ کی نشان دہی کرتا رہا۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست کو بھی دخل رہا، لیکن یہاں بھی ان کا انداز ناصحانہ ہے اور وہ خرابیوں کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں۔

    اپندر ناتھ اشک اردو زبان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس مشہور ہوئے، اور پنجابی زبان میں‌ شاعری بھی کی۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا۔ اشک نے 14 دسمبر 1910ء کو جالندھر میں آنکھ کھولی۔ 1930ء تک لاہور میں رہائش پزیر رہے اور بعد میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز پنجابی شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ ایک بڑا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزارنے والے اپندر ناتھ اشک جب بمبئی میں رہائش پذیر ہوئے تو وہاں انھیں فلم نگری سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ ان کا ریڈیو سے بڑا گہرا تعلق رہا اور وہاں ان کے کئی ریڈیائی ڈرامے اور اسکرپٹ کام یاب ہوئے اور ان کا یہ تجربہ فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کرنے میں‌ معاون رہا۔

    اپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔

    اشک نے 85 سال کی عمر میں الٰہ آباد میں وفات پائی۔

    ان کے بارے میں معروف براڈ کاسٹر، محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ایک مضمون میں لکھا تھا:

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • امانت لکھنوی: سبز پری اور شہزادہ گلفام کا قصّہ گو

    ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے کسی دور میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھ کر شہرت پائی۔ آج امانت لکھنوی کا یومِ وفات ہے جن کے ڈرامے کو اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

    تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ امانت لکھنوی نے اندر سبھا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی فرمائش پر 1853ء میں تحریر کیا تھا۔ یہ اردو کا ایک مقبول ناٹک تھا جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سیدھا سادہ اور منظوم ہے۔ امانت لکھنوی جن کا نام اردو کے پہلے عوامی ڈرامہ کے مصنّف کے طور پر ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت ڈرامہ اندر سبھا ہی ہے۔

    امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

    امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔

    امانت کا ڈرامہ اردو کا وہ پہلا عوامی ڈرامہ تھا جو چھپنے سے پہلے ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور اشاعت کے بعد دور در تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کے کئی نسخے شہروں شہروں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اس کی طرز پر بے شمار ڈرامے اردو میں لکھے گئے۔

    اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر محیط ہے جس کے آٹھ کردار ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ اردو کے ابتدائی دور اور بعد میں آنے والوں نے اسے بہترین ڈرامہ اور لازوال منظوم قصّہ کہا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

    اردو ادب میں جب بھی ڈرامہ کی ابتدا اور اس کے ارتقا کی بات ہوگی اندر سبھا اور امانت کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ امانت لکھنوی نے کم عمر پائی اور 3 جنوری 1859ء
    کو جوانی میں انتقال کیا۔

  • یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    پطرس بخاری نے اردو ادب کو انشائیوں کے ساتھ کئی خوب صورت تحریریں، تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم بھی دیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت مزاح نگاری ہے۔

    پطرس ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فقط انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت اور صدا کاری کے ساتھ انھیں ماہر براڈ کاسٹر بھی کہا جاتا ہے۔ آج اردو زبان و ادب کی اس ممتاز شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو ادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے خالی نہیں رہا اور ادیبوں نے اس میدان میں ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ شائستہ اور عمدہ شگفتہ نگاری کیا ہوتی ہے۔ پطرس انہی میں سے ایک تھے اور وہ ادیبوں کی جس کہکشاں میں شامل تھے، ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی تک کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    پطرس بخاری مشہور ماہرِ تعلیم، اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نقاد تھے جو ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر ان عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا جنھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر ریڈیو سے وابستہ ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بعد میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کردیا تھا۔

    پطرس بخاری جب کیمبرج پہنچے تو انگریزی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کا ادب بھی پڑھا اور اپنے اسی ذوقِ مطالعہ کے سبب جب خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مقیم تھے تو 5 دسمبر کو اچانک بے ہوش ہو گئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ پارے آپ کو ان کے فنِ ظرافت سے واقف کروائیں گے۔ لاہور پر ان کی تحریر سے ایک پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کے لیے بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن اَروِنگ کو دنیا کے بہترین مصنّفین میں شمار کیا جاتا ہے جس کی ہجو میں تضحیک اور تذلیل نہ تھی اور جس کی ظرافت نے محض ٹھٹھا اور تمسخر نہیں اڑایا بلکہ اسے اپنے پُرکشش طرزِ بیان سے دل چسپ بنا دیا۔ 1859ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے ارونگ کی کتابیں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس نے اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی تھی اور کالج میں داخلہ لینے کے بجائے نئے نئے مقامات پر جانے، گھومنے پھرنے اور مختلف لوگوں سے میل ملاقات کا شغل اختیار کیا۔ وہ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا۔ یہ سب اسے بچپن ہی سے پسند تھا۔ اس شوق اور سیلانی طبیعت نے اروِنگ کو ایک سیّاح کے طور پر شہرت دی اور پھر امریکا کے مقبول مصنّفین کی صف میں‌ لا کھڑا کیا۔ بطور مصنّف اروِنگ کو پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد اپنے وطن لوٹا اور اپنا سفر نامہ شایع کروا دیا۔ بعد کے برسوں میں واشنگٹن اروِنگ کو دنیا نے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے پہچانا۔

