Tag: ادیب انتقال

  • اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو پطرس بخاری کے قلم نے انشائیوں کے ساتھ بیک وقت مزاح، بہترین تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم دیے، لیکن وہ صرف اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت میں‌ جیّد، صدا کاری و شعبۂ نشریات میں‌ ماہر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار بھی کہلائے۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    1898ء میں‌ پشاور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنے قلمی نام پطرس بخاری سے شہرت پائی۔ وہ اردو، فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا انگریزی زبان کا درست تلفّظ مشہور تھا۔

    احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم و ادب کے شوق کے سبب کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج گئے جہاں ان کی دل چسپی اور رغبت انگریزی شعروادب میں‌ بڑھی اور انھوں نے انگریزی کے ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہندوستان واپس آکر بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور دوسرے ادیبوں کو بھی ترجمے اور تالیف کی طرف راغب کیا۔

    ان کی ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی نے انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے ناظمِ اعلیٰ کے منصب پر پہنچایا، لیکن ان کی اردو سے محبّت اور ریڈیو پر ان کے بعض فیصلوں نے انھیں غیرمقبول اور بعض‌ شخصیات کی نظر میں‌ ناپسندیدہ بنا دیا اور وہ سازشوں اور شکایات کی وجہ سے تنگ آگئے اور جب انھیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا تو انھوں نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور باصلاحیت ہی نہیں‌ ذہین، مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔ اسی زمانے میں ان کا انتقال ہوا۔ 5 دسمبر 1958ء کو پطرس بخاری نیویارک میں چل بسے۔

    پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی اے کرنے کے بعد 1922ء میں لاہور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انھوں نے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔

    وطن واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے وابستہ رہے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔

    ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں کے علاوہ ان کے کئی شگفتہ مضامین اور خطوط بالخصوص قارئین میں مقبول ہیں۔

  • منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    منشی ہر سُکھ رائے کا تذکرہ جنھیں ‘کوہِ نور’ کی بدولت ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی

    ‘کوہِ نور’ کی بدولت منشی ہر سُکھ رائے نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی اور اردو زبان و ادب کے فروغ اور تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ ایک راست گو اور نڈر صحافی تھے جنھوں‌ نے برطانوی دور میں‌ پنجاب کے شہر لاہور سے اردو کا پہلا ہفت روزہ اخبار کوہِ‌ نور جاری کیا تھا۔

    غیر منقسم ہندوستان کے اس نام وَر صحافی نے میرٹھ سے جاری ہونے والے اخبار جامِ جمشید کی ادارت کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد 1850ء میں لاہور سے حکومتی سرپرستی میں اخبار کا اجرا کیا تھا۔ وہ لاہور کی ایک بے حد مقبول شخصیت تھے۔ انھیں اس شہر کا میونسپل کمشنر بھی مقرر کیا گیا۔

    منشی ہر سکھ رائے کا سنِ پیدائش 1816ء ہے۔ وہ سکندر آباد، ضلع بلند شہر کے باسی تھے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی روایات کا حامل تھا۔ ہر سکھ رائے نے اردو اور فارسی ادب کی تعلیم حاصل کی۔ جوانی میں لاہور آئے اور پنجاب کے بورڈ آف ایڈمنسڑیشن کی سرپرستی میں ہفت روزہ جاری کیا جو حکومت کی پالیسی کی حمایت کرتا تھا۔ یوں‌ انھیں انگریزوں‌ کا بہی خواہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا، لیکن ہر سُکھ رائے ان لوگوں میں سے تھے جو مغربی تہذیب سے خوف زدہ ہوکر اور جدید تعلیم سے محروم رہ کر ہندوستان کی ترقیّ اور خوش حالی کا خواب دیکھنے کو بے سود سمجھتے تھے۔ انھوں نے 2 دسمبر 1890ء کو وفات پائی۔

    منشی ہر سُکھ رائے ایک بلند فکر اور روشن خیال شخصیت اور صاف گو انسان تھے۔ وہ اخبار کو ملک و قوم کی بقا اور عوام کی خدمت کا مؤثر ترین ذریعہ سمجھتے تھے۔

