Tag: ادیب انتقال

  • شاہد حمید:‌ اردو زبان و ادب کا محسن

    شاہد حمید:‌ اردو زبان و ادب کا محسن

    شاہد حمید کا شمار اردو کے اہم ترین مترجمین میں ہوتا تھا۔ ماہرِ لسانیات اور مصنّف شاہد حمید نے غیرملکی ادب سے نہایت معتبر اور وقیع کتب کو اردو میں‌ ڈھالا اور ترجمے جیسے فن کی آب یاری کی جس کے لیے زبان و بیان پر مہارت ہی نہیں بڑی محنت اور ریاضت، توجہ اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔

    شاہد حمید نے 29 جنوری 2018ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ ان کی عمر 90 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    جالندھر کے شاہد حمید 1928ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے جہاں‌ گورنمنٹ کالج سے انگریزی میں ایم اے کیا اور تدریس کا پیشہ اختیار کر لیا۔ 1988ء میں بہ حیثیت مدرس ریٹائر ہوگئے۔ فکشن کے تراجم ساتھ ان کا ایک اور اہم کام دو ہزار صفحات پر مشتمل انگریزی اردو ڈکشنری تھی۔

    انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہا تھا: یقین کرنا مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوا یہ غیرمعمولی کام ایک اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔ ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود نے انھیں ایک حیرت خیز آدمی قرار دیا تھا۔

    مسعود اشعر نے مرحوم سے متعلق لکھا، "اس کی عملی زندگی کا آغاز تو ایک استاد کی حیثیت سے ہوا تھا۔ پاکستان آکر اس نے سب سے پہلے ایک اسکول میں ہی نوکری کی تھی۔ پھر وہ ایسا استاد بنا کہ کئی اخباروں میں کام کرنے کے باوجود ہمیشہ استاد ہی رہا۔ اس کے استاد ہونے کی یہ حیثیت اس کے ترجموں میں بھی نظر آتی ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، وہ اپنے ترجموں کی وجہ سے ہی علمی اور ادبی حلقوں میں مشہور ہوا۔ لیکن یہ ترجمے ایسے نہیں جیسے دوسرے ترجمہ کرنے والے کرتے ہیں۔ یہ ایک استاد کے ترجمے ہیں۔ اب وہ ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کا ترجمہ ہو، یا دوستوسکی کے ناولوں برادر کرامازوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ کا، یا جین آسٹن کے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈائس کا، یہ صرف ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ ان ناولوں میں جہاں تاریخی واقعات کا حوالہ آیا ہے، یا عیسائی عقیدے کا ذکر ہے، یا پھر کسی علاقے کا بیان ہے، یا کسی تاریخی خاندان کے احوال ہیں، وہاں ترجمہ کر نے والا یہ استاد اپنے پڑھنے والے پر ہی نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ خود ہی اس کے متعلق معلومات حاصل کرتا پھرے بلکہ وہ بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرتا ہے اور پورے کے پورے صفحے حاشیوں سے بھر دیتا ہے۔”

    شاہد حمید کو کلاسیکی لٹریچر کو اردو کے قالب میں ڈھالنے پر ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے ناولوں کی تاریخ کے تین بڑے شاہ کاروں کا ترجمہ کیا، جنھیں ناقدین نے معیاری اور نہایت معتبر ٹھہرایا۔ ان ناولوں کا ترجمہ کرنے میں انھوں نے کئی برس صرف کیے۔ انھوں نے جسٹس گارڈر کے ناول سوفی کی دنیا اور ہیمنگ وے کے شاہ کار ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ کو بھی اردو کا روپ دیا۔

    ان کی یادداشتوں‌ پر مبنی کتاب بھی ’’گئے دن کی مسافت’‘ کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے۔

  • ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق، ماہرِ اقبالیات اور جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کو برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان سے ان کی محبّت اور شعر و ادب سے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے مضمون نگاری کے ساتھ اردو زبان کے کئی ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا جرمن میں ترجمہ کیا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    وہ متعدد بار پاکستان آئیں جہاں علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا۔ ڈاکٹر شمل 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    ان کی زندگی کا سفر 26 جنوری 2003ء کو تمام ہوا۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف میں انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔

  • یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر رکھے ٹائپ رائٹر میں اسے عجیب کشش محسوس ہوتی تھی۔ قلم اور کورے کاغذ گویا اپنی جانب کھینچتے اور ڈاک کے خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے وہ بے چین ہوجاتا تھا۔ اس کا محبوب مشغلہ ان لفافوں پر درج نام اور مختلف پتے پڑھنا تھا۔ یہ جان اپڈائیک کی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔

    اس کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں گھر میں موجود تھیں اور اپڈائیک کو اکثر ان کی زبانی علمی و ادبی مباحث سننے کا موقع ملتا تھا۔ اسی ماحول کا اثر تھا کہ اس نے کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

    ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد وہ اس قابل ہوگیا کہ بچّوں کا ادب پڑھ سکے۔ اسی مطالعے نے اس کم عمر کے تخیل کو مہمیز دی اور ایک دن اس نے قلم تھام کر اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کر دیا۔ نوعمر اپڈائیک نے اس پہلی کاوش کے بعد ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ یہ تخلیقی کاوشیں والدین کے سامنے رکھیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور بیٹے کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں خصوصاً والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا اور وہ وقت بھی آیا جب دنیا بھر میں وہ اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    جان اپڈائیک کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے بچپن کی لفظی جھلکیاں آپ کی نظر سے گزری ہیں، جو یقیناً عام بچّوں کے مقابلے میں بہت مختلف تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، مگر والدین کی بھرپور توجہ اور ہمّت افزائی نے انہیں کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک اپنے قلمی سفر کی ابتدا سے متعلق لکھتے ہیں۔

    ’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

    18 مارچ 1932ء کو آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے ہر بچّے کی طرح ابتدائی عمر میں مہم جوئی پر مبنی کہانیوں، طلسماتی اور تجسُس سے بھرپور اسٹوریز میں دل چسپی لی۔ ذرا شعور آیا تو خود بھی مختلف موضوعات پر لکھنے لگے اور جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔

    عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

    دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انہوں نے اسکیچ اورکارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

    انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

    جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کرچکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ طرزِ تحریر ایسا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

    جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔

    اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔

    اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ان کی زندگی کا آخری ناول 2008ء میں منظرِ عام پر آیا اور اگلے برس 27 جنوری کو پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث جان اپڈائیک نے زندگی ہار دی۔

    (مترجم: عارف عزیز)

  • جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    ایرک آرتھر بلیئر کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے اور ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ ایرک یہیں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان گئے اور کبھی ہندوستان واپس نہیں‌ لوٹے، لیکن کئی برس بعد ایرک آرتھر بلیئر کو ان کے قلمی نام جارج آرویل سے ہندوستان بھر میں‌ پہچانا گیا۔ وہ ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    1903ء میں برطانوی راج میں پیدا ہونے والے جارج آرویل بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جنھوں‌ نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا اور قلم کی طاقت کو آزماتے ہوئے قابلِ‌ ذکر تصانیف قارئین کے سامنے رکھیں۔

    1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں ان کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا اور ناول کا اردو اور متعدد دیگر زبانوں میں‌ ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    اسی طرح 1949ء میں انھوں نے ایک خیالی دنیا پر ”1984“ کے عنوان سے ناول سپردِ قلم کیا جو شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    انگریزی کے اس مشہور مصنّف اور صحافی نے 21 جنوری 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔

  • جب نام وَر بھارتی ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھولی!

    جب نام وَر بھارتی ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھولی!