    واشنگٹن اَروِنگ نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا ہے، ‘میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔’

    وہ 1783ء میں‌ نیویارک کے ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایک محبِّ وطن مشہور تھا اور یہی خوبی اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس کو عظیم اور سب سے خوب صورت خطّہ مانتا تھا اور اس کے قدرتی نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ایک نہایت ملن سار تھا، وضع دار اور مجلس پسند شخص تھا۔ اسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور بہادر و مہم جُو قسم کے لوگ پسند تھے وہ دنیا کی سیر، بالخصوص تاریخی مقامات اور نوادرات دیکھنے کا شوق اور منفرد اور نمایاں کام کرنے والوں سے ملاقات کرنے کی خواہش رکھتا تھا اور ہر اس جگہ پہنچنے کو بیتاب ہو جاتا جہاں کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوسکتی تھی۔

    اروِنگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور امریکا میں اس کی اشاعت کے ساتھ ہی اروِنگ کا نام مشہور ہوگیا۔

    اروِنگ نے نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور زندگی بسر کی۔ وہ گھومتا پھرتا، پڑھتا لکھتا رہا۔ اسی عرصے میں اس نے تذکرہ نویسی بھی شروع کر دی۔ 1849ء میں ارونگ نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور ان کے دور کے اہم واقعات بھی لکھے۔ اس کے علاوہ حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی مشہور ترین تصنیف ثابت ہوئی۔

    اروِنگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    اس مصنّف اور مضمون نگار کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام نے امریکی معاشرے اور وہاں ثقافت کو بہت متأثر کیا اور جس کا ثبوت امریکا کے مختلف شہروں میں اروِنگ کے یادگاری مجسمے اور اس سے موسوم متعدد لائبریریاں ہیں۔

    پاک و ہند کے نام وَر ادیبوں نے اروِنگ کی کتابوں اور منتخب مضامین کو انگریزی سے اردو میں ڈھالا اور یہ قارئین میں مقبول ہوئے۔ ممتاز ادیب غلام عباس نے 1930ء میں ارونگ کی کتاب “Tales of the Alhambra” کا آزاد ترجمہ ’’الحمرا کے افسانے‘‘ کے عنوان سے کیا تھا جو اس زمانے کی مقبول کتاب بنی۔کتاب کے قارئین میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے آگے چل کرادب میں اونچا رتبہ پایا اور یہ ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ٹھہری۔ اسی طرح اس کا طلسماتی سپاہی کا قصہ سیّد وقار عظیم کے قلم سے اردو میں‌ ترجمہ ہوا اور پسند کیا گیا۔

  • احمد عقیل روبی: معروف ادیب، شاعر اور مضمون نگار کا تذکرہ

    احمد عقیل روبی: معروف ادیب، شاعر اور مضمون نگار کا تذکرہ

    اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، سوانح اور تذکرے، شعری مجموعے اور غیرملکی ادب سے مختلف اصناف کے تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دینے والے احمد عقیل روبی کا ایک مستند حوالہ درس و تدریس بھی ہے۔ انھوں نے اپنے فکر و فن اور زورِ قلم سے ادبی نقّاد، ڈراما اور فلمی کہانی نویس اور گیت نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ آج اس ادیب اور شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے 23 نومبر 2014ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    پروفیسر احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کرنے کے بعد لاہور سے اعلیٰ تعلیمی مراحل طے کیے اور درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ پاکستان میں اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انھوں نے ادبی مشاغل بھی جاری رکھے۔ حکومتِ پاکستان نے احمد عقیل روبی کو تمغا امتیاز سے نوازا تھا۔ فلمی دنیا میں اس ادیب اور شاعر کو لازوال گیت تخلیق کرنے پر نگار ایوارڈ دیا گیا۔ احمد عقیل روبی نے پنجابی اور اردو فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ اور فلسفہ و اساطیر پر احمد عقیل روبی کی گہری نظر رہی جس کا اثر ان کی تخلیقات پر بھی پڑا۔ ان کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں میں ان کی فکر و دانش کا بھرپور اظہار ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے، لیکن قتیل شفائی سے ملاقات نے انھیں‌ اپنے کلام پر نظرِ ثانی کرنے پر اکسایا اور اپنا کلام ضایع کردیا۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ وہ بتاتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ انھوں نے یورپ اور مغربی مصنّفین کے حوالے سے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر خوب صورت تحریریں‌ احمد عقیل روبی کی یادگار ہیں۔

