Tag: ادیب برسی

  • نجیب محفوظ: نوبیل انعام یافتہ مصری ناول نگار

    نجیب محفوظ: نوبیل انعام یافتہ مصری ناول نگار

    عرب دنیا کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ تھے جن کی تخلیقات نے انھیں متنازع بنا دیا تھا اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ نجیب محفوط 30 اگست 2006ء میں قیدِ‌ حیات سے آزاد ہوئے۔

    نجیب محفوظ 17 سال کے تھے جب انھوں نے قلم تھاما اور لکھنے کا آغاز کیا، لیکن ان کی پہلی تصنیف اُس وقت منظرِ عام پر آئی جب ان کی عمر 38 برس ہوچکی تھی۔ انھوں نے مصر میں ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ جس ناول پر انھیں نوبیل انعام دیا گیا اس کی اشاعت 30 سال قبل ہوئی تھی۔ نجیب محفوظ کا تعلق مصر تھا جنھوں نے نصری ادب کو کئی بے مثال کہانیاں دیں۔ انھیں 1988ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ وہ مشہور شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ نجیب محفوظ نے تیس سے زائد ناول اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے فلم کے لیے اسکرپٹ اور اسٹیج ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ مؤقر روزناموں‌ کے لیے مضامین اور کالم بھی لکھے۔

    نجیب محفوظ کا بچپن غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے گزرا۔ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہونے والے نجیب محفوظ روایت شکن ثابت ہوئے اور اپنے معاشرے کے اُن موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جنھوں نے قدامت پسندوں کی نظر میں‌ نجیب محفوظ کو معاشرے اور مذہب کا باغی ٹھیرایا۔ نجیب محفوظ نے جس عہد میں سانس لی، وہ مصر پر برطانیہ کے قبضے اور انقلابی تحریکوں کا عہد تھا اور اسی کے زیرِ اثر نجیب محفوظ کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

    1934 میں نجیب محفوظ نے جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکے اور لکھنے میں منہمک ہوگئے۔ وہ مذہبی امور کی وزارت میں بھی رہے اور آرٹ کی سنسر شپ کے شعبے کے ڈائریکٹر بھی۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے جب کہ ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ 80 کی دہائی میں‌ شائع ہوئی۔ یہ ان کی تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مبنی ہے۔ اس کتاب نے ان کو مقبول مصنفین کی صف میں لاکھڑا کیا اور ناقدین کی نظر میں وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی وجہ سے ممتاز ہوئے۔ اپنے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ کا حصّہ بناتے ہوئے انھوں‌ نے کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ ان کا ناول ’جبلاوی کے بیٹے‘ قسط وار شائع ہونا شروع ہوا تو مذہبی طبقہ ان کا مخالف ہوگیا۔ اس ناول کی اشاعت بمشکل ممکن بنائی گئی اور پھر اسے کتابی شکل دینا بھی آسان ثابت نہیں ہوا۔ مصر میں کوئی پبلشر اسے شائع کرنے پر تیار نہ ہوا تو نجیب محفوظ نے اسے لبنان سے شائع کروایا۔

  • ملّا واحدی: ایک صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی

    ملّا واحدی: ایک صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی

    ملّا واحدی کو اردو زبان کا صاحبِ طرز کہا جاتا ہے اور وہ ادبی صحافت میں بھی ممتاز تھے۔ کہتے ہیں کہ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملّا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

    ادب اور صحافت کی دنیا کے اس نام ور نے 22 اگست 1976ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ ملا واحدی کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 17 مئی 1888ء کو پیدا ہوئے اور دہلی شہر میں تعلیم مکمل کی۔ انھیں پڑھنے اور لکھنے کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا۔ 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مضامین مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

    ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

    واحدی صاحب کی زندگی بڑی منظم تھی۔ وہ بہت سویرے جب پو پھٹتی ہے بیدار ہوتے، نماز فجر سے فارغ ہوکر دو تین میل کی ہوا خوری کو نکل جاتے۔ پھر واپس آکر ناشتہ کرتے اور دفتر میں کام شروع کردیتے۔ وہ بہت ہی محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

    واحدی صاحب کے بارے میں ان کے ہم عصروں کی رائے اور واقعات پر مبنی مضامین بھی قابلِ مطالعہ ہیں۔ ایک ایسے ہی مضمون میں جلیل قدوائی لکھتے ہیں، ”میری ان کی سولہ برس سے زائد ہمسائیگی و ہم نشینی رہی۔ وہ خدا ترس، خداشناس، پاک دامن، پاک نہاد، نیک سرشت، نیک نفس، نرم خو، نرم گفتار تھے۔ کسی نے ان کی زبان یا قلم سے دکھ نہیں پایا۔ وہ قول کے کھرے فرشتہ صفت انسان تھے۔ جھوٹ اور ریاکاری سے انھیں چڑ تھی”۔

    رازق الخیری صاحب کے مطابق واحدی رسالوں کی ایڈیٹری ہی نہیں کرتے تھے، دفتر کی منیجری بھی کرتے تھے۔ وہ بہت سی مقبول کتابوں کے ناشر بھی تھے۔ ان میں غیر معمولی انتظامی قابلیت تھی اور یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ وہ لکھتے ہیں ”واحدی صاحب کے والد انجینئر تھے، اپنے بعد انھوں نے بہت سی جائیداد چھوڑی جو سب کی سب واحدی صاحب نے اپنے صحافتی اور ادبی ذوق کی نذر کر دی۔