    1857ء میں غدر سے ایک سال قبل ہر سُکھ رائے کو ایک مقدمہ میں اچانک گرفتار کرلیا گیا اور انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی برس انھوں نے لاہور سے ایک رسالہ خورشیدِ پنجاب بھی جاری کیا تھا جو 50 صفحات پر مشتمل تھا۔ ادھر کوہِ نو کی اشاعت میں فرق نہیں آیا اور اسے منشی ہیرا لعل باقاعدگی سے نکالتے رہے۔منشی ہر سُکھ رائے کو حکومت کے ایک فیصلے کے بعد دو سو روپے کے عوض رہائی ملی تو وہ پھر اردو زبان اور صحافت کو فروغ دینے اور تعلیم کو عام کرنے کے لیے میدان میں متحرک ہوگئے۔

    وہ ادبی مجالس اور ہفتہ وار مشاعروں کے انعقاد کے لیے بھی مشہور تھے۔ ان کے اخبار میں اردو زبان و ادب پر مضامین اور شاعری باقاعدگی سے شایع ہوتی تھی جس نے انھیں اردو زبان کے ایک شیدائی اور مخلص کے طور پر پہچان دی جب کہ ان کی ملک گیر شہرت کا باعث بننے والا ہفت روزہ کم وبیش 54 سال تک جاری ہوتا رہا۔ کوہِ نور 1904ء میں بند کردیا گیا تھا۔

  • اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    افسانوی ادب بالخصوص تاریخی ناول نگاری کے لیے ایم اسلم کا نام اردو کے مشہور و معروف تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ افسانہ نگار اور شاعر بھی تھے۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ خیر خواہ و مخیّر شخص کے طور پر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہاں‌ انھیں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے ایم اسلم کو عزیز رکھا اور ان کے ادبی ذوق و شوق کو سنوارا۔ ان کی تربیت میں اقبال کا کردار اہم رہا۔ ایم اسلم کو نثر نگاری کی جانب کی طرف متوجہ کرنے والے علاّمہ اقبال ہی تھے۔

    ایم اسلم نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کے تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے تنقیدی مضامین اور افسانے بھی لکھے اور جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہ ان کی خاص شناخت بن گئی۔

    ان کے افسانوں اور ناولوں میں رومان، حقیقت، حزن و طرب نمایاں ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے اور روایات بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

    ایم اسلم کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروسِ غربت، معرکۂ بدر، فتح مکّہ، صبحِ احد، جوئے خون، بنتِ حرم، فتنۂ تاتار، رقصِ ابلیس، مرزا جی کے نام شامل ہیں جب کہ ان کے افسانوں کے مجموعے صدا بہ صحرا، نغمۂ حیات اور گنہگار کے نام سے شایع ہوئے۔

    ایم اسلم نے انگریزی سے تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ بھی کیا۔ اردو کے اس مشہور ادیب اور شاعر نے 23 نومبر 1983ء کو وفات پائی۔

  • سیرتُ النّبی کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا یومِ وفات

    سیرتُ النّبی کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا یومِ وفات

    نام ور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور متعدد قابلِ قدر کتابوں کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا آج یومِ وفات ہے۔

    برصغیر میں علم و فضل، تدبر اور اپنی تحریر کے سبب ہم عصروں میں ممتاز ہونے والی شخصیات میں سید سلیمان ندویؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ اسلامیانِ ہند میں اپنی مذہبی اور دینی خدمات کے سبب بھی قابلِ احترام ہستی کا درجہ رکھتے تھے اور آج بھی ان کا نام و مرتبہ قائم ہے۔

    ہندوستان کے مشہور عالم، ادیب اور شاعر علّامہ شبلی نعمانی کے اس قابل و باصلاحیت شاگرد کا سب سے بڑا کارنامہ سیرتُ النّبی پر وہ جلدیں‌ ہیں‌ جن پر شبلی نعمانی نے کام کا آغاز کیا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہ دو جلدیں ہی لکھ سکے۔ 1914ء میں ان کے انتقال کے بعد باقی چار جلدیں سیّد سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس کے لیے نہایت تحقیق کی ضرورت تھی اور اس کام کو بلاشبہ سیّد سلیمان ندوی نے خوبی سے ادا کیا۔ وہ دارُالمصنّفین، اعظم گڑھ کا قیام عمل میں لائے اور ایک ماہ نامہ معارف کے نام سے شروع کیا۔

    صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہونے والے سید سلیمان ندوی نے 1901 میں دارالعلوم ندوۃُ العلما میں داخلہ لیا جہاں وہ علاّمہ شبلی نعمانی کے شاگرد اور خاص رفیق بنے۔ ایک قابل اور نہایت شفیق استاد کی صحبت نے سیّد سلیمان ندوی کی بھی شخصیت کی تعمیر اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ استاد کی وفات کے بعد وہ ان کے قائم کردہ ادارے ندوۃُ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے اور اسی دوران سیرتُ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے تاریخ و تذکرہ نگاری پر عرب و ہند کے تعلقات، حیاتِ شبلی، حیاتِ امام مالک، مقالات سلیمان، خیّام، دروس الادب، خطباتِ مدراس نامی کتب تصنیف کیں۔

    انھوں نے 1950ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہوئے۔ یہاں بھی اپنے مذہبی و علمی مشاغل جاری رکھے اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تعلیماتِ اسلامی بورڈ کا صدر مقرر کیا گیا۔ سیّد سلیمان ندوی نے کراچی میں 22 نومبر 1953ء کو وفات پائی۔

  • شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    آج پاکستان کی ایک نہایت عالم فاضل اور قابل شخصیت ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا یومِ وفات ہے۔ 1958ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوجانے والے عمر بن داؤد پوتہ کو ماہرِ تعلیم، محقّق، معلّم، ماہرِ لسانیات اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ سندھ میں‌ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور شمسُ العلما کا خطاب پایا۔ ان کا تعلق سیہون، دادو کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ عمر بن محمد داؤد پوتہ نے 25 مارچ 1896ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شان دار رہا۔ انھوں نے ہر امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    1917ء میں سندھ مدرستہُ الاسلام کراچی سے میٹرک کے امتحان میں انھوں نے سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1921ء میں ڈی جے کالج کراچی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1923ء میں انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا جس کے بعد حکومتِ ہند نے انھیں اسکالر شپ پر انگلستان بھیج دیا۔ وہاں ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتہ نے کیمبرج یونیورسٹی میں’’فارسی شاعری کے ارتقا پر عربی شاعری کا اثر‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ تحریر کیا اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    انگلستان سے وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ میں مختلف اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جن میں سندھ مدرستہُ الاسلام کی پرنسپل شپ بھی شامل تھی۔ 1939ء میں صوبۂ سندھ میں محکمۂ تعلیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تقرری عمل میں آئی اور برطانوی سرکار نے 1941ء میں انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنھیں انگریز حکومت کی جانب سے یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور تواریخ ’’چچ نامہ‘‘ اور’’ تاریخ معصومی‘‘ کی ترتیب ہے۔ انھوں‌ نے عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں 28 کتب یادگار چھوڑیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبدُاللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں سپردِ ‌خاک کیا گیا۔

  • انشا پرداز اور بلند پایہ ادیب غلام رسول مہر کا یومِ وفات

    انشا پرداز اور بلند پایہ ادیب غلام رسول مہر کا یومِ وفات

    غلام رسول مہر اردو زبان و ادب کی ایک ہمہ صفت شخصیت تھے جنھوں نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ ایک انشا پرداز، بلند پایہ ادیب، شاعر، نقّاد، مترجم، مؤرخ، محقّق اور صحافی کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت مل گئی اور وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور و مقبول اخبار زمین دار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار میں‌ شایع ہوئے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔ انھوں ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی تھی جسے ادب کے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ان کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ دل کشی و روانی، طنز و مزاح، استدلالیت اور منطقیت کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    لاہور میں‌ وفات پانے والے غلام رسول مہر کو مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    مشہور افسانہ ’’آنندی‘‘ اردو ادب کے ہر شائق اور قاری نے ضرور پڑھا ہو گا۔ غلام عبّاس نے اپنے اس افسانے میں معاشرے کی زبوں حالی کی تصویر کشی کی ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل جن افسانہ نگاروں نے نام و پہچان بنائی، ان میں غلام عبّاس بھی شامل ہیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    غلام عبّاس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ والد کی اچانک موت کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ وہ مطالعے کے شوقین تھے اور خود بھی لکھتے تھے۔ جلد ہی لاہور کے ادبی جرائد میں اُن کے تراجم شائع ہونے لگے۔ یوں ان کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1938ء میں غلام عباس دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے افسانہ ’’آنندی‘‘ لکھا۔ بھارت کے مشہور ہدایت کار شیام بینیگل نے اسی افسانے سے متاثر ہو کر فلم ’’منڈی‘‘ بنائی تھی۔