    احمد عقیل روبی کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو: سنسنی خیز اور ڈراؤنے واقعات پر مبنی کہانیوں کا خالق

    ایڈگر ایلن پو کی کہانیاں فنی تراش اور تکمیل کا نمونہ ہیں۔ اس امریکی ادیب کو مختصر افسانہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ پو ایک عمدہ شاعر اور تنقید نگار بھی تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ڈراؤنی اور دہشت انگیز کہانیاں‌ تھیں‌۔ اس نے جرم و سزا اور سنسنی خیز واقعات کو بھی کہانیوں میں سمویا جو بہت مقبول ہوئیں۔ وہ مختصر نویسی میں‌ کمال رکھتا تھا۔ 7 اکتوبر 1849ء کو ایلن پو ابدی نیند سوگیا۔

    نقّاد کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کی روشنی مغرب کے معاشرہ میں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئی، وہاں ادب میں حقیقت پسندی کے رجحانات بھی پنپنے لگے۔ اسی دور میں لکھاریوں‌ نے متوسط اور محنت کش طبقہ کی زندگی اور ان کے مسائل کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا اور قارئین کی دل چسپی اور ادبی ذوق کی تسکین نے قلم کاروں کو مختصر کہانیاں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک قسم کی صحافتی صنف تھی، لیکن جب اسے پو جیسے ادیبوں نے اپنایا تو اس پر دل کشی، جمالیات اور اثر انگیزی غالب آگئی اور ایڈگر ایلن پو وہ ادیب تھا جس نے اس حوالے سے پہل کی۔ اکثر اور نام ور مغربی نقاد اس کا سہرا امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کے سَر ہی باندھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس نے مختصر افسانہ کا ادبی اور فنی روپ نکھارا۔

    ایڈگر ایلن پو نے 1809ء میں بوسٹن، امریکا میں آنکھ کھولی۔ اس کے والدین تھیٹر سے وابستہ تھے اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی پو اپنے پیروں‌ پر چلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ والد نے اس کنبے کو چھوڑ دیا اور اس کے اگلے ہی برس ایک بیماری نے اس کی ماں کو بھی ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ تب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر رہنے لگا اور حصولِ تعلیم‌ کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، لاطینی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس نے جامعہ میں‌ یونیورسٹی آف ورجینیا میں‌ داخلہ لیا تاہم یہاں‌ تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ گھریلو ناچاقیوں اور بدمزگیوں کے علاوہ پو اپنے غصّے، عجیب و غریب عادات، بدمزاجی اور شراب نوشی کی عادت کی وجہ ہمیشہ پریشان اور دوسروں کے لیے ناقابل قبول رہا۔ پو نے جوانی میں مفلسی اور تنگ دستی کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کی موت کا صدمہ بھی اٹھایا اور ان سب باتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ایڈگر ایلن پو کے تخلیقی سفر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا، لیکن 1827ء میں اس کی نظموں کا مجموعہ شایع ہوا تھا جس پر ‘اے بوسٹونین‘ (A Bostonian) کا نام درج تھا۔ یہ نظمیں مشہور شاعر لارڈ بائرن کے افکار اور اس کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں اور ان کا موضوع محبّت، عزّتِ نفس اور موت تھا۔ اسی سال پو نے ایک اور فرضی نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی قسمت آزمانے فوج میں بھرتی ہو گیا، لیکن اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    اس ناکامی کے بعد اس نے مستقل لکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فن کو ذریعۂ معاش بنانے کا فیصلہ کرکے نیویارک چلا آیا۔ اسے یہاں ایک اخبار میں نوکری مل گئی اور 1845ء تک اس نے بہت سی کہانیاں، نظمیں اور مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ایڈگر ایلن پو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی نے ادیبوں کو سائنس فکشن کی راہ سجھائی تھی۔ ’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔ پھر ایک رات قاتل نے، جو اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس فعل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔

    اپنے ایسے ہی افسانوں اور مختصر کہانیوں کی بدولت وہ مشہور بھی ہوا اور اپنے موضوعات میں زبردست قوّتِ تخلیق اور خاص تکنیک کے سبب ناقدین سے داد بھی پائی۔

    ایڈگر ایلن پو کو شہرت تو بہت ملی، لیکن بیوی کی اچانک موت اور دوسرے مسائل کے علاوہ بچپن میں‌ والدین سے دوری جیسے معاملات نے اس کے دماغ پر اثرات مرتب کیے تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔ شراب نوشی وہ مسئلہ تھا جس نے اسے لوگوں اور بیرونی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا اور وہ ڈپریشن کی وجہ سے‌ موت کے نزدیک ہوتا چلا گیا۔ وہ ایک گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔

    پو نے 70 سے زائد نظمیں، 60 سے زائد کہانیاں، ایک ناول، اور کئی مضامین یادگار چھوڑے۔ اس ادیب کے بعد آنے والوں‌ نے مختصر کہانیوں اور فکشن کے سفر کو آگے بڑھایا اور پو کی پیروی کی۔

  • آفتابِ علم و ادب ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی برسی

    آفتابِ علم و ادب ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی برسی

    معروف ماہرِ لسانیات، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا نام سندھ کی ایک روحانی شخصیت کے طور پر بھی لیا جاتا ہے، وہ 25 ستمبر 2005 کو خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے تھے۔ آج ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید ان کا میدان رہا اور انھوں نے کئی اہم موضوعات پر وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا جن سے آج بھی تشنگانِ علم و ادب استفادہ کررہے ہیں۔ انھوں نے اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے خوب کام کیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔ 1947 میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ 1936 سے 1948 کے دوران وہ ناگپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ رہے تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ انھوں نے 1950 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبۂ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو زبان و ادب کے لیے ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں پر انھیں پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوباتِ سیفیہ، خزینۃُ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوباتِ معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    اردو سے متعلق ان کی کتاب ’’اردو صرف و نحو‘‘ میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ انشا کی خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اردو زبان سیکھنے اور معیاری تحریر کے حوالے سے لائقِ مطالعہ ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • آغا بابر کا تذکرہ جو اپنی سوانح عمری ادھوری چھوڑ گئے

    آغا بابر کا تذکرہ جو اپنی سوانح عمری ادھوری چھوڑ گئے

    آغا بابر اردو کے معروف افسانہ نگار اور صحافی تھے۔ ان کا ادبی سفر شاعری سے شروع ہوا، لیکن جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آگئے اور اردو ادب کو کئی خوب صورت کہانیاں دے کر 1998ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کیا۔

    آغا بابر 31 مارچ 1919 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے شہرت پائی۔ صحافت بھی آغا بابر کا معروف حوالہ ہے۔

    تقسیم کے بعد پاکستان میں افسانہ نگاری کا سلسلہ رواں دواں رہا اور 1947ء کے بعد جو نام سامنے آئے ان میں آغا بابر بھی نمایاں ہیں۔ اس زمانے میں اردو افسانے میں دو واضح رجحانات نظر آئے جس میں ایک جانب افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتا رہا اور دوسری طرف فطرت کے مطابق خواب و خیال کی رنگینیوں اور رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بناتے ہوئے فرد کے جذبات کی عکاسی کی۔ ان کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

    "باجی ولایت” ان کا ایک ناقابلِ فراموش افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

    آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک ہوگئے۔ آغا بابر ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا چلے گئے تھے اور وفات کے بعد وہیں دفن ہوئے۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق بھی شایع ہوئے۔

    اردو کے اس نام ور افسانہ نگار نے اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ اس کام کو مکمل کرنے مہلت نہیں دی۔

  • سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کے دامن کو متنوع موضوعات کے ساتھ وسعتِ‌ بیان اور ہمہ گیری عطا کی تھی۔ اس تحریک نے ادب اور سماج کے ہر شعبے پر گہرے اثرات مرتب کیے، لیکن بالخصوص ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور اس کی زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا اور یہ سب سید سجاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    انھیں پاک و ہند کا نام ور ادیب، انقلابی اور مارکسی دانش ور کہا جاتا ہے جو 13 ستمبر 1973ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کا انتقال ایک ادبی تقریب کے دوران ہوا جو متحدہ روس کے شہر الماتی میں منعقد ہوئی تھی۔ اردو ادب اور ترقّی پسند تحریک کی تاریخ و تذکرہ سجاد ظہیر کے بغیر ادھورا رہے گا۔

    وہ ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے اور افسانہ نگاری، ڈرامہ اور ناول نگاری ان کا میدان رہاط سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ اس خاندان کا اپنے علاقے میں بڑا اثرو رسوخ اور مقام تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر میں مشہور اور قابلِ‌ ذکر شخصیات کی آمدورفت رہتی تھی جس نے سجاد ظہیر کو بھی علم و ادب اور سیاست کا شعور دیا۔ وہ ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم کے بعد ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے مختلف سختیاں، جبر اور ہتھکنڈے اپنا لیے تھے جس نے ہر نوجوان کی طرح سجاد ظہیر کو بھی متاثر کیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے نے ہڑتال شروع کردی اور ملوں اور کارخانوں کے ملازم سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر نے اس کا گہرا اثر لیا۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی طور پر باشعور بنا دیا تھا۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔

    انھوں نے گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔ 1928ء میں اوکسفرڈ کے اسی طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    بلاشبہ سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب کو ایک نیا عہد اور اہل قلم کو ایک نئی سمت دی جس نے اردو زبان و ادب کو بلندی اور ہر سطح پر مقبولیت بخشی۔