    مختار مسعود جیسے انشا پرداز نے ملا واحدی کے بارے میں لکھا، ان کے تین امتیازات ہیں۔ عبارت، ادارت اور رفاقت۔ ان کی عبادت میں ستّر برس کی مشق اور مہارت شامل ہے، ادارت کا یہ حال ہے کہ ایک وقت میں اکٹھے نو رسائل کے مدیر اور مہتمم تھے، جہاں تک رفاقت کا تعلق ہے تو وہ شہروں میں دلّی کی اور انسانوں میں خواجہ حسن نظامی سے۔ واحدی صاحب کی زندگی میں کوئی تصنع نہیں ہے، جو سوچتے ہیں وہی کہتے ہیں، لکھتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔

    اردو زبان کے صاحبِ اسلوب اور بلند پایہ نثر نگار ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    کتنے ہی ادیب اور شاعر جو دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے نام بھی لوگوں کے حافظے سے محو ہوگئے۔ ان کی تصنیف کردہ درجنوں کتابیں موجود تو ہیں، لیکن کسی لائبریری کے ایک کونے میں پڑی ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم ان لوگوں کے نام اور کام سے واقف نہیں جنھوں نے کبھی ہمارے بچپن اور نوجوانی میں ہمیں معیاری اور مفید سرگرمیوں میں مشغول رکھا اور ان کی تحریریں ہماری راہ نمائی اور تربیت کرتی رہیں۔

    آج میرزا ادیب کی برسی ہے۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں جو نسل بچّوں کے رسائل باقاعدگی سے پڑھتی تھی، اس کے حافظے میں میرزا ادیب کا نام ضرور محفوظ ہوگا اور اس نام سے کئی یادیں جڑی ہوں گی۔ میرزا ادیب نے بچّوں کے لیے ہی ادب تخلیق نہیں کیا بلکہ ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری، تراجم کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین، سوانح اور سفر نامے بھی لکھے۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں شاعری بھی کی لیکن ان کی وجہِ شہرت نثری ادب ہی ہے۔

    کہتے ہیں کہ بڑا اور کام یاب آدمی صرف بڑے گھر اور کسی اونچے خاندان میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذہانت، لیاقت، محنت اور لگن اسے بڑا اور اپنے شعبے میں کام یاب بناتی ہے۔ میرزا ادیب نے بھی کسی بڑے گھر میں‌ آنکھ نہیں‌ کھولی تھی، بلکہ ان کا بچپن مشکلات اور مصائب جھیلتے ہوئے گزار۔ انھوں نے کئی محرومیاں دیکھیں، مگر اپنی محنت، لگن اور تعلیم کو سہارا بنا کر ایک کام یاب زندگی گزاری اور ملک بھر میں عزت و شہرت پائی۔

    31 جولائی 1999ء کو میرزا ادیب لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید نے اپنی کتاب یادوں کے گلاب میں اپنی ایک شرارت کا تذکرہ کرتے ہوئے میرزا ادیب کو سادہ اور معصوم انسان، اور شریف النفس آدمی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

    مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

    ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“ میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

    آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

    اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“

    میرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا۔ وہ 4 اپریل 1914 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے گریجویشن کیا، ادبی سفر کی ابتدا شاعری سے کی مگر جلد ہی نثر کی طرف مائل ہو گئے۔ ان کے بچپن اور حالاتِ زیست کے بارے میں انہی کی زبانی جانیے: ’’دلاور علی تو میرا وہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھا اور ظاہر ہے کہ والدین ہی نام رکھا کرتے ہیں۔ میرزا ادیب میرا ادبی نام ہے۔ جو میں نے اس وقت اختیار کیا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس طرح تریسٹھ برس سے میں میرزا ادیب ہی ہوں۔‘‘

    وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ ان کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے اور میرزا ادیب بتاتے ہیں کہ ایک بڑے صندوق میں ان کی کتابیں محفوظ تھیں۔ دادا کے بعد ان کے والد جو خیّاط تھے، کسی طرح‌ اس ورثہ کے اہل نہیں‌ تھے، بلکہ وہ ایک خاموش طبع، کچھ اکھڑ اور تند خُو انسان تھے اور میرزا ادیب کا بچپن بھی ان کی ڈانٹ اور مار پیٹ سہتے ہوئے گزر گیا۔ انھیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی خواہش تھی نہ فکر۔ البتہ والدہ کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں دو بھائی کچھ تعلیم پاسکے جب کہ ان کی بہنوں نے کبھی کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا۔ میرزا ادیب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’میں مغل خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، دادا جان کے ’قلمی نسخے‘ میں لکھا تھا کہ ان کا خاندان افغانستان سے لاہور آیا تھا۔ میرے دادا اپنے زمانے کے عالم فاضل شخص تھے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔‘‘

    ’’مٹی کا دیا‘‘ میرزا ادیب کی یادوں پر مشتمل کتاب ہے جس میں وہ اپنی محرومیوں کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’تایا جی اور ابا جی کو اپنے مغل ہونے پر فخر تھا۔ یہ فخر ایک ایسا اثاثہ بن گیا تھا جسے وہ محرومیوں کے لق و دق صحرا میں بھی اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔‘‘

    ’’یہ تھی میری نسل جو آگے قدم نہیں اٹھا سکی تھی۔ یہ نسل ایک جگہ رُک گئی تھی جیسے ایک غار میں اُتر گئی ہو اور باہر نکلنے کا راستہ نہ جانتی ہو۔ یہ نسل میری نسل تھی، جو صرف جینا جانتی تھی اور یہ صرف اس وجہ سے کہ جینے پر مجبور تھی۔ میں اس جمود زدہ نسل کا ایک فرد تھا جس کی پیدائش محض ایک عام واقعہ تھی۔‘‘ میرزا ادیب کا یہ احساسِ محرومی تمام عمر ان کے ساتھ رہا اور ان کی تحریروں میں بھی اس کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔

    میرزا ادیب بچپن ہی میں شاعری کرنے لگے تھے اور اس کے ساتھ ان میں مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اسکول میں چند اساتذہ ان پر مہربان رہے اور ان کی توجہ اور شفقت نے میرزا ادیب کو کتابوں کے قریب کر دیا۔ وہ ادبی جرائد خرید کر پڑھنے لگے اور اسی مطالعے نے انھیں کہانیاں‌ لکھنے پر آمادہ کیا۔ ان کی ایک نظم کسی ہفت روزہ کی زینت بھی بن گئی اور یوں وہ اپنے ساتھیوں اور اساتذہ میں شاعر مشہور ہوگئے۔ میرزا ادیب نے علّامہ اقبال کا کلام بھی خوب پڑھا تھا اور اسی کے زیرِ اثر وہ اسلامی موضوعات پر نظمیں اور مسلمانوں کی حالتِ زار پر شاعری کرنے لگے تھے جس کا شہرہ ہوا تو ایک استاد نے ان کی ملاقات اختر شیرانی جیسے بڑے اور مشہور شاعر سے کروا دی۔ بعد میں وہ کالج میں‌ پہنچے اور ادبی تنظیموں سے وابستگی کے ساتھ بڑے لوگوں سے تعلقات استوار ہوتے چلے گئے جنھوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور یوں میرزا ادیب نے قلم ہی کو اپنی روزی روٹی کا وسیلہ بنائے رکھا۔ انھیں کسی طرح ادبِ لطیف میں مدیر کی حیثیت سے نوکری مل گئی تھی اور بعد میں وہ متعدد ادبی رسائل کے مدیر رہے یا ان کی تدوین اور آزادانہ تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ یہ وہ کام تھے جن سے میرزا ادیب کو معاشی آسودگی اور ایک بہتر زندگی نصیب نہ ہوسکی، لیکن یہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔

    میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط کو بہت شہرت ملی جب کہ صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، متاعِ دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض میرزا ادیب کی وہ تصانیف ہیں‌ جو اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کی خودنوشت سوانح بھی بہت مقبول ہے۔ میرزا ادیب نے بچّوں‌ کے لیے کئی کہانیاں لکھیں اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے اور یہ کہانیاں مختلف رسائل اور روزناموں میں شایع ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1981 میں میرزا ادیب کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ رائٹرز گلڈ اور گریجویٹ فلم ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا نے بھی خود کُشی کی تھی۔ اگرچہ یہ خوش حال اور علم و ادب کا شیدائی گھرانا تھا اور ان لوگوں کا یوں موت کو گلے لگانا تعجب خیز ہی ہے جب کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔

    ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے والد کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد پر اس نے بگل بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ مشہور ہے کہ ہیمنگوے نے باپ نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ یہی ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف ایک مقبول ناول نگار اور معروف صحافی بنا بلکہ متعدد معتبر ادبی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2 جولائی 1961ء کو ارنسٹ ہیمنگوے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکا کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدا گھرانے میں‌ پیدا ہوا۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ اس ناول نگار کی ماں کا نام گریس تھا جو اپنے قصبے اور شہر بھر میں بطور گلوکارہ اور موسیقار مشہور تھیں۔ ان کا خاندان شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت اور مہم جوئی کا شوق رکھتے تھے اور جب موقع ملتا اپنے بیٹے کے ساتھ پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ وہ اکثر شکار کیا کرتے تھے اور اس دوران ہیمنگوے نے اپنے والد سے جنگل میں‌ کیمپ لگانے کے علاوہ دریا سے مچھلی پکڑنے اور زمین پر چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا سیکھا۔ یوں ہیمنگوے نے فطرت کی گود میں ہمکتی مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھا۔ اسی زمانے کے تجربات اور مشاہدات کو بعد میں اس نے اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ہیمنگوے نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں جن کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔

    اس کی تعلیم و تربیت کا دور بھی بہت خوش گوار رہا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا۔ اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کے کام آیا۔ وہ اس طرح کہ ہیمنگوے کو ایک اخبار میں بطور رپورٹر نوکری مل گئی تھی۔ یہیں‌ اس نے معیاری اور عمدہ تحریر کو سمجھنے کے ساتھ لکھنے کا آغاز بھی کیا۔ وہ ایک ایسا صحافی تھا جو فطرت اور مہم جوئی کا دلدادہ تھا اور وہ اپنی رپورٹوں اور مضامین کو دل چسپ بنانا جانتا تھا۔ ہیمنگوے کے مضامین پسند کیے گئے اور اس نے مختلف اخبارات کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ 1921ء میں اس کی شادی ہوگئی اور ہیمنگوے پیرس منتقل ہوگیا۔ اس وقت تک وہ اپنے قلم کی بدولت امریکی قارئین میں مقبول ہوچکا تھا۔ پیرس میں اسے اپنے دور کے بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی کا موقع ملا۔ اسی صحبت نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے قریبی احباب میں شامل ہوگیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے ہیمنگوے کی کہانیوں کا سلسلہ گویا دراز کردیا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگا اور بہت کم عرصہ میں پیرس میں بھی اپنے زورِ قلم سے مقبولیت حاصل کرلی۔

    1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ اس نے ناول ڈیتھ ان آفٹر نون شایع کروایا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے انگریزی ادب کو وہ شاہ کار کہانیاں دیں جن پر اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی ملا۔ اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے یہ ناول قارئین تک پہنچے ہیں۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی۔ اسی طرح شادیاں بھی متعدد کیں۔ ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ وہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی شریک ہوا۔ ہیمنگوے بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کی چند عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں اکثر وہ عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی خواہش رکھتا یا اپنی تحریر سے متعلق بہت پُرجوش ہوجاتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا۔ اکثر وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح لکھتے ہوئے خود کو یکسو پاتا ہو۔