    اپندر ناتھ اشک معاشرت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے سماج کی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے سیاست کو بھی اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا جن پر اخلاقی اور اصلاحی رنگ غالب رہا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو زبان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔

    اشک کا تعلق بھارت سے تھا۔ انھوں نے 14 دسمبر، 1910ء کو جالندھر میں آنکھ کھولی۔ 1930ء تک لاہور میں رہائش پزیر رہے اور بعد میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز پنجابی شاعری سے ہوا۔ بعد میں وہ مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے لگے۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ ایک بڑا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزرا اور جب بمبئی میں رہائش اختیار کی تو فلم نگری سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے لکھنے کے بعد انھوں نے کئی فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے بھی تحریر کیے۔

    اپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ ان کے زرخیز ذہن اور قلم کی روانی نے اردو افسانے کے ذخیرے میں بہت اضافہ کیا۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔ ان کے افسانوں پر ناصحانہ اور اخلاقی رنگ غالب رہا۔

    19 جنوری 1996ء کو انھوں نے الٰہ آباد، ہندوستان میں وفات پائی۔ ان کی عمر 85 سال تھی۔ اپندر ناتھ اشک کے بارے میں معروف صحافی، نام ور محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ایک مضمون میں لکھا تھا:

    "اچھے زمانوں میں ایک مضمون پڑھا تھا جو ہمیشہ یاد رہا۔ عنوان تھا ’منٹو میرا دشمن‘۔ مصنف تھے اُپندر ناتھ اشک۔ ترقی پسندوں کی انقلابی تحریک میں اردو افسانے کا پرچم اٹھائے آگے آگے چلنے والوں میں یادگار شخصیت۔ قلم پر ایسی گرفت تھی کہ دشمن کا نام دے کر ایسے مثالی دوستی کے پُل باندھے کہ اس ہنر مندی پر عقل عرصے تک حیران رہی۔”

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری کو اردو تنقید کے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نقّاد، مترجم اور افسانہ نگار تھے جن کا کام نہایت وقیع اور مستند ہے۔ ان کے نگارشات کے پس منظر میں اردو تنقید نے کئی محاذ سر کیے اور نئی دنیا بسائی۔

    18 جنوری 1978ء کو اردو تنقید نگاری کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ان کی غیرمعمولی تحریریں اور تنقیدی مضامین اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    محمد حسن عسکری قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے، کچھ عرصے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے اور ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی، وہ تمام عمر تدریس کے ساتھ تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں انھیں فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    انھوں نے تنقید کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔

    وہ کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • لاہور کا چیلسی لکھنے والے حکیم احمد شجاع کون تھے؟

    لاہور کا چیلسی لکھنے والے حکیم احمد شجاع کون تھے؟

    آج حکیم احمد شجاع کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ انشا پرداز، افسانہ نگار، شاعر اور ڈراما نویس کی حیثیت سے اردو ادب میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔

    4 جنوری 1969ء کو لاہور میں وفات پانے والے حکیم احمد شجاع کی پیدائش کا سن 1896ء ہے۔ انھوں نے لاہور سے میٹرک اور ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کیا۔ میرٹھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی اور شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔

    1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہوئے اور وہاں سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ وہ مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول ہی نہیں فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد اور اسلوب شان دار تھا۔ خوں بہا کے نام سے ان کی ایک خود نوشت بھی شایع ہوئی۔ حکیم احمد شجاع نے لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی تاریخ کو لاہور کا چیلسی کے نام سے رقم کیا۔

    وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • انگریزی کے مشہور شاعر اور نقّاد ٹی ایس ایلیٹ کا تذکرہ

    انگریزی کے مشہور شاعر اور نقّاد ٹی ایس ایلیٹ کا تذکرہ

    1917ء سے 1964ء تک ٹی۔ ایس ایلیٹ انگریزی ہی نہیں عالمی ادب میں‌ بھی ایک عظیم شاعر اور نقّاد کے طور پر پہچان بنانے میں‌ کام یاب رہا۔ وہ 4 جنوری 1965ء کو 77 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا

    انگریزی زبان کا یہ مشہور شاعر اور نقّاد 1888ء میں‌ سینٹ لوئیس، امریکا میں پیدا ہوا۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کا پروفیسر مقرر ہوگیا۔ 1915ء میں وہ برطانیہ چلا گیا اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    ٹی ایس ایلیٹ نے 1922ء میں ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا جو آٹھ سال بعد ہو گیا۔ اسے 1948ء میں ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ اگرچہ اس کے افکار اور مضامین پر اسے کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ادب پر اس کی تنقید کے اثرات کم نہیں‌ ہوئے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں شاعری کا پروفیسر مقرر ہو گیا۔ اس وقت تک وہ اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کے سبب مشہور ہوچکا تھا۔ اس نے متعدد منظوم ڈرامے لکھے اور اپنے تنقیدی نظریات کے سبب دنیا بھر میں‌ نام کمایا۔

