Tag: ادیب انتقال

  • فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    رام لال نارائن نے فکر تونسوی کے قلمی نام سے جہانِ اردو میں خوب شہرت پائی اور اپنے وقت کے معروف و مقبول طنز و مزاح نگاروں میں ان کا شمار ہوا۔ 1987ء میں آج ہی کے دن فکر تونسوی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر تونسہ شریف میں‌ پیدا ہوئے، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔

    گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاعری سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا اور ان کی غزلیں مختلف چھوٹے چھوٹے جرائد اور اخبار میں شائع ہوتی رہیں۔ 1942ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے مؤقر ادبی رسالے "ادبی دنیا” میں ان کی ایک نظم "تنہائی” شائع ہوئی جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ 1945ء میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں فکر تونسوی نے میگزین "سویرا” شائع کیا۔ بعد میں "ادبِ لطیف” سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے اور تب 1947ء میں تقسیمِ ہند کا اعلان ہو گیا جس کے بعد فسادات کے باعث وہ بھارت ہجرت کرگئے جہاں دلّی میں‌ وفات پائی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی فکر تونسوی نے طنز و مزاح اور نثر لکھنا شروع کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا” ہے جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ فکر تونسوی نے کالم نگاری کی، ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچر لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ترنیم کش، ماڈرن الہ دین، بدنام کتاب، پیاز کے چھلکے، چھلکے ہی چھلکے کے علاوہ آپ بیتی بھی شامل ہے۔

  • ’’شام کی منڈیر‘‘ سے جھانکتی ڈاکٹر وزیر آغا کی یاد

    ’’شام کی منڈیر‘‘ سے جھانکتی ڈاکٹر وزیر آغا کی یاد

    اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا نے مختلف اصنافِ ادب کو انفرادیت بخشی، انھیں نیا آہنگ دیا اور توانا کیا۔ ادبی اور تنقیدی موضوعات کو نئے زاویے سے برتا اور کئی رجحانات متعارف کرائے۔ آج ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ 2010ء میں انتقال کرنے والے وزیر آغا کو جہانِ علم و ادب میں ایک نقّاد، انشائیہ نگار، محقّق اور شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    ان کا تعلق سرگودھا سے تھا جہاں ڈاکٹر وزیر آغا نے 18 مئی 1922ء کو آنکھ کھولی تھی۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرد تھے۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جب کہ پنجابی والدہ سے سیکھی۔ وزیر آغا نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ 1956ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ادبی صحافت کے ساتھ تحقیقی اور تخلیقی کاموں‌ میں مشغول رہے۔

    وہ 1960ء سے 1963ء تک مشہور جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے۔ انھوں نے 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو ڈاکٹر وزیر آغا جیسے قابل اور باصلاحیت قلم کار کی توجہ اور محنت کی بدولت معیاری اور مقبول جریدہ بنا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا نے ادبی تحقیق اور تصنیف کی صورت میں اردو ادب کو کئی یادگار کتب دیں جن میں ان کے تنقیدی مضامین نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے شامل ہیں۔ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

    اردو ادب میں انشائیہ نگاری کو خاص اہمیت اور مقام دیا جاتا ہے اور یہ صنف بلندیٔ خیال، نکتہ آفرینی، اسلوب اور معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس صنف کو خوب سنوارا اور لاجواب انشائیے تحریر کیے۔ انھوں نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کی۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا شاعر بھی تھے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت سوانح عمری بھی لائقِ مطالعہ کتاب ہے جو ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ انھیں ان کے آبائی گاؤں کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور جب وہ اڑتیس برس کے تھے تو ان کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ اسی طرح ان کے ناول کو اشاعت کے تیس سال بعد نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ نے 2006ء میں وفات پائی تھی۔ انھیں 1988ء میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911 کو پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے اپنے ادبی سفر میں تیس سے زائد ناول اور 350 کہانیاں تخلیق کیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ، اسٹیج پلے بھی لکھے جب کہ مؤقر جرائد اور اخبارات میں‌ ان کے مضامین اور کالم بھی شائع ہوتے تھے۔ وہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے اپنی تخلیقات کے سبب مصر میں مقبول ہوئے اور بعد میں دنیا بھر میں انھیں پہچانا گیا۔