    ہیمنگوے نے اپنی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

  • میکسم گورکی: روسی ادب کی حیاتِ تازہ کی ایک بلند مرتبہ شخصیت

    میکسم گورکی: روسی ادب کی حیاتِ تازہ کی ایک بلند مرتبہ شخصیت

    روسی ادب کی حیات تازہ میں میکسم گورکی کا نام بلند ترین مرتبہ رکھتا ہے۔ جدید انشا پردازوں میں صرف گورکی ہی ایسا ادیب ہے جو تالسٹائی کی طرح اکنافِ عالم میں مشہور ہے۔ اس کی شہرت چیخوف کی مقبولیت نہیں جو دنیا کے چند ممالک کے علمی طبقوں تک محدود ہے۔

    گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں پیدا ہو کر وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔

    میکسم گورکی کا اصلی نام الیکسی میکس مووخ پیشکوف ہے۔ اس کا باپ میکسم پیشکوف ایک معمولی دکاندار تھا جو بعد ازاں اپنی علو ہمتی اور محنت کشی سے استرا خاں میں جہاز کا ایجنٹ بن گیا۔ اس نے نزہنی نوو گورو کے ایک رنگ ساز وسیلی کیشرن کی لڑکی سے شادی کی۔ جس کے بطن سے میکسم گورکی ۱۴ مارچ ۱۸۶۹ء کو پیدا ہوا۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی باپ اپنے بچے کو استرا خاں لے گیا۔ یہاں گورکی نے ابھی اپنی زندگی کی پانچ بہاریں دیکھی تھیں کہ باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ اب گورکی کی ماں اسے پھر سے اس کے دادا کے گھر لے آئی۔

    گورکی نے اپنے بچپن کے زمانے کی داستان اپنی ایک تصنیف میں بیان کی ہے۔ اس میں اس نے اپنے جابر دادا اور رحم دل دادی کے کرداروں کی نہایت فنکاری سے تصویر کشی کی ہے، جس کے نقوش قاری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ جوں جوں کم سن گورکی بڑا ہوتا گیا، اس کے گرد و پیش کا افلاس زدہ ماحول تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔ اس کی ماں نے جیسا کہ گورکی لکھتا ہے، ’’ایک نیم عاقل شخص سے شادی کر لی۔‘‘ اس شخص کے متعلق گورکی کی کوئی اچھی رائے نہیں ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اس کی والدہ بھی اسے داغ مفارقت دے گئی اور ساتھ ہی اس کے دادا نے اسے خود کمانے کے لئے اپنے گھر سے رخصت کر دیا۔ قریباً دس سال تک نوجوان گورکی روس کی سرحدوں پر فکرِ معاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ کشمکش زیست کے اس زمانے میں اسے ذلیل سے ذلیل مشقت سے آشنا ہونا پڑا۔

    لڑکپن میں اس نے ایک کفش دوز کی شاگردی اختیار کر لی۔ یہ چھوڑ کر وہ ایک مدت تک دریائے والگا کی ایک دخانی کشتی میں کھانا کھلانے پر نوکر رہا۔ جہاں ایک بوڑھے سپاہی نے اسے چند ابتدائی کتابیں پڑھائیں اور اس طرح اس کی ادبی زندگی کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان کتابوں میں سے جو گورکی نے تختہ جہاز پر بوڑھے سپاہی سے پڑھیں، ایک کتاب ’’اڈلفو کے اسرار‘‘ تھی، ایک مدت تک اس کے زیر مطالعہ ایسی کتب رہیں جن کے اوراق عموماً کشت و خون اور شجاعانہ رومانی داستانوں سے لبریز ہوا کرتے تھے، اس مطالعہ کا اثر اس کی اوائلی تحریروں میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔

    پندرہ برس کی عمر میں گورکی نے قازان کے ایک اسکول میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر جیسا کہ وہ خود کہتا ہے، ان دنوں مفت تعلیم دینے کا رواج نہیں تھا۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا بلکہ اسے بھوکوں مرنے سے بچاؤ حاصل کرنے کے لئے ایک بسکٹوں کے کارخانے میں کام کرنا پڑا۔ یہ وہی کارخانہ ہے جس کی تصویر اس نے اپنے شاہکار افسانے ’’چھبیس مزدور اور ایک دوشیزہ‘‘ میں نہایت فن کاری سے کھینچی ہے۔ قازان میں اسے ایسے طلبہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، جنہوں نے اس کے دماغ میں انقلابی خیالات کی تخم ریزی کی۔ قازان کو خیرباد کہنے کے بعد وہ جنوب مشرق اور مشرقی روس کے میدانوں میں آوارہ پھرتا رہا۔ اس زمانہ میں اس نے ہر نوعیت کی مشقت سے اپنا پیٹ پالا۔ اکثر اوقات اسے کئی کئی روز فاقے بھی کھینچنے پڑے۔

    ۱۸۹۰ء میں وہ نزہنی میں رنگروٹ بھرتی ہونے کے لئے آیا۔ خرابی صحت کی بنا پر اسے یہ ملازمت تو نہ مل سکی مگر وہ نزہنی کے ایک وکیل مسٹر ایم اے لینن، کا بہت احترام کرتا ہے، چنانچہ اس نے اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ مسٹر ایم اے لینن کے نام سے معنون کیا ہے۔ کے یہاں منشی کی حیثیت میں نوکر ہو گیا۔ اس وکیل نے اس کی تعلیم کی طرف بہت توجہ دی۔ تھوڑے عرصہ کے بعد ہی گورکی کے ذہنی تلاطم نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ منشی گیری چھوڑ کر روس کی سرحدوں پر آوارہ پھرے۔ دراصل قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ مستقبل قریب کا ادیب اتنے عرصے تک دنیا کی نظروں سے روپوش رہے۔ خانہ بدوشی کی اس سیاحت کے زمانے میں گورکی نے اپنا قلم اٹھایا۔ ۱۸۹۲ء میں جب کہ وہ تفلس کے ایک ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا، اس کا پہلا افسانہ ’’ماکارشدرا‘‘ جو ایک نہایت دلچسپ رومانی داستان تھی، مقامی روزنامہ ’’قفقاز‘‘ میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں اس نے خود کو اپنے قلمی نام گورکی سے متعارف کرایا۔ یہ نام اب ہر فرد بشر کی زبان پر ہے۔