    1948ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ بھی ’’آنندی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا ایک اور یادگار افسانہ ’’حمام میں‘‘ بھی شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غلام عباس پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان کا جریدہ ’’آہنگ‘‘ شروع کیا۔ 1949ء میں وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے اور بعد میں بی بی سی سے منسلک ہو گئے۔

    1952ء میں لندن سے واپسی پر انھوں نے دوبارہ ریڈیو پاکستان سے ناتا جوڑا اور 1967ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ 1960ء میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ شائع ہوا جس پر انھیں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ 1969ء میں اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ شائع ہوا۔ ان کا افسانہ ’’دھنک‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ 1986ء میں اپنے افسانے ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کیا۔

    وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر بھی رہے۔ بچّوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

    2 نومبر 1982ء کو غلام عبّاس نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو زبان و ادب میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے علاوہ انھیں تدوین و تالیف، تراجم، تنقید اور ان کے تحقیقی کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    لسانیات اور اصطلاحات کے میدان میں ان کی وقیع و مستند کاوشوں نے انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ آج شان الحق حقّی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان کی اس ممتاز شخصیت کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی ہی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

    شان الحق حقّی کے علم و ادب ذوق و شوق نے انھیں لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں میں وہ مختلف رسائل و جرائد کے مدیر رہے، پاکستان میں محکمہ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی میں ملازمت کے دوران انھوں نے بڑا اہم کام کیا۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ کثیراللسان محقق تھے۔

    اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری بھی مرتّب کی تھی۔

    تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، اور انجان راہی آپ کی اہم کاوشیں ہیں۔ وہ ایک ایسے ادیب اور شاعر تھے جس نے متنوع اور ہمہ گیر تخلیقی کام کیا۔

    1958ء میں اردو لغت بورڈ کے قیام کے بعد آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کی طرز پر اردو کی ایک جامع لغت مرتب کرنے کا اہم کام ہونا تھا۔ اس میں تاریخی اصولوں پر اردو کے تمام الفاظ کو جمع کیا جانا تھا۔ بابائے اردو بورڈ کے پہلے چیف ایڈیٹر تھے اور ان کے سیکریٹری حقی صاحب تھے۔ انھوں نے کتابیں اور دیگر مواد جمع کرنے سے لے کر اسٹاف کی بھرتی تک تمام امور خوش اسلوبی، دل جمعی اور محنت سے سرانجام دیے۔ تاہم بعض اختلافات کی وجہ سے لغت کی تیّاری سے قبل ہی بورڈ کو خیرآباد کہہ دیا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے کم و بیش 17 سال منسلک رہے۔

    ان کی تیارکردہ کتاب فرہنگِ تلفظ اپنی مثال آپ ہے۔ تراجم اورشاعری سے لے کر صحافت تک ہر جگہ ان کی تحریروں میں اردو کی چاشنی اور الفاظ کا تنوع دکھائی دیتا ہے۔

    بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں لکھنے کے ساتھ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کے علمی مضامین الگ ہیں جب کہ کتابوں کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔

    شان الحق حقی کی کتابیں دنیا کی بیشتر اہم لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔

    بعد میں وہ وہ کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جہاں 11 اکتوبر 2005ء کو جگر کے عارضے کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

    شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع تھا۔

    تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
    ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے

  • ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اور اداکار ڈاکٹر انور سجّاد کی برسی