    نجیب محفوظ نے غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے ابتدائی عمر گزاری اور ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ اس کے باوجود وہ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہوئے اور روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ان موضوعات کو بھی زیرِ نوکِ قلم لائے جس نے قدامت پرستوں کے درمیان انھیں متنازع بنا دیا۔

    مصر پر برطانوی قبضے اور انقلابی تحریکوں نے نجیب محفوظ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ اس فکر کو پروان چڑھایا جس میں انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع ملا۔

    نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا، لیکن اس مضمون میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور لکھنے لکھانے میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مصر کے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ میں اجاگر کیا اور کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسّی دہائی میں ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ یہ تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 کا احاطہ کرتا ہے۔ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک مثال تھے۔

  • نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی ملا واحدی کی زندگی کا سفر 22 اگست 1976ء کو کراچی میں تمام ہوا۔ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

    ملا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تعلیم بھی اسی شہر سے مکمل کی۔ ادب اور صحافت کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا اور 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

    ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

    کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

    ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بلند پایہ محقق، نقّاد اور معلّم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تذکرہ

    بلند پایہ محقق، نقّاد اور معلّم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تذکرہ

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کا نام اردو زبان و ادب میں نہایت معتبر اور انھیں ایک قد آور شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ مشہور ادبی جریدے نگار کے مدیر تھے۔ جہانِ علم و ادب میں‌ انھیں ایک ماہرِ لسانیات، محقّق اور بلند پایہ نقّاد کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    فرمان فتح پوری 3 اگست 2013ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو ہمارا علمی و ادبی سرمایہ ہیں۔

    اردو کے اس نام وَر کی زندگی کے اوراق الٹیں‌ تو تاریخِ پیدائش 26 جنوری 1926ء اور متحدہ ہندوستان میں‌ ان کا آبائی علاقہ فتح پور بتایا جاتا تھا۔ اسی شہر کی نسبت ان کے نام سے ہمیشہ جڑی رہی۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کردیا۔

    تنقید اور تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر فتح پوری نے بڑا نام و مقام پایا۔ ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے انھیں‌ اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کرنے والے فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر عنوانات سے اپنا کام سامنے رکھا۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر نہایت مستند مانی جاتی ہے۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔

    مشہور ہے کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیش بہا خزانہ ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • عالمی شہرت یافتہ جین آسٹن کے ناولوں کو کس نے اسلوب عطا کیا؟

    انگریزی ادب میں جین آسٹن کو عظیم ناول نگار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈس کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز ہوئیں۔ اس ناول کو دنیا کے دس عظیم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جین آسٹن 1817 میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اس انگریز ناول نگار نے اپنی زندگی میں چھے ناول مکمل کیے تھے جن میں سے دو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ چند سال قبل جین آسٹن کے ناول ایما کا پہلا منقش ایڈیشن بھی ریکارڈ قیمت پر نیلام ہوا تھا۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل کتابیں‌ جین آسٹن کی معرفت این شارپ کے نام منقّش کی گئی تھیں۔ این شارپ، جین آسٹن کی دوست اور ان کی بھتیجی کی گورنس تھیں۔

    انگریزی زبان میں کلاسیکی ادب کے حوالے سے جین آسٹن کے فن اور اسلوب کو کئی اہم اور قابلِ ذکر نقادوں نے سراہا اور کہا کہ انھوں نے انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو سمجھا اور پھر نہایت خوب صورتی اور پُرتاثیر انداز میں اپنے ناولوں میں‌ پیش کیا۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انگریزی زبان و ادب کی ایک پروفیسر نے اپنے تحقیقی مطالعے کے بعد جین آسٹن کے صاحبِ اسلوب ہونے کو مسترد کرتے ہوئے انھیں‌ ایک ایسی مصنّف کے طور پر پیش کیا ہے جو اختراع پسند اور تجربات کرنے والی تھیں، اور ان کے مطابق وہ گفتگو اور مکالمہ نویسی پر زبردست گرفت رکھتی تھیں۔