    کچھ عرصہ تک وہ اپنے صوبے کے اخباروں میں مضامین چھپوانے کے بعد اس قابل ہو گیا کہ اپنی تحریروں سے روپیہ پیدا کر سکے۔ مگر ’’اعلیٰ ادب‘‘ کے ایوان میں وہ اس وقت داخل ہوا، جب اس نے دوبارہ نزہنی میں اقامت اختیار کی۔ ۱۸۹۵ء میں اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ان افسانوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ فی الحقیقت روسی انشا پرداز کے لئے اس قسم کی شاندار کامیابی غیر مسبوق تھی۔ اس کتاب کے تعارف کے ساتھ ہی گورکی ایک غیر معروف جرنلسٹ سے ملک کا مشہور ترین انشا پرداز بن گیا۔
    گورکی کی شہرت ’’پہلے انقلاب‘‘ تک قابل رشک تھی۔ ملک کے تمام اخبار اس کی تصاویر اور اس کے ذکر سے بھرے ہوتے تھے۔ ہر شخص اس کے سراپا کو ایک نظر دیکھنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ بین الملّی شہرت بھی فوراً ہی نوجوان مصنف کی قدم بوسی کرنے لگی۔ جرمنی بالخصوص اس پر لٹو ہو گیا۔ ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۶ء کے درمیانی عرصہ میں گورکی کی شاہکار تمثیل ’’تاریک گہرائیاں‘‘ برلن کے ایک تھیٹر میں متواتر پانچ سو راتوں تک اسٹیج ہوتی رہی۔

    میکسم گورکی اب روس کی جمہوریت پسند دنیا کی سب سے زیادہ اہم اور مشہور شخصیت تھی۔ مالی نقطۂ نظر سے بھی اسے بہت اہمیت حاصل تھی۔ اس کی تصانیف کا پیدا کردہ روپے کا بیشتر حصہ انقلاب کی تحریک میں صرف ہوتا رہا۔ ۱۹۰۰ء میں روس کی فضا سخت مضطرب تھی۔ گرفتاریوں اور سزاؤں کی بھرمار تھی، چنانچہ گورکی گرفتار ہوا اور اسے پیٹرز برگ سے نکال کر نزہنی میں نظربند کر دیا گیا۔ پہلے انقلاب میں گورکی نے بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ جنوری ۱۹۰۵ء میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری نے اکناف عالم میں گورکی کے چاہنے والے پیدا کر دیے۔ رہائی کے بعد گورکی نے ایک روزانہ اخبار شائع کیا جس کے کالم بالشویک تحریک کے نشو و ارتقاء کے لئے مخصوص تھے۔ اس روزنامے میں گورکی نے بیسویں صدی کے تمام روسی ادباء کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے مقالوں کا ایک تانتا باندھ دیا۔ ان انشاء پردازوں میں جو اس کے نزدیک فضول تھے، تالسٹائی اور دوستو وسکی بھی شامل تھے، وہ انہیں ادنیٰ سرمایہ دار کا نام دیتا ہے۔

    میکسم گورکی پر یہ پارے سعادت حسن منٹو کی تحریر سے لیے گئے ہیں جس میں‌ مصنّف نے مختلف سیاسی اور ادبی ادوار کے ساتھ گورکی کی کہانیوں سے اقتباسات نقل کرتے ہوئے ان پر اپنی رائے دی ہے، لیکن ماں وہ ناول ہے جس نے دنیا بھر میں‌ گورکی کی عظمت اور اس کے قلم کی دھاک بٹھا دی۔ آج بھی یہ ناول دنیا بھر میں‌ پڑھا جاتا ہے اور گورکی زندہ ہے۔

    18 جون 1936ء کو روس کا مشہور انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نویس اور صحافی گورکی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس نے روس اور دنیا کے مظلوم طبقے و پسے ہوئے لوگوں میں امید کی ایک نئی لہر پیدا کی اور تاریخ میں‌ اپنا نام لکھوانے میں‌ کام یاب ہوا۔

  • فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    فرانز کافکا:‌ وہ ادیب جسے ایک دوست کی ‘وعدہ خلافی’ نے دنیا بھر میں پہچان دی

    بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ کے جن اہلِ قلم اور ادیبوں نے اپنے تخلیقی کام کی وجہ سے نام و مرتبہ پایا اور دنیا بھر میں پہچانے گئے، ان میں سے ایک فرانز کافکا بھی ہے کافکا اپنے دور کا ایک نابغہ تھا جسے ستائش کی تمنا تھی اور نہ صلے کی پروا بلکہ وہ اپنی زندگی میں گویا گوشۂ گمنامی میں رہا اور اگر اس کا ایک دوست ‘وعدہ خلافی’ نہ کرتا تو شاید دنیا کافکا کو نہ جان پاتی۔

    فرانز کافکا ایک اعلیٰ‌ پائے کا ادیب تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ بعد از مرگ اس کی تحریریں جلا دی جائیں۔ لیکن آج وہ سب تحریریں اُس کے ایک دوست کی وجہ سے عالمی ادب کا خزانہ ہیں۔ جرمنی کے معروف ادیب فرانز کافکا نے اپنے دوست میکس بروڈ کو وصیت کی تھی کہ وہ اس کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو نذرِ‌ آتش کر دے، لیکن میکس بروڈ نے کافکا اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔

    عالمی شہرت یافتہ جرمن افسانہ نگار کی کہانیاں بشمول اردو دنیا کی متعدد زباںوں میں ترجمہ کی گئیں۔ کافکا کے چند ادھورے ناول، افسانے اور اس کے تحریر کردہ خطوط بھی دنیا کے سامنے لائے گئے اور عین جوانی میں دارِ فانی سے کوچ کر جانے والے فرانز کافکا نے جیسے دوبارہ جنم لیا۔ فرانز کافکا کے ناول ’دی ٹرائل‘ اور ’دی کاسل‘ کو قارئین نے بہت سراہا اور ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس کی تماثیل جرمنی اور دنیا بھر میں مقبول ہیں۔

    تین جون 1924ء کو کافکا چالیس سال کی عمر میں چل بسا تھا۔ کافکا کی پیدائش 1883ء میں چیکوسلاواکیہ کے ایک قصبے پراگ میں ہوئی۔ وہ یہودی گھرانے کا فرد تھا۔ کافکا نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ کافکا کا خیال تھا کہ والدین اسے پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنی کئی محرومیوں اور مسائل کی وجہ سے خود کو حرماں نصیب اور بدقسمت خیال کرتا تھا۔ کافکا ذہین تھا، مگر خود اعتمادی سے محروم ہوگیا تھا۔ وہ نفیساتی طور پر حساسیت کا شکار ہوکر سب سے گریزاں رہا۔ کافکا نے شادی بھی نہیں‌ کی تھی۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کافکا نے ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔اس کے ساتھ قانون کی پریکٹس بھی شروع کردی۔ لیکن اسے ہمیشہ محرومی اور کم تر ہونے کا احساس ستاتا رہا۔ اس جرمن ادیب نے ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی مگر بچ گیا اور پھر اس کے دوست نے اس کو سنبھالا۔ بعد میں کافکا تپِ دق کی بیماری میں‌ مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوا۔

    کافکا کی ایک تمثیل ملاحظہ کیجیے جس کے مترجم مقبول ملک ہیں۔

    ایک فلسفی ہمیشہ اسی جگہ کے ارد گرد گھومتا رہتا تھا جہاں بچے کھیلتے تھے۔ وہ جب کبھی بھی یہ دیکھتا کہ کسی بچے کے پاس لٹو ہے، تو وہ جھاڑیوں کے پیچھے تاک لگا کر بیٹھ جاتا۔ جیسے ہی لٹو گھومنے لگتا، فلسفی دوڑ کر جاتا اور اسے پکڑنے کی کوشش کرتا۔

    وہ اس بات کی کوئی پروا نہ کرتا کہ بچے اسے اپنے کھلونے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ لٹو کو اپنے حصار میں لینے میں کامیاب ہو جاتا، تو جب تک لٹو گھومتا رہتا، فلسفی بھی خوش رہتا۔ لیکن پھر ایک ہی لمحے میں وہ لٹو کو زمین پر پٹخ دے مارتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اسے یقین تھا کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا علم اور شعور، مثلاً گھومتے ہوئے لٹو کا بھی، عمومی آگہی کے لیے کافی تھا۔ اسی لیے وہ خود کو بڑے مسائل پر غور و فکر میں مصروف نہیں رکھتا تھا۔ ایسا کرنا محنت اور نتائج کے حوالے سے اسے غیر سود مند لگتا۔

    اسے لگتا تھا کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے چھوٹے پن کا بھی اگر واقعی علم ہو جائے، تو سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو وہ خود کو صرف ایک گھومتے ہوئے لٹو کے ساتھ ہی مصروف رکھتا تھا۔

    یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ جب کوئی لڑکا لٹو کو گھمانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتا، تو اسے امید ہو جاتی کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب لٹو گھومتا تو اپنے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ وہ جیسے جیسے اس کا پیچھا کرتا، اس کی امید شعور میں بدلتی جاتی۔

    لیکن پھر جیسے ہی وہ لکڑی کے اس فضول سے گول ٹکڑے کو ہاتھ میں لیتا تو اس کا جی متلانے لگتا۔ تب بچوں کی وہ چیخ پکار اور احتجاج بھی، جنہیں وہ تب تک سن نہیں پاتا تھا، اچانک اس کے کانوں کے بہت اندر تک پہنچنے لگتے۔ یہی چیخ پکار اور احتجاج اس کے وہاں سے فرار کا سبب بنتے، اسی طرح گرتے پڑتے، جیسے کسی لڑکے نے گھمانے کے لیے کوئی لٹو بڑے پھوہڑ انداز میں زمین پر پھینک دیا ہو۔

  • ٹونی موریسن: ایک عظیم داستان گو

    ٹونی موریسن: ایک عظیم داستان گو

    ٹونی موریسن وہ پہلی امریکی سیاہ فام مصنّف تھیں جن کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ انھیں ایک بے مثال فکشن رائٹر ہی نہیں مشہور ہوئیں‌ بلکہ افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ قلم کار کے طور پر دنیا بھر میں‌ پہچانی گئیں۔

    2019ء میں ٹونی موریسن یہ دنیا چھوڑ چلی تھیں۔ 1931ء میں اوہائیو کے ایک قصبے میں جنم لینے والی ٹونی موریسن نے بچپن میں غربت دیکھی تھی۔ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سفید چمڑی والوں کا توہین آمیز سلوک بھی اس دور کی تلخ یاد تھی۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھیں۔ لیکن تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر عملی زندگی میں درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا۔ حساس طبع اور دردمند ٹونی موریسن نے ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کردیا تھا اور خود بھی لکھنے لگی تھیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ مستقبل میں انھیں امریکا کی عظیم ناول نگار کے طور پر یاد کیا جانے لگے گا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ٹونی موریسن کے مداح رہے ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں مصنفہ کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔ 1993ء میں ٹونی موریسن کو نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈیمی نے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ٹونی موریسن کو بصیرت کو الفاظ میں سراہا کہ ‘ٹونی موریسن اپنے ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ موریسن کے بارے میں کہا گیا کہ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں بے رحم ہیں۔’