    اردو کے نام وَر ادیب، ڈرامہ و افسانہ نگار، نقّاد، مترجم اور صدا کار ڈاکٹر انور سجّاد 6 جون 2019ء میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ترقّی پسند ادیب تھے جن کے نظریات اور افکار ان کی تحریروں سے جھلکتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے 1989ء میں انھیں تمغہٴ حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

    انور سجاد نے 1935ء میں‌ لاہور میں‌ آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طبّی تدریس کے لیے مشہور لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں‌ داخلہ لے لیا، جہاں‌ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی، لیکن طبیعت اور رجحان فنون لطیفہ کی طرف مائل تھا، سو ان کی شہرت کا سبب علم و ادب کے مختلف شعبے رہے۔

    انور سجاد کی مشہور کتابوں میں چوراہا، جنم کا روپ، خوشیوں کا باغ، نیلی نوٹ بک شامل ہیں۔ وہ صدا کاری اور اداکاری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے تحریر بھی کیے اور خود اداکار کے طور پر اسکرین پر بھی نظر آئے۔

    ناقدین کے مطابق انور سجاد کے افسانے ہوں یا ڈرامے، ان میں استعاراتی طرزِ فکر کو انتہائی مہارت اور کام یابی سے برتا گیا ہے۔ ان کی تحریریں گہرائی اور وسعت کی حامل اور کثیرالجہت ہوتی تھیں۔

    ڈاکٹر انور سجاد کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈرامے بھی ناظرین میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے طویل دورانیے کے کھیل بھی تحریر کیے۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’’پکنک، رات کا پچھلا پہر، کوئل، صبا اور سمندر اور یہ زمیں میری ہے‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’زرد دوپہر‘‘ بھی بہت مشہور ہوئی تھی۔

    ڈاکٹر انور سجّاد نے لاہور میں‌ وفات پائی اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف افسانہ نگار، شاعرہ اور فلم ساز تبسّم فاطمہ راہیِ ملکِ عدم ہوئیں

    معروف افسانہ نگار، شاعرہ اور فلم ساز تبسّم فاطمہ راہیِ ملکِ عدم ہوئیں

    ہندوستان کی معروف شاعرہ، افسانہ نگار، نقّاد، صحافی، مترجم اور فلم ساز تبسّم فاطمہ انتقال کر گئیں۔ گزشتہ روز ان کے شوہر اور معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی مختصر علالت کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ہندوستان کے معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کی اہلیہ تبسّم فاطمہ اپنے شوہر کی اچانک موت کا صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور ان کے انتقال کے ایک روز بعد انھوں نے بھی ہمیشہ کے لیے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ وہ اپنے شوہر اور اکلوتے بیٹے کے ساتھ دہلی میں مقیم تھیں۔

    تبسّم فاطمہ نے نفسیات میں ایم اے کیا تھا۔ وہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں افسانے، کہانیاں‌ اور مضامین لکھتی رہی ہیں جو معروف ادبی رسائل اور اخبار کی زینت بنے۔ اردو میں ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں ’لیکن جزیرہ نہیں‘ ،’ستاروں کی آخری منزل‘، ’سیاہ لباس‘ کہانیوں کے مجموعے ہیں جب کہ ’میں پناہ تلاش کرتی ہوں‘، ’ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے‘، ’تمہارے خیال کی آخری دھوپ‘ ان کی شاعری کے مجموعے ہیں۔ ہندی زبان میں ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ 2018ء میں شایع ہوا تھا۔

    انھوں نے اردو سے ہندی میں بیس سے زائد کتب کا ترجمہ کیا۔ ان میں کہانیاں اور شاعری بھی شامل ہے۔

    تبسّم فاطمہ نے بھارتی ٹی وی چینلوں پر ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کی جب کہ فلم کے میدان میں انھوں نے پچاس سے زائد ادیبوں کے فن اور ان کی زندگی پر فلمیں بنائیں۔ تبسم فاطمہ کا شمار ان ادبی شخصیات میں کیا جاسکتا ہے جو فنونِ لطیفہ اور ادب کے مختلف شعبوں میں نہایت فعال و متحرک رہیں اور خاصا کام کیا۔ انھیں کئی ادبی ایوارڈوں سے نوازا گیا اور پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی اپنی تخلیقات کی وجہ سے مقبول ہیں۔