    جین آسٹن ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ انھوں نے 1775ء میں‌ برطانیہ میں‌ آنکھ کھولی۔ ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جسے دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اردو میں‌ اس کے متعدد تراجم سامنے آئے۔ اردو میں اس ناول کو فخر اور تعصّب کے نام سے پیش کیا گیا۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ بھی شامل ہیں۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ سینس اینڈ سینسیبلٹی یعنی شعور و احساس اور نارتھینجر ایبے وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔

    مصنّفہ کے ناول کے کردار سماج اور اس کے اشراف ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ روایات، رویوں پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ کی اور آج بھی ان کے ناول اس دور کے برطانوی معاشرے اور وہاں‌ ہر خاص و عام کی اخلاقی حالت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

    جین آسٹن کی موت کے لگ بھگ دو صدی بعد آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین سودرلینڈ کی تحقیق میں دعویٰ یہ کیا گیا کہ اس معروف ناول نگار کا اسلوب ان کا اپنا نہیں بلکہ کسی مدیر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے جین آسٹن کی دستی تحریر پر مشتمل گیارہ سو صفحات کے مطالعے کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا۔ یہ مصنفہ کے غیر مطبوعہ اوراق تھے اور سودرلینڈ کے مطابق ان مسودوں پر دھبے اور کاٹ چھانٹ کے ساتھ ’گرامر کے لحاظ سے تصحیح‘ کی گئی ہے جس سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ ان کے مطابق ان مسودوں میں وہ سب نہیں‌ جو ایما جیسے ناول میں دکھائی دیتا ہے۔ سودر لینڈ کا خیال ہے کہ ادارت اور تصحیح کے لیے جین آسٹن کسی سے بھرپور مدد لیتی رہی ہوں‌ گی۔

  • شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    روسی ادب کے عظیم افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی تخلیقات آج بھی دنیا بھر میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    روسی ادب کے اس عظیم افسانہ نگار نے 29 جنوری 1860ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے اسے پالا پوسا۔ وہ اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ تھیٹر کا شوقین اور کہانیوں کا رسیا بن گیا۔ اسے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری کا موقع بھی ملا اور پھر اس نے قلم تھام کر کئی شاہ کار افسانے تخلیق کیے۔

    چیخوف نے ابھی بچپن کی دہلیز پار نہیں کی تھی کہ اس گھرانے کے مالی حالات بگڑ گئے اور اس یوں اسے غربت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انتون چیخوف کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے۔ وہ ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ پرندے پکڑ کر بیچنے لگا اور کسی طرح اسکیچ بنانا سیکھ کر اخبار کے لیے بامعاوضہ یہ کام بھی شروع کردیا۔

    اس زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لے لیا اور تب اسے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے زیادہ محنت اور مختلف کام بھی کرنے پڑے۔ وہ اپنی آمدنی سے گھر کی ضروریات بھی پوری کرتا تھا۔

    چیخوف جو اسکیچز بناتا تھا، وہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ کسی مسئلے کی نشان دہی کرتے تھے۔ اس کے اسکیچز کو بہت پسند کیا جانے لگا تھا اور یوں وہ یومیہ بنیاد پر اخبار کی اشاعت کا حصّہ بننے لگے تھے۔ وہ ان میں اپنے معاشرے کی کوئی نہ کوئی تصویر پیش کرتا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے لگا اور تھیٹر کے لیے بھی ڈرامہ تحریر کیا۔ اس کا ڈرامہ بہت پسند کیا گیا اور عوامی سطح پر پذیرائی کے بعد اس نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کردی۔

    ڈرامہ اور افسانہ نگاری کے ساتھ چیخوف تعلیمی مدارج بھی طے کرتا رہا اور 1884ء میں فزیشن بن گیا۔ وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا۔ تاہم بعد میں‌ مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروایا تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور وہ روس کا مقبول ترین ادیب بن گیا۔

    اس باکمال ادیب کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور اسی بیماری کے سبب ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلکیاں اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

  • سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے ذریعے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا گیا۔ 1887 میں‌ شایع ہونے والی اس کہانی کے مصنّف آرتھر کونن ڈویل تھے۔ اس مصنّف کا ‘تخلیق کردہ’ کردار آگے چل کر جاسوسی ادب کے شائقین میں‌ خوب مقبول ہوا۔ عام طور پر شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

    جب ڈویل کی کہانیوں کے دنیا بھر میں‌ تراجم ہوئے تو اس کردار کو خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔ ہندوستان میں بھی ڈویل کی کہانیوں کے اردو تراجم بہت شوق سے پڑھے گئے۔

    ڈویل نے شرلاک ہومز کے کردار پر مبنی تقریباً 50 کہانیاں تخلیق کیں جو سات کتابوں کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ مصنّف نے اس کردار کو اپنے چار ناولوں میں بھی شامل کیا تھا۔ آج سر آرتھر کونن ڈویل کا یومِ‌ وفات ہے۔

    سر آرتھر کونن ڈویل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ 1859 میں پیدا ہونے والے ڈویل مصنّف اور معالج کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ جاسوسی ادب تخلیق کرنے والے ان ادیبوں میں‌ سے تھے جنھیں جرائم کے جدید افسانوں کا بانی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا۔ ڈویل نے بہت سی نظمیں اور ڈرامے تحریر کیے تھے۔

    نو سال کی عمر میں اسکول جانے والے ڈویل نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1885 میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انھوں نے طبی پریکٹس کا آغاز کیا اور مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے والے ڈویل نے اس دوران کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ شارٹ اسٹوریز کی اشاعت نے مصنّف کو شہرت دی اور ناشروں نے اس کی کتابیں طبع کرنا شروع کردیں۔ کہانیوں کے مجموعوں کے ساتھ سر آرتھر ڈویل کے ناول بھی پسند کیے گئے۔

    7 جولائی 1930 کو اس برطانوی مصنّف نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں ترک سلطان کی جانب سے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کرانے پر "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔

    دنیا بھر میں آج بھی شرلاک ہومز کے مداح موجود ہیں اور ڈویل کی کہانیاں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں اس مصنّف کے مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی ادب اور زبان کے ایک محسن اور بڑے خدمت گار مرزا قلیچ بیگ آج بہی کے دن 1929 کو وفات پاگئے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ نے مختلف موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں‌ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ ولیم شیکسپیئر سمیت مختلف غیر ملکی ادیبوں‌ کی کہانیوں‌ کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اور علم و ادب کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔

    مرزا قلیچ بیگ کے تحریر کردہ ڈراموں کی تعداد 32 ہے جن میں‌ رومانوی، تاریخی، سماجی مسائل سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ نے 1880 میں پہلا ڈرامہ’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا تھا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’موہنی‘‘ تھا جو 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔

    پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول جن میں زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) شامل ہیں، کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔ انھوں نے مزاحیہ انداز میں بھی ڈرامے لکھے۔

    مرزا قلچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نومسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے سندھ لائے گئے تھے جہاں 4 اکتوبر 1853ء کو ان کے گھر مرزا قلیچ بیگ کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ انھوں نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور کام یابی کے بعد ہیڈ منشی بھرتی ہوئے۔ 1891 میں ایک امتحان پاس کرکے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران وہ اپنے علمی اور ادبی مشاغل اور تصنیف و ترجمہ کا شوق بھی پورا کرتے رہے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے آٹھ مختلف زبانوں میں 457 کتابیں تصنیف و تالیف اور تراجم کیے۔ ان کی کتب تاریخ، لطیفیات، شاعری، بچوں کا ادب، تنقید، سائنس کے علاوہ دیگر موضوعات پر تھیں۔ انھوں نے’’ زینت‘ ‘کے عنوان سے ناول لکھا جو پہلا سندھی ناول کہلاتا ہے۔ انھوں نے سندھی ادب سے متعلق 385 کتابیں لکھیں اور خطاب و القاب سے نوازے گئے۔

  • اردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہنے والے گوپی چند نارنگ کا تذکرہ

    اردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہنے والے گوپی چند نارنگ کا تذکرہ