    ان کا شمار بے مثل فکشن رائٹرز میں کیا گیا اور وہ ایسی مصنفہ کہلائیں جس نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا انھوں نے زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشار کیا اور سیاہ فاموں کو مستقبل کی نوید سنائی یہ یقین دلاتی رہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ناقدین نے کہا کہ ٹونی موریسن نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا اور زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے تخلیق کیے۔ ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ پرنسٹن و دیگر یونیورسٹیوں میں پڑھاتی بھی رہیں۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ”دی بلیوسٹ آئی” کو ایک سنگ میل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا جو ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ اس ناول نے موریسن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کار کو شاپنگ کے لیے جاتے ہوئے دکھاتیں تو اس کے بیانیے میں ہومر کی اوڈیسی کی جادوگری جاگ اٹھتی تھی۔

    ٹونی موریسن کا ایک مشہور ناول ‘محبوب‘ (Beloved) ہے جس پر وہ 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائی تھیں۔ یہ ایک ماں اور بیٹی کی درد ناک کہانی تھی جس میں ماں اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ٹونی موریسن کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں (Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں اس پر زبردست پذیرائی ملی۔

    ٹونی موریسن مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ وہ نیویارک میں مقیم تھیں۔

  • ورجینیا وولف:‌ برطانوی ناول نگار جسے دریا نے قبول کیا

    ورجینیا وولف:‌ برطانوی ناول نگار جسے دریا نے قبول کیا

    بیسویں صدی کی ممتاز ناول نگار ورجینیا وولف کا یہ تذکرہ ان کی موت کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ موت جو غیرفطری تھی یا جس کے لیے ورجینیا وولف نے 28 مارچ کا انتخاب کیا تھا۔ ناول نگار نے 1941ء میں خود کو دریا کی لہروں کے سپرد کر دیا تھا۔

    خود کشی کے بعد ورجینیا وولف کی آخری تحریر سامنے آئی جس میں وہ اپنے شوہر سے مخاطب ہو کر لکھتی ہیں، ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘

    وہ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ مشہور ہیں۔ ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینیا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینیا وولف کو دنیا میں‌ بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔

    ورجینیا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ورجینیا وولف نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینیا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ابھی انھوں‌ نے نام اور پہچان بنانے کا آغاز ہی کیا تھا کہ ان والد جو خود بھی ایک قلم کار تھے، ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ والدہ کے بعد اپنے والد کو کھو دینے والی ورجینیا وولف کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے اور بہت سی تکلیف دہ اور دل آزار باتیں انھیں برداشت کرنا پڑیں جن کا ذہن پر گہرا اثر ہوا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، اور مایوسی نے انھیں اپنی جان لینے پر آمادہ کرلیا۔ ورجینا وولف دریا میں چھلانگ لگانے سے پہلے بھی متعدد مرتبہ خود کُشی کی کوششیں کرچکی تھیں۔

    اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِ‌عام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں‌ قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔ ورجینیا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔

    ورجینیا وولف کا خود کشی سے قبل شوہر کے نام آخری پیغام بھی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس کا ایک حصّہ یہ بھی ہے۔ انھوں‌ نے لکھا تھا:

    پیارے…
    مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔

    تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔

    اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

    بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔

    میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!

    انھوں نے 1913ء میں معروف ادبی نقاد لیونارڈ وولف سے شادی کی تھی۔ ان کی تحریر سے اندازہ لگایا گیا کہ خود کشی کے روز وہ انتہائی مایوسی کا شکار تھیں اور اپنے حواس کھو بیٹھی تھیں۔ ورجینیا نے اپنی جیبوں میں پتھر بھر لیے تھے تاکہ ان کا مردہ جسم دریا کی تہ میں‌ اتر جائے۔ ان کی لاش تین ہفتوں بعد ملی۔ ورجینیا کی خواہش کے مطابق اس کے جسم کو جلا کر راکھ کردیا گیا اور یہ راکھ خانقاہ میں بکھیر دی گئی۔

  • نصراللہ خان: صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک اہم نام

    نصراللہ خان: صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک اہم نام

    نصراللہ خان کا شمار معروف فکاہیہ کالم نگاروں میں ہوتا ہے انھوں نے ڈرامے بھی تحریر کیے اور شخصی خاکے اور تذکرہ نویسی بھی خوب کی۔ نصراللہ خان اپنے منفرد اور شگفتہ اسلوب کی بنا پر اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

    بطور فکاہیہ کالم نویس نصراللہ خان کئی مشہور اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے اور ان کی نثر پر مشتمل دیگر تحاریر بھی اکثر ادبی صفحات کی زینت بنتی رہیں۔ نصر اللہ خان کا ایک وصف تحریر کی شگفتگی اور روانی تھی جس نے انھیں صاحبِ اسلوب کالم نگار بنایا۔

    نصر اللہ خان کی صحافت پر خامہ بگوش کے عنوان سے کالم لکھنے والے ادیب و محقق اور نقاد مشفق خواجہ نے کہا تھا: وہ اس زمانے کے آدمی ہیں جب صحافی سیاسی جماعتوں یا سرکاری ایجنسیوں کے زر خرید نہیں ہوتے تھے۔ ان کے پاس ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی تھی۔