    اس نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں تنقیدی مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے اور جب ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ کے عنوان سے مضمون سامنے آیا تو اس نے کئی مباحث کو جنم دیا۔ اس کی تحریروں میں مذہب اور معاشرے کی تہذیبی و اخلاقی اقدار کو اہمیت دی گئی ہے۔ ایلیٹ روایت کا دلدادہ تھا۔ اسے رومانوی شاعری سے نفرت تھی۔

    معروف ادیب، محقّق اور نقّاد جمیل جالبی نے لکھا کہ ”ایلیٹ سے میری دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ اس نے تنقید میں فکر کو جذب کر کے اسے ایک نئی قوّت دی ہے، اس لیے ان کی تنقید تاثراتی نہیں ہے اور اس کا طرزِ تحریر، تجزیہ و تحلیل حد درجہ سائنٹفک ہے۔ وہ اپنے خوب صورت جمے ہوئے انداز میں ٹھنڈے ٹھنڈے باوقار طریقے سے بات کرتا ہے۔ قدیم شعراء میں سے چند کو خاص دل چسپی کا محور بنا لیتا ہے۔ اور وہ ایسے شعراء ہیں جنھوں نے ماضی سے شدّت کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑا ہے۔“

  • البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو نے 1913ء میں الجزائر میں‌ آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں فرانسیسی قابض تھے اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہاں کے عوام نے آزادی حاصل کی تھی۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کے قبضے کے بعد وہ خاصا متحرک رہا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں اس نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا تخلیقی سفر بھی طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے بھی شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کتابیں‌ تصنیف کیں۔ اسے 1957ء میں‌ ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے مختلف کام کر کے گزر بسر کرنا پڑی۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بنایا۔ اس نے الجیریا میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ایسے مریضوں‌ سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کیا اور اس نے اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کے اس فلسفی اور ناول نگار نے 4 جنوری 1960ء کو ایک حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا تھا۔

  • عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد جنھوں نے انگریزی زبان میں‌ اسلامی علوم اور ہندوستانی ثقافت پر اہم کتابیں تصنیف کیں

    عزیز احمد اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مترجم تھے۔ انھیں‌ عالمی سطح پر اسلامی تاریخ و ثقافت کے ماہر اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    عزیز احمد 16 دسمبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے ضلع بارہ بنکی کے علاقے عثمان آباد سے تھا۔ وہ 11 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    عزیز احمد نے ہندوستان کی عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور بعد میں لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ہجرت کی اور کراچی آگئے جہاں‌ وزارتِ اطلاعات سے منسلک ہوئے۔ 1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ 1960ء میں انھیں‌ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامی علوم سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور تا دمِ آخر وہ پروفیسر کی حیثیت سے اسی جامعہ سے وابستہ رہے۔

    پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقصِ ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں کے علاوہ گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی جیسے ناول شامل ہیں۔

    وہ ایک محقق اور مضمون نگار بھی تھے جنھوں نے اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی انگریزی زبان میں متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ عزیز احمد نے انگریزی کی کئی شاہ کار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔

    عزیز احمد کا ادبی سفر ان کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ انھوں نے تراجم کے ساتھ طبع زاد افسانہ بھی شایع کروایا اور ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرتے چلے گئے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی میں عزیز احمد نے برصغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے حوالے سے گراں قدر کام کیا اور اس ضمن میں ان کی دو کتابوں ”اسلامی کلچر ہندوستانی ماحول میں“ اور ”ہندوستان میں اسلام کی علمی تاریخ“ کو بہت شہرت ملی۔ ان انگریزی کتب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کیا۔

    وفات کے بعد انھیں ٹورنٹو ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