    عصرِ حاضر میں گوپی چند نارنگ اردو زبان و ادب کا سب سے معتبر اور مستند حوالہ بنے۔ وہ بھارت ہی نہیں‌ پاکستان میں بھی اُس زبان کی پہچان ہیں جسے تقسیمِ ہند کے بعد بھی دونوں ممالک میں ادب اور فنون، تہذیب و ثقافت میں امتیاز حاصل ہے۔ گوپی چند نارنگ کو اردو کا سفیر کہا جاتا ہے۔ دانش وَر اور اردو زبان کے عظیم نقّاد گوپی چند نارنگ نے گزشتہ روز اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

    گوپی چند نارنگ ایک تغیّر نواز اور رجحان ساز نقّاد، محقق، ادیب، ماہرِ لسانیات تھے۔ دنیا میں جہاں جہاں اُردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے، وہاں گوپی چند نارنگ کو اردو کے بے لوث خدمت گزار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    بھارت سے تعلق رکھنے والے گوپی چند نارنگ نے اپنے علمی تجزیوں اور فکری مباحث سے اردو ادبی تنقید کو علم کی ایک شاخ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اردو کی 400 سالہ فکری اور تہذیبی تاریخ کو اپنی تحقیق اور تنقید کا موضوع بنایا۔ ان کی تخلیقات ’ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ اور ’ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اردو شاعری‘ نے نہ صرف اردو نثر اور شاعری کی باریکیوں کو بلکہ سماجی و ثقافتی سیاق و سباق کو بھی سمجھنے کا موقع دیا۔

    گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931 کو بلوچستان کی تحصیل دُکّی میں پیدا ہوئے۔ وہ ابھی سال بھر کے تھے کہ ان کا خاندان موسیٰ خیل چلا گیا۔ ان کے بزرگوں کا تعلق مغربی پنجاب میں‌ لیّہ اور قرب و جوار سے تھا۔ گوپی چند نارنگ نے اس بارے میں‌ لکھا ہے:

    ’’کچھ یاد نہیں دُکّی کیسا گاؤں یا شہر تھا، البتہ موسیٰ خیل کے کچھ دھندلے سے نقش ذہن کی سلوٹوں میں ابھی باقی ہیں۔ تحصیل کے مکانوں کے پیچھے کا بڑا سا باغ جس میں انار، ناشپاتی اور شفتالو کے درخت اور انگور کی بیلیں تھیں۔ چاروں طرف چھوٹے بڑے پہاڑ، مختصر سا بازار جس میں ڈاک کی لاری رُکا کرتی تھی۔ سب بچّے اسی میں چڑھ جاتے اور ڈاک گھر سے بازار تک کی سیر کرتے۔ مغرب میں پتھریلی سڑک تھی جو فورٹ سنڈے من کو جاتی تھی۔ اسی کے راستے میں ندی پر وہ پُل تھا جس کے نیچے گہرے نیلے پانی میں ہم کنکر پھینکتے تو مچھلیوں کے سنہرے پر چمکنے لگتے۔‘‘

    ان کے والد بلوچستان میں ریونیو سروس میں افسر خزانہ کے عہدے پر فائز تھے۔ انھوں نے اُردو کا پہلا قاعدہ عبدالعزیز صاحب سے پڑھا۔ پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لیّہ ضلع مظفر گڑھ چلے گئے۔ اُردو اُن کا لازمی مضمون تھا اور سنسکرت اختیاری۔ مڈل کا امتحان انھوں نے اچھے نمبروں سے پاس کیا اور یہاں پر اُردو کی تعلیم مولوی مرید حسین صاحب سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کرکے نکلے۔ بعد میں‌ سنڈے کالج کوئٹہ سے تعلیم حاصل کی۔ ایف اے اور بی اے کے بعد 1952 میں گوپی چند نارنگ نے دہلی کالج میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور پھر دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    1957 میں درس و تدریس سے منسلک ہوئے اور بھارت کے کئی تعلیمی اداروں‌ میں‌ فرائض انجام دیے جب کہ ملک سے باہر بھی انھیں‌ جامعات میں‌ تدریس اور اہم عہدوں‌ پر خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ کئی اداروں کے سربراہ اور اعزازی رکن رہے اور بے شمار سیمینارز اور اردو کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ ہونے والی تقریبات میں انھیں خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا۔ اردو کی محبّت میں‌ انھوں نے لکھا:

    ’’اُردو ہماری صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے، یہ ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کا وہ ہاتھ ہے، جس نے ہمیں بنایا اور سنوارا ہے، یہ ہماری ثقافتی شناخت ہے جس کے بغیر نہ صرف ہم گونگے بہرے ہیں بلکہ بے ادب بھی۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اُردو کو محض ایک زبان کہنا اُردو کے ساتھ بے انصافی کرنا ہے، یہ ایک طرزِ حیات، ایک اسلوبِ زیست، ایک اندازِ نظر یا جینے کا ایک سلیقہ و طریقہ بھی ہے، اس لیے کہ اُردو صدیوں کے تاریخی ربط و ارتباط سے بنی ایک جیتی جاگتی زندہ تہذیب کا ایک ایسا روشن استعارہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم بر صغیر کی زبانوں میں نہیں۔

    اُردو میری مادری زبان نہیں، میری ددھیال اور ننھیال میں سرائیکی بولی جاتی تھی، میری ماں دہلی ہجرت کے بعد بھی سرائیکی بولتی تھیں جو نہایت میٹھی، نرم اور رسیلی زبان ہے۔ لیکن مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میری مادری زبان سے دور ہے۔ اُردو نے شروع ہی سے دوئی کا نقش میرے لاشعور سے مٹا دیا۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ اُردو میرے خون میں جاری و ساری نہیں۔ یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اُردو میری ہڈیوں کے گودے تک کیسے اُترتی چلی گئی، یقیناً کچھ تو جادو ہوگا۔ تاج محل کا کرشمہ مثالی ہے، میں اُردو کو ’زبانوں کا تاج محل‘ کہتا ہوں اور اکثر میں محسوس کرتا ہوں۔ زبان میرے لیے رازوں بھرا بستہ ہے۔ کیسے ہند آریائی کے بستے میں عربی فارسی ترکی کے رنگ گھلتے چلے گئے اور کیسے ایک رنگا رنگ دھنک بنتی چلی گئی کہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کے طول و عرض میں وہ آج ’لنگوافرینکا‘ بھی ہے اور ایک ایسا ادبی اظہار بھی جس کے رس اور بالیدگی کو دوسری زبانیں رشک کی نطر سے دیکھتی ہیں۔‘‘

    گوپی چند نارنگ کا تخلیقی سفر افسانہ نگاری سے شروع ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ کوئٹہ شہر کے ہفتہ وار اخبار ’’بلوچستان سماچار‘‘ میں اُس وقت شائع ہوا تھا جب وہ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ رسائل میں لکھنے کی لت لڑکپن میں پڑ چکی تھی۔ جب 1947 میں وہ دہلی آئے تو یہاں پر بھی اُن کے متعدد افسانے ’بیسویں صدی‘ اور ’ریاست‘ جیسے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ 1953 کے بعد گوپی چند نارنگ نے افسانہ نگاری کی دُنیا کو ترک کرکے تحقیق و تنقید کی دُنیا میں قدم رکھا۔ اُن کا اوّلین مضمون ’اکبر الٰہ آبادی سخن فہموں اور طرف داروں کے درمیان‘ رسالہ ’نگار‘ میں جون 1953 میں شائع ہوا اور اُن کا تخلیقی و تنقیدی سفر تادمِ مرگ جاری رہا۔

    ان کی پہلی تصنیف ’ہندوستانی قصّوں سے ماخوذ اردو مثنویاں‘ ہے جو پہلی بار 1959 اور دوسری بار 1961 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر نارنگ صاحب کو 1962 میں ’غالب ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک نارنگ صاحب کی تقریباً پانچ درجن سے زیادہ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔

    زندگی کی 91 بہاریں‌ دیکھنے والے گوپی چند نارنگ نے امریکا میں‌ وفات پائی۔ وہ شمالی کیرولائنا میں مقیم تھے۔