    نصر اللہ خان کو اردو صحافت کا ایک بڑا نام بھی تسلیم کیا جاتا ہے جن کی تحریریں ہر طبقۂ سماج میں‌ یکساں‌ پسند کی گئیں۔ نصر اللہ خان 11 نومبر 1920ء کو جاورہ، مالوہ کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک چھوٹی مسلمان ریاست تھی۔ بعد میں نصراللہ خان امرتسر چلے گئے۔ نصراللہ خان کے آبا و اجداد غیر منقسم ہندوستان میں صوبہ سرحد کے شہر پشاور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا کی مادری زبان پشتو تھی اور پیشہ تجارت تھا۔ بعد ازاں وہ امرتسر میں آباد ہو گئے تھے۔ نصراللہ خان کے والد کا نام محمد عمر خان تھا جو تدریس سے وابستہ تھے اور ادب کا بھی شوق رکھتے تھے۔ نصراللہ خان نے باقاعدہ تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے ایم اے او (MAO) کالج امرتسر میں داخلہ لے لیا۔ پھر اجمیر سے بی اے اور بی ٹی کرنے کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ تقسیم کے بعد 1949ء سے 1953ء کے دوران ریڈیو پاکستان کراچی میں پروڈیوسر رہے، بعد ازاں روزنامہ انقلاب لاہور، روزنامہ حرّیت کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ ہوگئے اور آداب عرض کے نام سے ان کا کالم قارئین تک پہنچنے لگا جو بہت مقبول ہوا۔ 25 فروری 2002 کو نصراللہ خان وفات پاگئے تھے۔

    اردو زبان میں نصراللہ خان کی صحافت کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے زمیندار اخبار سے ہوا تھا اور انہی کے زیر سایہ ان کی فکری اور قلمی تربیت ہوئی تھی۔ پاکستان میں اپنی صحافتی زندگی کے دوران خان صاحب نے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم شخصیات کو قریب سے دیکھا اور ان سے بات چیت کا بھی موقع انھیں ملا۔ ان میں جید عالم دین، سیاست داں، فن کار، شاعر، ادیب، موسیقار الغرض‌ متنوع شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیات سے اپنے تعلقات اور ملاقاتوں کو نصر اللہ خان نے اپنے منفرد اسلوب میں رقم کیا اور شخصی خاکوں کی ایک کتاب سامنے لائے جو بہت دل چسپ ہے اور کئی اہم واقعات ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کو ایک مستند حوالہ اور معیاری تذکرہ اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے خوش قسمتی سے مختلف علاقوں کی تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھا اپنے وقت کے مشاہیر سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان کی صحبت میں وقت گزارا تھا۔ تقسیم سے قبل نصر اللہ خان بھوپال، امرتسر، اجمیر، ناگپور اور لاہور میں بھی رہ چکے تھے۔ نصر اللہ خان کی یہ تصنیف "کیا قافلہ جاتا ہے” کے عنوان سے پہلی بار 1984 میں شائع ہوئی تھی۔ مصنف کی دوسری تصانیف میں کالموں کا مجموعہ بات سے بات، ڈرامہ لائٹ ہاؤس کے محافظ، اور ان کی سوانح عمری اک شخص مجھی سا تھا، شامل ہیں۔

  • چاکیواڑہ میں وصال والے محمد خالد اختر کا تذکرہ

    چاکیواڑہ میں وصال والے محمد خالد اختر کا تذکرہ

    اردو ادب میں محمد خالد اختر کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو شہرت اور ستائش سے بے نیاز رہے مگر اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے انھوں نے باذوق قارئین ہی نہیں بلکہ مشاہیرِ ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ آج محمد خالد اختر کی برسی ہے۔

    صاحبِ اسلوب ادیب محمد خالد اختر 2 فروری 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ وہ 90 برس کے تھے۔ انھوں نے ناول، افسانہ اور سفرنامہ نگاری کے ساتھ تراجم بھی کیے اور خاص طور پر ان کی مزاح نگاری کو بہت سراہا گیا۔ ابنِ انشاء جیسے بڑے ادیب اور مزاح نگار نے خالد اختر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    عربی کے عالم اور انشاء پرداز محمد کاظم نے اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔ “

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ہر طبقۂ قاری کو متأثر کیا۔ یہ ناول ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر اور ادیب فیض احمد فیض نے محمد خالد اختر کے اس ناول کو اردو کا اہم ناول قرار دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہونے والے محمد خالد اختر کو کالج میں احمد ندیم قاسمی کا بھی ساتھ نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ انہی شخصیات اور ایسے باکمال ادیبوں کے درمیان رہتے ہوئے محمد خالد اختر نے بھی قلم سے ناتا جوڑا اور اپنے اسلوب کی بدولت سب کو متاثر کرنے میں کام یاب رہے

    23 جنوری 1920ء کو پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں پیدا ہونے والے محمد خالد اختر نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی جب کہ صادق ایجرٹن کالج سے 1938ء میں بی اے کیا۔ 1945ء انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید پڑھنے کے لیے لندن گئے 1948ء میں وطن لوٹے۔ ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے کیا اور 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور پندرہ بیس نظمیں بھی کہہ لیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    محمد خالد اختر کی پہلی مزاحیہ تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے مضامین، خاکے، افسانے، ناول اور سفرنامے نکلتے رہے جن میں بیس سو گیارہ وہ ناول تھا جو 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا اور پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں جب کہ کھویا ہوا افق ان کے افسانے کی کتاب تھی۔ کہانیوں کو انھوں نے چچا عبدالباقی کے عنوان سے کتاب میں یکجا کیا تھا۔ محمد خالد اختر کا ابنِ جُبیر کا سفر 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے اپنے زمانے کی یادگار محافل کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